’لبرل ازم‘ کو ہر اُس خیال ، نظریے، عقیدے اور عمل سے دشمنی ہے، جو نفسِ انسانی کی بے لگام آزادی پر کسی قسم کی پابندی لگائے۔لفظ ’لبرل‘ انگریزی کے لفظ ’لبرٹی‘ (Liberty: یعنی مطلق آزادی و خود مختاری) اور لاطینی لفظ ’لائبر‘ (آزاد و خودمختار) سے ماخوذ ہے۔ اب یہ لفظ ایک مستقل اصطلاح کی حیثیت سے خدا اور نفسِ مذہب سے مطلق آزادی کی علامت بن چکا ہے۔
یورپی معاشرے میں عیسائی مذہبی رہنمائوں کی جانب سے سیکڑوں برس تک مذہب کی غلط اور خود ساختہ تشریح، مذہب کے غلط استعمال اور اس کی بنیاد پر عوام کے استحصال کے خلاف چودھویں صدی عیسوی میں شدید منفی ردّ ِ عمل پیدا ہوا، جس کی بنیاد پر ایک تحریک برپا ہوئی ۔اس تحریک کے فکری رہنمائوں نے جو آبائی طور پر خود بھی عیسائی تھے، دینِ عیسٰی ؑ میں دَر آنے والے بگاڑ کی اصلاح کرنے کے بجاے خوددینِ عیسوی ہی کو رد کر دیا اور معاشرتی اقدار، قوانین اور اخلاقیات کی تشکیل کے عمل سے دینِ عیسوی کو بے دخل کر دیا۔عیسائیت کی گرفت کمزور پڑنے سے یورپی عوام میں فکری خلا پیدا ہوا، جسے پُر کرنے کے لیے انسانوں کے خود ساختہ اور متفرق خیالات نے جگہ بنالی۔مذہب سے باغی ان یورپی لوگوں نے دنیا کے مختلف ملکوں کو تاراج کر کے وہاں حکومتیں قائم کیں تو اپنے لبرل نظریات ہی کو مقبوضہ معاشروں کی تشکیلِ نو کی بنیاد بنایا ۔مقبوضہ مسلم ممالک کے کچھ مسلمان بھی لبرل ازم سے متاثر ہوئے اوراس کے نقیب بن گئے۔
عیسائیت ہی نہیں بلکہ چین کے تائوازم اور کنفیوشس ازم ، جاپان کے شنٹوازم اور بدھ مت اور ہندستان کے ہندو مت، لبرل ازم کے سامنے غیرمؤثر ہوچکے ہیں۔ مشرقِ بعید میں پھیلے ہوئے بدھ مت اور نسل پرست یہودیت سمیت تمام مذاہب جو کہ اپنی ساخت و ہیئت کے اعتبار سے معاشرے کی سیاسی،معاشی اور معاشرتی تشکیل میں پہلے بھی کوئی بہت سرگرم کردار نہیں رکھتے تھے، پچھلے ۶۰برسوں میں لبرل ازم کے فکری طُوفانِ بدتمیزی کے سامنے ریت کی دیوارثابت ہوئے ہیں اور ریاستی و معاشرتی اُمور میں رہنمائی سے کُلّی طور پر دست بردار ہو چکے ہیں۔ایک دینِ اسلام ہے جو اپنی فکری بنیاد کی مضبوطی کے سبب میدان میں قوت کے ساتھ موجود ہے۔اسی لیے تمام لبرل قوتوں کا نشانہ بھی اس وقت دین اسلام اور وہ مسلمان ہیں جودین اسلام کو اس کی اصل شکل میں اس کی روح کے ساتھ قائم کرنا اور قائم رکھنا چاہتے ہیں۔
تاہم، جو بات یہ لبرل خواتین و حضرات سمجھ کر بھی سمجھنا نہیں چاہتے، وہ یہ ہے کہ اگرچہ حیاتیاتی طور پر (biologically) انسان ایک حیوانی وجود ہی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ بہرحال ایک اخلاقی وجود بھی ہے اوریہی اس کی اصل پہچان ہے۔ایک انسان کے اندر پائی جانے والی صحیح اور غلط کو پہچاننے اور ان میں سے کسی ایک کو اختیار یا رد کرنے کی جبلّی صلاحیت اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان نرا حیوان نہیں ہے۔