جولائی ۲۰۱۶

فہرست مضامین

روزے کے ثمرات سمیٹئے

ڈاکٹر نصیر خان | جولائی ۲۰۱۶ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

مسلمانوں کی روحانی تربیت اور تزکیٔہ نفس کے لیے رمضان المبارک کا پورا مہینہ مسلسل بھوک ،پیاس ،قیام اللیل اور جنسی خواہشات اور گناہوںسے رکنے کی مشق کروائی جاتی ہے۔ یہی تزکیٔہ نفس یا تقویٰ کاحصول روزے کا مقصد قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرہ۲:۱۸۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیے گئے ، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔

تقویٰ زندگی کے تما م شعبوں میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسو ل کی اطاعت بجا لانے اور نافرمانی سے بچنے کا نام ہے۔رمضان المبارک میںاسی احساس کو بیدارکرنے کی مشق ہوتی ہے۔اسی مقصدکے حصول کے لیے دن کے وقت بھوک پیاس کو برداشت کیا جاتا ہے اور رات کو عبادات کے لیے قیام کیا جاتا ہے۔

اگرروزے سے اللہ کی رضا ،بخشش اور تزکیہ نفس کے مقاصدحاصل نہ ہوں تو اس سے بھوک پیاس کی تکلیف کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’’کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں جن کو اپنے روزوں سے سواے بھوک کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی رات کو کھڑے ہونے ہونے والے ایسے ہیں جن کو سواے شب بیداری کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا‘‘۔(مسند احمد، مسند ابی ہریرہ ، حدیث:۹۳۰۸)

ایک مہینے کی مسلسل مشق سے صیام وقیام کے اثرات قلب و جسم پر نقش ہوجاتے ہیں ۔اگر ہم ان ثمرات کو اپنے شب و روز کے اعمال میں زندہ رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہم نے حقیقت میںروزوں کی روح کو پا لیا اور اگر ہماری زندگی میں ان کا عکس مفقود رہا تو ہم گویا رمضان کے مقصد کے حصول میں ناکام اور سراسر نقصان کے مستحق ٹھیریں گے۔

قابلِ غور بات یہ ہے کہ ان ثمرات کو کیسے باقی رکھا جائے؟ اسی سوال کا جواب تلاش کرنا اس تحریر کا مقصد ہے۔

  •  مقصودِ روزہ:تمام عبادات اپنے اندر ایک گہری مقصدیت رکھتی ہیں۔ نماز کا مقصد اطاعت کی صفت پیدا کرنااور منکرات سے بچانا ہے ۔زکوۃ کا مقصد سخاوت و فیاضی کے وصف سے متصف ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے کمزور اور محروم طبقات کی مدد کی ترغیب بھی ہے ، نیز حُبِ مال کی بیماری کا علاج بھی ہے ۔حج کا مقصد جان ومال کی قربانی کے ساتھ ساتھ ہجرت الی اللہ کے جذبے سے سرشار ہونا ہے۔ اسی طرح روزے کا مقصد تقویٰ اور تزکیہ وتربیت ہے۔

 رمضان المبارک میں مسلمان اپنی جسمانی اورنفسانی خواہشات کے خلاف جہاد میں مصروف رہتے ہیں۔بھوک اور پیاس پرقابوپانے،شب بیداری (تراویح و تہجد) اورقرآن کریم کی تلاوت جیسے اہم اعمال میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ جسمانی تقاضوں کی کم از کم اور روحانی تقاضوں کی زیادہ سے زیادہ رعایت کرتے ہیں تاکہ روح بیدار اور تواناہو جائے اور اپنے رب سے تعلق مضبوط بنا سکے۔ یہ سارے عوامل تقویٰ کی کیفیت کے حصول میں معاون ہیں۔

جو اوصاف جن عوامل سے وجود میں آتے ہیں ،انھی عوامل سے برقرار بھی رہتے ہیں ۔اگر وہ عوامل نا پید یا کمزور پڑ جائیں تو ان اوصاف کا برقرار رہنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ ذیل میں ان عوامل کی کسی قدر تفصیل بیان کی جاتی ہے جو تقویٰ کو باقی رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ 

