محمد فاروق ناطق


 ’لبرل ازم‘ کو ہر اُس خیال ، نظریے، عقیدے اور عمل سے دشمنی ہے، جو نفسِ انسانی کی بے لگام آزادی پر کسی قسم کی پابندی لگائے۔لفظ ’لبرل‘ انگریزی کے لفظ ’لبرٹی‘ (Liberty: یعنی مطلق آزادی و خود مختاری) اور لاطینی لفظ ’لائبر‘ (آزاد و خودمختار) سے ماخوذ ہے۔ اب یہ لفظ ایک مستقل اصطلاح کی حیثیت سے خدا اور نفسِ مذہب سے مطلق آزادی کی علامت بن چکا ہے۔

یورپی معاشرے میں عیسائی مذہبی رہنمائوں کی جانب سے سیکڑوں برس تک مذہب کی غلط اور خود ساختہ تشریح، مذہب کے غلط استعمال اور اس کی بنیاد پر عوام کے استحصال کے خلاف چودھویں صدی عیسوی میں شدید منفی ردّ ِ عمل پیدا ہوا، جس کی بنیاد پر ایک تحریک برپا ہوئی ۔اس تحریک کے فکری رہنمائوں نے جو آبائی طور پر خود بھی عیسائی تھے، دینِ عیسٰی ؑ میں دَر آنے والے بگاڑ کی اصلاح کرنے کے بجاے خوددینِ عیسوی ہی کو رد کر دیا اور معاشرتی اقدار، قوانین اور اخلاقیات کی تشکیل کے عمل سے دینِ عیسوی کو بے دخل کر دیا۔عیسائیت کی گرفت کمزور پڑنے سے یورپی عوام میں فکری خلا پیدا ہوا، جسے پُر کرنے کے لیے انسانوں کے خود ساختہ اور متفرق خیالات نے جگہ بنالی۔مذہب سے باغی ان یورپی لوگوں نے دنیا کے مختلف ملکوں کو تاراج کر کے وہاں حکومتیں قائم کیں تو اپنے لبرل نظریات ہی کو مقبوضہ معاشروں کی تشکیلِ نو کی بنیاد بنایا ۔مقبوضہ مسلم ممالک کے کچھ مسلمان بھی لبرل ازم سے متاثر ہوئے اوراس کے نقیب بن گئے۔

عیسائیت ہی نہیں بلکہ چین کے تائوازم اور کنفیوشس ازم ، جاپان کے شنٹوازم اور بدھ مت اور ہندستان کے ہندو مت، لبرل ازم کے سامنے غیرمؤثر ہوچکے ہیں۔ مشرقِ بعید میں پھیلے ہوئے   بدھ مت اور نسل پرست یہودیت سمیت تمام مذاہب جو کہ اپنی ساخت و ہیئت کے اعتبار سے معاشرے کی سیاسی،معاشی اور معاشرتی تشکیل میں پہلے بھی کوئی بہت سرگرم کردار نہیں رکھتے تھے، پچھلے ۶۰برسوں میں لبرل ازم کے فکری طُوفانِ بدتمیزی کے سامنے ریت کی دیوارثابت ہوئے ہیں اور ریاستی و معاشرتی اُمور میں رہنمائی سے کُلّی طور پر دست بردار ہو چکے ہیں۔ایک دینِ اسلام ہے جو اپنی فکری بنیاد کی مضبوطی کے سبب میدان میں قوت کے ساتھ موجود ہے۔اسی لیے تمام لبرل قوتوں کا نشانہ بھی اس وقت دین اسلام اور وہ مسلمان ہیں جودین اسلام کو اس کی اصل شکل میں اس کی روح کے ساتھ قائم کرنا اور قائم رکھنا چاہتے ہیں۔

  •  لبرل ازم: دھریت کا مقدمہ: امریکا اور یورپ میں لبرل ازم کے سرخیل، ملحد اور دہریے (atheist یا agnostic) ہیں۔ لبرل ازم اصل میں الحاد اور دہریت کا مقدمہ ہے بلکہ اب تو خود ایک دین ہے اور ایک لبرل شخص ممکنہ طورپر(potentially)ایک ملحد اور ’دہریہ‘ ہی ہوتا ہے۔    اس لیے کہ خدا اور مذہب سے آزادی اورمذہب میں قطع و برید کی خواہش پہلے عملی اور بالآخر نظری طور پر خدا کے انکار ہی پر منتج ہوتی ہے۔ کوئی سرکاری مذہب نہ رکھنے والے ممالک (مثلاًسکینڈے نیویا،جرمنی، ہالینڈ،مشرقی ایشیا اور چین) میںدہریہ کہلانے والے افراد کی تعداد میں پچھلے چند برسوں میں اضافہ ہوا ہے۔امریکا میں ان کی تعداد ۵ فی صد ہے۔گیلپ انٹرنیشنل کے سروے کے مطابق دنیا کے ۶۵ممالک کے ۱۱فی صد افراد نے دہریت کو اختیار کیا ہے۔ مشاہدہ   یہ ہے کہ لبرل لوگ جس مذہب سے متعلق ہوتے ہیں، سب سے پہلے اسی کی بنیاد پر ضرب لگاتے ہیں۔ اُس کے شعائر کا مذاق اُڑاتے ہیں اور اُس دین کے علم برداروں کی تضحیک اور کئی صورتوں میں ریاستی طاقت اور وسائل کے بل پر ان کے قتل تک کے درپے ہوتے ہیں۔
  •  حقیقت سے فرار: جب ایک لبرل یا دہریہ فرد یہ کہتا ہے کہ:’’ مذہب انسان کی آزادی کو ختم یا محدود کر دیتا ہے‘‘، تو دراصل وہ یہ کہہ رہا ہوتاہے کہ ’ خدا‘ انسانوں کا خود سے گھڑا ہوا ایک خیالی وجودہے اوراس خیالی وجود نے انسانوں کی آزادی کو یرغمال بنا رکھا ہے۔اس قید یا یرغمالی کیفیت سے خود کو اور دوسرے انسانوں کو نکالنے کے لیے یہ لبرل خواتین و حضرات کوشش کر رہے ہیں۔

تاہم، جو بات یہ لبرل خواتین و حضرات سمجھ کر بھی سمجھنا نہیں چاہتے، وہ یہ ہے کہ اگرچہ  حیاتیاتی طور پر (biologically) انسان ایک حیوانی وجود ہی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ بہرحال ایک اخلاقی وجود بھی ہے اوریہی اس کی اصل پہچان ہے۔ایک انسان کے اندر پائی جانے والی صحیح اور غلط کو پہچاننے اور ان میں سے کسی ایک کو اختیار یا رد کرنے کی جبلّی صلاحیت اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان نرا حیوان نہیں ہے۔ایک بڑا فرق حیوان اور انسان میں یہ ہے کہ انسان اپنے ارد گرد کو پہچانتا ہے ، اس کا گہرا شعور رکھتا ہے اور اپنی ذات کو پہچاننے اور اسے نمایاں کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔انسان اشیا کا تجزیہ کرنے اور ان کے باہمی تعامل کو سمجھنے کی پیدایشی صلاحیت رکھتا ہے اور یقیناً یہ صلاحیت حیوانات میں نہیں ہے۔انسانوں کی یہ پیدایشی صلاحیتیں اُس کے بچپن سے جوانی تک بتدریج  نمو پاتی ہیں، لیکن جانوروں میں ایسی تدریج کا کوئی نشان نہیں پایا جاتا۔جبلّی طور پر انسان میں پایا جانے والا ’ضمیر‘ یہ قوّت رکھتا ہے کہ کسی قسم کے خارجی دبائو یا قانون کے بغیر حیوانی خواہش پر قابو پاکر کسی بھی غلط کام سے انسان کو روک لے۔اس کے برعکس حیوانوں میں ضمیر نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔

دنیا کے تمام نظام ہاے حکومت کی طرح دینِ اسلام میں بھی قانون کے نفاذ کے ذریعے برائی کے خاتمے اور اس کی روک تھام کا اہتمام موجود ہے، لیکن اس دین کا انحصار اصل میں      ان اخلاقی اقدار کو اپنانے پر ہے، جو انسانی ضمیر کی مطابقت میں انسانوں کے خالق نے عطا کی ہیں۔ دنیا میں اس وقت پائی جانے والی تمام اخلاقی اقدار کسی بندر یا انسان نما حیوان نے نہیں بنائی ہیں۔ یہ تمام اقدار الہامی مذاہب کی عطا کردہ ہیں۔یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ اخلاقی اقدار کے معاملے میں تاریخ کے مختلف ادوار میں ظاہر ہونے والے پیغمبرانِ خدایکساں اور مشترک ورثہ انسانوں کو دے کر گئے ہیں۔ان تمام پیغمبروں نے قانون سے زیادہ اخلاقی اقدار اور ضمیر کی پکار پر توجہ دینے کی تعلیم دی، اگرچہ ناگزیر صورتِ حال میں تعزیر کا استعمال بھی تجویز کیا۔

