جون ۲۰۰۸

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبد المالک | جون ۲۰۰۸ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

’’حضرت انسؓ، حضرت ابوذرؓ سے بیان فرماتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے گھرکی چھت کھولی گئی،میں مکہ مکرمہ میں تھا‘جبریل چھت سے اترے،پھر میرے سینے کو کھولا،پھر زم زم کے پانی سے اسے دھویا،پھر سونے کا ایک تھا ل لایاگیاجو حکمت وایمان سے بھرا ہواتھا‘اسے میرے سینے میں ڈالاگیا، پھر سینے کو بندکر کے جوڑ دیا گیا۔ (حدیث معراج‘ بخاری، کتاب الصلوٰۃ)

حضرت جبیر بن مطعمؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے پانچ نام ہیں: میں محمد ہوں،میںاحمد ہوں، میں ’الماحی‘مٹانے والا ہوں،اللہ میرے ذریعے کفر کو مٹا دیں گے۔ میں’الحاشر‘ ہوں،کہ لوگ میدانِ حشر میں میرے پیچھے ہوں گے۔میںالعاقب ہوں (ترمذی میں اس کی تشریح آپؐ نے یوں فرمائی کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا)۔ (بخاری باب المناقب)

آپؐ کی عظمتِ شان جس طرح پہلی حدیث سے ظاہر ہورہی ہے کہ آپؐ  کے سینۂ اطہرکو ایمان اور حکمت سے بھر دیا گیا، اسی طرح آپؐ  کے اسماے مبارکہ،آپؐ کی اس شان کی وسعت اور کمال کو واضح کر رہے ہیں۔’محمد‘اسے کہا جاتا ہے جس کی کثرت سے تعریف کی جائے اور تعریف کا سلسلہ جاری وساری رہے اور یہ تعریف ہمہ گیر بھی ہو۔نبیؐ کی تعریفیں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بیان کر دی ہیں جو تاابدپڑھاجاتا رہے گااور اس وقت بھی دنیا کے کونے کونے میں پڑھا جا رہا ہے۔ سورئہ ضحی،سورئہ کوثر،سورئہ الم نشرح،سورئہ احزاب،سورئہ فتح،سورئہ نصر اور قرآن پاک میں جگہ جگہ  اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی شان بیان فرمائی ہے۔

آپؐ کا ایک اسم مبارک’الماحی‘یعنی مٹانے والا ہے کہ آپ کے ذریعے کفر مٹ جائے گا۔ساری روے زمین کے انسان کفر کو ترک کردیںگے اور دائرۂ اسلام میں داخل ہوجائیں گے۔ یہ کام تلوار کے ذریعے نہ ہوگا، پہلے بھی لوگ قرآن پاک کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کر کے    دائرۂ اسلام میںداخل ہوئے ہیں، اور آیندہ بھی قرآن پاک کے ذریعے حق کی راہ پائیں گے۔

یہ شان اور عظمت والی ہستی مخالفوں کا ہدف ہے۔ کتنے ہی کارٹون اور فلم بنالیں وہ مسلمانوں کے دل سے اس ہستی کی عظمت کا نقش نہیں مٹا سکتے، بلکہ اگر تعصب کی عینک ہٹا دیں تو خود اس کے نام لیوا بن جائیں گے۔ برطانوی وزیرداخلہ کا اعتراف کہ ۵۰ ہزار افراد ہر سال برطانیہ میں مسلمان ہو رہے ہیں (روزنامہ ایکسپریس، ۲۲ مئی ۲۰۰۸ئ) اس کا ثبوت ہے۔

o

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا‘ دیکھا کہ آپؐ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا:یارسولؐ اللہ! میں آپؐ کو بیٹھ کر نماز پڑھتے دیکھ رہا ہوں‘ کیا آپؐ کسی تکلیف میں ہیں؟ آپؐ نے فرمایا:بھوک کے سبب کمزوری ہے۔ یہ سن کر میں رو پڑا۔ آپؐ  نے فرمایا: ابوہریرہ! مت رو!قیامت کے روز حساب کی سختی بھوکے کو نہیں پہنچے گی‘ جب کہ دنیا میں اس پر ثواب کی طلب کی ہو۔ (کنز العمال)

