تبدیلی ایک فطری عمل ہے ۔ صرف ایک عشرہ گزرتے ہی دنیا میں معاشرتی سطح پر کچھ نہ کچھ تبدیلی فطری طور پر محسوس ہونے لگتی ہے ۔ پھر ایک نسل کے بعد دوسری نسل نمایاں تبدیلی کے ساتھ آتی ہے ۔ تاہم ۸۰کے عشرے سے لے کر اب تک آنے والی تبدیلی، بلاشبہہ تبدیلی کی ایک بڑی لہرہے، جس میں ٹکنالوجی اور خصوصاً میڈیا نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔معلومات کی ایک یلغار ہے، جو ہر طرف سے ذہنوں تک پہنچ کر انھیں متاثر کر رہی ہے ۔ ہر کوئی یہ استعد اد نہیں رکھتا کہ معلومات کے اس سیلاب میں سے اپنی اقدار اور اپنی اصل (roots) کے مطابق چیزوں کو پرکھ اور چھانٹ کر الگ کرسکے ۔ پھر تیزرفتار گلوبلائزیشن کے اس عمل میں ہر طبقۂ فکرنے اپنی سمجھ، عقل اور استعداد کے مطابق اپنے کام کو آگے بڑھایا اور اپنے اہداف حاصل کرنے کی پوری کوشش کی ۔
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ کسی معاشرے کی تہذیب اس کی اقدار و روایات، اس کی اٹھان اور اس کا مزاج بنیادی طور پر عورت کے ہاتھوں تشکیل پاتا ہے اور آیندہ نسلوں تک منتقل ہوتا رہتا ہے۔عورت میںقدرتی طور پر وہ خصوصیات پائی جاتی ہیں، جو نہ صرف نسلوں کی آبیاری کرتی ہیںبلکہ ان پر بہت زیادہ اثرات بھی مرتب کرتی ہیں۔اسلامی تاریخ میں حضرت خدیجہؓ ، حضرت عائشہؓ اور بہت سی مسلم خواتین ہیں، جن کا معاشرے کے بنائو بلکہ قانون سازی میںبھی کلیدی کردار رہا ہے، جس کی نمایاں مثالیںحضرت عمرؓکے دورمیںنظر آتی ہیں ۔
۱۹۴۵ء میں اقوام متحدہ نے وجود میں آتے ہی انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے کمیشن بنائے۔ بعدازاں خواتین کے حقوق کی مناسبت سے متعدد عالمی کانفرنسیں اور عالمی معاہدے تشکیل دیے گئے۔ دسمبر ۱۹۷۹ء میں خواتین کو استحصال سے نجات دلانے کا معاہدہ طے کیا گیا، جس کے تحت عورت کے خلاف امتیازی سلوک و قوانین کے خاتمے اور عورت کو معاشی ، سماجی ، آزادی ، اسقاطِ حمل اور شادی ختم کرنے کے یکساں اختیارات جیسے حقوق پر بات کی گئی ہے۔اس معاہدے کی بنیاد انصاف کے بجاے مساوات پر رکھی گئی۔ پھر نہ صرف پہلے سے قائم تنظیموں اور اداروں نے ان عنوانات کو اپنے پروگراموں میں شامل کیا ، بلکہ بہت سی نئی این جی اوز کو یہ ایجنڈا دے کر ترقی پذیر ممالک میں سر گرم عمل کیا گیا ۔ اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے:
نیویارک میں ہونے والے یو این ویمن کے ایگزیکٹو بورڈ کے پہلے عمومی اجلاس ۹فروری۲۰۱۶ء میں یو این ویمن ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا:’’ ہمارا۲۰۳۰ء تک کے لیے مرکزی ایجنڈایہ ہوگا: ’جنسی تفریق سے بالاتر مساوات‘ اور ’خواتین کی خودمختاری‘ ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ پچھلے برسوںمیں عورت کے حوالے سے مخصوص ایجنڈے کے تحت سیمی نار اور کانفرنسیں بھی ہوئیں ۔ مختلف فلمیں اور دستاویزی پیش کشیں تیار کی گئیں، جو اپنی اثر پذیری کی وجہ سے افراد اور معاشرے تک اپنا پیغام کامیابی سے پہنچا رہی ہیں۔ اپنی کار کردگی کو بہتر بنانے کے لیے انھیں فراہمیِ فنڈ کی کوئی کمی نہیں اور تیسری طرف وہ ایوارڈز اور حوصلہ افزائی کی بھی حق دار ٹھیرتی ہیں۔ آغا خان فائونڈیشن کے این جی اوز ریسورس سینٹر کی رپورٹ کے مطابق: ’’پاکستان میں کام کرنے والی این جی اوز کو ۵۲کے قریب ادارے فنڈز فراہم کرتے ہیں، جن میں سے ایک چوتھائی کے دفاتر امریکا اور ۱۲ فی صد کے لندن میں ہیں ‘‘۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ: ’’۸۷فی صد فنڈز خواتین کے حوالے سے کام کرنے والی این جی اوز کو دیے جاتے ہیں ‘‘۔
اس وقت ملک میں ۵۰ہزار سے زائد این جی اوز کام کر رہی ہیں، جب کہ غیرملکی این جی اوز کی تعداد اس کے علاوہ ہے ۔ اگر چہ ان میں سے بعض کاکام صرف کاغذ کی بنیاد پر ہی ہے، لیکن کچھ ایسی بھی ہیں جو بلاشبہہ خدمتی کام انجام دے رہی ہیں۔ یہ صحت وصفائی و ماحولیات وغیرہ کے حوالے سے کاموں کا بیڑا اٹھانے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ ان میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد بھی ہیں اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے بھی، او ر بہت سے ایسے افراد اور گروہ بھی کام کررہے ہیںجن کا شمارواضح طور پر دائیں یا بائیں بازوئوں میںسے کسی سے نہیں، لیکن وہ خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں۔ البتہ خواتین سے متعلق ایشوز کے حوالے سے دیکھا جائے تووہاں پر ہمیں لبرل خیالات کے حامل افرادہی سرگرم نظر آتے ہیں، جو بہت منظم اور مضبوط تنظیموںاوراداروں کی شکل میں متحرک ہیں۔ اس کے برعکس اگر مذہبی شناخت رکھنے والی چند این جی اوزاس عنوان پرکام کر بھی رہی ہیں، تو وہ اپنے وزن کے اعتبار سے ان سے بہت کم اور چھوٹی ہیں ۔
’پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل اور قانون کا نفاذ‘ کے موضوع پر ملیحہ ضیا کئی برسوں سے کام کررہی ہیں۔ ان کے نزدیک ’غیرت کے نام پرقتل‘ کا مسئلہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں زیادہ گمبھیر ہے۔ خواتین کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیموں میں ’وار‘ نامی این جی او نے کاروکاری کے خلاف، اپنے دعوے کے مطابق ۲۶۰ مقدمات رپورٹ کیے ۔ دیگر مختلف گروپوں نے ’قتلِ غیرت‘، گھریلو تشدد ، کاروکاری ، جہیز ایک لعنت، اجتماعی زیادتی جیسے عنوانات کو موضوع بحث بناتے ہوئے ’تحریک حُریت ِ نسواں‘ کے کام کو آگے بڑھایا اور قانون سازی کے لیے بھی کا م کیا۔
پچھلے ۲۰برسوں میں ملک کی بڑی یونی ورسٹیوں میں ’ویمن ڈویلپمنٹ‘ اور مطالعہ صنفیات (Gender Studies) کے شعبے کھلے ہیں۔ ابتدائی زمانے میں اگر ان میں رجسٹریشن کم بھی رہی، تو گلگت، چترال اور تربت وغیرہ سے لا کر طالبات کو وظائف پر داخلے دیے گئے۔ یہاںپر بھی انھی نظریات اور انھی گروہوںکی برتری اور نمایاںکردار رہا،جنھوںنے ان عنوانات پر جم کر کام کیا تھا۔
