اللہ رب ا لعزت کی نا زل کرد ہ عظیم ا لشا ن کتا ب ا ور اس کی دعوت و حکمت کا موضوع انسان ہے۔دعوتِ دین کے لیے سرگردا ںافراد کا محور و مرکز بھی انسانوں تک ا س دعوت کو پہنچانا ہے۔ دعوتِ دین کے داعی کی حیثیت سے انسان کیا ہے؟ ا ورقرآن انسا ن کو کس حیثیت میں بیان کرتا ہے؟یہ سمجھنا بہت ضروری ہے۔
انسانی شخصیت یوں توبہت پیچید ہ ہے لیکن اس کے دو نمایاںپہلو انسان کی پوری ذات پر حکمرانی کرتے ہیں ۔انسا ن درا صل ذہن و قلب کا مجموعہ ہے اور ہمارے اعمال پر قلب و ذہن ہی کا اثر ہوتا ہے۔ انسان کے ذہن میںطرح طرح کے خیا لا ت جنم لیتے ہیں ا ور مختلف جذبات دل میں طوفاں بپا کیے رکھتے ہیں ۔ہر خیا ل کسی نئے جذبے ا ور ہر جذبہ کسی نئے خیا ل میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ جذبوں ا ور خیالات کے ا س حسین مجموعے کا نام انسان ہے۔دیکھا جا ئے تو جذبات و خیالات کے اس امتزاج ہی نے دنیا میںبڑے بڑے انقلا ب بپا کیے ہیں ۔
دل و دما غ کی یہ ہم آہنگی ا نسا ن کو ایک نئی قوت عطا کرتی ہے۔قرآن کا مطالعہ کیا جا ئے تو یہ با ت واضح ہوتی ہے کہ قرآن میں انسانی دل کو جو ا ہمیت و مقام حاصل ہے، وہ د ما غ کو نہیں، ا ور اگر ہم مغربی طرز فکر کا مطا لعہ کریں تو وہ انسانی شخصیت کوصرف دماغ کی نظر سے تولتی ہے۔نظریات کا یہ فرق جہا ں سوچ و فکر کے زاویے تبدیل کرتا ہے وہاں اس کے اعمال و اخلاق میں بھی تبدیلی رونما کرتا ہے جس کا مظاہرہ پورا مغربی معاشرہ کر رہا ہے۔
یہا ں ہم ایک دا عی کی حیثیت سے اس دل کو دیکھیں گے جس کو قرآن بارہا مختلف انداز میں مخاطب کرتا ہے اور انسانی شخصیت کا مرکز بھی قرار دیتا ہے۔دل کیا ہے؟ قرآن کبھی اس دل کو فواد کے نام سے مخاطب کرتا ہے ا ور کہیں قلب کے نام سے۔ قرآن کے مطا بق دل محض گوشت کے ایک لوتھڑے کا نام نہیں جس کا کام جسم میںخون کی فراہمی ہے بلکہ قرآن دل کے لیے نہا یت وسیع مفہو م رکھتا ہے۔ ’’و ہ اللہ ہی ہے جس نے تمھیں سننے ا ور دیکھنے کی قوتیں ا ور سوچنے کو دل دیے‘‘ (مومنون ۲۳:۷۸)۔ قرآن کی یہ آیت دل کو سوچنے سمجھنے والا قلب قرا ر دیتی ہے۔
سورئہ سجدہ میں ہے کہ ’’اور تم کو کا ن دیے، آنکھیں دیں اور دل دیے‘‘ (۳۲:۹) یعنی سمع ، بصر اور فواد۔ یہا ں انسانی دل کو فواد کا نام دیا گیا ہے۔ گویا ا یسا دل جو اصل میں ذہن کا کام کرتا ہے، حواس کے ذریعے حاصل کردہ معلومات کو مرتب کر کے ان میں سے نتائج نکالتا ہے ا ور کوئی ایک راہ کا انتخا ب کر کے اس پر چلنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ جبھی ا قبا ل کہتے ہیں ؎
دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور ، دل کا نور نہیں
