اولاد ماں باپ کے پاس اللہ تعالیٰ کی ایک امانت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس لطیف، خوب صورت، زند گی سے بھرپور اور معصوم نعمت کے حصو ل کے لیے پیغمبروں نے بھی اپنی اپنی التجا اللہ رب العزت کے سا منے دعا کی صورت میں رکھی۔ حضرت زکریا ؑ نے صالح اولاد کے لیے دعا فر ما ئی جو سورئہ آل عمران میں اس طرح مو جو د ہے: رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآئِ (اٰل عمران ۳:۳۸)،’’اے میر ے ر ب ! مجھے اپنے پا س سے پا کیز ہ اولا د عطا فر مابے شک تو دعا سننے والا ہے‘‘۔ حضرت ابراہیم ؑ نے ان الفاظ میں اپنے رب کو پکارا: رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَo (الصافات۳۷:۱۰۰)،’’اے میرے رب مجھے ایک صالح(لڑکا )عطا فرما‘‘۔ حضرت ابراہیم ؑ کی یہ دعا ایک پاک باز ، نیک و صالح اور امام امت کے لیے دعا تھی۔ حضرت اسماعیل ؑ کی فرماںبرداری ، اللہ کی اطاعت اور قربانی کا جذبہ ایک ایسا نشان راہ ہے جو اُمت ِمسلمہ کے لیے اپنی اولادوںکی تربیت کے لیے مثالی نمونہ ہے۔
بچوں کی تربیت کا کا م والدین کی اصل ذمہ داری ہے۔ قرآن میں ارشا د ہے کہ: یایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا (التحریم۶۶:۶)، ’’اے ایمان والو! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو (جہنم کی) آگ سے‘‘۔ بچوں سے متعلق منصوبے بنا نا اور ان کے مستقبل کے لیے تگ و دو کرنا ایک فطر ی عمل ہے۔ ہر ما ں با پ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے کامیابی و کامرانی کے ساتھ نمایاںمقا م حاصل کر یں۔ تاہم، صرف دنیاوی کا میابی کا تصور اس کوشش ، جدوجہد اور ساری مساعی کو صرف اس فانی دنیا تک محدود کر دیتا ہے، جب کہ دنیا کی کامیابی وکامرانی بھی غیر یقینی ہوتی ہے۔ مو من کی اپنی ذات کا ایک ایک لمحہ اللہ رب العزت کی خوشنودی کے لیے وقف ہوتا ہے۔ اسی طرح اس کے اولا د سے متعلق منصوبے اور خواہشات بھی اللہ کی رضا و خوشنودی کے حصول کے لیے ہوتے ہیں۔ دنیا کی محدود کامیابی کے بر عکس اللہ تعالیٰ اپنے بند و ں کو جہا ں کامیابی کا ایک وسیع تصور دیتا ہے، وہاں کامیابی کے ہمیشگی کے تصور کو سمجھنے کے لیے ایک خاص ذہنی بلوغت کا بھی مطالبہ کرتا ہے جس کا تعلق ایمان کی دولت اور خوف خدا رکھنے والے سے دل ہے۔ کامیا بی کا یہ تصور جو قرآ ن میں جا بجا موجود ہے تربیت اولا دکا ایک اہم جزو ہے۔ عصر حاضر میں جب طاغوتی قوتوں کی سربراہی میں ہر طرف امت مسلمہ کے لیے فتنہ و فساد برپا کررکھا ہے وہاں نسلِ نو کی اسلا می نہج پر تربیت ایک ایسی اہم ذمہ داری ہے جس کا احساس ہنگامی بنیادوں پر کرنا ضروری ہے۔ اسلامی تاریخ ہما رے سامنے حضرت علی ؓ ، معا ذ ؓ و معوذؓ ، معصب بن عمیر ؓ جیسے نوعمر صحابہ کرام ؓکی مثالیں رکھتی ہے۔ دوسری طرف بہادر، جری نوعمر محمد بن قاسم جیسا سپہ سالار بھی اسی تاریخ کا حصہ ہے جو اپنی نوجو انی کے دور میں ہی اسلامی تاریخ میں اَنمٹ نقوش چھوڑگئے۔ آج اس عمر کو کھیل کود کے دن کہہ کر ضائع کرنے کی ترغیب دی جا تی ہے اور یو ں امت مسلمہ کا ایک گراں قدر سرمایہ اس مادی دنیا کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے جس کا حاصل سوائے خسارے کے کچھ نہیں ہے۔
بد قسمتی سے جس قدر ابتدائی عمر کو تربیتی حوالے سے اہمیت حاصل ہے اسی قدر اس عمر کو نظرانداز کیا جا تا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق بچوں کی شخصیت کی تعمیر کا ۸۰ فی صد ابتدائی چھے سال کی عمر میں مکمل ہوجاتا ہے۔ باقی پوری زندگی اسی چھے سالہ تربیت کے محاسن کا عکس ہوتی ہے۔ اس عمر میں مزاج ، عادتیں اور ذوق و شوق کو جس طرف لے جایا جائے گا اسی طرف بچے کا رحجان ہوجاتاہے۔ اس عمر میں عادت بنانا آسان بھی ہے اور ضروری بھی۔ اسلام اصلاح کا جو فطری طریقہ بتاتا ہے وہ بھی عادت پر ہی منحصر ہے۔ اسلا م میں چھوٹے بچوں کی تربیت کے لیے تلقین کے ساتھ ساتھ عادت ڈالوانے کا فطری طریقہ اختیار کرنے کو کہا گیا ہے۔ ابتدائی عمر میں بچے کی سیکھنے کی صلاحیت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ امام غزالی کے مطابق اس عمر کا بچہ ایک پاک و نفیس موتی کی مانند ہوتا ہے، لہٰذا اسے خیر کا عادی بنایا جائے تو وہ اسی میں نشوونما پائے گا۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو فطرتاً سلیم الطبع اور توحید پر پید ا ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے کہ اللہ کی اس فطر ت کا اتبا ع کرو جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہو ئی فطرت میں تبدیلی نہیں (الروم ۳۰:۳۰)۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ :ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پید ا ہوتا ہے بھر اس کے والدین یا اسے یہودی بناتے ہیں یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں (مسلم)۔ گویا ماحول بچے کی پاکیزہ فطرت کو پراگندہ کرتا ہے، لہٰذا بچے کے لیے اردگرد کے افراد اور ماحول دونوںکا اسلامی حوالوں سے پاکیزہ ہونا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ شخصیت پر موروثی اثرات سے زیادہ ماحول کی تربیت کا اثر پڑتا ہے۔ کہا جا تا ہے عادتیں صرف ۳۰ فی صد مورثی اور باقی ۷۰ فی صد ماحول سے بنتی ہیں۔
بچے کی تربیت کا پہلو یو ں تو بہت ہمہ گیر اور وسیع ہے لیکن اس کا اہم جز تصورِ حیا ہے۔ اس مضمون میں اسی پہلو کی طرف والدین اور مربی کی توجہ مبذول کروانا مقصود ہے تاکہ اسلامی معاشرے کی کمزور ہوتی اقدار کی طرف ہماری توجہ ہو۔
اسلام میں تصورِ حیا شخصیت کا ایک اہم جز ہے اور بنیادی اخلاقی صفت ہے۔ ارشاد رسولؐ پاک ہے کہ: ’’ہردین کا ایک اخلاق ہوتا ہے اور ہمارے دین کا ممتاز اخلاق شرم کرناہے۔ بچے کی اخلاقی تربیت کا ایک اہم عنصر تصورِ حیا ہے۔ معاشرے کی مضبوطی ایسے اخلاق و کردار کے لوگوں سے وابستہ ہے جن کا کردار شرم وحیا کا پیکر ہو۔ جب پورا معاشرہ بے حیائی اور فحش مناظر سے بھرا پڑا ہو، چاروں طرف بے ہودہ ہورڈنگز، فحش رسالوں، اخبارات ، پوسٹروں کی بھرمار ہو اور سٹرکوں، گھروں، مجالس اور محافل پر شیطانیت کی یلغار ہو، لوگوں کی گفتگو حتیٰ کہ موبائل فون پر بھیجے جانے والے پیغامات تک بھی فحش گوئی کے چنگل میں گرفتار ہوں___ ایسے میں بچوں میں تصورِ حیا پیدا کرنا اور ابتدا ہی سے بچوں کے مزاج کا حصہ بنا دینا والدین و مربی کا اہم فرض ہے۔ حیا کے تصور کو مزاج کا حصہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ’احتیاطی تدابیرـ‘ اور پرہیزگاری کا اصول اپنایا جائے تاکہ بے حیائی کے قریب پائی جانے والی چیزوں سے بھی بچاجاسکے۔ بچوں کو ابتدائی عمر ہی سے حیا کا احساس دیں۔
بچہ جب پیا ر ے اور اچھے الفاظ بولتا ہے تو کتنا پیا را لگتا ہے۔ اگر اسے صا ف ستھرے اور بھلے الفا ظ سکھا ئے جائیںتو کتنا بھلا معلوم ہوگا۔ لیکن یہی ننھی ننھی زبانیں گالم گلوچ، بے ہودہ گانے ، ٹی وی اور فلموں کے لچر مکالموں کو ادا کرنے لگیں تو سماعت پر انتہائی گراں گزرتا ہے۔ رفتہ رفتہ یہ الفاظ جو معصومیت اور نا سمجھی میں ادا ہوتے ہیں بچوں کی گفتگو کا حصہ بن جا تے ہیں، اور ان کو ایسی بے ہودہ گفتگو میں لطف آنے لگتا ہے۔ عام طو ر پر نومولود بچوں سے پانچ سال تک کے بچوں کے بارے میں یہ سوچ کر کہ یہ بچے ناسمجھ ہیں ہر طرح کی بات، فحش گوئی ، لچر مذاق، اور دوسری بداخلاقیاں بغیر کسی شرم و حیا کے کرنا عار نہیں سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ تما م باتیں ننھے سے ذہن میں بیٹھ جاتی ہیں اور رفتہ رفتہ شخصیت کا حصہ بن جاتی ہیں۔ یوں تصورِ حیا پر جو کاری ضرب پڑ تی ہے وہ ابتدا ہی سے بچے کو بے حیائی کی ترغیب دے کر بے باک بننے پر اُکساتی ہے۔
زبان کو پاکیزہ رکھنے کے لیے غیر اخلاقی گفتگو، ناشائستہ الفاظ، گالی گلوچ، غیبت و جھوٹ سے بچنا بہت اہم ہے۔ حدیث ہے کہ ’’انسان کوئی بات کرتا ہے اور اسے اتنا معمولی سمجھتا ہے کہ اسے کہنے میں کوئی حرج نظر نہیں آتا مگر درحقیقت وہ بد ی ہوتی ہے ، جس کے بدلے وہ ۷۰برس کی راہ تک آگ میں گر جائے گا۔ (ترمذی)۔ فضول گوئی کے علاوہ بچوں کو زبان کی آلودگی سے بچانا ہی دراصل زبان کو پاکیزہ بنانا ہے۔ زبان زدعام الفاظ بچہ سیکھتا ہی اپنے ماحول سے ہے۔ گھر کے بڑوں کی زبانوں پر بداخلاقی ، بے ہودگی اور فحش گوئی بچے کو اس گندگی سے بے نیاز کردے گی۔ یوں بچہ ایسی ہی زبان کا عادی ہو جائے گا۔
شعور کی عمر آنے پر لڑ کے اور لڑکیوں کو یہ بتانا بھی بہت ضروری ہے کہ خواتین مردوں سے اور مرد خواتین سے میٹھے ، پیارے ، لوچ دار لہجے میں بات نہ کریں۔ جب بچے اپنے ماں ، باپ، یا دیگر رشتہ داروں کو دیکھتے ہیں کہ خواہ مخواہ ہی امی کی آواز بازار میں دکان داروں کے ساتھ انتہائی مٹھاس والی ہوجا تی ہے یا ابوجان ضرورتاً بھی کسی خاتون سے بات کرتے وقت بناوٹی تمیز اور شائستگی کی مٹھاس گھول لیتے ہیں، تو نوعمر ذہن اس تبدیلیِ لہجہ اور الفاظ کو اپنا کر دوسروں کو متوجہ کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاق کا حصہ بھی سمجھتا ہے۔ اسی لیے جب کبھی کو ئی ایسا موقع آئے جہاں بچوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی خریداری یا کسی مرد و عورت ملازمہ سے بات کا مظاہر ہ کرنا ہو تو بالخصوص اس بات کی تا کید کردی جائے کہ دکان دار کو اپنے مطلب کی چیز نکلوانے کے لیے اٹھلانا اور لاڈ دکھانا کسی طور بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔ ڈرائیور، ملازم، دکان دار، اساتذہ سے بات کرنے کا شائستہ طریقہ سکھانا اور مناسب لہجہ جس سے کسی بھی قسم کی دلی بیماری اور بدنیتی کا شائبہ نہ رہے ، حیا کا اہم جز ہے جس کی تاکید قرآن میں سورۂ احزاب میں کی گئی ہے: ’’اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو‘‘ (۳۳:۳۲)۔ بلوغت کے بعد اس قرآنی آیت پر عمل کرنا اسی وقت آسان ہو گا جب بچپن سے اس کی عاد ت ہوگی۔ اسی لیے ایسی گفتگو جو ایمانی حالت کو تباہ کرنے کا باعث بنے اور شیطانی اثرات رکھتی ہو اس سے بچنا اور بچانا ایک مسلسل تربیت کا تقاضا کرتا ہے۔
