پاکستان کی ۷۰ سالہ تاریخ پہ نظر ڈالیں تو ترقی کی راہ میں جو رکاوٹیں نظر آتی ہیں، ان میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہمارے معاشرے کا افراط وتفریط کا شکار ہونابھی ہے۔ جب تک ہم ایک ذمہ دار قوم کی طرح بغیرکسی دباؤکے اپنی ضروریا ت اور حقیقی ترجیحات کے مطابق فیصلے اور طرزِعمل نہیں اختیار کریں گے، اس وقت تک ترقی کا سفر طے کرنا مشکل ہے۔ اس کی ایک مثال ہمارے معاشرے میں عورت(جو کسی بھی معاشرے کاکلیدی کردارہے)کے متعلق مختلف اور حددرجہ متحارب و متضاد تصورات ہیں۔ تاہم، گذشتہ دو عشروں سے اس رجحان میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ اگرچہ دیہات میں اب تک صورتِ حال کافی گھمبیر ہے، لیکن شہروں میں تعلیم کے باعث اور کچھ گلوبل ایجنڈے پہ عمل درآمدکے دباؤ کی وجہ سے تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ اب پہلے کی نسبت عورت کو نہ صرف جلدانصاف ملنے لگا ہے اور اس کے حقوق کا شعور بھی بیدار ہونے لگا ہے، نیز اس کے مسائل کو اہمیت ملنے لگی ہے، بلکہ وہاں تعلیم اور روزگار کے مواقع میں بھی کشادگی پید ا ہوئی ہے۔
الحمدللہ، یہ سب کچھ بہت خوش آیند ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اس بات کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا معاشرہ عورت کو ایک استحصال سے نکال کر دوسرے استحصال کی طرف دھکیل دے۔مستقبل کے منظر نامے پر نظر ڈال کرسوچنا چاہیے کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور ہم کیا کریں کہ عدم توازن کا شکار ہوئے بغیر توازن اور ترقی کا سفر بہ آسانی طے ہوسکے اور اس کے لیے ہم خودبھی بحیثیت فرد یا گروہ اپنافعال کرداراداکرسکیں۔ ریا ستی سطح پراب الحمد للہ، اعلیٰ تعلیم کے میدان میں طلبہ و طالبات کو یکسا ں موا قع حاصل ہیں۔ اس وقت ملک میں بشمو ل کشمیر اور گلگت اعلیٰ تعلیم کے لیے ۱۸۷ سرکاری اور غیرسرکاری یونی ورسٹیاں کا م کر رہی ہیں، جب کہ خوا تین کی ۱۰علیحدہ یو نی و ر سٹیوں کے با عث ان کو مزیدبھی موا قع حاصل ہیں۔
پاکستان میں عمومی سطح پر اب یہ تصور پرانی بات لگتا ہے کہ ’لڑکیو ں کو پڑھ لکھ کر کیا کرناہے؟‘ اب یہ سمجھا جاتا ہے: معاشرے کو اعلیٰ تعلیم یا فتہ خوا تین کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے، جتنی اعلیٰ تعلیم یافتہ مردوں کی۔ اعلیٰ تعلیم فرد کے علم و ہنر اور کا م کر نے کی استعداد میں اضا فہ کر تی ہے۔ خواتین خواہ وہ گھر کی ذمہ داریا ں سنبھا لیں،بچو ں کی نگہداشت کر یں، یا گھر سے باہر ملازمت وغیرہ، ہر جگہ تعلیم ان کو آگے بڑھاتی ہے۔ نہ صرف گھر یا تعلیم اور طب جیسے میدا نو ں میں خواتین کی ضرورت ہے بلکہ صحافت، قانون، نفسیا ت، حتیٰ کہ بعض صورتوں میں سکیورٹی، ریسرچ،سائنس، سوشل سا ئنس جیسے شعبو ں میں خوا تین کی مو جو د گی کی ضرورت ہے۔
چند لمحے کے لیے اسے ایک حو صلہ افز ا پہلو سمجھ بھی لیا جائے تو اس کے سا تھ ساتھ ایک گھمبیر مسئلہ بھی سر اٹھا رہا ہے، جومستقبل کے منظرنامے کی خوف نا ک تصویر کشی کرتا ہے۔وہ یہ کہ ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات کا تنا سب عدم توا زن کا شکا ر ہے۔
ہما رے ہا ں لڑکیو ں میں محنت سے آگے بڑ ھنے کا جذبہ نسبتاً زیا دہ دکھائی دیتا ہے،جب کہ مردوں کے آگے بڑھنے کے راستے میں اگرچہ کو ئی طبعی رکا وٹ مو جو د نہیں ہے، مگر اس کے باوجود اعلیٰ تعلیم میں ان کا گرا ف تیزی سے نیچے گررہا ہے۔ اس چیز کا اندا زہ امتحا نی نتا ئج اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کے دا خلو ں میں لڑکوں کے پیچھے رہ جانے سے ہو تا ہے ۔
اعلیٰ تعلیم میں مردوں اور عورتوں کا تناسب دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ زیا دہ تر یو نی ورسٹیوں میں لڑکیو ں کی تعداد ۷۰فی صد سے زیادہ ہے اور میڈیکل یونی ورسٹیوں اور کالجوں میں اس سے بھی زیادہ، جب کہ خوا تین یونی ورسٹیوں میں پڑ ھنے والی طالبا ت کی تعداد اس کے علا وہ ہے۔ اعلیٰ تعلیم میں مردوں اور عورتوں کے تناسب کا اندا زہ درج ذیل شوا ہدسے بخو بی کیا جا سکتا ہے:
۲۰۱۳ء اور۲۰۱۴ء میں کرا چی یو نی ورسٹی میں لڑ کیو ں کی تعداد۷۳ فی صد، جب کہ لڑکوں کاتناسب ۲۷ فی صد تھا۔ اسی طرح این ای ڈی انجینیرنگ یو نی ورسٹی میں ۵۰، ۵۰ فی صد کا تناسب تھا (یاد رہے ۱۹۷۰ء اور ۱۹۸۰ء کے عشروں میں یہاں پر طالبات کا تناسب ۴ اور ۸فی صد تھا)۔ پنجا ب یو نی ورسٹی کے زیا دہ تر شعبو ں میں نما یا ں طو ر پر طا لبا ت کی بر تری دو تہا ئی سے زیا دہ آرہی ہے۔ ۲۰۱۷ء کے اعداد و شمار کے مطابق قائداعظم یونی ورسٹی میں، ایم ایس سی کورسز میں طالبات کی تعداد ۱۷۳۵ ، جب کہ طلبہ ۱۴۷۴ تھی۔ ایم فل میں بھی طالبات کی تعداد غیرمعمولی طور پر زیادہ رہی۔
پاکستان میڈیکل اینڈڈینٹل کونسل کے مطابق مجموعی طور پر میڈیکل کی تعلیم میں خواتین کا تناسب ۸۰فی صد، جب کہ مردوں کا ۲۰فی صد ہے۔دوسری جانب جرنل آف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق میڈیکل کی تعلیم میں طالبات کا تناسب ۷۰فی صد ہے اور ہرسال طالبات کے تناسب میں اضافہ ہی ہورہاہے، کمی نہیں۔
مستقبل کا نقشہ کچھ یوں نظر آرہا ہے کہ اچھے اور ذمہ دار عہدوں پہ مردوں اور عورتوں کا تناسب عدم توازن کا شکار ہوگا۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد کافی زیادہ ہوگی، حتیٰ کہ مردوں کے علاج کے لیے بھی عمومی طور پہ زیادہ تر خواتین اسپیشلسٹ ڈاکٹر ہی میسر ہوںگی۔ اور گھریلو نظام چلانے کے لیے بھی عورت کی معاشی استعدادمرد سے زیادہ ہوگی۔