سائنس و ٹکنالوجی کے ا س تیز رفتار دور میں انسان کو جس مادیت کی قید میں جکڑ کر رکھ دیا ہے، اس انسان کے لیے دل محض ایک خون فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں انسان کم ا ور انسان نما مشینیں زیادہ نظر آتی ہیں ۔ایسی ہی مشینوں کے لیے اقبا ل نے کہا تھا ؎
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
آج انسان ا پنے احساسا ت و اخلا ق کو پس پشت ڈال کر جس مادی ترقی کا دعویٰ کرتا ہے اس ترقی نے ایک نئی ذلت و اخلاقی بربادی سے روشناس کرا کر ہر اس احساس کو کچل دیا ہے جو انسانیت کی پہچان ہے۔ قرآن جگہ جگہ انسان کے دل کو مخاطب کر کے ا س احسا س کو بیدار کرتا ہے۔ خود قرآن کے لیے ا للہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے‘‘ (یونس ۱۰:۵۷)۔ حدیث نبویؐ کے مطابق ابتدا میں گناہ سے دل پر ایک سیاہ دھبہ لگتا ہے اور مسلسل گناہوں سے بڑھتے بڑھتے پورا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔دلوں کا زنگ بھی صرف قرآن ہی سے اترتا ہے۔ انقلا ب بھی دراصل دلوں کو تبدیل کرنے ہی کا نام ہے۔حضور اکرمؐ کا بے مثا ل انقلاب انسانی دلوں کی تبدیلی سے شروع ہوا تھا جس نے سوچ کے زاویے تبدیل کر دیے تھے،نفع و نقصان سے لے کر کامیابی و ناکامی کے معیار تک کو نئے معنوں سے روشناس کر دیا۔وہ دل جو کفر کے کلمۂ خبیثہ کی و جہ سے سخت اور بنجر تھے ایمان کے بیج کی حرارت سے نرم و گداز ہوگئے ۔دعوت و عزیمت کی راہوں میں عقل سے کام لینے والے کامیا ب نہیں ہوتے بلکہ اس راہ پر دل کی حکومت ہے۔عقل کے تقاضے توکچھ اور ہیں۔ اس کے ترازو میں تو اللہ کا کلمہ بلند کرنے والے ازل سے بے وقوف ثابت ہوئے ہیں۔ یہ توعشق کی منزلیں ہیں جو ابرا ہیم ؑ کو آتشِ نمرود میں کود جا نے کا مشورہ دیتی ہیں،آج اُمت مسلمہ کے ان خوابید ہ دلوں کی بیداری جس نے پوری اُمت کو ذلت و پستی میں گرا دیا ہے، ہر اس داعی کی ذمہ داری ہے جس نے اپنے آپ کو ا س کٹھن راہ کے لیے پیش کر دیا ہے ؎
محکوم کا دل مُردہ و افسردہ و نومید
آزاد کا دل زندہ و پُرسوز و طرب ناک
دلوں کی ان بدلتی کیفیات کو سمجھنا اور حکمت کے ساتھ دعوت کا سلیقہ دراصل نبی کریمؐ کی سنت ہے کیو نکہ دل میں پیدا ہونے والے جذبا ت ہی درا صل ہمارے ہر عمل کا محرک ہیں۔ امید، خوف، غم اور خوشی جیسے جذبات دل ہی میں اُبھرتے ہیں۔ اسی لیے قرآن کہیں خوف دلاکر ا ور کہیں امید دلا کر اپنی دعوت پہنچاتاہے۔یہی خوف تقویٰ کے حصول کا ذریعہ بھی بنتا ہے ا ور کہیں ابلیس کے ہاتھوں انسان کو مایوسی میں بھی پہنچا دیتا ہے۔ اسی طرح ا میدشکر گزاری کی کیفیت بھی پید اکر تی ہے اور حد سے بڑھ جا ئے تو غفلت بھی۔
