جولائی ۲۰۱۶

فہرست مضامین

ہمارے معاشی مسائل اور بجٹ

پروفیسر خورشید احمد | جولائی ۲۰۱۶ | اشارات

Responsive image Responsive image

جمہوری معاشرے میں سالانہ قومی بجٹ اور پارلیمنٹ کا بجٹ سیشن بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس موقعے پر قوم کو ملک کی معاشی حالت، اس کے مالی وسائل اور ان کے استعمال کی صورتِ حال، حکومت کی معاشی اور مالیاتی پالیسیوں اور ترجیحات کی کیفیت سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ حال اور مستقبل کے سیاسی، دفاعی اور ہرقسم کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت اور اس کے استعمال کی منصوبہ بندی کیا ہے؟ اس پر بحث و گفتگو کرنے اور قوم اور ملک کے معاشی اور اجتماعی مقاصد اور اہداف کی صورت گری کرنے کا موقع میسر آتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے اپنے اقتدار کے تین سال مکمل کرلیے ہیں اور یہ چوتھا بجٹ اس حکومت کی تین سال کی کارکردگی کے جائزے کا بہت ہی مناسب موقع ہے۔

ویسے تو جمہوری ممالک میں نئی حکومت کے پہلے ۱۰۰دن ہی اس کی کارکردگی اور سفر کے رُخ کو سمجھنے کے لیے کافی سمجھے جاتے ہیں لیکن تین سال کی مدت تو ہراعتبار سے حکومت کی صلاحیت ِکار اور مستقبل کے باب میںا س سے توقعات کے بارے میں ایک معروضی راے قائم کرنے کے لیے کافی مدت ہے۔ واضح رہے کہ دنیا کے بیش تر ممالک میں تو حکومت کی ٹرم چار سال ہی ہوتی ہے جس کی سب سے اہم مثال خود امریکا ہے لیکن چونکہ ہمارے دستور میں یہ مدت پانچ سال ہے، اس لیے اس کے دوسرے نصف کے آغاز کو ہراعتبار سے جائزے اور محاسبے کے لیے ایک مناسب میقات تصور کیا جانا چاہیے۔

جیساکہ ہم نے اشارہ کیا ، قومی بجٹ صرف گذشتہ سال کے دوران حکومت کے زیرتصرف مالی وسائل کے حصول اور خرچ کا ایک میزانیہ اور اگلے سال کے لیے وسائل اور ان کے استعمال کا ایک پروگرام ہی نہیں ہوتا بلکہ دراصل ان مالی اعداد و شمار کے آئینے میں حکومت کی معاشی منزل اور وژن، پالیسیوں اور حکمت عملی، ترجیحات اور اہداف کی ایک معتبر اور مکمل تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔

بجٹ سے پہلے سالانہ معاشی جائزہ پیش کیا جاتا ہے جو گزرے ہوئے سال کے معاشی حالات، طے شدہ اہداف کے حصول یا حصول میں ناکامی اور معاشی اور مالی پالیسیوں کی کامیابیوں اور ناکامیوں کو پیش کرتا ہے، اور جس کے اسٹیٹ بنک کی سہ ماہی اسٹیٹ آف دی ایکونومی رپورٹوں کے ساتھ مطالعے سے ملک کی تاریخ کے پس منظر میں گزرے ہوئے سال کی پوری صورتِ حال کو سمجھا جاسکتا ہے۔ پھر اس کی روشنی میں نئے سال کا بجٹ اور سالِ گذشتہ کے اخراجات اور آمدنیوں کی پوری تفصیل کئی ہزار صفحات پر پھیلی ہوئی دستاویزات کی شکل میں     قومی اسمبلی، سینیٹ اور قوم کے سامنے پیش کی جاتی ہیں تاکہ قوم، ملک کے معاشی، سیاسی اور    علمی حلقے، میڈیا اور متاثر ہونے والے تمام عناصر اپنی اپنی راے کا اظہار کرسکیں۔ سینیٹ اگرچہ بجٹ منظور نہیں کرتا لیکن اسے دو ہفتے کے اندر اپنی سفارشات پیش کرنے کا اختیار ہے۔قومی اسمبلی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان سب آرا کی روشنی میں بجٹ کو آخری شکل دے۔ اس کے تین مرحلے ہوتے ہیں، یعنی بجٹ کے پیش ہونے کے بعد اس پر عام بحث۔ پھر متعین اخراجات پر احتساب جنھیں کٹوتی کی تحریکات (Cut Motions) کہا جاتا ہے اور پھر بجٹ کی منظوری۔ کٹوتی کی تحریک بھی اتنا اہم مرحلہ ہوتا ہے کہ اگر حزبِ اختلاف کی طرف سے صرف ایک تحریک منظورہوجائے تو حکومت کو مستعفی ہونا پڑتا ہے اور بجٹ کی ازسرِنو تشکیل ضروری ہوجاتی ہے۔

دنیا کے بیش تر جمہوری ممالک میں بجٹ سازی کا کام چار سے چھے مہینوں پر پھیلا ہوا ہوتا ہے تاکہ ہرسطح پر معاشی اور مالی معاملات کا گہرائی میں جائزہ لیا جاسکے۔ امریکا میں اسمبلی اور سینیٹ کی متعلقہ کمیٹیاں سال بھر کام کرتی ہیں۔ برطانیہ میں یہ عمل بجٹ پیش ہونے سے تین مہینے پہلے شروع ہوجاتا ہے اور برطانیہ اور نصف سے زیادہ جمہوری ممالک میں پارلیمنٹ میں بجٹ پیش ہونے کے بعد پارلیمنٹ اس پر چار سے آٹھ ہفتے گفتگو کرتی ہے اور پھر افہام و تفہیم کے ساتھ اسے متفقہ طور پر یا اکثریت کی بنیاد پر منظور کیا جاتا ہے۔

بجٹ سازی کا عمل جس سنجیدگی، ملک گیر بحث و گفتگو اور ان تمام عناصر کے درمیان جو کسی نہ کسی درجے میں متاثر ہورہے ہوں، معنی خیز افہام و تفہیم کے جس عمل کا متقاضی ہے، بدقسمتی سے اس کا پاکستان میں کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا۔ پارلیمنٹ خود بھی اپنا دستوری کردار ادا کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہے اور تمام ہی حکومتوں نے بجٹ کو محض ایک رسم اور حکومت کی مرضی کو آمرانہ انداز میں مسلط (bulldoze) کرنے کی روایت قائم کر دی ہے۔ مسلم لیگ (ن) جب حزبِ اختلاف میں تھی تو پیپلزپارٹی کی روش پر سیخ پا تھی اور اس رویے کو ننگی آمریت کہتی تھی، اب اقتدار میں ہے تو اس سے بھی بدتر رویہ اختیار کرنے میں وہ کوئی باک محسوس نہیں کرتی۔ جس کی بدترین مثال اس سال پیش کی گئی ہے۔

بجٹ کی بے توقیری

سینیٹ کی سفارشات میں سات آٹھ سال سے مسلسل یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ سالانہ معاشی جائزہ بجٹ سے کم از کم ایک ہفتہ پہلے شائع ہو تاکہ اس کا گہرائی سے مطالعہ کیا جاسکے۔ ۲۴گھنٹے پہلے لانا ایک مذاق ہے۔ موجودہ وزیرخزانہ ہمارے ساتھ اس مطالبے میں پورے    جوش و خروش سے شریک تھے مگر ان کی اپنی حکومت کے چوتھے بجٹ کے موقعے پر بھی معاشی جائزہ وہی ایک دن پہلے شائع کیا گیا ہے۔ اس طرح ان کے دور میں بھی ہرسال اسی طرح بجٹ کے ساتھ اضافی اخراجات کی پوری کتاب آرہی ہے جس طرح پہلے آتی تھی، جو دستور اور جمہوری اصولوں کی روح کے خلاف ہے اور دستور کی کسی بہت ہی خاص مجبوری کے حالات کے لیے ایک گنجایش کا صریح غلط استعمال ہے۔ اس سال میں یہ اضافی اخراجات ۲۶۱؍ارب روپے پر پھیلے ہوئے ہیں اور لگژری گاڑیوں کی خریداری بھی اس کا حصہ ہے۔ بجٹ کی تیاری کے دوران جس نوعیت کی مشاورت ضروری ہے، اس کا اہتمام نظر نہیں آتا۔ سب سے  افسوس ناک صورت حال بجٹ کے پیش کیے جانے کے ساتھ وہ سلوک ہے جو اس کے اور پارلیمنٹ کے ساتھ کیا گیا ہے۔ سینیٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے کہ سینیٹ کی سفارشات کی منظوری کے وقت وزیرخزانہ بحث میں موجود نہیں تھے اور ان کی اختتامی گفتگو کے بغیر سینیٹ کو اپنی سفارشات بھیجنا پڑیں۔ قومی اسمبلی میں نصف درجن سے زائد مواقعے پر بجٹ اجلاس کو کورم نہ ہونے کے باعث ملتوی کرنا پڑا۔وزیرخزانہ بحث کے تین چوتھائی وقت اسمبلی میں موجود نہ تھے۔ سرکاری ارکان تک شکوہ سنج تھے کہ انھیں کوئی سننے والا نہیں ہے اور ایک مسلم لیگی ایم این اے نے تو اپنی تقریر پھاڑ دی اور تقریر کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ نہ کوئی وزیر ہے اور نہ کوئی سننے والا ۔ اخباری اطلاع ہے کہ اسمبلی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سرکاری جماعت کے ۶۰ سے زیادہ ارکان نے احتجاجاً واک آئوٹ کیا اور ان کو مناکر واپس لانے کی رسم بھی ادا کرنا پڑی۔ افسوس صد افسوس!  ع 

جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی

بجٹ اور بجٹ سیشن کی اتنی بے توقیری کی کوئی مثال خود ہماری اپنی پارلیمنٹ کی تاریخ میں موجود نہیں۔ ایک موقعے پر تو حکومت اور حزبِ اختلاف کے تمام حاضر ارکان کی تعداد صرف نو بیان کی گئی ہے۔

سیشن میں کیے جانے والے مباحث کا جائزہ لیا جاتا ہے تو افسوس ہوتا ہے کہ دو یا زیادہ سے زیادہ تین تقاریر کو تسلی بخش قرار دیا جاسکتا ہے۔ ستم ہے کہ خود حکومت کے وزرا کی فوج ظفرموج بھی بجٹ کی تشریح یا دفاع کرتی نظر نہیں آتی۔ کوئی ایک تقریر بھی سرکاری بنچوں کی طرف سے ایسی نہیں ہوئی جسے قابلِ ذکر قرار دیا جاسکے۔ رہا میڈیا تو وہی چار پانچ وزیر اور ایک مشیر ہیں جو گھسی پٹی باتیں ایوان میں اور میڈیا پر دہراتے رہے ہیں اور اصل ایشوز پر کسی کو کوئی مدلل بات کرنے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی۔ حزبِ اختلاف کی تقاریر کا معیار بھی تسلی بخش نہیں قرار دیا جاسکتا حالانکہ یہ حکومت اور اس کی پوری کارکردگی پر گرفت کا بہترین موقع تھا۔ خود حکومت کا رویہ بڑا تشویش ناک رہا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم (جو خود بھی پارلیمنٹ میں بہت کم رونق افروز ہوتے تھے) کی عدم موجودگی کے سبب حکومت کا کوئی سرپیر ہی نہیں ہے۔ بجٹ بنانے میں بھی سارا بوجھ وزارتِ خزانہ پر ہے حالانکہ اس میں پلاننگ کمیشن اور تجارت، معاشی اُمور، بجلی، گیس اور پٹرولیم، زراعت، تعلیم، صحت، لیبر وغیرہم کا بھی ایک نمایاں کردار ہونا چاہیے ۔ اس سال خصوصیت سے جو صورتِ حال سامنے آئی ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ بجٹ سازی اور اس کے دفاع میں ان کا کوئی دخل نہیں۔ حتیٰ کہ خوراک کے لیے خودانحصاری کے حصول کے لیے جو نئی وزارت بڑے طمطراق سے قائم کی گئی تھی، اس تک کا دُور دُور کوئی پتا نظر نہیں آتا۔ حکومت کا حال یہ ہوگیا ہے کہ    ؎

رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے

نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

ہمیں دُکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمیں اتنے سپاٹ، بے روح، وژن سے محروم اور سطحیت کے شکار بجٹ کی توقع وزیرخزانہ اور ان کی ٹیم سے نہ تھی___ ۲۰۱۳ء کے انتخابات کے موقعے پر مسلم لیگ کا تو دعویٰ ہی یہ تھا کہ ہمارے پاس پروگرام، تجربہ اور لائق ٹیم ہے اور ہم چھے مہینے میں ملک کی قسمت کو بدل کر رکھ دیں گے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تیسرا سال ختم ہوگیا ہے اور پرنالہ وہیں کا وہیں ہے۔ عوام کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے، خوش حالی نایاب ہے، اور غربت بڑھ رہی ہے، روزگار معدوم ہے، قرضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے اور معیشت کا پہیہ ہے کہ گردش میں نہیں آرہا۔ مالی سال ۱۶-۲۰۱۵ء میں زراعت پچھلی دو دہائیوں میں پہلی مرتبہ نہ صرف یہ کہ ترقی کا  اپنے ہدف حاصل نہ کرسکی بلکہ عملاً منفی پیداوار کا منظر پیش کر رہی ہے اور گذشتہ سال کی پیداوار کے مقابلے میں پیداوار کا کُل حجم کم ہوگیا ہے۔ معاشی ترقی کی شرحِ نمو میں زراعت کا کردار منفی رہا ہے۔ اسی طرح برآمدات جو زرمبادلہ کے حصول کا اہم ترین ذریعہ ہیں، وہ تین سال سے جمود کا شکار ہیں اور   جون ۲۰۱۶ء میں سالانہ برآمدات کا حجم ۲۰۱۳ء کی برآمدات سے کم ہے۔ یہی معاملہ بیرونی سرمایہ کاری کا ہے جو ساڑھے تین بلین ڈالر سالانہ سے کم ہوکر صرف ایک بلین ڈالر پر آگئی ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ یہ حالات غیرمتوقع طور پر رُونما ہوگئے ہوں۔ ان تینوں برسوں کے اکانومک سروے دیکھ لیجیے، اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی سہ ماہی رپورٹوں کا مطالعہ کرلیجیے۔ ورلڈبنک اور آئی ایم ایف کی تبصراتی رپورٹوں  سے رجوع کر لیجیے۔ کہیں کھلے الفاظ میں ، کہیں  اشارتاً معیشت کی مخدوش صورتِ حال اور خصوصیت سے زراعت، برآمدات کا جمود، توانائی کی قلّت کی تباہ کاریاں، پیداواری inputs کی قیمتوں کے اضافے، قوتِ خرید کی کمی، قرضوں کے بوجھ میں مسلسل اضافہ، بیرونی سرمایہ کاری میں کمی اور قومی بچت کے غیرتسلی بخش رجحانات، تعلیم اور صحت کی زبوں حالی، غیرمنظم اور غیرمتوازن شہرکاری سب کا ذکر موجود ہے لیکن حکومت آزاد معیشت (liberalization) اور گلوبلائزیشن کے عشق میں ایک گھسی پٹی لکیر پیٹتی رہی اور اب بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ کبھی کسان پیکج کی بات کرتی ہے اور کبھی برآمدات کے لیے نئے محرکات کی۔ بلاشبہہ ان دونوں میدانوں میں فوری اقدامات کی ازحد ضرورت ہے لیکن مسئلہ پوری معاشی پالیسی، حکمت عملی کی ترجیحات، وسائل کے منصفانہ استعمال اور اچھی حکمرانی کے قیام کا ہے۔ بحران صرف زراعت اور برآمدات کا نہیں بحران پوری معاشی پالیسی اور تمام ہی اہم ادارات کی ناکامی اور خستہ حالی کا ہے۔ جب تک پالیسی کے جملہ پہلوئوں کی اصلاح کی فکر نہ کی جائے اور جو structural اور اداراتی بحران ہے، اس کو درست نہ کیا جائے، حالات میں کسی بڑی تبدیلی اور عوام اور ملک کی مشکلات دُور ہونے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ ان سب پر مستزاد ملک گیر کرپشن اور قومی دولت کو قوم کی فلاح کے لیے استعمال کرنے کے بجاے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کا مسئلہ ہے جو معیشت کو گھن کی طرح کھا رہا ہے اور عوام اور حکمرانوں کے درمیان دُوریاں بڑھا رہا ہے۔

معاشی کارکردگی کا جائزہ

بجٹ اور حکومت کی معاشی کارکردگی کو جانچنے کے کم از کم تین معیار ہوسکتے ہیں۔ سب سے آسان اور سطحی معیار یہ ہے کہ سابقہ بجٹ میں جو اہداف رکھے گئے تھے وہ کہاں تک پورے ہوئے ہیں اور کہاں گاڑی مطلوبہ رفتار سے نہیں چل سکی؟ اس پہلو سے آپ جائزہ لیں تو ۲۰واضح اہداف رکھے گئے تھے جن میں سے نو کے بارے میں حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ حاصل کرلیے ہیں ، جب کہ ۱۱ میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی___ خصوصیت سے زراعت جس کا قومی پیداوار میں حصہ ۲۱ فی صد اور ملک کی لیبر فورس میں ۴۵ فی صد ہے۔ برآمدات اور بیرونی سرمایہ کاری کے اہداف بھی پورے نہیں ہوسکے۔ معیشت میں مجموعی نمو کی شرح میں گو سالِ گذشتہ کی شرح سے زیادہ اضافہ ہوا ہے لیکن ہدف سے معیشت بہت پیچھے رہی ہے، یعنی ۵ئ۵ فی صد متوقع اضافے کے مقابلے میں اضافہ  ۷ئ۴ فی صد ہے جس کے بارے میں بھی آزاد معاشی ماہرین کی ایک تعداد کا خیال ہے کہ اصل اضافہ اس سے بہت کم ہے، یعنی سالِ گذشتہ کے اضافے ہی کے لگ بھگ ہے، یعنی ۱ئ۳ فی صد۔ البتہ افراطِ زر، بیرونی ذخائر اور بجٹ کے خسارے کے باب میں حکومت کی کوششیں نسبتاً مؤثر رہی ہیں۔ گو وہاں بھی بہت سے سوالات ہیں جو نتائج کو مخدوش بنادیتے ہیں، مثلاً بجٹ خسارے کے اعداد و شمار میں گردشی قرضوں (circular debt) کے ساڑھے تین سو ارب کو شامل نہ کرنا اور اسی طرح اڑھائی ارب کے نجی شعبے کے برآمدات کے باب میں refunds کو تین مہینے میں  واپس کردینے کے وعدوں کے باوجود دو سال سے زیادہ لٹکاکر رکھنا کسی صورت میں بھی صاف شفاف قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سب سے کامیاب سیکٹر سروسز کا ہے اور اس میں بھی بنکاری سیکٹر، کاروں کا اور آٹو موبائل (automobile) سیکٹر اور سیل فون اور متعلقہ آئی ٹی سیکٹر نمایاں ہیں۔ سروسز سیکٹر کی کامیابی کی ایک وجہ سرکاری اخراجات، تنخواہوں اور پنشن کے اضافے وغیرہم بھی ہیں جو مالی اور حسابیاتی حد ( Accounting terms) تک تو معیشت کی ترقی اور پیداوار میں اضافے کا ذریعہ بنتے ہیں لیکن عملاً ملک کے پیداواری عمل اور پیدا آوری صلاحیت کو بڑھانے میں ان کا حصہ محلِ نظر ہے۔

بنکاری کے شعبے میں تیزرفتاری سے اضافہ ہوا ہے لیکن بنکوں نے جو قرضے دیے ہیں ان کا ۹۰ فی صد مرکزی اور صوبائی حکومتوں اور سرکاری اداروں نے لیا ہے، جب کہ نجی شعبے میں ان کے ذریعے سرمایہ کاری کا حصہ بمشکل ۱۰ فی صد رہا ہے جو تشویش ناک ہے۔ بنکوں کے اپنے منافع میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے اور بنکوں کے اعلیٰ افسران کی تنخواہوں، بونس اور مراعات میں محیرالعقول اضافے دیکھے جاسکتے ہیں لیکن بنکوں میں عام کھاتہ داروں کو ان کے جائز حق سے بھی بُری طرح محروم رکھا گیا ہے جس کے نتیجے میں امیر امیرتر ہو رہا ہے اور غریب غریب تر۔ بنک حکومت کو قرضے دے کر خطیر رقم سود کے باب میں کما رہے ہیں۔ بنک سے عام کھاتہ دار افراطِ زر کی شرح کے بھی نیچے اپنا حصہ وصول کر رہے ہیں جس کے معنی ہیںکہ حقیقی معنوں میں تو وہ اپنے اصل زر میں بھی کمی کا بوجھ اُٹھا رہے ہیں۔ بنکوں کا اپنوں کو نوازنے کے باب میں کیا کردار ہے؟ اس کا اس رپورٹ سے اندازہ کریں جو روزنامہ ایکسپریس ٹربیون میں ۲۹فروری ۲۰۱۶ء کو شائع ہوئی ہے، یعنی  نیشنل بنک آف پاکستان کے صدر کی تنخواہ اور بونس وغیرہ میں سال کے دوران (۲۰۱۵ئ) میں ۵۱فی صد اضافہ ہوا ہے، جب کہ اس زمانے میں بنک کے حصص میں مارکیٹ میں ۲۲ فی صد کمی ہوئی ہے۔ بنک کے صدر نے اس سال ۷کروڑ ۱۱لاکھ روپے مشاہرہ وصول کیا جو سالِ گذشتہ (۲۰۱۴ئ) سے ۲کروڑ ۳۹ لاکھ زیادہ تھا۔ اسی طرح یونائٹیڈ بنک کے صدر اور سی ای او کو ۲۰۱۵ء میں جو ادایگی کی گئی وہ ۱۲کروڑ۷۳لاکھ روپے تھی۔ حبیب بنک کے سربراہ کے مشاہرے میں ۳ئ۴۱ فی صد اضافہ ہوا اور ان کو ۷کروڑ ۵۱لاکھ کی ادایگی کی گئی۔ واضح رہے کہ اس سال حبیب بنک کو ۳۵؍ارب روپے کا منافع ہوا جو سالِ گذشتہ سے ۱۴فی صد زیادہ تھا، جب کہ معیشت کی عمومی رفتار ترقی سرکاری دعوے کے مطابق ۷ئ۴ فی صد تھی۔ مسلم کمرشل بنک کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اس کے سربراہ کا مشاہرہ ۸کروڑ ۴۷لاکھ ادا کیا گیا جو سالِ گذشتہ سے ۹ئ۱۴ فی صد زیادہ تھا، حالانکہ اس سال کے دوران اس بنک کے حصص کی قیمت میں بھی ۲۹ فی صد کمی ہوئی۔ پانچویں بڑے بنک الائیڈ بنک کا معاملہ بھی مختلف نہیں۔ اس کے سربراہ کا مشاہرہ ۴کروڑ ۶۳ لاکھ تھا جو سالِ گذشتہ سے ۷ فی صد زیادہ تھا۔

