ایک پیچیدہ مسئلہ زمین پر زندگی کے آغاز کاہے۔ اس بارے میں اہلِ فلسفہ تو اسی طرح منقسم نظر آتے ہیں جس طرح وہ کائنات کی تشکیل یا تخلیق کے بارے میں تھے۔ ان کے خیالات کا جدید معاشروں پر کوئی خاص اثر اب نظر نہیں آتا۔ البتہ جدید دور میں سائنس اور علمِ حیاتیات سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ جو ایک خدا کو ماننے کو تیار نہیں، یہ راے رکھتے ہیں کہ زندگی کا آغاز زمین پر تقریباً ۳ ارب سال قبل اتفاقاً پیدا ہوجانے والے موزوں ماحول اور حالات میں، زمین پر موجود مختلف عناصر، مثلاً آبی بخارات، امونیا، میتھین، ہائیڈروجن اور بلند درجۂ حرارت کے اتفاقاً ملاپ کے نتیجے میں پہلے ایک امینوترشہ (Amino acid)، پھر پروٹین اور اس سے ایک خلیہ (cell) کے تشکیل پانے سے ہوا۔ اس راے کو ایک سائنسی نظریے کے طور پر پیش کرنے والے ہیرالڈ یورے (Herald C. Urey) (۱۸۹۳ء-۱۹۸۱ء) اور اسٹینلے ملر (Stanley Miller) (۱۹۳۰ء-۲۰۰۷ء) تھے۔ ۱۹۵۳ء میں اپنی لیبارٹری میں ایک تجربے کے بعد ملر نے دعویٰ کیا کہ اس نے کچھ امینوترشے، جو کہ ایک خلیے کی تشکیل کے لیے ضروری پروٹین بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، مصنوعی طور پر پیدا کیے ہیں۔ گویا اس کا کہنا تھا کہ زندگی کی اتفاقاً تشکیل سے متعلق نظریہ سائنسی طور پر بھی ثابت ہوگیا ہے۔
اس سے قبل ایک انگریز ماہر حیاتیات چارلس ڈاروِن (۱۸۰۹ء- ۱۸۸۲ء) اور ایک انگریز ماہر عمرانیات اور فلسفی ڈاکٹر ہربرٹ سپنسر (۱۸۲۰ء-۱۹۰۳ء) زمین پر زندگی کی تخلیق سے متعلق اپنا ’نظریۂ ارتقا‘ پیش کرچکے تھے۔ اس نظریے کے مطابق زندگی کی اَن گنت انواع میں جوتنوع پایا جاتا ہے وہ ایک طویل ارتقائی عمل کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔ تمام زندہ مخلوقات مشترکہ آبا و اجداد سے پیدا ہوئی ہیں مثلاً تمام پودے اور تمام جاندار تقریباً تین ارب سال قبل خود بخود پیدا ہونے والے بیکٹیریا سے ملتے جلتے زندہ نامیاتی سالموں (micro organisms) کے ارتقا کے نتیجے میں تشکیل پائے ہیں۔ دودھیل (ممالیہ) جانور، پرندے، رینگنے والے جانور، خشکی اور تری پر یکساں رہنے والے جانور اور مچھلیاں ۶۰ کروڑ سال قبل پانی میں رہنے والے نرم لجلجے کیڑوں (worms) سے ارتقا کے نتیجے میں بنے ہیں اور انسانوں اوردیگر دودھیل جانوروں کا جدِّامجد چوہے سے ملتا جلتا جانور (shrew) ہے، جو پندرہ کروڑ سال قبل بھی زمین پر موجود تھا اور موجودہ ترقی یافتہ انسان کے آبا و اجداد بندر ہیں جن سے وہ ارتقائی مراحل طے کر کے تقریباً دو لاکھ اور ایک لاکھ سال قبل کے دورانیے میں الگ نوع بن گیا۔