پیغمبرؐ اسلام کے ابتدائی ساتھیوں اور اسلامی تاریخ کی دیگر شخصیات کی بے شمار مثالوں کے ذریعے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ کسی قسم کی قانونی قدغن یا سزا کے خوف کے بغیر محض اپنے ضمیر اور خدا اور آخرت کے دن پر یقین رکھنے کے باعث زبردست اندرونی ڈسپلن کامظاہرہ کرتے تھے۔ سچے مسلمان آج بھی انھی اقدار کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ابھی تک مسلمان ملکوں میں جرائم کا تناسب لبرل ممالک کی نسبت بہت کم ہے اور اس کی وجہ مسلمانوں کا وہ اندرونی ڈسپلن ہے جو   دینِ اسلام کی وجہ سے قائم ہے۔جن ممالک میں جرائم کی شرح زیادہ ہے، وہ جرائم پر قابو پانے  کے لیے مزید قوانین متعارف کراتے ہیں اورنفاذِ قانون کے لیے مزید انسانی و دیگر وسائل فراہم کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ اُن معاشروں میں مذاہب کی گرفت کمزور ہونے کے باعث خود احتسابی کا عنصر ناپید ہو رہا ہے۔جن ممالک میں مذہب اور ریاست کو جداجدا کر دیا گیا ہے اور مذہبی اور اخلاقی تعلیم حکومتوں کی ذمہ داری نہیں رہی ہے، اُن کے پاس کوئی راستہ ہی اس کے سوا نہیں بچا کہ وہ جرائم کی روک تھام صرف اور صرف قوت سے کریں۔

  •  خدا فراموشی کا نتیجہ:آپ ایک جنگل کا تصور کریں، جس میں حیوانات بالکل آزاد  گھوم رہے ہیں اور اپنی بقا کے لیے ایک دوسرے کا شکار کر رہے ہیں۔ ایک شکاری جانور کے سامنے صرف ایک ہی مقصد ہے، یعنی اپنی بھوک مٹانا۔ یہ کسی نوعیت کی اخلاقی حس نہیں رکھتا ۔ شیروں کا ایک بڑا جتھا یا قبیلہ کسی جنگل میں جمع ہو کر اپنے دفاع اور بقا کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔ یہ شیر بھی باہم مل جل کر رہتے ہیں اور ایک حد تک ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھتے ہیں۔لیکن جب معاملہ دوسرے حیوانات کا ہو تو یہ شیر صرف اور صرف اپنے مفاد، یعنی پیٹ بھرنے ہی پر اپنی توجہ اور توانائی مرکوز کرتے ہیں۔وہ کسی دوسرے حیوان کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتے کیوںکہ وہ کوئی اخلاقی حس نہیں رکھتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ڈارون ازم کے مطابق: ’’انسان نرا حیوان ہی ہے‘‘۔

اب آپ لبرل کہلانے والے ملکوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے پچھلے تقریباً ۲۰۰ برس سے دنیا کو ایک جنگل بنا رکھا ہے۔اپنے قومی اور گروہی مفادات کے حصول کے لیے یورپ کے ممالک اور امریکا نے نہایت سفّاکی سے جتنی بڑی تعداد میں انسانوں کو قتل کیا ہے وہ پوری انسانی تاریخ میں قتل ہونے والے انسانوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔یورپی اقوام نے ایشیا اورافریقہ کے ممالک کے وسائل پر قبضے کے لیے کیے گئے حملوں کے دوران بلا مبالغہ کروڑوں لوگوں کو قتل کیا ۔فرانس نے ۱۸۳۰ئ-۱۸۴۷ء کے دوران انسانوں سمیت ہر اُس چیز کو الجزائر میں تباہ کر دیا جو اس کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی تھی۔لاکھوں خواتین کی آبروریزی کی گئی اور لاکھوں انسانوں کا قتل عام کیا گیا۔ امریکیوںنے (جو اصلاً یورپ سے نقل مکانی کر کے گئے ہوئے لوگ ہیں) براعظم امریکا کے اصل باشندوں ریڈ انڈین کے قتلِ عام سے آغاز کیااور لاکھوں مقامی لوگوں کا نام و نشان مٹادیا۔ پہلی اور دوسری جنگ ِ عظیم میں طاقت کے بے دریغ استعمال سے ثابت ہوا کہ لبرل لوگ اپنے تحفظ کے لیے اقدام کرتے وقت کسی بھی خونخوار حیوان ہی کا سا برتائو کرتے ہیں۔ ۱۹۴۵ء میں امریکی ایٹمی حملوں کے نتیجے میں جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی میں  تقریباً ڈیڑھ لاکھ لوگ مارے گئے، لاکھوں زخمی اور تابکاری اثرات سے بیمار ہوئے۔

پہلی جنگ عظیم [۱۸-۱۹۱۴ئ] کے دوران پونے دو کروڑ اور دوسری جنگِ عظیم [۴۵-۱۹۳۹ئ] کی آگ میں انھی لبرل قوموں نے ۶ تا ۸کروڑ لوگ ہلاک کیے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد اقوامِ متحدہ اورسلامتی کونسل کے قوانین موجود ہونے کے باوجود امریکا نے ویت نام پر حملہ  کیا اور ۲۰سالہ جنگ [یکم نومبر ۱۹۵۵ئ-۳۰؍اپریل ۱۹۷۵ئ] میں ۲۰لاکھ سے زیادہ انسانوں کو  ہلاک کردیا۔سابق سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے نتیجے میں ۱۵لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ عراق پر امریکی حملے کے نتیجے میں اب تک ۵ لاکھ اور شام کی جنگ میں تقریباً ۲ لاکھ سے زیادہ انسان مارے جا چکے ہیں___کیا گذشتہ ۲۰۰برس کی تاریخ سے یہ سبق حاصل نہیں ہوتا کہ جب انسان خدا فراموش ہو جائے اور مذہب کی گرفت سے آزاد ہوجائے تو اُس کارویّہ ایک وحشی حیوان کا سا ہوجاتا ہے؟

مقامِ حیرت ہے کہ پچھلے ۲۰۰برس میں اتنا ظلم ڈھانے کے بعد بھی یہ لوگ انسانیت کے  قائد کہلانے کے دعوے دار ہیں، اور دنیا کوایک نئی اخلاقیات کا درس دیتے ہیں، اور اپنے مخالفین کو ’بنیاد پرست‘، ’انتہاپسند‘ اور ’دہشت گرد‘ کے القاب سے نوازتے ہیں!

لبرل ازم کے علَم بردار عموماً مذہبی شعائر اور بالخصوص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے لیے اپنی وضع کردہ ’آزادی راے‘ کو آڑ بناتے ہیں۔ دوسری طرف لبرل حکومتیں توہینِ عدالت پر تو سزا دیتی ہیں لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین پر خاموشی اختیار کرتی ہیں۔ کیا یہ دُہرا معیار نہیں؟ کیا یہ مبنی برانصاف ہے؟

اسلام اور اہلِ اسلام تقریباً ۷۰ برس تک(۱۹۱۷ء میں روس میں بالشویک انقلاب سے ۱۹۸۸ء میں افغانستان میں سوویت یونین کی شکست تک) کمیونزم اور سوشلزم کے خلاف برسرِپیکار رہے۔ان نظریات کے ساتھ اہلِ اسلام نے اپنی جنگ، ذہن کی دُنیا سے نکل کر ذرائع ابلاغ، معیشت، معاشرت، سیاست یہاں تک کہ جنگی میدانوں میں بھی لڑی۔اس جنگ میں کمیونزم اور سوشلزم کو شکست اس لیے ہوئی کہ ان کا غیر فطری اور انسان کے جسمانی اور روحانی مفادات کے خلاف ہونا اہلِ اسلام نے بہت پُر زور دلائل کے ساتھ دُنیا کے تمام اہلِ علم و دانش اور عوام الناس پر ثابت کیا تھا(امریکی اور یورپی ممالک کی مخالفت سیاسی اور معاشی مفادات کے تحت تھی ۔چونکہ ان ممالک میں برسرِ اقتدار طبقات خود بھی لادین اور سرمایہ پرست ہیں، لہٰذا کمیونزم اور سوشلزم کا لادین ہونا ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا)۔مذکورہ دونوں نظریات اپنی نوع کے اعتبار سے اصل نظریات نہیں ہیں بلکہ لبرلزم اور سیکولرزم کے محض فروع ہیں۔

