مولانا امین احسن اصلاحی (۹۷-۱۹۰۴ئ) ایک عالم، مفسرِقرآن، متکلم، مفکر اور خطیب تھے۔ ان کے تحقیقی نظائر، حق کے طالبوں کے لیے غوروفکر کے باب کھولتے رہیں گے۔ افسوس کہ مولانا کی رحلت کے بعد ان کے بعض ’فکری وارثوں‘ اور خودساختہ ’طالب علموں‘ نے اصلاحی صاحب کے کارنامۂ حیات اور علمی اثاثے کی عظمتوں کو پیش کرنے کے بجاے، ان کی بعض آرا کو اپنی تجدد پسندی اور معاصرین کو ہدف تنقید بنانے کے لیے استعمال کیا۔ اس فضا میں نوجوان محقق اختر حسین عزمی نے مولانا کی تحریروں کا تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ شروع کیا۔ مریدانہ شکست خوردگی یا مخالفانہ یلغار جیسے جذبات سے دامن بچا کر حقیقت کا کھوج لگانے کی کوشش کی، اور ان کایہ کام ڈاکٹریٹ کے مقالے کی صورت میں سامنے آیا۔ اس میں انھوں نے مشینی یا میکانیکی اندازِ تحقیق اپنانے کے بجاے تازگی اور گہرائی کا اسلوب اختیار کیا ہے۔
زیرتبصرہ کتاب کے ۱۰ باب قاری کے سامنے معلومات کا ایک وسیع دفتر پیش کرتے ہیں، جس کا جائزہ اس مختصر تبصرے میں لینا آسان نہیں ہے، بہرحال زیرنظر کتاب سے قاری پر واضح ہوتا ہے کہ مولانا اصلاحی نے تفسیر، حدیث، فقہ، کلام، تزکیہ و تربیت اوردعوت کے موضوعات پر دادِ تحقیق دیتے ہوئے بڑا منفرد طرزِ اظہار اپنایا۔ تفسیر کے باب میں وہ روایتی اسلوب سے ہٹ کر قرآنی فہم کو عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بقول اخترحسین: نو جلدوں پر مشتمل تفسیر تدبر قرآن کے ۵ہزار ۸سو ۴۴ صفحات میں اصلاحی صاحب صرف ۸۸ احادیث سے تفسیری مطالب متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور ان میں سے بھی ایک چوتھائی کو بطور استدلال نہیں پیش کرتے (ص ۱۴۵-۱۴۶)۔ اس کے بجاے وہ قدیم عربی ادب سے الفاظ کے مفہوم کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اصلاحی صاحب کے اسی منفرد اندازِ تحقیق نے بعض ماہرین علوم اسلامیہ کو ان کے بارے میں منفی راے رکھنے کی دلیل فراہم کی۔ تاہم کتاب کے مقدمہ نگار ڈاکٹر محمود احمد غازی کے الفاظ میں: ’’مولانا اصلاحی کے غالی عقیدت مند ان کو ائمہ مجتہدین کا ہم پلّہ یا شاید ان سے بلند تر مرتبے کا حامل قرار دیتے ہیں، اور ناقدین کا گروہ ان سے ایسے ایسے خیالات منسوب کرتا ہے جن سے وہ بلاشک بری تھے‘‘۔ (ص ۱۰)
اس کتاب میں مولانا اصلاحی مرحوم کے تحقیق و تجزیے کے نتائج کو ایک ترتیب اور تنقیح کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ممدوح کی مداحی سے زیادہ ایک تحقیق کار کی طلب حق کی گواہی ہے۔ اسی لیے وہ اصلاحی صاحب کی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں، مگر حسب موقع گرفت بھی کرتے ہیں۔ البتہ ان کی اس راے سے اتفاق نہیں ہے کہ: ’’مولانا [اصلاحی] سے قبل علماے تفسیر میں کسی نے بھی پورے قرآن کو ایک منظم کتاب کے طور پر پیش نہیں کیا‘‘ (ص ۲۸۹)۔ تاہم اس نوعیت کے جملے خال خال ہیں، جب کہ ساری کتاب ٹھیرے، جمے اور گہرے طرزِاظہار کو پیش کرتی ہے۔
مولانا اصلاحی کے ہاں مطالعہ حدیث کا مزید گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے، جب کہ ان کے ادبی اسلوب کی باریکیوں اور محاسن کو آشکارا کرنے کا کام ادبیات کے نقادوں کے ذمے ہے۔