مندرجہ بالا صو رتِ حا ل سے مستقبل میں معا شرے کا نقشہ اور توازن اُلٹ پلٹ ہو تا نظر آتا ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اعلیٰ تعلیم میں لڑکیو ں کی پیش رفت کو تشویش کی نظر سے دیکھا جائے۔ ہرگزنہیں، اس کی حو صلہ افز ائی کے ساتھ ضرورت اس امر کی ہے کہ لڑ کوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے حصول اور پیشہ ورا نہ تر بیت کے موا قع میں اضا فہ کیا جا ئے۔ بصو رتِ دیگر تمام ملازمتوں پر بالخصوص اعلیٰ عہدو ں پر ملا زمت کے معیار کو زیا دہ تر خوا تین ہی پو ر ا کر یں گی۔ اس طرح معاشی ذمہ داریوں کا بو جھ مرد کے کا ندھو ں سے کم ہوکر عورت کے کا ندھو ں پر بڑھنا شروع ہوجائے گا۔
عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ ہما رے معاشرے میں لڑکیوں کو تو کسی حد تک یہ سکھایاجاتا ہے کہ ان کو دوسرے گھر جانا ہے، اس لیے دوسروں کواپنی زندگی میں جگہ دینے کی استعداد پیدا کرنی چاہیے، جب کہ لڑکوں کی تربیت اپنی عملی زندگی اور با لخصو ص خانگی زندگی کے بارے میں نہ ہو نے کے برابر ہوتی ہے۔ہماری معاشرتی اُٹھا ن اور مردوں کی بیرون خانہ مصروفیات کے باعث گھریلو ذمہ داریاں عموماً عورت ہی کے کا ندھو ں پرہوتی ہیں۔ پھر ،جب کہ صورت حال یہ ہو کہ لڑکے تعلیم اور ہنر کے میدان میں پیچھے ہونے کے باعث معاشی میدان میں بھی پیچھے رہ رہے ہوں، تو مستقبل میں عورت کے کاندھوں پر بچو ں کو پا لنے، ان کی تر بیت کر نے، گھر اورخاندان کے نظا م کو چلا نے اور شوہراور سسرال والوں کی خدمت وغیر ہ جیسے کام تو کہیں کم ہو تے نظر نہیں آرہے، کجاکہ معا ش کی ذمہ داریوں کا بو جھ بھی اس کے کا ندھو ں پر بڑھنا شروع ہو جا ئے۔
بظاہر صنف نازک تر قی کر تی نظر آرہی ہے لیکن درحقیقت وہ چکّی کے دونو ں پاٹوں میں پس رہی ہوگی۔ گویاکہ وہ ایسی موم بتی کی مانندہوگی، جو اپنے دونوں سروں سے جل رہی ہواور اس طرح وہ ایک نئے اور کہیں زیادہ اذیت ناک استحصال کا شکار ہوجائے گی۔ اس کے برعکس دینِ اسلام تو مرد کو ’قوّام‘ قرار دیتا ہے۔ یہ ’قوامیت‘ اس بنیاد پر ہے کہ وہ اپنے خاندان کا معاشی اور معاشرتی بوجھ اٹھانے کا ذمہ دار ٹھیرایا گیا ہے۔ لہٰذا، باوجود اس کے کہ عورت بھی اپنی بنیادی ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ، اللہ کی بتائی گئی حدود میں رہ کر معاشی میدان میں کام کر سکتی ہے، باوجود اس کے کہ عورت کتنا بھی کماکر لارہی ہو، تب بھی مرد اپنی اس معاشی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہوسکتا۔
دوسرا بڑا المیہ یہ ہے کہ نہ صرف تعلیم بلکہ اعلیٰ تعلیم تک کے لیے بھی کسی پیشہ ورانہ رہنمائی (کیرئیر گا ئیڈنس) کا انتظا م نہیں ہے، جس کے با عث بلاتخصیص مرداور خواتین اپنے دا ئرۂ کار کو مدّنظر رکھے بغیر اکثروبیش تر اندھا دھند صرف بھیڑ چا ل کا شکا ر ہو جاتے ہیں۔ اپنے میدان کا ر کے انتخا ب کے وقت دُور اندیشی سے نہ خود سو چتے ہیں اور نہ انھیں سمجھا یا جا تا ہے کہ کو ن سے میدا ن کا ا نتخا ب ان کی فطری اور لازمی ذمہ داریو ں(mandatory role) سے مناسبت رکھتا ہے اور کو ن سا نہیں؟ اکثر خوا تین اُن مضامین کو منتخب کر لیتی ہیں، جن کے اوقا ت کار ان کی فطری اور لازمی ذمے داری سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اس طر ح وہ اپنی اس تعلیم کا استعما ل نہیں کرپاتیں اور اس پہ صرف کیا جانے والا وقت اور سرمایہ ضائع ہوتا ہے، یاپھر دوہری محنت کے باوجود دونوں جانب حق ادا کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔ اس دوہرے بوجھ سے یہ پڑھی لکھی خواتین نہ صرف طبعی اور نفسیاتی دبا ؤ کا شکا ر ہو تی ہیں، بلکہ ان کے بچے بھی مطلو بہ نگہدا شت سے محروم رہتے ہیں اور اس کے مظاہر جب ان بچوں کی جوانی اور ازاں بعد سامنے آتے ہیں تو درستی کا کوئی دروازہ کھلا نہیں ملتا۔
اس صو رتِ حا ل میں سر کا ری اور نجی شعبوں میں حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کچھ فوری اور ہنگامی بنیادپراور کچھ دوررس نتائج کے حامل اقدامات کی ضرورت ہے :
اگر معاشرے کی اس بدلتی ڈگر اور عدم تناسب کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عدم توازن کا ادرا ک نہ کیا گیا اور اس کے سد باب کی کوشش نہ کی گئی تونہ صرف مرد نقصان میں رہیں گے، بلکہ عورت ہی سب سے زیادہ استحصال کا شکارہوکر رہ جائےگی، اور چند ہی برسوں میں معاشرے میں ترجیحات کاتوازن بگڑ جائے گا۔ایسی صورت حال میں نہ صحت مند معاشرہ پیدا ہوگا اور نہ قوم ترقی کی منازل طے کرسکے گی۔
اگر ہم اپنی آنے والی نسلوں کومتوازن اور صحت مند معاشرہ منتقل کرنا چاہتے ہیں، اور یقینا ایسا ہی کرنا چاہتے ہیں، تو پھر ہم اپنی انفرادی حیثیت میں بھی اور اگر ہم کسی ادارے یا کسی گروہ کے ذمہ دار ہیں، تو اس حیثیت میں بھی، مستقبل کے درپیش چیلنجوں کا آج ہی سے ادراک کریں۔ اپنے معاشرے کی ترجیحات اور اقدارکو اُلٹ پلٹ ہونے سے بچانے کے لیے فوری اقدامات اٹھائیں۔ یہ دینی ذمہ داری بھی ہے اور قومی فرض بھی۔
معاشرے کی حقیقی ترقی، عورت کی توقیر اور خوش حالی کے بغیرممکن نہیں ہے، مگر اس حقیقت کے باوجود افسوس کا مقام ہے کہ دنیا بھر میں عورت آج بھی اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرتی نظر آتی ہے۔ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے فی الوقت کوئی ملک بھی رول ماڈ ل نہیں حالاں کہ دنیا کے سامنے آنے والے تمام چارٹرز میں یہ فضیلت اسلام ہی کو حاصل ہے کہ اس نے عورت کو جو مقام و مرتبہ عطا کیا ہے، وہ آج کا کوئی اجتماعی نظام نہیں دے سکا۔ تاہم، اس کے باوجود یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ پاکستان کے اسلامی جمہوریہ ہونے کے باوجود یہاں پر بھی عورت اپنے بنیادی اسلامی و سماجی حقوق سے محروم ہے۔ مسائل و مشکلات کی اس دلدل سے اس کو باہر نکالنا یقینی طورپر ایک قومی ذمہ داری ہے، مگر عورت کے بہت سے مسائل اور مصائب ایسے ہیں، جن کا تعلق خود عورت ہی سے ہے، اور وہ اس کے پیدا کردہ ہیں۔ ایسے بے شمار مسائل کا تعلق معاشرے کے مردوں سے نہیں بلکہ خود خواتین ہی سے ہے۔ لہٰذا، اس کی اصلاح تو بہرحال خود عورت ہی کو کرنی ہے ۔ اور اسے اس دعوے کی تردید کرنی ہے کہ عورت، عورت کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے اور اس کا حل کیا ہے؟