آزاد اور تیز رفتار الیکٹرانک میڈیا بھی ’عورت کے موضوع‘ پر خاطر خواہ خدمات انجام دینے میں کسی سے پیچھے نہیں ہے ۔ عورت اور اس کی خود انحصاری، مردوں سے عورت کی بغاوت ، اپنے حقوق کا مطالبہ اور اس کے لیے ڈٹ جانا ، یعنی عورت بمقابلہ مرد، میڈیا کا مسلسل اور سلگتا ہوا موضوع چلا آرہا ہے ۔ تفریحی چینلوں پر آنے والے ہر پانچ میں سے چار پروگرام خواہ کوئی ڈراما ہو، بحث مباحثہ ہو یا صبح کے پروگرام، وہ اسی نقطۂ نظر کو آگے بڑھاتے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ چند ڈرامے سماجی مسائل پر بھی بنے، لیکن ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ اس وقت ملک میں لائسنس یافتہ ۱۲۰سے زائد ٹیلی ویژن چینل کام کررہے ہیں،جب کہ انٹرنیٹ ٹی وی اور ریڈیووغیرہ اس کے علاوہ ہیں۔ان میں بمشکل ہی کوئی گروہ ڈھونڈے سے ملتاہے، جو کسی درجے میں یہ کہے کہ بغاوت کے بجاے وہ قوم کو کوئی اچھا پیغام دینے یا ان کی تر بیت کی کوشش کر رہاہے۔
اسی طرح کم عمری کی شادی پر ’دختر‘ کے عنوان سے فلم بنی۔ اس فلم کی ڈائریکٹر نے پاکستان کے مشہور اداروں سے پڑھنے کے بعد کولمبیا یونی ورسٹی امریکا سے تعلیم حاصل کی اور پھر ینگ ویمن کرسچن ایسوسی ایشن سے وابستگی اختیار کی، اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے لیے کام کیا۔
پاکستان میں عورتوں کے چہروں کو تیزاب سے جلائے جانے پر ’سیونگ فیس‘ نام کی دستاویزی فلم بنی۔ دیگر فلموں کے علاوہ ’غیرت کے نام پہ قتل‘ پر دستاویزی فلم ’اے گرل ان دی ریور‘ بنائی گئی، جس نے آسکر ایوارڈ بھی حاصل کیا۔
اثرات : اس ساری صورت حال سے جو نتائج سامنے آئے وہ درج ذیل ہیں :
آج صورتِ حال یہ ہے کہ اگر حالات کا دھارا اسی رُخ پر بہتا رہا تو پاکستان میں مستقبل میں تعلیم یافتہ مردوں کی قلت ہوجائے گی۔ زیادہ تر یونی ورسٹیوں میںلڑکیوں کی تعداد ۷۰ فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ اس بات کا اندازہ درج ذیل شواہد سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ ۲۰۱۳ء اور۲۰۱۴ء میں کراچی یونی ورسٹی میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کے مقابلے میں ۷۳ فی صد تھی ، جب کہ این ای ڈی یونی ورسٹی میں ۵۰:۵۰کا تناسب تھا۔ پنجاب یونی ورسٹی میں زیادہ تر شعبوں میں نمایاں طور پر طالبات کی برتری دوتہائی سے زیادہ ہے۔ اسی طرح صرف آغاخان میڈیکل کالج کراچی میں ۲۰۱۳ء اور ۲۰۱۴ء میں مردوں اور عورتوں کا تناسب ۵۰:۵۰ پایاگیا، جب کہ سندھ میڈیکل یونی ورسٹی اورڈائو میڈیکل یونی ورسٹی میںیہ تناسب لڑکوں کے مقابلے میں ۷۰ اور ۷۳ فی صد طالبات ہیں۔
