جولائی ۲۰۱۶

فہرست مضامین

۶۰ سال پہلے

| جولائی ۲۰۱۶ | ۶۰ سال پہلے

Responsive image Responsive image

وقت: شمشیرِ دودم

وقت ایک گراں مایہ دولت ہے اور اس دولت کی فطرت یہ ہے کہ یہ رکھ چھوڑنے کی چیز نہیں ہے۔ یہ برف کے تودے کی طرح ہروقت پگھلتی رہتی ہے۔ اگر انسان اس سے پوری مستعدی کے ساتھ فائدہ نہ اُٹھائے تو یہ بہت جلد پانی کی روانی کے ساتھ بہہ جاتی ہے اور انسان اپنی غفلت اور بدبختی پر ہاتھ مَلتا رہ جاتا ہے۔ پھر اس کی یہ بھی فطرت ہے کہ یہ ایک شمشیرِ دودم ہے جس کی کاٹ دوطرفہ ہے۔ اگر آپ اس کو اپنے حق میں استعمال نہ کرسکے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ آپ کے خلاف استعمال ہوا۔ اگر اس کے ایک ایک لمحے کے بدلے میں آپ نے اجر نہیں کمایا تو صرف یہی خسارہ نہیں ہوا کہ آپ نے اپنے سرمایے سے فائدہ نہیں اُٹھایا، بلکہ اس کا اصلی دردانگیز پہلو یہ ہے کہ ضائع شدہ زندگی کا ایک ایک پَل آپ کے لیے وبال بنا۔ یہ رائیگاں جانے والی زندگی صرف رائیگاں ہی نہیں جاتی بلکہ انسان پر ایک اَبدی لعنت بن کر مسلط ہوجاتی ہے۔ سورئہ والعصر میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور یہ سورہ وہ سورہ ہے جس کی نسبت امام شافعیؒ کا یہ ارشاد ہے کہ اگر قرآن میں سے کچھ اور نہ اُترتا، صرف یہی سورہ اُترتی تو ہمارے لیے کافی تھی۔ فرمایا:

وَالْعَصْرِ o اِِنَّ الْاِِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ o اِِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ لا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ o (العصر ۱۰۳:۱-۳) زمانہ شاہد ہے کہ انسان گھاٹے میں ہے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنھوں نے عملِ صالح کیے اور ایک دوسرے کو حق اور ثابت قدمی کی نصیحت کرتے رہے۔

(’تزکیۂ نفس ‘ ،مولانا امین احسن اصلاحی، ترجمان القرآن،جلد۴۶، عدد۵،ذی القعدہ ۱۳۷۵ھ، جولائی ۱۹۵۶ئ، ص ۲۴-۲۵)

_______________