جنوری ۲۰۰۹

فہرست مضامین

کراچی کا مسئلہ پس منظر و پیش منظر

پروفیسر عبدالغفور احمد | جنوری ۲۰۰۹ | شذرات

Responsive image Responsive image

کراچی صوبہ سندھ کا دارالحکومت، آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا شہر اور اہم بندرگاہ ہے۔ صنعت و تجارت کا مرکز ہے اور اس کی امتیازی شان یہ ہے کہ پاکستان کے تمام علاقوں کے لوگ یہاں آباد ہیں۔ اسی وجہ سے کراچی کو منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ مرکز کو وفاقی محاصل کا ۶۰فی صد اور صوبہ سندھ کو اُس کی آمدنی کا تین چوتھائی حصہ شہر کراچی ہی سے ملتا ہے۔ اِسے ملک کی اقتصادی شہِ رگ ہونے کا فخر حاصل ہے۔ تشکیلِ پاکستان کے بعد تقریباً ۴ عشروں تک صوبہ سندھ کے شہری اور دیہی علاقے امن و امان کا گہوارہ تھے اور تمام لوگ محبت اور خلوص کے ساتھ شہر کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے تھے۔

کراچی کی آبادی کا بڑا حصہ اُن مہاجرین (اور ان کی اولاد) پر مشتمل ہے جو تشکیلِ پاکستان کے بعد بھارت کے ان صوبوں سے یہاں منتقل ہوئے جہاں مسلمان اقلیت میں تھے۔ اس شہر کی دوسری بڑی آبادی پختونوں پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب، بلوچستان اور اندرونِ سندھ کے افراد بھی یہاں موجود ہیں۔ مہاجروں میں تعلیم کے حصول کا جذبہ پایا جاتا ہے، لیکن کراچی میں سرکاری تعلیمی ادارے نہ ہونے کے برابر تھے، اسی لیے بہت سے لوگوں نے (جن میں مہاجر بھی شامل تھے) خود یہاں نجی اسکول و کالج قائم کیے۔ اس کے نتیجے میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد کراچی میں موجود ہے۔ یہاں مہاجروں، پختونوں، پنجابیوں اور بلوچوں میں کبھی کوئی اقتصادی تصادم نہیں رہا۔ پختون زیادہ تر محنت مزدوری اور ٹرانسپورٹ کے شعبے سے منسلک ہیں جن میں مہاجرین کو کوئی دل چسپی نہیں۔ لیکن مہاجروں میں بے چینی پائی جاتی تھی کیونکہ دیہی علاقوں کے لیے کوٹے (quota) اور ڈومیسائل کی وجہ سے مہاجر نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اہلیت کے باوجود سرکاری ملازمتوں سے محروم رہتی تھی۔ اسی طرح حکومت کے تحت دیگر بڑے ادارے جیسے  پی آئی اے، کے پی ٹی، اسٹیل مل وغیرہ میں بھی مہاجر نوجوانوں کو ان کی تعداد اور تعلیم کے لحاظ سے ملازمتوں میں حصہ نہیں ملتا۔ ملک گیر سیاسی جماعتیں ان شکایات کے حل کے لیے ہمیشہ کوشاں رہی ہیں، لیکن ان کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اپنے سیاسی پروگرام کو صرف سندھ کے شہری علاقوں تک محدود رکھتے۔

اس پس منظر میں جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں ۱۹۸۱ء میں ایک مہاجر طلبہ تنظیم  ’آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن‘ (اے پی ایم ایس او) کے نام سے کراچی یونی ورسٹی میں قائم ہوئی، جسے خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی جس کے بعد الطاف حسین صاحب امریکا چلے گئے جہاں وہ  کئی سال رہے۔ مارچ ۱۹۸۴ء میں الطاف حسین نے مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے نام سے ایک جماعت کی بنیاد ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ مہاجروں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ انھیں تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور وہ اقتصادی ترقی اور سیاسی اقتدار میں شراکت سے محروم رہے ہیں۔ ملازمتوں کے لیے شائع ہونے والے سرکاری اشتہارات میں یہ ہدایت درج ہوتی ہے کہ کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے لوگ درخواست دینے کی زحمت نہ کریں۔ اس طرح وہ ملازمتوں سے محروم رہتے ہیں اور اس طرح ان کے اندر بے بسی، محرومی اور نتیجتاً غم و غصے کے جذبات پیدا ہوئے اور بتدریج پرورش پانے لگے۔