عورت سے عورت کی پر خاش کا یہ مسئلہ ہمیں صرف اداروں، تنظیموںمیں ہی نہیں بلکہ گھروں اور خاندانوں میںبھی کثرت سے نظر آتا ہے۔عورت معاشرے کی عمارت کا کلیدی پتھر ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ عورت ہر حیثیت میںخواہ ماں بہن، بیوی، بیٹی، کارمند یا ملازم (employ) یا آجر اور کارفرما (employer )، ساتھی، ہر حیثیت میں اس کا کردار بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ جہاں اس معاشرے میں اس کے اس مؤثر کردار کی ادایگی میں بے شمار رکاوٹیں حائل ہیں، وہاں اس کے اتحاد کے پارہ پارہ ہونے کا نتیجہ بھی اس کو بہت پیچھے دھکیل دینے کا سبب ہے۔ اکثر خواتین مختلف اداروں میں، خاندانوں میں اپنا بیش تر وقت اس باہمی رقابت ، رسہ کشی اور کھینچا تانی میں ضائع کر دیتی ہیں۔ تعمیری کاموں کے بجاے تخریبی سرگرمیوں میں لگا دیتی ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق ۹۵ فی صد خواتین روایتی ’شہد کی ملکہ مکھی کا نشانہ‘ (کوئین بی سنڈروم) بنتی ہیں، یعنی افسر خواتین اپنی نوجوان خواتین کارکنان ہی سے عدم تحفظ (Insecurity) محسوس کرتی ہیں۔پروفیسر ہیری کوپر نے اس حوالے سے کہا کہ اس ’نشانۂ اجتماعی‘ (سنڈروم) کی وجہ سے وہ اپنے جونئیرز کی سرپرستی نہیں کر سکتیں۔ایک تحقیق نے یہ بھی بتایا ہے کہ جو عورتیںمردانہ برتری کے ماحول میں جدوجہد کرتے ہوئے ترقی کرتی ہیں، وہ اپنی ماتحت نوجوان خواتین کے لیے ’شہدکی ملکہ مکھی کے عتاب‘ کا شکار ہوتی ہیں۔ اپنی جونئیرز کے لیے ان کے اندر ہمدردی کا جذبہ کم ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ جب ہم اتنی مشکلیں اٹھا کر کام کر سکتے ہیں تو یہ کیوں نہیں کر سکتیں۔ (دراصل وہ اپنے ماضی کے حالات کا بدلہ اپنی جونئیرز سے لیتی ہیں، اور بسا اوقات یہ صورتِ حال بالکل اسی طرح ساس بہو یا دیوارنی اور جیٹھانی کے معاملے میں بھی نظر آتی ہے۔)
معروف ادیبہ کیلی ویلن نے The Twisted Sisterhood: Unraveling the Dark Legacy of Female Friendships نامی ایک دل چسپ کتاب لکھی ہے، جس میں وہ تینہزار سے زائد عورتوں سے کیے گئے ایک سروے کے بارے میں بتاتی ہے کہ:’’۹۰ فی صد سے زائد خواتین میں دوسری خواتین کے بارے میں منفی جذبات پائے گئے ہیں‘‘۔کیلی ویلن مزید بتاتی ہیں کہ: ’’۵۰سوالات پر مشتمل ایک سروے میں ۸۵ فی صد عورتوں نے کہا کہ ہم نے اپنی زندگی میں دوسری عورتوں ہی کے ہاتھو ںبہت سی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کیا ہے‘‘۔
گیٹ ہاپکن کی تحقیق یہ ہے کہ اکثر سینئر خواتین میں یہ خوف پایا جاتا ہے کہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ غیر اہم ہو جائیں گی۔ شاید یہی خوف ان کے منفی رویے کی وجہ ہوتا ہے۔ہرچند کہ اس نوع کے مسائل مردوں کے درمیان بھی پائے جاتے ہیں، لیکن یہ خواتین میں بہت زیادہ موجود ہیں۔
کچھ نہ کچھ منفی جذبات انسانی نفسیات کا حصہ ہیںاور بنیادی طور پر انسانی سرشت میں پائے جاتے ہیں۔ بعض جذبات و خصوصیات صنفی (Gender) بنیاد پہ بھی کم یا زیادہ ہوسکتی ہیں، مگر ان کو تراش خراش کر درست سمت دینے اور شر کو خیر کے رخ پہ موڑنے کا کام گھر،مذہب ، معاشرتی اقدار اور نظام تعلیم و تربیت کرتا ہے۔ بدقسمتی سے آج کے معاشرے میںجیسے جیسے مادیت پرستی کے رجحانات میں اضافہ ہورہا ہے، ویسے ویسے اخلاقی بلندی اور اعلیٰ ظرفی کا دامن بھی ہاتھ سے چھوٹاجارہا ہے اور افراد اور معاشرے سے وہ اخلاقی صفات ختم ہوتی جارہی ہیں۔
نہایت افسوس کے ساتھ اس بات کا اقرار کرنے میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے کہ ا خلاقی بہتری کے لیے تربیت کا جو کام ہمارے نظام تعلیم کوکرناچاہیے تھا، وہ اس نے تونہیں کیا، مگر سچی بات ہے کہ ہماری مساجد بھی وہ کردار ادا نہ کرسکیں جو کبھی ہمارا ورثہ تھا، حتیٰ کہ گھروں سے بھی اخلاقی بلندی کاورثہ اس طرح منتقل نہیں ہوسکا، جس طرح ہونا چاہیے تھا، جب کہ اس اخلاقی بلندی کا درس ہمیں صرف اسلام ہی نہیں دیگر الہامی مذاہب بھی دیتے ہیں۔
اسلامی اخلاقیات تو انسانی رویوں کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی ہیں اور مسلمان ہونے کے ناطے تو ہمیںان الہامی تعلیمات پر یقین ہونا چاہیے، جو اس بارے میں ہمارا دین ہمیں بتاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی کو اس بات کا یقین ہو کہ روزی دینے والا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذاتِ بابرکات ہے اور اس نے یہ وعدہ کیا ہے کہ تم اگر مجھ پہ ایسا توکل کرو جیسا توکل کرنے کا حق ہے تو میں تم کو ایسے روزی دوں گا جیسے ہر پرندے کو دیتا ہوں، تو یہ ممکن نہیں کہ ہم کسی انسان سے عدم تحفظ کا شکار ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے: تمھاری قسمت میںجو رزق لکھا جاچکاہے اسے کوئی روک نہیں سکتااور تمھاری عزت اور ذلت بھی میرے ہاتھ میں ہے توکیوں کرکسی سے خوف کھایاجائے؟ کیوں کسی کو دبا کر رکھنے میں اپنی شان اور عزت کی ضمانت سمجھاجائے؟اگر کسی کو یہ معلوم ہوکہ حسد نہ صرف دنیا ہی میں انسان کی جڑیں کاٹتاہے بلکہ یہ بھی جاننا چاہیے کہ یہ آخرت میں بھی اُسے کنگلا کردے گا،تو وہ اس جذبے کو اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دے گا۔
