دکھ ، رنج و الم اورآلام و مصائب انسانی زندگی کا حصہ ہیں۔ ہر انسان کو اپنی زندگی میںکبھی نہ کبھی ایسے لمحات سے ضرور گزرنا پڑتا ہے جب وہ اپنے آپ کو انتہائی تنہا، دل شکستہ ، مایوس ، تھکا ہوا اور کمزور محسوس کرتا ہے۔ افسردگی و مایوسی کے یہ جذبات ماضی کے کسی غم کا نتیجہ بھی ہو سکتے ہیں اور مستقبل کے خوف کا بھی۔ حال سے وابستہ فکریں اور پریشانیا ں بھی اس کا سبب ہوسکتی ہیں۔ اسی وقتی افسردگی کو غمگین ہونا کہتے ہیں اور اگر یہی کیفیت زیا دہ عرصے تک یا مستقل طور پر طاری ہوجائے تو ڈیپریشن کا مرض بن جاتا ہے جس کی وجہ سے انسان کسی کام کا نہیں رہتا۔درحقیقت ہرانسان کی آلام و مصائب کوسہنے کی استعداد مختلف ہوتی ہے لیکن کوئی بھی فرد طویل عرصے تک غم نہیں سہہ سکتا ہے۔لہٰذا یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں میں سے ایک رحمت ہے کہ اس نے خوشی اور غم دونوں کی کیفیا ت کو عارضی بنایا ہے۔لیکن انسان کی فطری خواہش یہ ہے کہ وہ ایک ایسی زندگی گزارے جہاں اس کو کسی بھی قسم کا کوئی خوف و غم لاحق نہ ہو۔ جنت کی زندگی کی ایک خاص بات یہی ہوگی کہ وہاں اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کے لیے وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَ (البقرہ ۲:۶۲)کی تصویر پیش کرتا ہے۔لیکن اس دنیا کے حوالے سے قرآن میں اللہ تعالیٰ فرما تے ہیں: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ (البلد ۹۰:۴)، کہ انسان کو پیدا ہی مشقت میں کیا گیا ہے۔ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدم کا بیٹا اس حا لت میں پیدا کیا گیا ہے کہ اس کے پہلو میں ۹۹مصیبتیں ہیں‘‘۔(ترمذی)
غم انسانی زندگی کا ایک اہم جز ہے۔ یہ ایک ایسی قوت محرکہ ہے جو انسان کو ہمہ وقت اس کام کے لیے فکرمند کردیتی ہے جس کی فکراسے ہلکان کیے دیتی ہے۔ انسانی زندگی میں خوشی سے زیادہ غم کے اثرات ہوتے ہیں۔ لوگوں کی زندگیوںکا بدل جانا اور ان کا رخ تبدیل ہو جانا بھی اکثر اوقات کسی نہ کسی غم اور صدمے کے سبب سے ہوتا ہے۔ عام طور پر غم ا فراد کو مایوس کرنے کا سبب بنتا ہے لیکن ایک بندۂ مومن اپنی زندگی کے غموں کو بھی اللہ کی خوش نودی کا ذریعہ بناتا ہے اور جنت کا حق دار ٹھیرتا ہے اور یہ جبھی ممکن ہے جب ہمیں یہ علم ہو کہ و ہ کون سے غم ہیں جو نجات کا ذریعہ ہیں اور اللہ کی نگا ہ میں پسندیدہ ہیں، اور کون سے غم انسان کو جہنم کے قریب کرنے اور ذلت و پستی میں گرانے کا سبب بن سکتے ہیں۔
اپنی زندگیوں کا جائزہ لیا جائے تو نہ جانے کتنے ہی ایسے غم ہیں جو صرف ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے اور فخر جتا نے کی بنا پر لاحق ہیں۔
ہمارے غموں کی فہر ست ایسے ہی ادنیٰ غموں پر مشتمل ہوتی ہے اور یہ فکریں ہم پر اتنی طاری ہوجا تی ہیں کہ شخصیت میں غیبت ، ٹوہ ، تجسس ، حسد ، جلن جیسے ا خلا قِ رذیلہ پیدا کر دیتی ہے، جب کہ دنیا کی زندگی وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ کے مصداق ہے۔اس لیے کہ ان چیزوں میں مقا بلے اور مسابقت کا انجام سواے خسارے کے کچھ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان چیزوں پر دل شکستہ ہوکر مایوس ہونے یا مل جانے پر اترانے کا رویہ سخت ناپسندیدہ ہے۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی نظروں سے گر جاتے ہیں۔
