جون ۲۰۰۸

فہرست مضامین

مختصر لباسی کی تباہ کاری

ڈاکٹر لیونڈ کیتایف | جون ۲۰۰۸ | مغربی معاشرہ

Responsive image Responsive image

ترجمہ: سلیم منصور خالد

کیا بے حجابی اور حیا صرف اسلام کا مسئلہ ہے یا اس کا تعلق خود انسانیت سے بھی ہے؟ روس صدیوں تک قدامت پسند مسیحیت اور زارشاہی کے تابع رہا۔ پھر کارل مارکس کی فکر اور کمیونسٹ پارٹی کی تحریک پر لینن نے اکتوبر ۱۹۱۷ء میں یہاں پر اشتراکی انقلاب برپا کیا۔ اس انقلاب کے دیگر مظاہر کے ساتھ دو چیزیں یہ بھی روسی فضائوں میں مسلط ہوئیں کہ: مذہب افیون ہے، اور مذہبی تعلیمات کا مذاق اڑانا ترقی پسندی ہے۔ دوسرا یہ کہ الٰہی ہدایت کے تحت انسان کے باہمی تعلقات میں بالخصوص نکاح کے تصورات کو فرسودہ اخلاقیات کا کباڑخانہ قرار دینا روشن خیالی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اشتراکی انقلابیوں نے ایسے خانگی معاہدے کی بنیاد رکھی، جس کی پابندی میں صنفی خود اختیاریت تھی اور صنفی آزاد روی میں تو آزادی کی کوئی حد نہ تھی۔ مغرب کے اسی آزاد خیال معاشرے کے ایک دانش ور ڈاکٹر لیونڈ کیتایف سمایخ (Leonid Kitaev Smyk) کا یہ مختصر مضمون روزنامہ پراودا (انگریزی) ماسکو، ۵ مئی ۲۰۰۸ء میں شائع ہوا ہے۔ موصوف پیشے کے اعتبار سے ماہر نفسیات ہیں اور رشین اکیڈمی آف سائنسز میں رشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کلچرالوجی کے سینیر محقق ہیں۔ ان کا یہ مضمون عبرت کا جہان سمیٹے ہوئے ہے۔

اسلام نے حیا، حجاب، ستر، غضِ بصر اور کھلے چھپے میں فکری پاکیزگی کا قانون عطا کیا ہے، اور اس کے نفاذ کے لیے ہر فرد کو ذمہ دار، پابند اور جواب دہ قرار دیا ہے۔ پھر ریاست کو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری سونپی ہے، کہ اسی میں انسانیت کی فلاح ہے۔ مادر پدر آزادی کے مغربی نعروں کی جانب لپکتے خواتین و حضرات کے لیے خود مغرب سے بلند ہوتی اس چیخ میں ایک پیغام ہے۔ خاص طور پر ان خواتین کے لیے کہ جنھوں نے جانے یا اَن جانے میں بے حیائی کے تصور وعمل کو معمولی چیز سمجھا ہے۔ انجام کار ہمارے ہاں خواتین میں آدھے یا پورے عریاں بازوئوں کی پوشاکیں، اُونچی شلواریں، قمیصوں کے بلند چاک، تنگ پتلونیں، کھلی شرٹس، باریک کپڑے، منی اسکرٹس کا رواج روز افزوں ہے۔ دوسری طرف انٹرنیٹ کیفوں کے پہلو بہ پہلو فحش وڈیو سی ڈیز، کیبل سروس کی فراہم کردہ واہی تباہی، مخلوط تعلیم کی سلگتی بھٹیاں، ہیجان انگیز اشتہاربازی اور ہورڈنگز کی یلغار ہے۔ ان تمام چیزوں کی ذمہ داری ہمارے معاشرے کے سیاسی، انتظامی، مذہبی، سماجی، تعلیمی، تجارتی اور ابلاغی اداروں پر بھی آتی ہے۔ہمارے معاشرے کو پراودا کے اس مضمون میں اپنا چہرہ دیکھنا چاہیے ۔یہ مسئلہ محض دین اور اخلاق کا نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ خود انسانی زندگی اور معاشرت کی بنیادیں وابستہ ہیں۔(مترجم)

مردوں میں بہت سی بیماریوں کا ایک بڑا سبب عورتوں کا ہیجان انگیز لباس پہننا اور  اشتعال انگیز رویہ اختیار کرنا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ مغربی تہذیب رفتہ رفتہ ایک ایسے معاشرے میں ڈھل رہی ہے، جس میں مرد صنفی طور پر غیرمطمئن، جسمانی طور پر غیرفعال اور غیرصحت مند زندگی گزار رہے ہیں۔