لباس اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے اور حیا کے مظاہر میں سے ایک مظاہرہ لباس سے بھی ہوتا ہے۔ اس ضمن میں چھوٹے بچوں کے ساتھ عام طور پر بے حد لاپروائی اختیار کی جاتی ہے۔ بچوں کے کپڑے تبدیل کرنا، نہلانا، ڈایپر بد لنا جیسے تمام کام بعض اوقات لوگوں کی موجودگی میں کیے جاتے ہیں جس میں بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں کی موجودگی بھی نظرانداز کر دی جاتی ہے۔ بعض گھرانوں میں بچوں کو کپڑوں سے بے نیاز کرکے آزادانہ گھومنے پھرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اسی طرح چھوٹے بچوں کو مکمل برہنہ کرکے ایک ساتھ غسل کرنے کو بھی عار نہیں سمجھاجاتا ہے۔ بچیوں کو بچپن میں بغیر آستین اور کھلے گلے کی فراک و قمیص یا ٹانگیں کھلی رکھنے کو ایک عام فعل خیال کیا جاتا ہے۔ فقہا لکھتے ہیں کہ: چار سال سے کم عمر کا بچہ چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی، اس کا جسم ستر کے حکم میں نہیں۔ پھر جب وہ چار سال سے زیادہ کا ہو جائے تو اس کامستور جسم شرم گاہ اور اس کے اطراف ہیں، بالغ ہونے پر ستر بالغ افراد کی طرح ہوگا۔ تاہم، بچے کو بچپن ہی سے پردے کا جتنا عادی بنایا جائے اتنا ہی اچھا ہے (اسلام اور تربیت اولاد ، شیخ عبداللہ ناصح علوان، ص۷۱۵)۔ لہٰذا کپڑے تبدیل کرتے وقت ایسی جگہ کا انتخاب کرنا چاہیے جہاں کوئی نہ دیکھ رہا ہو۔ بعدازاں جب بچے اپنا لباس خود تبدیل کرنے کے عادی ہو جائیں تو ان کو بھی یہی ہدایت کرنی چائیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ستر دکھانے والے اور یکھنے والے کو اللہ اپنی رحمت سے دُور رکھیں‘‘( شعب الایمان ۶؍۲۶۱ سنن بیہقی ۸؍۹۹)
اگر ابتدا ہی سے بچوں کو اپنے جسم کو چھپانے اور اس کی حفاظت کرنے کی عادت نہیں ڈالوئی جاتی تو بچے بچپن ہی سے بے حیا اور بد نگاہ ہو جاتے ہیں۔ جن بچوں کو ہم اپنے شوق پورے کرنے کے لیے مغربی طر ز کے ایسے لباس پہناتے ہیں جن میں ابتدا ء ہی سے ایک معصوم بچے کا تاثرہونے کے بجا ئے حیا باختہ لڑکی یا لڑکے کا تصور پنہا ں ہوتا ہے وہ دیکھنے والوں کو بھی اس معصوم کے اندر بچوں والی معصومیت کے بجاے لڑکا یا لڑکی تلا ش کرنے کا موقع دیتا ہے۔ آئے دن اخبارات میں دل دہلا دینے والی خبریں آتی ہیں کہ درندہ صفت لوگ چھوٹی بچیوں کو بھی اپنی ہوس کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے۔ حیا کی پرورش اسی وقت ہی ممکن ہے جب اس کو بچے کے ننھے سے دل میں پروان چڑھنے کا موقع دیا جا ئے۔ فطری حیا کو ختم کرنے کے بجاے اس کو ابھارا جائے تاکہ حیا بچے کی شخصیت کا لازمی جز بن جائے۔ لہٰذا بچوں میں ایسے مردوخواتین جن کے لباس حیا سے عاری ہوں دیکھنے پر، اس لباس سے نفرت اور نا پسندید گی کاجذبہ بیدار کیا جائے۔ ایسی گڑیاں (خصوصاً باربی) جن کے لباس اسلامی لباس کے لحاظ سے مناسب نہیں ہوتے، نہ دلائی جائیں، اور بچوں کو اس کی وجہ بھی بیان کی جا ئے کہ اس کا لباس اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق نہیں ہے۔
حاکم اور ابوداود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’تمھارے بچے سات سال کے ہو جائیں تو انھیں نماز کا حکم دو،اور جب ۱۰ سال کے ہوجائیں تو ان کو مارو، اور ان کے بستر علیحدہ علیحد ہ کردو۔ اس نص سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ والدین شرعاً اس بات پر مامور ہیں کہ بچے جب ۱۰سال کے ہوجائیں تو ان کے بستر الگ کر دیے جائیں تاکہ ایک ساتھ لیٹنے کی وجہ سے کہیں ایسا نہ ہو کہ بلوغت کی عمر تک پہنچنے پر کبھی شیطان غالب آجائے اور ان کے جذبات کو شیطانی رنگ دے دے۔ اسی طرح خلوت کا ماحول فراہم کرنا جس میں کزن آپس میں بے تکلفانہ ماحول میں موجود ہوں ، یا ایسے انداز و اطوار کا خیال نہ کرنا جس میں نامحرم رشتہ دار بچوں سے زیادہ بے تکلف نہ ہوں ، مستقبل کے مفاسد کا راستہ آسان کرتا ہے۔ احتیاط علاج سے بہتر ہے کا اصول اپنایا جائے تو ابتدا ہی سے ایک ایسا مزاج ڈھالا جا سکتا ہے جو اسلامی حدود کی پابندی کرنے والا ہوگا۔ ورنہ ایک خاص عمر میں پہنچ کر زور زبردستی کرنے سے بچے میں بغاوت، چڑچڑاپن پیدا ہوجاتا ہے اور وہ اپنے آپ کو قیدی تصور کرتا ہے۔
بچے کی نیک صالح تربیت کے لیے اسلام ان تمام محرکات کا بھی قلع قمع کرتا ہے جو جذبات کو مشتعل کرنے اور نفس کو غالب کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
کارٹونز کے نام پر عجیب الخلقت کرداروں سے مانوس کروانا ، ان کو ہیرو کے طور پر پیش کرنا اور پھر غیر معمولی طاقت کا مالک دکھانا بچے کے ذہن کو اللہ کی طاقت اور واحدانیت کے تصورسے خالی کر دیتا ہے۔ بچے کی نظر میں جب کارٹونز کے یہ مناظر گزرتے ہیں کہ ایک ہیرو بے پنا ہ طاقت کا مالک ہے ، ناقابل شکست ہے ، اس کو موت نہیں آتی ہے ، تو اس کے ذہن میں کیا تصویر بنے گی، اس کا اندازہ کرنا ذرا بھی مشکل نہیں۔ بچپن ہی سے روپے پیسوں کا لالچ اور مادیت پرستی کا تصور دے کر ایسے شیطانی ذہن تیار کرنا جو بعد میں دجالی قوتوں کے ہی زیر اثر رہیں آج کے میڈیا کا کام ہے۔ فلم ، سنیما، سب اسی کی شاخیں ہیں، تاہم ٹی وی کی رسائی آج ہر گھر میں ہو چکی ہے اور اس کے زہر سے کوئی محفوظ نہیں، لہٰذا اس کی ہولناکی سے واقفیت خاص طور پر ضروری ہے۔ ٹی وی اسکرین کے سامنے وقت گزرنے کا ایمانی نقصان تو یہ ہے ہی کہ پوری شخصیت کی تعمیر اسی نہج پر ہوجاتی ہے جیسا شیطانی قوتوں کا مقصد ہے۔ تاہم، اس کے ضمنی اثرات میں بچے کے ذہن کا یکسوئی سے محروم ہوجانا، تعلیمی سرگرمیوں سے بددل رہنا اوردور بھاگنا، مطالعے کے شوق و ذوق کا پیدا نہ ہونا، ہروقت غیر سنجیدہ رہنا، اور hyperactivity بھی شامل ہیں۔
اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کے ساتھ دوستی کی جا ئے ان کو اپنا صدقہ جاریہ سمجھا جا ئے اور ان کے لیے اپنے اوقات کا ر کو ترتیب دیا جا ئے جس میں والدین اور بچوں کا آپس میں تعلق بنے نہ کہ سارا رشتہ تعلقات کی بنیاد پر چلتا رہے۔ اردگرد نظر دوڑائی جا ئے تو والدین اور بچوں کے درمیان صرف تعلقات کا رشتہ ہوتا ہے جس میں کو ئی رمقِ تعلق کی نہیں ہوتی۔ بچپن میں والدین اپنی ذمہ داری یہی سمجھتے ہیں کہ اچھا کھانا، بہترین لباس، اور تعلیمی سہولیا ت مہیا کرکے ان کی ذمہ داریاں پوری ہو گئیں ہیں اور بڑھاپے میں یہی فصل اپنے بچوں کے ہاتھوں کاٹ کا ٹ کر کھا تے ہیں جس میں بچوں کو بھی یہی تربیت ہوتی ہے کہ والدین کی خدمت اسی مادی حد تک محدود ہے۔ اپنے بچوں کی دل کی باتوں کو سننے کی عادت ڈالیں۔ ان کے روزمرہ کے کاموں کو ان کی زبانی سنیں ، جس میں ان کے اسکول، کالج کا احوال ان کے دوستوں کی روداد، ان کی احمقانہ حرکتیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ غلط اور ناپسندیدہ باتوں پر فوری طور پر ردعمل ظاہر کرنے کے بجاے مناسب وقت میں اس کی اصلاح کی جائے۔ یہ وہ عوامل ہیں جن سے والدین اور بچوں میں دوستی کا رشتہ قائم ہوتا ہے۔ عمر کے نازک دور میں بچے اپنے والدین سے چھپ چھپ کر جو سرگرمیاں اختیار کر تے ہیں، اس کی آدھی سے زیادہ وجہ والدین کی اپنے بچوں سے ذہنی لحاظ سے دوری ہوتی ہے۔ بے جا سختی ،ہر وقت لعن طعن ، حد سے بڑ ھا ہو ا پیا ر و محبت بچوں کو بگا ڑنے کا سبب بنتا ہے۔ تعلق ہی رشتے کو قائم بھی رکھتا ہے اور مضبو ط بھی لہٰذا اپنے بچوں سے تعلق قائم کیجیے کیو ں کہ بچے آپ کی آخرت میں نجات کا با عث بھی ہیں، اور اُمت کا سرمایہ بھی۔
مقالہ نگار عثمان پبلک اسکول، شمالی ناظم آباد، کراچی میں معلمہ ہیں،
معا شرتی زندگی کی بنیادی اکائی خا ندان ہے۔ اسلامی معاشرے میں ہر نئے خاندان کی ابتدا ایک مرد اور عورت کے درمیان نکاح کے ذریعے ڈالی جاتی ہے۔ معا شرے کی صالح قدروں کی نشوونما ، استحکام اور بقا، خا ندان کی مضبوطی سے وابستہ ہے۔ ایک صالح خا ند ا ن اس وقت و جو د میں آتا ہے جب صالح مرد اور عورت آپس میں نکاح کے پاکیزہ رشتے سے منسلک ہوجائیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نکاح میری سنت ہے‘‘۔ اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا: ’’میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں، جو میری سنت سے منہ موڑے وہ مجھ سے نہیں ہے‘‘ (بخاری )۔ گویا ایک مسلم معاشرے میں نکاح بے حد اہمیت کا حا مل ہی نہیں، سنت ِ رسولؐ بھی ہے۔
نکاح مرد و عورت کے د ر میا ن ایک پاکیزہ ، پر خلو ص بندھن کا ا یسا معاہدہ ہے جس میں اللہ نے برکت ، محبت و خوب صورتی پید ا کر دی ہے۔ ’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی‘‘(روم ۳۰:۲۱)۔اس مخلص رشتے میں محبت دراصل اللہ کی بے پایاں رحمت کا حصہ ہے جس کامقصد ایک پر سکون اور صالح معاشرتی زندگی کی تعمیر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو یہ دعا سکھائی ہے: رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰـتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا o (الفرقان ۲۵:۷۴) ’’اے ہمارے رب! ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولادوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنادے‘‘۔
عا م طور پر شادی کی تیار یا ں تو بہت زوروشور سے ہوتی ہیں لیکن شادی کے بعد کی زندگی کی کوئی منصوبہ بندی جس کی بنیاد خالصتاً رضاے الٰہی، یعنی دینی بنیادوں پر ہو نظر انداز ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس سلسلے میں دین دا رگھرانوں کا بھی غیر اسلامی معاملات سے صرف ِ نظر کرنا گویا دین داری کو پھر اسی دائرے میں مقید کر دینا ہے جس کا آغا ز کلمہ کے زبانی ا قرا ر سے شروع ہو کر عبادات کے مظاہر پرختم ہوجاتا ہے۔ ا گر اس میں اللہ کی حدود اوراسلامی تعلیما ت کا خیال رکھا جائے تو خاندان کی ا بتدا اسلامی ا صولوں پر ہوگی۔ اسلام ایک مکمل ضا بطۂ حیات ہے۔ وہ زندگی کے ایک ایسے فیصلے کو جس پر انسان کی آدھی سے زیادہ زندگی کے اعمال کا ا نحصار ہے، نظرانداز نہیں کرسکتا۔ اسلام میں اس سلسلے میں نہایت وا ضح رہنما ئی ملتی ہے جس پر عمل پیر ا ہوا جائے تو وہ مسائل جن کا فی زمانہ بہت سے لوگوں کو سامنا کرنا پڑ ر ہا ہے ، ان کی شدت میں کمی وا قع ہوجائے۔
یہ شادی کی تیاری کا پہلا مرحلہ ہے جو ہماری معاشرت میں خالصتاً زنانہ کام سمجھا جاتا ہے۔ بظاہر عام روز مرہ زندگی کا ایک ایسا کام جس کو سال ہا سال سے تقریباً ہر فرد نے اپنی اپنی اولادوں کے لیے سرا نجام دیا ہوگا، ہمارے دین کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں احادیث سے واضح ہدایات ملتی ہیں۔ ہرعمل جو روزمرہ زندگی میں معمول کا حصہ سمجھا جاتاہے ،ایسے مباحات میں شمار ہوتا ہے جن میںدینی لحاظ سے بھرپور منصوبہ بندی کر کے آغاز کیا جائے تو آخرت میں بے حد اجر و ثواب کا باعث ہوسکتا ہے۔ یہاں ذرا ٹھیر کر خود سے سوال کریں کہ آپ انتخابِ زوج کے لیے کیا ترجیحات رکھتے ہیں؟ پھر اس کی درجہ بہ درجہ فہرست مرتب کر لیں تو ہمیں خود اندازہ ہوجائے گا کہ دین ہمارے معاملات میںکس درجہ اور کس حد تک شامل ہے اور رسوم و رواج، جاہلانہ روایات و اقدار جس میں قو م ، قبیلہ ، ذات وغیرہ شامل ہیں ا ن کی کیا اہمیت ہے۔