متذکرہ بالا اخلاقی خوبیوںکے علاوہ بھی بہت سے محاسن اخلاق ہمیں مذہبی تعلیمات اور تاریخی حوالوںمیں ملتے ہیں، جو اگرچہ مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں ضروری ہیں۔ لیکن یہ بات کہ عورت عورت کی دشمنی سے کیسے رُکے؟ تو اس کا طریقہ یہی ہے کہ ان اخلاقیات کو اپنانے کی کوشش کی جائے اور اپنے اس یقین کو بڑھایا جائے کہ سب کچھ دینے والا اللہ ہے اور اس چھوٹی سی زندگی میں ہم جو بوئیں گے، وہ نہ صرف ہم آخرت میں کاٹیں گے بلکہ دنیا میں بھی ہم اور ہماری آیندہ نسلیں اس فصل کو کاٹیں گی۔ دراصل عورت ہی وہ کردار ہے جو معاشرے اور نسلوں کو بنانے سنوارنے کا کام کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مردانہ برتری کے معاشرے میں دراصل مرد سے عدم تحفظ کے باعث عورت کے بہت سے رویے جنم لیتے ہیں، مگرمعاشرے کا ہرمرد بھی کسی عورت کی گود ہی سے تربیت پاکر جوان ہواہوتاہے۔ماں کی گود کو بچے کا پہلا مدرسہ کہا جاتا ہے۔ نپولین نے بھی کہا تھا کہ:’’تم مجھے اچھی مائیں دو، تو میں تمھیں اچھی قوم دوںگا‘‘۔ اگر عورت ہی اخلاقی معیارسے گر جائے تو نہ صرف معاشرہ انتشار اورزوال کا شکارہوگا، بلکہ اعلیٰ اخلاقی صفات سے عاری نسلیں جنم لیں گی۔
عورت اپنے اس مقام کا ادراک کرتے ہوئے کم از کم اپنی ذات میں، جہاں جہاں وہ موجود ہے، اس ’عورت سے عورت کی دشمنی‘ جیسی بیماری کو ختم کرنے کا تہیہ کرے تو ہم دیکھیں گے کہ طبقۂ نسواں کے ۵۰ فی صد مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔اگر خواتین اپنے اندر یہ ظرف پیدا کرلیں کہ ایک دوسرے کو اپنے مدمقابل کے طور پردیکھنے کے بجاے، ایک دوسرے کو اپنے مددگار کے طور پر دیکھیں،اور ایک دوسرے کے بارے میںشک میں پڑنے کے بجاے ایک دوسرے کو سہارا دیں،تو وہ ایک ناقابل شکست اکائی ہوں گی۔ اگر آج کی مائیںیہ عزم کرلیںاور یہ طے کرلیں کہ اپنی گود میں پرورش پانے والے ہربچے کو اپنی استعداد کے مطابق بنیادی اخلاقیات سکھانے میں پوری قوت لگادیں گی۔ پھر یہ کہ اپنے ہربیٹے کو عورت کی عزت اور اس کے حقوق کے تحفظ کی تعلیم دیں گی۔ ماں اپنے بیٹے کو بیوی کے حقوق کی ادایگی کا درس دے گی اور بیوی ماں کے حقوق کی یاددہانی کرائے گی۔ اسی طرح اداروں میں بھی اگر اپنی ذات سے اوپر ہوکر اپنی ساتھی کے لیے اخلاقی سہارا بننے کا سبق دیا جائے گا تو ہمارے گھر امن وسکون کا گہوارہ ہوں گے۔ دفاترمیں ذ ہنی تھکاوٹ کے بجاے خوشی اور سکون میسر ہوگا۔ عورت کی گود میں پرورش پانے والا ہربچہ آنے والی کل میں وہ فرد ثابت ہوگا جسے اپنے فرائض اور دو سروں کے حقوق کا بخوبی ادراک ہوگا۔ ہر مرد عورت کودبانے میںاپنی برتری سمجھنے کے بجاے اس کو عزت و احترام دینے، سہولت اورتحفظ دینے کو اپنابنیادی فریضہ سمجھے گا۔
معاشرے کی تعمیر و ترقی میں عورت کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ہر معاشرے میں نسل نو کی تعمیر اسی کے ہاتھوں ہوئی ہے اور ہو سکتی ہے۔ ’ماں کی گود بچے کی پہلی تربیت گاہ‘ کے تصور نے عورت کی حیثیت اور کردار کو مزید مستند بنایا ہے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ کسی عورت کی معاشرے میں صرف بحیثیت ماں اہمیت نہیں ہوتی، بلکہ ہمارے معاشرے اور تہذیب میں خاندانوں اور نسلوں کے بننے اور بگڑنے میں ایک عورت بحیثیت بہن، بیٹی، ساس، بہو اور دیگر تمام رشتوں میں بہت اہم کردار کی حامل ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کردار کے ساتھ اس معاشرے نے کیا کیا؟ اور اس کردار کی تشنگی کو دُور کرنے کا راستہ کیا ہے؟
عورت کا یہ استحقاق دنیا بھر میں متاثر رہا ہے اور آج بھی ہے۔ بیداری کی تمام تحریکوں کے باوجود بھی عورت زیر عتاب ہی چلی آئی ہے اور اس کے حالات تبدیل نہیں ہوسکے۔
پاکستان کے دیہی علاقوں پر اگر نظر دوڑائیں تو جنوبی پنجاب کے بعض دیہات میں ’ونی‘ کی رسم اب بھی جاری ہے۔ اس رسم میں کسی بھی جرم چوری، ڈاکا، اغوا، رہزنی، قتل اور پسند کی شادی سمیت ہر قسم کے تنازعات، دشمنی اور رنجشوں میں راضی نامہ کرتے ہوئے پنچایت یا جرگہ کے تحت ملزم فریق کی لڑکیوں کو مدعی فریق کے مردوں کے نکاح میں دے دیا جاتا ہے۔ ایسی خواتین مدعی فریق کی غلام بن کر رہتی ہیں،جب کہ ان میں سے کچھ کو پھرسے صلح بدل رشتہ، یعنی ’ونی‘ کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ بسا اوقات ’ونی‘ کی صورت میں ملنے والی خواتین کو قتل اور فروخت بھی کر دیا جاتا ہے۔
ان جاہلانہ رسم و رواج پر مبنی واقعات کی چند بڑی وجوہ ہیں، مثلاً یہ کہ: جہاں پورے کا پورا نظام ظلم اور ناانصافی پر مبنی ہو تو وہاں کسی کو انصاف کیوں کر مل سکتاہے؟ جہاں عورت ہی کیا سب کے سب ظلم کی چکّی میں پس رہے ہوں، وڈیروں، جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کا سکہ چلتا ہو، جہاں عمر رسیدہ لوگ پنشن کی تھوڑی سی رقم کے لیے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے رہنے پر مجبور ہوں، جہاں بچے تعلیم، صحت اور خوراک جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ہوں، جہاں میرٹ پر ہوتے ہوئے آگے بڑھنے کے لیے راستہ نہ ملتا ہو، جہاں تعلیم و روزگار کے مواقع دولت، رشوت اور سفارش کی بنیاد پر حاصل کرنا آسان ہو، تو وہاں کسی ایک طبقے (عورت) کو انصاف کیسے مل سکتا ہے؟
