جون ۲۰۰۸

فہرست مضامین

لبنانی فسادات اور خطے کا مستقبل

عبد الغفار عزیز | جون ۲۰۰۸ | عالم اسلام

Responsive image Responsive image

لیبیا کا صدر عرب حکمرانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہہ رہا تھا: ’ہمیں اس ہال کی چار دیواری کے علاوہ اور کوئی چیز اکٹھا کرنے والی نہیں بچی، افسوس ہے کہ ہم ایک دوسرے سے مخاصمت رکھتے ہیں، ہم ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں، ایک دوسرے سے لڑائیاں کرتے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف سازشیں تیار کرتے ہیں، دوسرے کو پہنچنے والی مصیبتوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، ایک دوسرے کی جاسوسی کرتے ہیں، ہم ایک دوسرے کے دشمن ہیں… نتیجہ یہ ہے کہ عربوں کی عزت خاک میں مل چکی ہے، عربوں کا وجود قصۂ پارینہ بن گیا ہے، ان کا ماضی… ان کا مستقبل، سب ختم ہوچکا ہے۔

صدر قذافی کے عقیدے، نظریات، سیاست اور حکمت عملی سے بہت سے اختلافات کیے جاسکتے ہیں۔ اپنے شہریوں کی آزادیاں سلب کرلینے اور امریکا سے دشمنی کے دعووں کے بعداچانک اس کے سامنے ڈھیر ہوجانے کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے، لیکن دو ماہ قبل ۳۰مارچ کو شام کے دارالحکومت دمشق میں عرب لیگ کے سربراہی اجلاس سے ان کا یہ خطاب عالمِ عرب کی بالکل درست تصویر کشی کرتا ہے۔ گذشتہ ماہ، یعنی مئی ۲۰۰۸ء کو سرزمینِ اقصیٰ پر یہودیوں کے قبضے کو ۶۰سال پورے ہوگئے۔ عین اس وقت کہ جب فلسطین پر قابض صہیونی ریاست اپنا ۶۰سالہ جشن منا رہی تھی، عالمِ اسلام فتنہ و فساد اور ہلاکت و خوں ریزی کی نئی تاریخ رقم کر رہا تھا۔ صومالیہ، چیچنیا، کشمیر، افغانستان، عراق اور فلسطین تو پہلے ہی خاک و خون کی نذر تھے، صرف عراق پر امریکی قبضے کے بعد سے اب تک ۱۰ لاکھ، جی ہاں ۱۰ لاکھ سے زائد بے گناہ موت کے گھاٹ اُتارے جاچکے ہیں لیکن مئی میں دو مزید مسلمان ملکوں میں خانہ جنگی برپا کردی گئی۔ لبنان کے دارالحکومت بیروت کی سڑکوں پر حزب اللہ اور حکومتی جماعتوں کے درمیان گولیوں، مارٹر گولوں اور آتش زدگی کی وارداتوں کا تبادلہ ہوا اور سوڈان کے دارالحکومت خرطوم اور اس کے جڑواں شہر اُم درمان پر دارفور کے مسلمان باغی گروہ نے انقلاب برپا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دھاوا بول دیا اور سیکڑوں افراد کو زندگی سے محروم کردیا۔

حزب اللہ ہمیشہ سے صہیونی و امریکی حملوں کا نشانہ رہی ہے، لیکن ۲۰۰۰ء میں اس کی مزاحمت و جہاد سے مجبور ہوکر جنوبی لبنان سے اسرائیلی فوجوں کے انخلا اور ۲۰۰۶ء میں تمام تر امریکی و اسرائیلی مہلک اسلحے سے لڑی جانے والی جنگ میں اس سے شکست کھا جانے کے بعد حزب اللہ اور اس کی عسکری طاقت خاص طور پر ان کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ اس لیے اب ایک طرف تو اسے اس کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر مہیب پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس کی عسکری قوت کو سُنّی ممالک و عوام کے لیے خطرے کی علامت بناکر پیش کیا جارہا ہے، اس سے اسلحہ چھین لینے کے لیے عالمی وعلاقائی اسٹیج تیار کیا جا رہا ہے، اور دوسری طرف اس کے اور لبنانی حکومت کے درمیان سالہا سال پر محیط ہمہ پہلو کش مکش شروع کروا دی گئی ہے۔ ۷مئی ۲۰۰۸ء کو اس کش مکش کا ایک المناک مظاہرہ بیروت کی سڑکوں پر کیا گیا۔

