موجودہ دور میں ’انتہا پسندی‘ اور’ دہشت گردی‘ کے فروغ کے اصل اسباب کیا ہیں؟ اس کا کوئی معروضی اور غیر جانب دار تجزیہ کرنے کے بجاے، اسلامی فکر میں ’جدت پسندی‘ یا ’تجدد پسندی‘ کے نقیب چند لکھاری دور کی کوڑی یہ لائے ہیں کہ: ’’داعش اورالقاعدہ ہوں یا جماعت التکفیراور خودکش طالبانی فکر، یہ سب اسلامی احیائی تحریکوں کے ہاں اقامت دین کے تصور کا نتیجۂ فکر اور شاخسانہ ہیں‘‘۔ کہیں اس الزام کی تکرار ملفوف انداز میں ہے تو کہیں سید ابوالاعلیٰ مودودی، حسن البنا شہید اور سید قطب شہید کا نام لے کر کہا جا رہا ہے کہ: ’’انھوں نے حکمرانوں کو طاغوت قرار دے کر نوجوانوں کو مسلم حکمرانوں کے خلاف جذباتی بنا دیا ہے اور انھی کی بوئی ہوئی فصل کاٹ رہے ہیں‘‘۔ مقصد یہ ہے کہ: ’’اگر انتہا پسندی کا خاتمہ کرنا ہے تو لازم ہے کہ اقامت دین کے تصور پر قائم جماعت اسلامی، اخوان المسلمون، النہضہ، حماس جیسی تحریکوںاور ان کے لٹریچر کا سدباب کیا جائے جو نوجوانوں میں سامراجیت اور اس کے طرف دار حاکموں کی حاکمیت کے خلاف بولنے کا جذبہ پیدا کر رہے ہیں‘‘۔
جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون کی سیاسی پالیسیوں سے اختلاف کرنا کوئی اَنہونی بات نہیں، لیکن ہر صاحب ِ علم اس بات کا شاہد ہے کہ ان تحریکوں کے بانی اور پھر بعدازاں قائدین بھی اس بارے میں ہمیشہ واضح رہے ہیں کہ: وہ کسی غیر آئینی سرگرمی کا حصہ نہ بنیں گے۔ اگر ان تحریکوں میں کبھی کسی فرد نے انفرادی سطح پر انحراف کیا بھی تو ان تحریکوں نے فوراً اس پر گرفت کی ہے۔ خفیہ سرگرمیوں اور انقلاب کے بارے میں سید مودودی کا موقف واضح اور دو ٹوک رہا ہے۔ عرب ممالک میں جب بھی انھیں خطاب کا موقع ملا، انھوں نے نوجوانوں کو یہی نصیحت کی کہ وہ خفیہ کارروائیوں کا حصہ نہ بنیں۔ اپنے مطالعے، تجزیے اور بصیرت کے نتیجے میں انھیں اپنے اس موقف پر تیقن حاصل تھا کہ خفیہ انقلاب اس مقصد اور حصولِ منزل کے لیے ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔ وہ کھلے عام دعوت پھیلانے اور راے عامہ کی تیاری اور ذہنوں کو مسخر کرنے کی بات کرتے ہیں۔ انھیں اس طرز عمل کی پاداش میں قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ حکومت نے ان کی جماعت پر پابندی بھی لگائی، لیکن انھوں نے قانونی جنگ لڑ کر تنظیم بحال کروائی۔ ۱۹۵۳ء میں تحریکِ ختم نبوت کے دوران میں ’ڈائرکٹ ایکشن پالیسی‘ کے خلاف ان کا بڑا واضحموقف تھا، جس کے باعث علما کے ایک حلقے نے انھیں مطعون بھی کیا اور آج تک نہیں بخشا۔ اسی مسئلے پر حکومت نے جب سمری کورٹ سے انھیں سزاے موت دلوائی تو جماعت اسلامی کی قیادت نے کوئی تشدد کا طریقہ اختیار نہ کیا۔ آئینی احتجاج کا حق استعمال کیا اور بس۔