کائنات سے ماورا ایک خدا کے بغیر، زمین پر زندگی کے آغاز سے متعلق یہ نظریات اور بالائی کائنات کی تشکیل سے متعلق فلسفیوں اور سائنس دانوں کے نظریات، کچھ دوسرے ماہرین کی مخالفت کے باوجود، اور اس حقیقت کے باوجود کہ یہ نظریات ابھی تک سائنسی حلقوں میں متنازعہ ہیں، دنیا کے اکثر ممالک میں باقاعدہ سائنس کے طور پر پڑھائے جارہے ہیں اور ذرائع ابلاغ پر مؤثر اختیار کو استعمال کرتے ہوئے بڑی شدّومد سے ان کا پرچار کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے اگرچہ اب تک مذاہب کے موروثی اور معاشرتی اثرات کے سبب دنیا کے اکثر لوگ خدا کے وجود سے انکاری تو نہیں ہوئے لیکن خدا، وحی، مذہبی ضوابط اور حیات بعد الموت سے متعلق ان کے عقائد نہ صرف کمزور پڑ چکے ہیں بلکہ خدا اور مذہب سے ان کی لاتعلقی اور بیزاری میں بہت اضافہ ہوگیا ہے۔ اور یہی ان لوگوںکا ہدف ہے جو مادہ پرست ہیں۔ یہ افراد اکثر معاشروں میں حکومتوں اور ذرائع ابلاغ پر اختیار رکھتے ہیں، خدا اور اس کے سچے رسولؐ کی ہدایات کو اپنی شخصی آزادیوں کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں اور اپنے منصوبوں کو لبرلزم اور سیکولرزم جیسے نسبتاً نرم الفاظ میں پیش کر رہے ہیں۔
آیئے جائزہ لیں کہ زندگی کے آغاز سے متعلق مندرجہ بالا نظریات کی اصلیت کیا ہے؟
زمین پر زندگی کے اتفاقاً آغاز کا نظریہ اس مفروضے پر انحصار کرتا ہے کہ ایک خلیہ یا اس کا ابتدائی حصہ تقریباً ۳ ارب سال قبل موزوں ماحول اور حالات کے اچانک پیدا ہونے کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا جس نے بعد کے ادوار میں اتفاقاً خودبخود دستیاب ہوتے چلے جانے والے موزوں اورمناسب ماحول میں ارتقائی مراحل طے کیے اور انواع کی موجودہ شکلوں تک ترقی کرلی۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام نباتات، حیوانات اور انسانوں کے اجسام کروڑوں، اربوں خلیات پر مشتمل ہیں۔ ایک اوسط انسانی جسم میں ۲۰۰ اقسام کے تقریباً ۷۵۰ کھرب سے ایک ہزار کھرب تک خلیے ہوتے ہیں۔ ایک خلیہ خواہ انسانی ہو، حیوانی یا نباتی، ایک عظیم اور حیرت انگیز ڈیزائن رکھتا ہے۔ اپنی عملی شکل میں ایک خلیہ کسی شہر سے کم پیچیدہ نہیں ہے۔ اس میں توانائی پیدا کرنے والے مراکز بھی ہیں جسے خلیہ اپنے عمل کے لیے استعمال کرتا ہے۔ زندگی کے لیے مرکزی کردار ادا کرنے والے خامرے اور ہارمون تیار کرنے والی فیکٹریاں بھی ہیں، معلومات کا ذخیرہ (databank) ہے جہاں خلیے میں بننے والی پیداوار کا ریکارڈ جمع ہوتا ہے۔ ایسی فیکٹریاں اور ریفائنریاں ہیں جو خام مال تیار کرتی ہیں اور مواصلاتی نظام اور خام اور تیار مال کی گزرگاہیں ہیں اور خاص طرز کی پروٹین سے بنی ہوئی خلوی جھلی ہے جو خلیے میں اندر آنے اور باہر جانے والے مادوں کو کنٹرول کرتی ہے۔