لبنان نمایاں طور پر مختلف مذاہب اور قومیتوں میں بٹا ہوا ملک ہے۔ اس تنوع نے ملک کو کئی بار سنگین خانہ جنگی کے شعلوں کی نذر بھی کیا ہے۔ خاص طور پر ۱۹۸۵ء سے لے کر ۱۹۸۸ء تک کی خانہ جنگی نے ’لبنانائزیشن‘ کو اندرونی خلفشار وتباہی کے لیے ضرب المثل بنا دیا۔لیکن بالآخر سعودی عرب کے شہر طائف میں امریکا و شام کے تعاون سے ہونے والے معاہدۂ طائف پر   اتفاقِ راے نے سب کو اکٹھا کردیا۔ اس اتفاقِ راے کے نتیجے میں لبنان کا صدر ہمیشہ مارونی مسیحی، وزیراعظم سُنی مسلم، اسمبلی کا اسپیکر شیعہ مسلم، ڈپٹی اسپیکر آرتھوڈکس مسیحی اور ارکانِ پارلیمنٹ آدھے مسیحی اور آدھے مسلمان ہوتے ہیں۔ حالیہ سیاسی تقسیم کے نتیجے میں ملک دو بڑے کیمپوں میں بٹا ہوا ہے۔ ایک جانب مسیحی صدر (جس کا دوبارہ انتخاب التوا کا شکار ہے) شیعہ اسپیکر (تحریک امل، حزب اللہ) اور بعض چھوٹے دھڑے ہیں جو اب اپوزیشن کہلاتے ہیں۔ دوسری طرف سُنّی وزیراعظم (حریری)، درزی رہنما ولید جنبلاط اور بعض دیگر چھوٹے گروہ ہیں۔ حکومتی دھڑا امریکی حلیف سمجھا جاتا ہے اور اپوزیشن شام اور ایران کے زیراثر گردانی جاتی ہے۔ اپوزیشن شکوہ کرتی ہے کہ حکومت امریکا اور اسرائیل کے اشاروں پر چلتے ہوئے حزب اللہ کی طاقت و مزاحمت کا خاتمہ چاہتی ہے اور حکومت الزام لگاتی ہے کہ حزب اللہ یہاں ایران اور شام کا تسلط چاہتی ہے اور ان کے مفادات کی محافظ ہے۔

اس تناظر میں ماہ رواں کے اوائل میں حکومت کے دو حساس فیصلوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا: ایک تو بیروت ایئرپورٹ پر سیکورٹی کے سربراہ کو جو حزب اللہ سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے منصب سے ہٹانے کا اور دوسرے، حزب اللہ کے نجی مواصلاتی نظام کو ختم کرنے کا۔ ایئرپورٹ سیکورٹی کے سربراہ پر الزام لگایا گیا کہ وہ یہاں خفیہ کیمروں کے ذریعے جاسوسی کرتا ہے اور مواصلاتی نظام کے بارے میں کہا گیا کہ اسے اپنی عسکری ضرورتوں سے کہیںوسیع تر کرلیا گیا ہے اور حزب اللہ اپنے آپ کو ریاست کے اندر الگ ریاست سمجھتی ہے۔