امریکی تحقیق کاروں کی ۳۰ سالہ تحقیق کے مطابق ۶۰ سال کی عمر سے زیادہ [مغربی] مردوں کی ۸۰ فی صد تعداد جن مختلف بیماریوں میں گھری ہوئی ہے، اور اس میں سب سے بڑی بیماری مثانے کے غدود (پراسٹیٹ گلینڈ) کا کینسر ہے۔ ۳۰سال سے بڑی عمر کا ہر تیسرا امریکی یا یورپی مرد مثانے کے غدود کی بیماری کا شکار ہے، تاہم مشرق میں بسنے والے مسلمانوں میں صورت حال یکسر طور پر اس کے برعکس ہے۔ عرب [اور مسلم] دنیا میں پراسٹیٹ کینسر کا مرض بالکل نچلی سطح پر ہے۔ اس فرق کے بارے میں عام طور پر سائنس دانوں کا خیال یہی ہے کہ: ’’اس کے اسباب میں موسمی حالات اور کھانے پینے کے مشرقی لوازمات کو عمل دخل ہے‘‘۔ مگر میرے خیال میں ان سائنس دانوں نے مذکورہ ہوش ربا چیلنج کی درست تشخیص نہیں کی ہے۔ ہمارے مطالعہ وتحقیق کے مطابق معاملہ دراصل یہ ہے کہ ترقی یافتہ دنیا میں جنسی انقلاب کی شاہراہ پر دوڑتی عورت اشتعال انگیز لباس سے اپنا تن ڈھانپنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے، جب کہ مشرقی [مسلمان] عورت اب بھی گائون، ڈھیلا اور ساتر لباس پہن رہی ہے۔ یہ ہے بنیادی سبب اس فرق کا۔

اس معاملے کا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ گلیوں اور شاہراہوں پر چلتے ہوئے مرد، صنفی طور پر سخت ناآسودگی کا شکار ہوتے ہیں۔ جس کا ایک بڑا سبب عورتوں کے جسم کے عریاں حصے دیکھنا ہے۔ باریک، مختصر لباس اور منی اسکرٹ وغیرہ انھیں ہیجانی سطح پر سخت متاثر کرتے ہیں۔ عورتوں کے یہ جدید فیشن، مردوں کو جنسی بھوک میں مبتلا کرتے ہیں۔ اس کا علاج ویسے ہی بہت کم درجے میں ممکن ہے، بھلا اس ہیجانی بیماری کا علاج بھی کیا تجویز کیا جائے؟ تاہم اس کھیل کو بس ایک حیوانی ڈراما ہی کہا جاسکتا ہے۔ اب اگر ایک مرد کمزور ہے تو عورت اسے مسترد کردیتی ہے اور پھر یہی مرد ناطاقتی (امپوٹینس) اور پراسٹیٹ سے متعلق بیماریوں کی گرفت میں آجاتا ہے۔ دیکھا جائے تو موجودہ زمانے کے ۷۰فی صد مردوں میں ناطاقتی دراصل: مستقل طور پر متضاد رویوں اور ناآسودہ جنسی انتشار کے خلاف قدرت کا خودکار دفاعی ردعمل ہے، اور اب مستقل شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔

اسی طرح یہ پہلو بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ [مغربی] عورتیںاپنے جسم دکھاتے لباسوں  اور عریاں پنڈلیوں کے ذریعے مردوں کی قبریں کھودتی ہیں۔ ذرا دیکھیے، بظاہر ایک بھلی سی لڑکی، ہیجان انگیز وضع قطع کے ساتھ اپنے ایک دوست کی خوشی کے لیے گھر سے خراماں خراماں نکلتی ہے، لیکن اپنے جلووں سے راستے بھر میں ایک درجن سے زیادہ مردوں کو [بلاوجہ] ذہنی اور صنفی اذیت میں مبتلا کرتی چلی جاتی ہے۔ یوں عریانی و برہنگی کے یہ کھلے ہتھیار بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے (ماس ڈسٹرکشن) کا کام کرجاتے ہیں۔ اس طرح یہ سارا عمل، مغربی تہذیب کو ایک مضحمل معاشرے کے سپرد کردیتا ہے۔

جنسیات کے ماہرین کے نزدیک مردوں میں کمزوری (امپوٹینس) کو بڑھانے کا بڑا سبب حسب ذیل سرگرمیاں ہیں: شہوت اور جنسی ہیجان سے بھرپور وڈیو فلمیں، انٹرنیٹ پر عریانی و فحاشی پر مبنی مواد دیکھنے کے لیے تجسس آمیز تفتیش، مختصر لباسوں میں ملبوس چلتی پھرتی عورتیں، فحش رسائل اور کتب، برہنہ رقص کے کلب، وغیرہ۔ (مذکورہ اخبار میں اس مضمون پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک قاری نے لکھا: ’’خیال کیجیے یہ تحریر کسی مذہبی مولانا کی نہیں ہے‘‘۔ دوسرے نے لکھا: ’’ان چیزوں کا منفی اثر زیادہ تر نوجوان مردوں پر ہوتا ہے‘‘۔ تیسرے نے لکھا: ’’اس تباہی کا ایک بڑا سبب خود شراب بھی تو ہے‘‘۔)