معیشت کے جن جن گوشوں میں تھوڑی بہت مثبت تبدیلی ہوئی ہے، اس کا کریڈٹ حکومت کو ضرور دیا جانا چاہیے لیکن اس کے ساتھ تصویر کے دوسرے رُخ کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے، تاکہ مجموعی طور پر صحیح صورتِ حال قوم کے سامنے آسکے اور حالات کی اصلاح کے لیے مناسب حکمت عملی بنائی جاسکے۔ سابقہ دو برسوں کی کارکردگی کے پس منظر میں اس سال کا جائزہ لیا جائے تو وزیرخزانہ کی اس بات میں ایک حد تک صداقت ہے کہ مجموعی طور پر معیشت کے استحکام کے ہدف کی طرف جزوی پیش رفت ہوئی ہے۔ گو بجٹ کے اخراجات پر، خصوصیت سے انتظامی اخراجات پر کوئی مؤثر گرفت نہیں کی جاسکی اور حسبِ سابق غیر ترقیاتی اخراجات میں بجٹ کے ہدف سے زیادہ اضافہ ہوا ہے اور ترقیاتی مصارف میں کمی۔ ترقیاتی بجٹ کی حد تک اصل allocations طے شدہ بجٹ کا ۶۰ فی صد ہوسکے ہیں۔ قرضوں، قرضوں پر سود کی ادایگی اور حد پوری کرنے والے قرضوں کی واپسی کی مد میں سب سے زیادہ اخراجات ہوئے ہیں جو اَب دفاع کے کُل بجٹ کا بھی تقریباً دگنا ہوکر قومی خزانے پر سب سے بڑا بوجھ ہیں۔ قرض لے کر قرض ادا کرنے کی رِیت قائم کی گئی ہے، اور جو بھی قرضے حاصل ہوئے ہیں بدقسمتی سے ان کا بڑا حصہ انتظامی اخراجات میں عدم توازن کو کم کرنے اور قرضوں اور سود کی ادایگی کی نذر ہوگیا ہے۔ ترقیاتی مقاصد کے لیے ان کا استعمال واجبی ہی رہا ہے۔ قرض لینے کا یہ طریقہ معاشی اور سیاسی دونوں اعتبار سے تباہ کن ہے اور اسے بجٹ خسارے کا پیٹ بھرنے کا ذریعہ تو ضرور قرار دیا جاسکتا ہے مگر ملک کی ترقی میں اس کا کوئی حصہ نظر نہیں آتا۔ اس لیے ایسے قرضوں کو معاشیات کے جدید مباحث میں Odius Loansکہاجارہا ہے۔ بدقسمتی سے گذشتہ آٹھ سال میں ہم نے ترقیاتی قرضوں کو کریہہ، ناگوار اور قابلِ نفرت قرضوں میں تبدیل کر دیا ہے جن کے مثبت اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں اور منفی اثرات میں اضافہ ہو رہا ہے اور ملک قرضوں کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ قرضوں کی یہ ’فاقہ مستی‘ رنگ دکھا رہی ہے اور ہم مصر ہیں کہ اس زہر کو جو صحت کو تباہ کر رہا ہے دوا سمجھ کر جاری رکھیں۔

وزیرخزانہ نے ضمانت دی تھی کہ SRO's کا سلسلہ ختم کیا جائے گا اور ٹیکس سے چھوٹ کے نظام کو ختم کر دیا جائے گا لیکن تین سال مکمل ہوجانے کے باوجود اور بظاہر SRO's پر کچھ تحدیدات لگانے کے باوصف ٹیکس چھوٹ کا سلسلہ جاری رہا ہے اور سالِ گذشتہ میں بھی ۵ئ۳۹۴؍ارب روپے ٹیکس میں چھوٹ کی نذر ہوگئے ہیں۔ زراعت کو تو ٹیکسوں کے بوجھ تلے دم توڑنے پر مجبور کیا جاتا رہا لیکن آٹوموبائل کے سیکٹر کو سالِ گذشتہ میں بھی ۵ئ۲۲ ارب روپے کی چھوٹ ( waiver)  دی گئی۔ نئے سرکلر قرضوں کے پہاڑ بلند ترہورہے ہیں اور ان کا ان کی مکمل شکل میں بوجھ اب بھی پردۂ خفا میں ہے لیکن مختلف اعلانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ۲۵۰ سے ۳۰۰؍ارب کے پیٹے میں ہیں۔ اور یہ سب اس ۵۰۰؍ارب کی ادایگی کے بعد ہے جو نوازحکومت نے اقتدار میں آتے ہی لوڈشیڈنگ سے نجات کے نسخۂ کیمیا کے نام پر قواعد و ضوابط کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے  بڑی عجلت میں ادا کر دیے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ بجلی کی پیداوار اور لوڈشیڈنگ میں کمی پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔

بجٹ میں ٹیکس کی وصولی کے لیے جو ہدف رکھا گیا تھا اسے قریب قریب پورا کرلیا گیا ہے جو ایک قابلِ قدر چیز ہے لیکن یہ سوال پھر بھی ہے کہ یہ سب کچھ کس قیمت پر ہوا ہے۔ مقصد تو یہ تھا کہ جو لوگ ٹیکس نہیں دے رہے ہیں ان کو ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے، اور ٹیکس چوری کو    آہنی گرفت کے ذریعے ختم کیا جائے لیکن ٹیکس چوری کا بازار اسی طرح گرم ہے اور محصولات وغیرہ کی جو رقم وصول ہورہی ہے وہ بمشکل اس کا نصف ہے جو صرف موجودہ قوانین کے ٹھیک ٹھیک اطلاق سے ملنی چاہیے۔ معتبر اندازوں کے مطابق جن میں ورلڈبنک کے اندازے بھی شامل ہیں، وصول کی جانے والی رقم کا ۸۰ فی صد سالانہ چوری کی نذر ہو رہا ہے جو ۳۰؍کھرب روپے کے   لگ بھگ ہے۔ اس وقت ملک میں کم از کم ۴۰لاکھ افراد اور ادارے ہیں جنھیں بلاواسطہ ٹیکس نیٹ ورک کا حصہ ہونا چاہیے، جب کہ عملاً جو افراد اور ادارے ٹیکس ریٹرن داخل کر رہے ہیں ان کی تعداد ۹ اور ۱۰ لاکھ کے درمیان ہے، یعنی مطلوبہ تعداد کا بمشکل ایک چوتھائی۔ ان حضرات اور اداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے ٹیکس کی چھوٹ (Tax Amnesty) کے نام پر نو اسکیموں پر عمل ہوچکا ہے مگر بے نتیجہ۔ ایف بی آر اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں بُری طرح ناکام رہا ہے اور اس کے ازسرِنو جائزے اور کارکردگی کی بہتری کے لیے کوئی مؤثر کوشش نہیں کی جاسکی۔ سارا انحصار نئے ٹیکسوں، ٹیکسوں میں اضافے اور راست ٹیکسوں (direct taxes) کو بھی withholding tax کے ذریعے بالواسطہ( indirect tax) میں تبدیل کرنے پر ہے جو اصولی طور پر غلط اور عملاً ملک میں سماجی ناانصافی کے فروغ کا سبب بن رہا ہے۔ ایک مدت سے اس غلطی کا پورے تسلسل سے اعادہ کیا جارہا ہے۔ یہی وہ جادو کی چھڑی بن گئی ہے جس کے ذریعے ٹیکس ہدف کو پورا کرنے کا معجزہ سرانجام دیا گیا ہے۔ اس کارنامے کو ایک جملے میں یوں ادا کیا جاسکتا ہے کہ یہ ٹیکس کے نظام میں اصلاح کے بغیر محصولات میں اضافہ ہے، یعنی Revenue generation without tax reforms۔

Tax Base وہی قومی دولت کا ۵ئ۸ سے ۹ فی صد ہے حالانکہ یہ ۲۰سال پہلے ۱۳ بلکہ ۱۴فی صد تک کی حد چھو چکا ہے اور موجودہ حکومت کا بھی دعویٰ تھا کہ تین سے پانچ سال میں اسے ۹فی صد سے بڑھا کر ۱۲اور پھر ۱۴ فی صد تک لے آیا جائے گا، وہ دھرے کا دھرا رہ گیا ہے۔ ٹیکس وصولی کے ہدف کے پورا ہونے میں اس امر کا بھی دخل ہے کہ برآمد کنندگان کی فاضل ادایگیوں کی جو ادایگی (refund) حکومت کی ذمہ داری تھی اور جن کی جلد ادایگی کا باربار وعدہ بھی کیا گیا تھا وہ   ادا نہیں کی گئی اور اس طرح تقریباً ۲۵۰؍ارب روپے، جو حکومت کا حق نہیں، وہ بھی اسی ہدف کے پورے کرنے کے دعوے کا حصہ ہیں۔ بجٹ میں اس سلسلے میں ضروری شفافیت کی کمی ہے۔

گذشتہ برس سے موازنہ

حکومت کی سالِ گذشتہ کی کارکردگی کا اس کے اپنے اہداف اور دعوئوں کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو تصویر بڑی پراگندا نظر آتی ہے جسے macro-stabilization کہنا مبالغہ اور growth economy کے لیے زینہ کہنا حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ چند مثبت پہلو ضرور ہیں لیکن پلڑا اب بھی منفی پہلوئوں کا بھاری ہے جن کو خوش نما الفاظ کے سہارے پردئہ خفا میں چھپایا نہیں جاسکتا۔ مجموعی ترقی بس رکھ رکھائو کی حد تک ہوئی ہے۔ معیارِ زندگی میں کوئی بہتری دُور دُور نظر نہیں آتی۔ غربت کے سلسلے میں جو نئے اعداد و شمار خود پلاننگ کمیشن نے جاری کیے ہیں ان کی رُو سے آبادی کا ۳۰ فی صد شدید غربت کی لپیٹ میں ہے حالانکہ چندماہ پہلے تک یہ دعویٰ کیا جارہا تھا کہ غربت کی سطح ۹فی صد تک لے آئی گئی ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں کا حال سب سے خراب ہے حالانکہ انسانی ضرورت کے اعتبار سے ہی نہیں، خود معاشی ترقی کے لیے بھی ان شعبوں کو ترقی اور ان میں مؤثر سرمایہ سرکاری ازبس ضروری ہے۔ تقسیم دولت کی صورت حال بد سے بدتر ہے۔ اُوپر کے ۵ سے ۱۰فی صد آبادی کے پاس وسائلِ دولت کا ۸۰ فی صد سے زیادہ حصہ ہے، جب کہ ۶۰ سے ۷۰ فی صد آبادی کے پاس وسائل کا ۱۰ فی صد بھی نہیں۔ ۳۰ فی صد شدید غربت کا شکار ہیں اور ۶۰ فی صد معقول زندگی کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ دولت کی عدم مساوات میں شب و روز اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک طرف بھوک، فاقہ اور خودکشی کے اَلم ناک مناظر ہیں تو دوسری طرف لگژری مالز پر دولت کی ریل پیل،  پوش علاقوں میں پُرتعیش زندگی کے مناظر اور شادیوں کی تقریبات میں اسراف و تبذیر کی بدترین مثالیں ہیں۔ ڈاکٹر اکمل حسین نے اپنے ایک مضمون (دی نیوز، ۵مئی ۲۰۱۶ئ) میں اپنی تحقیق کے نتائج پیش کیے ہیں جو عالمی بنک کے اعداد و شمار کے تجزیے پر مبنی ہیں کہ پاکستان میں صرف ۲۰ہزار افراد ایسے ہیں جن کی فی کس آمدنی ایک ملین ڈالر، یعنی سوا ۱۰ کروڑ روپے سالانہ سے زیادہ ہے، جب کہ آبادی کے نچلی سطح کے ۶۰ فی صد افراد کی فی کس آمدنی ۱۴-۲۰۱۳ء کے پاکستان اکانومک سروے کے مطابق ۷۳۰ ڈالر، یعنی ساڑھے ۷۰ ہزار روپے سالانہ ہے۔ یہ فرق ایک اور ۱۳۰۰ کا ہے، جب کہ کسی مہذب معاشرے میں دولت میں تفاوت میں اتنے فرق کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن تو اسلامی معاشرے کی شناخت ہی یہ بتاتا ہے کہ اس میں دولت صرف امیروں کے درمیان گردش نہیں کرتی بلکہ تمام طبقات کے درمیان رواں دواں ہوتی ہے:

کَیْ لاَ یَکُوْنَ دُولَۃًم بَیْنَ الْاَغْنِیَآئِ مِنْکُمْ (الحشر ۵۹:۷) تاکہ وہ تمھارے مال داروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتا رہے۔

دولت کی یہ عدم مساوات جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کا خاصہ ہے اور ا س کے خلاف مغربی دنیا میں بھی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں، خصوصیت سے وال سٹریٹ تحریک اور ۹۹ فی صد vs ایک فی صد۔ لیکن مغربی ممالک میں بھی عدم مساوات ایک اور ۱۳۰۰ کی حدود نہیں چھوتی___ جو بدقسمتی سے آج پاکستان اور چند مسلم ممالک کا چلن بن گئی ہے اور عوام کی بڑی تعداد کی محرومی ہی   وہ حقیقت ہے جو معاشرے میں نفرت، بغاوت اور انتہاپسندی کے جذبات کو جنم دے رہی ہے۔ اس پس منظر میں ان مشاہروں پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے جو پانچ بڑے بنکوں کے سربراہوں کے ہم نے اُوپر بیان کیے ہیں اور اس تناظر میں خود ملک کے صدر اور وزیراعظم کے سرکاری دفتر اور توشہ خانے کے مصارف پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ حالیہ بجٹ کے مطابق ایوانِ صدر کے سالانہ اخراجات ۸۶ کروڑ ۳۰ لاکھ ہیں اور ایوانِ وزیراعظم کے ۸۸ کروڑ ۱۰ لاکھ جو ۱۷-۲۰۱۶ء کے لیے ۸ئ۷ فی صد اور ۷ئ۴ اضافے کے ساتھ بجٹ کا حصہ ہیں۔ ۸؍اپریل ۲۰۱۶ء کے اخبارات میں پاکستان پلاننگ کمیشن کے جاری کردہ غربت کے جائزے کے مطابق ہر ۱۰ میں سے تین پاکستانی شدید غربت کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ ملک میں تقریباً ۶کروڑ افراد غربت و افلاس کی پست ترین سطح پر ہیں۔ ماضی کے جائزوں کی روشنی میں دعویٰ کیا جارہا تھا کہ یہ تعداد صرف ۲کروڑ ہے جس کی بڑی وجہ وہ تعریف (definition)تھی جو غربت کی کی گئی تھی اور وہ پیمانے (indicators) تھے جس کے ذریعے اسے ناپا جارہا تھا۔ تازہ تحقیق کی روشنی میں غربت کی لکیر کے تحت ۶کروڑ کے علاوہ ۲کروڑ مزید ایسے ہیں جو صرف سرحد پر ہیں اور معیشت کی معمولی سی تبدیلی ان کے لیے معاشی دھچکا (economic shock) بن سکتی ہے اور انھیں غربت کی اس لکیر کے نیچے دھکیل سکتی ہے۔ ۱۹کروڑ کی آبادی کے ملک میں ۸کروڑ ضروریاتِ زندگی کی کم سے کم حد سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں حالانکہ مجبوروں، یتیموں اور سائل و محروم کے حق سے غفلت اور بے پروائی کو قرآن نے دین کے انکار سے تعبیر کیا ہے۔

معاشی حالت کو جانچنے کا ایک اور پیمانہ خوراک کا عدم تحفظ ہے۔ اس اعتبار سے تقریباً نصف آبادی پر خوراک کے محرومی کے سایے منڈلا رہے ہیں، بطور مثال تھرپارکر کے حالات کی طرف اشارہ ضروری ہے۔ مقصد کسی ایک صوبے یا علاقے پر تنقید نہیں۔ دوسرے صوبوں میں بھی ایسے رستے ہوئے ناسور بے شمار ہیں لیکن چونکہ میڈیا نے اس علاقے پر توجہ دی ہے اس لیے اس امر کا بڑے دُکھ کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اتنی توجہ اور میڈیافوکس کے باوجود آٹھ سال کے عرصے میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہونے کے باوجود حالات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے اور خوراک اور پانی کی قلت اور علاج کی کم سے کم سہولتوں سے محرومی علاقے کا مقدر بنی ہوئی ہے۔ ۱۶جون ۲۰۱۶ء کے دی نیشن میں چھپنے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف اس سال بھوک پیاس اور علاج سے محرومی کے سبب مرنے والے بچوں کی تعداد ۲۲۲ ہوگئی، جب کہ علاقے کے لوگ یہ تعداد ۳۵۵ بتاتے ہیں۔ ملک کے شہری علاقوں میں رہنے والے ۱۷لاکھ نوجوان روزگار سے محروم اور شدت پسندی اور دہشت گردی کے لیے نوجوانوں کی تاک میں رہنے والوں کے لیے تر نوالہ ہیں۔ بدقسمتی سے ان ۱۷لاکھ میں سے ۴۱ فی صدسندھ کے شہری علاقوں میں ہیں، جب کہ سندھ میں ملک کی آبادی کا صرف ایک چوتھائی اقامت پذیر ہے۔

اس سلسلے میں ایک تازہ رپورٹ، کے مطابق جسے سوشل پالیسی اینڈ ڈویلپمنٹ سنٹر (SPDC) نے شائع کیا ہے ، ۲۰۱۵ء میں ۱۵ سے ۲۴ سال کے درمیانی عمر کے بے روزگار نوجوانوں کی تعداد پنجاب میں ۸لاکھ ۶۱ ہزار، سندھ میں ۷لاکھ ۱۱ ہزار، بلوچستان میں ۱۰لاکھ ۷۰ہزار اور خیبرپختونخوا میں ۵۷ہزار ہے۔ یہ خطرے کا ایک بڑا الارم ہے جسے حکومتیں مسلسل نظرانداز کررہی ہیں۔۱؎

عالمی جائزوں میں انسانی ترقی کے باب میں پاکستان کا مقام بڑا ہی شرم ناک ہے۔ دنیا کے ۱۸۸ ممالک میں پاکستان کا نمبر ۱۴۷ ہے اور Human Development Index میں ہمارا اسکور  ۵۳۸ئ۰ آتا ہے۔

UNDP کی رپورٹ کے مطابق ہمارا شمار کم ترقی یافتہ ممالک کے بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جو اس دوڑ میں اپنے کنبے میں بھی پیچھے رہ گئے ہیں۔ نیپال (۵۴۸ئ۰)، بنگلہ دیش (۵۷۰ئ۰)، بھارت (۶۰۹ئ۰)، سری لنکا (۷۵۷ئ۰) ہم سے آگے ہیں۔ تمام تر تباہی کے باوجود فلسطین  (غزہ اور ویسٹ بنک) بھی ہم سے بہت آگے ہیں (۶۷۷ئ۰)۔ صحت کی حالت دیکھیں تو وہ بھی نہایت ناگفتہ بہ ہے۔ بچوں کی اموات کی شرح پاکستان میں ہرہزار بچے پر ۶۶ ہے، جب کہ بھارت میں یہ شرح ۳۸ اور سری لنکا میں صرف ۸ ہے۔ عورتوں کی اوسط عمر پاکستان میں ۶۷ سال ہے، جب کہ بنگلہ دیش میں ۷۳ اور تھائی لینڈ میں ۷۸ ہے۔ دورانِ ولادت ماں کی موت کی شرح پاکستان میں ایک لاکھ میں ۱۷۰ ہے، جب کہ سری لنکا میں یہ شرح صرف ۳۰ اور تھائی لینڈ میں    ۲۰ ہے۔ پاکستان میں سرکاری ذرائع سے فراہم کی جانے والی علاج کی سہولتوں تک آبادی کے صرف ۳۰ فی صد کو بہ مشکل رسائی حاصل ہے اور ۷۰ فی صد اس سے مکمل طور پر محروم ہیں۔ اور یہ بھول جایئے کہ جو ’سہولتیں‘ حاصل ہیں ان کا کیا حال ہے، کیا معیار ہے۔ ملک بھر میں رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی تعداد ایک لاکھ ۸۴ہزار ۷سو۱۱ ہے۔ گویا ۱۰۳۸ ؍افراد کے علاج کے لیے ایک ڈاکٹر۔ہسپتالوں کا حال یہ ہے کہ ۱۶۱۳؍ افراد کے لیے ہسپتال میں ایک بستر موجود ہے۔ ہر کمرے میں کئی کئی مریض زمین پر لیٹنے پر مجبور ہوتے ہیں اور دسیوں ناکام و نامراد واپس بھیج دیے جاتے ہیں۔ یہ ہے عام آدمی کی صورتِ حال۔ اگر اسی کا نام مجموعی سطح پر ’معیشت کا استحکام‘ ہے تو ایسے استحکام کو سلام!

موجودہ حکومت بحیثیت مجموعی ان تین برسوں میں معیشت کی گاڑی کو پٹڑی پر لانے میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔ ریلوے کے نظام میں جزوی بہتری آئی ہے لیکن توانائی کی فراہمی، پیداوار میں اضافہ، عوامی سہولتوں میں اضافہ ، معیارِ زندگی میں بہتری، عالمی تجارت میں افزونی،  ملکی اور بیرونی سرمایہ کاری، ہر اشاریہ غیرتسلی بخش ہے۔ پینے کے صاف پانی کی کمیابی اور تعلیم اور صحت کی زبوں حالی ناگفتہ بہ ہے۔ زراعت اور برآمدات معیشت کے بڑے اہم ستون ہیں۔    یہ دونوں بُری طرح متزلزل ہیں اور یہ کیفیت صرف سالِ رواں میں نہیں ہوئی ہے بلکہ ان تین برسوں میں حالات بتدریج بگاڑ کی طرف بڑھے ہیں اور اسٹیٹ بنک کی رپورٹوں اور متعلقہ حلقوں کی چیخ پکار کا حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس بجٹ میں زرعی مداخل (inputs) کے سلسلے میں جو سبسڈی دی جارہی ہے، بجلی کی فراہمی کے لیے جن اقدامات کا وعدہ کیا جارہا ہے، اور برآمدات کے لیے جن پانچ میدانوں میں zero-rating کی نوید دی جارہی ہے، ان کا مطالبہ تین سال سے ہورہا تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سبسڈی اور زیرو ریٹنگ دونوں کے سلسلے میں پانچ سال پہلے تک یہ سب سہولتیں حاصل تھیں جن سے پیپلزپارٹی کے دور میں آئی ایم ایف کی خوشنودی کی خاطر محروم کیا گیا تھا اور مسلم لیگ کی حکومت نے بھی تین سال تک اس سلسلے میں کوئی اقدام نہ کیا۔   اب بعد از خرابیِ بسیار چند اقدام کرنے کا اعلان کیا ہے جو ہماری نگاہ میں صحیح سمت میں قدم ہے ، گو بہت دیر سے ہے لیکن ہم صاف کہنا چاہتے ہیں کہ یہ ہرگز کافی نہیں اور ہم آیندہ سطور میں سفارش کریں گے کہ ان اقدامات کے ساتھ جو structural bottlenecks ہیں جب تک ان کو دُور کرنے کے لیے مؤثر اقدامات نہیں کیے جاتے، حالات کا رُخ بدلنا اور ملک کو واقعی ترقی اور خوش حالی کے راستے پر ڈالنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس کے لیے طرزِ فکر ( mind-set) اور معاشی ترقی کے مفہوم اور فریم ورک، حکومتی ترجیحات اور مالیاتی پالیسی، ٹیکس اور سرکاری اخراجات، مالیاتی پالیسی، تجارتی پالیسی ، زرعی اصلاحات، لیبرپالیسی اور تعلیم اور صحت کے میدان میں بنیادی اصلاحات ضروری ہیں۔