قرآن کے مطابق دنیا کی مصیبتوں کی حقیقت کیا ہے؟ یہی کہ ’’اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈا لے تو خود اس کے سوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے، اور ا گروہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔و ہ ا پنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے، ا پنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ (یونس ۱۰:۱۰۷)
ان آیات سے یہ با ت واضح ہوتی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جو ہمیں نقصان سے نجات دلا سکے اور جو بھی مصیبت یا نقصا ن ہمیں پہنچتا ہے و ہ مِن جانب اللہ ہوتا ہے۔اس پر غم کرنا ، حد سے زیادہ آنسو بہا نا اور فکر میں مبتلا ہونا دراصل توکل علی اللہ کی کمی کو ظا ہر کرتا ہے۔ہمارے یہ چھوٹے چھوٹے لاحاصل غم ہماری زندگی کے ادنیٰ ترین مقاصد کی عکاسی کرتے ہیں۔جو انسان مادی چیزوں کے حصول کو ا پنا مقصد قرار دیتا ہے اس کی زندگی ما ل و دولت ، عہدے ، نمود و نمایش اور تفاخر کے حصول کے پیچھے اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ کی عملی تصو یر بن جا تی ہے لیکن ان سب کے با و جو د نفس مطمئن نہیں ہوتا۔ خو شی کی ہرکیفیت میں ان چیزوں کے کم ہو جانے اور چھن جانے کا غم غالب آجاتا ہے اور زندگی عدمِ ا طمینا ن اور بے یقینی کا شکا ر رہتی ہے۔
یہ تصورِ رزّاقیت جتنا کامل اور پختہ ہوگا انسان اتنا ہی بے خوف ، نڈر اور بہادر ہوگا۔ دنیا کا کوئی خوف اور غم اسے لاحق نہیں ہوگا اورا سے حق کے راستے سے نہیں ہٹا سکے گا اور زندگی کی بھاگ دوڑ صرف اور صرف اس کے لیے وقف ہو کر نہ ر ہ جائے گی۔
کسی قریبی فرد کی جدائی پر دل قدرتی طور پر غمگین ہوتا ہے خود رسول کریمؐ کی آنکھیں اپنے صاحبزا دے کی جدائی پر آنسوئوں سے تر ہو گئی تھیں۔ اسی طرح حضرت خدیجہ ؓ کی عظیم رفاقت کے ختم ہونے پر، اور ہمدرد چچا ا بوطا لب کے انتقال پر بھی آپؐ بے حد غم زدہ ہوئے تھے۔یہ و ہ فطری غم ہیں جن میں آنسوئوں کا بہنا اختیار میں نہیں رہتا بلکہ حدیث کے مطا بق یہ رحم کا جذبہ ہے جسے اللہ نے اپنے بندوں کے دل میں رکھ دیا ہے۔ رحمت ِعالمؐ کے سب سے چھوٹے بیٹے کی جان کنی کے وقت آپؐ فرما رہے تھے کہ ’’ آنکھیں آنسو بہاتی ہیں ، دل دکھتا ہے ، مگر ہم زبا ن سے صرف وہی کہتے ہیں جس کو ہمارا پروردگار پسند کرتا ہے، اور ا ے ابراہیمؓ! ہمیں تیری جدائی کا بہت غم ہے‘‘۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے یہ منظر دیکھا تو کہا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! آپ بھی رو رہے ہیں‘‘۔ فرمایا: ’’ابن عوفؓ ! یہ آنسو رحمت کی نشا نی ہیں ‘‘۔ تاہم، بعض اوقات یہ غم بھی شدت اختیار کرلے تو مایوسی کی کیفیت میں منہ سے کفریہ جملے نکل جاتے ہیں اور ناشکری کا رویہ اختیار کرلیا جاتا ہے۔ جو لوگ اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہیں اور مصیبت کے وقت بھی اپنے رب کی رضا تلا ش کرتے ہیں ان کے لیے قرآن میں آتا ہے کہـ:
الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْ ٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo (البقرہ ۲:۱۵۶)ا ن لوگوں پرجب کوئی مصیبت و ا قع ہو جا تی ہے تو کہتے ہیں کہ بے شک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور اسی کی طر ف لو ٹ کر جانے و الے ہیں۔