اگر کتاب کی کمپوزنگ قدرے جلی پوائنٹ میں ہوتی اور ساتھ ہی اشاریہ بھی شامل ہوتا تو اس قابلِ قدر کتاب کی خوب صورتی اور معنویت میں مزید اضافہ ہوجاتا۔ (سلیم منصور خالد)
انسان اپنی زندگی نیکی اور گناہ کے درمیان گزارتا ہے۔ آخری فیصلہ اس پر ہوگا کہ دونوں میں سے کس کا وزن زیادہ ہے۔ اسی لیے ہر عاقبت اندیش کو اچھی طرح جاننا چاہیے کہ گناہ کیا ہے، اور نیکی کیا ہے۔ یہ سراسر اس کے ذاتی مفاد سے متعلق ہے۔ حافظ مبشرحسین اپنی تحریروں اور رفتار تحریر واشاعت ہر دولحاظ سے علمی دنیا میں ایک معروف شخصیت ہیں۔ ۲۰ سے زائد کتب شائع ہوچکی ہیں۔ اس سیریز میں انسان اور قرآن، انسان اور فرشتے اور انسان اور شیطان بھی موجود ہیں۔
دبیزمضبوط جلد اور خوب صورت طباعتی معیار کتاب کو ہاتھ میں لینے کا پہلا سبب ہوتا ہے، اس کے ساتھ مؤلف کا آیات و احادیث مع متن ترجمہ اور سند، اور سلف کی تحریروں سے موضوع کے ہرپہلو کا احاطہ کرنے کا انداز کتاب کو جویائے حق کے لیے پُرکشش بناتا ہے۔ زبان سلیس ہے، اور پس منظر آج کے دور کا ہے، نیز بہت زیادہ عنوانات قاری کو بہت سہولت دیتے ہیں۔
انسان اور نیکی میں طویل مقدمہ شیخ علی طنطاوی کی کتاب [نیکی یا گناہ، کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے] سے ماخوذ ہے اور اختتام: [انسانی زندگی پر گناہ کے ۲۰ اثرات [حافظ ابن قیم] کے حوالے سے ہوتا ہے۔ درمیان کے پانچ ابواب میں ان نیکیوں کا بیان ہے جن کا ذکر قرآن و حدیث میں ہے اور ان کے دنیاوی و اخروی فوائد اور اجر بتائے گئے ہیں۔
انسان اور گناہ، متذکرہ بالا کتاب کے مقابلے میں زیادہ جامع اور ضخیم تر ہے۔ گناہوں کے دنیاوی و اُخروی، انفرادی اور اجتماعی، طبی اور جسمانی اثرات اور قانونی سزائیں سب کا بیان ہے۔ تقریباً ۲۰۰ صفحات پر مشتمل ایک علیحدہ باب (نمبر ۱۱) میں معاشرے میں مروج خطرناک گناہ، ۹۰عنوانات کے تحت بیان کیے گئے ہیں۔ مؤلف نے سگریٹ نوشی کو بھی گناہ بلکہ تقریباً حرام قرار دیا ہے۔ گناہوں سے توبہ اور گناہ ترک کرنے کے انعامات کا بھی بیان ہے۔
ایسی کتابوں کے مطالعے کا کلچر عام کرنے کی ضرورت ہے۔ متنوع مشاغل اور دل چسپیوں کے درمیان مطالعے کے لیے وقت نکالنا، اس کی اہمیت اور افادیت محسوس کرنا ایک مجاہدہ ہے۔ اس کا ذوق ہوجائے تو پھر آسانی ہے۔ (مسلم سجاد)
آج کے دور میں دین پر عمل کرنے والوں کو روز مرہ زندگی میں بے شمار مسائل میں قرآن و سنت کی درست رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ معاشرت و معیشت کی تبدیلی نے ہر طرف سوالات ہی سوالات اُٹھا دیے ہیں۔ اب تو انٹرنیٹ پر بھی جوابات کے لیے کتنی ہی سائٹس کام کررہی ہیں۔ زیرتبصرہ تین کتابوں (کُل ۱۴۱۰ صفحات) میں عقائد، عبادات اور معاملات کے تین بڑے عنوانات قائم کر کے متعدد ذیلی عنوانات کے تحت ان جوابات کا ترجمہ جمع کردیا گیا ہے جو عرب دنیا کے مشہور اخبار Arab News میں ساری دنیا سے ان کے قارئین کے بھیجے گئے سوالات کے عادل صلاحی نے دیے۔ یہ وہ علما کے ایک پینل کی مدد سے تیار کرتے تھے اور ہر ہفتے Our Dialogue کے نام سے اخبار میں شائع ہوتے تھے۔ ان کتابوں میں دسمبر ۸۴ء سے اپریل ۲۰۰۴ء تک کے دورانیے کے سوالات شامل کیے گئے ہیں۔ سوالات کا دائرہ اتنا وسیع ہے جتنا کوئی سوچ سکتا ہے۔ ہر طرح کے چھوٹے بڑے مسائل، آج کل کے مسائل۔ کچھ مثالوں کا بیان اسے محدود کردے گا۔ جوابات کا بہت ہی اچھا انداز ہے۔ عملی رہنمائی ہے، غیرضروری تفصیلات نہیں ہیں۔ عادل صلاحی کے مطابق ’’سوالات کا جواب دیتے ہوئے واضح کوشش ہوتی ہے کہ ایسا جواب دیا جائے جس کی تائید میں مضبوط بڑی شہادت موجود ہو۔ ہم شدت پسندی اور متنازع پہلوئوں سے دُور رہتے ہیں اور خود کو کسی ایک فقہی امام کے نقطۂ نظر اور راے تک محدود نہیں کرتے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ مسئلے کا ایسا حل پیش کیا جائے جو عصرِحاضر میںقابلِ قبول اور قابلِ عمل ہو.... قرآن کی تعلیم یا مصدقہ حدیث کے خلاف کبھی کوئی بات نہیں کی جاتی۔ (ص ۸، حصہ اول)
عبدالسلام سلامی اور کلیم چغتائی صاحبان کا اتنا شُستہ اور رواں ترجمہ، کہ ترجمے کا شبہہ بھی نہ ہو، قارئین پر احسان ہے، جزاھما اللّٰہ۔
محمد عارف صاحب اور ان کے ساتھیوں نے ۱۹۸۹ء میں Our Dialogueانگریزی میں شائع کی تھی۔ اب اُردو میں یہ تین جلدیں بلاقیمت پیش کی ہیں۔ کراچی کے احباب قمرہائوس جاکر لیں، دیگر شہروں والے پتا ارسال کر کے درخواست کریں، اور کتابیں آنے پر دعائیں دیں۔
آخری بات، کتاب کا نام ’اسلامی طرزعمل‘ بہتر ہوتا کہ اس میں الف تا ی سب باتیں عمل کے لیے ہیں۔ (م - س)
اُمت مسلمہ کے مستقبل کے امکانات کے حوالے سے مختلف تجزیے سامنے آتے رہتے ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب اس لحاظ سے منفرد تجزیہ ہے کہ اس میں مستقبل قریب میں پیش آنے والے واقعات اور موجودہ صدی میں حق و باطل کا آخری معرکہ برپا ہونے اور غلبۂ اسلام کی نوید سنائی گئی ہے۔ اس تجزیے کی بنیاد قرآن کی پیش گوئیوں، مستند احادیث اور زمینی حقائق پر رکھی گئی ہے۔
مصنف عصری علوم اور تقابل ادیان کے ماہر ہیں، نیویارک میں اسلامی مشن کے ڈائرکٹر رہے ہیں اور کئی کتب کے مصنف ہیں۔ زیرنظر کتاب ان کی عالمی شہرت یافتہ کتاب Jerusalem in Quran کا اُردو ترجمہ ہے۔
فاضل مصنف کی تحقیق کے مطابق سورئہ انبیا کی روشنی میں وہ بستی جہاں سے یہود کو نکالا گیا تھا اور ان پر حرام کردیا گیا تھا کہ وہ وہاں واپس جاسکیں دراصل یروشلم ہے (الانبیاء ۲۱:۹۵-۹۶)، اور ان کی واپسی تب ممکن ہوگی، جب عبرت ناک سزا کا مرحلہ اور وعدئہ برحق (قیامت) پورا ہونے کا وقت قریب آن لگا ہو۔ گویا ہم وقت کے آخری مرحلے میں جی رہے ہیں۔ ایک حدیث کی روشنی میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جھیل کناریٹ (بحرگیلیلی) کا پانی خشک ہوجائے گا۔ آج یہ زمینی حقیقت ہے کہ جھیل کا پانی بہت حد تک کم ہوگیا ہے۔یہی وہ مرحلہ ہے جب اہلِ فلسطین پانی کو ترس جائیں گے، اور یہود کے ظلم و جبرکی انتہا ہوگی۔ تب اللہ کی مدد و نصرت آئے گی، امام مہدی دجال کا مقابلہ کریںگے، حضرت عیسٰی ؑ کا نزول ہوگا، اور خراسان سے (جس میں افغانستان، پاکستان، وسطی ایشیا اور ایران کا کچھ حصہ شامل ہے) اہلِ ایمان کا لشکر ان کی مدد کو پہنچے گا اور بالآخر دجال اپنے لشکروں سمیت ہلاک ہوجائے گا، یہود عبرت کا نشان بنا دیے جائیں گے، اور اسلام غالب آجائے گا۔