ایک بڑا فرق حیوان اور انسان میں یہ ہے کہ انسان اپنے ارد گرد کو پہچانتا ہے ، اس کا گہرا شعور رکھتا ہے اور اپنی ذات کو پہچاننے اور اسے نمایاں کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔انسان اشیا کا تجزیہ کرنے اور ان کے باہمی تعامل کو سمجھنے کی پیدایشی صلاحیت رکھتا ہے اور یقیناً یہ صلاحیت حیوانات میں نہیں ہے۔انسانوں کی یہ پیدایشی صلاحیتیں اُس کے بچپن سے جوانی تک بتدریج نمو پاتی ہیں، لیکن جانوروں میں ایسی تدریج کا کوئی نشان نہیں پایا جاتا۔جبلّی طور پر انسان میں پایا جانے والا ’ضمیر‘ یہ قوّت رکھتا ہے کہ کسی قسم کے خارجی دبائو یا قانون کے بغیر حیوانی خواہش پر قابو پاکر کسی بھی غلط کام سے انسان کو روک لے۔اس کے برعکس حیوانوں میں ضمیر نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔
دنیا کے تمام نظام ہاے حکومت کی طرح دینِ اسلام میں بھی قانون کے نفاذ کے ذریعے برائی کے خاتمے اور اس کی روک تھام کا اہتمام موجود ہے، لیکن اس دین کا انحصار اصل میں ان اخلاقی اقدار کو اپنانے پر ہے، جو انسانی ضمیر کی مطابقت میں انسانوں کے خالق نے عطا کی ہیں۔ دنیا میں اس وقت پائی جانے والی تمام اخلاقی اقدار کسی بندر یا انسان نما حیوان نے نہیں بنائی ہیں۔ یہ تمام اقدار الہامی مذاہب کی عطا کردہ ہیں۔یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ اخلاقی اقدار کے معاملے میں تاریخ کے مختلف ادوار میں ظاہر ہونے والے پیغمبرانِ خدایکساں اور مشترک ورثہ انسانوں کو دے کر گئے ہیں۔ان تمام پیغمبروں نے قانون سے زیادہ اخلاقی اقدار اور ضمیر کی پکار پر توجہ دینے کی تعلیم دی، اگرچہ ناگزیر صورتِ حال میں تعزیر کا استعمال بھی تجویز کیا۔
پیغمبرؐ اسلام کے ابتدائی ساتھیوں اور اسلامی تاریخ کی دیگر شخصیات کی بے شمار مثالوں کے ذریعے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ کسی قسم کی قانونی قدغن یا سزا کے خوف کے بغیر محض اپنے ضمیر اور خدا اور آخرت کے دن پر یقین رکھنے کے باعث زبردست اندرونی ڈسپلن کامظاہرہ کرتے تھے۔ سچے مسلمان آج بھی انھی اقدار کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ابھی تک مسلمان ملکوں میں جرائم کا تناسب لبرل ممالک کی نسبت بہت کم ہے اور اس کی وجہ مسلمانوں کا وہ اندرونی ڈسپلن ہے جو دینِ اسلام کی وجہ سے قائم ہے۔جن ممالک میں جرائم کی شرح زیادہ ہے، وہ جرائم پر قابو پانے کے لیے مزید قوانین متعارف کراتے ہیں اورنفاذِ قانون کے لیے مزید انسانی و دیگر وسائل فراہم کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ اُن معاشروں میں مذاہب کی گرفت کمزور ہونے کے باعث خود احتسابی کا عنصر ناپید ہو رہا ہے۔جن ممالک میں مذہب اور ریاست کو جداجدا کر دیا گیا ہے اور مذہبی اور اخلاقی تعلیم حکومتوں کی ذمہ داری نہیں رہی ہے، اُن کے پاس کوئی راستہ ہی اس کے سوا نہیں بچا کہ وہ جرائم کی روک تھام صرف اور صرف قوت سے کریں۔