کیسا رقت آمیز منظر ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کتنا پُرکشش اطمینان و سکون ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ ۷ہجری میں مسلمان ہوئے‘ جب کہ خیبر فتح ہوگیا تھا اور خیبر کے نصف حصے کی پیداوار بیت المال میں آتی تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آمدن کی کمی نہیں تھی‘ لیکن آپؐ اس آمدنی کو فقرا و مساکین اور مدینہ طیبہ تشریف لانے والے مسلمانوں پر پہلے خرچ کرتے تھے‘ اپنے اوپر بعد میں۔ اسی بنا پر   مال کی فراوانی کے باوجود بعض اوقات آپؐ بھوک کی وجہ سے نڈھال ہوجاتے تھے۔ آج مسلمانوں کے نظم و نسق کے ذمہ دار اربابِ حکومت مناسب منصوبہ بندی کریں، اور اہلِ دولت اگر رسولؐ اللہ کے اس اسوۂ حسنہ کے مطابق دولت کا استعمال کریں‘ ضرورت مندوں کو مقدم اور اپنے کو مؤخر رکھیں تو مسلمان معاشروں کے ہر شہری کو روٹی‘کپڑا‘ مکان‘ علاج اور تعلیم کی سہولتیں میسرآسکتی ہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ مسلمانوں کو بھوک ‘پیاس اور غربت و افلاس کی سختی کا بہت بڑا صلہ آخرت میں ملے گا‘ حساب کتاب آسان ہوگا غلطیوں اور کوتاہیوں پر بازپرس نہ ہوگی، بلکہ سیدھے جنت میں جائیں گے۔ بھوک اور سختی سہنے کااتنا بڑا انعام ذہن میں ہو تو پھر غربت و افلاس، بے صبری اور ذہنی پریشانی کے بجاے اطمینان و سکون کا سامان ہوگی۔

’معیارِ زندگی‘ کا ان دنوں بہت ذکر ہوتا ہے، لیکن اس کا اسلامی تصور کیا ہے؟ یہ واضح ہونا چاہیے، اور پھر عمل بھی اس سے ہم آہنگ ہونا چاہیے، اور حکومت کی پالیسیاں بھی اس کے مطابق بننا چاہییں۔

o

حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں: ’’میں ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے (سوار) تھا۔ آپؐ نے مجھے فرمایا: اے غلام (بچے)میں تجھے چند مفید باتیں سکھلاتا ہوں(تم انھیں اچھی طرح سیکھ لو)۔ اللہ کے احکام کی حفاظت کرو ،اللہ تعالیٰ تمھاری حفاظت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کے دین کی حفاظت کرو، تم اسے اپنے سامنے پاؤ گے(کوئی تمھارا نقصان نہ کرسکے گا)۔جب کچھ مانگو تو اللہ سے مانگو،جب مدد مانگو تواللہ سے مدد مانگو۔ اس بات کو جان لو کہ   تمام انسان یا انسانوں کا کوئی گروہ تمھیں نفع دینے کے لیے جمع ہو جائیں، تو وہ تمھیں اسی قدر نفع دے سکیں گے جو اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے( یعنی یہ نفع ان کا دیا ہوا نہیں ،اللہ کا دیا ہوا ہے)۔ اس بات کو جان لو کہ اگر انسانوں کا کوئی گروہ یا تمام انسان تمھیں نقصان پہچانے پر مجتمع ہوجائیں تو یہ تمھیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے مگر اسی قدر جو اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے لکھ دیا ہے(یعنی یہ نقصان انھوں نے نہیں پہنچایا،بلکہ اللہ کی طرف سے پہنچاہے۔ فرما ن کا مقصد یہ ہے کہ دوسروں سے نفع کی امید اور نقصان کے ڈر سے اللہ تعالیٰ کے دین اور احکامات کو نظرانداز   نہ کرو)۔قلمیں اٹھالی گئیں اور صحیفے خشک ہو گئے۔(ترمذی)