حدیث ہے کہ ہر عمل کا دارومدا ر نیت پر ہے۔ مناسب زوج کا انتخاب کرتے وقت اس حدیث کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ آیا میری بیٹی ، بیٹا یا فرد کی اپنی شادی صرف اس و جہ سے ضروری ہے کہ یہ ایک معا شرتی یا طبیعی ضرورت ہے یا اس لیے کہ ایک پاکیزہ رشتے سے ایک صالح خاندان وجود میں آئے گا؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ اخلاص نیت سے کیا گیا ہر کام عبادت میں شمار ہوتا ہے۔ جس طرح ہر عبادت کی نیت ہوتی ہے جو اس عبادت کے لیے یکسو کر دیتی ہے، اسی طرح زندگی کے دیگر معاملات میں بھی نیت کو خالص اللہ کی ر ضا کے لیے متعین کرنا قرب الٰہی کا ذریعہ ہے اور ساتھ ساتھ شیطا نی افکا ر و اعمال سے نجات کا بھی۔ اگر نکاح کی تیاریو ں کے اس مرحلے کو خالص کرلیا جائے تواللہ تعالیٰ کی رحمت شامل حال ر ہے گی۔ اس لیے ضرور ی ہے کہ ا نسا ن اپنی نیتوں کا جائزہ لیتا رہے، اپنی رغبتوں کو پرکھتا رہے کہ نکاح کے لیے میری نیت کیا ہے اور میری ترجیحات میں دین کتنا شامل ہے۔
دوسرا مرحلہ ایک ایسے فرد کی تلا ش ہے جو نکاح کے لیے ا ن تمام شرائط کو پوراکرتاہو جس کا تقاضا دین اسلام ہم سے کرتا ہے۔ اس ضمن میں ہر فرد کو خوب سوچ بچار کرنے کا حق حاصل ہے لیکن ترجیحات کا تعین ہماری دینی سمجھ بوجھ اور تقویٰ پر منحصر ہے۔ ایک دین دار فرد کے لیے یقینا زندگی کا یہ مرحلہ بہت نازک ہوتا ہے۔ جب زندگی کا ایک حصہ اللہ کے ا حکام کے مطابق گزارنے کی سعی میں صرف ہوچکا ہو تو وہ فرد اپنی باقی ماندہ زندگی کو ایسے فرد کے ساتھ گزارنے کاسوچ بھی نہیں سکتا جو ملحدانہ سوچ کا حامل ہو اور اس کا دین زبانی کلا می اسلامی دعووں تک محدود ہو۔
قرآن صالح مرد کے لیے صالح عورت اور صالح عورت کے لیے صالح مرد کا انتخاب کرتا ہے۔ ’’خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے۔ پاکیزہ عورتیں، پاکیزہ مردو ںکے لیے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے ‘‘(النور ۲۴:۲۶)۔ اسی طرح پسند ناپسند کامعیار تقویٰ پر مقرر کرتے ہوئے قرآن میں تاکید آتی ہے کہ ’’تم مشرک عورتوں سے ہرگز نکاح نہ کرنا جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ ایک مومن لونڈی، مشرک شریف زادی سے بہتر ہے ، اگر چہ وہ تمھیں بہت پسند ہو۔ اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے کبھی نہ کرنا ، جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ ایک مومن غلام، مشرک شریف سے بہتر ہے ا گرچہ وہ تمھیں بہت پسند ہو۔ یہ لوگ تمھیں آگ کی طرف بلا تے ہیں اور اللہ ا پنے اذن سے تم کو جنت اور مغفرت کی طرف بلا تا ہے۔ ‘‘(البقرہ ۲:۲۲۱)
انتخا ب کرنے والے فرد کو انتخاب کرتے وقت یہ ضرور سوچناچاہیے کہ پسند ناپسند کامعیار دینی تعلیمات پر مبنی ہے یا اپنی ذاتی رغبتوں اورزمانے کی روایات کے مطابق۔ حدیث نبویؐ اس سلسلے میں ہماری جو رہنمائی کرتی ہے وہ بہت و اضح ہے۔ حضرت ا نس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے کسی عورت سے محض اس کی عزت کی و جہ سے شادی کی، اللہ تعالیٰ اس کو خوب ذلیل کرے گا، جس نے کسی عورت سے اس کے ما ل کے سبب شادی کی تو اللہ تعالیٰ اسے محتاج بنا د ے گا، اور جس نے کسی عورت سے اس مقصد کے لیے شادی کی کہ اس طرح اس کی نگاہ جھکی رہے اور اس کی شرم گا ہ محفوظ رہے تو اللہ تعالیٰ اس کو عورت کے ذریعے اور عورت کو اس شخص کے ذریعے خیر و برکت سے نواز د ے گا‘‘۔ ( الطبرانی الاوسط)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روا یت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عورت سے چار بنیادوں پر نکاح کیا جاتا ہے: اس کے مال کی خاطر ، خاندان کی و جہ سے ،اس کے حُسن کی و جہ سے ، اس کے دین کی خاطر۔ تمھارے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں،تم دین دا ر عورت کو نکاح میں لائو۔(بخاری، مسلم )
اسلام نکاح کا پیغام دینے والے مرد و عو رت کے لواحقین کے سامنے جو معیار پیش کرتا ہے وہ ان احادیث سے واضح ہے۔ ایک مسلمان کی زندگی کا کل اثاثہ دین ہے۔ سارے معاملات کی بنیاد بھی دین ہے کیونکہ اس کے علاوہ سارے معیار ہماری ذاتی ، نفسی اور رسوم و روایات پر مبنی اور باطل ہوتے ہیں۔ ان کے اثرات و نتائج اور نقصانات کے ہم خود ذمہ دار ہوتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا ہے۔ رسولؐ اللہ نے نکاح کرنے والے ہر فرد کو اس بات کی تلقین کی ہے کہ اس کامعیار پا کیزہ طبیعت ، دین داری اور بہترین ا خلا ق پرہونا ضرور ی ہے نہ کہ ظاہری چمک دمک اور ما ل و دولت پر۔ ان معاملات کو دینی بنیادوں پر اسی وقت استوار کیا جاسکتا ہے جب فرد اپنی سوچ کو دین کے تقاضوں کے مطابق کر دے۔ وہ فرد جو حسن ِ صورت اور دنیاوی مرتبہ رکھتا ہو اس کا حصول بہت پُرکشش ہوتا ہے۔ اس معیار پر بھی اسلام نے کوئی قد غن نہیں لگا ئی کیونکہ اس رشتے کی بنیاد دلی رغبت پر بھی ہوتی ہے لیکن صرف اس کو معیار بنا کر دین کو فہرست کی انتہا پر رکھنا یا اسے غیرضروری حیثیت دے دینا درست نہیں ہے۔
عزت کا قرآنی معیار ایک ایسا آفاقی معیار ہے جو ہر اس نظریے کی نفی کرتا ہے جس سے انسا نیت متاثر ہوتی ہے۔ اس معیار کو قرآن اس طرح پیش کرتا ہے: ’’ا ے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد و عورت سے پیدا کیا اور تم کو گروہ اور قبا ئل بنا دیا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچانو ، درحقیقت تم میں سب سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے‘‘(الحجرات)۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روا یت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اللہ تمھاری شکل و صورت اور جسموںکو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمھارے دلوں اور تمھارے عملوں کو دیکھتا ہے ــ‘‘ (صحیح مسلم)۔ اسی طرح خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا کہ ’’تم میں سب سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے‘‘۔
یہ دراصل وہ اسلامی معیار عزت ہے جس میں قا بل عزت صرف وہی ہے جس کے پاس تقویٰ ہو۔اگر رشتوں کی بنیاد بھی اسی آفاقی معیار عزت پر رکھی جائے تو مرو جہ روایتی طریقوں کی پیروی جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے، خود ہی ختم ہوجائے گی۔ زندگی کے ہر شعبے کو کسی نہ کسی قانون کا پابند کیا جاسکتا ہے اور لوگوں کو اس کی پاس داری پر مجبو ر بھی کیا جاسکتا ہے لیکن گھریلو معاملات کے دائرے میں معاملات درست کرنے کے لیے تقویٰ ناگزیر ہے، ورنہ فرد پر کوئی قانون لاگو نہیں کیا جاسکتا۔ یہی تقویٰ آیندہ زندگی کے معاملات کو درست رکھنے اور رضا ے الٰہی کے حصول کے لیے معاون ہوگا۔ ورنہ شیطان کے چنگل میں پھنسے لوگ اللہ کے خوف سے آزاد ہوکر معاملات کرتے ہیں اور زندگی طنز، طعنے، بدگمانی ، حسد جلن جیسے قبیح افعال سے بھر جاتی ہے۔
مومن کوتاہ بین نہیں ہوتا۔ اس کی بصیرت کا تقاضا ہے کہ وہ ا پنے ہر عمل کامستقبل آخرت میںدیکھے۔ انتخا ب کرتے وقت اس بات کا بھی ادراک ہونا ضرور ی ہے کہ یہ انتخاب محض زوجین کا ہی نہیں بلکہ مستقبل کے والدین کا انتخا ب بھی ہے۔ ان کو آگے چل کر امت مسلمہ کے لیے ا یسے افراد کی تربیت کرنے کا فرض ادا کرنا ہے جنھیں خلیفۃ اللہ فی الارض کامنصب سنبھالنا ہے۔ وہ نکاح جس میں دینی اقدار کا خیال رکھا جاتا ہے تربیت اولاد کے سلسلے میں بھی ٹھوس کردار ادا کرتا ہے اور اسی کے ذ ریعے ایک صالح نسل وجو د میں آتی ہے۔ لہٰذا انتخاب زوجین کے وقت ایک ا یسا خا ندان ضرور چشمِ تصور میں رکھنا چاہیے جو صالحیت کے قرآنی معیارپر پورا اترتا ہو اور جس میں زوجین بحیثیت ما ں باپ کے ا پنے اپنے فرا ئض و حقوق ادا کر کے نسلِ نو کی اسلامی اصولوں پر تربیت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ جہا ں ما ں کی گود اولاد کے لیے پہلا مدرسہ ہے وہیں حدیث کے مطابق ایک باپ کااپنے بچے کے لیے سب سے بہترین عطیہ اچھی تعلیم و تربیت ہے۔ یوں تربیت کی ذمہ داری ما ں باپ دونوں کے کاندھوںپر آجاتی ہے۔ تربیت وہی فرد بحسن و خوبی کر سکتا ہے جو اپنے فرض و ذمہ داری کا بخوبی ادراک رکھتا ہو۔
قرآن میںہے کہ ’’اے مومنو! ا پنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو آگ سے بچائو‘‘ (التحریم ۶۶:۶)۔ قرآن نجات کا یہ اصول پیش کرتا ہے کہ صرف اپنی ہی فکر نہ کر و بلکہ ا پنے اہل خا نہ کو بھی آتش دوزخ سے نجات دلا ناسرپرست ہی کا فریضہ ہے۔ اس فرض کی ادایگی اسی وقت ممکن ہے جب والدین کے اپنے دل میں حب الٰہی ، خوف خدا اور ایمان کی کیفیات ہوں جو ان کے معاملات سے بھی جھلکتی ہوں۔ آج کی نوجوان نسل کے کاندھوں پر کل کے مستقبل کے معماروں کی تربیت اور نشوونما کی ذمہ داری ہے۔ اس میں کی جانی والی کوتاہی ہماری نسلوں کے ایمان و عمل کو تباہ کرسکتی ہے۔
جنت کے حصول کا ایک اہم ذریعہ نیک اور صالح زوجین کے انتخاب سے بھی مشروط ہے۔ قرآن میں مختلف مقامات پر بیویوں اور اولاد کے لیے جنت کا وعدہ ہے:’’ آخرت کا گھر انھی لوگوں کے لیے ہے ، یعنی ا یسے باغ جو اِن کی ا بدی قیا م گاہ ہوں گے۔ وہ خود بھی ان میں داخل ہوں اور ان کے آبا و ا جداد اور ا ن کی بیویوں اور ا ن کی اولاد میں سے جو جو صالح ہیں وہ بھی اُن کے ساتھ وہاں جائیں گے‘‘(الرعد۱۳:۲۳-۲۴)۔ ان آیا ت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہا ں کامیا بی کا تصور جنت میں داخل ہونے اور آتش جہنم سے نجات سے منسلک ہے۔ اس لیے نیک زوج کی اہمیت اور بھی بڑ ھ جاتی ہے کہ وہ نہ صرف خود کو بلکہ ا پنے ا ہل و عیال کو بھی آتش دوزخ سے بچانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
ایک اور مقام پر ہے: ’’جو لوگ ایمان لائے ہیں اور ا ن کی اولاد بھی کسی درجۂ ایمان میں ان کے نقش قدم پر چلی ہے اُن کی اُس اولاد کو بھی ہم (جنت میں ) ان کے ساتھ ملا دیں گے اور ان کے عمل میں کوئی گھا ٹا ان کو نہ دیں گے‘‘ (الطور ۵۲:۲۱)۔ پس انتخا ب کرتے وقت مستقبل کا وہ نقشہ ضرور سامنے رہنا چاہیے جس میں آخرت کا خسارہ نہ ہو۔ مستقبل تو لازمی سوچا جاتا ہے لیکن وہ اسی روزمرہ زندگی کے حوالے سے یا اپنے ساتھ تعلقات کی بنیاد پر تعمیر کیا گیا ہوتا ہے۔ اس مستقبل میں اگر آخرت کا حصہ بھی شامل کر لیں تو ان شا ء اللہ اصل نا کامی اور خسارے سے بچ رہیں گے۔