پھریہ ا حساس کہ موت اور زندگی اللہ کے اختیار میں ہے درا صل ایک آزمایش ہے جو انسان کو سکون بخشتا ہے۔ قرآن میں آتا ہے کہ’’ ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور ہم اچھے بُرے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمایش کر رہے ہیں، آخرکار تمھیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے‘‘۔ (الانبیا ۲۱:۳۵)
حضرت معا ذ ؓ جب یمن کے گورنر تھے تو ان کا لڑکا وفات پا گیا۔ رسولِ کریمؐ نے تعزیتی خط میں لکھا کہ ’’ اگر تم نے آخرت کے اجر و ثواب کے لیے صبر کیا، تو تمھارے لیے خدا کی رحمت، عنایت اور ہدایت ہو، پس تم صبر سے کام لو۔ اور خیال رہے کہ کہیں تمھاری بے قراری اور بے صبری تمھیں اجر سے محروم نہ کر دے اور تمھیں پچھتانا پڑے، یقین کرو کہ بے صبری اور بے قراری سے کوئی مرنے والا لوٹ کر کبھی نہیں آیا، نہ اس سے دل کا غم ہی دور ہوسکتا ہے، جو حادثہ پیش آیا ہے اسے تو آنا ہی تھا۔ والسلا م ‘‘۔ غرض یہ کہ فطری غم و آلام بھی اللہ کی نظر میں اسی وقت قا بلِ قبول ہیں جب انسان ایمان و یقین کا د ا من ہا تھ سے نہ چھوڑ ے اور اللہ کی ر ضا پر را ضی ہو کرصبر سے کام لے۔
انسان کے ہر عمل کا تعلق اس کی سوچ سے ہے، اگر سوچ کا ر خ درست کر لیا جائے تو زندگی کی بہت سا ر ی مشکلات خود بخود کم ہو جائیں۔
حضرت ا بوہریرہ ؓ سے روا یت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمھیں کوئی تکلیف، مصیبت پیش آئے تو یہ نہ کہو کہ’ اگر میں ایسا کرتا تو یو ں ہو جاتا ( یا نہ ہوتا ) ‘ بلکہ یہ کہا کر و کہ اللہ نے ہر چیز کو مقدر کر لیا ہے جو اس نے چا ہا وہ کر ڈالا۔ اس لیے کہ لَوْ یعنی اگر، شیطا ن کے عمل کا دروازہ کھول دیتا ہے۔(مشکوٰۃ )
اس حدیث میں انسان کی اس کمزوری کی طر ف اشارہ ہے کہ انسان اپنی حکمت اور تدبیر پر بھروسا کرتا ہے تو اس کی مصیبتیں ایک بھاری غم میں تبدیل ہو جا تی ہیں کہ ’’کاش! یہ کر لیا ہوتا ‘‘ اور ’’کاش! یہ نہ کیاہوتا‘‘۔ اسی طرح مو ت کے وقت یہ کہنا کہ’اچا نک مو ت تھی ‘، ’جلدی ہسپتال پہنچ جاتے تو ایسانہ ہوتا‘‘، اس طرح کی باتیں کرنا گویا ہمارے دلوں کی ایسی کیفیات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم اللہ کے فیصلوں پر راضی نہیں ہیں اور اس کے بجاے اپنی تدبیر ، حکمت اور عقل پر زیادہ اعتبار کرتے ہیں۔ لہٰذا جب مشکل درپیش ہوتی ہے تو انسان بجاے صبر کے بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ مومن جب یہ یقین رکھتا ہے کہ ہر چیز مِن جانب اللہ ہوتی ہے تو اس کے دل کو ایک سکون اور اطمینان رہتا ہے۔
حضرت صہیب بن سنان ؓ کی روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا: مومن کا معا ملہ بھی عجیب ہے۔ اسے جو کچھ بھی پیش آئے و ہ اس کے لیے سرا سر خیر ہوتا ہے اور یہ دولت مومن کے سوا کسی کو نصیب نہیں۔ جب ا سے کوئی نعمت ملتی ہے تو اللہ کا شکر کرتا ہے اور جب ا سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ (اللہ کے لیے) صبر کرتا ہے، اور (اس طرح) مصیبت بھی اس کے لیے سراسر خیر بن جا تی ہے۔ گویا صبراور شکر دو ایسے خوب صورت اعمال ہیں جو انسان کو اللہ کا پسندیدہ بندہ بنا دیتے ہیں۔ مصیبت پہنچنے کی صورت میں و ہ ا پنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ کا موں سے روکتا ہے، یعنی صبر کرتا ہے، جب کہ نعمت ملنے پر اترا تا نہیں ہے کہ یہ سب میر ی اپنی تدبیر ، علم، تعلقا ت اور ا خلا ق کا حاصل کردہ ہے۔ایسے فرد کے غم اس کی درست سوچ کی و جہ سے کم ہو جاتے ہیں بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ وقتی طور پر افسردہ ہونے کے بعد و ہ دوبارہ مصروفِ عمل ہوجاتا ہے اور اس پر مایوسی کی وہ کیفیت طاری نہیںہوتی جوایک غیردینی سوچ رکھنے و الے فرد پر ہوتی ہے بلکہ بندۂ مومن کے لیے ہرکرب ، قربِ الٰہی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
