قرآن جس ثقافت کا تصور پیش کرتا ہے اس کی ابتدا انکارِ علم یا تشکیک کی جگہ اثباتِ علم سے ہوتی ہے۔ تخلیقِ آدم ؑ کے واقعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ملائک کو خصوصی علم عطا کیا ہے لیکن انسان کا علم بعض معاملات میں ملائک سے بھی زیادہ ہے۔
ایمان علمِ حقیقی یا حقیقت ِ عظمیٰ کا نام ہے۔ چنانچہ توحید کا اقرار اور شرک کا ابطال ، حی و قیوم ہونے کا علم اور العزیز الجبار، رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ، مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اور رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ تسلیم کیے بغیر کسی شخص کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ قرآن میں اسلامی ثقافت کو تین بنیادوں پر قائم کیا گیا ہے، یعنی توحید،رسالت اور آخرت۔ توحید گویا کائنات اور خالق کائنات کے بارے میں اس اعلان کا نام ہے کہ اس کائنات کا خالق و مربی اور ناظم صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ اپنی ذات اور صفات کے اعتبار سے یکتا اور اپنے اختیارات کے اعتبار سے سب سے بلند ہے۔
انسان عبدِمحض ہے۔ انسان کو عبد قرار دینے کے بعد قرآن اس عبد کو بہترین عبد بنانے اور انسانی تہذیب و ثقافت کے نشوونما کے لیے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن شخصیت کو بطور اسوہ کے پیش کرتا ہے۔ نبی معاشرے کا صالح اور اکمل ترین اور جامع الصفات فرد ہوتا ہے۔ وہ چوںکہ خود ایک معاشرتی زندگی گزارتا ہے اس لیے صرف اسی کا عمل دوسروں کے لیے رہنما بن سکتا ہے۔ اسلامی ثقافت میں فرد کا معیارِ مطلوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو قرار دیا گیا ہے۔ اس کائنات کے بارے میں تصورات کی اصلاح کرنے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہادی و رہنما قرار دینے سے اسلام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ایک صالح معاشرہ وجود میں آسکے اور انسان ایک متوازن زندگی گزار سکے۔ اسلامی ثقافت میں کشاکشِ حیات کا مقصد و منتہا اُخروی زندگی کی کامیابی کو قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ اسلامی ثقافت کم تر سے بلند اور بلندتر منزل کی طرف ارتقا کرتی ہے۔ ایک طرف تو تصورِ آخرت انبیاؑ کو جامع و بلند نصب العین فراہم کرتا ہے اور دوسری طرف یہ تصوّر ایک ایسی مشترک بنیاد فراہم کرتا ہے جس کے نتیجے میں بلاتفریق رنگ و نسل و لِسان ایک اُمت وسط عالمِ وجود میں آتی ہے جو جغرافیائی اور طبعی حدود و قیود سے ماورا تہذیبی یک جہتی کی بنیاد پر ایک عالم گیر معاشرے کے قیام کے لیے کوشاں ہوتی ہے۔
قرآن کی دی ہوئی ثقافت کی یہ تین بنیادیں (توحید، نبوت و آخرت) فرد اور معاشرے کو کمال، خوشی، فرض اور دیگر مقاصد ِ حیات کے محدود نظریات کی پستی سے نکال کر حقیقی خوشی، صداقت اور کمال کی رفعتوں سے ہم کنار کرتی ہیں۔
