’اسلامی تحریکیں: حال اور مستقبل‘ (مئی ۲۰۰۸ئ) عصرِحاضر کا اہم ترین موضوع ہے۔ طاغوتی طاقتیں مسلم اُمہ کے خلاف صف آرا ہیں۔ ایک طرف اہانتِ رسولؐ کر کے مسلمانوں کی خاموشی پر بغلیں بجائی جارہی ہیں تو دوسری طرف نہتے مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام کر کے صفحۂ ہستی سے مٹانے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔ ان حالات میں تمام اسلامی تحریکوں کی ذمہ داریاں دوچند ہوجاتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ احیاے اسلام کی تحاریک کے نمایندے مل بیٹھ کر یہود و نصاریٰ کی ریشہ دوانیوں کے خلاف مستقبل کے لیے لائحۂ عمل ترتیب دیں۔ مذکورہ تحریر میں اسلامی تحریکوں کے لائحۂ عمل کے لیے اہم خطوط کی نشان دہی کی گئی ہے۔
’اسلامی تحریکیں: حال اور مستقبل‘ کی یہ افادیت ہے کہ اہم موضوع پر فکری رہنمائی سامنے آئی۔ مضمون عملاً ترجمان میں شائع شدہ دو مضامین پر مبنی ہے لیکن مضمون نگار نے حوالے کا التزام نہیں کیا جو پی ایچ ڈی سطح کے مقالے میں ضروری تھا۔
Muslims and The West: Encounter and Dialogue کا ترجمہ ’مسلمان اور مغرب: مقابلہ اور مکالمہ‘ غالباً پروفیسر عبدالقدیر سلیم صاحب نے خود کیا ہے یا کتاب کے مرتبین نے کیا ہے؟ میرے خیال میں Encounter کا ترجمہ مقابلہ نہیں بلکہ ’آمنا سامنا‘ہونا چاہیے۔ مضمون کے قاری کو یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ مضمون کا عنوان ہے یا کتاب کا نام۔ عنوان کے ساتھ انگریزی نام اور compiled by ہونا چاہیے تھا۔صفحات ۷۲-۷۳ پر لفظ مزعومات کن معنوں میں استعمال ہوا ہے؟ عربی لغت کے اعتبار سے مزعوم کے معنی نام نہاد کے ہوتے ہیں۔ صفحہ ۷۲، سطر۲ ’مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کے درمیان تعصبات اور غلط فہمیاں ہیں‘۔ یعنی مسلمان بھی تعصبات اور غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔ ڈاکٹر فوزیہ ناہید پر قانتہ ذکی کا مضمون نمونے کی تحریکی زندگی پیش کرتا ہے۔
پروفیسر خورشیداحمد صاحب کے مضمون ’پاکستان میں نئی امریکی سفارت کاری‘ (مئی ۲۰۰۸ئ) میں بش کے انگریزی جملوں کا اُردو ترجمہ نہیں دیا گیا۔ اُردو رسالے میں کسی غیرزبان کے لفظ یا عبارت کا اُردو ترجمہ لازمی دیا جانا چاہیے۔
سورۂ بنی اسرائیل کی آیت: ’’تو جس کو اپنی آواز سے پھسلا سکتا ہے پھسلا لے، ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا، مال اور اولاد میں ان کے ساتھ ساجھا لگا، اور ان کو وعدوں کے جال میں پھانس، اور شیطان کے وعدے ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں‘‘(۱۷:۶۴) میں اِن شیطانی ہتھکنڈوں کا ذکر کیا گیا ہے: ۱- آواز ۲-لائولشکر ۳- مال و اولاد میں ساجھے داری۴- جھوٹے وعدے۔ تہذیبِ جدید میں حق کے خلاف ان چاروں ہتھکنڈوں کا استعمال آج ہمیں پورے عروج پہ دکھائی دیتاہے:
۱- شیطانی آوازیں پہلے بھی تھیں مگر آج جدید الیکٹرونک میڈیا کے بل بوتے پر یہ شیطانی آوازیں دنیا بھر کے نوجوانوں کو جس طرح گمراہی اور انتشار ذہنی میں دھکیل رہی ہیں، اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔
۲- جنگیں اس سے پہلے بھی تاریخ میں برپا رہی ہیں۔ مگر سائنس و ٹکنالوجی کی بدولت اس عہد میں جنگوں کی تباہ کاریاں جتنی بڑھ گئی ہیں، ماضی میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ زہریلی گیسوں اور کیمیائی ہتھیاروں سے انسانوں کا قتل ایک عام بات ہے۔
۳- قوموں کی معیشتوں پر ظالمانہ ہتھکنڈوں کے ذریعے قبضہ اورعالمی وسائلِ معیشت پر ظالمانہ گرفت کی منصوبہ بندی جتنی آج منظم طریقے سے ہورہی ہے، تاریخ کے کسی دور میں نہ تھی۔ عالمی دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہورہی ہے اور معاشی طور پر پس ماندہ اقوام غریب سے غریب تر ہوکر فاقہ کشی کا شکار ہورہی ہیں۔