مسلم لیگ ن کا انتخابی منشور اور حکومتی کارکردگی

حکومت کی کارکردگی کو جانچنے کا ایک اور پیمانہ مسلم لیگ کا ۲۰۱۳ء کے انتخابات کے موقعے پر قوم کے سامنے پیش کیے جانے والا منشور ہے۔ اس منشور میں معاشی اصلاحات کے سلسلے میں کئی درجن وعدے کیے گئے تھے اور بڑے واضح الفاظ میں کچھ صورتوں میں وقت اور مدت کے تعین کے ساتھ باتیں کی گئی تھیں۔ حکمرانی کے تین سال بعد اس امر کی ضرورت ہے کہ مسلم لیگ کی قیادت خود بھی یہ زحمت گوارا کرے کہ ایک چارٹ بنا کر دعوئوں اور عملی پالیسیوں اور تین برسوں میں حاصل نتائج کا گوشوارہ بنائے اور اپوزیشن کی جماعتوں، میڈیا اور تھنک ٹینکس کو بھی یہ کام کرنا چاہیے۔ ہم صرف چند موٹی موٹی چیزوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔

اس منشوراور اس کی تشریح میں کی جانے والی تقاریر میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ توانائی کے مسئلے کو اولیت دی جائے گی اور چھے ماہ سے لے کر دو سال تک بجلی کے بحران کو ختم کر دینے کا دعویٰ کیا گیا تھا، بلکہ جنابِ شہباز شریف نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ’’اگر ہم ایسا نہ کرسکے تو میرا نام بدل دینا‘‘۔ تین سال بعد جو صورتِ حال ہے، سب کے سامنے ہے۔

وعدہ کیا گیا تھا کہ توانائی کی ایک وزارت بنائی جائے گی تاکہ واٹر پاورز، منرل ریسورسز اور پٹرولیم کی وزارتیں اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد نہ بنائیں بلکہ ایک جامع توانائی پالیسی بن سکے اور اس طرح مسئلے کا مستقل حل نکالا جاسکے۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شد!

ٹیکس کے نظام کو یکسر بدلنے کا دعویٰ تھا۔ٹیکس کے دائرے کو بڑھانے اور بالواسطہ (indirect)ٹیکس کو کم کرنے اور بلاواسطہ (direct)ٹیکس کو بڑھانے کا دعویٰ تھا۔ اس کے برعکس  نہ صرف بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ ہوا، سیلزٹیکس جو پہلے ۱۵ فی صد تھا وہ اب ۱۷ فی صد اور کچھ اشیا پر اس سے بھی زیادہ ہے۔ حالانکہ سینیٹ کی ۱۳-۲۰۱۲ء سفارشات میں موجودہ وزیرخزانہ نے ہم سب کے ساتھ ہم آواز ہوکر مطالبہ کیا تھا کہ سیلزٹیکس میں ۱۵ سے ۱۶ فی صد اضافہ معاشی ترقی کے لیے  بے حد مضر اور عوام پر ناقابلِ برداشت بوجھ ہے جسے واپس لیا جائے۔ ان کے دور میں یہ اب ۱۷ فی صد اور چند اشیا پر اس سے بھی زیادہ ہے۔ دوسرا ستم یہ کیا گیا ہے کہ بلاواسطہ ٹیکسوں کے سلسلے میں with holding tax کا طریقہ اختیار کرنے کی وجہ سے انھیں بھی ایک طرح کا بالواسطہ ٹیکس بنادیا گیا ہے جس کا آخری بوجھ اب عوام اور عام صارفین پر پڑتا ہے۔ اس طرح اس وقت جو ٹیکس کا نظام رائج ہے اس میں فی الحقیقت ۸۵ فی صد ٹیکس عملاً بالواسطہ ہوگئے ہیں۔

ایک اور مسئلہ جس پر بڑی تحدی سے بات کی گئی تھی اور بجا طور پر کی گئی تھی، اس کا تعلق معیشت کو دستاویزی (documentation) بنانے سے تھا۔ افسوس ہے کہ اس زمانے میں اس طرف بھی کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی ہے بلکہ حکومت نے اسٹیٹ بنک کے ذریعے جو cash flow پالیسی اختیار کی ہے اور with holding tax کی جو تلوار بے نیام کی ہوئی ہے اس کے نتیجے میں ملک میں cash economy میں اضافہ ہو رہا ہے اور دستاویزی معیشت میں کمی واقع ہورہی ہے۔ اس سلسلے کی تازہ ترین رپورٹیں سخت تشویش کا باعث ہیں۔

۲۰ جون ۲۰۱۶ء کے اخبارات میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی طرف سے زیراستعمال کرنسی کے بارے میں جو اعداد و شمار آئے ہیں وہ سخت پریشان کن ہیں۔ یکم جولائی ۲۰۱۵ء کے مقابلے میں ۳جون ۲۰۱۶ء کے درمیان زیرگردش کرنسی میں ۶۷ فی صد اضافہ ہوا ہے، جب کہ حکومت کے دعوے کے مطابق معیشت میں بحیثیت مجموعی ترقی کی رفتار صرف ۷ئ۴ فی صد رہی ہے جو آزاد تحقیقی اداروں کی نگاہ میں دراصل ۱ئ۳ فی صد اور ۴فی صد کے درمیان ہے۔

معاشیات کے طالب علم جانتے ہیں کہ ملک میں مسلسل کرنسی ان سرکولیشن M-2   (Broad Money) کی نسبت سے زیادہ رہی ہے اور اس کی وجہ دستاویزی معیشت کے مقابلے میں کیش اکانومی کا کردار ہے۔ مرکزی بنک کے ایک سابق ڈپٹی گورنر نے اس پر بجاطور پر ان الفاظ میں اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے:

حالیہ مالی سال میں جس رفتار سے CIC میں اضافہ ہوا ہے، وہ تکلیف دہ ہے اور خصوصیت سے اس لیے کہ یہ سب کچھ معیشت کو دستاویزی کرنے کی متعدد کوششوں کے باوجود ہوا ہے۔ (ڈان، ۳جون ۲۰۱۶ئ)

اگر CIC اور M-2 کے تناسب کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو یہ مالیاتی سال ۲۰۱۲ء میں ۴ئ۲۲ فی صد تھا جو ۲۰۱۳ء میں ۳ئ۲۲ فی صد، ۲۰۱۴ء میں ۲ئ۲۲ فی صد ہوگیا تھا مگر ۲۰۱۵ء میں پھر بڑھ کر ۵ئ۲۲ فی صد ہوگیا تھا، اور خطرہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر خدانخواستہ زیرگردش کرنسی میں اضافے کی یہی رفتار رہتی ہے تو یہ کہیں ۲۶ فی صد تک نہ پہنچ جائے جس کے نتیجے میں افراطِ زر کے خطرات چند درچند بڑھ جائیں گے۔

مسلم لیگ کے منشور میں پیداوار بڑھانے، شرح پیداور کو سات اور آٹھ فی صد تک لے جانے اور برآمدات کے اضافے کو اہمیت دینے کا بھی وعدہ کیا گیا تھا۔ عملی صورت حال یہ ہے کہ درآمدات برابر بڑھ رہی ہیں اور برآمدات کمی ہی نہیں جمود کا شکار ہیں۔ جیساکہ ہم نے عرض کیا یہ صورتِ حال محض ۲۰۱۵ء کی پیداوار نہیں۔ ۲۰۱۳ء سے برابر رجحان یہی ہے مگر برآمدات کو بڑھانے اور درآمدات میں نمایاں کمی لانے کی کوئی مؤثر اور جامع کوشش نہیں ہوئی۔ یورپین یونین کے ۲۸ممالک سے تین سال کے لیے ٹیرف ریلیف (Tariff Relief) سے بڑی توقعات باندھی گئی تھیں مگر عملاً اس سے کوئی بڑافائدہ نہیں اُٹھایا جاسکا۔ پاکستان اکانومک سروے ۱۶-۲۰۱۵ء کے مطابق:

پاکستان کی برآمدات کی کارکردگی شدید تشویش کا باعث ہے۔ گذشتہ ۱۸مہینے سے ہرمہینے ان میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ جولائی ۲۰۱۵ء سے مارچ ۲۰۱۶ء تک برآمدات صرف ۶ئ۱۵ بلین ڈالر تھیں جو گذشتہ سال کے اس زمانے کے دوران ۹ئ۱۷ بلین ڈالر تھیں۔ گویا صرف ان مہینوں میں برآمدات میں عملاً ۹ئ۱۲ فی صد کمی واقع ہوئی۔

اس تباہ کن کارکردگی کے بارے میں روزنامہ ڈان کے مضمون نگار ڈاکٹر منظور احمد کا یہ تبصرہ چشم کشا ہے:

درحقیقت ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ یہ ہوگا کہ کسی حکومت کی مدت کے اختتام پر برآمدات اس سے کم تر ہوں گی جتنی حکومت کی مدت کے آغاز کے وقت تھیں۔

ایک طرف یہ سنگین صورت حال ہے اور دوسری طرف وزارتِ تجارت اور پلاننگ کمیشن یہ خواب دیکھ رہے ہیں کہ اگلے ۱۰سال میں ’وژن ۲۰۲۵‘ کے تحت پاکستان کی برآمدات کو بڑھا کر  ۱۵۰بلین ڈالر سالانہ کردیا جائے گا، یعنی ۲۴ فی صد سالانہ اضافہ!

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وزارتِ خزانہ، وزارتِ تجارت اور پلاننگ کمیشن میں کوئی ربط اور تجارتی پالیسی تک کے باب میں کوئی ہم آہنگی نہیں۔ ہر ایک الگ الگ wave length پر ہے اور اس کا نام ہے معاشی ترقی کی گرینڈ اسٹرے ٹیجی!

منشور کے اور بھی پہلو موازنہ طلب ہیں لیکن ہم صرف ان چند نکات پر قناعت کرتے اور فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ اس میزان پر حکومت کی کارکردگی کتنی کامیاب یا ناکام رہی؟

ملک کا دستور اور معاشی کارکردگی

بجٹ اور حکومت کی معاشی کارکردگی کو جانچنے کے لیے سب سے اہم میزان ملک کا دستور ہے جو قومی مقاصد اور اہداف کے باب میں قومی مقاصد کا ترجمان ہے۔ دستور کی دفعہ ۲ اور ۲-اے اسلام کے کلیدی کردار کو واضح کرتی ہیں۔ دفعہ۳ معاشرے سے استحصال، ظلم کے خاتمے اور اجتماعی انصاف کے حصول کو ہدف مقرر کرتی ہے اور ریاست کی رہنمائی کے اصول خصوصیت سے دفعہ۳۱، دفعہ ۳۷ اور دفعہ ۳۸ بڑی تفصیل سے معاشی اصلاحات، اسلامی معاشی اصولوں کی ترویج اور ایک ترقی پذیر، خوش حال اور مبنی برانصاف فلاحی معاشی نظام کا تصور دیتے ہیں۔ یہی وہ مقاصد ہیں جو اقبال اور قائداعظم نے اپنے مختلف خطبات میں بیان کیے ہیں۔ علامہ اقبال نے دوٹوک الفاظ میں اپنے ۲۸مئی ۱۹۳۷ء کے خط بنام قائداعظم محمدعلی جناح میں شریعت اسلامی پر مبنی معاشی نظام کے قیام کی اولیں ضرورت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا، اور خود قائداعظم نے اپنے متعدد بیانات میں خصوصیت سے آل انڈیا مسلم لیگ کے ۱۳ویں سیشن میں جو ۲۴؍اپریل ۱۹۴۳ء دہلی میں منعقد ہوا تھا پاکستان کے معاشی نظام کے خدوخال واضح کیے تھے۔ پھر قیامِ پاکستان کے بعد ۲۷ستمبر ۱۹۴۷ء کو ولیکا ٹیکسٹائل ملز کے افتتاح کے موقعے پر اور خصوصیت سے اپنے آخری خطبے میں جو اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے افتتاح کے موقعے پر جولائی ۱۹۴۸ء میں دیا، اپنے تصورات کی وضاحت کر دی تھی۔ علامہ اقبال نے ایک شعر میں پورے تصور کا جوہر یوں بیان فرمایا ہے: اسلام کا اصل مقصود انسان کو انسان کی محتاجی سے نجات دلانا، محرومی اور استحصال کا خاتمہ اور ہر فرد کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لائق بنانا ہے    ؎

کس نہ باشد در جہاں محتاج کس

نکتۂ شرعِ مبیں این است و بس!