اسلامی ثقافت ایک ہمہ گیر ثقافت ہے یہ محض چند نفوس کی ذاتی اصلاح اور تربیت تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ اپنے تمام ماننے والوں کو رشتۂ اخوت و ایمان میں جوڑ کر صالح معاشرے کی تعمیر اور عدلِ اجتماعی کی بنیاد پر انسانی برادری کی تشکیلِ نو کرتی ہے۔ اسلامی ثقافت افراد کے درمیان فلاح اور خیر کو مشترک بنیاد قرار دیتی ہے۔ یہاں پر مسابقت ہے مگر نیکی، شرافت، تعلق باللہ، اطاعت ِ رسولؐ اور ادایگیِ حقوق میں۔ اسلامی ثقافت انسانی زندگی کے ہرگوشے اور ہرعمل کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ زندگی کے ہرعمل میں خواہ اس کا تعلق سیاست سے ہو، معیشت سے ہو، یا معاشرے سے ہو، خواہ ایک شخص کی گھریلو اور خانگی زندگی ہو یا بین الاقوامی مسائل، غرض ہرمسئلے اور ہرمعاملے میں اسلامی تہذیب رہنما اصول فراہم کرتی ہے۔ یہ اصول جس طرح فرد کی زندگی کی اصلاح کرتے ہیں بالکل اسی طرح معاشرے، ریاست اور بنی نوع انسان کی فلاح کی ضمانت بھی دیتے ہیں۔
اسلامی ثقافت خود کو ایک الٰہی تہذیب قرار دیتی ہے اور قرآن اس الٰہی تہذیب میں ماخذ ِ اوّل کی حیثیت رکھتا ہے۔قرآن کسی خاص نسل، قوم یا خطے کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ یہ تمام انسانوں کے لیے ضابطۂ حیات اور دستور کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن کی بنیاد پر جو آفاقی ثقافت عالمِ وجود میں آتی ہے وہ تمام تعصبات کو نظرانداز کرتے ہوئے بنی آدم ؑ کو اتحادِ فکر و عمل کے ذریعے ایک عظیم تر انسانی معاشرے میں تبدیل کردیتی ہے۔ دنیا کی کسی اور تہذیب یا ثقافت میں یہ آفاقیت اور ہمہ گیری نہیں پائی جاتی۔ اسلامی ثقافت بنیادی طورپر قرآنی ثقافت ہے۔ یہ معاش و معاد، حلال و حرام اور جائز و ناجائز، غرض تمام مسائل میں قرآن کو رہنما قرار دیتے ہوئے احکامِ الٰہی کے سامنے کامل سپردگی کا رویہ اختیار کرتی ہے۔ کتاب کو ماخذ مان لینے کے بعد اسلامی ثقافت اس ہستی کو جس پر یہ کتاب نازل ہوئی، مفسرِکتاب اور شارحِ کتاب کا مقام دیتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ماخذ ِ ثانی قرار دیتی ہے۔ چنانچہ قرآن کے عطا کردہ اصول اور نبیؐ کے چھوڑے ہوئے اُسوے میں دو بنیادی ماخذ ہیں جن پر اسلامی تہذیب کے قصر کی تعمیر ہوتی ہے۔
اسلامی ثقافت کی ان دو بنیادوں کے مختصر ذکر کے بعد اب ہم ثقافت کے ایک اہم پہلو، یعنی ذریعۂ اظہار کو لیتے ہیں۔ انسانی معاشرہ جن عناصر کے سہارے وجود میں آتا ہے زبان ان میں سے ایک اہم ذریعہ ہے۔ ایک لمحے کے لیے زبان کو معاشرے سے الگ کر دیجیے ۔ حُسن، رنگ و بُو، رعنائی و نیرنگی، غرض تمام جسمانی اور نفسیاتی تجربات یکایک وجود سے عدم میں چلے جائیں گی۔ قرآن کی زبان الہامی و توقیفی ہے۔ گو، قرآن کے بیش تر الفاظ لغت ِ انسانی سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اپنی بلاغت، ادبیت اور اعجاز کے اعتبار سے یہ اپنی مثا ل آپ ہیں۔ گویا خالص زبان کے نقطۂ نظر سے بھی قرآن بلند ترین ادبی خصوصیات کا حامل ہے۔