مشاورت ، اخوت و محبت اور نظم و ضبط کسی بھی گھرانے کو مستحکم کرنے کاسبب ہیں۔ ا یسے گھرا نے کی تشکیل وہی افراد کر سکتے ہیں جن کے دل میں حب ا لٰہی ہو اور ا ن کی محبت و نفرت ، کسی سے ملنا اور کٹنا صرف اور صرف اللہ رب العالمین کی خوشنودی کے لیے ہو۔ جن گھرانوں میں ا ن اوصاف کی قدر کی جاتی ہے وہا ں خود بہ خود تعلقات مستحکم اور پایدار ہوجاتے ہیں اور فرد کو ا پنے حقوق کے بجاے ا پنے فرائض کی ادایگی کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ عفو و درگزر کا رویہ ایک مومن ہی کی شان ہے۔ نیک و صالح زوجین ا پنے تعلقات کی بنیاد اللہ رب العزت کی خوشنودی کے حصول پر رکھتے ہیں، لہٰذا وہ اپنے ا خلا ق کی ہر ممکن حفاظت کرتے ہیں۔ بڑوں کی عزت ، چھوٹوں سے شفقت و محبت ، راے کی قربانی ، کسی کی خاطر اپنے جذبات و احساسات کو قربان کر دینا جیسے اعلیٰ اوصاف گھر ہی سے پروان چڑھتے ہیں۔ جن افراد کے دل میں ایمان کا بیج خوب اچھی طرح جڑ پکڑ چکا ہو تو اس کی بہاریں ان کے عمل سے ظاہر ہوتی ہیں۔ ایسے افراد ہمارے آس پاس ، ارد گرد ہی موجود ہوتے ہیں لیکن ہماری ترجیحات کی بنا پر وہ ہماری نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ یہ ہر فرد کا اپناانتخا ب ہے کہ وہ زوجین کے انتخا ب کے وقت مستقبل کی ا ن چیزوں کو مدنظر رکھتا ہے یاوقتی دل کشی اورآسودگی کے معیارات میں کھو کرتھوڑے فائدے کو اپنا مطمح نظر جان لیتا ہے جس میں ممکن ہے کہ دنیا کی کامیابی ہو لیکن بہت ممکن ہے کہ اس عارضی کامیابی میں جنت کی را ہ کہیں کھو جائے اور کُلی خسارہ اس طرح ہماری جھولی میں آ گرے کہ ہمیں اس کی خبر بھی نہ ہو۔
مغر بی تہذ یب کے مفاسدہماری معا شرت و معاملات میں اس حد تک سر ایت کر گئے ہیں کہ جب دین کی بنیادوں پر معاملات کی بات ہو تواس پر عمل کرنا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور نظر آتا ہے۔ خاص طور پر اس مرحلے میں فرد خود اس بات کا اندازہ نہیں کر پا تا کہ وہ کس و جہ سے کون سا کام کر ر ہا ہے تا قتیکہ وہ ا پنے ہر ہر عمل کو قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھنا شروع کر دے، اور ا پنے ہرعمل کا جواز ا پنے دل سے پوچھے کہ کیا اس میں میری ذاتی رغبت ہے یا یہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کیا گیا ہے۔ معا شرے کا چلن اس طرح ہوگیا ہے کہ ان مراحل میںاس عارضی زندگی کے لوازمات اور ضروریات پر توخوب بات کی جاتی ہے اورکمی بیشی کی صورت میں شاذ و نادر ہی سمجھوتا کیا جاتا ہے، تاہم دینی معیار پر خوب خوب سمجھوتا کیا جاتا ہے۔ جب مرد کے لیے معیارِ انتخا ب ما لی حیثیت، گھر والوں کی تعدادوغیرہ جیسے امور پر ہی ختم ہوجائے اور عورت کے لیے خوب صورتی، جان پہچان، مال و دولت وغیرہ پر، تو دینی معیار بہت ہلکے پھلکے انداز میںلیا جاتا ہے۔ فریقین کے بارے میں ان باتوں کا جاننا کہ نماز کی پابندی کا کیا حال ہے ، قرآن سے تعلق کی کیا کیفیت ہے ،قرآن سمجھنے ، سمجھا نے میں کتنا وقت لگا نا معمول ہے، سنت رسول ؐ سے محبت و اُلفت کتنی ہے ، زندگی کے معمول میں اقا مت دین کی جد و جہد کاکتنا حصہ ہے، دنیا میں ا پنے اصل مقصد سے کتنی آگاہی ہے اور معاملات میں اسلام کتنا ہے،جیسے اہم سوالات جو کہ درحقیقت سیرت و کردارسازی کی بنیاد ہیں اور آگے چل کر پُرسکون زندگی کا باعث بنتے ہیں، جنھیں اصل میں جاننے کی جستجو ہونی چاہیے ا نتہا ئی غیر اہم سمجھے جاتے ہیں، جب کہ اس سے کہیں ز یادہ محنت ان باتوں کی تحقیق میںکی جاتی ہے جو اس چند روزہ زندگی کا کھیل تماشا ہیں۔ سمجھوتا ہوتا ہے تو دینی معاملات میں۔ زندگی کے ہر معاملے میں ہم خوب سے خوب تر کی تلا ش میں سرگرداں رہتے ہیں بس ایک دینی معاملات ہی ا یسے ہوتے ہیں جن میں سمجھوتا کرنے کامشورہ د ے کر اپنے عقل مند اور حقیقت پسند ہونے کا ثبوت دیا جاتا ہے۔
یہ دراصل اس بات کا نتیجہ ہے کہ صالحیت کا قرآنی معیار رائج الوقت نہیں ہے، لہٰذا اس کی خواہش و جستجو کرنا ایک لاحاصل کام سمجھا جاتا ہے۔ صالحیت ایک طرزِ زندگی کا نا م ہے جو کسی محدود دائرے میں مقید نہیں رہتی اور مصلحتوں کے ا نبا ر میں نہیں دبتی۔ اس کا اظہار ہربات اور ہر معاملے سے ہوتا ہے۔ عقل مند تو اللہ کی نظر میں وہ ہے جو اپنی آخرت کی فکر کرتا ہے نہ کہ وہ جو دنیا کی زند گی کو اپنا مطمح نظر مان کر ساری تگ و دو اسی کے لیے کرتا ہے جو کہ غارت ہوجانے والی ہے۔ کیا اللہ رب العزت بھی تقویٰ کا وہی معیار قبول کر یں گے جو ہمارے پیش نظر ہوتا ہے؟ اگر کسی کو اس بات کا پختہ یقین ہے تو پھر تو دینی معیار پر سمجھوتے کی گنجایش نکل بھی آتی ہے تاہم دوسر ی صورت میں چند روزہ زندگی کے لیے آخرت تباہ کرنا کوئی دانش مندی کی بات نہیں ہے۔ یہی معیار ہمیں جنت کے حصول کے لیے چاہیے تو ذراسوچ لیں کہ کیا جنت کاسودا ا تناسستا ہے کہ وہ یوں ہی مل جائے گی، جب کہ ہماری زندگیاں مادہ پرستی کا بھرپور شاہکار ہوں۔ اپنی اولاد ، زوج ، رشتہ داریوں اور تعلقات کے لیے اپنی پسند کا اسلام قبول کرتے ہوں گو کہ ہمارا دعویٰ ہو کہ ہم مسلمان ہیں، جب کہ ایمان ہمارے حلق سے نیچے نہ اُترا ہو۔ سیرتِ رسولؐ اور سیرتِ صحابہ ؓ سے ہمیں اُس معیار تقویٰ کی جھلک نظر آتی ہے جو مسلمان مرد و عورت کو زوجین کے انتخاب کے وقت پیش نظر رکھنا چاہیے۔ حضرت عمر فا رو قؓ کا صرف اس بات سے متاثر ہو کر ایک دودھ بیچنے والی کی لڑکی کو اپنی بہو بنالینا کہ اس نے اللہ سے خوف کی بناپر دھوکا و ملاوٹ سے انکار کردیا، اس بات کی روشن دلیل ہے کہ ایک مسلمان کامطلو ب و مقصو د تقویٰ ہوتا ہے۔ تاریخ گو ا ہ ہے کہ ا نھی کی نسلوں سے ایک با ر پھر عمرؓثانی کی مثال دنیا کو ملتی ہے۔
ذیل میں ا ن عو ا مل کی نشان دہی کی جا رہی ہے جو نکاح کو مشکل اور حرام کو آسان بنا رہے ہیں اور جن کی بنیادیں اسلام میں نہیں ہیںلا محالہ یہ عوامل فساد فی الارض کاسبب بھی ہیں۔
حضو ر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تمھارے پاس ایسا شخص ( نکاح کا پیغام ) لے کر آئے جس کی دین داری اور اخلا ق سے تم خوش ہو توپھر اس کے ساتھ نکاح کر لو ورنہ زمین میں فتنہ و فساد بر پا ہوجائے گا۔ (ترمذی)
جہا ں دینی قدروں پر سمجھوتا کیا جاتا ہے وہا ں دین دارو ں کو اس و جہ سے مسترد بھی کر دیا جاتا ہے کہ وہ بہت سی دنیا و ی لوازما ت میں پیچھے ہوتے ہیں یا ہم پلہ نہیں ہوتے۔ اسلامی معاشرے کا اس سے بڑا ا لمیہ اور کیا ہوگا کہ ایک پاک باز لڑکی کو ایک بے دین ، ملحدانہ نظریات و خیالات رکھنے والے مرد کے عقد میں دے دیا جائے جس کی نظر میں اعلیٰ اخلاقی قدروں اور اوصاف کی کوئی وقعت ہی نہ ہو ، اور پھر لڑکی کو فرعون کی بیوی حضرت آسیہ کی مثالیں د ے کر سمجھوتا کرنے کو کہا جائے، یا شوہر کے رنگ میں رنگ کر اپنی آخرت تباہ کرنے کے لیے آمادہ کیا جائے۔ انتخاب کے عمل میں ترجیح، تقویٰ کو ہونا چاہیے۔ خدا نخواستہ کبھی معاملہ اس کے برعکس ہوجائے تو فرد آسیہ کا کردار بھی ضرور ادا کرے لیکن شادی ہی یہی سوچ کر کی جائے تو یہ اللہ سے مایوسی کا رویہ ہے۔ ایسے میں ا پنے اُخروی مستقبل کا ضرور سوچ لینا چاہیے۔ اسی طرح مرد کے لیے بے دین بیوی کا انتخاب مرد کی دین داری کو متاثر کرتا ہے۔ جنت کے حصول کے خواہش مند فرد کا انتخاب حدیث نبویؐ کے مطابق ہوتا ہے۔ حدیث ہے کہ دنیا متاع ہے اور اس کی بہترین متاع نیک بیوی ہے (مسلم)۔ اسی طرح ایک اور حدیث ہے کہ نکاح آدمی کا نصف دین ہے۔ پس آدمی کو ا پنے باقی نصف دین کی فکر کرنی چاہیے۔
ان ہدایات کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ کیفیت یہ ہے کہ نکاح جیسے حلال ، پاکیزہ اور آسان عمل کو مشکل ترین بنادیا گیا اور حرام کے تمام ذرائع آزادانہ چاروں طرف میسر ہیں۔ سرپرست ، والدین ا پنے بچوں کی طرف سے متفکر رہتے ہیںلیکن معاشرے کی اس صورت حال میں کس کا کتنا حصہ ہے اس پر بھی غو ر کرنا ضروری ہے۔ جب ہم اپنی اولاد کے لیے حلال ذرائع خود مشکل بناتے ہیں، ان کو اپنی خود ساختہ رسوم و روایات کا پا بند کرتے ہیں تو حرام ذریعہ اپنی جگہ خود بنا لیتا ہے اور اسی کے راستے ہموار ہوتے ہیں۔ آج نکاح مشکل ہے اور زنا آسان۔ اس سے بڑا فتنہ اور فساد فی الارض اور کیا ہوگا کہ وہ گنا ہ جس سے صالحیت کی عما رت زمین بوس ہوجائے آسان ہو اور جو بات معاشرے کی پاکیزگی کی ضا من ہے وہ ہماری پسند ناپسند، خاندانی اَنا و وقار کے بوجھ تلے دب کر سسک رہی ہو۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے اور سوچنے کامقا م ہے کہ کہیں ہمارے کسی عمل سے حرام کا ر ستہ آسان تو نہیں ہو ر ہا ہے ؟
رسم و رواج ہماری زندگی کا ایسا لازمہ بن گئے ہیں کہ اس کو اختیار نہ کرنے والا فرد دنیا میں معتوب و مغضوب ٹھیرتا ہے۔ دلوں کے نہا ںخا نو ں میں چھپے یہ بت ہیں کہ ٹوٹتے ہی نہیں۔ کہیں یہ معروف طریقہ اختیار کرنے کے پردے میں سامنے آتے ہیں ، کہیں اپنی حیثیت کا اظہار کے نام پر اور کہیں کچھ اور بہانوں سے۔ رسوم و رواج کے یہی طوق تھے جن سے ا نبیاے کرام نے ہر دور میںلوگوں کو نجات دلائی۔ اسلام میں تصور جہیز، بری ، بارا ت ، لڑکی کی طرف سے دعوت طعام جیسے تصورات کا کوئی و جود نہیں اور نہ یہ کوئی تسلیم کرنے والی چیزیں ہیں۔ آج ان کواسلامی غلاف چڑھا چڑھا کرقا بل قبول بنانے کی کوششوں نے دین کا حلیہ بگاڑ دیا ہے اور نہ کرنے والوں پر مختلف پھبتیاں کسنا عام ہوگیا ہے۔ شاید یہ وہ دور ہے جب دین اجنبی ہوجائے گا اور اس پر عمل پیرا ہونا فرد کو اجنبیت کے دائر ے میںلے آئے گا۔
زما نے کاساتھ دے کر منکر کو معروف میں بدلنے میں بہت تھوڑا فائدہ ہے، جب کہ اللہ کے بتائے ہوئے معروف کو اختیار کرنا اور زمانے بھر میں اجنبی بن جانا ، مشکل سہی لیکن فائدے کاسودا اور پُرسکون زندگی کی بنیاد ہے۔ یہ اس لحاظ سے بھی مفید ہے کہ جب ا نفرادی طور پر اپنی خوشی کے لیے بہ ظا ہر بے ضرر نظر آنے والی چیز بھی معاشرے میں فتنے کاسبب بنے اور دوسرے افراد کے لیے ایک ایسی مثال قا ئم کرنے کا باعث ہو جس سے دین کی کسی بات پر عمل مشکل ہوجائے تو فرد کو اس چیز سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں اتباع سنتؐ کی اصل روح برقرار رہے، اورمسلمانوں کی طرف سے یہ پیغام جائے کہ اسلام جائز اور حلال رشتوں کو آسان بنا کر لوگوں کو آسانیاں فراہم کرتا ہے اور حرام کا رستہ روکتا ہے۔
انتخا ب زوجین میںسرپرست ، یا والدین کا سارا زور ا ن خود ساختہ نظریات پر ہوتا ہے جو کسی خاندان، روایات ، یار ہن سہن کی بنا پر ذہنوں میں راسخ ہو چکے ہوتے ہیں اور ا ن کی کوئی دلیل حدیث و سنت سے بھی نہیں ملتی ہے۔ یہاں ہم ان خود ساختہ نظریات کا جائزہ لیتے ہیں اور احادیث کی روشنی میں اس عمل کی دلیل دیکھتے ہیں:
۱- نکاح کے لیے خاتون لازماً مرد سے کم عمر ہو۔
نبی کریمؐ کے اسوہ کو دیکھیں تو آپؐ نے اپنا پہلا نکاح ۲۵ سالہ نوجوان ہوتے ہوئے بھی ایک ۴۰ سا لہ بیوہ سے کیا، لہٰذا لڑکی کا لازماً کم عمر ہونا ضروری نہیں۔ اس قسم کی پابندیوں کا مقصد نکاح کو مشکل بنانا ہے۔ بعض اوقا ت دو چار سا ل ہی کا فرق ایسا اہم ہو جاتا ہے کہ ساری کی ساری دین داری اس کی نذر ہوجاتی ہے اور فرد محض اس بنا پر نامعقول قرار پاتا ہے کہ وہ مرد سے دو ، چار سال کے فرق سے بڑا ہے۔ اسلام میں نکاح کے لیے خاتون کا لازماً مرد سے کم عمر ہونا کوئی شرط نہیں ہے۔
