ریاست کا اسلامی تصور اُس اصطلاح کے اندر چھپا ہوا ہے، جو اسلام نے ریاست کی تعبیر کے لیے اختیار کی ہے۔ اسلامی لٹریچر پر نگاہ رکھنے والا ہرشخص جانتا ہے کہ اسلام نے اپنے اصولوں پر قائم شدہ سیاسی تنظیم کے لیے ’ریاست‘ یا’سلطنت‘ یا ’حکومت‘ کی اصطلاحیں نہیں اختیار کی ہیں بلکہ ’خلافت‘ یا ’امامت‘ یا ’امارت‘ کی اصطلاحیں اختیار کی ہیں۔ اس وجہ سے ریاست کا اسلامی تصوّر واضح کرنے کے لیے سب سے پہلے اِن اصطلاحات پر غور کرنا اور اِن کے مضمرات کو سمجھنا ضروری ہے۔
’خلافت‘ اور ’امامت و امارت‘ کی اصطلاحیں ہماری فقہ کی کتابوں میں عموماً بالکل مترادف المعنی اصطلاحات کی حیثیت سے استعمال ہوگئی ہیں، جس کے سبب سے بعض اوقات کچھ خلطِ مبحث سا ہوجاتا ہے، لیکن اگر قرآن و حدیث کی روشنی میں ان کے مفہوم متعین کرنے کی کوشش کی جائے، تو یہ حقیقت بالکل واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ ان اصطلاحات کے مفہوم الگ الگ ہیں۔ ’خلافت‘ کی اصطلاح اسلامی اصولوں پر ایک قائم شدہ ریاست کے لیے استعمال ہوئی ہے، اور ’امامت‘ یا ’امارت‘ سے مراد وہ گورنمنٹ ہوتی ہے، جو خلافت کے ارادوں کی تنفیذ کرتی اور اس کے منصوبوں کو عملی جامہ پہناتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کو یوں سمجھیے کہ جو فرق State اور Government کے درمیان ہے، اسی قسم کا فرق ’خلافت‘ اور ’امامت و امارت‘ کے درمیان ہے۔
اس تمہید سے یہ بات واضح ہوئی کہ: ’’ریاست کا اسلامی تصوّر سمجھنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے یہ حقیقت ملحوظ رکھنی ہے کہ اسلام میں ریاست محض ایک ریاست نہیں ہے بلکہ وہ خلافت ہے‘‘۔ پھر ساتھ ہی یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی ہوگی کہ کسی چیز کا صحیح تصوّر اس کی معیاری شکل ہی سے اخذ کیا جاسکتا ہے۔ اس وجہ سے یہاں ’خلافت‘ کی بھی صرف وہی شکل زیربحث ہے جو معیاری ہے۔ اس کی بگڑی ہوئی شکلیں، جن کی مثالیں تاریخ میں موجود ہیں، اس بحث میں ہمارے لیے کارآمد نہیں ہوسکتیں۔
قرآن میں اس خلافت کی ابتدا اس طرح بیان کی گئی ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو پیدا کرنا چاہا تو سب سے پہلے فرشتوں کے سامنے اپنے اس ارادے کا اظہار فرمایا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں۔ فرشتوں کے علم میں چوں کہ اللہ تعالیٰ کی پوری اسکیم نہیں تھی، اس وجہ سے ان کے حلقے میں یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر اس نئی مخلو ق کے پیدا کرنے سے مقصود اللہ تعالیٰ کا محض یہ ہوتا کہ یہ اس کی تسبیح و تقدیس کرے تو اس کو پیدا کرنے کی ضرورت نہیں تھی ،کیوں کہ اس کام کے لیے تو ہم پہلے سے موجود ہی ہیں۔ لازماً یہ مخلوق خدا کے نائب کی حیثیت سے اس زمین کا انتظام و انصرام سنبھالے گی، اور اس کے خلیفہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کو اللہ کی طرف سے کچھ اختیارات بھی تفویض ہوں گے۔ پھر یہاں سے ان کو یہ اندیشہ بھی ہوا کہ اگر اس مخلوق کو اختیار بھی ملا تو یہ زمین میں عدل و انصاف کے بجاے خون ریزی اور فساد برپا کرنے والی مخلوق بن جائے گی۔ اپنا یہ اندیشہ فرشتوں نے ایک سوال کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیا۔
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو جواب دیا کہ: یہ شبہہ تمھیں صرف اس وجہ سے لاحق ہوا ہے کہ تمھاری نظر میری پوری اسکیم پر نہیں ہے۔ چنانچہ ان کو آدم کی ذُریت کا مشاہدہ کرایا گیا اور پھر ان سے سوال کیا گیا کہ اگر آدم ؑ اور ان کی اولاد کے بارے میں تمھارا یہ گمان صحیح ہے تو بتائو، یہ کون لوگ ہیں؟ یہ سب کے سب زمین میں فساد ہی برپا کرنے والے ہیں یا ان میں نیکی اور انصاف پھیلانے والے بھی ہیں؟ فرشتوں نے نہایت ادب کے ساتھ یہ اقرار کیا کہ انھیں اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو (جو پہلے سے اپنی ذُریت کے ناموں سے واقف ہوچکے تھے) حکم دیا کہ وہ اپنی ذُریت کے نام ان فرشتوں کو بتائیں۔ حضرت آدم ؑ نے فرشتوں کو اپنی ذُریت کے ناموں سے آگاہ کیا اور ان کی نسل میں جو انبیاو رُسل اور جو مجددین و مصلحین پیدا ہونے والے تھے، ان کا تعارف کرایا۔ اس سے فرشتوں پر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ آدم ؑ اور اولادِ آدم ؑ کو جو خلافت عطا ہورہی ہے، اگرچہ وہ اختیار و ارادے کی آزادی کے ساتھ عطا ہورہی ہے، جس سے خرابی کے بھی اندیشے ہیں لیکن ساتھ ہی اس اختیار و ارادے کی حدبندی اور انسان کی اصلاح و تربیت کے لیے اللہ تعالیٰ اپنی کتاب و شریعت بھی نازل فرمائے گا اور اپنے نبی اور رسول بھی بھیجے گا۔ اس انکشاف سے فرشتوں پر اللہ تعالیٰ کی اسکیم واضح ہوگئی اور وہ مطمئن ہوگئے۔