قرآن کے ہرکلمے میں زبردست اثرانگیزی ہے۔ قرآن اپنے نظریۂ ادب کی بنیاد کائنات کی ٹھوس حقیقتوں پر رکھتا ہے اور اظہار کے لیے صحت ِ فکر اور عصمت ِ خیال کو لازمی قرار دیتا ہے۔ اگر حُسن کا معیار معلوم کرنا ہو تو حضرت یوسف ؑ کے حالات دیکھیے۔ اگر ہجر کی لذتوں کا اندازہ کرنا ہے تو حضرت یعقوب علیہ السلام کی کیفیات سے گزریئے۔ اگر صبروقناعت کا مشاہدہ کرنا ہے تو حضرت ایوب علیہ السلام کی واردات کا مطالعہ کیجیے۔ اگر استقامت کا مفہوم سمجھنا ہے تو راتوں کو جاگنے والے اور کمبل میں لپٹنے والے، سرورِ دوعالمؐ کے حالات کی ورق گردانی کیجیے، غرض جہنم میں لکڑیاں ڈھونے والی ابولہب کی بیوی سے لے کر حُورانِ بہشت تک ہرمضمون اور ہرموضوع پر زبان و ادب کے مکمل ترین شاہکار قرآنِ پاک میں موجود ہیں۔ ضرورت صرف دیکھنے والی آنکھ، محسوس کرنے والے دل و دماغ، اور سننے والے کان کی ہے۔
قرآن کریم کے زیراثر وجود میں آنے والی ادبی روایت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قرآن نے عربی زبان کو زندۂ جاوید کر دیا ہے۔ اس پہلو سے دنیا کی کوئی تمدنی زبان اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ نزولِ قرآن سے آج تک اس زبان کا ادب قرآن کا رنگ لیے ہوئے ہے۔ اس کے محاورے، روزمرہ اور الفاظ کے استعمالات میں وہ بنیادی تبدیلیاں واقع نہیں ہوئی ہیں جو دنیا کی ساری زبانوں میں گردشِ زمانہ کے ساتھ ساتھ رُونما ہوتی رہتی ہیں، اور نتیجتاً ایک دَور کی زبان اور اس کا ادب دوسرے دور کے لیے اجنبی اور غیرمانوس ہوجاتاہے۔ نہ صرف یہ کہ قرآن کریم نے عربی زبان کو عالم گیریت سے نوازا بلکہ قرآن کی وجہ سے عربی زبان کے ہزاروں الفاظ دنیا کی دوسری زبانوں میں شامل ہوئے اور ثقافتی اتصال کا ذریعہ بنے۔
اسلامی ثقافت کے زیرِاثر وہ عرب شعرا جو زُلف ِ گرہ گیر، نگہ نیم باز، خنجروابرو، لب و رُخسار، اور حُسن و عشق کی حکایات کے لیے مشہور تھے، اب حمدباری تعالیٰ، منقبت ِ رسولؐ، فضائلِ اخلاق، حکایات اور سلوک و معرفت کی منازل جیسے موضوعات پر طبع آزمائی کرنے لگے۔ قرآن نے شرم و حیا، پاک بازی و عفت کے تصورات دے کر عرب شاعری کو حجاب کی چادر اُوڑھا دی۔ بلاشبہہ قرآن شعر نہیں ہے لیکن اس کا اسلوب اپنی مثال آپ ہے۔ وہ ایسی نثر ہے جس میں شعر کا بانکپن ہے۔ شعریت کا حُسن اس کی سطرسطر سے نمایاں ہے۔ اس خاص اسلوب نے صرف عربی ادب کو متاثر نہیں کیا بلکہ دنیا کی جن جن زبانوں تک قرآن کا پیغام پہنچا ہے انھوں نے اس سے اثرلیا ہے۔ الفاظ، تراکیب اور جملوں کی ترتیب بھی اس سے متاثر ہوئی ہے اور محاورے، تشبیہات، استعارے بھی، غرض ہرہرچیز کو قرآن کے اسلوب نے متاثر کیا ہے، گو عربی قرآن کی زبان ہے خود اُردو پر اس کے اثرات کی ہزاروں مثالیں دی جاسکتی ہیں، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ قرآن کی حیثیت صرف متاثر کرنے والے کی نہیں بلکہ اس پہلو سے بھی معیار کی ہے۔ اس کا اعتراف اقبال نے اس طرح کیا ہے کہ ع آہنگ میں یکتا صفتِ صورئہ رحمٰن