۲- غیر شادی شدہ مرد کی شادی لازماً ایک غیر شادی شدہ خاتون ہی سے ہونی چاہیے۔
سیرت سے آنحضرتؐ کے پہلے نکاح کی مثال تو ملتی ہی ہے، تاہم اس سلسلے میں حدیث سے بھی مثال ملتی ہے کہ ’’حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ میرے والد جنگ اُحد میں شہید ہوئے اور سات یا نو بیٹیاں چھوڑ گئے۔ پھر میں نے ایک عورت سے نکاح کیا۔ آنحضرتؐ نے پوچھا جابر ؓ تو نے نکاح کیا ؟ میں نے عرض کیا جی ہا ں ! آنحضرتؐ نے فرمایا باکرہ سے یا مثیبہ(شادی شدہ ) سے ؟ میں نے عرض کیا مثیبہ سے۔ آپؐ نے فرمایا اور! کنواری سے کیوں نہ کیا ؟ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میرے باپ شہید ہوئے اور سات یا نو بیٹیا ں ( میری بہنیں ) چھوڑ گئے، میں نے یہ پسند نہ کیا کہ انھی کی سی ایک اور ( کم عمر) بیا ہ لائوں، اس لیے میں نے ایک جہاندیدہ عورت سے نکاح کیا جو ان کی نگر ا نی رکھے۔ (بخاری )
پس حالات و و اقعا ت کے تنا ظر میں ا گر کوئی فرد یہ فیصلہ کرتا ہے تو خلا ف اسلام کام کا پہلو نہیں نکلتا، یعنی معاملہ ترغیب کا ہے، لازماً شرط ِنکاح بنا لینے کا نہیں۔ بہترہے کہ خوش گوار زندگی کے لیے ہم مزاج اور ہم عمرفرد کا ا نتخاب کیا جائے تاہم ا گر کبھی حالا ت کے پیش نظر یا ضرورتاً یا ان وجوہات کے علا وہ ا گر کوئی فرد رغبتاً بھی کسی بیوہ یا مطلقہ کو اپنے نکاح میں لا نا چا ہ ر ہا ہو، جب کہ وہ خود ایک غیر شادی شدہ مرد ہے، تو یہ شرعاً کوئی ممنوع فعل نہیں ہے۔ نبی اکرم ؐ اور حضرت خدیجہ ؓ کی مثال پھر ہماری یہاں رہنمائی کرتی ہے۔ ہمیں ہمہ وقت یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ہماری نظر میں قا بل اعترا ض حرام امور ہونے چاہییں نہ کہ جائز اور مستحب امور جن کاسنت میں بھی پایا جانا ثابت ہو۔
۳- خاتون یا خاتون کے سرپرست کی طرف سے پیغام نکاح قا بلِ شرم فعل ہے۔
ہمارے ہاں خاتون یا خاتون کے سرپرست کی جانب سے پیغامِ نکاح بھیجنا معیوب سمجھا جاتا ہے حالانکہ شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے۔ حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور ا ن سے نکاح کی خوا ہش کا اظہار کیا۔ یہ سن کر حضرت انس ؓ کی بیٹی بولی (کمبخت) کیا بے شرم عورت تھی، ارے تھو، ارے تھو۔ حضرت ا نس ؓ نے کہا: وہ عورت تجھ سے بہتر تھی۔ اس نے آنحضرتؐ کی محبت میں خود اپنے آپ کو پیش کیا (بخاری)۔ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو براہِ راست پیغامِ نکاح دینا حیا کے منافی نہیں ہے بلکہ شرف حاصل کرنے کا جذبہ ہے۔ امام بخاری نے اس حدیث سے استنباط کیا ہے کہ ایک عورت کسی صالح شخص کو اس کی نیکی کی وجہ سے پیغامِ نکاح دے سکتی ہے۔ اسلام کا عمومی اصول نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بتلایا ہے کہ لا نکاح الا بولی ’’نکاح ولی کے ذریعے ہوتا ہے‘‘۔ اس طرح کے نادر واقعات سے ایسی صورت میں جب ولی نہ ہو یا عورت خود جرأت کر کے پیغامِ نکاح دے سکتی ہو، کا جواز نکلتا ہے، جب کہ بنیاد دین دار شوہر کی طلب ہو۔
حضرت خدیجہ ؓ بھی ایک بیوہ خاتون تھیں انھو ں نے بھی آپؐ کو پیغام ِ نکاح بھجو ایا تھا۔ اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ بیا ن کرتے ہیں کہ جب ام المومنین حفصہ ؓ بیوہ ہوگئیں (ان کے خاوند خنیسؓ بن خدا فہ سہمی جو آنحضرتؐ کے ا صحا ب میں سے تھے مدینہ میں گزر گئے، جنگ اُحد میں زخمی ہوئے تھے) تو حضرت عمر ؓ نے حضرت عثمانؓ اور حضرت ابوبکرؓ سے حضرت حفصہؓ سے نکاح کے لیے کہا مگر انھوں نے خاموشی اختیار کرلی۔ اس کے بعد رسول اکرمؐ نے حضرت حفصہؓ سے نکاح کا پیغام بھیجا (بخاری )۔ یہ ایک طویل واقعے کا اقتباس ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خاتون یا خاتون کے سرپرست کا اسلامی حدود کے اندر رہتے ہوئے پیغام نکاح میں پہل کرنا کوئی قا بل اعتراض اور قابلِ شرم بات نہیں، جس طرح ہمار ے معاشرے میں اس کو سمجھا جانے لگا ہے۔ خیال رہے کہ اسلامی حدود کی پامالی اور بے حیائی کا کوئی پہلو اس میں شامل نہ ہو۔
اب ہم مختصراً دیکھتے ہیں کہ سیرتؐ سے ہمیں تقریب نکاح کا کیا نمونہ ملتا ہے۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے عبد الرحمن بن عوفؓ کے (بدن یا کپڑے ) پر زرد دھبہ دیکھا تو پوچھا: کہو کیا حال ہے (یہ زردی کیسی ہے؟)۔ انھوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ ! میں نے گٹھلی برابر سونا مہر مقرر کرکے ایک عورت سے نکاح کیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: بارک اللّٰہ لک، ولیمہ تو کرو خواہ ایک بکری ہی کاسہی (بخاری)۔ لڑکی کے گھر والوں کی طرف سے دعوت طعام کا بوجھ ہٹا کر ایک کھانا دعوت ولیمہ کاسنت رکھا گیا۔ حدیث میں اس ضمن میںجو ہدایات و رہنمائی ملتی ہیں وہ بھی ہم سب کے سامنے ہیں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’وہ دعوت ولیمہ کیا ہی بری دعوت ہے جس میں صا حب حیثیت لوگوں کو بلایا جاتا ہے اور مسکینوں سے صرف نظر کیا جاتاہے۔(مسلم)
ایک اور جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بلا شبہہ برکت کے اعتبار سے سب بڑا نکاح وہ ہے جس میں کم سے کم اخراجات ہوں (شعب ا لایمان للبیھقی)
یہ تمام ا حادیث ہمارے معاشرے کے موجود ہ رجحانات اور طریقہ کار کی نفی کرتی ہیں جو ہم نے نکاح جیسی سادہ ، آسان اور پاکیزہ سنت کے ضمن میں اختیار کیا ہے۔ نہ مہمانوں کی تعداد کا مسئلہ اور نہ اس شان و شوکت کا اظہار جو اسراف اور نمودو نما یش میں شمار ہوتی ہیں کہ وقت کے نبیؐ کے بھی ان دو اصحاب ؓ ( حضرت جابر ؓ اور حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ) کے نکاح میں شرکت ممکن نہ ہوئی تو نہ کوئی ناراضی پیدا ہوئی نہ کوئی گلہ شکوہ۔ اتبا ع سنت کے ضمن میں اگر ہم نے انتخابِ ازواج اور نکاح کی تقریب ہی کو سنت کے مطابق کر لیں تو ہمارے حب رسولؐ کا دعویٰ کچھ ثابت ہوجائے۔
ایمان دراصل ہے ہی یہ کہ انسان ان تمام رسوم و رواج اور طریقوں سے جو اسلام کے بالمقابل آکراسلامی طرزِ حیات کو مسخ کرتے ہوں، دستبرداری کا اعلا ن کر کے کلمہ کو عملاً اپنی زندگی میں نافذ کرے۔ اس سلسلے میں ضروری ہے کہ درآمد شدہ تمام رسومات اور نظریات کو پوری ہمت و جرأت کے ساتھ پائوں تلے روند دیا جائے کیونکہ ان چیزوں نے نہ صرف دین کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے بلکہ معاشرے میں مفسدات و غلط رجحانات کا باعث یہی چیزیں ہیں۔ بے شک یہ تمام کام جاہلیت کی نشانیوں میں سے ہیں اور اسلام جاہلیت سے نجات دلانے آیا تھا۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے نظریات و افکار کو بھی مسلمان کرنے کی توفیق دے اور معاشرے میں اسلام کی اصل تصویر کو پیش کرنے والا بنا ئے جس میں معروف پر عمل آسان اور منکرپر مشکل ہوتا ہے۔ (آمین)
دکھ ، رنج و الم اورآلام و مصائب انسانی زندگی کا حصہ ہیں۔ ہر انسان کو اپنی زندگی میںکبھی نہ کبھی ایسے لمحات سے ضرور گزرنا پڑتا ہے جب وہ اپنے آپ کو انتہائی تنہا، دل شکستہ ، مایوس ، تھکا ہوا اور کمزور محسوس کرتا ہے۔ افسردگی و مایوسی کے یہ جذبات ماضی کے کسی غم کا نتیجہ بھی ہو سکتے ہیں اور مستقبل کے خوف کا بھی۔ حال سے وابستہ فکریں اور پریشانیا ں بھی اس کا سبب ہوسکتی ہیں۔ اسی وقتی افسردگی کو غمگین ہونا کہتے ہیں اور اگر یہی کیفیت زیا دہ عرصے تک یا مستقل طور پر طاری ہوجائے تو ڈیپریشن کا مرض بن جاتا ہے جس کی وجہ سے انسان کسی کام کا نہیں رہتا۔درحقیقت ہرانسان کی آلام و مصائب کوسہنے کی استعداد مختلف ہوتی ہے لیکن کوئی بھی فرد طویل عرصے تک غم نہیں سہہ سکتا ہے۔لہٰذا یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں میں سے ایک رحمت ہے کہ اس نے خوشی اور غم دونوں کی کیفیا ت کو عارضی بنایا ہے۔لیکن انسان کی فطری خواہش یہ ہے کہ وہ ایک ایسی زندگی گزارے جہاں اس کو کسی بھی قسم کا کوئی خوف و غم لاحق نہ ہو۔ جنت کی زندگی کی ایک خاص بات یہی ہوگی کہ وہاں اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کے لیے وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَ (البقرہ ۲:۶۲)کی تصویر پیش کرتا ہے۔لیکن اس دنیا کے حوالے سے قرآن میں اللہ تعالیٰ فرما تے ہیں: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ (البلد ۹۰:۴)، کہ انسان کو پیدا ہی مشقت میں کیا گیا ہے۔ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدم کا بیٹا اس حا لت میں پیدا کیا گیا ہے کہ اس کے پہلو میں ۹۹مصیبتیں ہیں‘‘۔(ترمذی)
غم انسانی زندگی کا ایک اہم جز ہے۔ یہ ایک ایسی قوت محرکہ ہے جو انسان کو ہمہ وقت اس کام کے لیے فکرمند کردیتی ہے جس کی فکراسے ہلکان کیے دیتی ہے۔ انسانی زندگی میں خوشی سے زیادہ غم کے اثرات ہوتے ہیں۔ لوگوں کی زندگیوںکا بدل جانا اور ان کا رخ تبدیل ہو جانا بھی اکثر اوقات کسی نہ کسی غم اور صدمے کے سبب سے ہوتا ہے۔ عام طور پر غم ا فراد کو مایوس کرنے کا سبب بنتا ہے لیکن ایک بندۂ مومن اپنی زندگی کے غموں کو بھی اللہ کی خوش نودی کا ذریعہ بناتا ہے اور جنت کا حق دار ٹھیرتا ہے اور یہ جبھی ممکن ہے جب ہمیں یہ علم ہو کہ و ہ کون سے غم ہیں جو نجات کا ذریعہ ہیں اور اللہ کی نگا ہ میں پسندیدہ ہیں، اور کون سے غم انسان کو جہنم کے قریب کرنے اور ذلت و پستی میں گرانے کا سبب بن سکتے ہیں۔
اپنی زندگیوں کا جائزہ لیا جائے تو نہ جانے کتنے ہی ایسے غم ہیں جو صرف ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے اور فخر جتا نے کی بنا پر لاحق ہیں۔
ہمارے غموں کی فہر ست ایسے ہی ادنیٰ غموں پر مشتمل ہوتی ہے اور یہ فکریں ہم پر اتنی طاری ہوجا تی ہیں کہ شخصیت میں غیبت ، ٹوہ ، تجسس ، حسد ، جلن جیسے ا خلا قِ رذیلہ پیدا کر دیتی ہے، جب کہ دنیا کی زندگی وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ کے مصداق ہے۔اس لیے کہ ان چیزوں میں مقا بلے اور مسابقت کا انجام سواے خسارے کے کچھ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان چیزوں پر دل شکستہ ہوکر مایوس ہونے یا مل جانے پر اترانے کا رویہ سخت ناپسندیدہ ہے۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی نظروں سے گر جاتے ہیں۔
قرآن کے مطابق دنیا کی مصیبتوں کی حقیقت کیا ہے؟ یہی کہ ’’اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈا لے تو خود اس کے سوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے، اور ا گروہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔و ہ ا پنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے، ا پنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ (یونس ۱۰:۱۰۷)