یہی حال مصر اور دیگر عرب ممالک کی بڑی تنظیم اخوان المسلمون کا ہے۔ اس کے بانی حسن البنّا نے بار بار اس بات کا اعادہ کیا کہ ہمارا ایک لگا بندھا راستہ ہے جن کی مخالفت نہ میں خود کروں گا او رنہ دوسرے کریں۔ مردانگی محض جوش اور جلد بازی کا نام نہیں بلکہ حقیقی جوانمردی تو صبرواستقامت، سنجیدگی اور مستقل مزاجی کا نام ہے۔ جو ہتھیلی پر سرسوں جمانے کاشوق رکھتے ہیں اور پکنے سے پہلے پھل توڑنا چاہتے ہیں، یہ تحریک ان کا میدان نہیں۔ حسن البنا کے مطابق پہلے بیج بویا جاتا ہے پھر وہ نشوونما پاتا ہے۔ مدت مقررہ اور مطلوبہ محنت کے نتیجے میں پھول اور پھل لگتے ہیں، پھر انتظار کے بعد پھل پکتا ہے ، تب توڑنے کی نوبت آتی ہے۔
اسی فکری تربیت کا نتیجہ تھا کہ حسن البنا کو ۱۹۴۹ء میں حکومتی کارندوں نے قاہرہ کی اہم شاہراہ پر واقع اخوان المسلمون کے دفتر کے عین سامنے فائرنگ کرکے موت و زندگی کی کش مکش میں مبتلا کیا۔ ستم کی بات یہ ہے کہ قصر العینی ہسپتال میں ڈاکٹروں کو ان کی طبی امداد سے بھی روک دیاگیا۔مسلسل خون بہنے سے بالآخر وہ شہید ہو گئے ۔ان کے جنازے کو کندھا دینے کے لیے صرف بوڑھے باپ اور گھر کی خواتین کو اجازت دی گئی۔ اس کے باوجود اخوان نے حکومتی جماعت کے کسی لیڈر کو نشانہ نہیں بنایا، بلکہ انھی دکھی کارکنوں کو جیلوں میں بند کر دیا گیا۔ ہزاروں مردوں اور خواتین کو جیلوں میں مختلف ادوار میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
۶۰ کے عشرے میں مصر کے جدید فرعون جمال عبدالناصر نے سید قطب جیسے مفکر و مفسر قرآن کو تختۂ دار پر چڑھا دیا۔ انھوں نے پھانسی کے پھندے کو چوم لیا لیکن پھانسی دینے والے ’طاغوت‘ کے خلاف کسی قتل عام اور خروج کی وصیت نہ کی، اور نہ اخوان نے کبھی قانون کو ہاتھ میں لینے کے عمل کی حوصلہ افزائی کی۔
آخر یہ کیسے ممکن ہوا کہ سید قطب شہید اور سید مودودی کی ’طاغوت‘ کی تشریح پڑھنے کے باوجود جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون سے وابستہ افراد کی عظیم اکثریت اور نمایندہ تنظیمیں تو ان حکمرانوں کے خلاف آمادہ قتال نہ ہوئے، مگر اتہام و الزام لگانے والوں کے بقول طالبان اور داعش ، القاعدہ کے ان مظلوم لیڈروں کی تحریروں سے متاثر ہو کر اس راہ پر چل نکلے۔یہاں پر دل چسپ لطیفہ یہ ہے کہ داعش اور طالبان قسم کی تنظیموں کے نزدیک سید مودودی اور قطب شہید گمراہ تھے اور جن کا لٹریچر پڑھنا ان کے ہاں شجر ممنوعہ ہے۔
اسی طرح اس حقیقت سے کوئی اندھا بھی انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان میں خودکش حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والی ان سب تنظیموں کا تعلق جس مکتب فکر سے ہے ،اس کے نزدیک تو جماعت اسلامی کا لٹریچر ’گمراہ کن‘ ہے اور ان کے مدارس میں سید مودودی کی کتب کا داخلہ ممنوع ہے۔ افغانستان میں جب اس مکتب فکر کے پروردگان کو اقتدار ملا تو انھوں نے جن منکرات کو مٹانے کا حکم جاری کیا، ان میں سے ایک منکر مولانا مودودی کا لٹریچر بھی تھا، جب کہ جماعت اسلامی صوبہ خیبر پختونخوا کے متعدد کارکن خود کش حملوںکی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ حتیٰ کہ رحلت سے چند ماہ پہلے قبل امیر جماعت اسلامی قاضی حسین پر بھی خود کش حملہ کیا گیا۔