قرآن نے قدیم رسوم و رواج کی مناسب اصلاح کی اور صرف ان رسوم کو باقی رکھا جو اسلام کے بنیادی تصورات سے متعارض نہ تھیں۔ چنانچہ وہ تمام رواج جو انسان کی فطرت سے مناسبت نہیں رکھتے تھے یا جو اعلیٰ اخلاقی اصولوں سے ٹکراتے تھے اور صدیوں سے عربوں کی گھٹی میں پڑے ہوئے تھے، قرآنی ثقافت نے انھیں یک قلم منسوخ کر دیا، مثلاً غم کے موقعے پر بین کرنا، بال بکھیر کر چہرہ پیٹنا، ایامِ حج میں ستر کو ظاہر کرنا، جسم کو گودنا اور ایسا بنائو سنگھار کرنا جس سے زینت ظاہر ہو اور نامحرموں کے لیے کشش پیدا ہو، منع فرمایا۔ قرآن نے ایسی تمام رسوم و رواج کو تبرج جاھلیۃ سے تعبیر کیا ہے۔ اسی طرح شادی بیاہ کے موقعے پر بے جا اظہارِ شان و شوکت اور دھوم دھڑکے کو ناپسند کرتے ہوئے فرماںرواے عربؐ نے اپنی صاحب زادیوں کی شادی جس سادگی اور قناعت کے ساتھ فرمائی وہ اُمت ِ مسلمہ کے لیے ایک زندہ مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس طرح قرآن نے قومی روایت کو رطب و یابس اور منکر سے پاک کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ صحت مند روایت کو معاشرے کا ایک جزو بنایا اور اسے معروف سے تعبیر کیا، یعنی وہ چیز جو جانی پہچانی طور پر اخلاقی ہے۔ اس طرح یہ عظیم تصور دیا کہ دراصل نیکی انسان کی فطرت ہے اور انسان معاشرے کی اصل روایت ہے۔ اُن نیکیوں کو جنھیں اسلام قائم کرنا چاہتا ہے، قرآن ان کو ’معروف‘ کی اصطلاح سے تعبیر کرتا ہے اور یہ وہ بلند ترین مقام ہے جو کسی نظام میں روایات کودیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح دوسرے مقامی تعامل میں سے وہ چیزیں جو اسلام کی تعلیمات سے متصادم نہ ہوں اور اس کی روح سے مطابقت رکھتی ہوں، ان کو اسلام اپنے نظام میں ضم کرلیتا ہے اور انھیں ’عرف‘ قرار دیتا ہے۔ پھر قرآن خدا کے رسولؐ کے طریقے کو مسلمانوں کا دائمی طریقہ بناتا ہے اور یہ سنت مسلم معاشرے کی زندہ روایت بن جاتی ہے۔ ہماری تمدنی زندگی میں ان روایات کی حیثیت وہی ہے جو کشتی کے لیے لنگر کی ہوتی ہے۔ اس طرح قرآن نے ہمارے تمدن اور ہماری ثقافت کے چاروں گوشے بھی مقرر کیے اور اس کے ارتقا اور اس کی ترسیل کے لیے بہترین راستے بھی متعین کر دیے۔
قرآن جس معاشرے کاتصور پیش کرتا ہے اس کی بنیادی خصوصیت، معاشرتی عدل ہے، یعنی افراد کے حقوق کا تحفظ ، امدادباہمی و تعاون ، اخوت اور بھائی چارہ اور ضروریات و حاجات کی فراہمی۔ قرآن معاشرتی زندگی کی بنیاد حُرمت اور عصمت کے تصورات پر رکھتا ہے اور متعین طور پر حرام رشتوں کی نشان دہی کردیتا ہے۔ قرآن کے قائم کردہ نظامِ عصمت و عفت میں تمسخر، تہمت، عیب جوئی، بدگمانی ،بدنامی اور غیبت کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیے گئے۔