ہم دعوت کے کام کے اتنے عادی ہوچکے ہیںکہ ا کثر اوقا ت یہ کام بھی ایک مشینی انداز میں ڈیوٹی کی طرح کرتے ہیں ۔لوگوں کی مطلوبہ تعداد رپورٹ فارم ، اجتماعات، ملاقاتیں سب کچھ ہورہا ہوتا ہے لیکن ہمارے قلوب میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ہمارے مخاطب ہمارے الفاظ سن کر دماغ میں تو محفوظ کر لیتے ہیں لیکن پیغام دلوں میں جذب نہیں ہوتا۔ سننے والوں کی جانب سے قابل ترین مدرسین و مقررین کی فرمایش تو پوری ہورہی ہوتی ہے لیکن دلوں کی دنیا ویسی ہی غیرآباد اور ویران رہ جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟کہیں دعوت دین کا کا م کرنے والے بھی مردہ دل تو نہیں ہوگئے ہیں ؟ کیو نکہ زندہ دلی کا تقاضا توکچھ اور ہے:
زندہ دل سے نہیں پوشیدہ ضمیرِ تقدیر
خواب میں دیکھتا ہے عالمِ نو کی تصویر
اور جب بانگِ اذاں کرتی ہے بیدار اسے
کرتا ہے خواب میں دیکھی ہوئی دنیا تعمیر
بدن اس تازہ جہاں کا ہے اسی کی کفِ خاک
روح اس تازہ جہاں کی ہے اسی کی تکبیر
دل کی ا س قوت کا اندازہ صرف اسی وقت ہوسکتا ہے، جب کہ انسان کوقرآن کی نگاہ سے دیکھتے ہو ئے رہنما ئی لی جا ئے اور لوگوں کے جذبات و احساسات کو ا للہ کے سپرد کرنے کی ترغیب پیدا کی جا ئے۔ قرآن انسانی قلب کو اپنے پیغام کا مرکز اس لیے قرا ر دیتا ہے کہ یہ کلا م اللہ تعالیٰ نے قلب پر نازل کیا، دماغ پر نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ اسے (قرآن کو)لے کر ترے دل پر امانت دار روح اُتری ہے‘‘۔ (شعراء ۲۶:۱۹۴)
دعوتِ دین درا صل دلوں میں ایما ن کا بیج بونے کی کوشش ہے جس کے لیے خا ص دل درکار ہے۔ ایسے دلوں کی تیا ری ہمارا اصل مقصد ہے، جن کے لیے دعوت کا سفر رپورٹ فارموں، ملاقاتوں اور اجتماعات کی حاضریوں سے شروع ہوکر مظاہروں پر ختم نہ ہوتا ہو، بلکہ یہ سفر ہجرت وجہاد کی منزل تک لے جا نے کا سبب بنے۔ ا گر ہم انھی ما دی چیزوں، یعنی تنظیمی مجبوریوں کو دعوت سمجھ بیٹھے ہیں تو یاد رکھیں یہ منزل دماغ کی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے ہمیں بہترین کارکن و رکن تو ثابت کرسکتی ہیں لیکن عملِ صا لح کی انتہا جہاد کا ر ستہ ان کا منتظر ہرگز نہیں ہوسکتا۔ ان مُردہ دلوں کے علاج کے لیے قرآن ہی سے رجوع کرنا پڑے گا ۔کیوں کہ قرآن کی دعوت کا مخاطب انسان کا دل ہے اور اس کی منزل جہاد ہے۔
حق کے پیغام کو قلب پر چھا جا نے کی قلبی کیفیات کوچا ر مرحلوں میں بیا ن کیا جاسکتا ہے۔ ان میں سے ایک کیفیت حق کو جذب کرنے کی ہے، یعنی حق قلب میں ایسا رچ بس جا ئے کہ وہ قول و عمل کی دنیا میں نظرآئے (قرآن کا راستہ، خرم مراد)۔کلا م اللہ کو پڑھنے کا تقا ضا بھی یہی ہے کہ قلب کو : حمد، شکر، حیرت، ر عب، محبت اعتما د، صبر، ا میدوخو ف، رنج و حسرت، تدبر و یاد دہا نی، اطاعت و تسلیم و رضاکی تما م کیفیات سے گزرنے دیا جائے۔ جب تک یہ نہ ہوگا، تلاوت صرف ہونٹوں کی حرکت اور دعوت صرف رپورٹ فارموں کو بھرنے تک ہی محدود رہے گی۔