ہمارے یہاںکی لڑکیوں میں محنت سے آگے بڑھنے کا جذبہ پایاجاتاہے اور اس کے لیے مواقع بھی محدود ہیں۔ دوسری جانب افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ مردوں کے لیے محنت اور آگے بڑھنے کے راستے میںکوئی طبعی رکاوٹ موجود نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود اعلیٰ تعلیمی اداروںمیں ان کی تعداد کا گراف تیزی سے نیچے جارہا ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں کر ہوا ؟ اگر بگاڑ کی قوتیں کام کر رہی ہیں تو سدھار کا عندیہ رکھنے والوں کے لیے بھی میدان کھلا ہے ۔ اگر ایک طرف معاشی مضبوطی و خود انحصاری ہے، تو دوسری طرف مخلص اور مضبوط نظریات کی حامل قیمتی افرادی قوت بھی موجود ہے ۔ بھلا یہ کیوں کر ممکن ہے کہ کسی معاشرے میں کارو کاری ، قتلِ غیرت ، گھریلو تشدد ، عورتوں کی وراثت ہڑپ کرجانا، غیرموزوں نسبتیں اور شادیاں ، جہیز کو وراثت کا نعم البدل سمجھ کر وراثت کے تصو ر کو مٹادینا ، مہر کو صرف ایک کاغذی کارروائی بنا دینا ، لڑکیوں کے لیے ابتدائی تعلیم کے یکساں مواقع نہ ہونا ،تیزاب اور چولھا پھٹنے سے عورتوں کا جلناور اسی نوع کی دیگر ناانصافیاں اور زیادتیاں ہوں اور خیر کا جذبہ رکھنے والے اور اصلاحِ معاشرہ کے لیے کام کرنے والے گروہ تڑپ نہ اٹھیں؟ اگر عملی کام میں دشواریاں ہوں، تب بھی اس ظلم کے خلاف اٹھنے والی آوازوں میں سب سے بلند ان کی آواز کیوں نہ ہو ؟ سب سے سنجیدہ کام انھی کا کام کیوں نہ ہو ؟ کسی ایک گروہ کا مؤثر کام نہ کرنا، یااپنے حصے کا کام نہ کرنا کسی دوسرے گروہ کے لیے یہ جواز فراہم نہیں کرتا کہ وہ بھی اس میدان میں کام نہ کرے ۔
۱- یکسوئی کے ساتھ سوچ بچار اور غورو فکر کا عمل بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ قرآن میں بھی باربار اس عمل کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ صرف بھاگنے دوڑنے اور ہنگامی انداز سے کیا جانے والا کوئی کام، خواہ وہ استعداد سے چار گنا زیادہ کیوں نہ ہو، وہ نتیجہ نہیں لا سکتا جو ماضی ، حال اور مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے، سوچ بچار اور تجزیے کے بعد کیا جانے والا کام لاسکتا ہے۔ اسی لیے دنیا بھر میںبہت سی سیاسی پارٹیاں ، حکومتیں اور کمرشل ادارے بھی اپنے ہاں مراکز غوروفکر (R&D سنٹرز)کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں اور اس کے لیے بجٹ بھی مختص کرتے ہیں۔
دینی اداروں اور تنظیموں کو اور دینی وسیاسی پارٹیوں کو یا تو مشترکہ طور پر ورنہ کم از کم اپنے اپنے ہاں ایسے تھنک ٹینک بنانے چاہییں، جواپنے معاشرے کا بالخصوص اور عالمی دنیا کا با لعموم تجزیہ کریں، گمراہی کے گڑھے کی طرف لے جانے والے بنیادی نوعیت کے مسائل اور وجوہ کی نشان دہی کریں۔ اسی طرح ان اچھی صفات کا بھی ادراک کریں، جو اس معاشرے کو تبدیل کرنے میں جوہری کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ان سب سے پہلے اپنا بھی تجزیہ کریں اور اپنے رویے کی اصلاح پر بھی سوچیں کہ اگر ہم بحیثیت فرد یا بحیثیت گروہ کوئی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی کن کمزوریوں کو دُور کرنا ہو گا اور کن خوبیوں کو بہتری کے لیے استعمال کرنا ہو گا ۔ بالخصوص عورت کے حوالے سے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس معاشرے کے حقائق کیا ہیں ؟ کون سے مظالم ایسے ہیں ، جن کو کسی بھی صورت میں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، اور کون سے حقائق ایسے ہیں جو کسی اور مسئلے کی پیداوار ہیں، ان کو کیسے حل کیا جائے ؟ یہاں بھی رد عمل کے بجاے مثبت اور فعال سوچ اپنانے کی ضرورت ہے ۔
۲- معاشرے میںمثبت کام کرنے کا دعویٰ رکھنے والی تمام تنظیموں کو اپنی ممبر شپ کی شرائط میں بھی اپنے خاندان کی خواتین کے نان نفقہ، مہر اور وراثت وغیرہ جیسے حقوق کی ادایگی کو شامل کرنا چاہیے۔
۳- اس کے لیے فوری اور جلد نتیجہ دینے والے کاموں کو اہمیت دینا ہو گی تا کہ طوفان کا رُخ موڑا جائے ۔ جب تک یہ غوروفکر اور عمل و تدبیر کی فعال شکلیں نہیں بنیں گی تب تک طویل المیعاد منصوبہ نہیں سوچا جا سکے گا، کوئی دور رس منصوبہ نہیں بن پائے گا اور وہ ٹھوس اقدامات نہیں ہوسکیں گے، جن کے نتیجے میں ۱۰سال ،۲۰ سال اور ۵۰ سال بعد کوئی مطلوب تبدیلی آ سکتی ہو۔
۴- ہر سال طویل المیعاد منصوبے کی روشنی میں کچھ طلبہ و طالبات کوتخصص کے لیے رہنمائی دی جانی چاہیے کہ دیگر موضوعات کے علاوہ پاکستانی سماج اور عورت اور پاکستانی سوسائٹی کے حوالے سے کچھ اہداف خصوصاً طے کر کے تخصص حاصل کرایا جانا چاہیے۔
۵-مسائل کا حل ڈھونڈنے اور قوانین بنانے سے پہلے آگاہی اور تربیت کا مرحلہ ہوتا ہے۔ اگر کسی معاشرے میں اس کا ہی فقدان ہو تو وہاں قانون کچھ نہیں کر سکتا ۔ یہ ذمہ داری بھی انھی کی ہے کہ جو قانون کی اہمیت کو بھی سمجھتے ہیں۔ لہٰذا وہ اعلیٰ تعلیمی ادارے ، ریسرچ سنٹر اور وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد، جو سمجھتے ہوں کہ عورت کے عنوان اور اس کی مظلومیت کا سہارا لے کر اس معاشرے کی ترتیب کو اُلٹ پلٹ کیا جا رہا ہے، اس کے ذریعے خاندانی نظام پر کاری ضرب لگائی جا رہی ہے، ان صالح فطرت لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور صنفی موضوعات پر مطالعے کی نفی کے بجاے اس کو اپنی اقدار کی بنیاد پر استوار کریں ۔ یہ مطالعے صرف خواتین کی ترقی کے موضوع پر نہ ہوں، بلکہ اس کا موضوع مجموعی انسانی ترقی ہو، جہاں مرد اور عورت دونوں کی ترقی اور تربیت کے لیے کام کیا جائے۔ عورت کی ترقی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مرد کی ترقی نظر انداز کی جائے بلکہ دونوں کو ترقی کی طرف گامزن کرنا ضروری ہے ۔ اس سلسلے کی ایک کوشش یہ ہو سکتی ہے کہ کوئی ایسا نصاب تیار کیا جائے، جہاں خاندانی استحکام کے حوالے سے عورت اور مرد دونوں کو ان کی سماجی ذمہ داریوں سے آگاہی دی جائے (جو بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی نظام میں مفقود ہے)۔ اپنے فرائض اور مخالف صنف کے حقوق بتائے جائیں ۔ ان کی بہتر بجاآوری کے لیے بیداری پیدا کی جائے۔