  •  نفلی روزوں کا اھتمام : اسلامی عبادات کے فلسفہ اور حکمت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ایک صورت فرض کی ہے اور دوسری نفل کی۔ فرض کا ایک خاص وقت معین ہوتا ہے، جب کہ نفل کے لیے وقت کا اس طرح تعین نہیں ہوتا۔ لیکن نفلی عبادات بھی ہیئت کے اعتبار سے فرض کے قریب اور مشابہ ہوتی ہیں اور ان کی ادایگی سے فر ض عبادت کی انجام دہی آسان ہوتی ہے اور اس کی روح برقرار رہتی ہے ۔اسی طرح اگر فرض عبادات میں کوئی کمی رہ جائے تو روزِقیامت وہ نفل عبادات سے پوری کی جائے گی ۔ نماز ، زکوۃ اور حج کی فرض صورتیں وقت معین میں ادا ہوتی ہیں لیکن نفلی نماز ، نفلی صدقات اور عمرہ پورے سال کے دوران ادا کیے جا سکتے ہیں یہی حال نفلی روزے کا بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلامیہ میں صرف فرض روزے ہی نہیں بلکہ نفلی روزے بھی موجود ہیں جن کا مقصد روحِ روزہ کو برقرار رکھنا ہے۔ شوال ، عاشورہ محرم ، ایام بیض، پیر اور جمعرات کے روزے اور دیگر نفلی روزے جن کا ذکر احادیث میں ملتا ہے، سب اسی قبیل سے ہیں ۔اس لیے گاہے گاہے نفلی روزے کا اہتمام کرنا روح صوم کی آبیاری کے مترادف ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ِ گرامی ہے: ’’جس نے ماہِ رمضان کے روزے رکھے اس کے بعد ماہِ شوال میں چھے نفلی روزے رکھے تو اس کا یہ عمل ہمیشہ روزہ رکھنے کے برابر ہے‘‘۔(مسلم،حدیث:۱۹۸۴)

دوسری روایت میں آیا ہے:’’چار چیزیں وہ ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی نہیں چھوڑتے تھے:۔عاشور،عشرہ ذی الحجہ( یعنی یکم ذی الحجہ سے یوم العرفہ یعنی نویں ذی الحجہ تک) اورہر مہینے کے تین روزے اور فجر سے پہلے کی دو رکعتیں‘‘۔(سنن النسائی، حدیث:۲۳۷۳)

محرم کے مہینے میں روزے بھی اسی قبیل سے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ رمضان المبارک کے بعد کون سا روزہ افضل ہے تو آپ نے فرمایا:’’ اللہ کے مہینے محرم کا‘‘(مسلم، حدیث:۱۱۶۳)۔ ایام بیض، یعنی ہر ماہ کی تیرہ ، چودہ اور پندرہ تاریخ کا روزہ مستحب ہے۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ایام بیض، یعنی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کے روزے رکھیں‘‘۔(سنن النسائی، حدیث:۲۴۲۴)

سوموار اور جمعرات کے دن روزہ رکھنا بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام طور پر ان دنوں میں روزہ رکھتے تھے۔ اس بارے میں آپ سے پوچھا گیا تو فرمایا:’’ ہر سوموار اور جمعرات کے دن اعمال پیش کیے جاتے ہیں، سب مسلمانوں یا ایمان والوں کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ معاف کردیتا ہے، سواے آپس میں ترکِ گفتگو کرنے والوں کے۔ ان کے بارے میں فرماتا ہے کہ ان کا معاملہ مؤخر کر دو‘‘۔(ترمذی، حدیث:۷۴۷)

  •  قرآن مجید سے تعلق : قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے رمضان کا تعارف قرآن کریم ہی کے حوالے سے کرایا ہے گویا رمضان کی فضیلتیں اور برکتیں نزول قرآن کی وجہ سے ہیں۔اس لیے نہ صرف رمضان میں بلکہ رمضان کے بعد بھی قرآن سے مضبوط تعلق رکھنا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ  اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ(البقرہ۲:۱۸۵)’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں‘‘۔

