پروفیسر خورشید احمد | جنوری ۲۰۰۹ | مقالہ خصوصی
اسلام کا بنیادی اور آفاقی اصول ہے کہ ایک انسان کا قتلِ ناحق ساری انسانیت کا خون بہانے اور ایک معصوم انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف ہے، اور یہ بھی اسلام کے پوری انسانیت کے لیے رحمت ہونے کی دلیل ہے کہ اس سلسلے میں انسانوں کے درمیان مذہب، رنگ، نسل، جنس کی کوئی تفریق روا نہیں رکھی گئی ہے۔ مسلمان اورغیرمسلم دونوں کی زندگی محترم ہے اور قانون اور انصاف سے ہٹ کر کسی طرح بھی ایک انسان کو اس کی زندگی کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ اس اصول کی روشنی میں ممبئی ہو یا راولپنڈی، کابل ہو یا سوات، نیویارک ہو یا بغداد، قتلِ ناحق ایک جرم ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والوں پر قانون کے مطابق گرفت اور عدل کے تقاضوں کی روشنی میں سزا کا مؤثر اہتمام انسانی معاشرے کو مہذب اور پُرامن رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
ممبئی میں ۲۶ اور ۲۹نومبر ۲۰۰۸ء کے درمیان جو خونیں ہنگامہ برپا ہوا اور ۱۷۳ اِنسانوں کو جس بے دردی سے ہلاک کیا گیا اور سیکڑوں کو زخمی، وہ ایک المیہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے عوام سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان اور پوری دنیا کے دردمند انسانوں نے اس کی مذمت کی اور اصل مجرموں کو قرار واقعی سزا کا مطالبہ کیا۔ لیکن بھارت کی قیادت اور خصوصیت سے وہاں کے میڈیا اور ہندو انتہا پسندی کی تنظیموں نے جس طرح آنکھیں بند کر کے پاکستان اور نام نہاد ’اسلامی بنیاد پسندوں‘ کو نشانہ بنایا اور امریکا، مغربی اقوام اور خود اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے انصاف کے تمام مسلّمہ اصولوں کو یکسر نظرانداز کر کے پاکستان کی ایک دینی اور فلاحی تنظیم کو کسی ثبوت اور صفائی کا موقع دیے بغیر موردالزام ٹھیرایا اور پھر پاکستان پر سیاسی، معاشی اور عسکری دبائو کا نہ َختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا، اس نے ایک انسانی المیے کو ایک سیاسی کھیل میں تبدیل کردیا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کی موجودہ حکومت نے اس معاملے میں پہلے لمحے ہی سے جس بے بصیرتی اور کمزوری کا مظاہرہ کیا ہے، اس نے پاکستان کی مشکلات میںاضافہ اور اس پر منڈلانے والے خطرات کو دوچند کردیا ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ بھارت اس واقعے کو پاکستان کو دبانے اور علاقے میں اپنے اور امریکی مقاصد اور اہداف کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ وہ ایک طرف خود اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے اور اپنے فتنہ جُو عناصر سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے تو دوسری طرف پاکستان پر اپنی گرفت مضبوط کرنے، ملک میں اپنے ہم نوا عناصر اور آلۂ کار قوتوں کو تقویت دینے اور امریکا اور یورپی اقوام کے تعاون سے پاکستان کو اپنی ایک باج گزار ریاست بنانے اور اس کے سیاسی نقشے میں اپنے مفید مطلب تبدیلیاں لانے کے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے بڑی ہوشیاری سے چالیں چل رہا ہے۔
پیپلزپارٹی کی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے جس طرح اپنے منشور اور سیاسی دعوؤں کی خلاف ورزیاں کی ہیں، ملک کی آزادی، حاکمیت اور سالمیت کو دائو پر لگا دیا ہے، مشرف دور کی پالیسیوں پر جس بھونڈے انداز سے عمل کیا جا رہا ہے، معاشی حالات جس طرح اس کی گرفت سے نکل رہے ہیں، امن و امان کی جو زبوں حالی ہے، اور جس طرح شخصی اقتدار اور مفادات کی سیاست کو فروغ دیا جا رہا ہے، اس نے توقعات کے ان آبگینوں کو چکنا چور کردیا ہے جو جمہوریت کے احیا کے بارے میں فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے نتیجے میں قائم کیے گئے تھے۔ ایک امریکی ادارے کے تازہ ترین سروے کے نتائج میں عوام کے ان احساسات کی مکمل عکاسی ہوتی ہے جس کی رو سے ۸۵ فی صد عوام حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہیں اور ۱۰ ہی مہینوں میں حکومت سے ان کی مایوسی کی وہی کیفیت پیدا ہوگئی ہے جو مشرف کے دور کے آخری ایام میں تھی۔ بھارت اور امریکا حکومت کی اس کمزوری کا پورا پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور علاقے کے سیاسی نقشے کو تبدیل کرنے، پاکستان کو سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار کرنے اور ایسے حالات پیدا کرنے میں مصروف ہیں جن کے نتیجے میں پاکستان کی دفاعی صلاحیت بری طرح مجروح ہوجائے اور بالآخر اس کے نیوکلیر اثاثہ جات پر کسی بین الاقوامی ڈھونگ کے سہارے امریکا قبضہ کرسکے۔ یہ دور ازکار خدشات نہیں بلکہ امریکااور مغربی اقوام کے پالیسی ساز اداروں کے بنائے ہوئے سیاسی نقشے میں رنگ بھرنے کے لیے بھارت اور امریکا کے اسٹرے ٹیجک تعاون کے اہداف معلوم ہوتے ہیں۔
ممبئی میں جو کچھ ہوا اور اسے جس طرح پاکستان کا گھیرائو کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، اس کا بے لاگ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت اور مغربی میڈیا میں اس سلسلے میں جو کچھ لکھا جا رہا ہے اور بھارت کے ساتھ خصوصیت سے امریکا اور برطانیہ کی قیادت اور میڈیا جو نظریات فروغ دے رہے ہیں، ان کا جائزہ لیا جائے تو ان میں تین چیزوں کو بڑے سوچے سمجھے انداز میں نمایاں کیا جا رہا ہے۔
۱- یہ سارا خون خرابا پاکستان کی ایک جہادی تنظیم لشکرِطیبہ کا کیا دھرا ہے جو جہادِ افغانستان کے اولیں دور (۱۹۸۰ء) میں وجود میں آئی تھی۔ پھر افغانستان سے روس کی پسپائی کے بعد کشمیر میں جہاد میں مصروف رہی اور اب کشمیر اور افغانستان ددنوں میں سرگرم ہے۔ پاکستان کی حکومت اتنی کمزور ہے کہ اس کی کوئی گرفت ان جہادی تنظیموں پر نہیں اور چونکہ پاکستان کی موجودہ حکومت اور خود امریکا اور یورپ بوجوہ بھارت اور پاکستان میں دوستانہ روابط کو فروغ دینا چاہتے ہیں تاکہ امریکا کی ’عالمی دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میں پاکستان اہم کردار ادا کرتا رہے اور پاکستانی فوج امریکا کے دیے ہوئے اہداف، یعنی القاعدہ اور طالبان کی سرکوبی میں مصروف رہے۔ البتہ جہادی تنظیمیں اس دوستی کے محل کو درہم برہم کرنے پر تلی ہوئی ہیں اور اسی وجہ سے ممبئی میں یہ خون خرابا کیا گیا ہے تاکہ صلح اور دوستی کا یہ عمل رک جائے۔
یہی وجہ ہے کہ شروع میں بھارت اور امریکا کا پورا زوراس پر تھا کہ یہ کام غیرریاستی عناصر نے کیا ہے اور پاکستان کی حکومت آنکھیں بند کر کے اپنی ساری قوت سے ان غیرریاستی عناصر کی سرکوبی کرے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی سات سال پرانی ایک درخواست کو چشم زدن میں زندہ کر دیا ہے اور لشکرِطیبہ کے ساتھ جماعت الدعوۃ پر پابندی، اس کے تعلیمی اور خدمتی اداروں کی بندش اور اس کی قیادت کی گرفتاری کا اشارہ کردیا۔
بھارتی قیادت بار بار کہہ رہی ہے کہ ممبئی کے مسئلے کا کشمیر کے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ خالص بھارت دشمنی پر مبنی عمل ہے۔
۲- دوسرا نظریہ یہ ہے کہ بظاہر تو یہ کام لشکرطیبہ نے کیا ہے مگر دراصل اس کے پیچھے القاعدہ ہے جس نے نائن الیون کی طرز پر بھارت میں ایک بڑا آپریشن کیا ہے اور اس میں اسرائیل، امریکا اور یورپ کو نشانہ بنایا گیا ہے اور ان کے زعم میں ممبئی کے واقعے کو کشمیر یا پاک بھارت معاملات سے ہٹ کر عالمی دہشت گردی کی جنگ کے ایک حصے کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ نیویارک، واشنگٹن، میڈرڈ، لندن اور بالی کے سلسلے کی ایک کڑی ہے، اور چونکہ القاعدہ کا ان کی نگاہ میں مرکز اب افغانستان نہیں، پاکستان ہے، اس لیے سارادبائو پاکستان پر ہونا چاہیے کہ کھل کر اور پوری یکسوئی کے ساتھ القاعدہ اور طالبان کا قلع قمع کرنے میں لگ جائے اور اگر حکومت ِ پاکستان نہیں کرتی ہے تو پھر پاکستان پر جنگ مسلط کر کے یہ کام کیا جائے۔ بھارت کے لیے فوج کشی کا جواز تسلیم کیا جائے اور عالمی برادری اس کا ساتھ دے۔