اور ہم نے تم سے پہلے قوموں کو ہلاک کیا، جب کہ انھوں نے ظلم کیا اور ان کے پاس ان کے رسول کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے، لیکن وہ ایمان لانے والے نہ بنے۔ ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں ہم مجرموں کو۔ پھر ہم نے ان کے بعد زمین میں تم کو خلیفہ بنایا، تاکہ دیکھیں کہ تم کیسا عمل کرتے ہو۔(یونس ۱۰: ۱۳-۱۴)
یہ ’خلافت بالقوہ‘ اگرچہ سارے ہی انسانوں کو حاصل ہے، لیکن بالاستحقاق یہ صرف ان کو حاصل ہے جو اس کا حق ادا کریں۔ چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں اپنا خلیفہ قرار دیا ہے، اس لیے کہ ان کی حکومت اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق تھی:
اے دائود ؑ! ہم نے تم کو زمین میں اپنا خلیفہ بنایا تو تم لوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔(صٓ ۳۸: ۲۶)
اس خلافت کے حقیقی اہل درحقیقت انبیا علیہم السلام ہیں یا پھر وہ لوگ ہیں جو انبیا علیہم السلام کے طریقے پر اس کی ذمہ داریاں ادا کریں۔ جو لوگ اللہ کی بندگی اور اطاعت کے لیے منظم ہوجاتے ہیں ،اللہ تعالیٰ ان کو اس خلافت کا خلعت عطا فرماتا ہے۔ چنانچہ قرآن میں فرمایا ہے:
تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے بھلے کام کیے، اللہ کا ان سے وعدہ ہے کہ وہ ان کو زمین میں اسی طرح خلافت دے گا، جس طرح اس نے ان کے اگلوں کو دی اور ان کے لیے ان کے اس دین کا بول بالا کرے گا، جس کو ان کے لیے پسند فرمایا۔ اور ان کی خوف کی حالت کو امن سے بدل دے گا۔ وہ میری ہی بندگی کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہیں ٹھیرائیں گے۔(النور۲۴: ۵۵)
یہی خلافت کی معیاری شکل ہے۔ جب تک یہ اپنی ان خصوصیات پر باقی رہے، یہ زمین کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ یہ خصوصیات اگر کم ہونی شروع ہوجائیں تو یہ اس کے بگاڑ کی صورتیں ہوں گی اور اس بگاڑ کے مختلف درجے ہیں۔ ایک خاص درجے تک یہ بگاڑ اس کو خلافت کے دائرے سے خارج نہیں کرتا لیکن اگر یہ بگاڑ اس کی بنیادی خصوصیات کو ختم کر دے، تو پھر یہ خلافت نہیں باقی رہ جاتی بلکہ بغاوت اور فساد فی الارض بن جاتی ہے۔
اس تفصیل کے بعد یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں رہا کہ ایک ’عام ریاست‘ اور ایک ’اسلامی ریاست‘ (بالفاظِ دیگر ’خلافت‘) میں کس اعتبار سے اشتراک اور کن پہلوئوں سے اختلاف ہے۔ ارسطو نے انسان کی یہ جو تعریف کی ہے کہ وہ حیوانِ ناطق ہے۔ یہ تعریف جس طرح ایک کافر پر صادق آتی ہے، اسی طرح ایک مومن پر بھی صادق آتی ہے۔ کیوں کہ اپنے مادی اور جبلی دائروں میں دونوں ایک ہی طرح کی ضروریات اور ایک ہی قسم کے داعیات رکھتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہرشخص جانتا ہے کہ دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ ایک کافر کے اصولِ زندگی اور ہیں اور ایک مسلم کے اصولِ زندگی اور ہیں۔ اسی طرح ایک ’عام ریاست‘ اور ایک ’اسلامی ریاست‘ میں بھی جہاں تک ان کے ظاہری ڈھانچے اور ان کے مادی اجزاے ترکیبی کا تعلق ہے کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ ایک ’عام ریاست‘ جس طرح اپنے وجود پذیر ہونے کے لیے اس امر کی محتاج ہے کہ اس کو ایک انسانی معاشرہ حاصل ہو، اس کے قبضے میں ایک مخصوص علاقہ ہو، وہ داخلی طور پر بااقتدار اور بیرونی حیثیت سے خودمختار ہو۔ اس کے پاس ایک سیاسی ادارہ (گورنمنٹ)ہو، جو اس کے ارادوں کی تنفیذ اور اس کے مقاصد کی تکمیل کرسکے۔ اسی طرح ’اسلامی ریاست‘ یا ’خلافت‘ بھی اپنے وجود پذیر ہونے کے لیے ان ساری چیزوں کی محتاج ہے۔ اس پہلو سے غور کیجیے تو دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہوا، لیکن جہاں تک دونوں کے اصول اور مقاصد کا تعلق ہے ، ان دونوں میں آسمان و زمین کا فرق ہے۔