اپوزیشن کی طرف سے یہ دونوں فیصلے مسترد کرنے اور ۷مئی کو ان کے خلاف ہڑتال اور پُرامن احتجاج کا اعلان کیا گیا۔ لیکن بدقسمتی سے جیسے ہی دن کاآغاز ہوا بیروت کے مختلف علاقوں میں آگ اور خون کا کھیل شروع ہوگیا۔ احتجاج کو باقاعدہ عسکری جھڑپوں میں تبدیل کردیا گیا تو حزب کا پلہ بھاری رہنا بدیہی تھا۔ اس کے افراد نے تیزی سے بیروت میں پیش قدمی شروع کر دی اور پھر دو روز کے اندر اندر اسی تیزی سے اپنے علاقے میں واپس چلے گئے۔ اس کے ذمہ داران نے اعلان کیا کہ ہمارے پُرامن احتجاج کو ایک سازش کی بنیاد پر مسلح جھڑپوں میں تبدیل کردیا گیا، ہم نے مجبوراً دفاعی اقدامات کیے اور صورتِ حال قابو میں آتے ہی عسکری مظاہر ختم کردیے۔ حکومتی کیمپ کا کہنا ہے کہ مسلح کارروائیوں کا آغاز حزب کی طرف سے کیا گیا اور حکومت کی طرف سے جوابی کارروائی کی گئی، نیز یہ کہ حزب اللہ عالمی دبائو سے خوف زدہ ہوکر پسپا ہوگئی۔ اگرچہ طرفین ۲۲مئی کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک صلح و معاہدے پر دستخط کرچکے ہیں لیکن دونوں طرف سے الزامات و جوابات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اگر آنے والے ماہ و ایام میں دوحہ معاہدے پر عمل درآمد نہ ہوا تو یہ یقینا ۶۰سالہ جشن فتح منانے والے صہیونیوں اور ان کے عالمی سرپرستوں کے سوا کسی کے لیے خیرومسرت کا باعث نہیں ہوگا۔ جماعت اسلامی لبنان کے سربراہ فیصل المولاوی نے بھی اپنے بیانات میں اسی موقف کا اعادہ کیا ہے۔ انھوں نے فریقین میں سے کسی کو بھی بیروت کے المناک واقعات سے بری الذمہ قرار نہیں دیا۔ حزب اللہ کو بھی خبردار کیا کہ وہ اپنا اسلحہ اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف استعمال کرکے دشمن کے بچھائے جال میں نہ پھنسے لیکن ساتھ ہی حزب اللہ کی عسکری قوت اور اسلحے کی حفاظت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس اسلحے کا استعمال صرف ایک ہی رہنے دینا چاہیے اور وہ ہے صہیونی قبضے کے خلاف مزاحمت۔

بیروت کے حالیہ واقعات کو کئی مغربی اور صہیونی مبصرین نے ایران سے جوڑتے ہوئے خطے کے ممالک کو اس کی توسیع پذیر طاقت سے خوف زدہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ کئی عرب سرکاری ذرائع ابلاغ بھی اس مہم کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ علاقے کی حکومتوں اور عوام کو ڈرایا اور باور کروایا جا رہا ہے کہ یہ مذہبی جنگ ہے۔ ایران نے صدام کے بعد عراق میں قائم شیعہ حکومت، شام کے ساتھ اپنے مضبوط تر تعلقات اور لبنان میں حزب اللہ کی ناقابلِ یقین عسکری طاقت کے ذریعے خطے میں ایک شیعہ ہلال تشکیل دے لیا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ایران نے مشکل وقت میں حماس کی مالی امداد کر کے اسے بھی اپنے ساتھ ملا لیا ہے اور اس طرح وہ ایک تشدد پسند، ریڈیکل اسلام کو ترویج دیتے ہوئے پورے خطے پر قبضہ جمانے کا ارادہ رکھتاہے۔ بعض صہیونی تجزیہ نگاروں نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ ایرانی حکومت بیروت میں حزب اللہ کی کارروائیوں کی طرح حماس کی عسکری طاقت کو بھی فلسطین کے اندر اور باہر استعمال کرسکتی ہے۔ وہ غزہ کے بعد عالمی سرحدیں اور رفح کا پھاٹک پامال کرتے ہوئے مصر میں انقلاب کے لیے کوشاں ہوسکتی ہے۔ مصر میں موجود اخوان المسلمون اندر سے اُٹھ کھڑے ہوںگے اور یہاں ایران دوست اسلامی انقلاب برپا کردیا جائے گا۔