پاکستان کے دستور سے وفاداری اور تحریک پاکستان کے مقاصد کا حصول اسی وقت ممکن ہے جب پاکستان کے لیے معاشی ترقی کی ایسی حکمت عملی تیار کی جائے جو معیشت اور معاشرے کو عدل و انصاف، ترقی اور خوش حالی، اور عوامی فلاح و بہبود سے شادکام کرسکے۔ حکومت اور پارلیمنٹ کی اصل ناکامی یہ ہے کہ وہ نہ معاشی ترقی کا صحیح وژن مرتب کرسکی ہے اور نہ ایسی حکمت عملی، ترجیحات اور مربوط پروگرام اور منصوبہ بناسکی جو ان مقاصد کے حصول پر منتج ہوسکیں۔ لبرل معیشت کے نام پر اور گلوبلائزیشن کے خوش نما الفاظ کے چکّر میں مغرب کے سودی اور سرمایہ دارانہ نظام کو ملک پر مسلط کردیا گیا ہے۔ ریاست کے معیشت میں کردار کو مشتبہ بنادیا گیا ہے۔ ایک طرف جاگیردار اور سرمایہ دار حکومت پر قابض ہیں تو دوسری طرف بغلیں بجابجا کر اعلان کیا جارہا ہے کہ حکومت کا کام بزنس نہیں حالانکہ زیادہ صحیح امر یہ ہے کہ بزنس مین کا یہ کام نہیں کہ وہ حکمرانی کرے۔  وہ تو ریاست کو بھی ذاتی کاروبار ہی کی طرح چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور نتائج بتاتے ہیں کہ ایسے حکمران اپنی مخصوص ذہنیت کی گرفت سے نہیں نکل پاتے ہیں جو بالآخر پاناما لیکس کے ڈرائونے انجام کی طرف لے جاتی ہے!

حکومت کا کام ملک و معاشرے کو صرف امن دینا اور سرحدوں کا دفاع نہیں، بلکہ انصاف اور عدل و احسان کے نظام کا قیام، سب کے لیے معاشی، سماجی اور سیاسی مساوات کا فروغ اور معاشرے کو حقیقی انسانی فلاح اور خوش حالی کا گہوارا بنانا ہے۔ ریاست محض تماشائی نہیں ایک فیصلہ کن قوت ہے جسے زندگی کے اجتماعی معاملات میں ایک مثبت کردار ادا کرنا ہے اور اصحابِ اقتدار کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار اس میدان میں اور اس میزان پر کامیابی ہے۔

اس پہلو سے اگر اب تک پیش کیے جانے والے چاروں بجٹوں کا جائزہ لیا جائے اور جو پالیسیاں اس حکومت نے اختیار کی ہیں تو بڑی مایوس کن صورت حال سامنے آتی ہے۔ معاشی منزل کا کوئی واضح تصور موجود نہیں۔ قومی مفادات کے مقابلے میں ذاتی مفادات ہر طرف غالب نظر آتے ہیں۔ مربوط اور کلّی پالیسی کا فقدان ہے۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی ہیں۔ مختلف وزارتوں کے درمیان کوئی تعاون اور توافق نظر نہیں آتا۔ کابینہ میں بھی کوئی ہم آہنگی نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ قومی سطح اور حتیٰ کہ بجٹ تک میں کوئی مربوط اور تضادات سے پاک لائحہ عمل پیش نہیں کیا جاسکا ہے، بلکہ عالم یہ ہے کہ کابینہ کے اجلاس کئی کئی مہینے منعقد ہی نہیں ہوتے۔ غضب ہے کہ  گذشتہ آٹھ مہینے میں کابینہ کا کوئی باقاعدہ اجلاس نہیں ہوا۔ پلاننگ کمیشن ایک عضومعطل بن کر    رہ گیاہے۔ کوئی وسط مدتی پلان ایک عرصے سے وجود ہی میں نہیں آیا ہے ۔ پلاننگ کمیشن کا اصل وژن یہ تھا کہ وہ ایک طویل عرصے کے perspective plan کے فریم ورک میں پانچ سالہ منصوبے بنائے گا جو ایک طرف معروضی تحقیق پر مبنی ہوں گے تو دوسری طرف ریاست اور معیشت کے تمام  متعلقین کی شرکت سے حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی کا نمونہ پیش کرسکیں گے اور پھر پوری آزادی اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ اس منصوبے پر عمل درآمد کا جائزہ لے گا۔ صرف مالیاتی پہلو ہی سے  نہیں بلکہ Physical achievment کے باب میں بھی۔نیز پلاننگ کمیشن محض فیڈریشن ہی نہیں، بلکہ صوبائی سطح پر بھی قائم کیے جائیں گے اور وفاق صوبائی پلاننگ کمشنر کی رہنمائی، معاونت اور صلاحیت کی تعمیر (capacity building) کا کام انجام دے گا۔ پلاننگ کمیشن کے تحقیقی بازو کی حیثیت سے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کام کرے گا جس کا سربراہ پلاننگ کمیشن کا ڈپٹی چیئرمین ہوا کرتا تھا۔ مگر اب PIDC ایک آزاد تعلیمی ادارہ بن گیا ہے جو ڈگریاں دے رہا ہے اور پلاننگ کمیشن اپنے تحقیقی بازو سے محروم ہوگیا ہے۔ پلاننگ کمیشن کا ایک کلیدی کردار پوری معاشی پالیسی، حکمت عملی اور ترجیحات کے تعین میں ناگزیر ہے لیکن ا س وقت سارا اختیار وزارتِ خزانہ ہی کے پاس ہے اور پلاننگ کمیشن اور وزارتِ خزانہ دو الگ الگ جزیرے بن گئے ہیں۔

اسی طرح دستورکا تقاضا ہے کہ اسٹیٹ بنک آف پاکستان ایک حقیقی، خودمختار ادارہ ہو   اور مالیاتی پالیسی وہ خود وضع کرے اور وزارتِ خزانہ کی گرفت سے آزاد ہوکر بنائے۔ لیکن     عملی صورت حال یہ ہے کہ مرکزی بنک ایک مدت سے وزارتِ خزانہ کا ضمیمہ بن چکا ہے اور عملاً اس کی آزاد حیثیت باقی نہیں رہی ہے۔ اب بھی یہ ادارہ بہت غنیمت ہے لیکن اس کی پیشہ ورانہ قدروقیمت (professional worth) اور پالیسی سے مناسبت (policy relevance) میں بڑی کمی آگئی ہے۔

ایک اور بڑا اہم دستوری ادارہ کونسل آف کومن انٹرسٹس (Council of Common Interests) ہے جس کی اہمیت اور کردار ۱۸ویں دستوری ترمیم کے بعد دوچند ہوگیا ہے اور فیڈریشن کے نظام کی صحیح خطوط پر استواری کے لیے اس کا فعال ہونا ضروری ہے۔ لیکن اسے بھی عملاً عضومعطل بنادیا گیا ہے۔ دستور کا تقاضا ہے کہ اس کا اجلاس ۹۰روز کے اندر اندر ہو مگر یہاں مہینوں گزر جاتے ہیں اور اس ادارے کا اجلاس ہی نہیں ہوتا۔ اور جب ہوتا ہے تو نہ پوری تیاری سے ہوتا ہے اور نہ گہرائی میں جاکر فیصلے کیے جاتے ہیں۔

پارلیمنٹ نے، اور اس میں سینیٹ کا بڑا کردار تھا، بڑی جدوجہد کے بعد ایف بی آر (Federal Bureau of Revenue)کو وزارتِ خزانہ کے ایک شعبے کی حیثیت سے نکال کر ایک خودمختار ادارہ بنایا۔ ا س سلسلے میں سینیٹ کی کمیٹی براے خزانہ و معاشی ترقی نے میری صدارت میں ۸۰صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ تیار کی تھی اور پھر ایف بی آر کو عملاً ایک ڈویژن بنایا گیا مگر  آج کیفیت ’من تو شدم تو من شدی‘ کا منظر پیش کر رہی ہے۔

اسی طرح سینیٹ اور اسمبلی کی تحریک پر شماریاتی بیورو کو وزارتِ خزانہ کے ایک شعبے کے مقام سے نکال کر ایک خودمختار ادارہ بنایا گیا تاکہ اعداد و شمار صحیح صورت میں آزاد ذریعے سے پارلیمنٹ ، حکومت اور قوم کے سامنے آسکیں اور پالیسی سازی کا کام حقائق کی بنیاد پر ہو، حقائق کو سیاسی مصلحتوں کا اسیر نہ بنایا جائے۔ قانونی اور لفظی کارروائی ہوگئی ہے مگر عملاً اعداد وشمار سیاسی دراندازیوں اور حکومت ِ وقت کی کرم فرمائیوں سے آزاد نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال بھی بجٹ اور اکانومک سروے کے پیش کردہ اعداد و شمار کے بارے میں بڑے تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔

۱۶-۲۰۱۵ء میں ترقی کی شرحِ نمو کے بارے میں علمی حلقوں اور تحقیقی اداروں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ حکومت اور قوم کے لیے فخر کا باعث نہیں۔ ۱۶-۲۰۱۵ء کے سال کے لیے معاشی ترقی کی نمو کی شرح کے بارے میں جو باتیں باہر آئی ہیں ان کو پڑھ کر انسان سر پکڑ لیتا ہے کہ ہم معاشی حقائق کے ساتھ کیا کر رہے ہیں اور ہمارے فراہم کردہ اعداد و شمار پر اگر عالمی ادارے اور آزاد تھنک ٹینکس اعتبار نہیں کرتے تو وہ کتنے حق بجانب ہیں۔ ہم یہ اصول بھول گئے ہیں کہ آرا اور تعبیرات میں اختلاف فطری ہے لیکن حقائق کو شک و شبہے (tempering) سے بالا ہونا چاہیے اور ان کے بارے میں selectivityبھی پیشہ ورانہ بددیانتی کے مترادف ہے۔ اس سال کی ۷ئ۴ فی صد کی شرح کے بارے میں اس اخباری اطلاع پر ایک نظر ڈالیے کہ اس میں ہماری تصویر کیا نظر آتی ہے۔

روزنامہ ایکسپریس ٹریبون کی ۲۱ مئی ۲۰۱۶ء کی اشاعت میں اکانومک سروے کی اشاعت سے ۱۰ دن پہلے اس کے نامہ نگار شہباز رعنا کی یہ رپورٹ شائع ہوئی، جس کی کوئی تردید شائع نہیں ہوئی:

گزرے ہوئے مالی سال میں حکومت نے مجموعی ملکی پیداوار (GDP) کی شرحِ نمو میں اضافے کے لیے۵ئ۵ فی صد کا ہدف رکھا تھا۔ ملک میں نوجوانوں کی آبادی میں اضافے کو جذب کرنے کے لیے ۷ فی صد سالانہ شرحِ نمو کی ضرورت تھی۔ اگر اضافے کی رفتار اس شرح سے کم ہوجائے تو اس کا نتیجہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی شکل میں سامنے آئے گا۔

