پاکستان میں افغانستان کے متعین سفیر۴۸سالہ ڈاکٹر حضرت عمر ضاخیلوال کے بیانات گذشتہ چند دنوں میں بہت اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ چھے ماہ قبل جب ان کی تعیناتی عمل میں آئی تھی اور انھوں نے نسبتاً خاموش طبع جانان موسیٰ زئی کی جگہ لی تو اس وقت کسی کو اندازہ نہ تھا کہ یہ شخصیت آنے والے دنوں میں دو برادر اور ہمسایہ پڑوسی ممالک کے درمیان تعلقات میں اتنا اہم اور کلیدی کردار ادا کرے گی ۔
نئے صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے، جو خود بھی ماہر اقتصادیات ہیں اور امریکا ہی سے کرزئی حکومت کے دور میں آئے تھے، ان کو اپنی ٹیم میں شامل کیا ۔ انھوں نے اس چار ملکی امن گروپ (QCG)میں افغانستان کی نمایندگی کی جو طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا ۔ اس میں افغانستان اور پاکستان کے علاوہ امریکا اور چین بھی شامل ہیں۔ اسی گروپ کی کوششوں سے گذشتہ سال پاکستان میں طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا اعلا ن کیا گیا تھا لیکن پھر طالبان کے سربراہ ملا عمر کی وفات کی خبر آئی یا لائی گئی اوران مذاکرات کو سبوتاژ کر دیا گیا۔ اس سال پھر جب پاکستان نے امن مذاکرات کے لیے طالبان سے رابطے کیے تو اس پر افغان حکومت نے سخت رد عمل کا اظہار کیا اور پاکستان کو کسی قسم کے مذاکراتی عمل سے منع کر دیا جو بڑا عجیب و غریب رویہ تھا۔ لیکن اب، جب کہ گذشتہ ماہ نوشکی میں طالبان رہنما ملا اختر منصور کو ڈرون حملے کے ذریعے مار دیا گیا اور اب طور خم میں افغان فورسز نے جارحانہ رویہ اختیا ر کیا تو صورت حال کچھ واضح ہوتی جا رہی ہے ۔ ماہِ اپریل میں افغان سفیر کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار ہو چکی ہے اور ہم بہت جلد افغان رہنمائوں کے ساتھ براہ راست امن مذاکرات شروع کر دیں گے ، جب کہ قطر میں مقیم افغان طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ محمد نعیم نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہم کو اپنی قیادت کی جانب سے ایسی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔ اس لیے مذاکرات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب انھی افغان سفیر کا تازہ ترین ارشاد ہے کہ اگر پاکستان نے طور خم سرحد پر گیٹ کی تعمیر کا کام ترک نہ کیا تو اس کو سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے ۔ وہ پہلے بھی اس طر ح کے تندوتیز بیانات دے چکے ہیں۔
ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ: طورخم کے سرحدی تنازع پر بات کرنے سے پہلے بہتر ہے کہ تھوڑا سا اس کا جغرافیائی اور تاریخی پس منظر بیان کر دیا جائے ۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ۲۶سو کلومیٹر لمبی سرحدہے ۔ جس میں بے شمار قدرتی اور بنائی ہوئی گزرگاہیں ہیں۔ ان میں سے ۷۸راستے معلوم اور مشہور ہیں جن میں سے ۱۶سرکاری طور پر طے شدہ سرحدی کراسنگ ہیں جن میں سے نوباقاعدہ بند کر دی گئی ہیں اور سات فعال ہیں۔ ان میں سے دوبہت مشہور ہیں جن میں بلوچستان میں چمن اور قبائلی علاقوں میں طورخم شامل ہے ۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد ی لکیر ڈیورنڈ لائن کہلاتی ہے جو برعظیم پاک و ہند میں انگریزراج کے دور میں ۱۸۹۳ء میں افغانستان کے والی امیر عبدالرحمن اور سرموٹمر ڈیورنڈ کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد طے ہوئی تھی ۔ بعد میں آنے والی افغان حکومتوں نے اس معاہدے کو ماننے سے انکار کیا تھا اور یہ تنازع ہنوز حل طلب ہے ۔ اسی بنیاد پر پاکستان بننے کے بعد اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت پر افغانستان کے نمایندے نے اعتراض کیا تھا۔ اسی کو بنیاد بنا کر ایک طویل عرصے تک افغان حکومت پختونستان کا راگ الاپتی رہی اور پاکستان کے پختون قوم پرست ان کی میزبانی کے مزے لوٹتے رہے ۔ اب بھی کابل اور جلال آباد میں پختونستان چوک قائم ہیں، البتہ حکومتی سطح پر پختونستان کا قضیہ قصۂ پارینہ بن چکا ہے ۔ جہاد افغانستان نے اس علاقے پرجو دُوررس اثرات مرتب کیے ہیں، ان میں یہ بھی شامل ہے ۔
مجاہدین اور طالبان کے دور حکومت میں یہ موقع تھا کہ ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ بھی باہم مذاکرات کے ذریعے حل کر لیا جاتا لیکن اس کے لیے دونوں جانب سے کوئی پیش رفت نہ کی گئی ۔ اب، جب کہ کابل میں افغان حکومت دوبارہ پختون قوم پرستوں کے ہاتھ میں آچکی ہے تو اس مسئلے پر بات چیت مشکل تر ہوگئی ہے ۔ یہ ہے اصل میں طور خم کے سرحدی تنازعے کا پس منظر جس پر کوئی بھی کھل کر بات نہیں کرتا۔ جب افغان سفیر حضرت عمر کے حوالے سے پاکستانی میڈیا نے یہ خبر نشر کی کہ وہ گیٹ کی تنصیب کے لیے آمادہ ہو گئے ہیں تو اسی وقت افغان میڈیا میں ان کے خلاف ایک شور سا اُٹھ گیا کہ عمر نے افغان ملت کے ساتھ دغا بازی کر کے امیر عبدالرحمن کی یاد تازہ کر دی ہے ۔ پاکستانی اداروں نے کہا کہ وہ ۱۰۰میٹر پاکستانی حدود کے اندر گیٹ کی تعمیر کے لیے تیار ہوئے تھے، جب کہ عملاً گیٹ ۳۷میٹر اندر بنایا جانے لگا جس پر افغان فوجیوں نے فائرنگ شروع کر دی، یعنی معاملہ صرف چند میٹر کا تھا۔ کئی قیمتی جانیں اس کی نذر ہو گئیں اور دو برادر ہمسایہ ملکوں کے درمیان ایک جنگی صورت حال پیدا ہو گئی ۔پاکستانی فوجی آفسر میجر علی جواد چنگیزی جو ایک خوب صورت انسان تھے ان میںشامل ہیں۔
مسئلہ صرف چند میٹر کا نہیں ہے بلکہ افغانستان کے mindsetکا ہے جو کسی بھی صورت گیٹ کی تعمیر کے لیے تیار نہیں اور اس کا اظہار اب افغان سفیر اپنے بیانات کے ذریعے کر رہے ہیں۔ پاکستان کے مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے اب جا کر یہ بیان دیا ہے کہ انھوں نے افغانستان کے وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی اور قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمر کو دعوت دی ہے کہ وہ پاکستان آکر اس قضیے پر مذاکرات کریں اور اس کا کوئی حل نکالیں۔ صلاح الدین سابقہ افغان صدر اور جمعیت اسلامی افغانستان کے سربراہ استاد برہان الدین ربانی مرحوم کے صاحبزادے ہیں جنھوں نے روسی تسلط کے خلاف جہاد افغانستان کی قیادت پاکستان میں بیٹھ کر کی تھی اور بعد میں نجیب انتظامیہ کے خاتمے پر ایک معاہدے کے تحت صبغتہ اللہ مجددی کے بعد افغانستان کے صدر بن گئے تھے لیکن معاہدے کی پابندی نہ کی اور کئی سال تک افغانستان کے صدر رہے ۔ یہاں تک کہ طالبان نے آکر ان کی حکومت ختم کی ۔ حنیف اتمر کا پس منظر یہ ہے کہ وہ سابقہ کمیونسٹ کے طور پر مشہور ہیں۔ وہ ڈاکٹر نجیب اللہ کے ساتھیوں میں سے تھے اور جب نجیب انتظامیہ نے حضرت مجددی کو اقتدار منتقل کیاتو اس عمل میں حنیف اتمر شامل تھے ۔
افغان حکومت: افغانستان کی موجودہ حکومت کی ۲۶رکنی کابینہ میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ گروپ اور ڈاکٹر اشرف غنی گروپ کے مساوی ارکان شامل ہیں۔ ان کے علاوہ معاونین کی ایک لمبی فہرست ہے ۔ قومی وحدت کی خاطر بہت ساری تنظیموں اور گروپوں کو نمایندگی دی گئی ہے ۔ حکومت نے سیاسی قوت کے ساتھ ساتھ عسکری قوت کے حصول کے لیے بھی خاصی تگ و دو کی ہے۔ ۲لاکھ کے لگ بھگ افغان فوج اور ایک لاکھ کی تعداد میں افغان پولیس گذشتہ عرصے میں تیار کی گئی ہے جس پر امریکا اور اس کے اتحادیوں نے زر کثیر خرچ کیا ہے ۔ تاریخ میں پہلی بار افغانستان میں اتنی بڑی سرکاری فوج بنائی گئی ہے ۔ امریکا نے ایک معاہدے کے تحت ۲۰۲۰ء تک اس کا خرچ اُٹھانے کی حامی بھری ہے ۔ البتہ فضائی فوج اس انداز میں نہیں بنائی گئی ہے جس طرح زمینی فوج تیار کی گئی ہے۔امریکا نے پانچ فضائی اڈے اپنی تحویل میں رکھے ہیں جس پر اس کی فضائی طاقت موجود ہے۔ حال ہی میں امریکی صدر بارک اوباما نے ایک حکم نامے کے ذریعے امریکی فضائی افواج کی افغان فوج کی حمایت میں زیادہ بہتر استعمال کو یقینی بنایا ہے ۔ امریکا کی اسٹرائیک فورس میں بھی اضافے کی تجویز ہے جس کی موجودہ تعداد ۹۶۰۰ہے ۔ دوسری جانب طالبان کی جانب سے بھی مزاحمت کا سلسلہ جاری ہے اور مختلف علاقوں میں افغان فوج پر ان کے حملوں اور علاقوں پر قبضے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ طالبان جنوبی صوبوں میں اپنے مضبوط گڑھ سے آگے بڑھ کر شمالی صوبوں میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔ گذشتہ ایک افسوسناک واقعہ میں انھوں نے قندوز جانے والی دوبسوں کو روکا اور ان میں سے ۱۹مسافروں کو وہیں پر مار دیا، جب کہ باقی کو یرغمال بنا لیا۔ اس واقعے کی پورے افغانستان میں عوامی سطح پر مذمت کی گئی ۔
داعش: طالبان کو ایک بڑی مشکل داعش کی صورت میں پیش آرہی ہے جو اب مختلف علاقوں میںاپنے قدم جما رہی ہے ۔ عالمی سطح پر داعش کی کامیابیوں کی وجہ سے جہادی ذہن رکھنے والے نوجوان افغان داعش کی جانب رجوع کر رہے ہیں۔ لیکن افغانستان میں وہ حکومت کے لیے درد سر بننے کے ساتھ ساتھ افغان طالبان کے لیے بھی ایک بڑی مصیبت بن چکے ہیں۔ اسی خطرے کو بھانپتے ہوئے طالبان کے رہنما ملا اختر منصور نے داعش کے سربراہ البغدادی سے بہت پہلے اپیل کی تھی کہ وہ افغانستان میں تحریک طالبان ہی کو اپنا نمایندہ سمجھیںاور داعش کی علیحدہ تنظیم نہ بنائیں لیکن ان کی بات نہ مانی گئی اور اس کے اثرات کئی جگہ محسوس کیے جا رہے ہیں۔ ننگر ہار کے ضلع اچین میں انھوں نے مضبوطی سے قدم جمالیے ہیں اور وہاں سے طالبان کا صفایا کر دیا ہے ۔ اب حکومت اپنی فضائی اور زمینی کارروائیوں کے ذریعے اس مشکل پہاڑی علاقے میں داعش کے خلاف سرگرمیاں کر رہی ہے اور سیکڑوں افراد کو ہلاک کرنے کے دعوے کر رہی ہے۔ یہ علاقہ بھی پاکستان سے منسلک ہے ۔ طالبان کے نئے سربراہ ملاہیبت اللہ کے لیے بھی یہ ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
حزبِ اسلامی: افغانستان میں ایک اہم قوت انجینیر گل بدین حکمت یار کی حزب اسلامی ہے جس کی پڑھے لکھے نوجوانوں میںمؤثر حمایت موجود ہے ۔ ایک زمانے میں یہ تنظیم عسکری لحاظ سے افغانستان میں ممتاز ترین پوزیشن پر تھی لیکن اب اس کی وہ حیثیت نہیں رہی ہے اور اس کے کئی ارکان عسکریت چھوڑ کر کابل اور جلال آباد میں آباد ہو گئے ہیں۔ اس میں سے ایک گروپ اس وقت حکومت میں بھی شامل ہے جس کی قیادت مولوی سرفراز کر رہے ہیں۔ اب ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت نے حزب اسلامی کے ساتھ باقاعدہ مذاکرات کر کے حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے ۔ انجینیر حکمت یار کے نمایندے ڈاکٹر غیرت بہیر اور ان کے ساتھی مذاکراتی عمل میںشرکت کے لیے کابل میں موجود ہیں۔ ایک معاہدے پر اتفاق ہو گیا ہے جس کی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے۔ انجینیر حکمت یار کی جانب سے اب تک توثیق ہونے کا اعلان نہیں ہوا ۔ افغانستان کی بدلتی ہوئی صورت حال میں اس اعلان کی بہت اہمیت ہے، البتہ اس کی مخالفت میں بھی کئی طاقت وَر عناصر پیش پیش ہیںجو حکومتی ایوانوں میںموجودہیں۔ یہ ایک مشکل فیصلہ ہوگا جس کی تنفیذ حکومت اور حزب اسلامی دونوں کے لیے بہت بڑا چیلنج ہوگا۔
امریکا: افغانستان میں کابل حکومت کے ساتھ ساتھ امریکی انتظامیہ کاکردار بھی بہت اہم ہے جو بارک اوباما کی مدت صدارت میں خاتمے کے قریب ہونے کی وجہ سے تذبذب کا شکار ہے ۔ یہ بات تو طے ہے کہ آیندہ دور میں امریکا کے نزدیک افغانستان کی وہ حیثیت نہیں رہے گی جو گذشتہ ۱۵سال میں رہی ہے ۔ امریکا نے افغانستان میں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس کے پیش نظر وہ چاہتا ہے کہ آیندہ بھی کلیدی کردار اس کا رہے لیکن خرچ کرنے کے معاملے میں اور افرادی قوت کے استعمال میں وہ محتاط رویہ اختیار کر رہا ہے ۔ اس لیے اس کی خواہش ہے کہ افغانستان میں طالبان کی واپسی کو روکنے کے لیے اس کو قابل اعتماد پارٹنر دستیاب ہوں۔
چین اور بھارت یہ کردار ادا کر سکتے ہیں۔ چین افغانستان کے سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا، البتہ اقتصادی اور ترقیاتی منصوبوں میں دل چسپی رکھتا ہے ۔ جلال آباد سے کابل تک دو رویہ ہائی وے کی تعمیر ایک چینی کمپنی کر رہی ہے ۔ البتہ بھارت کا افغانستان میں کردار بہت اہم ہے اور وہ آیندہ بھی افغانستان میں اور اس سے آگے بڑھ کر وسط ایشیا میںاپنے لیے تجارتی منڈیوں کا حصول چاہتا ہے ۔
