رسالہ ترجمان القرآن (مدیر: سیّدابوالاعلیٰ مودودی) کا نام بہت معنی خیز ہے۔ اس لیے کہ سیّدمودودی کی عمربھر کی جدوجہد کا مقصد قرآنِ حکیم کے پیغام کی ترویج تھا اور اس کے لیے انھوں نے مختلف طریقے اختیار کیے۔ تفہیم القرآن کی تالیف، قرآنِ حکیم کی روشنی میں مختلف معاشرتی، اقتصادی اور عمرانی مسائل کی وضاحت اور دروسِ قرآن کے ذریعے سامعین کی تعلیم وتربیت۔ دروس کا یہ سلسلہ حیدرآباد دکن، دارالاسلام (پٹھان کوٹ) اور آخر میں لاہور میں ۷ستمبر ۱۹۶۷ء تک جاری رہا۔ اِن دروس کو بعض اصحاب نے فیتہ بند( ٹیپ )کیا اور اب انھی ٹیپ کردہ بعض دروس کو زیرنظر کتاب میں مرتب کیا گیا ہے۔ اِن میں سے چند ایک ترجمان القرآن کے گذشتہ شماروں میں شائع ہوچکے ہیں۔
دروسِ قرآن کی یہ پہلی کتاب، ۱۵ درسوں پر مشتمل ہے۔ دروس کی ترتیب قرآنی نہیں موضوعاتی ہے۔(تفسیر تعوذ و تسمیہ، دُعا اور جوابِ دُعا، ایمان اور اطاعت، ہارجیت کے فیصلے کا دن، ایمان اور آزمایش، نفاق سے پاک غیرمشتبہ اخلاص، اللہ سے تجارت، بعثت ِ رسولؐ اور حکمت ِ دین، نمازِجمعہ: حکمت اور تربیت، منافقین کا طرزِعمل، اسلامی معاشرت اور طلاق، نبیؐ کی خانگی زندگی، تہجد اور تربیت ِ نفس)
سیّد مودودی کے یہ دروس اِس لیے اہم ہیں کہ تفہیم القرآن کے مقابلے میں مولانا نے یہاں نسبتاً تفصیل سے بات کی ہے، مثلاً :سورئہ فاتحہ کا درس ۲۲صفحات پر مشتمل ہے ، جب کہ تفہیم کے حواشی مختصر ہیں۔ ایک اور اعتبار سے بھی دروس کا مطالعہ دل چسپ ثابت ہوگا، مثلاً: ایک ہی سورہ یا بعض آیات کی تفہیمی تشریحات اور دروسی تقاریر میں ۲۰،۲۰ سال کا وقفہ ہے۔ یقینا اِس عرصے میں سیّدمودودیؒ کے ذہن میں کچھ نئے نکات بھی مرتب ہوتے رہے جن کا اظہار زیرنظر دروس میں ہوا ہوگا۔
قرآنِ حکیم کے درس و تدریس کے لیے بھی یہ دروس نہایت معاون اور مددگار ہیں جیساکہ مرتب نے دیباچے میں بتایا ہے۔ زیرنظر کتاب مجموعۂ دروس کی ’کتابی تشکیل اور تدوین‘ میں مرتب کو سلیم منصور خالد اور امجد عباسی کا خصوصی تعاون حاصل رہا ہے۔ ہدیہ مناسب ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
اس کتاب میں مصنف کے حج اور عمروں کے اسفار کی رُودادیں جمع کی گئی ہیں۔ مولانا حقانی کے یہ سفرنامے ان کی ڈائریوں اور ماہنامہ قاسم میں محفوظ تھے۔ مصنف نے حرمین شریفین میں بیتے ہوئے لمحات کو ’حاصلِ زندگی‘ قرار دیا ہے۔