اس قسم کی توجہ مبذول کرانے کے مختلف طریقے ہو سکتے ہیں، مثلاً جس طرح کمرشل اور دعوتی ادارے مختلف عنوانات پر ورکشاپس کراتے ہیں، ان عنوانات پر بھی پروگرام ہوسکتے ہیں، یا جس طرح کمیونٹی ورک کے کچھ گھنٹے پورے کرنے پر ہی ڈگری کا حصول ممکن ہے، اداروںمیںاس ٹریننگ کو بھی ڈگری سے مشروط کرانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ ڈگری جاری کرنے والے اداروں کو یہ سفارش بھیجی جا سکتی ہے کہ ڈگری کا اجرا اس ٹریننگ سے مشروط کیا جائے، لیکن اس سے بھی پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ بہت اچھے اور معیاری کورسز تیار کیے جائیں، جو اعلیٰ تعلیمی اداروں سے نکلنے والے طلبہ و طالبات کو ایک بہتر ذمہ دار شہری بنانے میں بحیثیت مرد یا عورت مدد گار ثابت ہوں۔
۶- تحفظ خواتین پر موجود قوانین پر عمل درآمد تو بلاشبہہ حکومت کی ذمہ داری ہے، لیکن اس پر مطلوبہ ٹھوس کام،اس کے نفاذ کا مطالبہ، اس کے لیے معاشرے ،حکومت اورقانون نافذکرنے والے اداروں پر دبائو ڈالنا، اور اس کے لیے پریشر گروپ کے طور پہ کام کر نا بھی بہت ضروری ہے۔
۷-تعلیم براے روزگار کے تصور کے بجاے تعلیم براے تربیت کو ہر سطح پر اجاگر کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ بالخصوص لڑکیوں کو عملی زندگی کے مطابق نہ صرف کیرئیر کونسلنگ فراہم کی جائے، بلکہ معاشرے میںملازمتوں میںلچک دار اوقات کار کے تصور کو بھی اُجاگر کیا جانا چاہیے۔
جس طرح طوفان اور زلزلے زمین کی جغرافیائی ہیئت کو بدل دیتے ہیں،اسی طرح موجودہ دور کی اس تبدیلی کے طوفانی جھٹکوں سے ہمارا معاشرہ بھی تیزی سے اپنی ہیئت کی تبدیلی (transformation ) کی طرف بڑھ رہاہے ۔ اس ساری صورت حال میں جن لوگوں کو اس طوفان اور اس کی شدت اور اس سے ہونے والے نقصان کا ادراک ہی نہیں، ان کے بارے میں توکچھ نہیں کہا جاسکتا ،لیکن جو اس کا ادراک رکھتے ہیں ، جن کو اللہ نے دانش مندی ،سوجھ بوجھ اور رہنمائی سے نوازاہے ،ان کے سامنے آج بھی بہت بڑا سوال ہے، اور کل بھی وہ جواب دہ ہیں کہ ان کی کیا استعداد تھی؟ اس کے مطابق انھوں نے کیاکیا ؟جو لوگ تبدیلی کے خواہاں ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس معاشرے کے تمام مسائل کے حل کے لیے الہامی ہدایات موجود ہیں اور وہ اس نقشۂ کار کے وارث ہیں کہ جس پر چل کر ’شر‘ کے بجاے ’خیر‘ کو لایا جاسکتا ہے، تو یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ میدان خالی نہ چھوڑیں اور اپنے کاموں کی منصوبہ بندی میں اپنی ترجیحات کا رُک کرضرورجائزہ لیتے رہیں کہ کیا ہو رہا ہے؟ کیا کرنا تھا؟ کیا نہیں ہوسکا؟ اور کس طرح بہتر انداز سے آیندہ پیش رفت کرنی ہے؟