سوال : ایک حدیث کا مفہوم سمجھنے میں دشواری ہورہی ہے ۔ براہِ کرم اس کی وضاحت فرمادیں: اِنْ یَعِشْ ہٰذَا لَا یُدْرِکْہُ الْہَرَمُ حَتّٰی تَقُوْمَ عَلَیْکُمْ سَاعَتُکُمْ ’’اگر یہ شخص زندہ رہا تو اس کے بوڑھا ہونے سے پہلے تم پر تمھاری قیامت برپا ہوجائے گی‘‘۔
جواب: بخاری اور مسلم میں یہ حدیث ام المومنین حضرت عائشہؓ سے مروی ہے ۔ وہ فر ما تی ہیں:نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بدّو حاضر ہوتے تھے اور وہ آپؐ سے سوال کرتے تھے کہ قیامت کب آئے گی ؟ تو آپؐ ان میں سب سے کم عمرشخص کی طرف دیکھتے تھے اور فرماتے تھے: ’’اگر یہ شخص زندہ رہا تو اس کے بوڑھا ہونے سے پہلے تم پر تمھاری قیامت برپا ہوجائے گی‘‘۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب سکرات الموت ۶۵۱۱ ، مسلم:۲۹۵۲)
قیامت کب آئے گی ؟ اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ۔ اس نے یہ علم اپنے کسی بندے ، حتی کہ مقرب فرشتوں اور پیغمبروں کوبھی نہیں بخشا ہے ۔ اس لیے دانش مندی کا تقاضا ہے کہ ہرشخص یہ فکر کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جوزندگی عطا کی ہے اورجومہلت عمل دی ہے ، اس میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمالے۔ موت آتے ہی اعمال کا رجسٹر بند ہوجائے گا ۔ اس وقت تک اس نے اچھے یا بُرے جواعمال کیے ہوں گے ان کے مطابق اسے جزا یا سزا دی جائے گی ۔ اسی بات کو بعض احادیث میں اس انداز سے کہا گیا ہے کہ ہر شخص کی موت ہوتے ہی اس کی قیامت برپا ہوجاتی ہے۔
اس روایت کی سندمیں بعض کمزور راوی ہیں۔ اس لیے سند کے اعتبار سے محدثین نے اسے ضعیف یا موضوع قرار دیا ہے، لیکن معنیٰ کے اعتبار سے یہ صحیح ہے ۔ اس کا ثبوت حضرت عائشہؓ سے مروی یہ حدیث ہے جس کی تشریح چاہی گئی ہے ۔ اس مضمون کی متعدد احادیث امام مسلم ؒ نے روایت کی ہیں ۔ حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: قیامت کب آئے گی ؟ اس مجلس میں انصار کا ایک بچہ بیٹھا ہوا تھا۔ آپؐ نے اس کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: اس بچے کے بوڑھا ہونے سے پہلے قیامت آجائے گی‘‘ (۲۹۵۳)۔دوسری روایت میں حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ وہ بچہ ازدشنوء ہ قبیلے (یمن )سے تعلق رکھتا تھا اور میرا ہم عمر تھا۔ (اس وقت حضرت انسؓ کی عمر ۱۶،۱۷سال تھی)(۲۹۵۳)۔ایک اور روایت میں اس بچے کو حضرت مغیرہ بن شعبہؓکا غلام بتایا گیا ہے (۲۹۵۳)۔ امام نووی ؒ نے شرح مسلم میں قاضی عیاض کا یہ قول نقل کیا ہے:یہ تمام روایات پہلی روایت کے معنیٰ میں ہیں ۔ اس میں ساعۃ (قیامت) سے مراد موت ہے ۔ (شرح مسلم للنووی، دارالکتب العلمیۃ بیروت ،۱۹۹۵ئ، ج۹، جز ۱۸،ص ۷۱)
ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے :’’(قیامت ِ) صغریٰ سے مراد انسان کی موت ہے ۔ گویا ہرانسان کی قیامت اس کی موت سے شروع ہوجاتی ہے (فتح الباری بشرح صحیح البخاری)۔ انھوںنے شارحِ بخاری کرمانی کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب حکیمانہ اسلوب پر دلالت کرتا ہے ، یعنی قیامت ِ کبریٰ کب آئے گی؟ یہ سوال نہ کرو ، اس لیے کہ اس کا علم اللہ کے سوا کسی کونہیں ہے ، بلکہ یہ جاننے کی کوشش کرو کہ تمھارا زمانہ کب ختم ہوجائے گا ۔ تمھارے لیے بہتر یہ ہے کہ نیک اعمال کرلو، اس سے پہلے کہ تمھارے لیے اس کی مہلت ختم ہوجائے، کیوںکہ کسی شخص کونہیں معلوم کہ کون دوسروں سے پہلے اس دنیا سے رخصت ہوجائے گا ۔ (فتح الباری) (ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)