زیرتبصرہ کتاب میں جہاں قلب و نظر کی کیفیات بیان کی گئی ہیں وہاں شرع کے اصول و قواعد بھی بیان ہوئے ہیں۔ پردے کے بارے میں مصنف نے نہایت دردمندی سے حکومت ِ سعودیہ سے التماس کی ہے کہ کوئی ایسا ضابطہ بنایا جائے جو حجاج کرام پر قانوناً نافذ ہو۔ بے پردگی گناہِ کبیرہ کا ارتکاب ہے۔ بھرپور اور جرأت مندانہ اقدام ہی سے ایسے منکرات کا خاتمہ ہوسکتا ہے (ص ۲۴۲)۔ ایک اور کبیرہ بلکہ اکبر الکبائر گناہ کا ارتکاب اس طرح ہو رہا ہے گویا یہی کارخیر ہے۔ خواتین، بوڑھوں، نوجوانوں کے ہاتھ میں تختی نما بڑے بڑے موبائل ہیں۔ ریاض الجنۃ میں پوری نماز فوٹو کھنچوانے کے لیے پڑھی جارہی ہے۔ لاکھوں کے مصارف اور سفری صعوبتیں برداشت کر کے حج کے لیے حرمین شریفین پہنچ تو جاتے ہیں مگر مسائل سے ناواقفیت کی بناپر نہ ان کے حج صحیح ہوپاتے ہیں اور نہ عمرے۔ (ص ۳۹۰)
کتاب میں تاریخِ اسلام کے متعدد واقعات، آثارِ قدیمہ کے مشاہدات اور عصرحاضر کے بعض اجتماعی مسائل پر مصنف نے اظہارخیال کیا ہے۔ دسمبر۲۰۱۳ء کے عمرے کے دوران مسجدالحرام کے امام ڈاکٹر سعود الشریم کے جمعۃ المبارک کے خطبے کا خلاصہ بھی دیا گیا ہے جس میں خطیب نے فرمایا: فرزندانِ اسلام آلام و مصائب سے مایوس نہ ہوں، اچھی اُمید رکھیں....
حضور اکرمؐ کی حیاتِ طیبہ خوش گمانی اور پُرامیدی کی خوب صورت علامت ہے۔ انتہائی مایوس کن حالات، جنگوں اور ہر طرف سے ناکہ بندیوں کے عالم میں بھی محبوب آقاؐ نے اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ آپؐ ہی کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ (ص ۳۳۳-۳۳۴)
کبھی کبھی آپ کے ہاتھوں میں ایسی کتاب آتی ہے کہ آپ سوچتے رہ جاتے ہیں کہ اس کی کتنی تعریف کریں، کس طرح کریں۔ ظاہری لحاظ سے بہترین پیش کش،جِلد، کاغذ و طباعت بے مثال اور لوازمہ دیکھنا شروع کریں تو جیسے موضوع کا ایسا حق ادا کیا گیا ہو کہ اس سے بہتر ممکن نہیں، فللّٰہ الحمد۔
انسائی کلوپیڈیا واقعی انسائی کلوپیڈیا ہے۔ مدینہ منورہ کے بارے میں کون سی بات ہے جو بہترین انداز سے اس کتاب میں موجود نہیں ہے اور پھر ۱۵۰صفحات پر تصاویر چہاررنگی اور ایسی جیسے آپ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں بلکہ اگر آپ مدینہ چلے جائیں تو بھی اتنا کچھ نہیں دیکھ سکتے۔
فہرست سے بھی پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں اس شہر کی قدروبرکات اور رسولؐ اللہ کے نزدیک اس کی عظمت آیات و احادیث کے حوالے سے بیان کی گئی ہے۔
کتاب شروع ہوتے ہی مدینے کے سو (۱۰۰)ناموں کی تفصیل ۲۷صفحات میں بیان کی گئی ہے۔ پھر قرآن میں ذکر کیے جانے والے آپؐ کے نام بیان ہوئے ہیں۔ اس کے بعد قرآن اور حدیث میں بیان کیے گئے صفاتی ناموں کی تفصیل ہے۔ حدودِ حرم کے بارے میں ۱۳ اور فضائلِ مدینہ کے بارے میں ۳۲ احادیث بیان کی گئی ہیں۔ اس کے بعد ہجرت کی داستان پس منظر سے شروع ہوتی ہے اور غارِ ثور، مسجدقبا اور مدینہ میں آمد کا بیان۔ پھر مسجدنبویؐ کا ذکر ۱۵۰ صفحات تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کی تعمیر کے مراحل اور ہرتفصیل تصویر کے ساتھ درج ہے۔ آخر میں روضۂ رسولؐ کی زیارت کے بارے میں ۳۴؍ احادیث کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔
مدینے کی مساجد، وادیاں، مشہور پہاڑ، ڈیم اور زراعت، حتیٰ کہ مدینے کے زلزلوں کا بھی ذکر ہے۔ مارکیٹوں کے تحت ۱۲ قسم کی معروف مارکیٹوں کا ذکر ہے۔ یہاں کی لائبریریاں، مدینہ یونی ورسٹی، تعلیمی ادارے، خواتین کالج، شادی کے رسوم و رواج، حتیٰ کہ مدینہ کے شادی گھروں کے نام بھی موجود ہیں۔ آخر میں آیات و احادیث اور اشعار کا اشاریہ درج ہے۔ مراجع و مصادر بشمول ویب سائٹس کی فہرست میں ۳۷۵ اندراجات ہیں۔ کتاب کی کمپوزنگ صحت اور اجر کے نقطۂ نظر سے خالد رانا صاحب نے خود کی ہے۔ کتاب تحقیق کے اعلیٰ معیار کے مطابق ہے۔ آیات، احادیث پر اور بڑی حد تک عربی عبارات پر اعراب لگائے گئے ہیں۔
اس کتاب کا خیال سوچنے، مرتب کرنے، پیش کش کے لیے تیار کرنے، طباعت کے مراحل سے گزارنے والوں کے لیے تحسین اور دُعائیں۔ قلب و نظر کے لیے دل کش تحفہ فراہم ہوگیا ہے۔ منشورات سے رعایتی قیمت پر صرف ۲ہزار روپے میں دستیاب ہے۔
مصنف ادارہ اشاعت اسلام کے سربراہ ہیں۔ اس ادارے کی ۷۳ مطبوعات کی فہرست آخر میں درج ہے۔ اس سے ادارے کی غیرمعمولی کارکردگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ مستند احادیث کا انسائی کلوپیڈیا عربی اُردو میں ۱۵۰ جلدوں میں طباعت کے لیے تیار ہے۔ جو تحقیقی ادارے کتابچے چھاپنے لگے ہیں، وہ نوٹ کریں۔(مسلم سجاد)
سیرتِ سرور کونینؐ ہر زمانے، علاقے اور زبان میں لکھی گئی اور لکھنے والوں نے اپنی محبت و عقیدت کے پھول نچھاور کیے۔ حضور ختمی مرتبتؐ کے ساتھ ایک مسلمان کا رشتہ و تعلق ایمان و عقیدے، اتباع و اطاعت کا ہے۔ اس رشتے کو نبھانے میں وہ ساری زندگی لگادے تب بھی اس کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ تجلیاتِ رسالتؐ کے نام سے پروفیسر تفاخر محمود گوندل نے عقیدت و محبت کے پھول ایک نئے، اچھوتے اور نرالے انداز میں نچھاور کرنے کے لیے مروجہ طریق سے ہٹ کر نئی طرح ڈالی کی ہے۔ زبان و قلم کی جولانیاں اپنے بانکپن اور عروج پر نظر آتی ہیں۔ انھوں نے ۶۰عنوانات کے تحت ایسے قیمتی موتی اور جواہر جمع کر دیے ہیں۔ ہرعنوان کسی شعر سے ماخوذ ہے اور خوب ہے۔ کتاب کی زبان کوثر و تسنیم سے دھلی ہوئی دل و دماغ کو معطر اور آنکھوں کو نم کردینے والی ہے۔ الفاظ کا چنائو، زبان و بیان کی شیرینی ادبی خوشہ چینی سے معمور اور رنگ لیے ہوئے ہے۔ سیرت کے معتبر، ثقہ اور معروف واقعات کو کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے لیکن لکھنے والے نے تحقیقی انداز اختیار کرنے کے بجاے ایسا انداز اختیار کیا ہے جو قاری کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور ایک عنوان کا لوازمہ ختم کر کے دوسرے عنوان کو شروع کرنے کو جی چاہتا ہے۔ گل دستۂ سیرت میں سجنے والا یہ پھول نہایت عمدہ اور دیدہ زیب ہے جو تفاخر کا تفاخر ہے۔
کتاب کا لوازمہ عمدہ، زبان نہایت خوب صورت ، جملے مرصّع مسجّع، طباعت معیاری، عمدہ کاغذ، سرورق اور نام دونوں پُرکشش اور دیدہ زیب۔سرورِ کونینؐ کے عشق و محبت کے رنگ کو چوکھا کرنے اور دل و دماغ میں بسا لینے پر آمادہ کرنے والی ایک خوب صورت کتاب جسے پڑھ کر حضوؐر کے ’اسوئہ حسنہ‘ سے وابستگی کروٹیں لیتی ہے۔(عمران ظہور غازی)
حدیثِ رسولؐ میں پانچ چیزوں کو عمارتِ اسلام کی بنیادیں قرار دیا گیا ہے۔ یہ بنیادیں دینی اَدب میں ارکانِ اسلام کے نام سے معروف ہیں۔ ہر عہد کے علماے دین نے ان ارکان کی تشریحات قلم بند کی ہیں۔ سیّد ابوالاعلیٰ مودویؒ نے پٹھان کوٹ میں دیے گئے اپنے خطبات میں ان پر بہت مؤثر گفتگو کی ہے۔
زیرنظر کتاب ارکانِ اسلام کا مقصد یہ تھا کہ خالص تحقیقی اور علمی انداز سے صرفِ نظر کرتے ہوئے بالکل عام فہم سادہ زبان اور اُسلوب میں توحید، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کے بارے میں آگاہی دی جائے۔ پانچ ارکان کو پانچ ابواب میں بیان کیا گیا ہے۔ ۲۳۰ صفحات کی کتاب کا نصف نماز کے مسائل سے متعلق ہے اور دوسرا نصف توحید، روزہ، حج، زکوٰۃ پر مختصر روشنی ڈالتا ہے۔ ’نماز‘ کے عنوان کے تحت آٹھ فصلوں میں نمازی کے لیے ضروری ہدایات، جماعت کے بارے میں ضروری ہدایات، نماز کی اہمیت، نماز پڑھنے کا طریقہ، نمازِ جمعہ کے بارے میں ضروری باتیں، دونوں عیدوں کی نماز کے بارے میں ضروری باتیں، جنازہ کی نماز اور جنازہ کے مسائل پر بہت تفصیل سے رہنمائی دی گئی ہے۔ (ارشاد الرحمٰن)
افتتاحی اور اختتامی نشست کے علاوہ، موضوع کے مختلف پہلوئوں پر ۱۴، ۱۵، ۱۶ نومبر ۲۰۱۵ء کو منعقدہونے والی سات نشستوں کے سیمی نار کے مقالات پر مشتمل ہے۔ ہر نشست میں کلیدی خطاب کے بعد چار مقالات پیش کیے گئے۔ سات موضوعات ہیں: ۱-مزاجِ دعوت اور اُمت مسلمہ ۲- دعوتِ دین اور عربی مدارس ۳-دعوت کے امکانات اور وسائل ۴-دعوت کا ملکی منظرنامہ ۵- دعوت و اصلاح میں توازن ۶- دعوت کے لیے عملی تیاری ۷-نومسلموں کے مسائل۔