روزے اور قرآن کریم قیامت کے دن اپنے متعلقین کی سفارش کریں گے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’’روزے اور قرآن قیامت کے دن بندے کے لیے سفارش کریں گے۔روزے کہیں گے :یا رب!میں نے دن کے وقت اس کو طعام اور شہوات سے روکا تھا، لہٰذا اس کے حق میں میری سفارش قبول کرے۔قرآن کہے گا:اے رب!میں نے رات کے وقت اس کو سونے سے منع کیا تھا ،لہٰذا اس کے حق میں میری سفارش قبول کرے۔ چنانچہ ان دونوں کی سفارش بارگاہِ الٰہی میں قبول کی جائے گی‘‘۔(مسند احمد، حدیث:۶۳۳۷)

رمضان المبارک میں اہل ایمان کا اللہ تعالیٰ کی کتاب سے گہرا تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ نمازِ تروایح اور دیگراوقات میں اس کی کثرت سے تلاوت ہوتی ہے اوراکثر مقامات پر قرآن کریم کی تفسیر وترجمے کی خصوصی کلاسیں ہوتی ہیں اور نماز تراویح سے قبل یا بعد میں مضامین قرآن کا خلاصہ بیان کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ کی عظمت و جلالت سے قلوب اور ارواح معمور ہوتے ہیں۔جس کے نتیجے میںروحانی قوت اور ایمان کی کیفیت میں اضافہ ہوتا ہے۔

 اگر قرآن کریم کے ساتھ یہ تعلق پورے سال کے دوران استوار رہے، تلاوت، تعلیم و تعلم اور تدبر و تفکر کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی میں قرآنی تعلیمات کا نفاذ بدستور قائم رہے، توہماری زندگیوں میں وہ مثبت تبدیلی برقرار رہے گی جو رمضان کے دوران میں میسر آئی تھی اور جس کا برقرار رکھنا پوری زندگی میں مطلوب ہے۔

  •  نماز با جماعت کا اھتمام:ایک اہم تبدیلی جو رمضان المبارک کے دوران دیکھنے میں آتی ہے کہ مسلمان کا اللہ تعالیٰ کے گھرسے گہرا رابطہ رہتا ہے۔ مساجد نمازیوں سے بھرجاتی ہیں اور روح پرور اجتماعیت دیکھنے میں آتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ا س فضا کو برقرار رکھا جائے۔ نماز باجماعت صرف رمضان میں نہیں بلکہ سال بھر مطلوب ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تاکید فرمائی ہے ۔ اگر رمضان کے بعد بھی مسلمان مسجد سے اسی طرح وابستہ رہیں تو نظم و ضبط اور اتفاق و اتحاد کی وہ کیفیت جو روزہ سے حاصل ہوتی ہے ،وہ برقرار رہے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ قیام اللیل اور نوافل کا اہتمام مزیدروحانی ترقی میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
  • ایثار و ھمدردی :معاشرتی استحکام اورسکون کے لیے ضروری ہے کہ افرادمیں صبر واستقامت اوربرداشت کامادہ ہواور اُن کے درمیان باہمی ہمدردی کے جذبات موجود رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ِ گرامی ہے:’’اور وہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے ،اور وہ غم خواری کا مہینہ ہے‘‘۔(شعب الایمان، کتاب فضائل شھر رمضان، حدیث: ۳۴۵۵)

 ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ کثیر تعداد میں موجودہیں جنھیں ہمدردی اور مددکی ضرورت ہوتی ہے اور صاحبِ استطاعت  لوگوںکا ایثار ان کی مشکل کو کافی حد تک کم کر سکتا ہے۔ رمضان کے مہینے میں مسلسل اسی جذبے کی تربیت کی جاتی ہے اورمفلوک الحال اور محروم الوسائل لوگوں کی حالت کا صحیح احساس کرایا جاتا ہے ۔ہماری عملی زندگی میں ایسے مواقع بار بار آتے ہیں جو ہم سے ایثار اور ہمدردی کا تقاضا کرتے ہیں ۔ رمضان کے اختتام پر صدقٔہ فطر اسی مقصد کے لیے لازم کیا گیا ہے۔اسی جذبے کے تحت ہمیں پورا سال اپنے کمزور بھائیوں کی مدد کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔

  • منکرات سے اجتناب :روزے کی حالت میں جائز کھانے پینے اور جنسی خواہشات تک پر پابندی لگ جاتی ہے اور مسلمان اس پابندی کو اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھ کر قبول کرتے ہیں، جب کہ ناجائز کاموں سے خصوصی طور پر پرہیزکرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ اسی جذبے کی آبیاری کرکے سال بھر تمام منکرات سے اجتناب کرنے کا اہتمام کرناچاہیے۔

انسان اپنی خواہشات کے ہاتھوں مجبور ہو کر رشوت ستانی ، غلط کاری ، دھوکہ دہی، دروغ گوئی ، غیبت ، جھوٹ اور خود غرضی جیسے اخلاق رذیلہ کے دلدل میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔  ان قلبی بیماریوں کا علاج بھی روزہ ہی بتایا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: صَوْمُ شَھْرِ الصَّبْرِ وَ ثَلَاثَۃِ أَیَِّامٍ مِنْ کُلِّ شَھْرٍ یُذْھِبْنَ وَحْرَ الصَّدْرِ ’’ماہِ صبر کا روزہ اور ہر مہینے کے تین روزے دل کا میل دُور کرتے ہیں۔(مسند احمد،حدیث:۲۱۹۹۹)

ماہ صیام میں خواہشات پر قابو پانے کی مسلسل تربیت کے نتیجے میں ضروری ہے کہ ہر موڑ پر اپنی خواہشات کو قابو میں رکھا جائے اور ان کا غلام بن کر روزے کے ثمرات کو ضائع نہ ہونے دیا جائے۔

  • نظم و ضبط : رمضان المبارک میں پورے عالم اسلام میں روزہ رکھا جاتاہے ۔  طلوعِ فجرسے قبل متعین وقت پر سحری کے لیے اُٹھنا، پھر پورا دن بھوک پیاس کی مشق ،رات کو   قیام اللیل اور نماز باجماعت میں امام کی مکمل اطاعت مسلمان کی زندگی میں نظم وضبط پیدا کرتا ہے۔ ڈسپلن کی اس کیفیت کو برقرار رکھنے اور ترقی دینے کے لیے ضروری ہے کہ اس مہینے میںنیک اعمال کی جو مشق کی گئی ، اس کو حسب استطاعت جاری رکھا جائے۔

یہ چند عوامل ہیں جن سے روزے کے ثمرات کو باقی رکھنے میں بھر پور مدد مل سکتی ہے اس کے لیے انفرادی محنت، اجتماعی یاددہانی اوراندرونی احساس کی بیداری کی ضرورت ہے۔

پورے سال میں روزے صرف ایک ماہ رمضان میں فرض کیے گیے ہیں اور اس کا مقصد تزکیۂ نفس ا ور تقویٰ ،باہمی ہمدردی اور سخت کوشی کی وہ کیفیت پید ا کرنا ہے جو بندے کو بقیہ سال کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر عمل کرنے کے لیے تیار کرے۔ رمضان المبارک کی مسلسل مشق سے جو ثمرات حاصل ہوتے ہیںوہ مسلمانوں کا بیش قیمت سرمایہ ہوتا ہے جن کی حفاظت کرنا اور ترقی دینا ان کا فرض ہے۔     

نیکی کرنا بہ نسبت اس کی حفاظت کرنے کے آسان کام ہے ۔روزِ قیامت کئی بدقسمت ایسے ہوں گے جو دنیا میں بڑی بڑی نیکیاں کر کے ضائع کر چکے ہوں گے اور وہ جنت کے حصول اور دوزخ سے نجات کے لیے ان کے کسی کام نہیں آئیں گے۔

بندہ جونیکی حفاظت کے ساتھ آخرت تک لے جانے میں کامیاب ہوا اس کا انجام بھلائی ہی کی صورت میں ظاہر ہوگا۔اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے: لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ  ط وَلَا یَرْھَقُ وُجُوْھُھُمْ قَتَرٌ وَّلَا ذِلَّۃٌ  ط (یونس ۱۰: ۲۶ )’’جن لوگوں نے بھلائی کا طریقہ اختیار کیا، اُن کے لیے بھلائی ہے اور مزید فضل۔اور ان کے چہروں پر روسیاہی اور ذلت نہ چھائے گی‘‘۔

اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا میں اپنی اطاعت کی توفیق اور آخرت میں اچھے انجام سے نوازے ۔ آمین!