۱- سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاںایک بڑی تعداد میں این جی اوز، افراد، اداروں اور تنظیموں نے عورت کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا ہو،تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہاںبہتری نہ آئے۔ دراصل اسلامی جمہوریہ پاکستان میںکام کرتے ہوئے جو غلطی کی جارہی ہے، وہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح ریاضی یا فزکس کا کوئی سوال حل کرتے ہوئے شروع میں کلیہ غلط استعمال کرلیں تو لاکھ کوشش کے باوجود ہم سوال ٹھیک نہیں حل کر سکتے، جب تک کہ ہم درست کلیہ نہیں لگائیں گے اور اس کے مطابق حل نہیں نکالیں گے۔ جو لوگ اس وقت میدانِ عمل میں اس جدوجہد میں کوشاں ہیںاور حقوق نسواں کے حوالے سے کچھ بھی کرنا چاہتے ہیں،ان سے دردمندانہ درخواست ہے کہ وہ رک کر اس بات پر ضرور غور کریں کہ جس معاشرے میں ہم کام کررہے ہیں، وہاں یہ ’کلیہ‘ چلنے والا نہیں ہے جو ان میںسے اکثرنے لگایا ہوا ہے۔
لہٰذا، انھیں رُک کر سوچنا چاہیے کہ منزل کو پانے کے لیے جو راستہ چُنا گیا ہے، وہ منزل کو جاتا ہی نہیں۔ مسئلے کا حل عورت کو یہ باور کرانا نہیںکہ: ’’تمھارے ساتھ مردوں کی جانب سے زیادتی ہورہی ہے، اس لیے تمھیں مرد کے خلاف ڈٹ جاناچاہیے‘‘۔ نیز میڈیا کا دن رات یہ باور کراناکہ: ’’مردوںکے اس معا شرے میںعورت کو کس طرح مردوں کو مات دینی ہے اور اس کی بہتری کی راہ میں اگر کوئی حائل ہے تو وہ صرف مرد ہے‘‘۔یقین جانیں یہ مسئلے کا حل نہیں۔ صدیاں گزر جائیں گی مگر مسائل اس طرح نہیں حل ہو سکتے کہ مرد و عورت آپس میں ٹکراتے رہیںاور جو غالب آجائے وہ فاتح ہو۔
۲- جو لوگ عورت کے استحصال کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں ان کی اکثریت، اسلام کے عورت کو عطا کردہ ضابطۂ کار کا حقیقی علم و ادراک ہی نہیں رکھتی، یا پھر اسلام کے خلاف اس ڈس انفارمیشن سے متاثر ہے جو جان بوجھ کر پھیلائی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ معاشرے میں ہے وہ چودہ سو سال پرانی تعلیمات ہیں جن پر علما نے کبھی اجتہادنہیں کیا، وغیرہ وغیرہ۔
۳ - جو اس کا علم اور ادراک رکھتے ہیں ان کی اکثریت نہ جانے کیوں اس موضوع کو اپنا موضوع نہیں بناتی؟ اور کام کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کرتے؟ وہ دنیا کے سامنے یہ حقیقت نہیں لاپاتے کہ ہمارے پاس کتنی بڑی دولت غیرمترقبہ ہے جس کے بعد ہماری سوسائٹی کو اور بالخصوص طبقۂ نسواں کو کسی اور چیز کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی۔ اس معاملے میں رہی سہی کسر ان پیشہ ور مذہبی چہروں نے پوری کر دی، جو اسلام کو صرف اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا جانتے ہیں، اور اپنی زبان اور عمل سے دنیا کے سامنے اسلام کا کچھ ایسا نقشہ پیشہ کرتے ہیں کہ اسلام تو شائد عورت کو قید کر کے رکھنا چاہتا ہے اور اسے دوسرے اور تیسرے درجے کا انسان قرار دیتا ہے۔
اسلام اتنی اَن گنت مراعات دے کر عورت کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کی شکرگزار اور فرماںبردار ہو اور اس کے پیچھے اس کے گھرکی نگران ـہو۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’نیک بیویاںشوہر کی اطاعت کرنے والی ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت ونگرانی میںان کے حقوق اور امانتوں کی حفاظت کرتی ہیں‘‘(النساء۴:۴۳) ۔اور صرف ایک بنیادی کام اس کو سونپا ہے کہ وہ انسانیت سازی، یعنی انسانی تخلیق اور تعمیر اور نسلِ نو کی آبیاری کا کام کرے اور اپنی اس بنیادی ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے، نیز اسلام کی حدود کا خیال رکھتے ہوئے وہ ترقی کی ہر سیڑھی پر قدم رکھ سکتی ہے۔ اسلام اس کو کسی طرح کے حصول تعلیم و تربیت (بلکہ حصول علم کو تو عین فرض کہا ہے)، ملازمت، کاروبار،سفر، مہم جوئی، حتیٰ کہ بنائو سنگھارتک کے راستے میں رکاوٹ نہیں ڈالتا۔
۱- ایک قلیل مدتی کورس میں طلبہ و طالبات کو موجودہ نصاب کے ساتھ مختصر دورانیے کے کورسزکروائے جائیں، جو تربیت کی اس ضرورت کو پوراکریںاور ان کورسز کوڈگری کے حصول سے مشروط کیا جائے۔ اور فی الوقت جو ادارے کسی بھی طرح کاتعلیم کا کام کر رہے ہیں، مثلاً اسکول، کالج یونی ورسٹیاں اور مدارس و غیرہ کے لیے یہ کورس ان کے طلبہ و طالبات کے لیے لازمی کیے جائیں۔
۲- دوم: طویل مدتی کورس جس میں نظام تعلیم کا جائزہ لے کر اس میں تربیت، اخلاقیات اور اقدار کو شامل کیا جائے۔ معاشرے کے مؤثر افراد اور اداروں کو طے کرنا ہوگا کہ یہ کام آیا حکومت خود کرے گی، یا اس پہ دبائو کے ذریعے کروایا جائے گا، یا سول سوسائٹی اور پبلک سیکٹر خود کریں گے، یا دونوں مل کے کریں گے۔
پاکستانی عورت کو بالخصوص یہ بات سمجھنی چاہیے کہ یہ ملک جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، جس کا دستور کہتا ہے کہ ’’چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے، اور پاکستان کی جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا وہ ایک مقدس امانت ہے‘‘۔وہاں عورت کو اپنے حقوق، اپنے مقام، اپنی آزادی اور معاشی مضبوطی کے لیے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے اور اس کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ دراصل اس جدوجہد کی ضرورت ہے کہ جو طاقت اور بلند مقام ایک عورت کو خالق کائنات نے اور کائنات کے سب سے بڑے بادشاہ نے عطا کر دیا ہے اس کو غصب کرنے کا حق دنیا کے چھوٹے چھوٹے خداؤںسے واپس لیا جائے۔