کمیونزم اور سوشلزم کا خالق کارل مارکس: ’’ایک غیر مذہبی شخص تھا جس کا باپ ہنرچ خاندانی طور پر ایک یہودی، ایک جرمن شہری اور پیشے کے اعتبار سے وکیل تھا اورفکری طور پر یورپ میں برپا (خدا بے زاری پر مبنی) تحریکِ احیاے علوم کے سرخیل فلسفیوں والٹئیراور کانٹ سے متاثر تھا۔کارل مارکس کے باپ نے یہودی ربیوں کے سلسلۂ نسب سے منسلک ہونے کے باوجود غالباً اپنی پیشہ ورانہ ضرورت کے تحت ایوینجلیکل عیسائیت میں بپتسمہ لیا اور چھے برس کی عمر میں کارل مارکس کو بھی بپتسمہ دے دیا مگر اپنی عملی زندگی میں وہ ایک سیکولر، یعنی لادین شخص تھا۔ کارل مارکس کے کمیونزم کی شکل میں طبقاتی کش مکش کا علَم بردار ہونے کا پس منظر( یورپ میں ظالمانہ جاگیرداری نظام کی تباہ کاریوں کے ساتھ ساتھ۔مضمون نگار) شاید یہ تھا کہ اس کی قوم یہود کے ساتھ یورپ کے تنگ نظر عیسائی مذہبی لوگوں نے ازمنۂ وسطیٰ کے دوران بہت برا سلوک کیا تھا۔عیسائی اہلِ مذہب کے امتیازی سلوک نے اسے نفسِ مذہب ہی سے بے زار کردیا اور وہ بہت جلد مشہور خدا فراموش جرمن فلسفی فریڈرک ہیگل کا خوشہ چین بن گیا‘‘۔ (انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا)

اسلام چونکہ ایک دین(بمعنی مکمّل نظامِ زندگی) ہونے اور انسانوں کے تمام دُنیاوی اُمور میں خدا کی حاکمیت کا قائل اور علَم بردار ہے ،اور لبرلزم اور سیکولرزم کی تو بنا ہی خدا اور حیات بعد الموت سے انکار پر رکھی گئی ہے، اس لیے اسلام کے اصل دُشمن لبرلزم اور سیکولرزم ہیں ۔ مغربی ممالک چونکہ رسمی طور پر عیسائی اور خدا کے قائل ہیں، اس لیے ان ممالک میں حکومت ، معاشرت اور معیشت کی سطح پر لبرلزم اور سیکولرزم کے غلبے کو اہلِ اسلام نے عام طور پر کمیونزم اور سوشلزم کی طرح کا فوری خطرہ نہیں سمجھا۔ مغربی ممالک کا سیکولرزم ، کمیونزم اور سوشلزم کے زوال کے بعد اب خم ٹھونک کر    اسلام کے مدمقابل آ گیا ہے۔مغرب کاسیکولر دانش ور طبقہ اور وہاں کے ذرائع ابلاغ حکومتی قوت کی پشت پناہی کے ساتھ دینِ اسلام کے خلاف فکری لڑائی میں مشغول ہیں اور وہاں کی حکومتیں پوری فوجی قوت کے ساتھ اہلِ اسلام پر حملہ آور ہیں۔

اس جنگ میں مسلمان ممالک کے سیکولر حکمران بیش ترسیاست دان اپنے مفادات کی خاطر مغربی طاقتوں کے ہمنوا بلکہ آلۂ کاربنے ہوئے ہیںاور مسلمانوں کی اکثریت لبرلزم اور سیکولرزم کو نہ سمجھنے کے باعث اس لڑائی کو ایک گومگو کی حالت میں دیکھ رہی ہے ۔لبرلزم اور سیکولرزم کے    وہ علَم بردار جو مسلمان ممالک کے شہری ہیں عوام الناس کو ایک دھوکے میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔یہ لوگ خدا، رسولؐ، قرآن اور اسلام کا نام لیتے ہیں مگر عملی زندگی میں اسلامی تعلیمات کے نفاذ سے بدکتے ہیں۔ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک آدمی بیک وقت مسلمان اور سیکولر یا لبرل ہو سکتا ہے۔    یہ لوگ سیاسی ، ادبی، صحافتی اور ثقافتی حلقوں میں اثر و نفوذ رکھتے ہیں اور ذرائع ابلاغ اور حکومتی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے نہایت آہستگی اور خاموشی کے ساتھ معاشرے کے تمام شعبوں سے خدا اور اسلام کو بے دخل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔سیکولرزم کی ساخت کے عین مطابق یہ سیکولر حکمران یا دانش ور مسلمانوں کے عقائد ،مراسمِ عبودیت اور رسوم و رواج کی نہ صرف یہ کہ مخالفت نہیں کرتے بلکہ خود بھی ان کو اختیار کر کے عوام کو اپنے متعلق پکّے مسلمان ہونے کا تأثّر دیتے ہیں اور مسلمان عوام اس سے دھوکا کھا جاتے ہیں۔آئیے دیکھیں کہ سیکولر اور لبرل ہونے کے دعوے دار مغربی دا نش وروں کے نزدیک سیکولرزم اور لبرلزم کا مفہوم کیا ہے کیونکہ ان اصطلاحات کا وہی مفہوم معتبر ہوسکتا ہے جو ان اصطلاحات کے خالق اور قائل بیان کریں۔

لـبرلـزم

لفظ ’لبرل‘، قدیم روم کی لاطینی زبان کے لفظ ’لائیبر‘ ، (liber ) اور پھر ’لائبرالس‘ (liberalis)سے ماخوذ ہے ، جس کا مطلب ہے ’’آزاد، جو غلام نہ ہو‘‘۔آٹھویں صدی عیسوی تک اس لفظ کا معنی ایک آزاد آدمی ہی تھا۔بعد میں یہ لفظ ایک ایسے شخص کے لیے بولا جانے لگا جو  فکری طور پر آزاد، تعلیم یافتہ اور کشادہ ذہن کا مالک ہو۔اٹھارھویں صدی عیسوی اور اس کے بعد  اس کے معنوں میں خدا یا کسی اور مافوق الفطرت ہستی یا مافوق الفطرت ذرائع سے حاصل ہونے والی تعلیمات سے آزادی بھی شامل کر لی گئی، یعنی اب لبرل سے مرادایسا شخص لیا جانے لگا جو خدا اور پیغمبروں کی تعلیمات اور مذہبی اقدار کی پابندی سے خود کو آزاد سمجھتا ہو، اور لبرلزم سے مُراد اسی   آزاد روش پر مبنی وہ فلسفہ اور نظامِ اخلاق و سیاست ہوا جس پر کوئی گروہ یا معاشرہ عمل کرے۔

یہ تبدیلی اٹلی سے چودھویں صدی عیسوی میں شروع ہونے والی تحریکِ احیاے علوم (Renaissance یعنی re-birth)کے اثرات یورپ میں پھیلنے سے آئی۔برطانوی فلسفی   جان لاک (۱۶۲۰ء -۱۷۰۴ئ) پہلا شخص ہے جس نے لبرلزم کو باقاعدہ ایک فلسفہ اور طرزِ فکر کی شکل دی۔یہ شخص عیسائیت کے مروّجہ عقیدے کو نہیں مانتا تھا کیونکہ وہ کہتا تھا کہ بنی نوعِ انسان کو آدم کے اس گناہ کی سزا ایک منصف خدا کیوںکر دے سکتا ہے جو انھوں نے کیا ہی نہیں۔عیسائیت کے   ایسے عقائد سے اس کی آزادی اس کی ساری فکر پر غالب آگئی اور خدا اور مذہب پیچھے رہ گئے۔ انقلابِ فرانس کے فکری رہنما والٹئیر (۱۶۹۴ئ-۱۷۷۸ئ) اور روسو (۱۷۱۲ ئ- ۱۷۷۸ئ) اگرچہ رسمی طور پر عیسائی تھے مگر فکری طور پر جان لاک سے متاثر تھے۔ انھی لوگوں کی فکر کی روشنی میں انقلابِ فرانس کے بعدفرانس کے قوانین میں مذہبی اقدار سے آزادی کے اختیار کو قانونی تحفّظ دیا گیا اور اسے ریاستی اُمور کی صورت گری کے لیے بنیاد بنا دیا گیا۔امریکا کے اعلانِ آزادی (American Declaration of Independence) میں بھی شخصی آزادی کی ضمانت جان لاک کی فکر سے متاثر ہو کر دی گئی ہے۔ (انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا، وکی پیڈیا اور اوکسفرڈ ڈکشنری)