گھریلو زندگی کو ہرقسم کے شک و شبہہ اور مناقشات و اختلافات سے پاک رکھنے کے لیے اتنی احتیاط برتی گئی کہ گھروں میں داخلے کے وقت اجازت کو ضروری قرار دیا۔ افراد کے تشخص کوبرقرار رکھنے کے لیے انھیں مختلف قبائل و شعوب میں بانٹا لیکن جہاں تک انسانی حقوق و فرائض کا تعلق ہے اس میں کوئی تفریق نہیں برتی۔ حتیٰ کہ غلاموں کو جو دنیا کی کسی بھی تہذیب میں عام انسانوں کے برابر نہیں سمجھے گئے، اسلامی ثقافت میں انھیں بھی یکساں بنیادی حقوق فراہم کیے گئے اور غلام سازی کو روکنے کے لیے اخلاقی اور قانونی ضوابط کو متعارف کروایا گیا۔ قرآن کے اس بنیادی نقطۂ نظر کا یہ اثر ہے کہ اس میدان میں بھی ہمارے ثقافتی مظاہر دوسروں سے بہت مختلف ہیں۔ فحش کلامی اورگالم گلوچ کے لیے یہاں کوئی گنجایش نہیں۔ غصہ اور اختلاف کے اظہار کے لیے یہاں اتقوا اللہ اور یھدیکم اللہ کے کلمات استعمال ہوتے ہیں۔
امام غزالیؒ لکھتے ہیں کہ اگر اہلِ مدینہ کو کسی کو گالی دینی ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ تجھے جمعہ کا غسل نصیب نہ ہو، یعنی ایک نیکی تجھ سے چھوٹ جائے۔ ایسی نیکی جو فرض کے درجے کی نہیں ہے۔ اہلِ عرب آج تک دوسرے کو اپنی طرف متوجہ کرانے کے لیے یا اس کی بات کاٹتے وقت تعال اللہ عمرک (اللہ تیری عمر میں اضافہ کرے) کہتے ہیں۔ قرآن نے کہا کہ والدین کو اُف تک نہ کہو، اور توجہ دلائی کہ تم ان کا احسان نہیں اُتار سکتے۔ ان عالم گیر اور آفاقی و اخلاقی اصولوں کی روشنی میں خاندانی اور اجتماعی آداب کا ایک مکمل نظام تیار کیا۔ معاشرتی زندگی کے یہ تمام ثقافتی مظاہر قرآن ہی کا عطیہ ہیں۔
بھوک کا رفع کرنا انسان کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ قرآن انسانوں کو صرف روحانی غذا ہی فراہم نہیں کرتا بلکہ انھیں خوردونوش کے طریقے بھی سکھاتا ہے۔ قرآن نے غذا کو حلال و حرام کی دوبڑی قسموں میں تقسیم کیا ہے اور دیگر معاملات کی طرح یہاں بھی ان اشیا کی نشان دہی کردی ہے، جو انسان کے لیے مضرت رساں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک عمومی اصول یہ بھی بیان کر دیا ہے کہ جن اشیا پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اور جو ممنوعات میں سے نہ ہوں ان کا استعمال جائز ہے۔ قرآن نے حلال و حرام کے دائرۂ کار کو وسعت دے کر زندگی کے تمام معاملات کو، خواہ وہ انتہائی ذاتی ہوں یا معاشرتی، معاشی ، سیاسی یا ثقافتی، ان دو الفاظ کے ذریعے اچھائی اور بُرائی میں تقسیم کردیا۔ چنانچہ حلال و حرام کا اطلاق محض خوردونوش پر نہیں بلکہ زبان سے کیا لفظ ادا کرنا ہے، کان سے کون سی بات سننی ہے، ہاتھ کس جانب بڑھنا ہے، پائوں کو کس طرف حرکت کرنی ہے، معاملات کس طرح طے کرنے ہیں، غرض حلال و حرام کی بنیاد پر ایک اخلاقی تہذیب کا وجود صرف اور صرف قرآنِ کریم کا کارنامہ ہے۔
قرآن نے قبل از اسلام کے طورطریقوں ، جن میں بعض غذائوں کا صرف مردوں کے لیے مخصوص ہونا یا بعض حلال غذائوں کو اپنے اُوپر حرام قرار دے لینے سے منع فرمایا اور اس طرح انسانوں کو کفرانِ نعمت سے روکا۔ غذا کی طرح لباس بھی ایک اہم انسانی ضرورت ہے۔ قبل از اسلام کی ثقافت میں تن کی عریانی ہی لباس بن چکی تھی، حتیٰ کہ حرمِ کعبہ میں برہنہ طواف کرنا ایک عام عادت بن چکی تھی۔ قرآن نے لباس کے سلسلے میں اصول بیان فرمایا کہ وہ ساتر ہو، پاک صاف ہو، سادہ ہو اور دوسری اقوام سے مختلف ہو۔ چنانچہ دورِ نبویؐ کے معاشرے پر نظر ڈالیے تو یہی اصول کارفرما نظر آتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی سادہ بالعموم سفید لباس پسند فرماتے تھے۔ آپؐ نے مردوں کے لیے ایسے لباس کو پسند کیا جو مشقت و محنت میں حارج نہ ہو اور جس سے تکبر پیدا نہ ہو۔ چنانچہ ریشمی اور قیمتی لباس پہننے کو ناپسند فرمایا۔ بلاشبہہ لباس کے تعین میں آب و ہوا اور مقامی اثرات کا خاصا دخل ہے لیکن قرآن کے تصورات نے دنیا کے تمام ملکوں میں مسلمانوں کے لباس کا ایک خاص رنگ قائم کر دیا۔ اس میں سادگی، طہارت، نظامِ عبادات سے ان کی مناسبت کے ساتھ حُسنِ ذوق اور سلیقہ کو بھی ایک خاص مقام حاصل ہے۔
خاص مواقع پر پہننے والے لباس پر قرآن کی موزوں آیات کی کتابت بھی مسلمانوں ہی کی ایجاد ہے۔اس کا رواج اتنا بڑھا کہ غیرمسلم پادری تک خاص مواقع پر وہ کپڑے استعمال کرنے لگے جن پر عربی الفاظ لکھے ہوئے ہوتے تھے۔ مشہور مؤرخ رابرٹ بریفارلٹ اپنی کتاب تشکیلِ انسانیت میں اس کا ذکر کرتا ہے۔ آج بھی اشبیلہ کے میوزیم میں ایسی کپڑے پر کاڑھی ہوئی منقش تصاویر (Tapesteries ) موجودہیں جن میں عیسائی پادری وہ چوغے پہنے ہوئے ہیں جن پر قرآنی الفاظ، مثلاً لاغالب الا اللہ تحریر ہیں۔ شاید اسی کیفیت کو اُردو محاورے میں ’جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے‘ کہا گیا ہے۔
مفسّرین کا خیال ہے کہ قرآن میں جملہ علوم و فنون کے لیے بنیادیں موجود ہیں۔ چنانچہ قرآن نے جابجا غوروفکر کرنے اور تحقیق و جستجو اور تلاش کرنے کی تعلیم دی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو محض قرآن کی بنا پر بہت سے فنون وجود میں آئے، مثلاً فنِ قرأت، فنِ تجوید، فنِ کتابت، فنِ کاغذ سازی اور دیگر قسم کے ورق، طغرانویسی، آرایشی و ہندسی خطوط، اُبھارواں و کندہ خطوط، فنِ جلدسازی وغیرہ۔
قرآن کی حفاظت کا وعدہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا لیکن مسلمانوں نے مزید احتیاط کے پیش نظر قرآنِ پاک کے الفاظ و معانی کے تحفظ کے لیے فنِ تجوید و قرأت کو فروغ دیا، تاکہ مختلف اقوام کے اختلاط سے (جن کے لہجے ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے) قرآن کے الفاظ متاثر نہ ہوں۔ گو، اسلام نے موسیقی کو پسند نہیں کیا لیکن حُسنِ صوت کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ مسلمانوں نے خوش الحانی کے ساتھ قرآن کو پڑھنے کے ذریعے ذوقِ نغمہ کی تسکین بھی کی اور روح کے تغذیہ کا سامان بھی بہم پہنچایا۔
قرآن نے بت پرستی، لہوولعب اور ہرقسم کے شرک کی نفی کی تھی۔ اس لیے اس کے ماننے والوں کے فنون میں قرآن کی ان ہدایات کا عکس نظر آتا ہے۔ تصویر کشی عرب جاہلیہ میں بالکل عام تھی لیکن اسلامی ثقافت میں انسانی شبیہہ اور ذی حیات اجسام کی تصویرکشی کی جگہ ہندسی نمونے، خط صغریٰ اور قرآنی آیات کے انتہائی خوش نظر نمونے بنائے جانے لگے۔ اوّل اوّل قرآنی آیات پتھروں پر کندہ کی گئیں لیکن دورِ عباسی میں فنِ تعمیر میں وسعتوں کے ساتھ عمارتوں پر ہونے والے پلستر پر، جب کہ وہ تازہ اور نرم ہوتا، سانچوں اور فرموں کی مدد سے آیاتِ قرآنی کے ابھارواں نقوش بنائے جانے لگے۔ نہ صرف یہ بلکہ ایسے قیمتی کپڑے تیار کیے جاتے جن میں سونے کے تاروں سے قرآنی آیات کاڑھی جاتیں اور ان کو رواجِ عام حاصل ہوا۔ بالعموم مساجد کے دروازوں، محرابوں، چھت کے گرد، منبر وں اور چمڑے کے دبیز پردوں پر انتہائی خوب صورت خط میں قرآنی آیات لکھی جاتیں اور نئے نئے نمونے اور شکلیں بنائی جاتیں۔