خطاب کرنے والے بیش تر ہمارے پاکستانی قارئین کے لیے اجنبی نام ہیں، تاہم مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مسعود عالم قاسمی، ڈاکٹر محمد منظور عالم، محمد سفیان قاسمی، حذیفہ دستانوی، خلیل الرحمن سجاد نعمانی، ایچ عبدالرقیب، محمد اقبال مُلّا معروف ہیں۔ بعض موضوعات کی نشان دہی کر رہا ہوں، تفصیل کا تبصرہ متحمل نہیں ہوسکتا۔ دعوت کے لیے علاقائی زبان کی اہمیت، دعوت سے غفلت کے اسباب و نتائج، موجودہ دور میں دعوتِ دین کے امکانات، میدانِ دعوت اور حالات کے تقاضے، دعوتِ دین کے لیے افراد سازی، دعوتِ دین کے عملی تقاضے، نومسلموں کی تعلیم و تربیت___ مقالات عموماً مختصر ہیں۔ غالباً مکمل نقل نہیں کیے گئے ہیں۔ ۲۱۸صفحات میں ۵۰ مقالات! سب سے جامع خطاب افتتاحی نشست میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا ۲۰ صفحات پر مشتمل ہے۔
بہت کارگر عملی تدابیر تجویز ہوئی ہیں۔ بہت دل چسپ دعوتی تجربات کا ذکر آیا ہے، مثلاً ’محمدؐ: امن کی تعلیمات‘ پر مضمون نویسی کا مقابلہ کروایا۔ یہ صرف غیرمسلموں کے لیے تھا۔ کالج کی ایک لڑکی اوّل آئی۔ اس نے انعام لینے سے انکار کر دیا کہ یہ غیرمسلموں کے لیے ہے لیکن آج میں الحمدللہ مشرف بہ اسلام ہوں۔ مقابلے میں شریک ہوکر، اسلام کی دولت مل گئی۔ اس سے بڑا انعام کیا ہوسکتا ہے (ص۶۹)۔ ایک مسئلہ سامنے آیا ہے جو ہمارے ناشرین کے لیے بھی قابلِ غور ہے۔ بہت ساری ویب سائٹس معمولی قیمت پر یا مفت کتابیں فراہم کرتی ہیں۔ Newshunt.com کے ذمہ دار نے مضمون نگار کو بتایا کہ سب سے زیادہ مانگ ترجمۂ قرآن اور اسلامی لٹریچر کی ہے۔ اگر انھیں کاپی رائٹ کی قید سے آزاد کر دیا جائے تو اشاعت لاکھوں میں ہوسکتی ہے۔ عیسائی مشنری ادارے سب کچھ بلامعاوضہ فراہم کرتے ہیں لیکن ہمارے ناشرین ہزار دو ہزار چھاپ کر خوش ہوجاتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ دعوتی مقاصد کی خاطر ’جملہ بحق حقوق ناشر‘ کے خول سے باہر نکلا جائے۔ (ص۱۲۵)
آخری بات، ایک تاثر، کاش کوئی پاکستانی اسلامی تحقیقی ادارہ، کوئی تھنک ٹینک، کوئی رسالہ، کوئی دینی تحریک اس نوعیت کا سیمی نار پاکستانی تناظر میں کروائے۔ میدانِ دعوت کے کارکن اور قائد بہت کچھ اس نمبر سے بھی حاصل کر کے اپنی جدوجہد کو مفید اور نتیجہ خیز بناسکتے ہیں۔(مسلم سجاد)
خالق کائنات ہی سبھی محبتوں کا مرکز ہے اور اسی کو زیبا ہے کہ وہ تمام عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز بنے۔ اسی نے ہمیں تخلیق کیا، وہی پالنے والا ہے اور اسی کی طرف لوٹ کے جانا ہے۔