ان آیات سے یہ با ت واضح ہوتی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جو ہمیں نقصان سے نجات دلا سکے اور جو بھی مصیبت یا نقصا ن ہمیں پہنچتا ہے و ہ مِن جانب اللہ ہوتا ہے۔اس پر غم کرنا ، حد سے زیادہ آنسو بہا نا اور فکر میں مبتلا ہونا دراصل توکل علی اللہ کی کمی کو ظا ہر کرتا ہے۔ہمارے یہ چھوٹے چھوٹے لاحاصل غم ہماری زندگی کے ادنیٰ ترین مقاصد کی عکاسی کرتے ہیں۔جو انسان مادی چیزوں کے حصول کو ا پنا مقصد قرار دیتا ہے اس کی زندگی ما ل و دولت ، عہدے ، نمود و نمایش اور تفاخر کے حصول کے پیچھے اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ کی عملی تصو یر بن جا تی ہے لیکن ان سب کے با و جو د نفس مطمئن نہیں ہوتا۔ خو شی کی ہرکیفیت میں ان چیزوں کے کم ہو جانے اور چھن جانے کا غم غالب آجاتا ہے اور زندگی عدمِ ا طمینا ن اور بے یقینی کا شکا ر رہتی ہے۔
یہ تصورِ رزّاقیت جتنا کامل اور پختہ ہوگا انسان اتنا ہی بے خوف ، نڈر اور بہادر ہوگا۔ دنیا کا کوئی خوف اور غم اسے لاحق نہیں ہوگا اورا سے حق کے راستے سے نہیں ہٹا سکے گا اور زندگی کی بھاگ دوڑ صرف اور صرف اس کے لیے وقف ہو کر نہ ر ہ جائے گی۔
کسی قریبی فرد کی جدائی پر دل قدرتی طور پر غمگین ہوتا ہے خود رسول کریمؐ کی آنکھیں اپنے صاحبزا دے کی جدائی پر آنسوئوں سے تر ہو گئی تھیں۔ اسی طرح حضرت خدیجہ ؓ کی عظیم رفاقت کے ختم ہونے پر، اور ہمدرد چچا ا بوطا لب کے انتقال پر بھی آپؐ بے حد غم زدہ ہوئے تھے۔یہ و ہ فطری غم ہیں جن میں آنسوئوں کا بہنا اختیار میں نہیں رہتا بلکہ حدیث کے مطا بق یہ رحم کا جذبہ ہے جسے اللہ نے اپنے بندوں کے دل میں رکھ دیا ہے۔ رحمت ِعالمؐ کے سب سے چھوٹے بیٹے کی جان کنی کے وقت آپؐ فرما رہے تھے کہ ’’ آنکھیں آنسو بہاتی ہیں ، دل دکھتا ہے ، مگر ہم زبا ن سے صرف وہی کہتے ہیں جس کو ہمارا پروردگار پسند کرتا ہے، اور ا ے ابراہیمؓ! ہمیں تیری جدائی کا بہت غم ہے‘‘۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے یہ منظر دیکھا تو کہا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! آپ بھی رو رہے ہیں‘‘۔ فرمایا: ’’ابن عوفؓ ! یہ آنسو رحمت کی نشا نی ہیں ‘‘۔ تاہم، بعض اوقات یہ غم بھی شدت اختیار کرلے تو مایوسی کی کیفیت میں منہ سے کفریہ جملے نکل جاتے ہیں اور ناشکری کا رویہ اختیار کرلیا جاتا ہے۔ جو لوگ اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہیں اور مصیبت کے وقت بھی اپنے رب کی رضا تلا ش کرتے ہیں ان کے لیے قرآن میں آتا ہے کہـ:
الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْ ٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo (البقرہ ۲:۱۵۶)ا ن لوگوں پرجب کوئی مصیبت و ا قع ہو جا تی ہے تو کہتے ہیں کہ بے شک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور اسی کی طر ف لو ٹ کر جانے و الے ہیں۔
پھریہ ا حساس کہ موت اور زندگی اللہ کے اختیار میں ہے درا صل ایک آزمایش ہے جو انسان کو سکون بخشتا ہے۔ قرآن میں آتا ہے کہ’’ ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور ہم اچھے بُرے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمایش کر رہے ہیں، آخرکار تمھیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے‘‘۔ (الانبیا ۲۱:۳۵)
حضرت معا ذ ؓ جب یمن کے گورنر تھے تو ان کا لڑکا وفات پا گیا۔ رسولِ کریمؐ نے تعزیتی خط میں لکھا کہ ’’ اگر تم نے آخرت کے اجر و ثواب کے لیے صبر کیا، تو تمھارے لیے خدا کی رحمت، عنایت اور ہدایت ہو، پس تم صبر سے کام لو۔ اور خیال رہے کہ کہیں تمھاری بے قراری اور بے صبری تمھیں اجر سے محروم نہ کر دے اور تمھیں پچھتانا پڑے، یقین کرو کہ بے صبری اور بے قراری سے کوئی مرنے والا لوٹ کر کبھی نہیں آیا، نہ اس سے دل کا غم ہی دور ہوسکتا ہے، جو حادثہ پیش آیا ہے اسے تو آنا ہی تھا۔ والسلا م ‘‘۔ غرض یہ کہ فطری غم و آلام بھی اللہ کی نظر میں اسی وقت قا بلِ قبول ہیں جب انسان ایمان و یقین کا د ا من ہا تھ سے نہ چھوڑ ے اور اللہ کی ر ضا پر را ضی ہو کرصبر سے کام لے۔
انسان کے ہر عمل کا تعلق اس کی سوچ سے ہے، اگر سوچ کا ر خ درست کر لیا جائے تو زندگی کی بہت سا ر ی مشکلات خود بخود کم ہو جائیں۔
حضرت ا بوہریرہ ؓ سے روا یت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمھیں کوئی تکلیف، مصیبت پیش آئے تو یہ نہ کہو کہ’ اگر میں ایسا کرتا تو یو ں ہو جاتا ( یا نہ ہوتا ) ‘ بلکہ یہ کہا کر و کہ اللہ نے ہر چیز کو مقدر کر لیا ہے جو اس نے چا ہا وہ کر ڈالا۔ اس لیے کہ لَوْ یعنی اگر، شیطا ن کے عمل کا دروازہ کھول دیتا ہے۔(مشکوٰۃ )
اس حدیث میں انسان کی اس کمزوری کی طر ف اشارہ ہے کہ انسان اپنی حکمت اور تدبیر پر بھروسا کرتا ہے تو اس کی مصیبتیں ایک بھاری غم میں تبدیل ہو جا تی ہیں کہ ’’کاش! یہ کر لیا ہوتا ‘‘ اور ’’کاش! یہ نہ کیاہوتا‘‘۔ اسی طرح مو ت کے وقت یہ کہنا کہ’اچا نک مو ت تھی ‘، ’جلدی ہسپتال پہنچ جاتے تو ایسانہ ہوتا‘‘، اس طرح کی باتیں کرنا گویا ہمارے دلوں کی ایسی کیفیات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم اللہ کے فیصلوں پر راضی نہیں ہیں اور اس کے بجاے اپنی تدبیر ، حکمت اور عقل پر زیادہ اعتبار کرتے ہیں۔ لہٰذا جب مشکل درپیش ہوتی ہے تو انسان بجاے صبر کے بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ مومن جب یہ یقین رکھتا ہے کہ ہر چیز مِن جانب اللہ ہوتی ہے تو اس کے دل کو ایک سکون اور اطمینان رہتا ہے۔
حضرت صہیب بن سنان ؓ کی روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا: مومن کا معا ملہ بھی عجیب ہے۔ اسے جو کچھ بھی پیش آئے و ہ اس کے لیے سرا سر خیر ہوتا ہے اور یہ دولت مومن کے سوا کسی کو نصیب نہیں۔ جب ا سے کوئی نعمت ملتی ہے تو اللہ کا شکر کرتا ہے اور جب ا سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ (اللہ کے لیے) صبر کرتا ہے، اور (اس طرح) مصیبت بھی اس کے لیے سراسر خیر بن جا تی ہے۔ گویا صبراور شکر دو ایسے خوب صورت اعمال ہیں جو انسان کو اللہ کا پسندیدہ بندہ بنا دیتے ہیں۔ مصیبت پہنچنے کی صورت میں و ہ ا پنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ کا موں سے روکتا ہے، یعنی صبر کرتا ہے، جب کہ نعمت ملنے پر اترا تا نہیں ہے کہ یہ سب میر ی اپنی تدبیر ، علم، تعلقا ت اور ا خلا ق کا حاصل کردہ ہے۔ایسے فرد کے غم اس کی درست سوچ کی و جہ سے کم ہو جاتے ہیں بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ وقتی طور پر افسردہ ہونے کے بعد و ہ دوبارہ مصروفِ عمل ہوجاتا ہے اور اس پر مایوسی کی وہ کیفیت طاری نہیںہوتی جوایک غیردینی سوچ رکھنے و الے فرد پر ہوتی ہے بلکہ بندۂ مومن کے لیے ہرکرب ، قربِ الٰہی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
اس بات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اللہ اپنی لا محدود قدرت کی و جہ سے و ہ علم رکھتاہے جو عا م انسان کو نہیں ہے اور ہمارا خالق بہتر جانتا ہے کہ کس وقت کون سی چیز ہمارے لیے بہترہے۔دعا ے ا ستخا رہ میں انسان کو یہی سکھایا گیاہے کہ انسان ا پنے ر ب سے و ہ خیر مانگے جو دین اورآخرت کی بہتری رکھنے والی ہو اور اسی سے را ستے کی آسانی مانگے۔ وہ تمام کام جو انسان کو دین و آخرت کی بھلائی سے محروم کر دیں، اُن سے بچنے اور اللہ کی پناہ میں آنے کی دعا کرے اور اللہ کے فیصلوں میں یکسوئی کا بھی طلب گار ہو۔ جب انسان اپنی ضرورت و خواہشات کو بھی اللہ کے سپرد کردیتا ہے اور اس کے لا محدود علم و قدرت سے ر ہنما ئی کا طلب گار ہوتا ہے تو اللہ ا پنے بندوں کے دلوں کو سکون و ا طمینان نصیب کرتاہے اور انھیں نعم البدل بھی عطا فرماتا ہے۔دلوں کا ا طمینا ن اور معاملات میں یکسوئی کا حاصل ہونا صرف اور صرف اس وقت ممکن ہے جب انسانی عقل اللہ رب العالمین کی قدرت و اختیار کے آگے جھک جائے اور کہے کہ وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْٓ اِِلَی اللّٰہِ اِِنَّ اللّٰہَ بَصِیْرٌم بِالْعِبَادِ (المؤمن ۴۰:۴۴) ’’اور اپنا معاملہ میں اللہ کے سپرد کرتا ہوں، وہ اپنے بندوں کا نگہبان ہے‘‘۔
انبیاے کرا م ؑاور صحا بہ کرام ؓ جن کی زندگیا ں ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں، ان کی شخصیات کا تعارف و ہ پیشہ ، یا وہ عُہدہ نہیں ہے جو انھیںدنیاوی اعتبا ر سے حاصل تھا بلکہ ان کی سیرت و شخصیت کا نما یاں وصف ان کا اللہ کے دین کی دعوت اور اقامت دین کے لیے جدوجہد میں حصہ لینا ، اور اس نصب العین کے حصول کے لیے اپنی زندگیوں کو وقف کر دینا ہے۔ غمِ روزگار ، ا ولا د اور روز مرہ زندگی کے غم انسان ہونے کے ناطے اُنھیں بھی لاحق ہوں گے لیکن ان کا حصہ ان کی زندگیوں میں اتنا ہی تھا جتنا اس عارضی زندگی کی اہمیت ہے۔ایک مسافر اور ا جنبی کی حیثیت سے رہنے و الے فرد کو اس عارضی زندگی میں صرف منزل تک پہنچنے کی پریشانی ہوتی ہے جو کہ بندۂ مومن کے لیے جنت ہے۔ باقی عارضی پریشانیوں کو دُور کرنے کا نہ اس کو اختیارہے نہ طاقت ہی ۔لہٰذا و ہ اپنی توانائیاں ایسے لاحاصل غم میں ضائع نہیں کرتا جس کا کوئی حاصل نہیں۔حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا:’’جو شخص دنیا کو ا پنا نصب ا لعین بنائے گا ، اللہ اس کے دل کا اطمینا ن و سکون چھین لے گا اور ہر وقت مال جمع کرنے اور ا حتیا ج کا شکا ر ہوگا ، لیکن دنیا کا حصہ اتنا ہی اسے ملے گا جتنا اللہ نے اس کے لیے مقدر کیا ہوگا۔ اور جن لوگوں کا نصب العین آخرت ہوگی ، اللہ تعالیٰ ان کو قلبی سکون نصیب فرما ئے گا اور ما ل کی حر ص سے ان کے قلب کو محفوظ رکھے گا اور دنیا کا جتنا حصہ ان کے مقدر میں ہوگا وہ لازماً ملے گا۔‘‘(ترغیب و ترہیب)
اس سوال پر انسان سوچے تو اس کے لیے عملِ خداوندی کے ہزار مثبت پہلو اور پُرسکون زندگی کی بے شمار بنیادیں نکل آئیں:
۱- انسان کے ا و پر مصیبتیں نہ آئیں تو ا سفل سا فلین کے درجے تک پہنچنے میں د یر نہیں لگتی۔ اس کی زندگی کھا ؤ پیو، عیش و آرا م کے دائرے تک ہی محدود ہو جائے اور وہ ایک شترِ بے مہار کی سی زندگی گزارے۔
۲- غم اور مشکلات ہی انسان کو یہ شعور عطا کرتے ہیں کہ یہ تمام نعمتیں اللہ کی عطا کردہ ہیں اور اس کے ا پنے زورِ بازو کا نتیجہ نہیں ہیں۔ وہ جب چا ہے انھیں وا پس لے لے، اور جب چا ہے کسی بھی نعمت کے نقصان یا جدائی سے دوچار کر دے۔ اس لیے ایسا انسان کسی بھی ناکامی پر ملول اور مایوسی کی کیفیت سے دوچا ر نہیں ہوتا۔