سیکولـرزم

یہ لفظ قدیم لاطینی لفظ ’سیکولارس‘ (saecularis) سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے ’وقت کے اندر محدود‘۔ عیسائی عقیدے کے مطابق خدا کی ذات وقت کی قید اور حدود سے آزاد اور ما ورا ہے۔تحریک احیاے علوم کے دوران یورپ میں جب عیسائیت کی تعلیمات سے بے زاری پیدا ہوئی اور خدا کے انسانی زندگی میں دخل(جو کہ اصل میں عیسائی پادریوں اور مذہبی رہنمائوں کی خدا کی طرف سے انسانی زندگی میں مداخلت کی غیر ضروری ، غیر منطقی، من مانی اور متشدّدانہ توجیہ تھی ورنہ اگر عیسائیت کی تعلیمات وہی ہوتیں، جو عیسیٰ ؑ نے دی تھیں تو خدا کے خلاف بغاوت پیدا نہ ہوتی ) کے خلاف بغاوت پیدا ہوئی تو کہا جانے لگا کہ چونکہ خدا وقت کی حدود سے ماورا ہے اور انسان وقت کی حدود سے مقیّد ہے لہٰذا انسانی زندگی کو سیکولر، یعنی خدا سے جدا (محدود)ہونا چاہیے۔ ’’اس لفظ کو باقاعدہ اصطلاح کی شکل میں ۱۸۴۶ء میںمتعارف کروانے والا پہلا شخص برطانوی مصنّف جارج جیکب ہولیوک (۱۸۱۷ئ-۱۹۰۶ئ)تھا۔اس شخص نے ایک بار ایک لیکچر کے دوران کسی سوال کا جواب دیتے ہوئے عیسائی مذہب اور اس سے متعلق تعلیمات کا توہین آمیز انداز میں مذاق اڑایا جس کی پاداش میں اسے چھے ماہ کی سزا بھگتنا پڑی ۔جیل سے رہا ہونے کے بعد اس نے مذہب سے متعلق اظہارِ خیال کے لیے اپنا انداز تبدیل کر لیا اور جارحانہ انداز کے بجاے نسبتاً نرم لفظ ’سیکولرزم‘ کا پرچار شروع کر دیا‘‘۔(انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا اور وکی پیڈیا)

اس اصطلاح کے عام ہوجانے کے بعد پہلے برطانیہ اور پھر تمام یورپ اور دُنیا بھر میں سیکولرزم کے معنی یہ ہوئے کہ ’’انسانی زندگی کے دنیا سے متعلق اُمور کا تعلق خدا یا مذہب سے نہیں ہوتا‘‘اور مزید یہ کہ ’’حکومتی معاملات کا خدا اور مذہب سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔اس اصطلاح کے یہی معنی اب دنیا بھر میں انگریزی زبان کی ہر لغت اور انسائیکلوپیڈیا میں پائے جاتے ہیں اور اسی پر سیکولرکہلانے والے تمام لوگوں کا اتفاق ہے۔’لبرلزم‘ کے مقابلے میں ’سیکولرزم‘ نسبتاً نرم اصطلاح ہے۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق: یورپ کے ازمنۂ وسطیٰ میں مذہبی لوگوں میں یہ رجحان جڑ پکڑ گیا تھا کہ وہ انسانوںکی فلاح و بہبود سے متعلق دُنیاوی اُمور کو نظر انداز کرتے تھے اور لوگوں کو خدا سے تعلق جوڑنے کی اور ترکِ دُنیا کی تعلیم دیتے تھے۔اس رجحان کے خلاف رَدعمل پیدا ہوا اور یورپ کی تحریکِ احیاے علوم کے دوران میں سیکولرزم نمایاں ہوا اور لوگوں نے تمدّنی ترقی میں زیادہ دل چسپی لینی شروع کی۔ اوکسفرڈ ڈکشنری کے مطابق اول یہ کہ’’سیکولرزم سے مُراد یہ عقیدہ ہے کہ مذہب اور مذہبی خیالات و تصوّرات کو ارادتاً دُنیاوی اُمور سے حذف کر دیا جائے۔اس کی یورپی فلسفیانہ توجیح یہ ہے کہ یہ ایک ایسا نظامِ عقائد ہے جس میں اخلاقی نظام کی بنیاد کلّی طور پر بنی نوعِ انسان کی دُنیا میں فلاح و بہبود اور خدا اور حیات بعد الموت پر ایمان سے انکار (یعنی ان کے عقائد سے اخراج) پر رکھی گئی ہے‘‘۔دوم یہ کہ ’’اس بارے میں ایک نقطۂ نظر یہ ہے کہ تعلیم خصوصاً وہ تعلیم جو عوامی سرمایے سے دی جا رہی ہو ، مذہبی عقائد اور مذہبی تعلیم کو آگے نہ بڑھائے‘‘۔ ویبسٹر ڈکشنری کے مطابق سیکولرزم کے معنی ہیں: دُنیاوی اُمور سے مذہب اور مذہبی تصوّرات کا اخراج یا بے دخلی۔

سیکولرزم اور لبرلزم کا پس منظر

مندرجہ بالا دو اصطلاحات کو مکمل طور پر جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اُس ماحول اور اُن حالات کا جائزہ لیا جائے جن کے باعث یہ اصطلاحات تشکیل پائیں۔ حضرت عیسٰیؑ کی پیدایش کے وقت مغربی اور مشرقی یورپ پربُت پرست(مشرک) رومن بادشاہوں کی حکمرانی تھی۔ حضرت عیسٰی ؑ آسمان کی طرف اُٹھائے جانے سے قبل دنیا میں ۳۰ یا ۳۳ برس رہے۔وہ بنیادی طور پر بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے رسول تھے تاکہ ان کو تورات کی گمشدہ تعلیمات سے از سرِنو آشنا کریں۔ان کی اصل تعلیمات اِس وقت تقریباً ناپید ہیں۔موجودہ عیسائیت اور اس کے عقائدسینٹ پال کی دین ہیں۔سینٹ پال یاپولوس کا اصل نام سائول تھا جو ۱۰ عیسوی میں پیدا ہوا اور تقریباً ۶۷ء میں فوت ہوا۔یہ شخص بنیادی طور پر کٹر یہودی تھا۔یہ کبھی حضرت عیسٰیؑ سے نہیں ملا اور ان کی زندگی میںان کا اور ان کی تعلیمات کا سخت مخالف تھا اور ا ن کو یہودیت کے لیے سخت مضر سمجھتا تھا۔عیسیٰ ؑ کے دنیا سے اٹھا لیے جانے کے بعد یہ شخص عیسائی ہو گیا۔یہ وہ شخص ہے جس نے لوگوں کے درمیان (اپنے خوابوں اور مکاشفات کے ذریعے) اس عقیدے کو عام کیا کہ’’ یسوع مسیح خدا کے ہاں اس کے نائب کی حیثیت سے موجود ہیں اور قیامت کے روز لوگوں کے درمیان فیصلے وہی کریں گے، اور یہ کہ اب نجات اس شخص کو ملے گی جو یسوع مسیحؑ کی خوشنودی حاصل کرے گا۔ اس کے لیے اب موسوی شریعت کی عملاً پابندی ضروری نہیں بلکہ محض یسوع مسیح ؑکے خدا کے بیٹے اور چہیتے ہونے کا عقیدہ ہی نجات کے لیے کافی ہو گا‘‘۔یہی وہ شخص ہے جس نے پہلی بار یہ تعلیم بنی اسرائیل کے علاوہ دوسری اقوام کو دینے کی بھی نصیحت کی۔بنیادی طور پر یہ وہ شخص ہے جسے جدید اصطلاح کی زبان میں ہم سیکولر کہہ سکتے ہیں۔عیسائی مبلغّین کی پہلی کانفرنس ۵۰ء میں منعقد ہوئی(جس میں سینٹ پال نے بھی شرکت کی) جس میں تورات کے کئی احکامات کی پابندی سے غیر اسرائیلیوں کو مستثنیٰ کردیا گیا، البتہ انھیں زنا،بت پرستی اور خون آمیز گوشت کھانے سے منع کیا گیا۔ اس وقت تک حضرت عیسیٰ ؑ کے خدا ہونے کا عقیدہ پیدا نہیں ہو اتھا۔

عیسائیت کے عقائد کی تعلیم اور اشاعت رومن دور میں ممنوع تھی اور مبلغین پر بہت تشدد کیا جاتا تھا۔ تشدّد کا یہ سلسلہ اس وقت رکا جب رومن شہنشاہ کانسٹنٹائن نے تقریباً ۳۱۲ء میں عیسائیت قبول کر لی۔لیکن یہ محض عقیدے کی قبولیت تھی ورنہ کاروبارِ مملکت پرانے رومن طریقے ہی پر چلتا رہا اور اس معاملے میں کسی عیسائی عالم کا کوئی اعتراض ریکارڈ پر موجود نہیں ہے۔عیسائیت کے سرکاری مذہب بن جانے کے باوجود مملکت کے سیکولر ہونے کی یہ پہلی مثال تھی۔اس حکومتی سیکولر زم کی وجہ یہ تھی کہ سینٹ پال کی تعلیم کے مطابق عیسائی عقیدہ اختیار کرنے کے بعد دنیاوی معاملات سے خدا کا تعلق ختم ہو کر رہ گیا تھا۔ ۳۲۵ء میں نیقیہ کے مقام(موجودہ ترکی میںازنک) پر تقریباً ۳۰۰عیسائی بشپ اکٹھے ہوئے جنھوں نے بحث مباحثے کے بعد اس عقیدے کا اعلان کیا کہ حضرت عیسٰیؑ خدا کے بیٹے اور اس کی ذات کا حصہ ہیں(اس طرح حضرت عیسٰیؑ کے خدا ہونے کا عقیدہ پیدا کیا گیا)۔