صہیونی وزیرخارجہ سیبی لیفنی نے بیان دیا: ’’اصل تنازع عربوں اور یہودیوں کے درمیان نہیں، اعتدال پسند روشن خیالوں اور شدت پسندوں کے درمیان ہے‘‘۔ معروف اسرائیلی روزنامے ھاآرٹس میں ۲۴ مئی کو عکیناالدارنامی تجزیہ نگار دہائی دیتا ہے: ’’اب یہ امر لبنانیوں، فلسطینیوں، اُردنیوں، مصریوں اور سعودیوں کے مابین قدر مشترک ہے… حقیقت پسند حکمران، ریڈیکل اسلام سے خوف زدہ ہیں۔ریڈیکل عناصر شیعہ ہوں یا سُنّی، اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کا خون بہاکر    خوشی سے رقص کرتے ہیں۔ ۲۰۰۶ء کے موسم گرما (حزب اللہ اسرائیل لڑائی) کے بعد سے ان کا یہ خوف شدید تر ہوگیا ہے‘‘۔

معروف دانش ور رابرٹ فسک نے اگرچہ بیروت کے واقعات کا تجزیہ اس طرح کیا ہے کہ: ’’یہ واقعات امریکا کے لیے مزید ذلت اور ایران کی ایک اور جیت ہیں‘‘۔ انھوں نے ۱۲مئی کو برطانوی اخبار انڈی پنڈنٹ میں شائع اپنے مضمون میںاس لڑائی کو ’’مشرقِ وسطیٰ میں جاری امریکا مخالف لڑائی کاحصہ‘‘ قرار دیا ہے جس میں امریکا اور اس کے حواریوں کو شکست در شکست ہورہی ہے، لیکن عملاً انھوں نے بھی اس جنگ میں امریکی ہدف کی نشان دہی کی ہے۔ اس ہدف کے بارے میں بدنامِ زمانہ ’موساد‘ کے سابق سربراہ افرایم ہلیفی ۲۰مئی کے اسرائیلی روزنامے یدیعوت احرونوت میں لکھتا ہے: ’’امریکا کے لیے لازمی ہے کہ وہ ایران پر بڑھتے ہوئے دبائو میں مزید اضافہ کرے۔ اقتصادی اور مالیاتی دبائو سے لے کر خطے میں عسکری قوت جمع کرنے اور اسے استعمال کرنے کی دھمکیوں تک ہرممکن دبائو… صرف اسی دبائو کے نتیجے میں ہی ایران کو مذاکرات کی میز تک لایا جاسکتا ہے‘‘۔ پھر لکھتا ہے: ’’اگر امریکا اس مقصد میں کامیاب ہوجائے تو ہمیں مزید خبردار رہنا ہوگا، کہیں ایسانہ ہو کہ مذاکرات کی میز پر ہماری (اسرائیل کی) کوئی جگہ ہی   نہ رکھی جائے… ہمارے لیے یہ امر فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے‘‘۔

