جون ۲۰۰۸

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| جون ۲۰۰۸ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

نماز میں سُستی اور ترکِ صلوٰۃ

سوال: دارالافتا سعودی عرب کی شائع کردہ فتاوٰی میں شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز اور دیگر علما نے ترکِ صلوٰۃ کرنے والے کو کافر قراردیا ہے۔ میرے شوہر ڈاکٹر ہیں اور مولانا مودودیؒ کی کتابیں پڑھ کر ان سے بہت متاثر ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ دین میں سختی نہیں ہے۔ میں نے مولانا مودودی کی کتابیں گہرے غوروخوض سے پڑھی ہیں، اُن میں تو تارکِ نماز یا سُستی و لاپروائی سے نماز اداکرنے والے کو کفر کا مرتکب نہیں کہا گیا ہے۔ گویا سُستی و لاپروائی سے نماز چھوڑ دینا کوئی گناہ نہیں۔ ایسے حضرات سُستی و لاپروائی کی وجہ سے دفتر جانا اور دیگر اہم کام نہیں چھوڑتے، دین ہی میں آسانیاں کیوں ڈھونڈتے ہیں؟ کیا فرض نماز سُستی یا غفلت سے قضا ہوجانا نفاق نہیں ہے؟

میں نے اپنے شوہر کو شاذ ہی قرآن پڑھتے پایا ہے، جب کہ اخبارات و لٹریچر کا گھنٹوں مطالعہ کرتے ہیں۔ کیا جو شخص گھنٹوں اخبارات و لٹریچر پڑھ سکتا ہے، اسے قرآن کی تلاوت اور فہم و تدبر کی ضرورت نہیں، وہ صرف نماز ہی سے پورا ہوجاتا ہے؟

جواب: آپ کا سوال غیرمعمولی تشویش کا باعث ہے کیونکہ تحریک اسلامی کا اصل سرمایہ اس کے کارکن ہی ہیں جو اسلامی نظام کو اللہ کی زمین پر نافذ کرنے کے عزم کے ساتھ تحریک سے وابستہ ہوتے ہیں۔ اگر وہ فرائض کی ادایگی میں تساہل اور عدم توجہ برتیں تو کس بنیاد پر نظام کی تبدیلی عمل میں آئے گی۔ یہ اس لیے بھی تشویش کا باعث ہے کہ اگر ایک شخص مولانا مودودی کی تحریرات کو پڑھتا ہے اور اس کے باوجود نماز کو اس کا اصل مقام نہیں دیتا تو یا تو اُس نے تحریر کو سمجھا نہیں، یا اس کا نفس حیلے تراش رہا ہے۔یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ مولانا مودودیؒ نے نماز کی اہمیت کو پوری طرح اُجاگر کرنے کے لیے اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر و دیگر کتب لکھی ہیں اور ان کی کتب کا مطالعہ کرنے والے اور تحریک اسلامی سے وابستہ افراد نماز کی اہمیت کو پوری طرح سمجھتے ہیں، اور   نہ صرف اس کی ادایگی کا باقاعدہ اہتمام کرتے ہیں بلکہ اقامت ِ صلوٰۃ کے لیے بھی سرگرمِ عمل ہیں۔ نماز میں کوتاہی پر تحریکی نظم کے تحت پرسش بھی کی جاتی ہے۔ اجتماعی احتساب کا ایک مقصد نماز کو وقت پر اور جماعت کے ساتھ ادا کرنے پر اُبھارنا ہے تاکہ للہیت پیدا ہو۔ یہ نظامِ تربیت کا ایک لازمی حصہ ہے۔

اصلاحِ حال کے لیے جہاں انفرادی مشورہ اہم ہے، وہیں اجتماعی احتساب بھی ضروری ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ الدینُ یُسر لیکن یُسر (آسانی) کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ فرائض کو نظرانداز کردیا جائے یا قرآن کریم کے واضح حکم، یعنی نماز کو مقررہ وقت پر فرض کردیے جانے کو  پسِ پشت ڈال کر کوئی سہولت پسند دین ایجاد کرلیا جائے۔ فرض نماز کا سُستی اور لاپروائی سے قضا ہونا لازمی طور پر فِسق ہے۔