اس بات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اللہ اپنی لا محدود قدرت کی و جہ سے و ہ علم رکھتاہے جو عا م انسان کو نہیں ہے اور ہمارا خالق بہتر جانتا ہے کہ کس وقت کون سی چیز ہمارے لیے بہترہے۔دعا ے ا ستخا رہ میں انسان کو یہی سکھایا گیاہے کہ انسان ا پنے ر ب سے و ہ خیر مانگے جو دین اورآخرت کی بہتری رکھنے والی ہو اور اسی سے را ستے کی آسانی مانگے۔ وہ تمام کام جو انسان کو دین و آخرت کی بھلائی سے محروم کر دیں، اُن سے بچنے اور اللہ کی پناہ میں آنے کی دعا کرے اور اللہ کے فیصلوں میں یکسوئی کا بھی طلب گار ہو۔ جب انسان اپنی ضرورت و خواہشات کو بھی اللہ کے سپرد کردیتا ہے اور اس کے لا محدود علم و قدرت سے ر ہنما ئی کا طلب گار ہوتا ہے تو اللہ ا پنے بندوں کے دلوں کو سکون و ا طمینان نصیب کرتاہے اور انھیں نعم البدل بھی عطا فرماتا ہے۔دلوں کا ا طمینا ن اور معاملات میں یکسوئی کا حاصل ہونا صرف اور صرف اس وقت ممکن ہے جب انسانی عقل اللہ رب العالمین کی قدرت و اختیار کے آگے جھک جائے اور کہے کہ وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْٓ اِِلَی اللّٰہِ اِِنَّ اللّٰہَ بَصِیْرٌم بِالْعِبَادِ (المؤمن ۴۰:۴۴) ’’اور اپنا معاملہ میں اللہ کے سپرد کرتا ہوں، وہ اپنے بندوں کا نگہبان ہے‘‘۔
انبیاے کرا م ؑاور صحا بہ کرام ؓ جن کی زندگیا ں ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں، ان کی شخصیات کا تعارف و ہ پیشہ ، یا وہ عُہدہ نہیں ہے جو انھیںدنیاوی اعتبا ر سے حاصل تھا بلکہ ان کی سیرت و شخصیت کا نما یاں وصف ان کا اللہ کے دین کی دعوت اور اقامت دین کے لیے جدوجہد میں حصہ لینا ، اور اس نصب العین کے حصول کے لیے اپنی زندگیوں کو وقف کر دینا ہے۔ غمِ روزگار ، ا ولا د اور روز مرہ زندگی کے غم انسان ہونے کے ناطے اُنھیں بھی لاحق ہوں گے لیکن ان کا حصہ ان کی زندگیوں میں اتنا ہی تھا جتنا اس عارضی زندگی کی اہمیت ہے۔ایک مسافر اور ا جنبی کی حیثیت سے رہنے و الے فرد کو اس عارضی زندگی میں صرف منزل تک پہنچنے کی پریشانی ہوتی ہے جو کہ بندۂ مومن کے لیے جنت ہے۔ باقی عارضی پریشانیوں کو دُور کرنے کا نہ اس کو اختیارہے نہ طاقت ہی ۔لہٰذا و ہ اپنی توانائیاں ایسے لاحاصل غم میں ضائع نہیں کرتا جس کا کوئی حاصل نہیں۔حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا:’’جو شخص دنیا کو ا پنا نصب ا لعین بنائے گا ، اللہ اس کے دل کا اطمینا ن و سکون چھین لے گا اور ہر وقت مال جمع کرنے اور ا حتیا ج کا شکا ر ہوگا ، لیکن دنیا کا حصہ اتنا ہی اسے ملے گا جتنا اللہ نے اس کے لیے مقدر کیا ہوگا۔ اور جن لوگوں کا نصب العین آخرت ہوگی ، اللہ تعالیٰ ان کو قلبی سکون نصیب فرما ئے گا اور ما ل کی حر ص سے ان کے قلب کو محفوظ رکھے گا اور دنیا کا جتنا حصہ ان کے مقدر میں ہوگا وہ لازماً ملے گا۔‘‘(ترغیب و ترہیب)
اس سوال پر انسان سوچے تو اس کے لیے عملِ خداوندی کے ہزار مثبت پہلو اور پُرسکون زندگی کی بے شمار بنیادیں نکل آئیں:
۱- انسان کے ا و پر مصیبتیں نہ آئیں تو ا سفل سا فلین کے درجے تک پہنچنے میں د یر نہیں لگتی۔ اس کی زندگی کھا ؤ پیو، عیش و آرا م کے دائرے تک ہی محدود ہو جائے اور وہ ایک شترِ بے مہار کی سی زندگی گزارے۔
۲- غم اور مشکلات ہی انسان کو یہ شعور عطا کرتے ہیں کہ یہ تمام نعمتیں اللہ کی عطا کردہ ہیں اور اس کے ا پنے زورِ بازو کا نتیجہ نہیں ہیں۔ وہ جب چا ہے انھیں وا پس لے لے، اور جب چا ہے کسی بھی نعمت کے نقصان یا جدائی سے دوچار کر دے۔ اس لیے ایسا انسان کسی بھی ناکامی پر ملول اور مایوسی کی کیفیت سے دوچا ر نہیں ہوتا۔
۳-یہ مصیبتیں ہی دراصل صبر کرنا سکھاتی ہیں اور شکر کے جذبے سے بھی آشنا کرتی ہیں۔
۴- ہر چیز مِن جا نب اللہ ہے اور یہی ہمارے رویوں کا امتحان ہے۔ اللہ تعالیٰ اچھے برے حالات میں ڈال کر ہماری آزمایش کرتا ہے کہ ہم اللہ کی طر ف رجوع کرنے و الے ہیں یا بندوں سے امیدیں وابستہ کیے بیٹھے ہیں۔
۵- انسان اس حقیقت سے بھی آشنا ہوتا ہے کہ نہ تو ر نج وآلام ہمیشہ کے لیے ہیں اور نہ خو شیا ں اور مسرتیں ہی ۔ یہ تمام چیز یں وقتی طور پر دنیا کی زندگی کا حصہ ہیں اور اللہ کی طر ف سے ایک آزمایش ہیں۔ با قی رہ جانے و الی صرف نیکیا ں ہیں جو انسان کے کام آتی ہیں۔
یہ مال اور اولاد محض دنیاوی زندگی کی ایک ہنگامی آرایش ہے۔ اصل میں تو باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور اُنھی سے اچھی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ (الکھف ۱۸:۴۶)
۶- ہماری مشکلات اور مصیبتیں جن پر ہم اللہ سے را ضی رہتے ہیں اور صبر و شکر کا مظاہرہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے صلے میں ہماری خطاؤں سے درگزر کرتا ہے۔حدیث ہے کہ : مسلمان کو جو رنج، دکھ، غم، تکلیف اور پریشانی آتی ہے، حتیٰ کہ اگر اس کو ایک کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کی کسی نہ کسی خطا کا کفا ر ہ بنا دیتا ہے۔( بخاری ، مسلم)
۷- رنج و غم دل کو گداز کرتا ہے اور ایسا دل اللہ کے کلا م کے ا ثرا ت کو جلد قبول کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف قربِ الٰہی نصیب ہوتا ہے بلکہ رحم ، ہمدردی اور محبت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں ؎
متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی
مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خدا وندی
۸- انسان عا رضی چیزوں کی و قعت اور اور ان سے دل لگا نے کے انجام سے بھی واقف ہو جاتا ہے۔ اس طرح باقی رہ جانے والی جنت اور اس کے حصول کے لیے تیاری کرتا ہے اور دنیا کے غموں پر اس کا ر و یہ یہ ہوتا ہے کہ و ہ جنت کی د ا ئمی خو شیوں اور آرا م کا طلب گار رہتا ہے۔
ان غموں میں سے کچھ غم ایسے ہیں جو انسان کی زندگی کو مثبت ر خ دیتے ہیں او ر جن کا کرنا آخرت میں انسان کی نجات کا با عث بنتا ہے اور اسے اللہ کا پسندیدہ بندہ بنا دیتا ہے۔
اپنے گناہوں پر غمگین ہونے و الے ا فراد درا صل اللہ کی عظمت و ہیبت سے لرزتے ہیں۔ پھر اپنی کو تاہیوں، غفلتوں اور اپنی بے بسی اور عا جزی کا ا ظہار دعا کے الفاظ میں کرتے ہیں۔ یہ وہ غم ہے جو دل کو سکون اور ا طمینا ن سے بھر دیتا ہے اور اُسے اللہ کا مقرب بنا دیتا ہے۔
غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح سے نیکی کی طرف سبقت لے جانے کی ترغیب دے رہا ہے: ’’دوڑو اور ایک دوسر ے سے آگے بڑھنے کی کو شش کر و ا پنے ر ب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسما ن و زمین جیسی ہے‘‘(الحدید ۵۷:۲۱)۔ یہ غم ایک مومن کی متا ع ہے کہ اس دوڑ میں و ہ پیچھے نہ ر ہ جائے۔ اسی فکر و ا ضطراب نے لوگو ں کے دلوں کو حق کی طرف مائل کیا ہے۔ یہی غم لوگوں کو فلاح کا را ستہ دکھانے اور ا نھیں جہنم کی آگ سے بچانے کے جنون میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
دراصل یہ وہ غم تھے جو ان عظیم ا فراد کو ہلکان کیے رکھتے تھے۔ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہؓ کے زانو پر سر رکھے سو رہے تھے کہ حضرت عائشہؓ کی آنکھ سے آنسو ٹپکے اور آپؐ کی آنکھ کھل گئی۔ فکرمند ہو کر پوچھا: ’’ا ے عائشہ ؓ! تمھیں کس غم نے رُلا دیا؟ اُم المومنینؓ گویا ہوئیں: ’’یارسولؐ اللہ! مجھے جہنم کی یاد آگئی___ اُس نے رُلا د یا۔پھر پوچھا: ’’یارسولؐ اللہ! کیا قیامت کے دن آپؐ ا پنے گھر والوںکو یا د رکھیں گے ؟ ‘‘ رسولِ کریمؐ نے فرمایا: ’’اے عائشہ! تین مقامات ایسے ہوںگے جہاں کوئی کسی کو یا د نہ رکھے گا ، نہ خبر لے گا۔ عندالکتاب، وہ وقت جب اعمال نامہ کھولا جائے گا، عندالمیزان، وہ وقت جب اعمال تولے جائیں گے اور عندالصراط وہ وقت جب پل صراط پر سے گزارا جائے گا‘‘۔ اسی طرح ایک با ر اللہ کے نبیؐ نے کچھ لوگوں کو کھِل کھلا کر ہنستے دیکھا تو آپؐ نے فرمایا کہ ’’اگر تم لذتوں کا خا تمہ کرنے والی موت کو زیادہ یاد کرتے تو وہ تمھیں ہنسنے سے روک دیتی‘‘ (ترمذی)۔ اسی طرح حضرت عثمان بن عفا ن ؓ کے آزاد کردہ غلا م ہا نی کا بیان تھا کہ حضرت عثمانؓ جب کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو اتنا روتے یہاں تک کہ اپنی داڑ ھی تر کرلیتے ، کہ قبرآخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے۔
انسان کو غم پالنے کا شعور ہو تو وہ ایسے غم پالتا ہے جس سے اس کی آخرت بھی سنور تی ہے اور دنیا کے معاملات بھی درست ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی غم کا سبق ہمیں اسوۂ رسولؐ سے بھی ملتا ہے اور اسی کی عکاسی صحابہ کرام ؓ کی زندگی سے بھی ملتی ہے۔ یہ وہ فرق ہے جو ہماری اور اُن کی زندگیوں میں پایا جاتا ہے۔ غم وہ حقیقت ہے جس کے بغیر انسانی زندگی کا تصور نہیں ، فرق صرف اتنا ہے کہ ہم کون سے غموں کو اہمیت دیتے ہیں، کون سی باتیں ہمیں مضطرب کرتی ہیں اور کس پریشانی میں ہمارے آنسو بہتے ہیں۔ فطری غموں اور روز مر ہ کی تکا لیف پر آنسو بہانا بھی منع نہیں لیکن صرف انھی معاملات پر آنسو بہانہ اور غمگین رہنا بھی پسندیدہ نہیں ہے۔
خود نبی کریمؐ اپنی اس کیفیت کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ: ’’میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی اور جب آس پاس کا ماحول آگ کی روشنی سے چمک اٹھا تو پتنگے اس پر گرنے لگے، اور و ہ شخص پو ر ی قوت سے ان پتنگوں کو آگ سے روک رہا ہے لیکن پتنگے ہیں کہ اس کی کوششوں کو ناکام بنائے دے رہے ہیں اور آگ میں گرے پڑ رہے ہیں۔ اسی طرح میں تمھیں کمر سے پکڑ پکڑ کر آگ سے روک ر ہا ہوں اور تم ہو کہ آگ میں گرے پڑ رہے ہو‘‘۔