زیرنظر کتاب اسی ابدی محبت کو الفاظ کے پیرایے میں بیان کرنے کی ایک منفرد اور کامیاب کوشش ہے، جسے دو خواتین نے بڑی ذمہ داری، احتیاط اور محنت سے قلم بند کیا ہے۔ اگرچہ اس کتاب کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے اسماء الاحسنیٰ ہیں، مگر ان اسماے پاک کی تفہیم و تشریح، دعوت اِنذار اور محبت و شیفتگی کا انداز بالکل نیا، جدا اور انوکھا ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے فرد اسماء الاحسنیٰ کی لاکھوں پرتوں میں سے چند پرتوں کی جھلک دیکھتا اور بے اختیار سجدے میں گر جاتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ اسلوب نہ افسانوی ہے اور نہ ڈرامائی، بلکہ اس طرزِ بیان کا استشہاد براہِ راست قرآن و سنت اور حدیث پاک سے کیا گیا ہے۔
کتاب کی ترتیب و تدوین میں تو داخلی حسن ہے ہی، مگر ناشر نے بھی اشاعت کی پیش کش میں حُسنِ نظر کا سامان مہیا کردیا ہے۔ یقینا یہ کتاب تعلیم و تربیت کا ایک ماخذ ہے۔ (سلیم منصور خالد)
o القرآن: بحیثیت اسکول نصابی کتاب ، (حصہ دوم)، مرتب: پروفیسر ڈاکٹر محمداسحاق منصوری۔ ناشر: اسلامی نظامت ِ تعلیم پاکستان، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۳۹۱-۰۴۲۔ صفحات:۲۳۶۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔[بقول مرتب: ’’ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے مروجہ تعلیمی اداروں میں قرآن اسکول نصابی کتاب کی حیثیت سے پڑھایا جائے۔ چھٹی تا دسویں جماعت کے طلبہ و طالبات کو مکمل قرآن مجید کا ترجمہ، ہررکوع کے بعد چند آسان سوالوں کے جواب کے ساتھ پڑھایا جائے‘‘۔ یہ کتاب اسی ضرورت کے پیش نظر مرتب کی گئی ہے۔ ساتویں جماعت کے لیے سورئہ مریم تا سورئہ جِنّ کا نصاب مرتب کیا گیا ہے اور ہر رکوع کے آخر میں سوالات اور معروضی مشقیں دی گئی ہیں، تاکہ آیاتِ قرآنی کے اہم مضامین ذہن نشین ہوجائیں۔ سرکاری اور نجی اداروں کو طلبہ و طالبات کی تعلیم و تربیت اور قرآن فہمی کے لیے اس اہم علمی خدمت سے استفادہ کرنا چاہیے ۔]
o اقبال کے مکالمات اور اقوالِ زریں ، تحسین ادیب۔ناشر: راحیل پبلی کیشنز، توکل اکیڈمی، ۳۱-نوشین سنٹر، نیواُردو بازار ، کراچی۔ صفحات:۱۶۷۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔[’اقبال کے مکالمات‘ میں اقبال کی ۲۷منتخب نظموں کے مطالب نثر میں۔ ’اقوالِ زریں‘ کے تحت ۵۶موضوعات (خدا، انسان، تحریر و تقریر، عقل، نگاہ و دل، حُسن، عشق، مرض، آفتاب، خودی، نماز، سینما وغیرہ) پر اقبال نے جو کچھ شاعری میں کہا، اس (ایک شعر یا ایک مصرع) کی نثران ایک ایک جملوں کو اقبال کے ’اقوال‘ کے طور پر پیش کیا ہے، مگر یہ اقبال کے اقوال نہیں ہیں۔ خیال اقبال کا ہے اور الفاظ مؤلف کے۔]