اب آپ لبرل کہلانے والے ملکوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے پچھلے تقریباً ۲۰۰ برس سے دنیا کو ایک جنگل بنا رکھا ہے۔اپنے قومی اور گروہی مفادات کے حصول کے لیے یورپ کے ممالک اور امریکا نے نہایت سفّاکی سے جتنی بڑی تعداد میں انسانوں کو قتل کیا ہے وہ پوری انسانی تاریخ میں قتل ہونے والے انسانوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔یورپی اقوام نے ایشیا اورافریقہ کے ممالک کے وسائل پر قبضے کے لیے کیے گئے حملوں کے دوران بلا مبالغہ کروڑوں لوگوں کو قتل کیا ۔فرانس نے ۱۸۳۰ئ-۱۸۴۷ء کے دوران انسانوں سمیت ہر اُس چیز کو الجزائر میں تباہ کر دیا جو اس کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی تھی۔لاکھوں خواتین کی آبروریزی کی گئی اور لاکھوں انسانوں کا قتل عام کیا گیا۔ امریکیوںنے (جو اصلاً یورپ سے نقل مکانی کر کے گئے ہوئے لوگ ہیں) براعظم امریکا کے اصل باشندوں ریڈ انڈین کے قتلِ عام سے آغاز کیااور لاکھوں مقامی لوگوں کا نام و نشان مٹادیا۔ پہلی اور دوسری جنگ ِ عظیم میں طاقت کے بے دریغ استعمال سے ثابت ہوا کہ لبرل لوگ اپنے تحفظ کے لیے اقدام کرتے وقت کسی بھی خونخوار حیوان ہی کا سا برتائو کرتے ہیں۔ ۱۹۴۵ء میں امریکی ایٹمی حملوں کے نتیجے میں جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ لوگ مارے گئے، لاکھوں زخمی اور تابکاری اثرات سے بیمار ہوئے۔
پہلی جنگ عظیم [۱۸-۱۹۱۴ئ] کے دوران پونے دو کروڑ اور دوسری جنگِ عظیم [۴۵-۱۹۳۹ئ] کی آگ میں انھی لبرل قوموں نے ۶ تا ۸کروڑ لوگ ہلاک کیے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد اقوامِ متحدہ اورسلامتی کونسل کے قوانین موجود ہونے کے باوجود امریکا نے ویت نام پر حملہ کیا اور ۲۰سالہ جنگ [یکم نومبر ۱۹۵۵ئ-۳۰؍اپریل ۱۹۷۵ئ] میں ۲۰لاکھ سے زیادہ انسانوں کو ہلاک کردیا۔سابق سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے نتیجے میں ۱۵لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ عراق پر امریکی حملے کے نتیجے میں اب تک ۵ لاکھ اور شام کی جنگ میں تقریباً ۲ لاکھ سے زیادہ انسان مارے جا چکے ہیں___کیا گذشتہ ۲۰۰برس کی تاریخ سے یہ سبق حاصل نہیں ہوتا کہ جب انسان خدا فراموش ہو جائے اور مذہب کی گرفت سے آزاد ہوجائے تو اُس کارویّہ ایک وحشی حیوان کا سا ہوجاتا ہے؟
مقامِ حیرت ہے کہ پچھلے ۲۰۰برس میں اتنا ظلم ڈھانے کے بعد بھی یہ لوگ انسانیت کے قائد کہلانے کے دعوے دار ہیں، اور دنیا کوایک نئی اخلاقیات کا درس دیتے ہیں، اور اپنے مخالفین کو ’بنیاد پرست‘، ’انتہاپسند‘ اور ’دہشت گرد‘ کے القاب سے نوازتے ہیں!
لبرل ازم کے علَم بردار عموماً مذہبی شعائر اور بالخصوص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے لیے اپنی وضع کردہ ’آزادی راے‘ کو آڑ بناتے ہیں۔ دوسری طرف لبرل حکومتیں توہینِ عدالت پر تو سزا دیتی ہیں لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین پر خاموشی اختیار کرتی ہیں۔ کیا یہ دُہرا معیار نہیں؟ کیا یہ مبنی برانصاف ہے؟