تقریباً ۴۷۶ء میں جرمن گاتھ حکمرانوںکے ہاتھوں مغربی یورپ میں رومن سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔ گاتھ چونکہ قبائلی طرزِ زندگی کے عادی تھے اس لیے انھوں نے کوئی مرکزی حکومت قائم نہیں کی جس کے نتیجے میں مغربی یورپ میں ہر طرف طوائف الملوکی پھیل گئی۔ہر جگہ چھوٹی چھوٹی بادشاہتوں اور جاگیرداریوں نے جنم لیا اور باہم جنگ و جِدال شروع ہو گئی۔یہ سلسلہ تقریباً ایک ہزار سال تک جاری رہا۔ اس عرصے کو یورپ کا تاریک دور یا ازمنۂ وسطیٰ کہا جاتا ہے ۔ اسی دور میں عیسائیت میں پوپ کے منصب کا آغاز ہوا اور اسے مذہبی معاملات میں مکمل دسترس حاصل ہوگئی ، اس کا کہا خدا کا کہا سمجھا جانے لگا۔یہی دور تھا جب مصر کے صحرا میں رہنے والے کچھ عیسائی مبلغّین نے رہبانیت اختیار کی۔ ۵۰۰ء میں سینٹ بینیڈکٹ، روم میں لوگوں کی اخلاقی بے راہ روی سے اس قدر تنگ آ یا کہ اس نے اپنی تعلیم کو خیر باد کہا اور ایک غار میں رہایش اختیار کی تاکہ اپنے نفس کو پاک رکھ سکے۔اس مقصد کے لیے اس نے اور لوگوں کو بھی دعوت دی۔جب ایک اچھی خاصی تعداد شاگردوں کی میسّر آگئی تو ۵۲۹ء میں اس نے باقاعدہ ایک راہب خانے کی بنیاد رکھی اور راہبوں کے لیے ضابطے تحریر کیے جو آج بھی راہب خانوں میں نافذ العمل ہیں۔ان ضوابط میں راہبوں کے لیے شادی کی ممانعت،مہمانوں سے آزادانہ ملنے پر پابندی، مخصوص لباس پہننے کی پابندی،سونے جاگنے،سفر کرنے اور ملنے ملانے، کھانے پینے کے آداب اور طریقے شامل تھے۔وقت گزرنے کے ساتھ رہبانیت اختیار کرنے والوں نے پاکیِ نفس کے لیے غلو اور اس سے بڑھ کر انسانی جسم و جان پر بے جا پابندیاں اور تشدّد شروع کیا جو کہ انسانی فطرت کے خلاف تھا۔اسی کی تعلیم یہ لوگ عوام کو دیا کرتے تھے۔

رفتہ رفتہ یہ راہب لوگوں اور خدا کے درمیان واسطہ بن گئے اور مذہبی معاملات میں انھیں ایک ناقابلِ چیلنج اختیار حاصل ہو گیا۔ایک طرف ان راہبوں کے دُنیاوی اُمور سے الگ ہو جانے اور خود کو راہب خانوں تک محدود کرنے کے باعث حکومتوں کے لیے سیکولر ہونے کو ایک طرح کا کھلا میدان اور جواز فراہم ہوا، تو دوسری طرف راہبوں ، بشپوں اور پوپ کی اس مطلق العنانی نے اختیار کے غلط استعمال کو جنم دیا اور شہنشاہ کانسٹنٹائن کے عہد میں منعقدہ کونسل آف نیقیہ میں طے کردہ عیسائی عقیدے سے اختلاف کرنے والوں کے خلاف سخت متشدّدانہ رویّہ اختیار کیا گیا۔ عیسائی دنیا میں سیکڑوں برس تک اس صورتِ حال کے جاری رہنے سے انسانی فطرت میں اس کے خلاف بغاوت پیدا ہوئی۔پوپ چونکہ اٹلی کے شہر روم میں موجود تھا ، اس لیے تحریک احیاے علوم کا آغاز بھی(چودھویں صدی عیسوی میں) روم ہی سے ہوا۔اس تحریک کے اثرات سے لوگوں نے راہبوں اور پادریوں کی سوچ و فکر سے آزاد ہو کر سوچنا شروع کر دیا۔اس زمانے کے فلسفیوں اور دانش وروں نے دلائل کے ذریعے عیسائیت کے مذہبی عقائد کا غیر عقلی اور غیر فطری و غیر منطقی ہونا لوگوں کے سامنے ثابت کرنا شروع کیا۔سولھویں صدی عیسوی میں بائبل میں دی گئی کائنات اور زندگی سے متعلق بعض معلومات کے سائنسی طور پر غلط ثابت ہونے سے مذہبی عقیدے کی لوگوں پر گرفت بالکل کمزور پڑ گئی۔ یہ بغاوت عیسائیت کے ایسے قوانین اور ضوابط کے خلاف نہیں تھی جو حکومتی معاملات، طرزِ معاشرت، معیشت، وغیرہ سے متعلق ہوتے کہ ایسے قوانین تو عیسائیت میں تھے ہی نہیں بلکہ عیسائیت تو محض ایک عقیدے کا نام تھی جسے نیقیہ کی کونسل نے حضرت عیسٰیؑ کی تعلیم اور توریت کے احکامات کو نظر انداز کر کے سینٹ پال کے خوابوں اور روحانی مکاشفات کے نتیجے میں اختیار کیا تھااور انسان کی نجات کے لیے لازمی قرار دیا تھا۔یہ عقیدہ چونکہ یونانی دیومالا اور یونانی فلسفے کے زیرِ اثر پروان چڑھا تھا، اس لیے جدید سائنسی انکشافات و اکتشافات کی ذرا سی ٹھوکر بھی نہ سہہ سکا۔

انسانیت پر اثرات

یورپ کے عوام چونکہ راہبوں کے غیر فطری مذہبی رجحانات سے تنگ آ چکے تھے اور سارا یورپ عیسائی علما کے صدیوں تک جاری رہنے والے فقہی اور مذہبی جھگڑوں اور لڑائیوں کے نتائج کو بھی بھگت چکا تھا، اس لیے مذہبی عقیدے سے بغاوت یورپ کے اجتماعی ضمیر میں جلد جذب ہوگئی۔ Renaissance ،یعنی تحریک احیاے علوم کا زمانۂ عروج سترھویں تا انیسویں صدی عیسوی ہے۔ اس دور میں مذہب بے زار فلسفیوں، دانش وروں اور فلسفی سائنس دانوں نے بڑے بڑے تعلیمی ادارے اور یونی ورسٹیاں قائم کیں جن کے ذریعے اپنے خیالات کو عام کیا۔اسی دور میں یورپ نے سائنس اور ٹکنالوجی میں ترقی کی، جب کہ باقی دنیا خصوصاً اسلامی دنیا اپنے حکمرانوں اور مقتدر طبقات کی آسان کوشی اور علما کی غفلت کے سبب علمی اور سائنسی طور پر پس ماندہ ہوچکی تھی۔یورپ میں مذہب بے زاری خدا کے انکا ر اور انسان کو بندر کی اولادسمجھنے تک جا پہنچی۔اب یورپ میں زندگی کی معراج یہ ٹھیری کہ: انسان اپنی دنیا کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ساری جدوجہد کرے۔ تمام انسان بھی عام حیوانوں کی طرح حیوان ہی ہیں، لہٰذا اس دنیا میں بقا محض طاقت ور کو نصیب ہوگی۔ (چارلس ڈارون اور ہربرٹ سپنسر اس فکر کے علَم بردار تھے)۔

اس فلسفے کے عام ہو جانے اور سائنس اور ٹکنالوجی کا ہتھیا ر ہاتھ آجانے کے بعد یورپی اقوام کمزوراقوام پر ٹوٹ پڑیں۔مفتوحہ ممالک پر اپنے قبضے کو مستحکم کرنے کے لیے یورپی اقوام نے وہاں اپنی جدید سیکولر اور لبرل فکر کی ترویج کے لیے کالج اور یونی ورسٹیاں تعمیر کیں۔ مفتوحہ اقوام کے تعلیمی ادارے،اُن کی زبانوں میں تعلیم اور عدالتوں کا نظام موقوف کیا اور معاشرت اور معیشت میں اپنی تہذیب اور اپنے تمدّن کو رائج کیا جسے مفتوح اور مرعوب و شکست خوردہ لوگوں نے قبول کیا۔فاتح اقوام نے رزق کے ذرائع اپنے قائم کردہ جدید سیکولر تعلیمی اداروں کی اسناد کے ساتھ منسلک کر دیے۔ مفتوحہ اقوام کے نوجوان یورپ میں بھی تعلیم حاصل کرنے لگے(طرفہ تماشہ یہ ہے کہ یورپی اقوام نے اپنے مفتوحہ ممالک میں سائنس اور ٹکنالوجی کی تعلیم کا اہتمام نہیں کیابلکہ ان تمام ممالک کو آزادی حاصل ہونے کے بعد خود اس کے لیے جدوجہد کرنی پڑی)۔اس طرح یورپ کی خدا اورمذہب سے بغاوت پر مبنی فکر ،ادب، عمرانیات ،فلسفہ، آرٹ اور انگریزی اور فرانسیسی زبانوں کی تعلیم کے ذریعے تمام دنیا میں پھیل گئی۔ البتہ لوگوں کی ایک قابلِ ذکر تعداد اب تک دینِ اسلام سے وابستہ ہے اور یورپ کی اس فکر کے خلاف ہے۔مسلمانوں کے ممالک میں اس مذہبی اور غیر مذہبی کی تقسیم نے ہرطرف انتشار اور فساد پیدا کردیا ہے۔