۴- طرفہ ستم یہ ہے کہ جن ہاتھوں میں کچھ لقمے ہیں یا جو سکت رکھتے ہیں کہ اپنے حالات کسی قدر بہتر کرسکیں،انھیں اشتہاربازی سے جھوٹے خواب دکھا کر، لمبی آرزوئوں میں مبتلا کرکے قوت لایموت (دو وقت کی روٹی) سے بھی محروم کردیا جاتاہے۔ ان ہتھکنڈوں کا مقابلہ آج کا حقیقی چیلنج ہے۔
توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ مسلمانوں کے خلاف سوچی سمجھی سازش ہے۔ اس سازش کا مقصد جہاں رسول پاکؐ کی ذات پر حملہ کر کے اپنے گھٹیا جذبات کی تسکین کرنا ہے وہاں اس کا ایک مقصد مسلمانوں کو مشتعل کرنا بھی ہے تاکہ دنیا کو یہ تاثر دیا جاسکے کہ مسلمان نہ صرف غیرمہذب ہیں، بلکہ دہشت گرد بھی ہیں اور اسے جواز بناکر عالمی ایجنڈے کی تکمیل کی جائے جس کا مقصد مسلمانوں پر بالادستی حاصل کرکے ان کو محکوم بنانا ہے۔ اس سازش کو مدنظر رکھ کر ہمیں چاہیے کہ ہم پُرتشدد مظاہروں اور احتجاج کے بجاے اعلیٰ پایے کے دانش وروں اور قانون دانوں پر مشتمل وفود تیار کریں جو مغربی ملکوں کے عوام الناس اور وہاں کی حکومتوں سے گفتگو کرکے انھیں اپنا موقف سمجھاسکیں۔
مغرب میں اُن کے اپنے پیغمبروں کی حُرمت کے بارے میں قوانین موجود ہیں لیکن دوسرے مذاہب بالخصوص اسلام کے حوالے سے ایسا کوئی قانون موجود نہیں۔ اس لیے عالمی سطح پر اس ضمن میں قانون سازی کی کوشش کی جائے اور ایک ایسا بین الاقوامی تصور اُبھارنے کی کوشش کی جائے جس میں ہر مذہب کے پیغمبر اور بانی کے خلاف کسی بھی قسم کی بے حُرمتی کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کے مسلم ممبر ممالک جنرل اسمبلی میں توہینِ انبیاؑ کی روک تھام اور مجرمین کو احتساب کے شکنجے میں لانے کے لیے قانون سازی کرائیں۔
مسلمان ذلت و پستی سے نکلنے، غربت و جہالت کے خاتمے اور اپنی حالت زار کو بدلنے کے لیے جو کوششیں کر رہے ہیں، انھیں بھی منظم اور مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔
۱- ایوانِ صدر، ایوانِ وزیراعظم، بڑی بڑی عمارتوں، ہوٹلوں، دکانوں، پارکوں، مسجدوں، مزاروں وغیرہ کی غیرضروری اور آرایشی روشنیاں بند رکھی جائیں۔
۲- تمام اسٹریٹ لائٹس کی ہر تیسری بتی کو روشن رکھا جائے اور بقیہ دو بتیاں فوری اُتار لی جائیں۔ اسی طرح ہر پٹرول پمپ اور سی این جی اسٹیشنوں کی آرایشی بتیوں کو ممنوع قرار دیا جائے۔
۳- شہروں کی گلیوں اور چھوٹی سڑکوں کی تمام اسٹریٹ لائٹ پوائنٹس پر ۱۰۰ تا ۲۰۰ واٹ کے بلب لگے ہیں۔ ان کے جلانے اور بجھانے کا مناسب انتظام نہیں ہے۔ ان تمام پوائنٹس کے بلبوں کو ۲۰ تا ۲۵ واٹ کے انرجی سیور سے تبدیل کردیا جائے۔
۴- تمام بلب بنانے والی فیکٹریوں کو ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ انرجی سیور بنانے کے پلانٹس لگائیں اور کسی صورت میں بھی پانچ واٹ سے زیادہ کے بلب نہ بنائے جائیں۔ اس کے لیے حکومت کو کچھ مراعات بھی دینی پڑیں توکوئی حرج نہیں۔
۵- انرجی سیور کی قیمت چونکہ عام بلب سے کافی زیادہ ہے، اس لیے لوگ یہ جانے بغیر کہ انرجی سیور عام بلب سے پانچ گنا کم بجلی استعمال کرتا ہے کم قیمت پر عام بلب خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس لیے حکومت کو اخبارات اور ٹی وی پر اس مہم کا آغاز کرنا چاہیے کہ انرجی سیور سے بل میں کمی ہوگی اور دوسرے، انرجی سیور کو رعایتی نرخوں پر فروخت کیا جائے۔ انرجی سیور مفت تقسیم کرنے کی تجویز قابلِ عمل نہیں۔
۶- صاحبِاستطاعت اور امیرطبقہ توجہ دلانے کے باوجود بجلی کے کم استعمال کی طرف عموماً راغب نہیں ہوگا۔ اپنی دولت اور وسائل کے بل پر وہ ہرقسم کی آسایش حاصل کررہا ہے۔ اگر انسانیت کے ناتے اسے کہا جائے کہ وہ کم از کم اپنا ایک اے سی نہ چلائے تو وہ اس پر عمل نہیں کرے گا۔ اس لیے اے سی والے گھروں پر ایسے سرکٹ بریکر لگائے جائیں کہ وہ ایک خاص حد سے زیادہ بجلی استعمال ہی نہ کرسکیں۔
۷- ساتھ ہی بچت کے لیے واپڈا کی طرف سے پُرزور مہم چلنا چاہیے۔ ہم میں سے ہر ایک غیرضروری استعمال شعوری طور پر ترک کردے تو بھی بہت بڑی بچت ہوسکتی ہے۔