بہارت: بھارت نے افغانستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے ۔ ایک ترقی پذیر ملک ہونے کے باوجود اس نے دوبلین ڈالر کی خطیر رقم سے بڑے منصوبے افغانستان میں مکمل کیے ہیں۔ ان میں دلآرام ذارنج ہائی وے شامل ہے جو افغانستان کو ایران کی چاہ بہار بندرگاہ سے ملاتی ہے ۔ قندہار سے سپین بولدک روڈ کا ٹھیکہ بھی بھارت کے پاس ہے ۔ اسی طرح سلمہ ڈیم، بجلی کی فراہمی کے بڑے منصوبے سڑکوں کی تعمیر ، ٹرانسپورٹ کی سہولتیں ، تعلیمی وظائف ، افغان سول بیوروکریسی اور فوجی افسران کی تربیت وغیرہ منصوبے روبہ عمل ہیں۔ اس سال ماہ اپریل میں بھارتی وزیر اعظم نریندر سنگھ مودی نے کابل میں پارلیمنٹ ہائوس کا افتتاح کرنے کے بعد اچانک لاہور کا دورہ کیا اور وزیر اعظم نواز شریف کی نواسی کی شادی کی مبارک باد کے لیے رائے ونڈ پہنچ گئے اور پھر وہاں سے دہلی روانہ ہوئے ۔ وہ اس مختصر لیکن ذو معنی دورے سے کیا پیغام دینا چاہ رہے تھے اس کا ہر کوئی اندازہ لگا سکتا ہے ۔ افغانستان کا الیکٹرانک میڈیا مکمل طور پر بھارت کے مرہون منت ہے۔ ۵۰سے زائد افغان ٹی وی چینلز بھارتی دور درشن کے خلائی جہاز سے سگنل وصول کر تے ہیں اور ان نشریات کا معاوضہ بھارت نے بہت کم رکھا ہے ۔ اس لیے اب جب پاکستانی سیاست دان بیان دیتے ہیں کہ افغان میڈیا بھارت کا حامی ہے تو اس کے پیچھے بھارتی منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری ہے ۔ امریکا اور بھارت میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں طالبان کی واپسی نہیں چاہتے ۔ ایران بھی افغانستان کا ایک اہم تزویراتی پارٹنر ہے ۔ پہلے حامد کرزئی حکومت اور اب ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کو ایران کی مکمل حمایت حاصل ہے ۔
ایران: ایران نے بھی افغانستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے ۔ اس نے خاص طور پر تعلیمی میدان میں بڑے بڑے ادارے اور جامعات قائم کی ہیں۔ افغانستان کی شیعہ آبادی اور ہزارہ قوم کو اس کی مکمل تائید حاصل ہے ۔ کابل کی خاتم النبین ؐ یونی ورسٹی میں ان کے طالبعلموں کو بڑی آسانی سے پی ایچ ڈی کی اعلیٰ ترین ڈگری مل جاتی ہے ۔ یہ افغانستان میں مشینی ڈگری کے نام سے مشہور ہے ۔ سستی تعلیم کی وجہ سے سے سنی طلبہ بھی یہاں داخلہ لیتے ہیں۔ ایران بھی افغانستان میں طالبان حکومت کی واپسی نہیں چاہتا ۔البتہ اس نے تحریک طالبان کی قیادت سے رابطہ رکھا ہوا ہے اور تہران میںمنعقدہونے والی بین الاقوامی کانفرنسوں میں ان کی شرکت بھی نظر آتی ہے ۔
پاکستان: پاکستان کا معاملہ افغانستان میں خاصا متنازع ہے ۔ ایک طرف اس کے مثبت پہلو میں جن میں دونوں کی اکثریتی آبادی کا سنی مسلم ہونا، مشترکہ ہمسائیگی ، مشترکہ ثقافت ، زبان ، قبائل شامل ہیں۔ پاکستان کی بندرگاہ کراچی افغانستان کے لیے بھی اسی طرح استعمال ہوتی ہے جس طرح پاکستان کے لیے۔ ہر سال تقریباً ۵۰ہزار کنٹینر سامان یہاں سے جاتا ہے ۔ پاکستان کا سب سے بڑا کارنامہ ان لاکھوں پناہ گزینوں کی مہمان نوازی اور خدمت ہے جنھوں نے ۸۰کے عشرے میں افغانستان پر روسی جارحیت کے دوران پاکستان میں پناہ لی اور ۳۵لاکھ کے لگ بھگ مہاجرین اس وقت بھی یہاں موجود ہیں ۔ پاکستان کے خلاف نکات میں تاریخی ڈیورنڈ لائن کا تنازع ہے اور اس وقت طالبان کی حمایت کا الزام ہے ۔ ایک اور مسئلہ تزویراتی گہرائی (Strategic Depth)کا بھی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بھارت کے مقابلے میں افغانستان پاکستان کو اگر اپنی سرزمین اور فضا استعمال کرنے دے تو پاکستان کو دفاعی طور پر آسانی ہو گی ۔ سنہ ۶۰کے زمانے سے یہ اصطلاح استعمال میں آئی اور بھارتی پروپیگنڈے کا موضوع بنی لیکن موجودہ دور میں اس کی کوئی اہمیت نہیں رہی ہے ۔ ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ البتہ زیادہ گمبھیر اور پیچیدہ ہے اور دونوں ممالک کسی بھی مرحلے پر اس موضوع پر بات کرنے سے کتراتے رہے ہیں۔ پاکستان کی یقینا خواہش رہی ہے کہ اس پر بات کی جائے اور اس کو حل کر لیا جائے لیکن افغان قیادت کبھی بھی اس پوزیشن میںنہیں رہی کہ اس مسئلے پر دو ٹوک بات کر سکے اور اب بھی ایسا ہی ہے ۔ زمینی حقیقت کے طور پر اس کو تسلیم کیا جا چکا ہے لیکن رسمی طور پر کوئی معاہد ہ نہیں ہوا۔ شاید آیندہ بھی ایسا رہے ۔ اب بھی جب طورخم پر گیٹ کی تنصیب کا تنازع اُٹھا ہے تو افغانستان کی جانب سے اس طرف کوئی اشارہ تک نہیں کیا گیا ہے لیکن پس منظر میں یہی مسئلہ ہے ۔ طالبان کی حمایت کا الزام اب پرانا ہوچکاہے لیکن پھر بھی دہرایا جاتا ہے۔ طالبان کی کسی بھی کارروائی کو پاکستان کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ اب صورت حال یہ ہے کہ افغان صدر براہِ راست پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف خود چھے مرتبہ افغانستان جا چکے ہیں۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جاچکے ہیں۔ خفیہ معلومات کا تبادلہ کیا جارہا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی و کاروباری تعلقات کسی بھی اور ملک کے مقابلے میں بڑھ کر ہیں۔ کئی معاہدے بھی ہو چکے ہیں۔ مشترکہ چیمبر آف کامرس بھی ۲۰۱۰ء میں بناہے۔ افغانستان کی درآمد میں پاکستان کا حصہ ۹ئ۲۵فی صد ہے، جب کہ برآمدات میں ۳ئ۲۳ فی صد ہے۔ دونوں کے درمیان APTTAکا نیا تجارتی معاہدہ بھی ہواہے ۔ باہمی تجارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کا کل حجم ۲۵۰۹ ملین ڈالر سے بڑ ھ چکا ہے اور پاکستان کے حق میں ہے ۔
پاکستان نے افغانستان کی تعمیر نو میں بھی اپنا حصہ ڈالا ہے ۔ پاکستان نے اس مد میں ۳۳۰ملین ڈالر خرچ کیے ہیں جو بھارت کے ۲بلین ڈالر کے مقابلے میں بہت کم ہیں ۔ جلال آباد طورخم روڈ کی تعمیر پاکستان کا منصوبہ تھا ۔ تعلیم کے میدان میں پاکستان کے منصوبوں میں کابل میں رحمن بابا اسکول ، کابل یونی ورسٹی میں علامہ اقبال فیکلٹی ، جلال آباد میں سر سید فیکلٹی اور بلخ میں لیاقت علی خان فیکلٹی کی تعمیر شامل ہے ۔ اسکولوں کے طلبہ کے لیے کتب اور کاپیوں کی فراہمی، ۵۰؍ایمبولینس گاڑیاں، ۲۰۰ٹرک اور ۱۰۰بسیں بھی عطیہ کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی تیل ، گیس، معدنیات او ربجلی کے منصوبوں میں پاکستان نے امداد بہم پہنچائی ہے ۔ مستقبل میں پاک افغان باہمی تعلقات اور تجارت کے فروغ کے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔ پاک چائنا کاریڈور کے مغربی روٹ کو افغانستان سے منسلک کرنے کا آپشن موجود ہے ۔ اس کے علاوہ پاکستان کے ریلوے کا نظام جو ۱۱ہزار۷ سو ۷۸ کلومیٹر طویل انگریز دور کا تعمیر کردہ ہے پہلے ہی طور خم تک پہنچایا گیا تھا ۔ اس کو اگر افغانستان تک پہنچا دیا جائے اور پھر اس سے آگے وسط ایشیا کے ریلوے نظام سے جوڑ دیا جائے تو اس پورے خطے کی تقدیر بدل سکتی ہے ۔ چین اس عظیم منصوبے میں بھی دل چسپی لے رہا ہے ۔
ڈاکٹر اشرف غنی نے برسرِ اقتدار آنے کے بعد نومبر ۲۰۱۴ء کو پاکستان کا دورہ کیا اور پاکستان کے لیے نیک خواہشات اور اچھے و مثبت جذبات کا اظہار کیا ۔ پاکستانی قیادت نے بھی بھر پور جواب دیا اور پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف نے افغان حکومت کو مکمل حمایت کی یقین دہانی کروائی ۔ افغانستان میں امن کا قیام اور اس کی سلامتی پاکستان کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے ۔ روسی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان جس بری طرح سے باہمی جنگ وجدل اور شکست وریخت سے دو چار ہوا، امریکی انخلا کے بعد اس کا اعادہ نہیں ہونا چاہیے ۔ افغانستان میں متحارب گروپوں کے درمیان انٹرا افغان مذاکرات اور اس کے نتیجے میں جنگ کا خاتمہ اور امن و سلامتی کا قیام جتنا افغانستان کے لیے لازمی ہے اتنا پاکستان کی بھی ضرورت ہے ۔ ایسے موقعے پر طورخم سرحد پر خونچکاں واقعہ ناقابلِ برداشت اور خطرناک مضمرات کا حامل ہے ۔
پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے عارضہ قلب اور سرجری کے دوران اور بعد میںملکی انتظام اور انصرام چلانے والی کوئی شخصیت نظر نہیں آئی جو بہت بڑا قومی مسئلہ ہے ۔ وفاقی وزیر جنرل عبدالقادر بلوچ نے ایک اخباری بیان میں طورخم واقعے کو بھارت کی سازش قرار دیا لیکن اس کا توڑ کیا ہے اور کون کرے گا؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ۔ افواج پاکستان کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف اپنا بھر پور کردار ادا کر رہے ہیں لیکن سیاسی قیادت کا کردار مختلف اور دوسرے انداز میں ہوتا ہے ۔ سفارتکاری کی اہمیت دنیا میں ایک مسلّمہ حقیقت تسلیم کی جاتی ہے ۔ بین الاقوامی مسائل کا حل حکمت عملی اور لچک دار رویے سے ہی ممکن ہوتا ہے ۔
اس دور میں مسلم اُمت ایک کرب اور تکلیف سے دو چار ہے ۔ ہر جانب خون خرابہ اور تباہی و برباد ی کی خبریں ہیں۔ عراق و شام میں ایک خوف ناک صورت حال پیدا ہو چکی ہے ۔ اس موقعے پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان تصادم ایک اور المیہ کو جنم دے سکتا ہے ۔ کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے۔ اس لیے پاکستان اور افغانستان دونوں اطراف کی قیادت کو ان خطرات کے سد باب کے لیے سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا۔ ضروری ہے کہ فوری اقدامات اٹھائے جائیں۔ پاکستان اور افغانستان کا مفاد ایک ہے اور ہم سب اس کے امین ہیں۔