ایم کیو ایم کو جنرل ضیاء الحق کا پورا تعاون حاصل تھا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ مقامی لسانی تنظیم کو آسانی سے قابو میں رکھا جاسکتا ہے اور اس کے ذریعے ملک گیر سیاسی جماعتیں بے اثر بنائی جاسکتی ہیں۔ جنرل ضیا کی اس پالیسی میں (اس وقت کے) سندھ کے وزیرِ اعلیٰ غوث علی شاہ اور کراچی میں تعینات بعض فوجی حکام بھی ایم کیو ایم کے معاون رہے۔

ان دل کش نعروں کے باوجود ایم کیو ایم کو زیادہ پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی۔ جماعت اسلامی کے دیرینہ کارکن عبدالستار افغانی ۱۹۷۹ء سے ۱۹۸۷ء تک کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے میئر کے منصب پر فائز رہے اور کراچی کے عوام کے لیے ایسی خدمات انجام دیں جو آج بھی عوام کو یاد ہیں۔

کراچی میں ہونے والے ٹریفک کے بعض حادثات نے ایم کیو ایم کو مقبول بنا دیا۔   ۱۹۸۵ء میں ۵ اپریل کو بشریٰ زیدی کی ہلاکت اور ۹مئی اور ۱۴ مئی کے حادثات میں نوجوانوں کے کچلے جانے نے عوام کو مشتعل کردیا۔ بسوں اور ٹرکوں کو آگ لگا دی گئی۔ پولیس نے مظاہرین کو  تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس صورتِ حال میں کراچی میں بار بار کرفیو نافذ کرنا پڑا۔ فوج بھی طلب کی گئی۔ سیکڑوں افراد گرفتار کر لیے گئے اور سیکڑوں پولیس کے تشدد کا نشانہ بنے۔

کراچی میں ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں کی بڑی تعداد پختونوں پر مشتمل ہے۔ بسوں اور منی بسوں کی ملکیت میں پولیس بھی شریک ہے۔ اس صورت حال میں ٹرانسپورٹروں، ان کے حامیوں اور شہریوں کے درمیان تصادم کی فضا پیدا ہو گئی۔ ٹریفک کے مسلسل حادثات اور پولیس کے ظالمانہ رویے کے خلاف شہریوں کے جذبات بھڑک اٹھے۔ مہاجروں اور پختونوں کے درمیان فاصلے پیدا ہو گئے۔ نسلی اور لسانی منافرت کو فروغ ملا اور افسر شاہی اور نوکر شاہی نے شکایات کے اِزالے کے بجاے دوریاں پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

اپریل ۱۹۸۶ء میں بنگلہ دیش میں محصورینِ پاکستان کے ڈھاکا کیمپ میں آگ لگنے سے ۳۵ افراد جاں بحق ہو گئے۔ اورنگی میں مشرقی پاکستان سے آئے ہوئے افراد نے اس کے خلاف ایک پُرامن مظاہرہ کیا اور مطالبہ کیا کہ حکومت محصورین کی واپسی کو یقینی بنائے۔ پولیس نے بغیر کسی جواز کے ان پر پُرتشدد لاٹھی چارج کر کے مظاہرین کو زخمی کر دیا اور بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا گیا۔

اس طرح ایم کیو ایم کی لسانی سرگرمیوں کے لیے میدان ہموار ہو گیا۔ اس نے اپنی بھرپور قوت کا پہلا مظاہرہ ۸ اگست ۱۹۸۶ء کو نشتر پارک کراچی میں منعقد ہونے والے جلسے میں کیا۔ جلسے میں پورے شہر سے مہاجروں نے جلوسوں کی شکل میں آکر بہت بڑی تعداد نے شرکت کی اور بارش کے باوجود کامل سکون کے ساتھ الطاف حسین کی تقریر سنی۔ اس کے بعد دوسرا بڑا جلسہ حیدرآباد پکا قلعہ میں منعقد ہوا۔ یہ بھی حیدرآباد کی تاریخ کا بہت بڑا جلسہ تھا۔ الطاف حسین نے مطالبہ کیا کہ مہاجروں کو پانچویں قومیت تسلیم کیا جائے۔ سندھ میں ہماری آبادی کے لحاظ سے حقوق دیے جائیں۔ شہری علاقوں میں ملازمت میں کیا جانے والا غیرمنصفانہ سلوک ختم کیا جائے، کوٹا سسٹم اور ڈومیسائل کی پابندیاں ختم کی جائیں۔ جو لوگ دوسرے علاقوں سے کراچی میں آکر یہاں آباد ہوئے ہیں، انھیں ان کے علاقوں میں واپس کیا جائے۔ پی آئی اے، کے پی ٹی، اسٹیل مل اور شپ یارڈ میں مہاجروں سے ناانصافی ختم کی جائے۔ کراچی میں مقامی پولیس تعینات کی جائے۔ کھوکھرا پار کا راستہ کھولا جائے اور یہ کہ کراچی منی پاکستان نہیں، سندھ کا بڑا شہر ہے۔ محصورین کو واپس لایا جائے۔ الطاف حسین نے یہ بھی کہا کہ مہاجروں کو قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے لیکن اب مہاجر متحد ہیں اور اپنے حقوق لے کر رہیں گے۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نومبر ۱۹۸۷ء میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم نے کراچی اور حیدرآباد میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ اس کے باوجود جماعت اسلامی ایک اہم جماعت کی حیثیت سے سرگرمِ عمل رہی۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں جماعت اسلامی کراچی کے سابق امیر نعمت اﷲ خان سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کے ناظم (میئر) منتخب ہوئے۔ انھوں نے اہالیانِ کراچی کی قابلِ قدر خدمات انجام دیں، حتیٰ کہ جنرل پرویز مشرف کو بھی ان کی کارکردگی کی تعریف کرتے ہی بنی۔