تبدیلی ایک فطری عمل ہے ۔ صرف ایک عشرہ گزرتے ہی دنیا میں معاشرتی سطح پر کچھ نہ کچھ تبدیلی فطری طور پر محسوس ہونے لگتی ہے ۔ پھر ایک نسل کے بعد دوسری نسل نمایاں تبدیلی کے ساتھ آتی ہے ۔ تاہم ۸۰کے عشرے سے لے کر اب تک آنے والی تبدیلی، بلاشبہہ تبدیلی کی ایک بڑی لہرہے، جس میں ٹکنالوجی اور خصوصاً میڈیا نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔معلومات کی ایک یلغار ہے، جو ہر طرف سے ذہنوں تک پہنچ کر انھیں متاثر کر رہی ہے ۔ ہر کوئی یہ استعد اد نہیں رکھتا کہ معلومات کے اس سیلاب میں سے اپنی اقدار اور اپنی اصل (roots) کے مطابق چیزوں کو پرکھ اور چھانٹ کر الگ کرسکے ۔ پھر تیزرفتار گلوبلائزیشن کے اس عمل میں ہر طبقۂ فکرنے اپنی سمجھ، عقل اور استعداد کے مطابق اپنے کام کو آگے بڑھایا اور اپنے اہداف حاصل کرنے کی پوری کوشش کی ۔
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ کسی معاشرے کی تہذیب اس کی اقدار و روایات، اس کی اٹھان اور اس کا مزاج بنیادی طور پر عورت کے ہاتھوں تشکیل پاتا ہے اور آیندہ نسلوں تک منتقل ہوتا رہتا ہے۔عورت میںقدرتی طور پر وہ خصوصیات پائی جاتی ہیں، جو نہ صرف نسلوں کی آبیاری کرتی ہیںبلکہ ان پر بہت زیادہ اثرات بھی مرتب کرتی ہیں۔اسلامی تاریخ میں حضرت خدیجہؓ ، حضرت عائشہؓ اور بہت سی مسلم خواتین ہیں، جن کا معاشرے کے بنائو بلکہ قانون سازی میںبھی کلیدی کردار رہا ہے، جس کی نمایاں مثالیںحضرت عمرؓکے دورمیںنظر آتی ہیں ۔
۱۹۴۵ء میں اقوام متحدہ نے وجود میں آتے ہی انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے کمیشن بنائے۔ بعدازاں خواتین کے حقوق کی مناسبت سے متعدد عالمی کانفرنسیں اور عالمی معاہدے تشکیل دیے گئے۔ دسمبر ۱۹۷۹ء میں خواتین کو استحصال سے نجات دلانے کا معاہدہ طے کیا گیا، جس کے تحت عورت کے خلاف امتیازی سلوک و قوانین کے خاتمے اور عورت کو معاشی ، سماجی ، آزادی ، اسقاطِ حمل اور شادی ختم کرنے کے یکساں اختیارات جیسے حقوق پر بات کی گئی ہے۔اس معاہدے کی بنیاد انصاف کے بجاے مساوات پر رکھی گئی۔ پھر نہ صرف پہلے سے قائم تنظیموں اور اداروں نے ان عنوانات کو اپنے پروگراموں میں شامل کیا ، بلکہ بہت سی نئی این جی اوز کو یہ ایجنڈا دے کر ترقی پذیر ممالک میں سر گرم عمل کیا گیا ۔ اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے:
نیویارک میں ہونے والے یو این ویمن کے ایگزیکٹو بورڈ کے پہلے عمومی اجلاس ۹فروری۲۰۱۶ء میں یو این ویمن ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا:’’ ہمارا۲۰۳۰ء تک کے لیے مرکزی ایجنڈایہ ہوگا: ’جنسی تفریق سے بالاتر مساوات‘ اور ’خواتین کی خودمختاری‘ ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ پچھلے برسوںمیں عورت کے حوالے سے مخصوص ایجنڈے کے تحت سیمی نار اور کانفرنسیں بھی ہوئیں ۔ مختلف فلمیں اور دستاویزی پیش کشیں تیار کی گئیں، جو اپنی اثر پذیری کی وجہ سے افراد اور معاشرے تک اپنا پیغام کامیابی سے پہنچا رہی ہیں۔ اپنی کار کردگی کو بہتر بنانے کے لیے انھیں فراہمیِ فنڈ کی کوئی کمی نہیں اور تیسری طرف وہ ایوارڈز اور حوصلہ افزائی کی بھی حق دار ٹھیرتی ہیں۔ آغا خان فائونڈیشن کے این جی اوز ریسورس سینٹر کی رپورٹ کے مطابق: ’’پاکستان میں کام کرنے والی این جی اوز کو ۵۲کے قریب ادارے فنڈز فراہم کرتے ہیں، جن میں سے ایک چوتھائی کے دفاتر امریکا اور ۱۲ فی صد کے لندن میں ہیں ‘‘۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ: ’’۸۷فی صد فنڈز خواتین کے حوالے سے کام کرنے والی این جی اوز کو دیے جاتے ہیں ‘‘۔
اس وقت ملک میں ۵۰ہزار سے زائد این جی اوز کام کر رہی ہیں، جب کہ غیرملکی این جی اوز کی تعداد اس کے علاوہ ہے ۔ اگر چہ ان میں سے بعض کاکام صرف کاغذ کی بنیاد پر ہی ہے، لیکن کچھ ایسی بھی ہیں جو بلاشبہہ خدمتی کام انجام دے رہی ہیں۔ یہ صحت وصفائی و ماحولیات وغیرہ کے حوالے سے کاموں کا بیڑا اٹھانے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ ان میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد بھی ہیں اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے بھی، او ر بہت سے ایسے افراد اور گروہ بھی کام کررہے ہیںجن کا شمارواضح طور پر دائیں یا بائیں بازوئوں میںسے کسی سے نہیں، لیکن وہ خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں۔ البتہ خواتین سے متعلق ایشوز کے حوالے سے دیکھا جائے تووہاں پر ہمیں لبرل خیالات کے حامل افرادہی سرگرم نظر آتے ہیں، جو بہت منظم اور مضبوط تنظیموںاوراداروں کی شکل میں متحرک ہیں۔ اس کے برعکس اگر مذہبی شناخت رکھنے والی چند این جی اوزاس عنوان پرکام کر بھی رہی ہیں، تو وہ اپنے وزن کے اعتبار سے ان سے بہت کم اور چھوٹی ہیں ۔
’پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل اور قانون کا نفاذ‘ کے موضوع پر ملیحہ ضیا کئی برسوں سے کام کررہی ہیں۔ ان کے نزدیک ’غیرت کے نام پرقتل‘ کا مسئلہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں زیادہ گمبھیر ہے۔ خواتین کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیموں میں ’وار‘ نامی این جی او نے کاروکاری کے خلاف، اپنے دعوے کے مطابق ۲۶۰ مقدمات رپورٹ کیے ۔ دیگر مختلف گروپوں نے ’قتلِ غیرت‘، گھریلو تشدد ، کاروکاری ، جہیز ایک لعنت، اجتماعی زیادتی جیسے عنوانات کو موضوع بحث بناتے ہوئے ’تحریک حُریت ِ نسواں‘ کے کام کو آگے بڑھایا اور قانون سازی کے لیے بھی کا م کیا۔
پچھلے ۲۰برسوں میں ملک کی بڑی یونی ورسٹیوں میں ’ویمن ڈویلپمنٹ‘ اور مطالعہ صنفیات (Gender Studies) کے شعبے کھلے ہیں۔ ابتدائی زمانے میں اگر ان میں رجسٹریشن کم بھی رہی، تو گلگت، چترال اور تربت وغیرہ سے لا کر طالبات کو وظائف پر داخلے دیے گئے۔ یہاںپر بھی انھی نظریات اور انھی گروہوںکی برتری اور نمایاںکردار رہا،جنھوںنے ان عنوانات پر جم کر کام کیا تھا۔