اگر غور کیا جائے تو تحریکِ اسلامی کے کارکن بننے کے لیے پہلی شرط محض نماز کا پڑھ لینا نہیں ہے، بلکہ اس کی اقامت، یعنی نماز کو قائم کرنا ہے۔ سورئہ بقرہ کے آغاز ہی میں اہلِ ایمان کی پہچان، تعریف اور خصوصیت یہی بتائی گئی ہے کہ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ (البقرہ۲:۳)،یعنی وہ غیب پر ایمان لاتے ہیںاور نماز قائم کرتے ہیں۔ یہی مضمون اسی شدت کے ساتھ دیگر مقامات پر بھی آیا۔ قرآن کریم کے ان واضح، متعین اور براہِ راست ارشادات کا عکس خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث صحیحہ میں بھی نظر آتا ہے، چنانچہ آپؐ نے فرمایا کہ: ’’بندے اور کفر کے درمیان ترکِ صلوٰۃ واسطہ ہے‘‘(مسلم) ۔ لہٰذا اذان سننے کے بعد جو لوگ گھر اور دیگر مشغولیتوں کو چھوڑ کر اپنی بندگی کے اظہار کے لیے مسجد کی طرف نہیں جاتے، ان کے بارے میں رحمۃ للعالمینؐ نے جو سراپا رحمت ہی رحمت، عفو و درگزر، حلِم و محبت تھے فرماتے ہیں کہ ’’جو لوگ اذان کی آواز سن کر گھروں سے نہیں نکلتے، مرا دل چاہتا ہے کہ جاکر ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔ (ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)

جہاں تک سوال معروف شیخ الباز کے فتوے کا ہے، قرآن و حدیث کے واضح بیان کے بعد اس کی ضرورت نہیں رہتی۔ البتہ فتوے میں سائل نے جو اصل بات پوچھی تھی، وہ صلوٰۃ کا انکار یا فرضیت یا رکن تسلیم کرنا نہیں تھا جس پر فتوے میں زیادہ زور دیا گیا ہے۔ اگر ایک شخص سے اپنی مقدور بھر کوشش کرنے کے باوجود نماز قضا ہوجاتی ہے تو وہ تارکِ صلوٰۃ یا منکرِ صلوٰۃ کی تعریف میں نہیں آئے گا۔ ہاں، ایک شخص صلوٰۃ کے علاوہ ہر کام کو اہمیت دے اور اذان سن کر ٹس سے مس نہ ہو اور اگر اُٹھے بھی تو کسمساتا ہوا، کاہلی، بے دلی اور مجبوری کے طور پر اقامت ِصلوٰۃ کی جگہ صرف نماز پڑھ لے تو اس طرزِعمل کو قرآن کریم نے فسق و نفاق سے تعبیر کیا ہے۔

وَ اِذَا قَامُوْٓا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوْا کُسَالٰیلا یُرَآئُ وْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ اِلَّا قَلِیْلًاo (النساء ۴:۱۴۲) جب یہ نماز کے لیے اُٹھتے ہیں تو کسمَساتے ہوئے محض لوگوں کو دکھانے کی خاطراُٹھتے ہیں اور خدا کو کم ہی یاد کرتے ہیں۔

الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلاَتِھِمْ سَاھُوْنَ o الَّذِیْنَ ھُمْ یُرَآئُ وْنo (الماعون ۱۰۷:۵) پھر تباہی ہے اُن نماز پڑھنے والوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں جو ریاکاری کرتے ہیں۔

لہٰذا فرض نماز میں سُستی اور غفلت انسان میں نفاق پیدا کرتی ہے اور شعوری طور پر ترک، ایمان سے خارج کردیتا ہے۔ لیکن کسی عذر یا مجبوری کے سبب نماز قضا ہوجائے تو اسے جلد از جلد اداکرنا ضروری ہے۔