۳- ایک تیسرا نظریہ یہ بھی پیش کیا جا رہا ہے کہ یا تو پاکستانی حکومت درپردہ اس پورے معاملے میں لشکرطیبہ اور دوسری جہادی تنظیموں کے ساتھ ہے یا سول حکومت کی گرفت فوج اور انٹیلی جنس کے اداروں پر اتنی کمزور ہے کہ یہ ادارے اپنی من مانی کر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو فوج اور انٹیلی جنس کے اداروں کو سبق سکھانے کی ضرورت ہے۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ پاکستان کی کمزور حکومت پر مزید دبائو ڈالا جائے اور اسے مجبورکیا جائے کہ وہ ان تمام قوتوں کو ختم کرے جو بھارت اور امریکہ کی نگاہ میں خطرہ ہیں یا ہوسکتی ہیں۔ اس کے لیے حکومت کو مجبور کیا جائے کہ جو جو مطالبہ بھارت کرے اس پر عمل کیا جائے اور اگر حکومت اندرونی دبائو یا کسی اور وجہ سے ایسا نہ کرے تو پھر بھارت کو شہ دی جائے اور وہ فوجی کارروائی کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرے۔ امریکا اور آئی ایم ایف اپنے اپنے انداز میں یہ دبائو ڈال رہے ہیں۔ امریکا کی سیاسی اور عسکری قیادت ٹڈی دل کی صورت میں پاکستان پر نازل ہورہی ہے اور مزید کارروائیاں کرو (do more)اور خطرے کو سنجیدگی سے لو (take the threat seriously) کے مطالبات کر رہی ہے، حتیٰ کہ امریکی کانگریس نے بھارت کی پارلیمنٹ سے بھی بڑھ کر ایک قرارداد منظور کرلی ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ مکمل تعاون کرے۔
یہ تین نظریات ہیں جن کے گرد بیش تر تجزیے گردش کر رہے ہیں۔ اس بات کو کہ بھارت اور امریکا دراصل علاقے کے سیاسی نقشے کو بدلنے کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہیں محض سازشی نظریہ (conspiracy theory) کا نام دیا جا رہا ہے حالانکہ ان تینوں منظرناموں میں کوئی بہت زیادہ فرق نہیں ہے کہ سب کا ہدف بالآخر پاکستان کو قابو میں کرنا ہے۔ اور جس بات کو کھلے انداز میں نہیں کہا جا رہا حالانکہ وہی اصل ہدف ہے، یعنی پاکستان کو کسی نہ کسی طرح بھارت کی چھتری تلے لے آیا جائے اور اس کے لیے اگر اس کے خدانخواستہ حصے بخرے کرنے پڑیں تو یہ بھی کرڈالا جائے۔ پاکستان کا اسلامی تشخص، قوم کا جذبۂ جہاد اور ملک کی ایٹمی اور دفاعی صلاحیت اصل ہدف ہیں۔ اس سلسلے میں جہادی قوتیں اور آئی ایس آئی کا خصوصی ذکر آتا ہے۔ ماضی میں فوج اور آئی ایس آئی کے کردار کے بارے میں ہمیں بھی شدید ترین تحفظات رہے ہیں اور ملکی سیاست میں ان کی بے جا مداخلت کی وجہ سے طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہوتی رہی ہیں لیکن ملک کے دفاع اور بیرونی دشمنوں کے مقابلے کے لیے خفیہ اداروں کا کردار ہر ملک کی ضرورت ہے اور دفاع وطن کے لیے فوج اور ان اداروں کا مضبوط اور مقابلے کی قوت اور صلاحیت سے آراستہ ہونا ازبس ضروری ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ وہ دستور اور ملک کی سیاسی قیادت کے تابع رہیں اور ان پر حاوی نہ ہوجائیں۔ بھارت اور امریکا کا ہدف ان اداروں کو کمزور کرنا ہے، انھیں دستور اور جمہوری نظامِ عمل کا حصہ بنانا نہیں ہے۔ وہ فوجی آمریت جو امریکا نواز ہو اور وہ خفیہ ادارے اور ایجنسیاں جو امریکا کے مقاصد میں ممدومعاون ہوں، ان کا اس کے ’جمہوری ایجنڈے‘ سے کوئی ٹکرائو نہیں ہوتا۔
اس پس منظر میں اگر آپ ممبئی کے خونیں سانحے پر نگاہ ڈالیں تو صاف نظر آتا ہے کہ کسی حقیقی جہادی تنظیم کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا اور نہ پاکستان کی حکومت ہی کو اس سے بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی فائدہ ہوسکتا ہے۔ جہادی تنظیموں کا اصل میدان اس وقت افغانستان ہے اور ان کا ہدف یہ ہے کہ افغانستان کو امریکا اور ناٹو کی فوجوں کے قبضے سے نجات دلائی جائے۔ ممبئی میں جو کچھ ہوا اس سے انھیں کیا فائدہ؟ اس کا تو اُلٹا نقصان ہے اور کوئی سمجھ دار قیادت جان بوجھ کر خود اپنے پائوں پر کلھاڑی مارنے کی حماقت کیوں کرے گی؟
پاکستان کی موجودہ حکومت جب سے اقتدارمیں آئی ہے، بھارت کے سامنے ریشہ خطمی بنی ہوئی ہے اور زرداری صاحب تو اپنی زندگی کا مشن ہی یہ بتا رہے ہیں کہ وہ بھارت سے دوستی اور معاشی اور ثقافتی اعتبار سے دونوں کو شیروشکر کرنا چاہتے ہیں بلکہ یہاں تک چلے گئے ہیں کہ ان کو ہرپاکستانی میں تھوڑا بہت ہندستانی نظر آتا ہے۔ جس دو قومی نظریے کی بنیاد پر ملک تقسیم ہوا تھا ان کا اس سے وفاداری کا کوئی تعلق اور رشتہ تک نہیں ہے۔ایسے حالات میں حکومت کے کسی کردار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