آزاد اور تیز رفتار الیکٹرانک میڈیا بھی ’عورت کے موضوع‘ پر خاطر خواہ خدمات انجام دینے میں کسی سے پیچھے نہیں ہے ۔ عورت اور اس کی خود انحصاری، مردوں سے عورت کی بغاوت ، اپنے حقوق کا مطالبہ اور اس کے لیے ڈٹ جانا ، یعنی عورت بمقابلہ مرد، میڈیا کا مسلسل اور سلگتا ہوا موضوع چلا آرہا ہے ۔ تفریحی چینلوں پر آنے والے ہر پانچ میں سے چار پروگرام خواہ کوئی ڈراما ہو، بحث مباحثہ ہو یا صبح کے پروگرام، وہ اسی نقطۂ نظر کو آگے بڑھاتے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ چند ڈرامے سماجی مسائل پر بھی بنے، لیکن ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ اس وقت ملک میں لائسنس یافتہ ۱۲۰سے زائد ٹیلی ویژن چینل کام کررہے ہیں،جب کہ انٹرنیٹ ٹی وی اور ریڈیووغیرہ اس کے علاوہ ہیں۔ان میں بمشکل ہی کوئی گروہ ڈھونڈے سے ملتاہے، جو کسی درجے میں یہ کہے کہ بغاوت کے بجاے وہ قوم کو کوئی اچھا پیغام دینے یا ان کی تر بیت کی کوشش کر رہاہے۔
اسی طرح کم عمری کی شادی پر ’دختر‘ کے عنوان سے فلم بنی۔ اس فلم کی ڈائریکٹر نے پاکستان کے مشہور اداروں سے پڑھنے کے بعد کولمبیا یونی ورسٹی امریکا سے تعلیم حاصل کی اور پھر ینگ ویمن کرسچن ایسوسی ایشن سے وابستگی اختیار کی، اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے لیے کام کیا۔
پاکستان میں عورتوں کے چہروں کو تیزاب سے جلائے جانے پر ’سیونگ فیس‘ نام کی دستاویزی فلم بنی۔ دیگر فلموں کے علاوہ ’غیرت کے نام پہ قتل‘ پر دستاویزی فلم ’اے گرل ان دی ریور‘ بنائی گئی، جس نے آسکر ایوارڈ بھی حاصل کیا۔
اثرات : اس ساری صورت حال سے جو نتائج سامنے آئے وہ درج ذیل ہیں :
آج صورتِ حال یہ ہے کہ اگر حالات کا دھارا اسی رُخ پر بہتا رہا تو پاکستان میں مستقبل میں تعلیم یافتہ مردوں کی قلت ہوجائے گی۔ زیادہ تر یونی ورسٹیوں میںلڑکیوں کی تعداد ۷۰ فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ اس بات کا اندازہ درج ذیل شواہد سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ ۲۰۱۳ء اور۲۰۱۴ء میں کراچی یونی ورسٹی میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کے مقابلے میں ۷۳ فی صد تھی ، جب کہ این ای ڈی یونی ورسٹی میں ۵۰:۵۰کا تناسب تھا۔ پنجاب یونی ورسٹی میں زیادہ تر شعبوں میں نمایاں طور پر طالبات کی برتری دوتہائی سے زیادہ ہے۔ اسی طرح صرف آغاخان میڈیکل کالج کراچی میں ۲۰۱۳ء اور ۲۰۱۴ء میں مردوں اور عورتوں کا تناسب ۵۰:۵۰ پایاگیا، جب کہ سندھ میڈیکل یونی ورسٹی اورڈائو میڈیکل یونی ورسٹی میںیہ تناسب لڑکوں کے مقابلے میں ۷۰ اور ۷۳ فی صد طالبات ہیں۔
ہمارے یہاںکی لڑکیوں میں محنت سے آگے بڑھنے کا جذبہ پایاجاتاہے اور اس کے لیے مواقع بھی محدود ہیں۔ دوسری جانب افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ مردوں کے لیے محنت اور آگے بڑھنے کے راستے میںکوئی طبعی رکاوٹ موجود نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود اعلیٰ تعلیمی اداروںمیں ان کی تعداد کا گراف تیزی سے نیچے جارہا ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں کر ہوا ؟ اگر بگاڑ کی قوتیں کام کر رہی ہیں تو سدھار کا عندیہ رکھنے والوں کے لیے بھی میدان کھلا ہے ۔ اگر ایک طرف معاشی مضبوطی و خود انحصاری ہے، تو دوسری طرف مخلص اور مضبوط نظریات کی حامل قیمتی افرادی قوت بھی موجود ہے ۔ بھلا یہ کیوں کر ممکن ہے کہ کسی معاشرے میں کارو کاری ، قتلِ غیرت ، گھریلو تشدد ، عورتوں کی وراثت ہڑپ کرجانا، غیرموزوں نسبتیں اور شادیاں ، جہیز کو وراثت کا نعم البدل سمجھ کر وراثت کے تصو ر کو مٹادینا ، مہر کو صرف ایک کاغذی کارروائی بنا دینا ، لڑکیوں کے لیے ابتدائی تعلیم کے یکساں مواقع نہ ہونا ،تیزاب اور چولھا پھٹنے سے عورتوں کا جلناور اسی نوع کی دیگر ناانصافیاں اور زیادتیاں ہوں اور خیر کا جذبہ رکھنے والے اور اصلاحِ معاشرہ کے لیے کام کرنے والے گروہ تڑپ نہ اٹھیں؟ اگر عملی کام میں دشواریاں ہوں، تب بھی اس ظلم کے خلاف اٹھنے والی آوازوں میں سب سے بلند ان کی آواز کیوں نہ ہو ؟ سب سے سنجیدہ کام انھی کا کام کیوں نہ ہو ؟ کسی ایک گروہ کا مؤثر کام نہ کرنا، یااپنے حصے کا کام نہ کرنا کسی دوسرے گروہ کے لیے یہ جواز فراہم نہیں کرتا کہ وہ بھی اس میدان میں کام نہ کرے ۔
۱- یکسوئی کے ساتھ سوچ بچار اور غورو فکر کا عمل بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ قرآن میں بھی باربار اس عمل کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ صرف بھاگنے دوڑنے اور ہنگامی انداز سے کیا جانے والا کوئی کام، خواہ وہ استعداد سے چار گنا زیادہ کیوں نہ ہو، وہ نتیجہ نہیں لا سکتا جو ماضی ، حال اور مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے، سوچ بچار اور تجزیے کے بعد کیا جانے والا کام لاسکتا ہے۔ اسی لیے دنیا بھر میںبہت سی سیاسی پارٹیاں ، حکومتیں اور کمرشل ادارے بھی اپنے ہاں مراکز غوروفکر (R&D سنٹرز)کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں اور اس کے لیے بجٹ بھی مختص کرتے ہیں۔
دینی اداروں اور تنظیموں کو اور دینی وسیاسی پارٹیوں کو یا تو مشترکہ طور پر ورنہ کم از کم اپنے اپنے ہاں ایسے تھنک ٹینک بنانے چاہییں، جواپنے معاشرے کا بالخصوص اور عالمی دنیا کا با لعموم تجزیہ کریں، گمراہی کے گڑھے کی طرف لے جانے والے بنیادی نوعیت کے مسائل اور وجوہ کی نشان دہی کریں۔ اسی طرح ان اچھی صفات کا بھی ادراک کریں، جو اس معاشرے کو تبدیل کرنے میں جوہری کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ان سب سے پہلے اپنا بھی تجزیہ کریں اور اپنے رویے کی اصلاح پر بھی سوچیں کہ اگر ہم بحیثیت فرد یا بحیثیت گروہ کوئی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی کن کمزوریوں کو دُور کرنا ہو گا اور کن خوبیوں کو بہتری کے لیے استعمال کرنا ہو گا ۔ بالخصوص عورت کے حوالے سے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس معاشرے کے حقائق کیا ہیں ؟ کون سے مظالم ایسے ہیں ، جن کو کسی بھی صورت میں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، اور کون سے حقائق ایسے ہیں جو کسی اور مسئلے کی پیداوار ہیں، ان کو کیسے حل کیا جائے ؟ یہاں بھی رد عمل کے بجاے مثبت اور فعال سوچ اپنانے کی ضرورت ہے ۔