ذرائع کے مطابق پاکستان کے اعداد و شمار کے بیورو چیف آصف باجوہ نے ۱۸مئی کو وزیرخزانہ اسحاق ڈار کو مطلع کیا کہ ۱۶-۲۰۱۵ء کے لیے شرحِ نمو کا تخمینہ ۲ئ۴ فی صد کے قریب آرہا ہے۔ باجوہ نے اسحاق ڈار کو یہ بھی بتایا کہ سابقہ دو مالی برسوں کے نظرثانی شدہ اعداد و شمار ۴ فی صد سے نیچے جارہے ہیں۔ بہرکیف اسحاق ڈار نے ان اعدادوشمار کو قبول نہیں کیا اور باجوہ صاحب سے کہا کہ وہ پھر سے اعداد و شمار کا جائزہ لیں۔ جب رابطہ کیا گیا تو باجوہ صاحب نے ۱۸مئی کی نشست کی نہ تردید کی اور نہ تصدیق۔

باجوہ صاحب نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا: اعداد و شمار بدلتے رہتے ہیں یہاں تک کہ آخری اعداد و شمار منظور کیے جاتے ہیں اور ۱۵-۲۰۱۴ء کے لیے مجموعی ملکی پیداوار میں اضافے کی عارضی شرح ۷ئ۴ فی صد ہے ۔ جب زرعی سیکٹر کی پیداوار میں نمایاںکمی ہوئی ہے۔ نجی اور سرکاری سرمایہ کاری میں مجموعی قومی پیداوار کے لحاظ سے بہت زیادہ اضافہ نہیں ہو رہا، تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’۷ئ۴ فی صد کی شرح نمو کہاں سے آگئی؟‘‘ وزارتِ خزانہ کے سابق معاشی مشیر ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے سوال کیا۔ خان صاحب نے کہا: اعداد و شمار کے باب میں ان کا اپنا حساب کتاب یہ ظاہر کرتا ہے کہ گزرے ہوئے مالی سال میں شرحِ نمو ۵ئ۳ فی صد سے زیادہ نہیں تھی۔

تمام پہلوئوں پر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سرکار نے جس شرحِ نمو کو پسند کیا   وہ ۷ئ۴ تھی۔ کیوں نہ ہو۔ ۷ئ۴ فی صد کی شرحِ نمو گذشتہ سال کی حاصل کردہ ۴فی صد کی شرح سے بہتر تھی اور آئی ایم ایف کے اندازے کے مطابق، یعنی ۵ئ۴ فی صد سے بھی تھوڑی بہتر ہی تھی۔

بس طے ہوگیا کہ وزیرخزانہ اسحاق ڈار ۲ جون کو معاشی سروے آف پاکستان ۱۶-۲۰۱۵ء جاری کرنے کے ساتھ ۷ئ۴ فی صد کی عارضی شرحِ نمو کا رسمی اعلان کریںگے۔

اعداد و شمار کے ساتھ کھیل کی یہ ایک مثال ہے۔ ورنہ حال یہ ہے کہ ہرمیدان میں اصل حقائق سے اغماض اور پسند کے ’حقائق‘ کی صورت گری بائیں ہاتھ کا کھیل بن گئی ہے اور ملک اور ملک سے باہر ہمارے اعتماد کو مجروح کرنے اور معاشی منصوبہ بندی کو مضبوط بنیادوں سے محروم کرکے نمایشی بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ ڈاکٹر ثاقب شیرانی ایک معروف معاشی ماہر اور سابق معاشی مشیر ہیںاس کا نوحہ ان الفاظ میں کرتے ہیں اور اس پس منظر میں کرتے ہیں کہ مشرف صاحب اور شوکت عزیز صاحب کے دور میں بھی اعداد و شمار کے ساتھ یہی کھیل کھیلا جاتارہا ہے:

تازہ ترین واقعہ، حکومت نے دو دائروں میں جو سرکاری اعداد و شمار دیے ہیں، اس سے تعلق رکھتا ہے: نیشنل اکائونٹس (گروتھ) اور قومی حسابات (ایف بی آر کا جمع کردہ ٹیکس اور مالی خسارہ)دونوں مشرف اور شوکت عزیز کے دورکے محرکات ہی کا تسلسل ہیں۔  مسلم لیگ(ن) کی حکومت میں بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اعداد و شمار کو مسخ کیا گیا ہے، تاکہ گذشتہ برسوں میں بلندترین شرحِ نمو سامنے آسکے۔ ۱۶-۲۰۱۵ء میں سرکاری    جی ڈی پی کی شرحِ نمو کا  ۷ئ۴ فی صد ہونا ایک ایسے وقت میں جب کپاس کی پیداوار میں ۴۰ لاکھ گانٹھوں کی کمی ہوئی ہو، کپاس کی معیشت کی شرح ۶ فی صد میں مضمر ہے۔  یہ ناقابلِ یقین ہے۔ معیشت کے کسی بھی پیمانے ___ برآمدات، صنعتی پیداوار، توانائی کا استعمال اور نجی سطح پر سرمایہ کاری___ سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔

حقیقت یہ ہے جیساکہ نمایاں مبصروں نے اس کی نشان دہی کی ہے، کہ پاکستان کے شماریات کے ادارے کا اعدادو شمار میں تبدیلی کرنا غیرپیشہ ورانہ ہے۔ ہرسیکٹر کی پیداوار کے معاملے میں اضافے کی شرح حقائق پر مبنی نہیں ہے۔ پھر یہ ہیرپھیر بھی فنی مہارت سے عاری ہے۔ پیداواری سیکٹرز میں تو تبدیلی کردی گئی مگر اس کے متوازی تبدیلی اخراجات کے باب میں نہیں کی گئی جس کے نتیجے میں پیداوار (production) اور اخراجات (expenditures)کا تعاون درہم برہم ہوگیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۶-۲۰۱۵ء کے قومی حسابات ۲۳ئ۱ مارجینل رجحان کو ظاہر کرتے ہیں، جو کہ اعداد و شمار کے لحاظ سے ممکن نہیں۔

دوسرا شماریاتی ہاتھ کا کرتب سرکاری فنانس میں دکھایا گیا ہے۔ٹیکس جمع کرنے کی رقم کو بڑھایا گیا اوراس میں ان مدّات کو بھی شمار کرلیا گیا جو ۲۰۱۳ء سے بھی پہلے نان ٹیکس ریونیو کے تحت ریکارڈ کیے جارہے تھے۔ اسی طرح ۲۰۱۳ء اور ۲۰۱۶ء کے درمیان مالی خسارے میں کمی کو بھی بڑھا چڑھا کر مبالغے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے جس کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔

آخری بات یہ ہے کہ حالیہ تحفظات سرکاری اعداد و شمار کے معیار اور درست ہونے کے حوالے سے بہت زیادہ ناقابلِ اطمینان ثابت ہورہے ہیں۔

اگر معیشت کے تمام رجحانات کو سامنے رکھا جائے تو ۷ئ۴ فی صد کی شرحِ نمو کو تسلیم کرنے میں آزاد تحقیق کے تحفظات میں بڑا وزن ہے۔ ٭ ہمارا رجحان بھی ان معاشی ماہرین کی طرف ہے جن کی نگاہ میں ۷ئ۴ فی صد کا دعویٰ درست نہیں اور اصل شرحِ نمو ۱ئ۳ فی صد اور ۴ فی صد کے درمیان رہی ہے۔ حتمی طور پر کوئی بات کہنا مشکل ہے لیکن ماضی کی روایات کی روشنی میں سرکاری اعداد و شمار پر مکمل اعتماد بڑی آزمایش کا معاملہ ہے۔

اعداد و شمار پر شبہے کی داستان پرانی ہے لیکن ان تین برسوں میں موجودہ حکومت نے دستور کی دو بڑی پریشان کن خلاف ورزیاں اور بھی کی ہیں جو معاشی منصوبہ بندی، پالیسی سازی، بجٹ سازی اور مرکز اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کے باب میں مشکلات کا باعث ہیں اور باہمی اعتماد کو مجروح کرنے والی ہیں۔

ملک کی آبادی، اس کی جغرافیائی تقسیم، اس کی معاشی اور تعلیمی کیفیات یہ سب وہ بنیادی لوازمہ ہے جس کی روشنی میں معاشی منصوبہ بندی اور بجٹ سازی کی جاتی ہے۔ آخری مردم شماری ۱۹۹۸ء میں ہوئی تھی اور دستور کا تقاضا ہے کہ ہر ۱۰سال پر مردم شماری ہو۔ ۲۰۰۸ء سے یہ واجب ہے مگر حکومت (پیپلزپارٹی ۲۰۰۸-۲۰۱۳ء اور مسلم لیگ ۲۰۱۳-۲۰۱۶ئ)نے اب تک اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی۔ اپریل ۲۰۱۶ء کے بارے میں بڑی یقین دہانی تھی کہ مردم شماری ضرور کرائی جائے گی مگر عین وقت پر فوجی دستوں کی عدم دستیابی کے نام پر اسے ملتوی کردیا گیا ہے اور اس طرح یہ چوتھا بجٹ بھی ملک کے اور اس کی آبادی کے بارے میں معتبر معلومات کی جگہ تخمینوں اور اندازوں کی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے۔ یہ حکومت کی مجرمانہ غفلت اور ناقابلِ معافی کوتاہی ہے۔

اسی طرح دستور (دفعہ ۱۶۰-الف) کا تقاضا ہے کہ ہر پانچ سال پر نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ (NFC Award) آئے جن میں آبادی اور دوسرے طے شدہ بنچ مارکس کی روشنی میں مرکز اور صوبوں کے درمیان ریونیو کی تقسیم کی جائے۔ ساتواں ایوارڈ دسمبر ۲۰۰۹ء میں منظور ہوا تھا جس کی مدت دسمبر ۲۰۱۴ء میں ختم ہوگئی تھی۔ آٹھواں ایوارڈ ۲۰۱۵ء میں آجانا چاہیے تھا مگر نہ کمیشن بنا ہے اور نہ ایوارڈ آیا ہے۔ سابقہ ایوارڈ ہی کی روشنی میں محصولات کی آمدنی کو تقسیم کیا جا رہا ہے جو آئین اور قانون کے مطابق ہی نہیں زمینی حقائق اور انصاف کے اصولوں کے بھی منافی ہے۔ حکومت اس پورے معاملے کو بہت ہی ہلکا لے رہی ہے حالانکہ اس کے بڑے دُور رس آئینی، معاشی اور سیاسی مضمرات ہیں۔اسی طرح صوبوں میں بھی صوبائی فنانس کمیشن بننے چاہییں اور صوبے اور لوکل گورنمنٹ میں وسائل کی تقسیم قانون اور انصاف کے مطابق ہونی چاہیے۔ ۱۸ویں دستوری ترمیم ۲۰۱۰ء میں منظور ہوئی تھی۔ چھے سال گزرنے کے باوجود اس پر قانون اور اس کی روح کے مطابق عمل نہیں ہو رہا جس کے اثرات قومی یک جہتی کے لیے بڑے نقصان دہ ہوسکتے ہیں۔ دستور، قانون اور اجتماعی عدل کے تقاضوں سے کھیل کر کوئی قوم خیر اور اعتمادِ باہمی کو مجروح کیے بغیر نہیں رہ سکتی۔