آپ نے ان کے قرآن کا مطالعہ نہ کرنے کا ذکر بھی کیا ہے اور یہ لکھا ہے کہ اخبارات و رسائل کے لیے ان کے پاس وافر وقت ہوتا ہے، جب کہ وہ کبھی قرآن کا مطالعہ نہیں کرتے۔ قرآن سے قلبی تعلق ہی ایمان کو تازہ رکھتا ہے اور نماز میں اس کی تلاوت خشیت پیدا کرتی ہے۔ قرآن کریم کا حق ہر اہلِ ایمان پر یہ ہے کہ کم از کم اس کی چند آیات کو روزانہ بغور پڑھ کر سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔ جدید ٹکنالوجی نے اس حوالے سے بہت آسانیاں پیدا کردی ہیں اور اب   سی ڈی پر مکمل قرآن کریم کا متن مع ترجمہ تقریباً ہر پاکستانی شہر میں دستیاب ہے۔ کوشش کیجیے کہ اگر وہ پڑھنے میں سُستی کرتے ہیں تو آپ سی ڈی کی مدد سے خود کو بھی اور اپنے شوہر کو بھی روزانہ   چند لمحات کے لیے، چاہے صرف ۱۵،۲۰ منٹ ہی کیوں نہ ہوں قرآن کریم کی تلاوت و ترجمہ   سننے کا موقع فراہم کریں۔ اس عظیم کتابِ ہدایت کا سننا اور ترجمہ کے ساتھ سننا ان شاء اللہ انھیں قرآن کریم سے قریب کرے گا اور نتیجتاً وہ نماز بھی باقاعدگی سے ادا کرنے کی طرف راغب ہوں گے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب، (ڈاکٹر انیس احمد)


لڑکیوں کی انٹرنیٹ پر چیٹنگ

س: لڑکیوں کا انٹرنیٹ کا استعمال کیسا ہے، اور کیا وہ لڑکوں کے ساتھ chatting کرسکتی ہیں؟ اگر اُن کی نیت خالص ہو کہ وہ دین کی باتیں لوگوں تک پہنچائیں تو ایک  chatroom  میں صرف نام اور جنس لکھنی ہوتی ہے اور پھر آپ چیٹ روم میں داخل ہوجاتے ہیں۔ آواز کا اور چہرے کا بھی مکمل پردہ ہوتا ہے کیونکہ وہ چیٹ روم صرف لکھ کر چیٹنگ کے لیے ہوتا ہے۔ کیمرہ یا آواز وغیرہ کا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ انٹرنیشنل روم ہوتا ہے جہاں دنیا بھر سے لوگ آن لائن ہوتے ہیں۔ اکثریت تو لغو اور فحش گفتگو کرتی ہے، اگر کوئی اسلام کی بات بھی کردے تو کیا حرج ہے کیونکہ ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘‘۔ کیا مختلف لوگوں سے چیٹ کر کے اُن کو اسلام کی دعوت دی جاسکتی ہے؟ کیا    یہ لڑکیوں کے لیے ممنوع اور حرام ہے؟ کیونکہ اگر یہ فریضہ، بالفرض لڑکے سرانجام دیں تو چیٹ روم میں مختلف لڑکیاں بھی ہوتی ہیں۔ پھر وہ بھی تو اُن سے چیٹ کریںگے؟ [سائلہ نے متعدد مثالیں دی ہیں کہ اس نے مسلمانوں کو نماز کی ترغیب دی، السلام علیکم کرنے کے لیے کہا، غلط گفتگو کرنے والے کو اس نے مسلمان ہونے کا احساس دلایا، غیرمسلم کو اسلام کے مطالعے کی طرف توجہ دلائی وغیرہ وغیرہ]

ج: آپ کے سوال میں تین پہلو بالخصوص غور طلب ہیں۔ اول یہ کہ کیا انٹرنیٹ کا تعلیمی یا معلوماتی نقطۂ نظر سے استعمال درست ہے۔ دوئم کیا نیٹ پر ایک مسلمان طالبہ یا طالب علم کسی اجنبی فرد سے وہ مرد ہو یا عورت بغیر کسی سابقہ تعارف کے اچانک ’گپ خانے‘ یا chat home میں داخل ہوکر اپنا نام یا جنس بتائے بغیر گھنٹوں تبادلۂ خیال کرسکتی ہے۔ تیسری بات یہ کہ اگر نیٹ کے ذریعے دعوت دین دی جائے تو کیا ایسا کرنا درست ہوگا؟