اس صہیونی ہلاشیری اور خطے میں حالیہ امریکی عسکری نقل و حرکت کا جائزہ لیں تو لگتا ہے کہ بش صاحب اپنا عہدہ چھوڑنے سے پہلے پہلے ایران پر ہلہ بولنے کی حماقت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ عالمِ عرب کے بڑے روزنامے الشرق الاوسط کے مطابق مئی کے پہلے ۲۰ روز میں ۱۹جنگی جہازوں نے نہرسویز عبور کی۔ یہ آمدورفت ایک نیا ریکارڈ ہے۔ اس سے قبل اتنے مختصر عرصے کے دوران میں اتنے جنگی جہاز خطے میں نہیں آئے۔ عراق میں اعترافِ شکست، امریکی فوجیوں کے زمین بوس مورال اور جنگ کی صورت میں ایران کی طرف سے امریکا و اسرائیل کو برابر کا جواب دینے کے اعلانات ایران پر حملے کے صہیونی ارادوں کی تکمیل کی راہ میں حائل ہیں۔

ایران سمیت ہر خطرے کے خلاف عالمی صف بندی اور باقاعدہ حملوں کے لیے صہیونی عناصر کی بے تابی تو بآسانی سمجھ آجانے والی حقیقت ہے، لیکن سمجھ سے بالاتر بات یہ ہے کہ خود  عرب اور مسلم ممالک اپنے ازلی و ابدی دشمن کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھانے کے لیے کیوں مرے جارہے ہیں۔ یہ تو سمجھ آتا ہے کہ مسجداقصیٰ اور سرزمینِ اقصیٰ پر ۶۰سالہ قبضے کا جشن منانے کے لیے (واضح رہے کہ فلسطین سے برطانوی انتداب ۱۴ مئی ۱۹۴۸ء کو ختم ہوا۔ اسی روز پہلے صہیونی وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریون نے قیامِ اسرائیل کا اعلان کردیا۔ اس اعلان کے الفاظ تھے: ’’ہم طے کرتے ہیں کہ آج رات عبرانی سال ۵۷۰۸ کے مطابق ۶مئی اور عیسوی سال ۱۹۴۸ء کے مطابق ۱۵مئی کو جس لمحے برطانوی انتداب اختتام پذیر ہوگا، اقوام متحدہ کی قرارداد (۱۸۱- ۲۹ نومبر ۴۷ئ) کی روشنی میں اور اپنے فطری و تاریخی حق کی بنیاد پر، سرزمین اسرائیل پر ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کرتے ہیں)، بش سمیت ۴۰ عالمی شخصیات ۱۴ مئی کو تل ابیب پہنچیں اور ۱۵ مئی کو صہیونی پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر بش اعلان کرے کہ اسرائیلی خود کو صرف سات ملین نہ سمجھیں، ہم اور آپ مل کر ۳۰۷ ملین ہیں اور اپنے مشترک دشمن کے خلاف شانہ بشانہ و یک جان ہیں۔ لیکن یہ سمجھ نہیں آتا کہ مصر جیسے اہم مسلمان ملک نے اس موقع پر ناجائز صہیونی ریاست کو۲ئ۱ ارب مکعب میٹر سالانہ کی مقدار میں قدرتی گیس کی فراہمی کیوں شروع کردی۔ کویتی ہفت روزہ المجتمع اور دیگر رپورٹوں کے مطابق یکم مئی سے اسرائیلی ریاست کو یہ گیس ناقابلِ بیان حد تک کم قیمت میں فروخت کی جارہی ہے۔ جس گیس کی قیمت اس وقت عالمی منڈی میں ساڑھے نو ڈالر فی یونٹ ہے وہ اسرائیل کو ایک ڈالر سے بھی کم، یعنی صرف ۷۵ سنٹ فی یونٹ میں فراہم کی جارہی ہے۔ جون سے اس کی مقدار بڑھا کر ۷ئ۱ارب مکعب میٹر سالانہ کردی جائے گی اور یہ ترسیل آیندہ ۲۰ سال تک جاری رکھی جائے گی۔