۳-یہ مصیبتیں ہی دراصل صبر کرنا سکھاتی ہیں اور شکر کے جذبے سے بھی آشنا کرتی ہیں۔
۴- ہر چیز مِن جا نب اللہ ہے اور یہی ہمارے رویوں کا امتحان ہے۔ اللہ تعالیٰ اچھے برے حالات میں ڈال کر ہماری آزمایش کرتا ہے کہ ہم اللہ کی طر ف رجوع کرنے و الے ہیں یا بندوں سے امیدیں وابستہ کیے بیٹھے ہیں۔
۵- انسان اس حقیقت سے بھی آشنا ہوتا ہے کہ نہ تو ر نج وآلام ہمیشہ کے لیے ہیں اور نہ خو شیا ں اور مسرتیں ہی ۔ یہ تمام چیز یں وقتی طور پر دنیا کی زندگی کا حصہ ہیں اور اللہ کی طر ف سے ایک آزمایش ہیں۔ با قی رہ جانے و الی صرف نیکیا ں ہیں جو انسان کے کام آتی ہیں۔
یہ مال اور اولاد محض دنیاوی زندگی کی ایک ہنگامی آرایش ہے۔ اصل میں تو باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور اُنھی سے اچھی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ (الکھف ۱۸:۴۶)
۶- ہماری مشکلات اور مصیبتیں جن پر ہم اللہ سے را ضی رہتے ہیں اور صبر و شکر کا مظاہرہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے صلے میں ہماری خطاؤں سے درگزر کرتا ہے۔حدیث ہے کہ : مسلمان کو جو رنج، دکھ، غم، تکلیف اور پریشانی آتی ہے، حتیٰ کہ اگر اس کو ایک کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کی کسی نہ کسی خطا کا کفا ر ہ بنا دیتا ہے۔( بخاری ، مسلم)
۷- رنج و غم دل کو گداز کرتا ہے اور ایسا دل اللہ کے کلا م کے ا ثرا ت کو جلد قبول کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف قربِ الٰہی نصیب ہوتا ہے بلکہ رحم ، ہمدردی اور محبت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں ؎
متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی
مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خدا وندی
۸- انسان عا رضی چیزوں کی و قعت اور اور ان سے دل لگا نے کے انجام سے بھی واقف ہو جاتا ہے۔ اس طرح باقی رہ جانے والی جنت اور اس کے حصول کے لیے تیاری کرتا ہے اور دنیا کے غموں پر اس کا ر و یہ یہ ہوتا ہے کہ و ہ جنت کی د ا ئمی خو شیوں اور آرا م کا طلب گار رہتا ہے۔
ان غموں میں سے کچھ غم ایسے ہیں جو انسان کی زندگی کو مثبت ر خ دیتے ہیں او ر جن کا کرنا آخرت میں انسان کی نجات کا با عث بنتا ہے اور اسے اللہ کا پسندیدہ بندہ بنا دیتا ہے۔
اپنے گناہوں پر غمگین ہونے و الے ا فراد درا صل اللہ کی عظمت و ہیبت سے لرزتے ہیں۔ پھر اپنی کو تاہیوں، غفلتوں اور اپنی بے بسی اور عا جزی کا ا ظہار دعا کے الفاظ میں کرتے ہیں۔ یہ وہ غم ہے جو دل کو سکون اور ا طمینا ن سے بھر دیتا ہے اور اُسے اللہ کا مقرب بنا دیتا ہے۔
غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح سے نیکی کی طرف سبقت لے جانے کی ترغیب دے رہا ہے: ’’دوڑو اور ایک دوسر ے سے آگے بڑھنے کی کو شش کر و ا پنے ر ب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسما ن و زمین جیسی ہے‘‘(الحدید ۵۷:۲۱)۔ یہ غم ایک مومن کی متا ع ہے کہ اس دوڑ میں و ہ پیچھے نہ ر ہ جائے۔ اسی فکر و ا ضطراب نے لوگو ں کے دلوں کو حق کی طرف مائل کیا ہے۔ یہی غم لوگوں کو فلاح کا را ستہ دکھانے اور ا نھیں جہنم کی آگ سے بچانے کے جنون میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
دراصل یہ وہ غم تھے جو ان عظیم ا فراد کو ہلکان کیے رکھتے تھے۔ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہؓ کے زانو پر سر رکھے سو رہے تھے کہ حضرت عائشہؓ کی آنکھ سے آنسو ٹپکے اور آپؐ کی آنکھ کھل گئی۔ فکرمند ہو کر پوچھا: ’’ا ے عائشہ ؓ! تمھیں کس غم نے رُلا دیا؟ اُم المومنینؓ گویا ہوئیں: ’’یارسولؐ اللہ! مجھے جہنم کی یاد آگئی___ اُس نے رُلا د یا۔پھر پوچھا: ’’یارسولؐ اللہ! کیا قیامت کے دن آپؐ ا پنے گھر والوںکو یا د رکھیں گے ؟ ‘‘ رسولِ کریمؐ نے فرمایا: ’’اے عائشہ! تین مقامات ایسے ہوںگے جہاں کوئی کسی کو یا د نہ رکھے گا ، نہ خبر لے گا۔ عندالکتاب، وہ وقت جب اعمال نامہ کھولا جائے گا، عندالمیزان، وہ وقت جب اعمال تولے جائیں گے اور عندالصراط وہ وقت جب پل صراط پر سے گزارا جائے گا‘‘۔ اسی طرح ایک با ر اللہ کے نبیؐ نے کچھ لوگوں کو کھِل کھلا کر ہنستے دیکھا تو آپؐ نے فرمایا کہ ’’اگر تم لذتوں کا خا تمہ کرنے والی موت کو زیادہ یاد کرتے تو وہ تمھیں ہنسنے سے روک دیتی‘‘ (ترمذی)۔ اسی طرح حضرت عثمان بن عفا ن ؓ کے آزاد کردہ غلا م ہا نی کا بیان تھا کہ حضرت عثمانؓ جب کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو اتنا روتے یہاں تک کہ اپنی داڑ ھی تر کرلیتے ، کہ قبرآخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے۔
انسان کو غم پالنے کا شعور ہو تو وہ ایسے غم پالتا ہے جس سے اس کی آخرت بھی سنور تی ہے اور دنیا کے معاملات بھی درست ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی غم کا سبق ہمیں اسوۂ رسولؐ سے بھی ملتا ہے اور اسی کی عکاسی صحابہ کرام ؓ کی زندگی سے بھی ملتی ہے۔ یہ وہ فرق ہے جو ہماری اور اُن کی زندگیوں میں پایا جاتا ہے۔ غم وہ حقیقت ہے جس کے بغیر انسانی زندگی کا تصور نہیں ، فرق صرف اتنا ہے کہ ہم کون سے غموں کو اہمیت دیتے ہیں، کون سی باتیں ہمیں مضطرب کرتی ہیں اور کس پریشانی میں ہمارے آنسو بہتے ہیں۔ فطری غموں اور روز مر ہ کی تکا لیف پر آنسو بہانا بھی منع نہیں لیکن صرف انھی معاملات پر آنسو بہانہ اور غمگین رہنا بھی پسندیدہ نہیں ہے۔
خود نبی کریمؐ اپنی اس کیفیت کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ: ’’میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی اور جب آس پاس کا ماحول آگ کی روشنی سے چمک اٹھا تو پتنگے اس پر گرنے لگے، اور و ہ شخص پو ر ی قوت سے ان پتنگوں کو آگ سے روک رہا ہے لیکن پتنگے ہیں کہ اس کی کوششوں کو ناکام بنائے دے رہے ہیں اور آگ میں گرے پڑ رہے ہیں۔ اسی طرح میں تمھیں کمر سے پکڑ پکڑ کر آگ سے روک ر ہا ہوں اور تم ہو کہ آگ میں گرے پڑ رہے ہو‘‘۔
یہ فکر کی وہ کیفیت ہے جو دنیا کے معز ز ترین گروہ کے اضطراب کو ظاہر کر تی ہے۔ان کا غم صرف یہ تھا کہ کسی طرح انسانیت کو فلاح کا را ستہ دکھا دیا جائے۔یہ وہ غم تھا جو ا نبیاے کرا م کو ان کے اعلیٰ ترین مقصد ِ زندگی کی وجہ سے ہلکان کیے دیتا تھا۔لہٰذا ایک بندۂ مومن کو اس غم سے بڑھ کر اور کون سا غم عزیز ہوگا، جب کہ جہنم کے سیاہ گہرے شعلے نافرمانوں کے لیے بھڑکا ئے جا رہے ہوں، انسانیت اللہ کی حدود کو توڑ کر درکِ ا سفل کی پستی میں گرتی چلی جا رہی ہو،کمزوروں و مظلوموں سے جینے کا حق چھینا جا ر ہا ہو اور طاقت ور دنیا کی ہر چیز پر قبضہ کرنے کے لیے چڑھے چلے جا رہے ہوں، ایسے میں صرف ایک ہی غم اور ایک ہی فکر غالب ر ہتی ہے کہ دنیا میں ظلم کے نظا م کا خاتمہ ہوسکے، سسکتی انسانیت اسلام کے سائے تلے پنا ہ لے سکے اور نجات کی راہ پا جائے۔ یہی وہ غم تھا جو تمام ا نبیا کو ہلکان کیے دیتا تھا، یہی فکر تھی جو حضرت ا برا ہیم ؑ کو ا پنے شیرخوار بچے اور بیوی کو وادیِ غیرذی زرع میں چھوڑ کر جانے کے لیے تیا ر کر دیتی ہے۔ یہی ا حساس تھا جو حضرت موسٰی ؑ کو فرعون کے دربار میں کلمۂ حق بلند کرنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ یہی وہ ا ضطراب تھا جو نبی کریمؐ کو غارِحرا کی تنہائی سے نکال کر یاایھا المدثر کا خطاب عطا کراتا ہے۔طائف کے میدان میں لہولہان کرا دیتا ہے۔ اس فکر ہی میں کبھی شعب ابی طالب کا دشوارگزار مرحلہ آتا ہے تو کبھی عکاظ کا میلہ۔ اسی غم کی قوت بدر و اُحدکے معرکے برپا کراتی ہے اور اسی غم سے قیصروکسریٰ کے ایوان لرز ا ٹھتے ہیں۔ اسی کی کڑی فتح مکہ کا سبب بنتی ہے۔ غرض ہر جگہ، ہر لمحے اور ہر وقت صرف یہی فکر غالب رہتی ہے کہ اللہ کا پیغام اللہ کے بندوں تک پہنچ جائے اور اللہ کی زمین میں اللہ کا دین نا فذ ہو جائے۔
یہاں اپنی زندگیوں کا جائزہ لینا ضر وری ہے۔ ہماری زندگیوں میں کون سا غم ہے جو ہمیں پریشان و مضطر ب رکھتا ہے۔ کیا ہم بھی بندۂ درہم و دینارہیں جن کے لیے نبیؐ نے فرمایا: ’’تباہ ہوجائے دینار کا بندہ اور درہم کا بندہ اور کمبل (چادر) کا بندہ، اور اگر ا سے د یا جائے تو خو ش اور نہ دیا جائے تو غصے ! تباہ ہوجائے اور منہ کے بل گرے۔ کانٹا چبھے (تو اللہ کرے کہ ) نہ نکلے۔مبارک ہو اس بندے کو جو اللہ کی راہ میں ا پنے گھوڑے کی باگ تھامے ہوئے ہو ، بال بکھرے ہوئے ہوں اور پائوں گرد آلود! اگر ا سے پہرے پر لگایا جائے تو پہرا دے اور اگر پچھلے لشکر میں چھوڑ د یا جائے تو پچھلے لشکرہی میں رہے۔ اگر ا جازت مانگے تو اجازت نہ ملے اور اگر سفارش کرے تو اس کی سفارش نہ سنی جائے۔ (بخا ری ، کتاب الجھاد)
یہ حدیث ہر اس بندے کے لیے وعید ہے کہ جو حبّ دنیا اور ما ل و دولت کے پیچھے اپنی جان، وقت اور صلا حیتیں صرف کرتا ہے، جب کہ و ہ ان سا ری کوششوں کے باوجود اپنی تقدیر سے نہیں لڑسکتا ہے، لیکن خوشخبری و مبارک باد ہے اس شخص کے لیے جو اللہ کے راستے پر اپنی جان کھپا دینے کی وجہ سے قا بلِ فخرہے اور مبا رک باد کا مستحق ہے۔ حالاںکہ اس کی دنیاوی حیثیت اتنی بھی نہیں کہ کوئی اس کی با ت کو قا بلِ تو جہ سمجھے۔
ہر وہ فرد جو ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اس کو یہ جانچ لینا چاہیے کہ و ہ ا پنے دعویٰ ایمان میں کتنا سچا اور کھرا ہے۔کیا اس کی زندگی میں کوئی ایسا لمحہ گزرا جب اس کا دل اس لیے غمگین ہو ا ہو کہ دنیا میں اللہ کی حدود پامال ہو رہی ہیں ، اللہ کی راہ میں لڑنے والے ذلیل کیے جا رہے ہیں ،قرآن کی آیات کے من چاہے معنی نکالے جا رہے ہیں، تو کیا اس کا دل اسی طرح دکھ اور تکلیف محسوس کرتا ہے جب اسے کسی ذاتی مصیبت یا آزمایش کا سامناکرنا پڑتا ہے ؟ کیا راتوں کی بیداری کا سبب کبھی یہ فکر بھی ہو ئی کہ اقامتِ دین کی اس جدوجہد میں اس کا اپنا حصہ کیا ہے ؟ کیا اس نے ا پنے حصے کا کام کر لیا ہے ؟ کیا وہ ایمان کی آزمایش کا صرف دعویٰ کرتا ہے یا اس کا عملی نمونہ بھی ہے؟ کیا اس کی جان و مال اللہ رب العالمین کے لیے وقف ہے؟، کیااس کی بھاگ دوڑ صرف دنیا کی عزت، مرتبہ و مقام ہی کے لیے ہے ؟ کیااس کی فکر اولاد کی ڈگری ، آمدنی و شادی تک ہی محدود ہے، یا ان کو اللہ کا بندہ بنانے اور صالحین کا امام بنانے کی بھی ہے؟ کیا اس نے کبھی اپنی اولاد کے لیے یہ دعا کی جو حضرت ابراہیم ؑ نے کی تھی؟یا اس کا شما ر ان ا فراد میں ہے کہ جو ایمان کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن اپنی جان و مال اپنی دنیا بنانے کے لیے وقف کر دیتے ہیں، جو اللہ سے رجوع تو کرتے ہیں لیکن صرف اپنی مصیبتوں سے نجات کے لیے ، اور جن کے دل امت کے فکر و غم سے خالی ہیں۔کتنے افراد ایسے ہیں جن کی راتوں کی سسکیاں ان مجاہدین کے لیے ہوتی ہیں جو اللہ کے دین کی خا طر گوانتانامو اور ابوغریب میں ظلم کاشکا رہیں۔جو ان مظلوموں کے لیے مضطرب رہتے ہیں جن کو کمزور پا کر دبا لیا گیا ہے اور ڈالروں کے عوض جن بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں کو نیلام کر دیا گیا ہے۔