جہاں تک انٹرنیٹ حتیٰ کہ ’گپ خانے‘ میں جاکر دعوتِ دین دینے کا تعلق ہے، اگر آپ کو یقین ہے کہ آپ کی بات کو ہنسی مذاق نہیں سمجھا جائے گا اور اس طرح دوسروں کی اصلاح ہوسکتی ہے، ان تک حق کا پیغام پہنچ سکتا ہے تو بظاہر اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی لیکن بالعموم چیٹ ہائوس میں جس طرح کی گفتگو کی جاتی ہے وہ نہ تو سنجیدہ کہی جاسکتی ہے اور نہ اخلاقی طور پر اسے قبول کیا جاسکتا ہے۔ عموماً جو نوجوان چیٹ کرتے ہیں۔ وہ مصنوعی قصے گھڑ کر یا جنسی گفتگو کی تلاش میں اس طرف آتے ہیں اور اس بات کا پورا امکان رہتا ہے کہ کم از کم آپ خود کسی بُری بات میں پہل نہ بھی کریں تو غیرشعوری طور پر آپ تک ایسے پیغامات پہنچتے ہیں جو اخلاقی طور پر ناجائز کہے جاسکتے ہیں۔

جیساکہ پہلے عرض کیاگیا، اگر آپ کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ آپ کی بات سنی جائے گی اور اس پر سنجیدگی سے غور ہوگا تو دعوتی نقطۂ نظر سے ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ بات یاد رکھیے کہ آپ کا ہرلمحہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امانت ہے اور ہمیں اپنے کانوں، آنکھوں اور قلب تینوں کی جواب دہی کرنی ہے۔

جہاں تک تعلق کسی اجنبی سے بات کرنے میں پہل کرنے کا ہے تو دین کا مدعا یہی نظرآتا ہے کہ ایک مسلمان طالبہ کا کسی لڑکی کے ساتھ بات کرنا تو درست ہے لیکن کسی اجنبی لڑکے کے ساتھ تبادلۂ خیال کرنے اور اس کام میں گھنٹوں مصروف رہنے کو جائز نہیںکہا جاسکتا۔ یہ ایسا ہی ہے کہ ایک کمرے میں کسی اجنبی کے ساتھ بات چیت کی جارہی ہو۔ اس سے مکمل اجتناب کرنے کی ضرورت ہے۔ شیطان ایسے ہی چور دروازوں سے داخل ہوتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ دل سے برائی کے احساس کو مٹا دیتا ہے۔

انٹرنیٹ کا تعلیم و تحقیق کے لیے استعمال غالباً اس دور کے ابلاغی انقلاب کا ایک مفید تحفہ ہے۔ آج اگر آپ کو قرآن و سنت سے کسی حوالے کی ضرورت ہو تو بجاے لائبریری میں گھنٹوں صَرف کرنے کے انٹرنیٹ پر موجود مواد تک چند لمحات میں پہنچ کر طے کیا جاسکتا ہے کہ کون سی معلومات مفید ہیں اور کون سی غیرمطلوب ہیں۔

مسلمان طلبہ و طالبات بجاے چیٹ کرنے کے اپنے ویب سائٹ قائم کرسکتے ہیں، اور الحمدللہ یورپ و امریکا میں اور مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک میں نوجوانوںنے ایسا کیا بھی ہے۔ اس طرح انٹرنیٹ کا تعلیمی اور دعوتی استعمال ’گپ خانے‘ کے علاوہ شاید زیادہ مؤثر طور پر کیا جاسکتا ہے، اور وہ بے شمار غلط فہمیاں دُور ہوسکتی ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں پائی جاتی ہیں۔ (ا-ا)


نماز، روزہ : آتش پرستوں کی اصطلاح؟

س: میں ۷۴ سال کا ہوں، لیکن ۵۰ سال کی عمر تک نماز روزے کا اہتمام نہیں کرسکا کیونکہ قرآن یا حدیث میں مجھے نماز، روزہ کہیں نظر نہیں آیا۔ تمام عمر جستجو رہی اور قرآن کے گہرے مطالعے سے حقیقت کھلی کہ یہ ’صلوٰۃ‘ اور’صوم‘ ہیں جنھیں ہم نے نماز اور روزے کا نام دیا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ صلوٰۃ صرف پانچ وقت کی عبادت نہیں ہے بلکہ قرآن کے مطابق اور بہت کچھ ہے جو سب مل کر ’اقام الصلوٰۃ‘ بنتا ہے، اور یہ کہ اللہ کی عبادات کو نماز اور روزہ کے مشرکانہ ناموں سے موسوم کرنا غلط ہی نہیں بلکہ کفر کے زمرے میں آتا ہے۔ لفظ صلوٰۃ اور صوم صرف اور صرف اللہ کی عبادات کے نام ہیں۔ یہ دونوں لفظ قرآن یا عربی میں کسی اور معنی میں استعمال نہیں ہوئے۔ اسی طرح لفظ نماز اور روزہ صرف اور صرف آتش پرستی کی عبادات کے نام ہیں۔ یہ دونوں لفظ فارسی زبان میں کسی اور معنی میں استعمال نہیں ہوئے۔ چنانچہ صلوٰۃ اور صوم کو نماز اور روزے سے موسوم کر کے ہم مسلمان قرآن کی صریح نافرمانی کررہے ہیں۔ اگر میں غلط فہمی کا شکار ہوں تو صرف اور صرف قرآن کی سند سے میرے اندیشوں کا مداوا کریں۔