قرآن کریم جن کے بارے میں ’انبیاؑ کے قاتل‘ ہونے اور ’مسلمانوں سے دشمنی میں سب سے آگے بڑھے‘ ہونے کی خبر دیتا ہے، ان کے ساتھ سخاوت وفیاضی کا یہ مظاہرہ ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے کہ جب اس نے مصری حدود سے متصل غزہ کی پٹی میں ۱۵ لاکھ فلسطینیوں کو محصور کررکھا ہے۔ انھیں زندگی کی ہر ضرورت سے محروم کر رکھا ہے۔ بجلی، پٹرول اور گیس تو کجا، پینے کے لیے پانی اور پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ہر دانۂ گندم پر روک لگا رکھی ہے۔ شام، جو خود صہیونی جارحیت کا نشانہ  بن چکا ہے اور جس کی وادی ’جولان‘ اب بھی مقبوضہ ہے، عین انھی دنوں ان اسرائیلی خبروں کی تصدیق کررہا ہے کہ: ’’ترکی کی وساطت سے شام اسرائیل مذاکرات کے کئی ادوار ہوچکے ہیں اوریہ مذاکراتی عمل جاری رہے گا‘‘۔ ایک اسرائیلی وزیر نے بیان دیا ہے کہ صہیونی وزیراعظم اولمرٹ نے گذشتہ عرصے میں شامی صدر بشارالاسد کو اس مضمون کے ۲۰ پیغام بھیجے ہیں کہ ایران، حزب اللہ اور حماس سے ناتا توڑ لو، ہم تمھارے سارے دلدّر دُور کردیں گے۔ مسلمان ممالک کے اکثر حکمرانوں کی اس فراست و دانائی پر حیرت وتأسف اور اناللہ … پڑھ لینے کے علاوہ کچھ نہیں  کہا جاسکتا۔ یہ حکمران اپنے اقتدار کے لیے ’امریکی خدا‘ کی رضاجوئی اور امریکی دل جوئی کے لیے ’سگِ لیلیٰ‘ کی بلائیں لینا جزو ایمان سمجھتے ہیں۔

دوسری جانب خود اسرائیلیوں کو دیکھیں تو ان کے روزنامے یدیعوت احرونوت کے تازہ سروے کے مطابق ان کی صرف چار فی صد آبادی صہیونی ریاست میں سکون سے رہنا ممکن سمجھتی ہے۔ ۵۲ فی صد نے کہا کہ وہ کسی بھی وقت یہاں سے کوچ کرسکتے ہیں۔ ۳۰ فی صد نے کہا کہ ہمیں اپنا صہیونی ہونا باعث عار و شرم لگتا ہے۔ ۲۲ فی صد نے اقرار کیا کہ صہیونی ریاست بتدریج زوال و فنا کی طرف جارہی ہے۔

۳۰ اپریل کو دوحہ میں علامہ یوسف قرضاوی سے ملاقات کے لیے چوٹی کے تین برطانوی یہودی رِبی.ّ  ان کے گھر آئے ، انھوں نے اعتراف کیا کہ’’صہیونی ریاست پوری دنیا کے لیے شر کا باعث ہے‘‘۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ ’’اس ریاست کا وجود تورات کی تعلیمات کے منافی اور یہودیوں کے لیے تباہی کا باعث ہے‘‘۔ اَھارون کوہن، اسرائیل ڈووِڈ وِس اور ڈووِڈ شلومو وِلڈ مین نامی ان تینوں مذہبی رہنمائوں کاشمار تورات کے بزرگ اساتذہ میں ہوتا ہے اور انھیں ’ربانی یہود‘ کہا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’تورات کے حقائق اور دو ہزار سالہ یہودی تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ اسرائیلی ریاست کو بالآخر نیست و نابود ہونا ہے‘‘۔

کیا صہیونی ریاست کے ظالم بھیڑیوں، ان کے ہاتھوں یرغمال بنے امریکا اور اس کے سامنے سجدہ ریز مسلم حکمرانوں کو اس گواہی کے بعد بھی کوئی اور گواہی درکار ہے؟