س : میرا ایک لڑکا اورایک لڑکی ہے ۔ میں نے لڑکی کا نکاح اپنے ایک دوست کے لڑکے سے کرنے کا ارادہ کیا۔ پہلے تو انھوںنے آمادگی ظاہر نہیںکی، لیکن پھر اس شرط پرتیار ہوگئے کہ ان کی لڑکی کا نکاح میں اپنے لڑکے سے کردوں ۔ اس سلسلے میں مَیں نے اپنے بعضـ دوستوں سے مشورہ کیا توایک صاحب نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی شادیوں سے منع فرمایا ہے ۔ براہِ کرم وضاحت فرمائیں کہ کیا ایسی شادی اسلامی شریعت کی رُو سے جائز نہیں ہے؟
ج: عہد ِ جاہلیت میں نکاح کا ایک طریقہ یہ رائج تھا کہ آدمی دوسرے سے کہتا تھا:تم اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح مجھ سے کردو ، میں اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح تم سے کردوںگا اور دونوں کا مہر معاف ہوجائے گا۔ اسے نکاحِ شغار کہاجاتا تھا ۔ اللہ کے رسولؐ نے اس طریقۂ نکاح سے منع فرمایا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع کیا ہے‘‘۔دوسری روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : ’’اسلام میں شغار جائز نہیں ہے ‘‘۔ بعضـ روایات میں شغار کا مطلب بھی بتایا گیا ہے:’’شغار یہ ہے کہ آدمی اپنی بیٹی سے دوسرے آدمی کا نکاح (اس شرط پر )کردے کہ دوسرا اپنی بیٹی سے اس کا نکاح کردے اوران میں سے کسی کے ذمے اپنی بیوی کا مہر نہ ہو‘‘۔
یہ حدیث بخاری (۵۱۱۲، ۶۹۶۰)مسلم (۱۴۱۵)کے علاوہ ابوداؤد، ترمذی، نسائی ، ابن ماجہ، احمد، بیہقی اور دیگر کتبِ حدیث میں مروی ہے ۔ محدثین کے نزدیک شغار کی یہ تشریح حضرت ابن عمرؓ کے آزاد کردہ غلام نافع نے کی ہے ۔علامہ شوکانی نے نکاح شغار کی دو علّتیں قرار دی ہیں:ایک یہ کہ اس میں ہر لڑکی کوحقِ مہر سے محروم کردیا جاتا ہے ۔ دوسری یہ کہ اس میں ہر نکاح دوسرے نکاح سے مشروط اوراس پر موقوف ہوتا ہے ۔ (نیل الاوطار)
اگراس طریقۂ نکاح میں دونوں لڑکیوں کا مہر تو مقرر کیا گیا ہو، لیکن دونوں نکاح ایک دوسرے سے مشروط اورمعلّق ہوں توبھی وہ ناجائز ہوں گے۔روایات میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے بیٹے عباس نے عبدالرحمن بن الحکم کی لڑکی سے اورعبدالرحمن نے عباس بن عبداللہ کی لڑکی سے نکاح کیا اور دونوں لڑکیوں کا مہر بھی مقرر کیا گیا ، لیکن حضرت معاویہ ؓ کواس نکاح کی خبر پہنچی توانھوں نے مدینہ کے گورنر حضرت مروانؒ کولکھا کہ اس نکاح کوفسخ کردیا جائے ، اس لیے کہ یہ وہی نکاحِ شغار ہے ، جس سے اللہ کے رسول ؐنے منع فرمایا ہے ۔(ابوداؤد: ۲۰۷۵)