رہا معاملہ القاعدہ کا، تو خود امریکی اداروں اور قیادت کے ارشادات کی روشنی میں اس کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور وہ اپنے بقا کی جدوجہد کر رہی ہے۔ پھر اس کا اصل ہدف اس وقت امریکا ہے بھارت نہیں۔ فوج اور سامان کی نقل و حرکت اور ضروریات کی فراہمی کے اعتبار سے کوئی آپریشن کرنے کے لیے، اس کے لیے ممبئی سے زیادہ غیرموزوں کوئی جگہ نہیں ہوسکتی۔ پھر اسے کیا پڑی (logistics) ہے کہ وہ ممبئی میں جاکر اس نوعیت کا خونیں کھیل کھیلے۔
بھارت کی اب تک کی اعلان شدہ معلومات کی روشنی میں ممبئی کا جو واقعہ سامنے آتا ہے، ذرا دیکھیے کہ اس سے کیا نقشہ بنتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ۲۳نومبر کو یہ ۱۰افراد پاکستانی بحری جہاز کے ذریعے ممبئی کے قریب پہنچ کر کشتیوں کے ذریعے شہر پہنچے۔ سب سے پہلے ریلوے اسٹیشن پر غالباً تین افراد نے خون خرابا کیا اور جب ایک دہشت گرد (جسے اجمل عامرقصاب کہا جا رہا ہے اور اسے زندہ پکڑنے کی بات کی جارہی ہے وہ یہیں) بھارت کی پولیس کے ہاتھ آیا۔ باقی ۷ افراد نے تاج ہوٹل، اوبرائے ہوٹل اور یہودی مرکز پر قبضہ کیا۔ اس حساب سے ہوٹل میں ۴، دوسرے میں ۳ اور یہودی مرکز میں ۲ دہشت گردوں نے کارروائی کی اور ۶۰ گھنٹے تک ممبئی کی پولیس، کمانڈوز اور فوج کو تگنی کا ناچ نچاتے رہے۔ نہ معلوم یہ کون سی ماورائی مخلوق تھی کہ چند مہینوں کی تربیت سے ان میں وہ صلاحیتیں پیدا ہوگئیں اور تاج جیسے عظیم ہوٹل میں جس میں غالباً ۶۰۰ سے زیادہ کمرے ہیں، چار افراد نے سیکڑوں افراد کو یرغمال بنا لیا اور بھارتی کمانڈوز کی پوری فوج ظفرموج کو غیرمؤثر بنائے رکھا۔ یہ کیسے نابغۂ روزگار نوجوان تھے، جو ۳ دن میں ممبئی کی گلی گلی سے واقف ہوگئے اور تاج ہوٹل جیسے عظیم الشان ہوٹل کے چپے چپے پر انھیں قدرت حاصل ہوگئی۔ ہوٹل کی سیکورٹی کے نظام کو انھوں نے غیرمؤثر کردیا۔ پولیس کے اعلیٰ عملے خصوصیت سے انسدادِ دہشت گردی دستوں (ATS) کے تین چوٹی کے افسروں بشمول کرکرے کو، جنھوں نے ہندو دہشت گردوں اور ان کے فوج کے حاضر سروس معاونین کا پردہ چاک کیا تھا، اصل معرکے کی جگہ پر نہیں، ایک ہسپتال کی طرف بلاکر ہلاک کردیا۔
دہشت گردی کے ماہرین کی راے ہے کہ ممبئی جیسا آپریشن مقامی لوگوں کی بھرپور معاونت کے بغیر ممکن نہیں، اور ایسا آپریشن ۱۰ نہیں کم از کم ۵۰ سے ۶۰ افراد کی شرکت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ لندن کے اخبار دی ٹیلی گراف نے اپنی ۱۶ دسمبر ۲۰۰۸ء میں اپنے ممبئی کے نمایندے ڈیمین ایم راے (Damien Mcel Roy) کے توسط سے یہ رپورٹ شائع کی ہے کہ عسکریت پسندوں کو بھارتی عناصر کی معاونت حاصل تھی۔ یہ بھی ایک معما ہے کہ فروری ۲۰۰۸ء سے ممبئی میں کسی بڑے آپریشن کے بارے میں انٹیلی جنس کی مختلف رپورٹیں سامنے آرہی تھیں۔ ستمبر میں پانی کے راستے سے حملے کی رپورٹ بھی آئی۔ امریکی انٹیلی جنس نے بھی کم از کم دو بار رپورٹ دی۔ یہ ساری اطلاعات پولیس کو، حتیٰ کہ بحریہ کو بھی حاصل تھیں مگر ان سب کے باوجود کسی کو ان ۱۰ سرپھرے نوجوانوں کی آمد اور شہر کے پانچ حصوںپر قبضے کی کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ بھارتی اخبارات نے یہ معلومات بھی دی ہیں کہ تاج ہوٹل کے پاس بحری محافظوں کا ادارہ واقع ہے جس کی اپنی سیکورٹی فورس ہے جو ۱۰ منٹ میں جاے حادثہ پر پہنچ سکتی تھی مگر اسے زحمت نہیں دی گئی اور کمانڈوز کے آنے میں کئی گھنٹے لگ گئے۔ ممبئی پولیس کے انسدادِ دہشت گردی دستوں (ATS) کے سربراہ ہیمانت کرکرے اور اس کے دو ساتھیوں کے پُراسرار قتل کے بارے میں بھارت کے وزیرمملکت براے اقلیتی امور عبدالرحمن انتولے (A.R. Antulay) کا بیان بھارتی پارلیمنٹ ہی نہیں پوری سیاسی دنیا میں ہلچل کا باعث ہواہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان پولیس افسروں کی ہلاکت ایک معما ہے جس کی آزادِ تحقیق ہونی چاہیے۔ ان کو کس نے پیغام دے کر ہسپتال کے محاذ پر بلایا اور پھر ہلاک کردیا؟ اس کے لیے انھوں نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں وہ یہ ہیں کہ:
a victim of terrorism plus something
ان کی موت کا فائدہ بی جے پی اور ہندو دہشت گردوں کے گروہوں کو ہوا ہے، کسی مسلمان گروہ کو نہیں۔ موصوف کے اس بیان پر ہندو انتہاپسند آتش سیخ پا ہیں اور ان کو برطرف کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن انتولے صاحب اپنی بات پر قائم ہیں اور ان کے اس موقف نے ممبئی کے پورے ہنگامے کی نوعیت ہی کو بدل کر رکھ دیاہے۔
اب کھلے الفاظ میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ ممبئی کے واقعات کا فائدہ کس کو ہوا ہے اور کیا وہی ہاتھ اس کے پیچھے نہیں جو فائدہ اٹھانے والے ہیں؟ برین کلولی (Brian Cloughley) جس کے اہم مضامین یورپ اور ایشیا میں شائع ہوتے ہیں اور جو افواجِ پاکستان پر ایک کتاب کا مصنف ہے، وہ اپنے ۱۷ دسمبر ۲۰۰۸ء کے مضمون ممبئی کے واقعات سے فائدہ کس کا؟(Who Benefits from the Mumbai? ) میں لکھتا ہے:
ممبئی کے قتل و غارت سے نہ بھارت کی کانگریس کی اتحادی حکومت کو کوئی فائدہ ہوا ہے، نہ حملہ آوروں کو (سواے ایک کے سب مرچکے ہیں)، اور یقینا پاکستان کو بھی نہیں (جہاں اقوام متحدہ کے مطابق اس سال کے پہلے ۸ مہینوں میں ۱۴۴۵ شہری ہلاک ہوچکے ہیں)۔
پھر فائدہ کسے ہے؟ ایک جواب، بدقسمتی سے یہ ہے کہ بی جے پی، اور آر ایس ایس، وی ایچ پی اور شیوسینا میں اس کے حامیوں کو۔(ڈیلی ٹائمز، ۱۷ دسمبر ۲۰۰۸ء)
لندن کے روزنامہ دی گارڈین میں۱۸ دسمبر۲۰۰۸ء کی اشاعت میں سہیل حلیم کا مضمون India's Problems Lie Within شائع ہوا ہے جس میں مضمون نگار ہندستانی مسلمانوں اور ہندو دہشت گردوں کا خصوصیت سے ذکر کرتا ہے۔ مضمون کے یہ حصے خصوصیت سے مطالعے کے لائق ہیں:
جب بھارت اور پاکستان میں کشیدگی ختم ہوجائے اور ممبئی کے حملوں کی گرد بیٹھ جائے تو بھارت کی سیاسی قیادت کو اپنا جائزہ آپ لینا چاہیے۔ ہوسکتا ہے کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے گروپ اس حملے میں ملوث ہوں، یا پاکستان کی بدنام آئی ایس آئی نے ان کو تربیت دی ہو، یا امداد فراہم کی ہو، لیکن بھارت کے اندر جو گڑبڑ ہے، اس کا الزام پاکستان پر دھرنا سیاسی حکمت کے خلاف ہے۔ دراصل بھارت خود اپنے آپ سے جنگ کی حالت میں ہے۔ ۲۰ برس سے کشمیر کا مسئلہ اپنی انتہا پر ہے اور بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں کا اس سے بھی زیادہ مدت سے۔ مگر بھارت کا خطرناک ترین مسئلہ اقلیتوں سے اس کا سلوک ہے۔ مسلمانوں کے حالات کے بارے میں سچرکمیٹی کی رپورٹ سے معلوم ہوا کہ سماجی، تعلیمی اور معاشی ہر حوالے سے وہ ہندو اکثریت سے بہت پیچھے ہیں۔ سول، فوج اور پولیس ملازمتوں میں ان کی نمایندگی ۴ فی صد سے زیادہ نہیں۔ تعلیمی سہولیات بھی بہت کم ہیں۔ اگر کچھ لوگ آگے نکلتے بھی ہیں تو وہ ہرقدم پر رکاوٹیں پاتے ہیں۔ ہندو قوم پرستوں کے رویے کے ساتھ مل کر یہ ناانصافی کے احساس کو بڑھاتا ہے۔ ۱۶ برس ہوئے بابری مسجد ہندو انتہاپسندوں نے زمین بوس کر دی تھی۔ اس کے بعد کے فسادات میں ایک ہزار مسلمان ہلاک ہوئے۔ تین ماہ بعد ممبئی میں بم دھماکوں میں ۲۵۰ ہندو مارے گئے۔ ہر دو طرف ان واقعات کے ذمہ داروں کے ساتھ جو رویہ رکھا گیا وہ تقابلی مطالعے کے لیے ایک عمدہ موضوع ہے۔ دھماکوں کے ملزموں نے ۱۵ برس جیل میں گزارے اور اب ان کو سخت سزائیں دی گئی ہیں، جب کہ پہلے والوں کے مقدمے عدالتوں تک بھی نہیں پہنچے۔
۲۰۰۰ء میںگجرات کے فسادات میں ایک ہزار سے زیادہ مسلمان مارے گئے، جب کہ زیادہ تر بیانات کے مطابق پولیس تماشا دیکھتی رہی اور مجرموں کو شہہ دی۔
گذشتہ چند برسوں میں بھارت میں جگہ جگہ دہشت گرد حملے ہوئے ہیں: دہلی، جے پور، حیدرآباد، احمد آباد، ورناسی، اجمیر، بنگلور۔ ان سب میں مختلف مسلم تنظیموں کو، مثلاً اسٹوڈنٹ اسلامک موومنٹ آف انڈیا (SIMI ) اور انڈین مجاہدین (جس کا نام حال ہی میں سنا گیا) ملوث کیا گیا۔ مسجد اور درگاہیں ان کا نشانہ تھیں۔