ہمارے ’تجدد پسند‘ حلقے کے ترجمان رسائل و جرائد میں کبھی اُن سازشوں کے خلاف لب کشائی نہیں کرتے جو یورپ اور امریکا مسلمانوں کے خلاف کررہا ہے۔ ان کی تہذیب و ثقافت مٹانے کے لیے جو حربے امریکا کی زیرقیادت مغرب و مشرق کی سامراجی قوتیں اختیار کررہی ہیں، ان کو کبھی ان ’اصلاح پسندوں‘ نے بے نقاب نہیں کیا ، مگر ہر آن مسلمانوں کی تحریکیں ہی ان کی نظر میں معتوب ٹھیرتی ہیں۔
جہاں تک جہاد کے لیے حکومت و امارت کی اجازت کا تعلق ہے تو پاکستان جیسے منضبط ملک میں تو اس فکر کو وزن حاصل ہے لیکن کشمیر کی مسلم ریاست پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے سامراج اور تمام بین الاقوامی فورمز پر وعدے کے باوجود ان کی کسی قرار داد کو پرکاہ کے برابر اہمیت نہ دینے والے ملک کے بارے میں بھی کیا یہی اصول لاگو ہوگا؟ اس کا کوئی جواب نہیں دیا جاتا۔ عراق اور افغانستان پر امریکی قبضے کا کیا اخلاقی و بین الاقوامی جواز ہے؟ ان ملکوں میں اگر روس نے قبضہ کیا اور افغان عوام اپنی آزادی اور عزت و مال کے تحفظ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تو ایک زمانے میں ان کے نزدیک یہ جہاد درست تھا۔ لیکن اگر اب وہ اپنی آزادی کے لیے جنگ لڑیں تو اس لیے غلط قرار پائے کہ اس وقت صرف ایک امریکا کو دنیا پر کنٹرول حاصل ہے اور اسے چیلنج کرنا فساد کے سوا کچھ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کہیں صحیح وغلط کا معیار امریکا تو نہیں بن گیا کہ جب تک وہ جہاد افغانستان کا پشتی بان رہا ،جہاد درست اور جب مسند ِامریکا سے جہاد کے خلاف فتویٰ صادر ہوا تو جہاد یک قلم موقوف۔
فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جو اپنے مال کی حفاظت میں مارا گیا وہ شہید ہے۔ جو عزت و ناموس کی حفاظت میں اور اپنی جان کی حفاظت میںمارا گیا ،وہ شہید ہے۔ کیا جن کے گھر برباد ہوں، عصمتیں پامال ہوں، وہ بھی اس وقت تک انتظار کریں کہ مسلمان حکمران بیدار ہوں، یاان کے حکومت میں آنے کا انتظار کریں اور پھر جہاد کریں۔ یہ تو گھوڑے کے آگے گاڑی باندھنے والی بات ہوئی۔ ساحل پر بیٹھ کر دریا کا نظارہ کرنا اور تجویز اور اصول سمجھانا آسان ہے لیکن بھنور میں پھنسے ہوئے لوگوں کے حالات کا ادراک اُن کے بس میں نہیں جو مغربی حکومتی عطیات پر زندگی پانے والی این جی اوز سے رزق پاتے اور ان کی پشت پناہی پر نازاں رہتے ہیں۔
مصر میں باقاعدہ عوامی راے دہندگان کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آنے والے اخوان نے ایک سال حکومت کی۔ متجددین کی محبوب جمہوریت کے سارے تقاضے پورے کیے۔ انھوں نے لبرل لوگوں کو بھی باوجود اقلیتی گردہ ہونے کے، حکومت میں شامل رکھا۔ ان کے ناز نخرے برداشت کیے۔ لیکن عالمی قوتوں نے ایک فوجی حکمران کے ذریعے انھیں حکومت سے بے دخل کرکے منتخب صدر مرسی کو جیل میں بند کر دیا اور تحریر چوک میں پُرامن احتجاج کرنے والے روزہ دار شہریوں کو ٹینکوں تلے کچل دیا یا گولیوں کی بوچھاڑ میں بھون دیا، حتیٰ کہ روزہ دار خواتین کے ناموس تک کو پامال کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ متجددین کے ’حلقہ اصلاح پسنداں‘ نے اس شہید جمہوریت کے لیے کتنی آواز بلند کی؟