قرآن کو تحریری شکل میں زیادہ مدت تک محفوظ رکھنے کے لیے قسم قسم کے کاغذ اور دیگر سامانِ کتابت کی ایجاد ہوئی۔ چنانچہ کاغذ کے علاوہ جس کی عمر بہت محدود تھی، اریم، یعنی باریک کھال کی جھلّی، سفید رنگ کے پتھر کی پتلی پتلی اور چوڑی تختیاں (ہمارے ہاں کی سلیٹ سے مشابہ)، کتف، یعنی اُونٹ کے مونڈھے کے پاس سے تراشی ہوئی گول اور پتلی پتلی تختیاں، کھجور کی شاخوں کے چوڑے حصے سے نکالے ہوئے ورق ،بعض نرم لکڑیوں کی تختیاں جن پر تحریر کندہ ہوجاتی اور جنھیں قتب کہا جاتا، ایجاد کی گئیں۔ ان فنون کی ترقی میں سب سے زیادہ دخل قرآنِ پاک کو محفوظ کرنے کی سعی کا تھا۔ اسی طرح روشنائی سازی کا فن بہت ترقی کرگیا۔
اسلامی ثقافت محض چند مفروضوں اور چند تصورات سے عبارت نہیں ہے بلکہ یہ انسانی زندگی کے ہر گوشے اور ہرعمل کے بارے میں واضح اور حقیقی رہنمائی اور ہدایت فراہم کرتی ہے۔ یہ قول و عمل میں تطبیق پیدا کر کے انسان کے علم، عقیدہ، قانون، رسوم و رواج، معاشرت، معیشت، سیاست اور فنون، غرض ان تمام اعمال کو جو انسان معاشرے کے ایک فرد کی حیثیت سے انجام دیتا ہے، آفاقی توحیدی ثقافت و تہذیب کے اخلاقی اصولوں کی روشنی میں ایک نئی شکل دیتا ہے اور انسانی معاشرے کو عدلِ اجتماعی کی بنیاد پر قائم کرتا ہے۔ اس معاشرے میں فرد کی ذاتی تربیت اور شخصیت کے ارتقا کے لیے فطری اور مناسب ماحول کی موجودگی اور ارادہ و عمل کی آزادی ایک متوازن اور صحت مند زندگی گزارنے کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔
اسلامی ثقافت قرآن اور سنت نبویؐ کی بنیادوں پر وجود میں آتی ہے اور اپنی ہمہ گیری کے سبب ہر زمانے اور دور کی ضروریات و مطالبات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ عربوں کے قبل اسلام کے رسوم و رواج کا نام نہیں ہے کیوں کہ اسلام کے آنے کا مقصد عربوں کو اسلام کے ضابطے میں لانا تھا، دنیا کے انسانوں کو عربیت کا رنگ دینا نہیں تھا۔ قرآن کریم کے احسانات میں سے ایک عظیم احسان اپنے معانی کے بیان کے لیے عربی زبان کو منتخب کرنا ہے۔ اگر قرآن عربی زبان پر یہ احسان نہ کرتا تو عربی بھی عبرانی اور دیگر زبانوں کی طرح سے ایک مدفون زبان بن جاتی۔ قرآنی ثقافت زمان و مکان کی قید اور مشرق و مغرب کے رسوم و رواج سے آزاد ایک ایسے زاویۂ نظر اور طرزِ حیات کا نام ہے، جس نے انسانوں کو جو اپنی تعریف ’ حیوانِ ناطق‘ یا ’معاشرتی حیوان‘ کے کرتے تھے، ایک ’اخلاقی مخلوق‘ میں تبدیل کر دیا جس کا ہرہر عمل عقل و دانش اور وحی الٰہی کے تابع ہونے کی بنا پر مقبول و محمود قرار پایا۔