آئیے جائزہ لیجیے کہ کیا ہم سب کے لیے امت کی مشکلات بھی ایسی ہی ہیں جیسے ہماری ذاتی مشکلات؟ کیا اس کے زخم بھی اسی شدت کے ساتھ محسوس ہوتے ہیں جیسے ا پنے جسم پر لگے زخم؟ جائزہ لیں کہ ہماری آہیں ، سسکیاں ، راتوں کا جاگنا ، دل کا افسردہ ہونا، اور پریشان ہونا کس کے سبب ہے؟کون سا غم ہے جو ہمیں ہلکان کیے دے ر ہا ہے ؟ ہمارا دل کس سوزوغم کا شکار ہے؟ہمیں کون سی بے قراری ہے؟ اور اگر ان سوالوں کے جواب ہمارے پاس نہیں ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم ان غموں سے نا آشنا ہیں تو پھر دعا کیجیے کہ ہم ان بے قرار داعیوں میں شا مل ہوجائیں جن کا شوق و ولولہ ، تڑپ ، سوز ، درد،لگن اور حوصلہ اُن کو کسی طرح چین سے بیٹھنے نہ دیتا ہو، جن کی جان صرف اس غم میں ہلکان ہوتی ہے کہ کسی طرح یہ انسانیت قرآن کے سا ئے تلے آجائے۔جن کا اضطراب اللہ کے دین کے نفا ذ کے لیے ہوتا ہے وگرنہ اللہ کو ایسے غمگین دلوں کی کوئی پروا نہیں جو اس دھوکے کی زندگی کے مل جانے اور نہ ملنے پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ’’ اگر کہیں اللہ لوگوں کے ساتھ برا معا ملہ کرنے میں بھی اتنی ہی جلدی کرتا جتنی وہ دنیا کی بھلا ئی مانگنے میں جلدی کرتے ہیں تو ان کی مہلت ِعمل کبھی کی ختم کر دی گئی ہوتی۔ (مگر ہمارا یہ طریقہ نہیں ہے ) اس لیے ہم ان لوگوں کو جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے ان کی سرکشی میں بھٹکنے کے لیے مہلت دے دیتے ہیں۔ انسان کا حا ل یہ ہے کہ جب اس پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہم کو پکارتا ہے مگر جب ہم اس کی مصیبت کو ٹال دیتے ہیں تو ا یساچل نکلتا ہے کہ گویا اس نے کبھی کسی بُرے وقت پر ہم کو پکارا ہی نہ تھا۔ اس طرح حد سے گزر جانے والوں کے لیے ان کے کرتوت خوش نما بنا دیے گئے ہیںـ‘‘۔ (یونس ۱۰:۱۱-۱۲)
اللہ سے دعا ہے کہ ہم حقیقی غموں کا شعورحاصل کریں اور ان ہی غموں سے اپنی زندگیوں کو مزین کر یں جو ہماری فلاح و نجات کا سبب بنیں۔
اللہ رب ا لعزت کی نا زل کرد ہ عظیم ا لشا ن کتا ب ا ور اس کی دعوت و حکمت کا موضوع انسان ہے۔دعوتِ دین کے لیے سرگردا ںافراد کا محور و مرکز بھی انسانوں تک ا س دعوت کو پہنچانا ہے۔ دعوتِ دین کے داعی کی حیثیت سے انسان کیا ہے؟ ا ورقرآن انسا ن کو کس حیثیت میں بیان کرتا ہے؟یہ سمجھنا بہت ضروری ہے۔
انسانی شخصیت یوں توبہت پیچید ہ ہے لیکن اس کے دو نمایاںپہلو انسان کی پوری ذات پر حکمرانی کرتے ہیں ۔انسا ن درا صل ذہن و قلب کا مجموعہ ہے اور ہمارے اعمال پر قلب و ذہن ہی کا اثر ہوتا ہے۔ انسان کے ذہن میںطرح طرح کے خیا لا ت جنم لیتے ہیں ا ور مختلف جذبات دل میں طوفاں بپا کیے رکھتے ہیں ۔ہر خیا ل کسی نئے جذبے ا ور ہر جذبہ کسی نئے خیا ل میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ جذبوں ا ور خیالات کے ا س حسین مجموعے کا نام انسان ہے۔دیکھا جا ئے تو جذبات و خیالات کے اس امتزاج ہی نے دنیا میںبڑے بڑے انقلا ب بپا کیے ہیں ۔
دل و دما غ کی یہ ہم آہنگی ا نسا ن کو ایک نئی قوت عطا کرتی ہے۔قرآن کا مطالعہ کیا جا ئے تو یہ با ت واضح ہوتی ہے کہ قرآن میں انسانی دل کو جو ا ہمیت و مقام حاصل ہے، وہ د ما غ کو نہیں، ا ور اگر ہم مغربی طرز فکر کا مطا لعہ کریں تو وہ انسانی شخصیت کوصرف دماغ کی نظر سے تولتی ہے۔نظریات کا یہ فرق جہا ں سوچ و فکر کے زاویے تبدیل کرتا ہے وہاں اس کے اعمال و اخلاق میں بھی تبدیلی رونما کرتا ہے جس کا مظاہرہ پورا مغربی معاشرہ کر رہا ہے۔
یہا ں ہم ایک دا عی کی حیثیت سے اس دل کو دیکھیں گے جس کو قرآن بارہا مختلف انداز میں مخاطب کرتا ہے اور انسانی شخصیت کا مرکز بھی قرار دیتا ہے۔دل کیا ہے؟ قرآن کبھی اس دل کو فواد کے نام سے مخاطب کرتا ہے ا ور کہیں قلب کے نام سے۔ قرآن کے مطا بق دل محض گوشت کے ایک لوتھڑے کا نام نہیں جس کا کام جسم میںخون کی فراہمی ہے بلکہ قرآن دل کے لیے نہا یت وسیع مفہو م رکھتا ہے۔ ’’و ہ اللہ ہی ہے جس نے تمھیں سننے ا ور دیکھنے کی قوتیں ا ور سوچنے کو دل دیے‘‘ (مومنون ۲۳:۷۸)۔ قرآن کی یہ آیت دل کو سوچنے سمجھنے والا قلب قرا ر دیتی ہے۔
سورئہ سجدہ میں ہے کہ ’’اور تم کو کا ن دیے، آنکھیں دیں اور دل دیے‘‘ (۳۲:۹) یعنی سمع ، بصر اور فواد۔ یہا ں انسانی دل کو فواد کا نام دیا گیا ہے۔ گویا ا یسا دل جو اصل میں ذہن کا کام کرتا ہے، حواس کے ذریعے حاصل کردہ معلومات کو مرتب کر کے ان میں سے نتائج نکالتا ہے ا ور کوئی ایک راہ کا انتخا ب کر کے اس پر چلنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ جبھی ا قبا ل کہتے ہیں ؎
دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور ، دل کا نور نہیں
سائنس و ٹکنالوجی کے ا س تیز رفتار دور میں انسان کو جس مادیت کی قید میں جکڑ کر رکھ دیا ہے، اس انسان کے لیے دل محض ایک خون فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں انسان کم ا ور انسان نما مشینیں زیادہ نظر آتی ہیں ۔ایسی ہی مشینوں کے لیے اقبا ل نے کہا تھا ؎
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
آج انسان ا پنے احساسا ت و اخلا ق کو پس پشت ڈال کر جس مادی ترقی کا دعویٰ کرتا ہے اس ترقی نے ایک نئی ذلت و اخلاقی بربادی سے روشناس کرا کر ہر اس احساس کو کچل دیا ہے جو انسانیت کی پہچان ہے۔ قرآن جگہ جگہ انسان کے دل کو مخاطب کر کے ا س احسا س کو بیدار کرتا ہے۔ خود قرآن کے لیے ا للہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے‘‘ (یونس ۱۰:۵۷)۔ حدیث نبویؐ کے مطابق ابتدا میں گناہ سے دل پر ایک سیاہ دھبہ لگتا ہے اور مسلسل گناہوں سے بڑھتے بڑھتے پورا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔دلوں کا زنگ بھی صرف قرآن ہی سے اترتا ہے۔ انقلا ب بھی دراصل دلوں کو تبدیل کرنے ہی کا نام ہے۔حضور اکرمؐ کا بے مثا ل انقلاب انسانی دلوں کی تبدیلی سے شروع ہوا تھا جس نے سوچ کے زاویے تبدیل کر دیے تھے،نفع و نقصان سے لے کر کامیابی و ناکامی کے معیار تک کو نئے معنوں سے روشناس کر دیا۔وہ دل جو کفر کے کلمۂ خبیثہ کی و جہ سے سخت اور بنجر تھے ایمان کے بیج کی حرارت سے نرم و گداز ہوگئے ۔دعوت و عزیمت کی راہوں میں عقل سے کام لینے والے کامیا ب نہیں ہوتے بلکہ اس راہ پر دل کی حکومت ہے۔عقل کے تقاضے توکچھ اور ہیں۔ اس کے ترازو میں تو اللہ کا کلمہ بلند کرنے والے ازل سے بے وقوف ثابت ہوئے ہیں۔ یہ توعشق کی منزلیں ہیں جو ابرا ہیم ؑ کو آتشِ نمرود میں کود جا نے کا مشورہ دیتی ہیں،آج اُمت مسلمہ کے ان خوابید ہ دلوں کی بیداری جس نے پوری اُمت کو ذلت و پستی میں گرا دیا ہے، ہر اس داعی کی ذمہ داری ہے جس نے اپنے آپ کو ا س کٹھن راہ کے لیے پیش کر دیا ہے ؎
محکوم کا دل مُردہ و افسردہ و نومید
آزاد کا دل زندہ و پُرسوز و طرب ناک
دلوں کی ان بدلتی کیفیات کو سمجھنا اور حکمت کے ساتھ دعوت کا سلیقہ دراصل نبی کریمؐ کی سنت ہے کیو نکہ دل میں پیدا ہونے والے جذبا ت ہی درا صل ہمارے ہر عمل کا محرک ہیں۔ امید، خوف، غم اور خوشی جیسے جذبات دل ہی میں اُبھرتے ہیں۔ اسی لیے قرآن کہیں خوف دلاکر ا ور کہیں امید دلا کر اپنی دعوت پہنچاتاہے۔یہی خوف تقویٰ کے حصول کا ذریعہ بھی بنتا ہے ا ور کہیں ابلیس کے ہاتھوں انسان کو مایوسی میں بھی پہنچا دیتا ہے۔ اسی طرح ا میدشکر گزاری کی کیفیت بھی پید اکر تی ہے اور حد سے بڑھ جا ئے تو غفلت بھی۔
ہم دعوت کے کام کے اتنے عادی ہوچکے ہیںکہ ا کثر اوقا ت یہ کام بھی ایک مشینی انداز میں ڈیوٹی کی طرح کرتے ہیں ۔لوگوں کی مطلوبہ تعداد رپورٹ فارم ، اجتماعات، ملاقاتیں سب کچھ ہورہا ہوتا ہے لیکن ہمارے قلوب میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ہمارے مخاطب ہمارے الفاظ سن کر دماغ میں تو محفوظ کر لیتے ہیں لیکن پیغام دلوں میں جذب نہیں ہوتا۔ سننے والوں کی جانب سے قابل ترین مدرسین و مقررین کی فرمایش تو پوری ہورہی ہوتی ہے لیکن دلوں کی دنیا ویسی ہی غیرآباد اور ویران رہ جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟کہیں دعوت دین کا کا م کرنے والے بھی مردہ دل تو نہیں ہوگئے ہیں ؟ کیو نکہ زندہ دلی کا تقاضا توکچھ اور ہے:
زندہ دل سے نہیں پوشیدہ ضمیرِ تقدیر
خواب میں دیکھتا ہے عالمِ نو کی تصویر
اور جب بانگِ اذاں کرتی ہے بیدار اسے
کرتا ہے خواب میں دیکھی ہوئی دنیا تعمیر
بدن اس تازہ جہاں کا ہے اسی کی کفِ خاک
روح اس تازہ جہاں کی ہے اسی کی تکبیر
دل کی ا س قوت کا اندازہ صرف اسی وقت ہوسکتا ہے، جب کہ انسان کوقرآن کی نگاہ سے دیکھتے ہو ئے رہنما ئی لی جا ئے اور لوگوں کے جذبات و احساسات کو ا للہ کے سپرد کرنے کی ترغیب پیدا کی جا ئے۔ قرآن انسانی قلب کو اپنے پیغام کا مرکز اس لیے قرا ر دیتا ہے کہ یہ کلا م اللہ تعالیٰ نے قلب پر نازل کیا، دماغ پر نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ اسے (قرآن کو)لے کر ترے دل پر امانت دار روح اُتری ہے‘‘۔ (شعراء ۲۶:۱۹۴)
دعوتِ دین درا صل دلوں میں ایما ن کا بیج بونے کی کوشش ہے جس کے لیے خا ص دل درکار ہے۔ ایسے دلوں کی تیا ری ہمارا اصل مقصد ہے، جن کے لیے دعوت کا سفر رپورٹ فارموں، ملاقاتوں اور اجتماعات کی حاضریوں سے شروع ہوکر مظاہروں پر ختم نہ ہوتا ہو، بلکہ یہ سفر ہجرت وجہاد کی منزل تک لے جا نے کا سبب بنے۔ ا گر ہم انھی ما دی چیزوں، یعنی تنظیمی مجبوریوں کو دعوت سمجھ بیٹھے ہیں تو یاد رکھیں یہ منزل دماغ کی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے ہمیں بہترین کارکن و رکن تو ثابت کرسکتی ہیں لیکن عملِ صا لح کی انتہا جہاد کا ر ستہ ان کا منتظر ہرگز نہیں ہوسکتا۔ ان مُردہ دلوں کے علاج کے لیے قرآن ہی سے رجوع کرنا پڑے گا ۔کیوں کہ قرآن کی دعوت کا مخاطب انسان کا دل ہے اور اس کی منزل جہاد ہے۔
حق کے پیغام کو قلب پر چھا جا نے کی قلبی کیفیات کوچا ر مرحلوں میں بیا ن کیا جاسکتا ہے۔ ان میں سے ایک کیفیت حق کو جذب کرنے کی ہے، یعنی حق قلب میں ایسا رچ بس جا ئے کہ وہ قول و عمل کی دنیا میں نظرآئے (قرآن کا راستہ، خرم مراد)۔کلا م اللہ کو پڑھنے کا تقا ضا بھی یہی ہے کہ قلب کو : حمد، شکر، حیرت، ر عب، محبت اعتما د، صبر، ا میدوخو ف، رنج و حسرت، تدبر و یاد دہا نی، اطاعت و تسلیم و رضاکی تما م کیفیات سے گزرنے دیا جائے۔ جب تک یہ نہ ہوگا، تلاوت صرف ہونٹوں کی حرکت اور دعوت صرف رپورٹ فارموں کو بھرنے تک ہی محدود رہے گی۔