راشد الغنوشی کی جماعت النہضہ حکومت میں آئی۔ وہ جمہوریت کے استحکام کے لیے تمام بنیادی اسلامی مطالبات سے بھی دستبردار ہو گئے۔ لیکن یہ روشن خیال لبرلز انھیں معاف کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ترکی میں طیب اردگان کی معمولی سی اسلام پسندی بھی گوارا نہیں۔ جس جماعت اسلامی کو انتہاپسندی کے حوالے سے مطعون کیا جا رہا ہے، اس کی اعتدال پسندانہ سوچ کا تو حال یہ ہے کہ وزیراعظم بھٹو کی تمام زیادتیوں کے باوجود مولانا مودودی نے آخری دم تک کوشش کی تھی کہ بھٹوصاحب پُرامن،جمہوری راستہ اختیار کرلیں اور مارشل سے بچا جاسکے۔ اسی طرح انھوں نے بھٹوصاحب کے ہر مثبت کام کی تائید بھی کی اور تعارف بھی کیا۔
اخوان المسلمون کے بانی مرشد جب پہلی مرتبہ الیکشن میں اُمیدوار بنے تو عین اس موقعے پر جب ان کی کامیابی کے واضح امکانات تھے، انھوں نے اپنی حب الوطنی کے باعث محض اس بنا پر الیکشن سے دست برداری اختیار کر لی کہ انھیں ملک کی معتبر شخصیات نے پیغام دیا تھا کہ: ’’حسن البنا کی کامیابی کی صورت میں بیرونی طاقتوں کی طرف سے ملک کو بہت سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘۔
ویسے تو لبرلز اور متجددین عناصر، علما و عوام کو فضائل جمہوریت کے ساتھ آداب جمہوریت کا سبق دیتے نہیں تھکتے۔ لیکن اگر یہی علما اور دینی جماعتیں اسی جمہوریت کے دیے ہوئے حقِ احتجاج کو اختیار کریں اور عوام کو سڑکوں پر لائیںتو یہ بات انھیں علماے کرام کے شایان شان دکھائی نہیں دیتی۔ لکھتے ہیں کہ اسلامی تاریخ کے بڑ ے علماے کرام نے حکمرانوں کے خلاف کوئی انقلابی تحریک نہیں اٹھائی۔ عامۃ الناس کو سڑکوں پر نہیں لائے۔ گویا جمہوریت کی چوکھٹ پر سرنیاز رکھ کر بھی اگر علما، حاکمیت الٰہی کے قیام کا مطالبہ کریں یا حکمرانوں کے ظلم کی چکّی میں پسے ہوئے عوام کے جذبات کے جمہوری اظہار کی نمایندگی کریں، تو انھیں یہ بھی گوارا نہیں۔گویا ان کا مقصد یہ ہے کہ عوامی جذبات کی نکیل بھی دنیا دار سیاست دانوں کے ہاتھ میں رہے تو یہی جمہوری حسن کہلائے گا۔
تجدد پسندوں کے نزدیک حکمرانوں کے خلاف مسلح خروج درست نہیں، لیکن نہتے عوام کا سڑکوں پر آکر اپنے مطالبات پہنچانے کے لیے پر امن احتجاج بھی ان ’دانش مندوں‘ کے نزدیک خروج کا قائم مقام قرار پاتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ: ’’ہم جمہوری عہد میں زندہ ہیں۔ سیاسی جدوجہد کا حق سب کو حاصل ہے اور علما کو بھی ابلاغ کے سب ذرائع میسر ہیں، انھیں ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکمرانوں کے خلاف کلمۂ حق کہنا چاہیے‘‘۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کتنے مسلم ممالک میں یہ جمہوریت موجود ہے؟ یہی بس گنتی کے چند ممالک۔ اور جن ممالک میں اس جمہوریت کے ذریعے علما کی کچھ تعداد یا دین کے طرف دار حکومت میں آگئے، انھیں بین الاقوامی سامراج اور ان کے مقامی کاسہ لیسوں نے کتنی وسعتِ ظرف سے برداشت کیا۔ الجزائر، مصر، اور فلسطین اتھارٹی اس کی مثالیں ہیں۔