وہ لوگ جنھیں قانون نافذ کرنے اور تفتیش کرنے والے اداروں پر پہلے ہی اعتماد نہیں ہے وہ ان واقعات کو اس بات کا ثبوت سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کو غیرمنصفانہ طور پر ہدف بنایا جا رہا ہے۔ ان کا سادہ سوال یہ ہے: اسلامی دہشت گرد آخر اپنی عبادت گاہوںکو کیوں نشانہ بنائیں گے؟
اس صورت حال نے ایک اچھا موقع فراہم کر دیا ہے۔ اگر شفاف تحقیقات ہوں تو انصاف کے تقاضے پورے ہونے کا آغاز ہوجائے گا۔ مگر گجرات اور بابری مسجد فسادات بھلائے نہیں جاسکتے۔ معاشی اور سماجی فرق دُور کرنے پر زور دینا بڑی اچھی بات ہے مگر ابھی ایسے خاندان، بیویاں، بہنیں اور بیٹیاں موجود ہیں جو اپنے پیاروں کا افسوس کر رہی ہیں اور انصاف کی منتظر ہیں۔
ایک اورنہایت اہم مضمون بھارت کی مشہور دانش ور اور عالمی شہرت کی ناول نگار ارون دھتی راے (Arundhati Roy) کا ہے جو لندن کے اخبار دی گارڈین میں ۱۳ دسمبر ۲۰۰۸ء کو شائع ہوا ہے۔ یہ پورا مضمون پڑھنے کے لائق ہے۔ آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ:
ہم اپنے المیوں کے باعث اپنے حقوق سے بھی ہاتھ دھو چکے ہیں۔ ممبئی المیہ کئی روز تک جاری رہا، اس دوران ہمارے میڈیا چینل ہمیں ۲۴گھنٹے مطلع کرتے رہے کہ ہم ’بھارت کے نائن الیون‘ کا نظارہ کر رہے ہیں۔ جوں جوں برعظیم میں اضافہ ہوا، امریکی سینیٹ کے رکن جان مکین نے پاکستان کو وارننگ دی کہ اگر اس نے ’بدمعاشوں‘ کو گرفتار کرنے میں سُرعت سے کام نہ لیا تو مکین کی ذاتی اطلاع کے مطابق بھارت پاکستان میں ’دہشت گردی کے اڈوں‘ پر فضائی حملے کردے گا اور امریکا بھی کچھ نہ کرسکے گا کہ یہ ’بھارت کا نائن الیون‘ ہے۔
یہ بڑی عجیب بات ہے کہ نومبر ۲۰۰۸ء کے آخری ہفتے میں (مقبوضہ) کشمیر کے ہزاروں افراد جن کی نگرانی بھارت کے کئی ہزار فوجی کر رہے تھے، ووٹ ڈالنے کے لیے انتخابی مراکز پر لائنیں لگائے ہوئے تھے لیکن ادھر بھارت کے امیرترین شہر کا امیر ترین حصہ جنگ سے بُری طرح متاثر کپواڑہ کا منظر پیش کر رہا تھا جو مقبوضہ کشمیر کا سب سے زیادہ متاثر ضلع ہے۔
مسز راے مسلمانوں کی زبوں حالی، عیسائیوں پر مظالم، اور ہندو انتہا پسندوں کی ذہنیت اور کھلے کھلے انسانیت کش اقدامات کا ذکر کرنے کے بعد لکھتی ہیں:
ممبئی کے واقعات ۲۴ گھنٹے تک بھارت کے ۶۷ ٹی وی چینلوں سے نشر ہوتے رہے اور ان پر تبصرے بھی کیے گئے۔ تین دن اور تین راتیں نوجوانوں کا ایک مختصر گروپ (کُل تعداد ۱۰ بتائی جاتی رہی ہے) بھارت میں امن وامان قائم کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو تگنی کا ناچ نچاتا رہا۔ بالآخر ان میں سے ۹ کو ہلاک کردیا گیا۔ بھارتی ٹی وی چینل نے حملہ آوروں میں سے ایک کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت بھی نشر کی۔ اس نے اپنا نام بابر بتایا۔ اس نے بابری مسجد کو گرانے، گجرات میں مسلمانوں کے قتلِ عام اور کشمیر میں مظالم کا ذکر کیا۔ جب ٹی وی کے نمایندوں نے کہا کہ وہ تو گھیرے میں آچکے ہیں، ہتھیار کیوں نہیں ڈال دیتے؟ تو اس نے کہا کہ ’’شیر کی طرح ایک دن زندہ رہنا اور پھر جان دے دینا بہتر ہے‘‘۔
بھارت میں دہشت گردی کے مختلف واقعات اور اس سے عیاں ہونے والے طریقِ واردات (pattern) کا قدرے تفصیل سے ذکر کرنے کے بعد محترمہ راے مالے گائوں والے واقعے کا ذکر کرتی ہیں جس کی اولیں ذمہ داری مسلمانوں پر ڈالی گئی تھی اور آئی ایس آئی کو بھی اس میں ملوث کیا گیا تھا۔ مگر حقیقت کیا نکلی اور اس کے بعد اس حقیقت کو دریافت کرنے والے کا کیا حشر ہوا؟ ملاحظہ ہو:
مہاراشٹر کے انسدادِ دہشت گردی دستے (ATS) نے جو مالے گائوں کے ستمبر ۲۰۰۸ء کے دھماکوں کی تحقیقات کر رہا تھا، ایک ہندو مذہبی مبلغ سادھوی پراگیا، ایک نام نہاد خدا پرست سوامی دیانند پانڈے اور بھارتی فوج کے ایک حاضر سروس لیفٹیننٹ کرنل پروہنت کو گرفتار کیا… شیوسینا، بی جے پی اور آر ایس ایس نے مہاراشٹر کے اے ٹی ایس کی مذمت کی، اس کے سربراہ ہیمانت کرکرے کو برا بھلا کہا، اور دعویٰ کیا کہ وہ ایک سیاسی سازش کا کردار ہے اور اعلان کیا کہ ’’ہندو دہشت گرد نہیں ہوسکتے‘‘۔
