خواتین کے حقوق کے حوالے سے پنجاب اسمبلی میں منظور ہونے والے بل پر جس بحث کا آغاز ہوا وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے مجوزہ بل سے ہوتی ہوئی ہمارے اخبارات کے کالموں اور برقی ذرائع ابلاغ کے چینلوں پر خواتین پر تشدد تک آگئی۔ کئی کالم نگار اور وزیرقانون پنجاب حدیں پار کرگئے۔ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے خواتین کے حقوق پر مکمل کتاب حقوق الزوجین لکھی ہے جو آج بھی حسب ِ حال ہے۔ اس کا ایک مختصر حصہ جو خاص اس پہلو سے متعلق ہے جو کچھ زیادہ ہی موضوع بنا ہوا ہے، پیش کیا جارہا ہے۔ جو مسئلے کے ہرپہلو سے تفصیل سے آگاہ ہونا چاہتے ہیں، اس کتاب کا مطالعہ فرمائیں۔(ادارہ)
اگر عورت اپنے شوہر کی اطاعت نہ کرے یا اس کے حقوق میں سے کسی حق کو تلف کرے تو ایسی صورت میں مرد پر لازم ہے کہ پہلے اس کو نصیحت کرے، نہ مانے تو اس کو اختیار ہے کہ اپنے برتائو میں حسب ِ ضرورت اس کے ساتھ سختی کرے،اور اگر اس پر بھی نہ مانے تو وہ اس کو مار سکتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس کی اطاعت کرنے لگے:
وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَ اھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْھِنَّ سَبِیْلًا ط(النساء ۴:۳۴) اور جن عورتوں سے تم نشوز۱؎ دیکھو ان کو نصیحت کرو اور بستروں پر ان کو چھوڑ دو اور ان کو مارو۔ اگر وہ تمھاری اطاعت کریں تو پھر ان پر سختی کرنے کا کوئی طریقہ نہ ڈھونڈو۔
اس آیت میں وَ اھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ (یعنی بستروں پر ان کو چھوڑ دو) فرما کر سزا کے طور پر ترکِ مباشرت کی اجازت دی گئی ہے۔ مگر آیت ِایلاء (البقرہ ۲:۲۲۷) نے اس کے لیے ایک فطری حدمقرر کر دی ہے کہ یہ بستر کی علیحدگی چار مہینے سے زیادہ نہ ہو۔ جو عورت اتنی نافرمان اور شوریدہ سر ہو کہ شوہر ناراض ہو کر اس کے ساتھ سونا چھوڑ دے اور وہ جانتی ہو کہ چار مہینے تک یہ حالت قائم رہنے کے بعد شوہر ازروے احکامِ الٰہی اس کو طلاق دے دے گا، اور پھر بھی وہ اپنے نشوز سے باز نہ آئے، وہ اسی قابل ہے کہ اسے چھوڑ دیا جائے۔ چار مہینے کی مدت ادب سکھانے کے لیے کافی ہے۔ اس سے زیادہ مدت تک یہ سزا دینا غیرضروری ہوگا۔ کیوںکہ اتنے دن تک اس کا نشوز پر قائم رہنا، یہ جانتے ہوئے کہ اس کا نتیجہ طلاق ہے، اس بات کی دلیل کے کہ اس میں ادب سیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، یا وہ حُسنِ معاشرت کے ساتھ کم از کم اس شوہر سے نباہ نہیں کرسکتی۔ نیز اس سے وہ مقاصد بھی فوت ہونے کا اندیشہ ہے جن کے لیے ایک مرد کو ایک عورت کے ساتھ رشتۂ مناکحت میں باندھا جاتا ہے۔ ممکن ہے ایسی حالت میں شوہر اپنی خواہشاتِ نفس پوری کرنے کے لیے کسی ناجائز طریقے کی طرف مائل ہوجائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عورت کسی اخلاقی فتنے میں مبتلا ہوجائے۔ یہ بھی اندیشہ ہے کہ جہاں میاں بیوی میں سے ایک اس قدر ضدی اور شوریدہ سر ہو وہاں زوجین میں مؤدت و رحمت قائم نہ ہوسکے گی۔
امام سفیان ثوری سے وَ اھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ کے معنی میں ایک دوسرا قول منقول ہے۔ وہ کلام عرب سے استدلال کرکے کہتے ہیں کہ ھجر کے معنی، باندھنے کے ہیں۔ ھَجَرَ الْبَعیْرا اذا ربطہ صَاحِبْہٗ بِالْھِجَارِ۔ ہجار اُس رسّی کو کہتے ہیں جو اُونٹ کی پیٹھ اور ٹانگوں کو ملا کر باندھی جاتی ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مقصود یہ ہے کہ جب وہ نصیحت نہ قبول کریں تو گھر میں ان کو باندھ کر ڈال دو۔ لیکن یہ معنی قرآنِ مجید کے منشاء سے بعید ہیں۔ فِی الْمَضَاجِعِ کے الفاظ میں قرآن نے اپنے منشا کی طرف صاف اشارہ کر دیا ہے۔ مضجع سونے کی جگہ کو کہتے ہیں اور سونے کی جگہ میں باندھنا بالکل بے معنی بات ہے۔
دوسری سزا جس کی اجازت زیادہ شدید حالات میں دی گئی ہے، مارنے کی سزا ہے۔ مگر اس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قید لگادی ہے کہ ضربِ شدید نہ ہونی چاہیے:
اِضْرِبُوْھُنَّ اِذَا عَصَیْنَکُمْ فِی الْمَعْرُوْفِ ضَرْبًا غَیر مُبَرَّحٍ وَلَا بِضَرْبِ الْوَجْہِ وَلَا یقبح،اگر وہ تمھارے کسی جائز حکم کی نافرمانی کریں تو ان کو ایسی مارمارو جو زیادہ تکلیف دہ نہ ہو۔ منہ پر نہ مارے اور گالم گلوچ نہ کرے۔
یہ دو سزائیں دینے کا مرد کو اختیار دیا گیا ہے مگر جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے، سزا اُس نافرمانی پر دی جاسکتی ہے جو مرد کے جائز حقوق سے متعلق ہو۔ نہ یہ کہ ہرجا و بے جا حکم کی اطاعت پر اصرار کیا جائے اور عورت نہ مانے تو اس کو سزا دی جائے۔ پھر قصور اور سزا کے درمیان بھی تناسب ہونا چاہیے۔ اسلامی قانون کے کلیات میں سے ایک کلیہ یہ بھی ہے کہ فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ (البقرہ ۲:۱۹۴) ’’جوکوئی تم پر زیادتی کرے اس پر اتنی ہی زیادتی کرو جتنی اس نے کی ہے‘‘۔ زیادتی کی نسبت سے زیادہ سزا دینا ظلم ہے۔ جس قصور پر نصیحت کافی ہے اس پر ترکِ کلام، اور جس پر ترکِ کلام کافی ہے اس پر ھجر فی المضاجع، اور جس پر ھجر فی المضاجع کافی ہے اس پر مارنا ظلم میں شمار ہوگا۔مار ایک آخری سزا ہے جو صرف شدید اور ناقابلِ برداشت قصور پر ہی دی جاسکتی ہے اور اس میں بھی وہ حد ملحوظ رکھنا ضروری ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمائی ہے۔ اس سے تجاوز کرنے کی صورت میں مرد کی زیادتی ہوگی اور عورت کو حق ہوجائے گا کہ اس کے خلاف قانون سے امداد طلب کرے۔ (حقوق الزوجین، ص۴۵-۴۸)