مصنف کا اندازہ ہے کہ اگلے ۶۰ برس میں ہم اس مرحلے تک پہنچ جائیں گے۔ لہٰذا اہلِ ایمان کو مشکل حالات کے لیے تیار رہنا چاہیے اور سادہ زندگی گزارنی چاہیے۔جہادِ فلسطین کی کامیابی کی بشارت دی گئی ہے، اس کے لیے ہرممکن تعاون کرنا چاہیے۔ اپنی کوتاہیوں پر اللہ سے توبہ کرتے ہوئے اطاعت و بندگی کی روش اپنانی چاہیے۔ گویا غلبۂ اسلام اور یہود کی بربادی میں تھوڑی ہی مدت باقی ہے۔ چند دیگر اقدامات کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے، جیسے صہیونی سرمایے کی گرفت سے نکلنے کے لیے متبادل کرنسی کا اجرا اور مہاتیرمحمد کی اس کے لیے کوشش وغیرہ۔
اس تجزیے اور نقطۂ نظر سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، تاہم یہ اپنی نوعیت کا منفرد تجزیہ ہے جو عنقریب پیش آنے والے واقعات کی توضیح اور غلبۂ اسلام کی بشارت پر مبنی ہے۔ کتاب دل چسپ ہے اور غوروفکر کے لیے نئے پہلو سامنے لاتی ہے۔ (محمد الیاس انصاری)
پالیسی پرسپیکٹوز، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کا مؤقر علمی جریدہ ہے جس میں علمی و تحقیقی انداز میں اُمت مسلمہ کے مسائل اور درپیش چیلنجوں کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ اپریل ۲۰۰۸ء میں اس کا خصوصی ’افغانستان نمبر‘ شائع ہوا ہے۔ اس میں افغانستان و پاکستان کے ایک سروے کے علاوہ آٹھ اہلِ قلم کی رشحاتِ فکر کو شامل کیاگیا ہے۔ یہ کہنا شاید مبالغہ نہ ہو کہ ’افغانستان کے منظرنامے کے مختلف پہلوئوں کو ۱۵۹ صفحات میں سمونے کی کوشش کی گئی ہے اور اس کے مدیر اس میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ طالبان کے انخلا کے بعد کے چھے برسوں میں افغانستان اور اہلِ افغانستان پر کیا گزری اس کا جائزہ جناب خالد رحمن نے لیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ افغانستان کی داخلی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ کرزئی حکومت کا صرف ۳۰ فی صد علاقے پر کنٹرول ہے۔ ۱۰ ارب ڈالر کی جس امداد کا وعدہ کیا گیا تھا وہ ابھی تک افغانستان نہیں پہنچی۔ موجودہ حکومت مسائل سے نبرد آزما ہونے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ فضل الرحیم مظفری اپنے مضمون: ’افغانستان، علاقائی سلامتی اور ناٹو‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ افغانستان سے ملنے والی ۲۴ سو کلومیٹر طویل سرحد پر ۸۰ہزار پاکستانی جوان تعینات ہیں اور اُن کا مقصد وحید یہ ہے کہ طالبان کا راستہ روکا جائے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ناٹو افواج عرصۂ دراز سے افغانستان میں ہرقسم کی کارروائیوں کے باوجود، واشنگٹن کو مطمئن نہیں کرسکی ہیں۔ اس مضمون میں چشم کُشا حقائق شامل کیے گئے ہیں۔