ج: اسلام ایک ایسا دین ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور نافذ بھی ہوگیا۔ ایک دنیا کو اس نے مسخر کیا، ایک عظیم خلافتِ راشدہ اور ایک عظیم الشان اُمت دنیا کے سامنے آئی۔ ۱۵۰۰ سال میں یہ دین ایک نسل کو دوسری نسل سے وراثت میں ملا۔ اگر آپ اس عظیم الشان عمارت کو چند لفظی مغالطوں سے گرا کر کوئی نئی عمارت اور نئی اُمت بنانا چاہتے ہیں تو یہ سعی لاحاصل ہے۔

زبانیں سب اللہ کی طرف سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمِنْ اٰیٰـتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِکُمْ وَاَلْوَانِکُمْ (الروم۳۰:۲۲)’’اس کی نشانیوں میں سے ہے تمھاری زبانوں اور تمھارے رنگوں کا اختلاف‘‘۔ خدا فارسی کا لفظ ہے اور اہلِ ایمان اسے اسی معنوں میں استعمال کرتے ہیں جو لفظ اللہ سے سامنے آتا ہے۔ یہ فارسی زبان میں مستعمل سابقہ معنی سے مختلف ہے۔ اسی طرح نماز روزہ اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے، جس میں صلوٰۃ اور صوم استعمال ہوئے ہیں۔ یہ نئی لغت ہے اور سابقہ لغت سے مختلف ہے۔ اس نئی لغت پر جو اسلام کی وجہ سے وجود میں آئی ہے، سابقہ لغت کی رو سے اعتراض کرنا، جہالت اور نادانی ہے۔

زبانیں حقیقت میں نظاموں اور عقیدوں کی بنیاد پر تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ لفظ خدا، نماز، روزہ بھی سابقہ لغت سے تبدیل ہوکر اسلام میں نئے معنوں کے ساتھ مستعمل ہوئے ہیں۔ اس وقت نماز، روزہ کے نام سے مسلمان جو عبادت کر رہے ہیں، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے اور پوری تاریخ اس پر گواہ ہے۔ دین کی ایک عمارت جو مضبوط قلعے کی شکل میں تیار ہوچکی ہے، اس عمارت میں نماز، روزہ کے معنی میں کبھی بھی اختلاف نہیں رہا۔ اب اس کا نیا معنی کرنا اور دین کا کوئی نیا اڈیشن تیار کرنا اور مسلمانوں کو دین سے منحرف کرنے کے لیے نماز، روزہ کو  آتش پرستوں کے دین کے ساتھ جوڑنا، قرآن و سنت، دینِاسلام اور اُمت مسلمہ کی توہین ہے اور اسلام کو مٹانے کی ناپاک جسارت ہے، جو ناکام ہوگی۔ آپ نے ۵۰برس تک نماز نہیں پڑھی،    روزہ نہیں رکھا، فرض کو ترک کر کے گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کیا، اب آپ دوسروں کو اس گناہِ کبیرہ بلکہ کفر کے راستے پر گامزن کرنا چاہتے ہیں جو انتہا درجے کی گمراہی اور کفر ہے۔ آپ کو چاہیے کہ اس سے توبہ کریں۔ رسولؐ اللہ کے دامن سے اسی طرح وابستہ ہوجائیں جس طرح دوسرے مسلمان وابستہ ہیں۔ غلام احمد قادیانی کی طرح نبی بننے اور دین کا نیا اڈیشن تیار کرنے کی کوشش نہ کریں۔ جن لوگوں نے نبی بننے کی جسارت کی ہے وہ خائب و خاسر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو توبہ کی توفیق عطا فرمائے، آمین! (مولانا عبدالمالک)