ایل کے ایڈوانی نے بڑے بڑے اجتماعات میں ولولہ انگیزتقاریر کیں اور انسدادِ دہشت گردی دستوں کی مذمت کی کہ اس نے مقدس مرد و خواتین پر شبہہ کرنے کی جسارت کی۔
۲۵ نومبر کو اخبارات نے خبر دی کہ اے ٹی ایس مالے گائوں دھماکوں کے حوالے سے وی ایچ پی کے سربراہ پراون ٹوگاڈیا کے بارے میں تحقیقات کررہا ہے۔ اگلے ہی دن قسمت کا کھیل سمجھیے کہ کرکرے ممبئی کے حملوں میں ہلاک ہوگیا۔ اب امکانات ہیں کہ جو بھی نیا سربراہ ہوگا اس پر مالے گائوں دھماکوں کی تفتیش کے حوالے سے سیاسی دبائو ڈالا جائے گا جس کا وہ مشکل سے مقابلہ کرسکے گا۔
Times Now ٹیلی ویژن کے اینکرپرسن ارناب گوسوامی نے اپنی لَے بڑھا دی ہے، اور وہ ان لوگوں کو نام لے کر کھلم کھلا برا بھلا کہہ رہاہے جنھوں نے پولیس اور فوج کے کردار پر سوال اٹھانے کی جرأت کی ہے۔
بھارت میں دہشت گردی کے واقعات کو نائن الیون کے عالمی پس منظر میں رکھ کر امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور دہشت گردوں کی امریکا کے خلاف جدوجہد کا خلاصہ محترمہ راے یوں بیان کرتی ہیں:
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ امریکی حکمت عملی اس حد تک تو کامیاب ہے کہ نائن الیون جیسا حملہ اس کے بعد پھر نہیں ہوا ہے لیکن کچھ دوسرے لوگ کہیں گے کہ اب امریکا جن مشکلات سے گزر رہا ہے وہ ان سے بدتر ہیں۔ اگر نائن الیون دہشت گرد حملوں کا مقصد یہ تھا کہ امریکا اپنے اصل رنگ میں سامنے آجائے تو دہشت گردوں کو اس سے زیادہ کامیابی اور کیا مل سکتی تھی؟ امریکی فوج دو ناقابلِ فتح جنگوں میں پھنسی ہوئی ہے جس نے امریکا کو دنیا کا سب سے زیادہ قابلِ نفرت ملک بنا دیا ہے۔ ان دوجنگوں نے امریکی معیشت کو بڑی حد تک ادھیڑ دیا ہے، اور کیا خبر کہ بالآخر امریکی سلطنت کا بھی یہی حشر ہو۔ (کیا یہ ہوسکتا ہے کہ وہی مصیبت زدہ اور بم باری سے تباہ حال افغانستان جو سوویت یونین کا قبرستان بنا ، امریکا کا بھی بن جائے؟)کئی لاکھ افراد بشمول کئی ہزار امریکی فوجی عراق اور افغانستان میں اپنی جانیں کھو چکے ہیں۔ امریکا کے حلیفوں اور ایجنٹوں بشمول بھارت اور باقی دنیا میں امریکی مفادات پر نائن الیون کے بعد دہشت گرد حملوں کی کثرت میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہو گیا ہے۔ جارج بش جس نے نائن الیون پر امریکی ردعمل کی قیادت کی، ایک قابلِ نفرت شخصیت بن گیا ہے، نہ صرف بین الاقوامی طور پر بلکہ اپنے لوگوں کی نظروں میں بھی۔ کون کہہ سکتا ہے کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت رہا ہے؟
محترمہ راے کہتی ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف قوانین اور ہوم لینڈ سیکورٹی سے سیکورٹی حاصل نہیں ہوسکتی۔ یہ صرف مخالفین کی زبان بندی کے حربے ہیں۔ امریکا تک میں سزایابی کی شرح (conviction rate) صرف دو فی صد ہے۔ جسے ہم دہشت گردی کہتے ہیں، اس کا راستہ اس طرح نہیں روکا جاسکتا۔ یہ ہمارے ہی اپنے کیے کا بدلہ ہے:
اس وقت ہم (بھارت) دوراہے پر کھڑے ہیں۔ ایک طرف کا راستہ انصاف کی طرف جاتا ہے اور دوسرا خانہ جنگی کی طرف۔ کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے۔ ہم پیچھے بھی نہیں جاسکتے۔ راستے کا چنائو بھارتی حکومت کو کرنا ہے۔
بھارت کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے جی بالاکشنان (K.G Balakishnan) نے ۱۳ دسمبر ۲۰۰۸ء کو دہلی میں وزیراعظم من موہن سنگھ کی موجودگی میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں اپنے خطاب میں بڑے لطیف انداز میں دہشت گردی اور دہشت گردی کے نام پر دہشت گردی کے موضوع پر بڑا اہم خطاب کیا ہے جسے بھارت کے میڈیا نے تقریباً نظرانداز کیا ہے۔ صرف دی ہندو نے اس کا متن شائع کیا ہے ورنہ سارا آزاد پریس اسے بلاتکلف ہضم کرگیا ہے۔ پورا خطاب پڑھنے کے لائق ہے۔ صرف چند اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں۔
جسٹس بالاکشنان بین الاقوامی قانون اور ملکی قانون کے دائرہ ہاے کار کا ذکر کرنے کے بعد ایک بڑے بنیادی مسئلے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے پوری دنیا میں امن کو شدید خطرہ ہے:
مسلّمہ اصول اور ضابطے سرحدپار دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملوں کے لیے بین الاقوامی تعاون میں رکاوٹ ہیں۔ مجرموں کو حوالے کرنے یا تفتیش میں تعاون کے لیے دوطرفہ معاہدات نہ ہوں تو دہشت گرد حملوں کی تفتیش کے لیے کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے قوموں میں باہمی تعاون کے واضح اور مرتب ضوابط نہیں ہیں، اس لیے امریکا جیسے ملکوں نے اپنے اصول خود وضع کیے، مثلاً پیشگی حملے کا اصول تاکہ بیرونی ملکوں میں دہشت گردی کے خلاف کارراوئی کے لیے جواز حاصل ہوسکے۔ لیکن صرف دہشت گردوں کا پیچھا لینا کسی قوم کی خودمختاری کے خلاف من مانی کارروائی کے لیے جواز نہیں ہوسکتا۔
افراد کے اقدام پر حکومتوں کو موردِ الزام ٹھیرائے جانے کے بارے میں بھارت کے چیف جسٹس کہتے ہیں:
ایک دوسرا مسئلہ جو ممبئی کے واقعات سے سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ ریاست کو غیر ریاستی عناصرکے اعمال کا ذمہ دار ٹھیرایا جائے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومتوں کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے جنگجو گروپوں کی سرگرمیوں پر قابو پائیں اور روکیں لیکن یہ کہنا آسان اور کرنا مشکل ہے۔ مثال کے طور پر بہت سے دہشت گرد گروپ مغربی ملکوں سے جہاں کی پولیس اور جرائم کی روک تھام کے نظام برعظیم سے زیادہ بہتر اور سخت ہیں، اسلحہ اور مالی وسائل حاصل کرلیتے ہیں۔
بغیر مقدمہ چلائے آزادی سے محروم کردینے کے بارے میں چیف جسٹس فرماتے ہیں:
حالیہ برسوں میں فرد کے حقوق محدود کرنے کے تباہ کن راستے کی سب سے نمایاں مثال گوانتانامو کے اسیروں کے ساتھ سلوک ہے۔یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انھوں نے ہزاروں اسیروں کو طویل عرصے تک بغیر الزام لگائے قید رکھا یا آزادانہ قانونی چارہ جوئی کے مواقع بھی فراہم نہ کیے۔
امریکی انتظامیہ نے ان طریقوں کا دفاع یہ کہہ کر کیا کہ گوانتانامو کے اسیروں کو فوجی کمیشن، ریویو بورڈ اور ریویو ٹریبونلوں کے سامنے اپیل کا حق حاصل ہے۔ ۲۰۰۶ء کے ایک مقدمے میں یہ فیصلہ دیا گیا کہ دہشت گردی کے شبہہ میں گرفتار لوگوں کے ہیبیس کارپس (habeas corpus) کے حق سے انکار نہیں کیا جاسکتا، اور انھیں سول عدالتوں تک جانے کا موقع ملنا چاہیے۔ اس کا جواز یہ تھا کہ فوجی ٹریبونلوں کو یہ آزادی حاصل نہ تھی کہ وہ ان اسیروں پر مقدمہ چلائیں جنھیں فوجیوں ہی نے گرفتار کیا تھا۔
امریکا، برطانیہ اور بھارت کے دساتیر اور قانونی فیصلوں کی بنیاد پر تفتیش میں استعمال کیے جانے والے تشدد کے حربوں کے بارے میں چیف جسٹس نے فرمایا:
ہمیں قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے تعذیب (torture) اور دوسرے جبریہ تفتیشی طریقوں سے محتاط رہنا چاہیے۔ ان تفتیشی طریقوں کی مدد سے عموماً جھوٹے اعترافات کروائے جاتے ہیں۔ یہ دہشت گرد حملے روکنے میں کوئی مدد نہیں دیتے۔ ہمیں تمام افراد کے لیے، خواہ ان کے جرائم کتنے ہی گھنائونے کیوں نہ ہوں منصفانہ مقدمے کے حق کا علَم بردار ہونا چاہیے۔ اگر ہم اس حق میں کمزوری کا مظاہرہ کریں گے یہ تو ان لوگوں کے خلاف جو تشدد اور نفرت کا پرچار کرتے ہیں، اخلاقی کمزوری کا ثبوت ہوگا۔ ہمیں ایک بالغ نظر جمہوری معاشرے اور چند لوگوں کے اقدامات کے درمیان تمیز کرنا چاہیے۔
جسٹس بالا کرشن نے ممبئی اور دہلی کے واقعات کی روشنی میں جس واضح انداز میں قانون کی پوزیشن واضح کی ہے، وہ بھارت کی حکومت ہی نہیں ہماری اپنی حکومت اور امریکا اور یورپ کے بہت سے جمہوری ممالک کی حکومتوں کے لیے ایک تنبیہہ اور واضح رہنمائی کی حیثیت رکھتی ہے۔ انسان کی جان اور اس کی آزادی اور عزت کو جو خطرات نائن الیون کے بعد دہشت گردی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے رونما ہوئے ہیں، ان کا مقابلہ انسانی تہذیب کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔مستقبل کا انحصار قانون کی حکمرانی اور سب کے لیے انصاف کے قیام میں ہے۔ انصاف ہی وہ ضمانت ہے جو دہشت گردی سے بھی انسانیت کو نجات دلا سکتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جو دہشت گردی ہو رہی ہے اس سے بھی۔