۲- معاشرے میںمثبت کام کرنے کا دعویٰ رکھنے والی تمام تنظیموں کو اپنی ممبر شپ کی شرائط میں بھی اپنے خاندان کی خواتین کے نان نفقہ، مہر اور وراثت وغیرہ جیسے حقوق کی ادایگی کو شامل کرنا چاہیے۔
۳- اس کے لیے فوری اور جلد نتیجہ دینے والے کاموں کو اہمیت دینا ہو گی تا کہ طوفان کا رُخ موڑا جائے ۔ جب تک یہ غوروفکر اور عمل و تدبیر کی فعال شکلیں نہیں بنیں گی تب تک طویل المیعاد منصوبہ نہیں سوچا جا سکے گا، کوئی دور رس منصوبہ نہیں بن پائے گا اور وہ ٹھوس اقدامات نہیں ہوسکیں گے، جن کے نتیجے میں ۱۰سال ،۲۰ سال اور ۵۰ سال بعد کوئی مطلوب تبدیلی آ سکتی ہو۔
۴- ہر سال طویل المیعاد منصوبے کی روشنی میں کچھ طلبہ و طالبات کوتخصص کے لیے رہنمائی دی جانی چاہیے کہ دیگر موضوعات کے علاوہ پاکستانی سماج اور عورت اور پاکستانی سوسائٹی کے حوالے سے کچھ اہداف خصوصاً طے کر کے تخصص حاصل کرایا جانا چاہیے۔
۵-مسائل کا حل ڈھونڈنے اور قوانین بنانے سے پہلے آگاہی اور تربیت کا مرحلہ ہوتا ہے۔ اگر کسی معاشرے میں اس کا ہی فقدان ہو تو وہاں قانون کچھ نہیں کر سکتا ۔ یہ ذمہ داری بھی انھی کی ہے کہ جو قانون کی اہمیت کو بھی سمجھتے ہیں۔ لہٰذا وہ اعلیٰ تعلیمی ادارے ، ریسرچ سنٹر اور وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد، جو سمجھتے ہوں کہ عورت کے عنوان اور اس کی مظلومیت کا سہارا لے کر اس معاشرے کی ترتیب کو اُلٹ پلٹ کیا جا رہا ہے، اس کے ذریعے خاندانی نظام پر کاری ضرب لگائی جا رہی ہے، ان صالح فطرت لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور صنفی موضوعات پر مطالعے کی نفی کے بجاے اس کو اپنی اقدار کی بنیاد پر استوار کریں ۔ یہ مطالعے صرف خواتین کی ترقی کے موضوع پر نہ ہوں، بلکہ اس کا موضوع مجموعی انسانی ترقی ہو، جہاں مرد اور عورت دونوں کی ترقی اور تربیت کے لیے کام کیا جائے۔ عورت کی ترقی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مرد کی ترقی نظر انداز کی جائے بلکہ دونوں کو ترقی کی طرف گامزن کرنا ضروری ہے ۔ اس سلسلے کی ایک کوشش یہ ہو سکتی ہے کہ کوئی ایسا نصاب تیار کیا جائے، جہاں خاندانی استحکام کے حوالے سے عورت اور مرد دونوں کو ان کی سماجی ذمہ داریوں سے آگاہی دی جائے (جو بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی نظام میں مفقود ہے)۔ اپنے فرائض اور مخالف صنف کے حقوق بتائے جائیں ۔ ان کی بہتر بجاآوری کے لیے بیداری پیدا کی جائے۔
اس قسم کی توجہ مبذول کرانے کے مختلف طریقے ہو سکتے ہیں، مثلاً جس طرح کمرشل اور دعوتی ادارے مختلف عنوانات پر ورکشاپس کراتے ہیں، ان عنوانات پر بھی پروگرام ہوسکتے ہیں، یا جس طرح کمیونٹی ورک کے کچھ گھنٹے پورے کرنے پر ہی ڈگری کا حصول ممکن ہے، اداروںمیںاس ٹریننگ کو بھی ڈگری سے مشروط کرانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ ڈگری جاری کرنے والے اداروں کو یہ سفارش بھیجی جا سکتی ہے کہ ڈگری کا اجرا اس ٹریننگ سے مشروط کیا جائے، لیکن اس سے بھی پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ بہت اچھے اور معیاری کورسز تیار کیے جائیں، جو اعلیٰ تعلیمی اداروں سے نکلنے والے طلبہ و طالبات کو ایک بہتر ذمہ دار شہری بنانے میں بحیثیت مرد یا عورت مدد گار ثابت ہوں۔
۶- تحفظ خواتین پر موجود قوانین پر عمل درآمد تو بلاشبہہ حکومت کی ذمہ داری ہے، لیکن اس پر مطلوبہ ٹھوس کام،اس کے نفاذ کا مطالبہ، اس کے لیے معاشرے ،حکومت اورقانون نافذکرنے والے اداروں پر دبائو ڈالنا، اور اس کے لیے پریشر گروپ کے طور پہ کام کر نا بھی بہت ضروری ہے۔
۷-تعلیم براے روزگار کے تصور کے بجاے تعلیم براے تربیت کو ہر سطح پر اجاگر کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ بالخصوص لڑکیوں کو عملی زندگی کے مطابق نہ صرف کیرئیر کونسلنگ فراہم کی جائے، بلکہ معاشرے میںملازمتوں میںلچک دار اوقات کار کے تصور کو بھی اُجاگر کیا جانا چاہیے۔
جس طرح طوفان اور زلزلے زمین کی جغرافیائی ہیئت کو بدل دیتے ہیں،اسی طرح موجودہ دور کی اس تبدیلی کے طوفانی جھٹکوں سے ہمارا معاشرہ بھی تیزی سے اپنی ہیئت کی تبدیلی (transformation ) کی طرف بڑھ رہاہے ۔ اس ساری صورت حال میں جن لوگوں کو اس طوفان اور اس کی شدت اور اس سے ہونے والے نقصان کا ادراک ہی نہیں، ان کے بارے میں توکچھ نہیں کہا جاسکتا ،لیکن جو اس کا ادراک رکھتے ہیں ، جن کو اللہ نے دانش مندی ،سوجھ بوجھ اور رہنمائی سے نوازاہے ،ان کے سامنے آج بھی بہت بڑا سوال ہے، اور کل بھی وہ جواب دہ ہیں کہ ان کی کیا استعداد تھی؟ اس کے مطابق انھوں نے کیاکیا ؟جو لوگ تبدیلی کے خواہاں ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس معاشرے کے تمام مسائل کے حل کے لیے الہامی ہدایات موجود ہیں اور وہ اس نقشۂ کار کے وارث ہیں کہ جس پر چل کر ’شر‘ کے بجاے ’خیر‘ کو لایا جاسکتا ہے، تو یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ میدان خالی نہ چھوڑیں اور اپنے کاموں کی منصوبہ بندی میں اپنی ترجیحات کا رُک کرضرورجائزہ لیتے رہیں کہ کیا ہو رہا ہے؟ کیا کرنا تھا؟ کیا نہیں ہوسکا؟ اور کس طرح بہتر انداز سے آیندہ پیش رفت کرنی ہے؟