افراد، طبقات اور اقوم باہم دست و گریباں ہیں۔ سیکولر نظامِ تعلیم کے نتیجے میں خدا، رسولؐ اور احتساب بعد الموت پر اعتقاد کے کمزور پڑنے سے مادہ پرستی، لذت کوشی، حرص ،ظلم، عریانی و فحاشی، کاروباری ذہنیت ، دھوکا دہی ،قتل و غارت گری اور بد امنی ہر طرف پھیل چکی ہے۔

اسلام کا نظامِ حیات

عیسائیت کے برعکس اسلام محض عقیدے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ تو مذہب کے بجاے ایک دین بمعنی مکمّل نظامِ زندگی ہے جس کے اجزا قرآن و سُنّت میں پھیلے ہوئے ہیں۔یہ نظام لگ بھگ  بارہ سو برس تک دُنیا کے ایک بڑے حصّے پر غالب ،حاکم اور مقتدر رہا۔ بادشاہ یا حکمران اگرچہ مطلق العنان اور سرکش بھی رہے مگر مسلمان معاشروں میںعدالتیں اسی نظام کے مطابق فیصلے کرتی رہیں، بازار میں(غیر سودی) تجارت اس کے قوانین کے مطابق ہوتی تھی، تعلیمی درس گاہوں میں اسی کی تعلیم دی جاتی تھی،معاشرت کا پورا نظام اسی کی ہدایات کے مطابق تشکیل شدہ تھا اور حکمران     اِن اُمور کو اسلام کا جزو لاینفک سمجھتے تھے۔دینِ اسلام کی اصل تعلیمات گُم ہوئی ہیںنہ مسلمان علما نے کبھی پوپ کی طرح کسی فرد کو دینی معاملات میں(خدا اور رسولؐکے بجاے)کُلّی اختیارات کا حامل بنایا یا سمجھا، اور نہ مسلم علما نے ترکِ دنیا کے لیے ہی کبھی ایسا پُرتشدد رویّہ اختیار کیا جس سے دینِ اسلام اور علماے اسلام کے خلاف کوئی ہمہ گیر بغاوت پیدا ہوتی۔سائنس اور ٹکنالوجی سے متعلق علوم میں کوئی ایسی بات نہیں جو قرآن کے خلاف ہو۔عقلِ سلیم (جس کے یہ سیکولر حضرات بہت قائل ہیں) کا تقاضا ہے کہ جو شخص خدا کو کائنات کی اجتماعی ہیئت کا آقا مانتا ہو(ظاہر ہے مسلمان کہلانے کے لیے کلمۂ شہادت پڑھنے والا ایک سیکولر شخص اتنا تو تسلیم کرتا ہی ہے) اسے اسی خدا کے احکام کو انسانی زندگی کی اجتماعی ہیئت میں بھی قابلِ اتّباع ماننا چاہیے کیونکہ انسان خود بھی تو اس کائنات کی اجتماعی ہیئت کا حصہ ہے۔یہ کوئی معقول بات نہیں کہ ایک شخص اسلام سے تو نہ پوچھے کہ اس کے پاس اجتماعی زندگی کے مسائل کا حل ہے یا نہیں لیکن مغرب کی تقلید میں یا مرعوبیت کے سبب، اسلام پسندی کی ’تہمت‘ سے بچنے کے لیے یا دین پسند ہونے کی صورت میں ’انتہا پسند‘ کہلائے جانے کے خوف سے پورے کے پورے دین کو اجتماعی زندگی سے خارج کر دے۔

اسلامی ممالک میںخدا، حیات بعد الموت اور دینِ اسلام کی دُنیاوی اُمور سے متعلق تعلیمات کے بارے میں آج جوبے اطمینانی پائی جاتی ہے، اس کا سرچشمہ یہی یورپ کی خدا اور اس کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے برگشتہ فکر ہے جس کی ذرا سخت قسم لبرلزم اور کچھ نرم قسم سیکولرزم کہلاتی ہے۔پاکستان میںسیکولرزم کا نام لیے بغیر بھی بہت سے لوگ ذرائع ابلاغ کو اس کی وکالت کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔یہ سیکولر لوگ ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء کو کی جانے والی بانیِ پاکستان قائد ِ اعظم محمد علی جناح کی محض ایک تقریر کو بنیاد بنا کر اور اس کی غلط اور سیاق و سباق سے ہٹی ہوئی من مانی تشریح کر کے ان کو ایک آزاد منش(liberal)،غیر دینی(secular)اور محض ایک   قومی رہنما کے طور پر پیش کرتے ہیں، تاکہ عوام الناس کو زندگی کے ہر گوشے (خصوصاً حکومت، سیاست، معاشرت اور معیشت )سے متعلق موجود ا سلامی تعلیمات (جنھیں مِن و عَن قبول کرنے میں ان کا اپنا نفس مانع ہے)، اور حق پرست علما کو اسلام سے برگشتہ کر سکیں اور پاکستان کو ایک جدید اسلامی فلاحی مملکت بننے سے روک سکیں۔

دراصل لبرلزم اور سیکولرزم بھی کوئی بنیادی عقائد نہیںہیں بلکہ محض عیسائی راہبوں کے مذہبی تشدّد کے خلاف رَدعمل کا نام ہیں جو دُنیا کے اباحیت پسند نفس پرستوںکو بہت بھاتے ہیں ۔ وہ  جدید تعلیم یافتہ مخلص مسلمان جو کچھ مذہبی افراد کی تنگ نظری یا کوتاہ نگاہی کے شاکی ہیں انھیں سیکولرزم یا لبرلزم کا شکار ہو کرخدا کو اجتماعی زندگی سے خارج کرنے کے بجاے اسلام کی تعلیمات کا ان کے اصل ماخذ قرآن و حدیث سے مطالعہ کرکے، اور اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ جدید علوم سے بہرہ ور علماے حق کے ساتھ بیٹھ کراجتماعی زندگی کے ان مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے جن کا حل ان کے خیال میں کچھ تنگ نظر اور کوتاہ فکر مذہبی لوگوںکے بس کی بات نہیں۔ آج کے دگرگوں حالات میں بقا ، نجات، آزادی، عزت اور سربلندی کا ایک ہی راستہ ہے کہ اہلِ اسلام خود    قرآن و سُنّت کے شفاف چشمے کی طرف رجوع کریں اور لبرلزم اور سیکولرزم کے خلاف اسلام کے دفاع کی جنگ ہر محاذ پر لڑیں،اورپھر دُنیا کے عام انسانوں کو اپنی قولی اور عملی شہادت کے ذریعے بتائیں کہ اسلام واقعی خدا کا دیا ہوا حیات بخش نظامِ زندگی ہے جس کے مقابلے میں لبرلزم اور سیکولرزم دُنیا   کے انسانوں کو محبت، سکون،امن ، خوش حالی،قناعت،ہمدردی، اطمینانِ قلب، خدا سے تعلق اور روحانی لگائو عطا کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔

ایک پیچیدہ مسئلہ زمین پر زندگی کے آغاز کاہے۔ اس بارے میں اہلِ فلسفہ تو اسی طرح منقسم نظر آتے ہیں جس طرح وہ کائنات کی تشکیل یا تخلیق کے بارے میں تھے۔ ان کے خیالات کا جدید معاشروں پر کوئی خاص اثر اب نظر نہیں آتا۔ البتہ جدید دور میں سائنس اور علمِ حیاتیات سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ جو ایک خدا کو ماننے کو تیار نہیں، یہ راے رکھتے ہیں کہ زندگی کا آغاز زمین پر تقریباً ۳ ارب سال قبل اتفاقاً پیدا ہوجانے والے موزوں ماحول اور حالات میں، زمین پر موجود مختلف عناصر، مثلاً آبی بخارات، امونیا، میتھین، ہائیڈروجن اور بلند درجۂ حرارت کے اتفاقاً ملاپ کے نتیجے میں پہلے ایک امینوترشہ (Amino acid)، پھر پروٹین اور اس سے ایک خلیہ (cell) کے تشکیل پانے سے ہوا۔ اس راے کو ایک سائنسی نظریے کے طور پر پیش کرنے والے ہیرالڈ یورے (Herald C. Urey) (۱۸۹۳ء-۱۹۸۱ء) اور اسٹینلے ملر (Stanley Miller) (۱۹۳۰ء-۲۰۰۷ء) تھے۔ ۱۹۵۳ء میں اپنی لیبارٹری میں ایک تجربے کے بعد ملر نے دعویٰ کیا کہ اس نے کچھ امینوترشے، جو کہ ایک خلیے کی تشکیل کے لیے ضروری پروٹین بنانے میں بنیادی کردار     ادا کرتے ہیں، مصنوعی طور پر پیدا کیے ہیں۔ گویا اس کا کہنا تھا کہ زندگی کی اتفاقاً تشکیل سے  متعلق نظریہ سائنسی طور پر بھی ثابت ہوگیا ہے۔