یہ فکر کی وہ کیفیت ہے جو دنیا کے معز ز ترین گروہ کے اضطراب کو ظاہر کر تی ہے۔ان کا غم صرف یہ تھا کہ کسی طرح انسانیت کو فلاح کا را ستہ دکھا دیا جائے۔یہ وہ غم تھا جو ا نبیاے کرا م کو ان کے اعلیٰ ترین مقصد ِ زندگی کی وجہ سے ہلکان کیے دیتا تھا۔لہٰذا ایک بندۂ مومن کو اس غم سے بڑھ کر اور کون سا غم عزیز ہوگا، جب کہ جہنم کے سیاہ گہرے شعلے نافرمانوں کے لیے بھڑکا ئے جا رہے ہوں، انسانیت اللہ کی حدود کو توڑ کر درکِ ا سفل کی پستی میں گرتی چلی جا رہی ہو،کمزوروں و مظلوموں سے جینے کا حق چھینا جا ر ہا ہو اور طاقت ور دنیا کی ہر چیز پر قبضہ کرنے کے لیے چڑھے چلے جا رہے ہوں، ایسے میں صرف ایک ہی غم اور ایک ہی فکر غالب ر ہتی ہے کہ دنیا میں ظلم کے نظا م کا خاتمہ ہوسکے، سسکتی انسانیت اسلام کے سائے تلے پنا ہ لے سکے اور نجات کی راہ پا جائے۔ یہی وہ غم تھا جو تمام ا نبیا کو ہلکان کیے دیتا تھا، یہی فکر تھی جو حضرت ا برا ہیم ؑ کو ا پنے شیرخوار بچے اور بیوی کو وادیِ غیرذی زرع میں چھوڑ کر جانے کے لیے تیا ر کر دیتی ہے۔ یہی ا حساس تھا جو حضرت موسٰی ؑ کو فرعون کے دربار میں کلمۂ حق بلند کرنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ یہی وہ ا ضطراب تھا جو نبی کریمؐ کو غارِحرا کی تنہائی سے نکال کر یاایھا المدثر کا خطاب عطا کراتا ہے۔طائف کے میدان میں لہولہان کرا دیتا ہے۔ اس فکر ہی میں کبھی شعب ابی طالب کا دشوارگزار مرحلہ آتا ہے تو کبھی عکاظ کا میلہ۔ اسی غم کی قوت بدر و اُحدکے معرکے برپا کراتی ہے اور اسی غم سے قیصروکسریٰ کے ایوان لرز ا ٹھتے ہیں۔ اسی کی کڑی فتح مکہ کا سبب بنتی ہے۔ غرض ہر جگہ، ہر لمحے اور ہر وقت صرف یہی فکر غالب رہتی ہے کہ اللہ کا پیغام اللہ کے بندوں تک پہنچ جائے اور اللہ کی زمین میں اللہ کا دین نا فذ ہو جائے۔
یہاں اپنی زندگیوں کا جائزہ لینا ضر وری ہے۔ ہماری زندگیوں میں کون سا غم ہے جو ہمیں پریشان و مضطر ب رکھتا ہے۔ کیا ہم بھی بندۂ درہم و دینارہیں جن کے لیے نبیؐ نے فرمایا: ’’تباہ ہوجائے دینار کا بندہ اور درہم کا بندہ اور کمبل (چادر) کا بندہ، اور اگر ا سے د یا جائے تو خو ش اور نہ دیا جائے تو غصے ! تباہ ہوجائے اور منہ کے بل گرے۔ کانٹا چبھے (تو اللہ کرے کہ ) نہ نکلے۔مبارک ہو اس بندے کو جو اللہ کی راہ میں ا پنے گھوڑے کی باگ تھامے ہوئے ہو ، بال بکھرے ہوئے ہوں اور پائوں گرد آلود! اگر ا سے پہرے پر لگایا جائے تو پہرا دے اور اگر پچھلے لشکر میں چھوڑ د یا جائے تو پچھلے لشکرہی میں رہے۔ اگر ا جازت مانگے تو اجازت نہ ملے اور اگر سفارش کرے تو اس کی سفارش نہ سنی جائے۔ (بخا ری ، کتاب الجھاد)
یہ حدیث ہر اس بندے کے لیے وعید ہے کہ جو حبّ دنیا اور ما ل و دولت کے پیچھے اپنی جان، وقت اور صلا حیتیں صرف کرتا ہے، جب کہ و ہ ان سا ری کوششوں کے باوجود اپنی تقدیر سے نہیں لڑسکتا ہے، لیکن خوشخبری و مبارک باد ہے اس شخص کے لیے جو اللہ کے راستے پر اپنی جان کھپا دینے کی وجہ سے قا بلِ فخرہے اور مبا رک باد کا مستحق ہے۔ حالاںکہ اس کی دنیاوی حیثیت اتنی بھی نہیں کہ کوئی اس کی با ت کو قا بلِ تو جہ سمجھے۔