۱۹۸۸ء کے بعد تمام انتخابات میں ایم کیو ایم نے سندھ کے شہری علاقوں میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ وہ صوبے اور مرکز میں مسلسل اقتدار میں شامل رہی۔ لیکن اس دوران وہ ان تمام دعووں کو بالکل بھول گئی جو اس نے اس سے قبل کراچی اور حیدرآباد میں ہونے والے جلسوں میں کیے تھے۔ ایم کیو ایم کے لیے قربانیاں دینے کے باوجود مہاجروں کو وہ کچھ حاصل نہ ہو سکا جس کا وعدہ ان سے کیا گیا تھا۔ البتہ ایم کیو ایم کے عہدے داروں نے اپنے لیے بہت کچھ حاصل کرلیا۔ الطاف حسین کے زیرِ استعمال جو ہنڈا موٹر سائیکل تھی اُسے نمایش کے لیے رکھا گیا لیکن آج متحدہ کے بہت سے کارکن قیمتی کاریں استعمال کرتے ہیں۔

۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کے بعد ایم کیو ایم کو جنرل پرویز مشرف کی بھرپور حمایت حاصل رہی۔ ۱۲مئی ۲۰۰۷ء کو معزول چیف جسٹس افتخار چودھری جب دیگر شہروں کی طرح کراچی بار کونسل کی دعوت پر یہاں آئے تو متحدہ نے پورا شہر کراچی سیل کر دیا۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ سے بڑے بڑے کنٹینر لگا کر راستے بلاک کر دیے گئے۔ جو جلوس افتخار چودھری کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ جانا چاہتے تھے، اُن پر براہِ راست فائرنگ کی گئی جس سے ۵۰ سے زیادہ افراد جاں بحق ہو گئے لیکن جنرل پرویز نے اسلام آباد میں کہا کہ میں یہاں قوت کا مظاہرہ کر رہا ہوں اور کراچی میں ایم کیو ایم نے قوت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایم کیو ایم اس بات سے واقف ہے کہ اسے عوام میں پہلے جیسی مقبولیت حاصل نہیں ہے، اس لیے اب انتخابات میں وہ عوامی تائید پر انحصار کے بجاے دوسرے حربے استعمال کرتی ہے۔ بیلٹ بکس خود ہی ووٹوں سے بھر دیے جاتے ہیں اور اس ساری کارروائی میں اسے پولیس اور رینجرز کا خاموش تعاون حاصل رہتا ہے۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم بہت حد تک عوامی مقبولیت کھو چکی ہے۔ اگر سندھ کے شہری علاقوں میں شفاف، غیرجانب دارانہ اور منصفانہ انتخابات ہوں تو یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ اسے کتنی مقبولیت حاصل ہے لیکن سابقہ تجربے کی روشنی میں منصفانہ انتخابات کا انعقاد فی الحال ممکن نظر نہیں آتا۔

سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔ کراچی میں ان کا نامزد کیا ہوا گورنر (جس کے خلاف قتل کے فوجداری مقدمے ریکارڈ پر موجود تھے) طویل عرصے سے اس عہدے پر فائز ہے اور شہری حکومت بھی اسی کی ہے، اس کے باوجود متحدہ مسائل کے حل میں ناکام رہی ہے۔ متحدہ نے بہت بڑی تعداد میں اپنے کارکنوں کو مختلف اداروں میں ملازمتیں دلوائی ہیں جو اُن اداروں سے تنخواہ وصول کرتے ہیں لیکن کام پارٹی کے انجام دیتے ہیں۔