متجددین کا مخمصہ یہ ہے کہ وہ جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنے والے ابوحنیفہ، مالک وابن حنبل کی تعریف تو کرتے ہیں، لیکن یہ بات نہیں بتاتے کہ حکمران، اہل حق کو بدنام کرنے کے لیے ابلاغی ہتھکنڈے استعمال کریں تو کیا ا ن کے پراپیگنڈے کو بطور حقیقت قبول کر لیا جائے؟ اخوان المسلمون کے خلاف مصروشام میں ظلم و تشدد ہی نہیں کیا گیا بلکہ پراپیگنڈے کا طوفان برپا کیا گیا کہ وہ جنونی ہیں، متشدد ہیں، انتہا پسندہیں‘‘۔
البتہ اسلامی تحریکوں کی اولین قیادت کا یہی جرم کافی بڑا ہے کہ وہ حکمرانوں کے ظلم و تشدد کے باوجود انھی ملکوں میں موت کے سامنے بھی عزیمت کے ساتھ کلمۂ حق کہتے رہے۔ ہمارے ہم عصر پاکستانی متجددین کے استاد صاحب چند گم نام دھمکیوں سے ڈرکر اور عزیمت کا راستہ چھوڑ کر دوسرے ملک میں پناہ گزیں ہوگئے۔ ہم دھمکی دینے والوں کی مذمت کرتے ہیں اور دلیل سے بات کرنے اور سننے کی دعوت دیتے ہیں۔ بہرحال، اس ’دانش مند‘ حلقے میں اس بات کا وعظ بہت ہوتا ہے کہ اہل حق کو سخت ترین حالات میں صبرواستقامت اور تحمل سے انذار کرتے رہنا چاہیے۔ کاش! اور نہیں تو ان کے زعیم اول تو کم از کم اہل حق کی عزیمت اور صبر کا عملی نمونہ اپنے چاہنے والوں کے لیے چھوڑ جاتے، تاکہ آج کے جذباتی نوجوانوں کو صبر و تحمل کی حقیقت اور اہمیت کے سارے پہلو سمجھ آجاتے۔ اگر سقراط حق کے لیے زہر کا پیالہ پی سکتا ہے تو ایک تجدد پسند مذہبی اسکالر کو اپنے حق پر جمے رہنا چاہیے تھا۔
سیّد مودودی، حسن البنا شہید اور سیّد قطب شہید تک، پھر آج بنگلہ دیش کی اسلامی تحریک کے رہنمائوں نے جس عزیمت کے ساتھ پھانسی کے پھندوں کو چوما ہے، اور وہ بھی قطاراندرقطار، سوال یہ ہے کہ ابوحنیفہ و ابن حنبل کی استقامت کے جانشین وہ ہیں یا، ’جلیل القدر متجددین‘ جو چند دھمکیوں سے خوف زدہ ہو کر خاموشی سے دوسرے ملک میں جا بیٹھے۔ اس پر مستزاد یہ کہ یہ لوگ اس پر داد کے طلب گار ہیں اور اس کو یہ کہتے ہیں کہ کلمۂ حق کی پاداش میں انھیں ’ہجرت‘ کرنا پڑی۔ کیا واقعی ان کے لیے کلمۂ حق کہنا اور اسلام پر عمل کرنا اس ملک میں اتنا مشکل ہو گیا تھا کہ وہ ہجرت جیسی دینی اصطلاح کا سہارا لے رہے ہیں۔
کیا آج الجزائر، مصر، شام، خلیجی ریاستوں اور بنگلہ دیش کے حکمرانوں کے سامنے کلمۂ حق کہنا آسان ہے؟ کلمۂ حق کی پاداش میں اس وحشیانہ ظلم و تشدد کا سامنا کرنے کے باوجود، جماعت اسلامی پاک و ہند ہو یا بنگلہ دیش یاعرب اخوان المسلمون، ان پر کسی حکمران جماعت کے معمولی لیڈر تک پر قاتلانہ حملے کی کوئی قابل ذکر مثال موجود نہیں۔ مگر اس کے ساتھ یہی متجددین لوگ ان تحریکوں کے کارکنوں سے ایسی اطاعت شعاری کا مطالبہ کرتے ہیں کہ جس میں وہ تڑپ کر آہ بھی نہ کرسکیں۔ بس لاشیںاُٹھائیں، اور پھر اگلی لاش کا انتظار کریں۔ مگر اپنے من پسند غاصب اور ظالم کے لیے پھولوں کے ہاروں کے طلب گار ہیں۔ اگر وہ بے چارے، ان استعماری عزائم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں تو یہ دانش ور ان کے پشتی بان بننے کے بجاے انھی پر گولہ باری شروع کردیتے ہیں جن کوامریکی تھنک ٹینک ’رینڈکارپوریشن‘ پولیٹیکل اسلام کے نام سے خطرناک قرار دیتا ہے۔ عجیب حسن اتفاق ہے کہ جس ’پولیٹیکل اسلام ‘سے امریکا خوف زدہ ہے۔ وہی’ پولٹیکل اسلام‘ ان متجددین کی چاند ماری کے نشانے پر ہے۔