ہر وہ فرد جو ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اس کو یہ جانچ لینا چاہیے کہ و ہ ا پنے دعویٰ ایمان میں کتنا سچا اور کھرا ہے۔کیا اس کی زندگی میں کوئی ایسا لمحہ گزرا جب اس کا دل اس لیے غمگین ہو ا ہو کہ دنیا میں اللہ کی حدود پامال ہو رہی ہیں ، اللہ کی راہ میں لڑنے والے ذلیل کیے جا رہے ہیں ،قرآن کی آیات کے من چاہے معنی نکالے جا رہے ہیں، تو کیا اس کا دل اسی طرح دکھ اور تکلیف محسوس کرتا ہے جب اسے کسی ذاتی مصیبت یا آزمایش کا سامناکرنا پڑتا ہے ؟ کیا راتوں کی بیداری کا سبب کبھی یہ فکر بھی ہو ئی کہ اقامتِ دین کی اس جدوجہد میں اس کا اپنا حصہ کیا ہے ؟ کیا اس نے ا پنے حصے کا کام کر لیا ہے ؟ کیا وہ ایمان کی آزمایش کا صرف دعویٰ کرتا ہے یا اس کا عملی نمونہ بھی ہے؟ کیا اس کی جان و مال اللہ رب العالمین کے لیے وقف ہے؟، کیااس کی بھاگ دوڑ صرف دنیا کی عزت، مرتبہ و مقام ہی کے لیے ہے ؟ کیااس کی فکر اولاد کی ڈگری ، آمدنی و شادی تک ہی محدود ہے، یا ان کو اللہ کا بندہ بنانے اور صالحین کا امام بنانے کی بھی ہے؟ کیا اس نے کبھی اپنی اولاد کے لیے یہ دعا کی جو حضرت ابراہیم ؑ نے کی تھی؟یا اس کا شما ر ان ا فراد میں ہے کہ جو ایمان کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن اپنی جان و مال اپنی دنیا بنانے کے لیے وقف کر دیتے ہیں، جو اللہ سے رجوع تو کرتے ہیں لیکن صرف اپنی مصیبتوں سے نجات کے لیے ، اور جن کے دل امت کے فکر و غم سے خالی ہیں۔کتنے افراد ایسے ہیں جن کی راتوں کی سسکیاں ان مجاہدین کے لیے ہوتی ہیں جو اللہ کے دین کی خا طر گوانتانامو اور ابوغریب میں ظلم کاشکا رہیں۔جو ان مظلوموں کے لیے مضطرب رہتے ہیں جن کو کمزور پا کر دبا لیا گیا ہے اور ڈالروں کے عوض جن بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں کو نیلام کر دیا گیا ہے۔
آئیے جائزہ لیجیے کہ کیا ہم سب کے لیے امت کی مشکلات بھی ایسی ہی ہیں جیسے ہماری ذاتی مشکلات؟ کیا اس کے زخم بھی اسی شدت کے ساتھ محسوس ہوتے ہیں جیسے ا پنے جسم پر لگے زخم؟ جائزہ لیں کہ ہماری آہیں ، سسکیاں ، راتوں کا جاگنا ، دل کا افسردہ ہونا، اور پریشان ہونا کس کے سبب ہے؟کون سا غم ہے جو ہمیں ہلکان کیے دے ر ہا ہے ؟ ہمارا دل کس سوزوغم کا شکار ہے؟ہمیں کون سی بے قراری ہے؟ اور اگر ان سوالوں کے جواب ہمارے پاس نہیں ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم ان غموں سے نا آشنا ہیں تو پھر دعا کیجیے کہ ہم ان بے قرار داعیوں میں شا مل ہوجائیں جن کا شوق و ولولہ ، تڑپ ، سوز ، درد،لگن اور حوصلہ اُن کو کسی طرح چین سے بیٹھنے نہ دیتا ہو، جن کی جان صرف اس غم میں ہلکان ہوتی ہے کہ کسی طرح یہ انسانیت قرآن کے سا ئے تلے آجائے۔جن کا اضطراب اللہ کے دین کے نفا ذ کے لیے ہوتا ہے وگرنہ اللہ کو ایسے غمگین دلوں کی کوئی پروا نہیں جو اس دھوکے کی زندگی کے مل جانے اور نہ ملنے پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ’’ اگر کہیں اللہ لوگوں کے ساتھ برا معا ملہ کرنے میں بھی اتنی ہی جلدی کرتا جتنی وہ دنیا کی بھلا ئی مانگنے میں جلدی کرتے ہیں تو ان کی مہلت ِعمل کبھی کی ختم کر دی گئی ہوتی۔ (مگر ہمارا یہ طریقہ نہیں ہے ) اس لیے ہم ان لوگوں کو جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے ان کی سرکشی میں بھٹکنے کے لیے مہلت دے دیتے ہیں۔ انسان کا حا ل یہ ہے کہ جب اس پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہم کو پکارتا ہے مگر جب ہم اس کی مصیبت کو ٹال دیتے ہیں تو ا یساچل نکلتا ہے کہ گویا اس نے کبھی کسی بُرے وقت پر ہم کو پکارا ہی نہ تھا۔ اس طرح حد سے گزر جانے والوں کے لیے ان کے کرتوت خوش نما بنا دیے گئے ہیںـ‘‘۔ (یونس ۱۰:۱۱-۱۲)
اللہ سے دعا ہے کہ ہم حقیقی غموں کا شعورحاصل کریں اور ان ہی غموں سے اپنی زندگیوں کو مزین کر یں جو ہماری فلاح و نجات کا سبب بنیں۔