اس سے قبل ایک انگریز ماہر حیاتیات چارلس ڈاروِن (۱۸۰۹ء- ۱۸۸۲ء) اور ایک انگریز ماہر عمرانیات اور فلسفی ڈاکٹر ہربرٹ سپنسر (۱۸۲۰ء-۱۹۰۳ء) زمین پر زندگی کی تخلیق سے متعلق اپنا ’نظریۂ ارتقا‘ پیش کرچکے تھے۔ اس نظریے کے مطابق زندگی کی اَن گنت انواع میں جوتنوع پایا جاتا ہے وہ ایک طویل ارتقائی عمل کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔ تمام زندہ مخلوقات مشترکہ آبا و اجداد سے پیدا ہوئی ہیں مثلاً تمام پودے اور تمام جاندار تقریباً تین ارب سال قبل خود بخود پیدا ہونے والے بیکٹیریا سے ملتے جلتے زندہ نامیاتی سالموں (micro organisms) کے ارتقا کے نتیجے میں تشکیل پائے ہیں۔ دودھیل (ممالیہ) جانور، پرندے، رینگنے والے جانور، خشکی اور تری پر یکساں رہنے والے جانور اور مچھلیاں ۶۰ کروڑ سال قبل پانی میں رہنے والے نرم لجلجے کیڑوں (worms) سے ارتقا کے نتیجے میں بنے ہیں اور انسانوں اوردیگر دودھیل جانوروں کا جدِّامجد چوہے سے ملتا جلتا جانور (shrew) ہے، جو پندرہ کروڑ سال قبل بھی زمین پر موجود تھا اور موجودہ ترقی یافتہ انسان کے آبا و اجداد بندر ہیں جن سے وہ ارتقائی مراحل طے کر کے تقریباً دو لاکھ اور ایک لاکھ سال قبل کے دورانیے میں الگ نوع بن گیا۔

کائنات سے ماورا ایک خدا کے بغیر، زمین پر زندگی کے آغاز سے متعلق یہ نظریات اور بالائی کائنات کی تشکیل سے متعلق فلسفیوں اور سائنس دانوں کے نظریات، کچھ دوسرے ماہرین کی مخالفت کے باوجود، اور اس حقیقت کے باوجود کہ یہ نظریات ابھی تک سائنسی حلقوں میں متنازعہ ہیں، دنیا کے اکثر ممالک میں باقاعدہ سائنس کے طور پر پڑھائے جارہے ہیں اور ذرائع ابلاغ پر مؤثر اختیار کو استعمال کرتے ہوئے بڑی شدّومد سے ان کا پرچار کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے اگرچہ اب تک مذاہب کے موروثی اور معاشرتی اثرات کے سبب دنیا کے اکثر لوگ خدا کے وجود سے انکاری تو نہیں ہوئے لیکن خدا، وحی، مذہبی ضوابط اور حیات بعد الموت سے متعلق ان کے عقائد نہ صرف کمزور پڑ چکے ہیں بلکہ خدا اور مذہب سے ان کی لاتعلقی اور بیزاری میں بہت اضافہ ہوگیا ہے۔ اور یہی ان لوگوںکا ہدف ہے جو مادہ پرست ہیں۔ یہ افراد اکثر معاشروں میں حکومتوں اور ذرائع ابلاغ پر اختیار رکھتے ہیں، خدا اور اس کے سچے رسولؐ کی ہدایات کو اپنی شخصی آزادیوں کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں اور اپنے منصوبوں کو لبرلزم اور سیکولرزم جیسے نسبتاً نرم الفاظ میں پیش کر رہے ہیں۔

آیئے جائزہ لیں کہ زندگی کے آغاز سے متعلق مندرجہ بالا نظریات کی اصلیت کیا ہے؟

زمین پر زندگی کے اتفاقاً آغاز کا نظریہ اس مفروضے پر انحصار کرتا ہے کہ ایک خلیہ یا اس کا ابتدائی حصہ تقریباً ۳ ارب سال قبل موزوں ماحول اور حالات کے اچانک پیدا ہونے کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا جس نے بعد کے ادوار میں اتفاقاً خودبخود دستیاب ہوتے چلے جانے والے موزوں اورمناسب ماحول میں ارتقائی مراحل طے کیے اور انواع کی موجودہ شکلوں تک ترقی کرلی۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام نباتات، حیوانات اور انسانوں کے اجسام کروڑوں، اربوں خلیات پر مشتمل ہیں۔ ایک اوسط انسانی جسم میں ۲۰۰ اقسام کے تقریباً ۷۵۰ کھرب سے ایک ہزار کھرب تک خلیے ہوتے ہیں۔ ایک خلیہ خواہ انسانی ہو، حیوانی یا نباتی، ایک عظیم اور حیرت انگیز ڈیزائن رکھتا ہے۔ اپنی عملی شکل میں ایک خلیہ کسی شہر سے کم پیچیدہ نہیں ہے۔ اس میں توانائی پیدا کرنے والے مراکز بھی ہیں جسے خلیہ اپنے عمل کے لیے استعمال کرتا ہے۔ زندگی کے لیے مرکزی کردار ادا کرنے والے خامرے اور ہارمون تیار کرنے والی فیکٹریاں بھی ہیں، معلومات کا ذخیرہ (databank) ہے جہاں خلیے میں بننے والی پیداوار کا ریکارڈ جمع ہوتا ہے۔ ایسی فیکٹریاں اور ریفائنریاں ہیں جو خام مال تیار کرتی ہیں اور مواصلاتی نظام اور خام اور تیار مال کی گزرگاہیں ہیں اور خاص طرز کی پروٹین سے بنی ہوئی خلوی جھلی ہے جو خلیے میں اندر آنے اور باہر جانے والے مادوں کو کنٹرول کرتی ہے۔

ایک خلیہ امینوترشوں (amino acids)، خامروں یا پروٹین (enzymes)، آر این اے (Ribonucleic Acid)، ڈی این اے (Deoxyribonucleic Acid)، جین (gene) وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہر خلیے میں ۲۰ امینوترشے ہوتے ہیں جو آپس میں زنجیر کی شکل میں مل کر پروٹینی سالمات تشکیل دیتے ہیں۔ انھی ۲۰ امینوترشوں میں نسبت و تناسب کی تبدیلی سے بڑی تعداد میں پروٹین کی اقسام بنتی ہیں۔ فرض کریں ۲۸۸ امینوترشوں پر مشتمل ایک اوسط حجم کا پروٹینی سالمہ بنانا درکار ہوتو ان ۲۰ امینوترشوں میں نسبت و تناسب کی تبدیلی سے پروٹین کی امینوترشوں کی زنجیروں کی اتنی بڑی تعداد میں سے صرف ایک زنجیر، ایک خلیے کے لیے مطلوب پروٹین بناتی ہے۔ ان امینوترشوں کی کتنی تعداد ایک مطلوبہ پروٹینی زنجیر بنانے کے لیے درکار ہے، اس بات کا تعین ڈی این اے میں موجود ان معلومات کی بنا پر ہوتا ہے جو چار خاص بنیادوں یا حروف (اب ان کو a,t,g,c، یعنی ان کے ناموں کے ابتدائی حروف سے پکارا جاتا ہے) کی خفیہ صورت میں محفوظ ہوتی ہیں۔ ان حروف کی ترتیب میں جو فرق ہوتا ہے وہی، اگر انسانی خلیے کا ذکر کریں، انسانوں کی جسمانی ساخت میں ہوتا ہے۔ ان معلومات کو جینیاتی کوڈ (genetic code) کہا جاتا ہے جن کی تعداد ایک ڈی این اے سالمے کے اندر تقریباً ساڑھے تین ارب تک ہوسکتی ہے، جب کہ یہ تعداد ہرجین میں مختلف ہوتی ہے۔