سود کے خاتمے کے دستوری مطالبے سے انحراف

ایک اور بڑا ہی اہم دینی اور دستوری تقاضا ہے جس کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے اور ملک جہاں معاشی تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے اللہ کے غضب کو بھی دعوت دی جارہی ہے اور رزق اور معاشی ترقی کے باب میں بے برکتی کی شکل میں اس کی جھلکیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔ قرآن کا واضح اعلان ہے کہ سودی لین دین اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کی حیثیت رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس معیشت کا مٹھ مار دیتا ہے جو سود کی بنیاد پر قائم ہو۔ ہم سود کے نظام کو مستحکم اور سود سے پاک معیشت کے دعوئوں اور واضح دستوری مطالبے سے رُوگردانی کر رہے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ آج سود اور سودی قرضوں میں ہمارا بال بال گرفتار ہے۔ بجٹ کا سب سے بڑا مصرف سود اور سودی قرضوں کی ادایگی اور اس مکروہ عمل کو جاری رکھنے کے لیے مزید سودی قرضے لیناہوگیا ہے۔ ہم بڑے دُکھ اور افسوس کے ساتھ اس امر کا اظہار کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں جناب نوازشریف کی حکومت کا رویہ ظالمانہ اور شریعت اور دستور سے عملاً باغیانہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنے پہلے دور میں ۹۰کے عشرے میںوفاقی شریعت کورٹ کے سود کو ختم کرنے اور متبادل نظام کو سرکاری سطح پر رائج کرنے کا فیصلہ دیا تھا جس کے خلاف حکومت اور اس کے ایما پر مسلم کمرشل بنک جسے اس حکومت نے نجی بنایا تھا۔ سپریم کورٹ میں اپیل کی، جس کی وجہ سے یہ عمل ۱۱سال معطل رہا۔ پھر سپریم کورٹ نے مشرف دور میں اپنا تاریخی فیصلہ دیا جسے غیرمؤثر بنانے کے لیے مشرف صاحب نے شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ کے شریعت بنچ کو بدل دیا اور مسئلے کو پھر ازسرِنو سماعت کے لیے فیڈرل شریعت کورٹ کو بھیج دیا جہاں وہ آج بھی معلق ہے۔

یہ تو معاملے کا ایک پہلو ہے۔ موجودہ حکومت نے اپنے پہلے بجٹ میں اس بارے میں خاموش برتی جس پر احتجاج ہو اور اس کے نتیجے میں وزیرخزانہ نے مرکزی بنک کے نائب گورنر کی صدارت میں ایک کمیٹی بنائی جسے یہ کام سونپا گیا کہ ایک سال کے اندر اس سلسلے میں اپنی رپورٹ دے گی اور تبدیلی کا نقشۂ کار پیش کرے گی۔ ذمہ دار حضرات نے خود مجھے یقین دلایا اور ڈپٹی گورنرصاحب نے خود بھی اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اس معاملے کو پوری سنجیدگی سے لیتے ہیں بلکہ رفاہ انٹرنیشنل یونی ورسٹی کی ایک کانفرنس میں جس کا کلیدی خطبہ مَیں نے دیا تھا یہاں تک کہا کہ میرے ڈپٹی گورنر کی ذمہ داری قبول کرنے کا ایک بنیادی مصرف بھی یہ ہے کہ ملک میں غیرسودی بنکنگ کے نظام کو قائم کرنے میں کردارادا کرسکوں۔ میرے اندازے کے مطابق اس کمیٹی کی رپورٹ ۲۰۱۵ء کے وسط تک آجانی چاہیے تھی لیکن قوم کو اس کی کوئی خبر نہیں کہ کمیٹی نے کیا کام کیا ہے اور اس لعنت سے نجات کے لیے کوئی منصوبۂ کار ہے بھی یا نہیں۔ وزیراعظم صاحب اور وزیرخزانہ اس باب میں ناقابلِ معافی غفلت اور کارکردگی کے فقدان کے ذمہ دار ہیں۔ بجٹ میں اس کا کوئی ذکر نہیں حالانکہ ماضی کے بجٹ میں اس کمیٹی کے قیام کو حکومت کے ایک کارنامے کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔

کیا وزیراعظم صاحب کو یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ میری موجودگی میں ان کے   والد ِ محترم نے ۱۹۹۰ء کی دہائی میں ان کو تلقین کی تھی کہ سود سے معیشت کو پاک کرنے کا کام ذمہ داری سے انجام دیں اور میری اطلاع کی حد تک اپنی جلاوطنی کے دور میں مدینہ منورہ میں جناب نوازشریف نے کچھ افراد کے سامنے یہ اظہار کیا تھا کہ ماضی میں ان سے کوتاہی ہوئی اور اگر ان کو آیندہ موقع ملا تو وہ اس کی تلافی کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک اور موقع دیا جسے ان تین برسوں میں انھوں نے بُری طرح ضائع کیا ہے۔ اللہ کے قانون میں ڈھیل تو ہے لیکن اس کی گرفت بھی بہت ہی سخت ہے۔

ان تمام دستوری، قانونی، سیاسی اور اخلاقی تقاضوں کے باب میں موجودہ حکومت، پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کا رویہ فوری نظرثانی کا محتاج ہے۔

درپیش معاشی چیلنج

بجٹ میں ملک کو درپیش معاشی چیلنج کا صحیح ادراک ہی موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اصلاحِ احوال کے لیے جن اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے خصوصیت سے زراعت اور برآمدات کے بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ جزوی اور خام ہیں۔ معاشی ترقی کے پورے تصور (paradigm) کی ازسرِنو تشکیل کی ضرورت ہے۔ ملک کے زمینی حقائق اور دستور اور قوم کے عزائم اور توقعات کی روشنی میں مقاصد، حکمت عملی، ترجیحات اور پروگرام کے ازسرِنو تعین اور وسائل کی فراہمی اور ان کے استعمال کی صحیح منصوبہ بندی درکار ہے۔ معاملہ محض جزوی اور وقتی اصلاحات کا نہیں بنیادی پالیسی اور ترجیحات کا اور اس کے ساتھ صحیح وژن، اداروں کی اصلاح، تحقیق اور مشاورت سے مربوط پالیسیوں کی تشکیل، فیصلہ سازی اور ان کے نفاذ کے باب میں مؤثر تعمیرِصلاحیت  (capacity building) اور صرف میرٹ کی بنیاد پر مردانِ کار کا انتخاب، معاشی اور سماجی انفراسٹرکچر کی اصلاح، delivery system کی تنظیم نو___ ان میں سے ہرپہلو فوری توجہ اور مناسب تنظیم نو کا متقاضی ہے۔ موجودہ حکومت کی اب تک کی کارکردگی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پاس نہ وژن ہے اور نہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے مناسب ڈھانچا اور افرادِ کار۔

ایک اطلاع کے مطابق ۴۰ سے زیادہ اہم مرکزی ادارے باقاعدہ سربراہ سے محروم ہیں۔ دو اہم ترین وزارتیں ہمہ وقت وزیر کو ترس رہی ہیں۔ جامعات اور تحقیقی اداروں میں اپنے ملک کے مسائل کے بارے میں تحقیق اور زمینی حقائق کی روشنی میں نئی ٹکنالوجی کی دریافت کا کام معطل ہے۔ ماحول کی تبدیلی کی وجہ سے جو اثرات پڑ رہے ہیں اور ان کی روشنی میں جس قسم کی فصلوں اور ان کی کون سی اقسام کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، اس طرف کوئی توجہ نہیں ۔ زرعی میدان میں ریسرچ اور توسیعی خدمات (extension service)  غیرمتعلق ہوکر رہ گئے ہیں۔ ایک اخباری تحقیقی رپورٹ کے مطابق، ایک طرف کپاس کی کاشت بحران کا شکار ہے اور موسم کے اثرات کے علاوہ بیج کے ناقص ہونے اور جراثیم کش ادویات کی ضرورت سے مطابقت نہ ہونے نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ چین سے جو بیج درآمد کیا گیا وہ ہمارے حالات سے کوئی مطابقت نہ رکھتا تھا لیکن سیاسی مصالح یا معاشی مفادات کی خاطر یہ ظلم ملک اور کاشت کار طبقے پر کیا گیا جس کی سزا پورا ملک اور پوری فارم کمیونٹی بھگت رہی ہے مگر حکومت کو نہ حالات کا اِدراک ہے اور نہ اصلاح کا جذبہ۔ نمایشی اقدامات کیے جارہے ہیں اور اس وقت جب کپاس کی فصل تباہ اور اس کی کاشت کرنے والی پوری برادری پریشان ہے حکومت کی غفلت کا یہ حال ہے کہ سنٹرل کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ملتان مستقل افسر تک سے محروم ہے۔ تین سال سے دفتر ایسے انچارج کے ہاتھوں چل رہا ہے جو اس شعبے میں مہارت نہیں رکھتا اور عارضی چارج لیے ہوئے ہے۔ مرکزی سطح پر اسلام آباد میں کیا گل کھلائے جارہے ہیں اس کی ایک مثال یہ ہے کہ کاٹن ریسرچ کو وزارت زراعت کے بجاے وزارتِ ٹیکسٹائل کے حوالے کردیا گیا ہے جہاں کپاس کی کاشت کے اُمور سے متعلق کوئی کام ہو ہی نہیں رہا (روزنامہ دنیا، ۴مئی ۲۰۱۶ئ)

زراعت کے مسائل ہوں یا برآمدات کے___ ان جزوی اصلاحات سے ان کا حل ممکن نہیں جن کا بجٹ میں اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے لیے ان دونوں شعبوں میں پورے نظامِ کار میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ پالیسی کے اہداف سے لے کر پورے نظامِ کار بشمول Extension Services اور Delivery System کے ازسرِنو جائزے کی ضرورت ہے۔ ہر میدان میں ریسرچ اور جدید ٹکنالوجی کے استعمال کا اہتمام کرنا ہوگا۔ ہر کام کے لیے اس کے لیے مناسب مہارت رکھنے والے قابل افراد کے تقرر اور احتساب اور  باقاعدگی سے نگرانی (regulation)کے مؤثر انتظام کی ضرورت ہوگی۔ محض اَشک شوئی سے بحرانوں کی اس دلدل سے نکلنا ممکن نہیں۔ مسئلہ structural ہے صرف سبسڈیز اور زیرو ریٹنگ  سے اس بحران پر قابو پانا ممکن نہیں۔

بلاشبہہ اس پورے کام کے لیے صحیح قیادت اور مردانِ کار کے ساتھ مالی وسائل کی بھی ضرورت ہے۔ ہماری نگاہ میں ملک میں وسائل کی کمی نہیں۔ کمی دیانت داری اور مہارت و اہلیت کے ساتھ ساتھ وسائل کے حصول اور ان کے مناسب استعمال کی ہے۔ ملکی وسائل کی صحیح مو بلائزیشن اور بیرونِ وطن پاکستانیوں کو معاشی ترقی میں مؤثر انداز میں شریک کر کے قرضوں کے بغیر خطیر وسائل کا حصول ممکن ہے۔ کرپشن پر قابو پاکر حقیقی وسائل کو دوچند کیا جاسکتا ہے۔ صرف اسمگلنگ پر قابو پاکر اربوں ڈالر کے وسائل سرکاری خزانے میں لائے جاسکتے ہیں۔ ٹیکس کے نظام کی اصلاح سے     ٹیکس کی آمدنی کو دگنا اور اس سے بھی زیادہ ترقی دینا چند سال میں ممکن ہے۔ پیداوار کو value added کی سمت میں ڈھال کر اور جدید ٹکنالوجی سے بھرپور فائدہ اُٹھا کر ملک کی comptiveness کو کہیں سے کہیں پہنچایا جاسکتا ہے۔ ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، اس ٹیلنٹ سے فائدہ اُٹھانے کی کمی ہے۔ اس کے لیے ایک نئے طرزِفکر (mind-set) کی، ایک نئی ٹیم کی اور محرکات (incentives) کے ایک نئے نظام کی ضرورت ہے۔ دیانت دار اور باصلاحیت قیادت جو اپنی ذات کے مفاد کی پجاری نہ ہو بلکہ ملک و قوم کی ترقی کے لیے کمربستہ ہو، وہ چند سال میں ملک کا نقشہ بدل سکتی ہے۔ جس تبدیلی کی ملک کو ضرورت ہے وہ وہ ہے جس کی ہم نے اُوپر نشان دہی کی ہے۔ ہمیں افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ حالیہ بجٹ اور موجودہ حکومت اس تبدیلی کی سمت میں کوئی قدم بڑھانے میں بُری طرح ناکام رہی ہے اور یہی ہمارا اصل مسئلہ  ہے      ؎

ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا

ورنہ جو دُکھ ہمیں تھے، بہت لادوا نہ تھے

(کتا بچہ دستیاب ہے، منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔۱۷ روپے،۱۰۰ ۱روپے سیکڑہ۔ فون:35252211)