ایک خلیہ امینوترشوں (amino acids)، خامروں یا پروٹین (enzymes)، آر این اے (Ribonucleic Acid)، ڈی این اے (Deoxyribonucleic Acid)، جین (gene) وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہر خلیے میں ۲۰ امینوترشے ہوتے ہیں جو آپس میں زنجیر کی شکل میں مل کر پروٹینی سالمات تشکیل دیتے ہیں۔ انھی ۲۰ امینوترشوں میں نسبت و تناسب کی تبدیلی سے بڑی تعداد میں پروٹین کی اقسام بنتی ہیں۔ فرض کریں ۲۸۸ امینوترشوں پر مشتمل ایک اوسط حجم کا پروٹینی سالمہ بنانا درکار ہوتو ان ۲۰ امینوترشوں میں نسبت و تناسب کی تبدیلی سے پروٹین کی امینوترشوں کی زنجیروں کی اتنی بڑی تعداد میں سے صرف ایک زنجیر، ایک خلیے کے لیے مطلوب پروٹین بناتی ہے۔ ان امینوترشوں کی کتنی تعداد ایک مطلوبہ پروٹینی زنجیر بنانے کے لیے درکار ہے، اس بات کا تعین ڈی این اے میں موجود ان معلومات کی بنا پر ہوتا ہے جو چار خاص بنیادوں یا حروف (اب ان کو a,t,g,c، یعنی ان کے ناموں کے ابتدائی حروف سے پکارا جاتا ہے) کی خفیہ صورت میں محفوظ ہوتی ہیں۔ ان حروف کی ترتیب میں جو فرق ہوتا ہے وہی، اگر انسانی خلیے کا ذکر کریں، انسانوں کی جسمانی ساخت میں ہوتا ہے۔ ان معلومات کو جینیاتی کوڈ (genetic code) کہا جاتا ہے جن کی تعداد ایک ڈی این اے سالمے کے اندر تقریباً ساڑھے تین ارب تک ہوسکتی ہے، جب کہ یہ تعداد ہرجین میں مختلف ہوتی ہے۔
جسم کے ہرہر عضو کے لیے الگ الگ جین ہوتے ہیں جو ایک مادہ اور ایک نر کے کروموسوم کے ملاپ کے نتیجے میں تشکیل پاتے ہیں۔ دو ایکس کروموسوم مل کر ایک نوع میں مادہ اور ایک ایکس اور ایک وائی کروموسوم مل کر ایک نَر کی پیدایش کا باعث بنتے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ امینوترشے ہمیشہ ایک ہی طرح کا اتفاق کرتے ہوئے ایک ہی طرح کی پروٹین بنائیں جو خلیے کی تعمیر میں مطلوب ہو اور ہمیشہ ایک ہی جیسی اور مطلوبہ تعداد میں اینٹیں یا بلاک تیار کریں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ جینیاتی کوڈ کے اربوں حروف میں سے مطلوبہ حروف ہمیشہ اس طرح اتفاقاً ملیں کہ وہ مطلوبہ اعضا تشکیل دیں جو ایک متعین ڈیزائن کے مطابق ایک جسم کی بناوٹ میں حصہ لیں؟ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کیا اِن امینوترشوں، پروٹین، ڈی این اے، آر این اے اور جین کی تعداد اور حرکات کے پیچھے کوئی قوتِ متحرکہ ہے یا نہیں، جب کہ خود منطق اور سائنس دونوں علمی اور عملی طور پر تقاضا کرتے ہیں کہ ہرعمل کے پیچھے ایک قوتِ متحرکہ ہونی چاہیے؟
یورے اور ملر کے تجربہ گاہ میں کیے گئے تجربے سے صرف اتنا معلوم ہوا کہ امینوترشے ایک نہایت منضبط لیبارٹری میں قابویافتہ طریقے سے بنائے گئے نہ کہ اتفاقاً یا خود بخود بن گئے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ اگر ملر ان تیار شدہ امینوترشوں کو لیبارٹری میں موجود کیمیائی ماحول سے فوراً الگ نہ کرلیتا تو وہ تباہ ہوجاتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی لیبارٹری کا ماحول اس کے فرض کردہ زمین کے ابتدائی ماحول سے بالکل مختلف تھا اور