ان دانش وروں کی دانست میں موجودہ ’انتہا پسندی‘ کی اصل ذمہ دار یہ اسلامی تحریکیں ہیں، حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہ اسلامی تحریکیں ہی تھیںجنھوں نے پون صدی کے عرصے تک اس امت کے نوجوانوں کو انتہا پسندی کی طرف جانے سے روکے رکھا۔
مصر کے اندر جماعت التکفیر اس وقت پیدا ہوئی، جب نصف صدی تک اس امت کے صالح اور بے قصور نوجوانوں کو جیلوں میں گلنے سڑنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ شام میں ۱۹۸۲ء میں اخوان کے اکثریتی شہر حماۃ کو حافظ الاسد نے ملیامیٹ کردیا۔ الجزائر کے اسلامک فرنٹ کی ۸۰ فی صد اکثریتی جمہوری کامیابی کو تسلیم نہ کیا گیا،تو نوجوانوں میں اضطراب پیدا ہوا۔ اس پر مستزاد یہ کہ سامراج کی ایجنسیوں نے ان مضطرب لوگوں کو اسلامی تحریکوں کو کاؤنٹر کرنے کے لیے آگے کیا۔ کیا اس میں اب کوئی ابہام رہ گیا ہے کہ طالبان کی ابتدائی ساخت پرداخت کب ہوئی؟ اس وقت بے نظیر بھٹوصاحبہ کی حکومت نے اسے منظم کیا۔ داعش کے پھلنے پھولنے اور اس کے غبارے میں ہوا بھرنے کے لیے عراق میں خود امریکا نے کتنے ہی اپنے اڈے آسانی سے اس کے حوالے کیے۔ داعش نے امریکا کے بجاے ان اعتدال پسند مظلوم اخوانیوں کو ہی قتل کیا جو امریکا کو گوارا نہ تھے۔
ہماری درخواست ہے کہ جدت پسند اپنا سارا زور اپنے تجزیے کو درست ثابت کرنے پر لگانے کے بجاے حکمرانوں کے آئینی انحرافات پر لکھیں، جن کے رد عمل میں نوجوانوں میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ آئین کی شرعی دفعات محض نمایشی ہیں۔ بین الاقوامی سامراجی قوتوں کے عزائم پر بھی لکھیں، جنھوںنے مسلمانوں کے معاشی وسائل کو ہی نہیں لوٹا، ان کی تہذیب و ثقافت پر بھی حملے شروع کر رکھے ہیں۔ مگر اس متجدد قبیلے کے لیے یہ بات سمجھنا بہت مشکل ہے کہ اُمت مسلمہ کے ظالم حکمرانوں نے نوجوانوں کو کتنا ذہنی ونفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ ایسے نام نہاد اصلاح پسندوں نے حکمرانوں کے سامنے کلمۂ خیر کہنے اور پُرامن احتجاج کو بھی خروج کے برابر تصور قرار دے رکھا ہے۔
ایک اور اچنبھے کی بات یہ ہے کہ ان جدت پسندوں کے ’استاد مکرم‘ ایک طرف تو تصوف کو دین کے متوازی دین قرار دیتے ہیں،دوسری طرف خود دین کا مقصد محض انفرادی تزکیہ قرار دیتے ہیں۔ اس طرح وہ دوسرے انداز میں، انفرادیت پسندی کے اسی تصور پر مبنی شخصیت کو آئیڈیل قرار دے رہے ہیں جو تصوف تیار کرتا ہے۔ کیا اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ تہذیب مغرب کے مفتی کے نزدیک انفرادیت پسندی (Individulism) ایک بنیادی قدر ہے اورا س کا فروغ سامراجی طاقتوں کی ضرورت ہے جو کہ تصوف سے پورا ہونے کی انھیں اُمید ہے۔