جسم کے ہرہر عضو کے لیے الگ الگ جین ہوتے ہیں جو ایک مادہ اور ایک نر کے کروموسوم کے ملاپ کے نتیجے میں تشکیل پاتے ہیں۔ دو ایکس کروموسوم مل کر ایک نوع میں مادہ اور ایک ایکس اور ایک وائی کروموسوم مل کر ایک نَر کی پیدایش کا باعث بنتے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ امینوترشے ہمیشہ ایک ہی طرح کا اتفاق کرتے ہوئے ایک ہی طرح کی پروٹین بنائیں جو خلیے کی تعمیر میں مطلوب ہو اور ہمیشہ ایک ہی جیسی اور مطلوبہ تعداد میں اینٹیں یا بلاک تیار کریں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ جینیاتی کوڈ کے اربوں حروف میں سے مطلوبہ حروف ہمیشہ اس طرح اتفاقاً ملیں کہ وہ مطلوبہ اعضا تشکیل دیں جو ایک متعین ڈیزائن کے مطابق ایک جسم کی بناوٹ میں حصہ لیں؟ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کیا اِن امینوترشوں، پروٹین، ڈی این اے، آر این اے اور جین کی تعداد اور حرکات کے پیچھے کوئی قوتِ متحرکہ ہے یا نہیں، جب کہ خود منطق اور سائنس دونوں علمی اور عملی طور پر تقاضا کرتے ہیں کہ ہرعمل کے پیچھے ایک قوتِ متحرکہ ہونی چاہیے؟

یورے اور ملر کے تجربہ گاہ میں کیے گئے تجربے سے صرف اتنا معلوم ہوا کہ امینوترشے ایک نہایت منضبط لیبارٹری میں قابویافتہ طریقے سے بنائے گئے نہ کہ اتفاقاً یا خود بخود بن گئے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ اگر ملر ان تیار شدہ امینوترشوں کو لیبارٹری میں موجود کیمیائی ماحول سے فوراً الگ نہ کرلیتا تو وہ تباہ ہوجاتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی لیبارٹری کا ماحول اس کے فرض کردہ زمین کے ابتدائی ماحول سے بالکل مختلف تھا اور اس کا اعتراف ملر نے خود بھی کیا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کچھ بے شعور خلیے اور جین خود بخود یا اتفاقاً فیصلہ کرلیں کہ ایک خوب صورت آنکھ بلکہ آنکھوں کی ایک جوڑی، ایک طویل قامت، دانتوں کا خوشنما دکھائی دینے والا سیٹ، یا ایک ستواں ناک کس طرح کے دوسرے جسمانی اعضا کے ساتھ مناسب لگے گی یا وہ خود یہ فیصلہ کرلیں کہ انسانی یا حیوانی اجسام میں جینیاتی خوبیاں ہمیشہ ایک زبردست تناسب اختیار کرتے ہوئے ایک متناسب اور انتہائی نتیجہ خیز وجود کی تشکیل کریں اور اس میں کبھی غلطی نہ کریں، جب کہ اتفاقات میں تو غلطی کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ انسانی نسلوں کے متنوع پھیلائو کا باعث ایکس (x) اور وائی (y)کروموسوم کہے جاتے ہیں۔ خلیے یا جین یہ فیصلہ کیسے کرلیتے ہیں کہ زمین پر انسانی آبادی میں مردوں اور عورتوں کی تعداد ہمیشہ متناسب رہے تاکہ ایک کے لیے دوسرے کی تلاش مسئلہ نہ بنے۔ زمین پر موجود زندگی کی کروڑوں انواع کی پیدایش اور ان کے وقت ِ مقررہ پر خاتمے کا فیصلہ خلیوں میں موجود جین کیوں کر اس طرح سے کرسکتے ہیں کہ ان تمام ہی انواع کی تعداد ایک حد کے اندر محدود رہے۔ ایک خلیے یا ایک جین کے لیے کس طرح ممکن ہے کہ وہ ہمیشہ ہوائوںاور پرندوں کے ذریعے منتقل ہونے والے ہر نوع کے پولن میں سے صرف مطلوبہ پولن ہی کو بارآوری کے لیے چن لے اور ہمیشہ اتفاقاً وہی پھول یا پھل اور بیج پیدا کرے اور کبھی اس میں غلطی نہ کرے۔ ان بے شعور عناصر کے اندر یہ شعوری حرکات کہاں سے آئی ہیں؟ یہی سوال اللہ تعالیٰ قرآن مجید کی سورۃ الواقعہ میں کرتے ہیں:

نَحْنُ خَلَقْنٰکُمْ فَلَوْلاَ تُصَدِّقُوْنَ o اَفَرَئَ یْتُمْ مَّا تُمْنُوْنَ o ئَ اَنْتُمْ تَخْلُقُوْنَہٗٓ اَمْ نَحْنُ الْخٰلِقُوْنَ o نَحْنُ قَدَّرْنَا بَیْنَکُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِیْنَ o عَلٰٓی اَنْ نُّبَدِّلَ اَمْثَالَکُمْ وَنُنْشِٔکُمْ فِیْ مَا لاَ تَعْلَمُوْنَ o وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْاَۃَ الْاُوْلٰی فَلَوْلاَ تَذکَّرُوْنَ o اَفَرَئَ یْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ o ئَ اَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَہٗٓ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ o لَوْ نَشَآئُ لَجَعَلْنٰہُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَکَّھُوْنَ o اِنَّا لَمُغْرَمُوْنَ o بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ o اَفَرَاَیْتُمُ الْمَآئَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَ o       ئَ اَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ o لَوْ نَشَآئُ جَعَلْنٰہُ اُجَاجًا فَلَوْلاَ تَشْکُرُوْنَ o اَفَرَئَ یْتُمْ النَّارَ الَّتِیْ تُوْرُوْنَ o ئَ اَنْتُمْ اَنْشَاْتُمْ شَجَرَتَھَا اَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ o نَحْنُ جَعَلْنٰھَا تَذْکِرَۃً وَّمَتَاعًا لِّلْمُقْوِیْنَ o (الواقعہ ۵۶: ۵۷-۷۳) ہم نے تمھیں پیدا کیا ہے پھر کیوں تصدیق نہیں کرتے؟ کبھی تم نے غور کیا، یہ نطفہ جو تم ڈالتے ہو، اس سے بچہ تم بناتے ہو یا اُس کے بنانے والے ہم ہیں؟ ہم نے تمھارے درمیان موت کو تقسیم کیا ہے، اور ہم اس سے عاجز نہیں ہیں کہ تمھاری شکلیں بدل دیں اور کسی ایسی شکل میں تمھیں پیدا کردیں جس کو تم نہیں جانتے۔ اپنی پہلی پیدایش کو تو تم جانتے ہی ہو پھر سبق کیوں نہیں لیتے؟ کبھی تم نے سوچا، یہ بیج جو تم ڈالتے ہو، ان سے کھیتیاں تم اُگاتے ہو یا اُن کے اُگانے والے ہم ہیں؟ ہم چاہیں تو ان کھیتیوں کو بُھس بنا کر رکھ دیں اور تم طرح طرح کی باتیں بناتے رہ جائو کہ ہم پر تو اُلٹی چٹّی پڑگئی، بلکہ ہمارے تو نصیب ہی پھوٹے ہوئے ہیں۔ کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا، یہ پانی جو تم پیتے ہو، اِسے بادل سے تم نے برسایا ہے یا اس کے برسانے والے ہم ہیں؟ ہم چاہیں تو اسے سخت کھاری بنا کر رکھ دیں، پھر تم شکرگزار کیوں نہیں ہوتے؟ کبھی تم نے خیال کیا، یہ آگ جوتم سلگاتے ہو، اِس کا درخت تم نے پیدا کیا ہے، یا اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں؟ ہم نے اُس کو یاد دہانی کا ذریعہ اور حاجت مندوں کے لیے سامانِ زیست بنایا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ان خلیات اور جینز کی حرکات اور تعامل کے پیچھے قوتِ متحرکہ اگر انسان نہیں ہے (اور یقینا نہیں ہے) تو پھر وہ خدا کے سوا کون ہوسکتا ہے؟ ان بے شعور خلیات میں تو اب تک کوئی ایسی قوت دریافت نہیں ہوئی جو ان کے باہمی ملاپ سے تشکیل پانے والے ایک انسانی یا حیوانی وجود میں ’زندگی‘ کی آمد کا باعث ہو (سائنس کی زبان میں ’زندگی‘ سے مراد کسی مادی وجود  کے اندر نظامِ ہضم، نظامِ نشوونما، اپنی نوع کی افزایش اور بقا کے لیے جدوجہد کی صلاحیت ہے)۔    علمِ حیاتیات یہ بتانے سے بھی قاصر ہے کہ تمام انواع کے اندر موجود جین میں وہ تحریریں جنھیں رمزی حروف (genetic codes) کہا جاتا ہے، کہاں سے آئے ہیں اور ان کا آپس کاتعامل کیوں کر اتنا حیرت انگیز اور نتیجہ خیز ہوتا ہے۔قرآنِ حکیم نے اس بحث کو سورئہ فرقان کی ان آیات میں سمیٹ دیا ہے جو ہم سب کے لیے باعث غوروفکر ہے:

نہایت متبرک ہے وہ جس نے یہ فرقان اپنے بندے پر نازل کیا تاکہ سارے جہان والوں کے لیے خبردار کردینے والا ہو___ وہ جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ہے، جس کے ساتھ بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے، جس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کی ایک تقدیر (مقدار یا اندازہ) مقرر کی۔(الفرقان ۲۵: ۱-۲)