افغانستان کے متحارب گروہوں کے درمیان اتفاق راے پیدا کرنے کے لیے ’ٹریک ٹو‘ سفارت کاری کا خاکہ عائشہ احمد نے پیش کیا ہے۔ افغانستان میں درپیش صورت حال کے پاکستان کے قبائلی علاقہ جات پر کیا اثرات مرتب ہوںگے، یہ جائزہ امتیاز گُل نے لیا ہے۔ انھوں نے پاکستانی حکومت پر لگائے گئے کئی الزامات کی تردید بھی کی ہے اور اعدادوشمار کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ پاکستانی حکومت ، انتہائی نامساعد حالات کا سامنا کررہی ہے اوراس کا سبب، امریکی احکامات پر عمل ہے، تاہم وہ مذاکرات کی اہمیت سے انکار نہیں کرتے۔
احمد شائق قسّام کے مضمون میں ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی گئی ہے، نیز افیون کی کاشت کے جو اثرات ہیں اُس کے مختلف پہلوئوں کو واضح کیا گیا ہے۔ نسرین غفران کے مضمون میں پاکستان میں افغان مہاجرین، اور مصباح اللہ عبدالباقی کے مضمون میں افغانستان میں مدارس کے ذریعے تعلیم پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ افغانستان کے حوالے سے آئی پی ایس کے سیمی نار کی رپورٹ میں بھی اس مسئلے کے کئی پہلوئوں کو شامل کیا گیا ہے۔ افغان حکومت کا نقطۂ نظر شامل کیا جاتا تو یہ شمارہ اور بھی مفید ثابت ہوتا۔نئے افغانستان پر پاکستان میں، اب تک شائع ہونے والے مطالعات میں یہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ (محمد ایوب منیر)
مغل شہنشاہ جلال الدین محمداکبر کے بارے میں ایس ایم بُرکے نے تقریباً ۶۰ برس پہلے گورنمنٹ کالج لاہور کی Historical Society کے تحت اکبر کے مذہبی لگائو پر ایک مقالہ پڑھا تھا۔ بعدازاں انھوں نے اکبر کی سوانح حیات لکھی جس کا اُردو ترجمہ زیرتبصرہ ہے۔ اکبر کا مذہب کے ساتھ رویہ ہی سب سے زیادہ موضوع بحث رہا ہے اور کتاب کا سب سے طویل باب ’اکبر کے مذہبی رجحان‘ پر لکھا گیا ہے۔ یہ دل چسپ موضوع ہے اور آج مغربی ممالک جو پالیسیاں براہِ راست یا بالواسطہ مسلمان ممالک میں نافذ کروا رہے ہیں ان کا اکبر کی پالیسیوں سے تقابلی مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو مذہب سے بے گانہ کرنے کے لیے کیا کچھ پہلے کیا جاتا رہا اور کیا کچھ آج کیا جا رہا ہے۔ مصنف نے اس کی مذہبی پالیسی کو سراہا ہے۔
اس کتاب کے باب اوّل میں ’اکبر کے آباو اجداد اور ابتدائی دور‘ کے بارے میں تذکرہ ہے۔ دوسرا باب ’بغاوتیں، فتوحات اور امورِخارجہ‘ سے بحث کرتا ہے۔ تیسرے باب کا ہم اُوپر تذکرہ کر ہی چکے ہیں۔ چوتھا باب ’مرکزی حکومت‘ کے بارے میں ہے۔ پانچویں باب میں ’فنونِ لطیفہ‘ کو زیربحث لایا گیا ہے۔ چھٹا باب ’اکبر کی زندگی کے آخری برس‘ کی بابت ہے، جب کہ سب سے اہم باب ساتواں ہے جو’اکبر کے دورِحکومت کا ایک جائزہ‘ کے عنوان سے ہے جس میں مونٹ سٹارٹ الفن سٹون، سمتھ، وولسلے ہیگ، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ایس ایم اکرم اور دیگر دانش وروں اور مؤرخوں کی آرا کی روشنی میں تجزیہ کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر یہ اکبر کے عہد کا ایک مفید مطالعہ ہے۔ تاریخ پاک و ہند سے دل چسپی رکھنے والوں کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ (م-ا-ا)