الطاف حسین کئی مہینے قبل سے کراچی کے لوگوں کو اس خطرے سے آگاہ کر رہے تھے کہ کراچی میں ۳ لاکھ سے زائد طالبان داخل ہو چکے ہیں جو کراچی اور پورے خطے کے امن کے لیے بڑا خطرہ ہیں لیکن سندھ کے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے کہا کہ یہ بات درست نہیں ہے۔ کراچی میں طالبان کی آمد کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ ابھی عید الاضحی سے قبل کراچی کے مختلف علاقوں میں غریب پختون، چوکیدار، ٹھیلا لگانے والے اور کاغذ چننے والے غریب پختون ہلاک کیے گئے۔ بعض مقامات پر مہاجر بھی مارے گئے۔ پورا شہر بدامنی کی لپیٹ میں رہا لیکن عید کی تعطیلات کے دوران کراچی میں مکمل امن قائم رہا اور اس طرح ایم کیو ایم نے ثابت کر دیا کہ اسے یہ قوت حاصل ہے کہ وہ جب چاہے کراچی میں بدامنی کو فروغ دے اور جب چاہے امن قائم کر دے۔

الطاف حسین نے اپنی یہ اہلیت ثابت کر دی ہے کہ وہ لندن میں بیٹھ کر پوری جماعت کو اپنے کنٹرول میں رکھ سکتے ہیں۔ انھوں نے برطانوی شہریت بھی حاصل کر لی ہے۔ وہ گاہے بگاہے کراچی، حیدرآباد اور دیگر شہروں میں ٹیلی فونک خطاب کرتے رہتے ہیں اور پارٹی کو ہدایت دیتے ہیں جن پر پوری طرح عمل کیا جاتا ہے۔ الطاف حسین کو حکمرانوں کی مکمل حمایت حاصل رہی ہے۔ پہلے جنرل پرویز مشرف ان کے حامی تھے، اب وہی کردار آصف زرداری اد اکر رہے ہیں۔ پاکستان کے تمام وزراے اعظم اور صدور (سواے سابق صدر غلام اسحاق خان) مہاجر اور اب  متحدہ قومی موومنٹ کے کراچی دفتر (جو نائن زیرو کے نام سے معروف ہے) جاتے رہے ہیں اور ایم کیو ایم کے لندن سیکرٹریٹ جا کر الطاف حسین سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔

بلاشبہہ ایم کیو ایم ایک انتہائی منظم تحریک ہے۔ اس وقت صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کو اکثریت حاصل ہے لیکن اس کے باوجود اس نے متحدہ کو حکومت میں شریک کیا تاکہ شہری علاقوں میں امن و امان قائم رہے۔ اس کے باوجود کراچی میں ابھی تک ایسا نہیں ہوسکا۔ مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی علیحدگی کے بعد پیپلز پارٹی کو اب دوسری جماعتوں کا تعاون حاصل کرنا ناگزیر ہے۔ اسے ایم کیو ایم کو حکومت میں شریک کرنا پڑے گا۔ اس میں تاخیر اس وجہ سے ہو رہی ہے کہ متحدہ اپنی مرضی کی وزارتیں لینے پر اصرار کر رہی ہے جو غالب گمان یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو دینی پڑیں گی۔

اب وقت آگیا ہے کہ پوری سنجیدگی سے اِس بات پر غور کیا جائے کہ کراچی جو بڑی اہمیت کا حامل ہے، اسے دوبارہ کس طرح امن کا گہوارہ بنایا جائے جہاں پہلے کی طرح تمام لوگ محبت کے ساتھ اور لسانی تعصبات سے بلند ہو کر اپنا کردار ادا کریں اور کراچی پھر ماضی کی طرح ملک کی ترقی میں مثبت کردار ادا کرے اور ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ کوئی بھی قوت سندھ کے شہری علاقوں کو یرغمال نہ بنا سکے۔ میں متحدہ قومی موومنٹ سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے طرزِ عمل پر نظرثانی کرے اور ان وعدوں کی تکمیل کرے جو اس نے اپنے ابتدائی دور میں کیے تھے۔ اگر اس نے ’مہاجر‘ سے بدل کر اپنا نام ’متحدہ قومی موومنٹ‘ کر لیا ہے تو اِس کا تقاضا ہے کہ وہ فی الحقیقت قومی دھارے میں آئے، تشدد اور جبر کے طریقے ترک کر دے اور پُرامن جمہوری راستہ اختیار کرے۔ مجھے یقین ہے کہ ان شاء اﷲ سندھ کے شہری علاقے ایک بار پھر ملکی سیاست میں اپنا اہم کردار ادا کریں گے۔ کراچی کی صنعتی اور تجارتی سرگرمیاں پھر بحال ہوں گی۔ سرمایہ اندرونِ ملک یا بیرونِ ملک منتقل نہیں ہو گا اور شہرِ کراچی کو ملک میں عزت اور احترام کا مقام حاصل ہو گا۔