اس کا اعتراف ملر نے خود بھی کیا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کچھ بے شعور خلیے اور جین خود بخود یا اتفاقاً فیصلہ کرلیں کہ ایک خوب صورت آنکھ بلکہ آنکھوں کی ایک جوڑی، ایک طویل قامت، دانتوں کا خوشنما دکھائی دینے والا سیٹ، یا ایک ستواں ناک کس طرح کے دوسرے جسمانی اعضا کے ساتھ مناسب لگے گی یا وہ خود یہ فیصلہ کرلیں کہ انسانی یا حیوانی اجسام میں جینیاتی خوبیاں ہمیشہ ایک زبردست تناسب اختیار کرتے ہوئے ایک متناسب اور انتہائی نتیجہ خیز وجود کی تشکیل کریں اور اس میں کبھی غلطی نہ کریں، جب کہ اتفاقات میں تو غلطی کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ انسانی نسلوں کے متنوع پھیلائو کا باعث ایکس (x) اور وائی (y)کروموسوم کہے جاتے ہیں۔ خلیے یا جین یہ فیصلہ کیسے کرلیتے ہیں کہ زمین پر انسانی آبادی میں مردوں اور عورتوں کی تعداد ہمیشہ متناسب رہے تاکہ ایک کے لیے دوسرے کی تلاش مسئلہ نہ بنے۔ زمین پر موجود زندگی کی کروڑوں انواع کی پیدایش اور ان کے وقت ِ مقررہ پر خاتمے کا فیصلہ خلیوں میں موجود جین کیوں کر اس طرح سے کرسکتے ہیں کہ ان تمام ہی انواع کی تعداد ایک حد کے اندر محدود رہے۔ ایک خلیے یا ایک جین کے لیے کس طرح ممکن ہے کہ وہ ہمیشہ ہوائوںاور پرندوں کے ذریعے منتقل ہونے والے ہر نوع کے پولن میں سے صرف مطلوبہ پولن ہی کو بارآوری کے لیے چن لے اور ہمیشہ اتفاقاً وہی پھول یا پھل اور بیج پیدا کرے اور کبھی اس میں غلطی نہ کرے۔ ان بے شعور عناصر کے اندر یہ شعوری حرکات کہاں سے آئی ہیں؟ یہی سوال اللہ تعالیٰ قرآن مجید کی سورۃ الواقعہ میں کرتے ہیں:
نَحْنُ خَلَقْنٰکُمْ فَلَوْلاَ تُصَدِّقُوْنَ o اَفَرَئَ یْتُمْ مَّا تُمْنُوْنَ o ئَ اَنْتُمْ تَخْلُقُوْنَہٗٓ اَمْ نَحْنُ الْخٰلِقُوْنَ o نَحْنُ قَدَّرْنَا بَیْنَکُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِیْنَ o عَلٰٓی اَنْ نُّبَدِّلَ اَمْثَالَکُمْ وَنُنْشِٔکُمْ فِیْ مَا لاَ تَعْلَمُوْنَ o وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْاَۃَ الْاُوْلٰی فَلَوْلاَ تَذکَّرُوْنَ o اَفَرَئَ یْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ o ئَ اَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَہٗٓ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ o لَوْ نَشَآئُ لَجَعَلْنٰہُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَکَّھُوْنَ o اِنَّا لَمُغْرَمُوْنَ o بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ o اَفَرَاَیْتُمُ الْمَآئَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَ o ئَ اَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ o لَوْ نَشَآئُ جَعَلْنٰہُ اُجَاجًا فَلَوْلاَ تَشْکُرُوْنَ o اَفَرَئَ یْتُمْ النَّارَ الَّتِیْ تُوْرُوْنَ o ئَ اَنْتُمْ اَنْشَاْتُمْ شَجَرَتَھَا اَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ o نَحْنُ جَعَلْنٰھَا تَذْکِرَۃً وَّمَتَاعًا لِّلْمُقْوِیْنَ o (الواقعہ ۵۶: ۵۷-۷۳) ہم نے تمھیں پیدا کیا ہے پھر کیوں تصدیق نہیں کرتے؟ کبھی تم نے غور کیا، یہ نطفہ جو تم ڈالتے ہو، اس سے بچہ تم بناتے ہو یا اُس کے بنانے والے ہم ہیں؟ ہم نے تمھارے درمیان موت کو تقسیم کیا ہے، اور ہم اس سے عاجز نہیں ہیں کہ تمھاری شکلیں بدل دیں اور کسی ایسی شکل میں تمھیں پیدا کردیں جس کو تم نہیں جانتے۔ اپنی پہلی پیدایش کو تو تم جانتے ہی ہو پھر سبق کیوں نہیں لیتے؟ کبھی تم نے سوچا، یہ بیج جو تم ڈالتے ہو، ان سے کھیتیاں تم اُگاتے ہو یا اُن کے اُگانے والے ہم ہیں؟ ہم چاہیں تو ان کھیتیوں کو بُھس بنا کر رکھ دیں اور تم طرح طرح کی باتیں بناتے رہ جائو کہ ہم پر تو اُلٹی چٹّی پڑگئی، بلکہ ہمارے تو نصیب ہی پھوٹے ہوئے ہیں۔ کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا، یہ پانی جو تم پیتے ہو، اِسے بادل سے تم نے برسایا ہے یا اس کے برسانے والے ہم ہیں؟ ہم چاہیں تو اسے سخت کھاری بنا کر رکھ دیں، پھر تم شکرگزار کیوں نہیں ہوتے؟ کبھی تم نے خیال کیا، یہ آگ جوتم سلگاتے ہو، اِس کا درخت تم نے پیدا کیا ہے، یا اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں؟ ہم نے اُس کو یاد دہانی کا ذریعہ اور حاجت مندوں کے لیے سامانِ زیست بنایا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان خلیات اور جینز کی حرکات اور تعامل کے پیچھے قوتِ متحرکہ اگر انسان نہیں ہے (اور یقینا نہیں ہے) تو پھر وہ خدا کے سوا کون ہوسکتا ہے؟ ان بے شعور خلیات میں تو اب تک کوئی ایسی قوت دریافت نہیں ہوئی جو ان کے باہمی ملاپ سے تشکیل پانے والے ایک انسانی یا حیوانی وجود میں ’زندگی‘ کی آمد کا باعث ہو (سائنس کی زبان میں ’زندگی‘ سے مراد کسی مادی وجود کے اندر نظامِ ہضم، نظامِ نشوونما، اپنی نوع کی افزایش اور بقا کے لیے جدوجہد کی صلاحیت ہے)۔ علمِ حیاتیات یہ بتانے سے بھی قاصر ہے کہ تمام انواع کے اندر موجود جین میں وہ تحریریں جنھیں رمزی حروف (genetic codes) کہا جاتا ہے، کہاں سے آئے ہیں اور ان کا آپس کاتعامل کیوں کر اتنا حیرت انگیز اور نتیجہ خیز ہوتا ہے۔قرآنِ حکیم نے اس بحث کو سورئہ فرقان کی ان آیات میں سمیٹ دیا ہے جو ہم سب کے لیے باعث غوروفکر ہے:
نہایت متبرک ہے وہ جس نے یہ فرقان اپنے بندے پر نازل کیا تاکہ سارے جہان والوں کے لیے خبردار کردینے والا ہو___ وہ جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ہے، جس کے ساتھ بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے، جس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کی ایک تقدیر (مقدار یا اندازہ) مقرر کی۔(الفرقان ۲۵: ۱-۲)