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے نکاح شغار کی تین صورتیں بتائی ہیں اورتینوں کو ناجائز قرار دیا ہے۔ایک یہ کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو اس شرط پر اپنی لڑکی دے کہ وہ اس کوبدلے میں اپنی لڑکی دے گا اوران میں سے ہر ایک لڑکی دوسری لڑکی کا مہر قرار پائے ۔دوسرے یہ کہ شرط تووہی ادلے بدلے کی ہو، مگر دونوں کے برابر مہر(مثلاً ۵۰،۵۰ ہزار روپیہ )مقرر کیے جائیں اورمحض فرضی طورپر فریقین میں ان مساوی رقموں کا تبادلہ کیا جائے اوردونوں لڑکیوں کوعملاً ایک پیسہ بھی نہ ملے ۔ تیسرے یہ کہ ادلے بدلے کا معاملہ فریقین میں صرف زبانی طور پر ہی طے نہ ہو ، بلکہ ایک لڑکی کے نکاح میں دوسری لڑکی کا نکاح شرط کے طور پر شامل ہو۔(رسائل ومسائل،دوم، ص۲۰۲)
بدلے کی شادیوں میں عموماً تلخی اورناخوش گوار ی کا اندیشہ رہتا ہے اوردونوں خاندانوں پر خانہ بربادی کی تلوار ہمیشہ لٹکتی رہتی ہے ۔ اگرایک خاندان میں شوہر نے جایا بے جابیوی کی پٹائی کردی یا دونوں کے درمیان تعلق میں خوش گواری باقی نہیں رہی یا اس نے طلاق دے دی تو دوسرے خاندان میں لڑکے پر اس کے والدین یا دوسرے رشتے دار دباو ڈالیں گے کہ وہ بھی لازماً وہی طرزِعمل اپنی بیوی کے ساتھ اختیار کرے۔ تاہم، اگر دونوں رشتوں کی مستقل حیثیت ہو، دونوں لڑکیوں کا مہر طے کیا جائے اوران کوادا کیا جائے اورایک رشتہ کسی بھی حیثیت میں دوسرے رشتے کو متاثر کرنے والا نہ ہو تو ایسے رشتوں میں کوئی حرج نہیں ہے۔(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)
س : ایک صاحب نے مجھے ۵۰ ہزار روپے یہ کہہ کر دیے کہ اسے ضرورت مندوں میں تقسیم کردوں۔ ہوایہ کہ مجھے کچھ روپیوں کی بہت سخت ضرورت پیش آگئی۔ چنانچہ میں نے اس میں سے ۲۰ہزار روپے استعمال کرلیے اور سوچاکہ جب میرے پاس پیسوں کاانتظام ہوجائے گا تو اس رقم کو بھی ضرورت مندوں میں تقسیم کردوں گا۔ ذاتی استعمال کے لیے میں نے ان صاحب سے اجازت حاصل نہیں کی، بلکہ ان کو بتائے بغیر بطور قرض اسے استعمال کرلیا۔ کیامیرے لیے ایسا کرنے کی گنجایش تھی یا میں نے غلط کیا؟
ج:آدمی اپنا مال ضرورت مندوں میں خود بھی تقسیم کرسکتاہے اور کسی دوسرے کو بھی یہ ذمہ داری دے سکتاہے ۔ جو شخص یہ ذمہ داری قبول کرلے اسے پوری امانت و دیانت کے ساتھ اسے انجام دینا چاہیے۔ جس شخص کو مذکورہ مال تقسیم کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے ، اس کے پاس یہ مال امانت ہے۔ اس کے مالک کی اجازت کے بغیر اس میں ادنیٰ سا تصرف بھی اس کے لیے جائز نہیں ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ صاحبِ مال نے جن کاموں میں خرچ کرنے یا جن افراد کو دینے کی صراحت کی ہو، انھی میں مال خرچ کیاجائے۔ ذمہ داری لینے والے کو اپنے طورپر فیصلہ کرنے اور مدّات میں تبدیلی کرنے کاحق نہیں ہے ۔
اسی طرح اگر وہ ذمہ دار اس مال کومستحقین تک پہنچانے میں ٹال مٹول سے کام لے یا بلاوجہ تاخیر کرے تو یہ بھی خیانت ہے۔ وہ مال کا کچھ حصہ اپنے ذاتی کام میں استعمال کرلے، پھر کچھ عرصے کے بعد اس کے پاس مال آجائے تو اسے بھی ضرورت مندوں میںتقسیم کردے۔ اس صورت میں وہ مال میںخیانت کرنے کامرتکب تو نہ ہوگا، لیکن بغیر صاحب ِ مال کی اجازت کے ، مستحقین تک اس کے پہنچانے میں تاخیر کرنے کا قصور وار ہوگا۔ اس لیے ایسا کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اب اگر ایسی کوتاہی ہوگئی ہے تواستغفار اور آیندہ احتیاط کا عہد کرنا چاہیے۔(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)