مسند احمد میں یہ اضافہ بھی ہے،آسودہ حالی میں اللہ سے تعلق پیدا کرو، مشکل حالت میں وہ تجھ سے تعلق رکھے گا۔جان لو اس بات کو،جو آفت تجھ سے ٹل گئی وہ تجھے پہنچنے والی نہ تھی،جو تجھے پہنچ گئی وہ تجھ سے ٹلنے والی نہ تھی ۔ جان لو کہ مدد صبر کے ساتھ ہے اور بے چینی کے ساتھ اس کا چھٹ جانا (خاتمہ)ہے۔تنگی کے ساتھ آسانی بھی ہے۔(اربعین نووی)

حضرت عبد اللہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف فرماتھے،کہ میری والدہ نے مجھے یہ کہہ کر بلایا: ادھر آئو میں تمھیں چیز دیتی ہوں۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: تم نے اسے کیا چیز دینے کا ارادہ کیا تھا،انھوں نے عرض کیا: کھجورکا دانہ۔نبیؐ نے فرمایا: سنو! اگر تم اسے کوئی چیزنہ دیتیں توتیرے کھاتے میں جھوٹ لکھا جاتا۔(ابوداؤد،احمد)

بچوں کی تربیت ماں باپ کی ذمہ داری ہے اوربچپن سیکھنے کا زمانہ ہوتا ہے۔اس عمر میں بچہ جو کچھ سیکھتا ہے، جس سے سیکھتا ہے،وہ ماں باپ ہیں۔ماں باپ سے اسے اسلامی عقیدہ،اسلامی اخلاق، اسلامی آداب، اسلامی احکام کا ایسا درس ملنا چاہیے جو اسے دین کے رنگ میں رنگ دے۔نبیؐ نے بچوں کی تربیت کے لیے بہترین نمونہ پیش کیا۔بچوں کو درس دیا کہ جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، وہ اللہ کی کبریائی،اس کے احکام اور اس کے دین کی حفاظت ہے۔ساری دنیا مخالفت کرے تب بھی اس کے دین پر ڈٹ جاؤ۔ ساری دنیا مل کر تمھارا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے گی۔آسودہ حالی میں اللہ کو نہ بھول جاؤ،عافیت اور آسودگی تمھیں غفلت میں مبتلا نہ کردے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ بچے تھے۔آپؓ نے اپنی بے پناہ مصروفیات میں انھیں نظرانداز نہیں کیا،بلکہ انھیں ایسی ہدایات دیں جو رہتی دنیا تک تمام انسانوں کے لیے نسخۂ کیمیا ہیں۔حضرت عبداللہ بن عامرؓ کی والدہ کے ذریعے ماں باپ کو تعلیم دی کہ ’اولاد‘ کو جھوٹا لالچ نہ دو، اس سے   ان کی سیرت جھوٹ پر استوار ہوگی۔بچوں کی تربیت کے سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے یہ بطور نمونہ چند جھلکیاں ہیں۔

آج گھروں کو اسلامی اخلاق وآداب اور تہذیب و ثقافت میںرنگنے ،اہل خانہ اوربچوں ،بچیوں کو دینی تربیت دینے سے عموماً غفلت برتی جاتی ہے۔ توجہ صرف اس پر ہے کہ انھیں دنیا کمانے کے قابل بنادیا جائے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ گھر میں دین کی تعلیم وتربیت دی جائے۔ عقیدہ، اخلاق، آداب اور احکام پر مشتمل ایک ’نصاب‘ ہر گھر میں رائج ہو۔ نئی نسل میں کردار اور کیریر کے ساتھ اُمتِ مسلمہ کے منصب کے حوالے سے بھی فرائض کا شعور بیدار کیا جائے۔ جن گھرانوں میں اس کی کوشش کی جاتی ہے، معاشرے کا مجموعی ماحول بلکہ مخالفانہ رو ان کے کام کو بہت مشکل بنا دیتی ہے، اس لیے مجموعی ماحول کو درست کرنے کی منظم کوشش بھی ہر مسلمان مرد وعورت کی بنیادی    ذمہ داری ہے۔