رسول ، اللہ کا فرستادہ اور اس کانمایندہ ہوتا ہے۔رسول کے مخاطب انسان ہوتے ہیں۔ وہ انسانوں کے درمیان رہتا اور بستا ہے، بھرپور سماجی اور اجتماعی زندگی گزارتا ہے اور صالح انسانی سرگرمیوں میں حصہ لیتا ہے۔ وہ انسانوں کے دکھ درد میں شریک ہوتا ہے، ان کی مشکلات کو حل کرتا ہے ان کا غم خوارہوتا ہے، ان کی تعلیم و تربیت کرتا ہے اور ان کی تطہیر و تعمیر کی راہ ہموار کرتا ہے ۔ ایک طرف تو رسول کا تعلق اللہ سے گہرا اور مضبوط ہوتا ہے اور دوسری طرف انسانوں سے اس کا رشتہ اٹوٹ اور بے لوث ہوتا ہے۔ منصبِ رسالتؐ کے یہ بنیادی پہلو ہیںاوریہی کارِ پیغمبری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مشرکوں نے یہ سوال اٹھایا کہ ان کی ہدایت کے لیے انسان کے بجاے فرشتے کو رسول بناکر کیوں نہ بھیجا گیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو جواب دیا :
قُلْ لَّوْ کَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰٓئِکَۃٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآئِ مَلَکًا رَّسُوْلًاo (بنی اسرائیل ۱۷:۹۵) کہہ دو کہ اگر زمین میں فرشتے چلتے پھرتے اور بستے ہوتے تب ہم ضرور ان کی ہدایت کے لیے آسمان سے فرشتے نازل کرتے۔
گویا انسانوں کی مشکلات ، نفسیات ، مزاج، ضروریات اور دکھ درد کو زیادہ بہتر طور پر انسانوں کا نمایندہ ہی سمجھ سکتا ہے اور ان کا بہتر مداواکر سکتا ہے ۔ اس لیے فرشتے کے مقابلے میں انسان کو رسول بناکر بھیجنا زیادہ مناسب تھا۔ چنانچہ تمام رسول انسانوں ہی کے درمیان سے اٹھے اور انسانوں کی خیر خواہی کے لیے مامور ہوئے ۔ خاص طور پر آخری رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسانی دکھ درد کو نہ صرف گہرائی سے سمجھتے تھے، بلکہ ان کے دکھ درد کو اپنا سمجھتے اور اُن کے شریک غم رہتے تھے۔ وہ انسانی مشکلات کے حل سے اتنی گہری دل چسپی رکھتے تھے کہ قرآن پاک نے ان کو رحمۃ للعالمینؐ کا خطاب دیا۔ اللہ تعالیٰ نے محمدؐ کا تعارف ان لفظوں میں کرایا ہے :
لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ o (التوبۃ ۹:۱۲۸) بے شک تمھارے پاس ایک رسول تمھارے ہی درمیان سے آیا ہے ، تمھاری تکلیف اس پر گراں گزرتی ہے ، وہ تمھاری بھلائی کا حریص ہے اور مومنوں پر مہربان اور شفیق ہے۔
رسول اکرم ؐ منصب نبوت پر فائز ہونے سے پہلے بھی انسانوں سے محبت اور ان کی خدمت کے لیے مشہور تھے ۔ بارِ نبوت کو اٹھانے میں اس صلاحیت اور خصوصیت نے آپ کو بڑی مدد پہنچائی ، بلکہ یہ کہا جائے کہ قدرت نے کارِ نبوت کو انجام دینے کے لیے آپؐ کا انتخاب کرنے سے پہلے آپؐ کے اندر انسانی خدمت کا جذبہ اور ملکہ کامل طور پر پیدا کردیا تھا۔ چنانچہ پہلی مرتبہ جب آپؐ پر قرآنی آیات نازل ہوئیںتو اس وقت آپؐ غار حرا میں غور و فکر میں تھے۔ فرشتے سے پہلی ملاقات اور پہلی وحی کے نزول کے بعد آپؐ سردی سے کانپتے ہوئے اپنی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایاکہ مجھے چادر اڑھائو، مجھے اپنی جان کا خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ پھر آپؐ نے پورا ماجرہ سنایا۔ یہ سن کر حضرت خدیجہ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا:
ہرگز نہیں اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ کیوں کہ آپ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں، لوگوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں، ناداروں اور محتاجوں کی مدد کرتے ہیں ، مہمان نوازی کرتے ہیں اور مصیبت کے دنوں میں متاثرہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔(بخاری)
یعنی آپ انسانوں کی جتنی بے لوث خدمت کرتے ہیں، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ آپ کو رسوا نہیں کرے گا، بلکہ ان کی سعادت کے لیے آپ کی حفاظت فرمائے گا۔
نبوت کے بعد رسولؐ اللہ پر دوہری ذمہ داری عائد ہوگئی ۔ ایک انسانوں کی خدمت کی اور دوسری ان کی ہدایت اور سعی نجات کی۔ نبوت سے پہلے صرف انسانی خدمت آپ کی پہچان تھی، نبوت کے بعد خدمت اور ہدایت دونوں آپ کی پہچان بن گئیں۔
رسولؐ پاک نے صرف انسانوں کی روحانی مشکلات حل کرنے اور اخلاقی برائیوں کی اصلاح کا بیڑا ہی نہیں اٹھایا، بلکہ انسان کی سماجی اور معاشی مشکلات کو دور کرنے کی بھی سعی کی، اور انسانی معاشرے کے رنج و غم کو سکھ اور مسرت میں تبدیل کرنے کی کامیاب جدوجہد کی۔ انسانی سماج میں طاقت ور اور کمزور ، امیر و غریب ، مختار اور محتاج دونوں طرح کے لوگ رہتے ہیں اور دونوں کے اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ رسولؐ پاک ہرفرد کی اصلاح کرتے ہیں اور دونوں کو کامیابی کی راہ دکھاتے ہیں۔ اگر رسول انسانوں کی روحانی دنیا آباد کرے اور مادی دنیا کو اجڑ جانے دے، اخلاقی حالت کو درست کرے اور سماجی زندگی کو الجھنوں میں مبتلارہنے دے، عبادت پر زور دے اور سماجی حقوق کو نظر انداز کردے تو یہ مذہب ناقص ہوگا اور اس کی انسانوں کو چنداں ضرورت نہ ہوگی۔ چنانچہ رسولؐ پاک نے دونوں ضروریات کی تکمیل کے لیے مذہب کا ایک کامل نمونہ پیش کیا جس نے اپنے دامن میں اللہ کی عبادت اور انسانوں کی خدمت دونوں کو یکساں جگہ دی۔ قرآن نے وضاحت کی:
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَ لٰکِنَّ الْبِرَّمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃِ وَ الْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُوْا وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَo (البقرہ ۲:۱۷۷) نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنا چہرہ مشرق اور مغرب کی طرف کرو ، بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ کوئی ایمان لائے اللہ پر، آخرت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب پر اور نبیوں پر۔ مال دے اس کی محبت پر رشتہ داروں کو، یتیموں کو، مسکینوں کو، مسافروں کو، مانگنے والوں کو، اور گردن چھڑانے میں، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے، اور پورا کرے اپنے عہد و پیمان کو جب کہ عہد کرے۔ مقابلہ، سختی اور تکلیف میں صبر کرے، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی لوگ پرہیزگار ہیں۔
اس آیت میں تفصیل سے نیکی اور دین داری کا تصور بیان کیا گیا ہے۔ اس میں جہاں ایمانیات پر زور ہے، عبادات کی تلقین ہے، اخلاقی اصولوں کا تذکرہ ہے ، وہاں انسانوں کی خدمت، ان کے دکھ درد میںشرکت اور ان کی حاجت روائی کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ یہ مذہب کی روح ہے، اس کا خمیر اور جوہر ہے۔ اگر مذہب سے ایمانیات اور عبادات کو خارج کردیا جائے تو مذہب ثقافت و رواج پر مبنی سماجی تنظیم یا کلچرل انجمن بن کر رہ جائے گا، اور اگر انسانی خدمت کو نظراندازکردیاجائے اور ان کی مشکلات کا مداوا نہ کیا جائے تو مذہب بے جان رسموںکا ڈھانچا بن جائے گا یا مابعد الطبیعات کا پیچیدہ فلسفہ۔
کَلَّا بَلْ لاَ تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ o وَلاَ تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِo وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا o وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا o (الفجر ۸۹: ۱۷-۲۰) ہرگز نہیں ، تم یتیموں کی عزت نہیں کرتے، اورمحتاجوں کو کھانا کھلانے کی ایک دوسرے کو تلقین نہیں کرتے اور مردے کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہواور مال و دولت سے جی بھرکے محبت کرتے ہو۔
یعنی انسانوں کی محبت کی جگہ مشرکوں کے دل میں مال کی محبت نے جڑ پکڑ لی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ نہ وہ خود ناداروں پر مال خرچ کرتے تھے اور نہ دوسروں کو محتاجوں کی خبر گیری کے لیے کہتے تھے، یہ سماج انسانوں پر مبنی توتھا مگر روح انسانیت سے خالی تھا اور شیخ سعدی کے اس حکمت آمیز شعر کا مصداق تھا:
تو گر محبت دیگراں بے غمی
نہ شاید کہ نامت دہندآدمی
(تم اگر دوسروں کی محبت سے بے نیاز ہو تو تم کو آدمی کا نام نہیں دیا جانا چاہیے )۔
رسولؐ پاک نے اس جاہلی معاشرے میں حقیقی خدا پرستی اور سچی انسانی خدمت کی تحریک برپا کی تو مشرکوں نے جہاں اس بات کی مخالفت کی کہ ان گنت دیوتائوں کی جگہ صرف ایک خداے وحدہٗ لاشریک کی پرستش کی جائے وہاں اس بات کی بھی مخالفت کی کہ غریبوں اور ناداروں پر اپنا مال خرچ کیا جائے اور بغیر کسی معاوضے اور صلے کے ان کی خدمت کی جائے۔ وہ مال داری اور ناداری کو مقدرات سمجھتے تھے اور ناداروں کی حالت سدھارنے کی کوشش کو نادانی اور گمراہی سے تعبیر کرتے تھے۔ قرآن پاک میں رسولؐ کریم کی خدمت انسانی کے مطالبے اور جواب میں مشرکین کے غیر انسانی رویے کا ان لفظوں میں تذکرہ کیا گیا ہے :
وَاِِذَا قِیْلَ لَھُمْ اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنُطْعِمُ مَنْ لَّوْ یَشَائُ اللّٰہُ اَطْعَمَہُ اِِنْ اَنْتُمْ اِِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ o (یٰٓس ۳۶:۴۷) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو اللہ نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرو تو کافرمومنوں سے کہتے ہیں: ہم کیوں کھلائیں ایسے لوگوں کو کہ اگراللہ چاہتا تو ان کو خود کھلاتا تم لوگ صریح گمراہی میں مبتلا ہو۔
یہودیوں اور عیسائیوں بالخصوص ان کے مذہبی راہنمائوں کی حالت بھی کچھ اس سے مختلف نہ تھی۔ ان کی اکثریت نے انسانی خدمت کے بجاے مذہب کو انسانوں کے استحصال کا ذریعہ بنالیا تھا۔ ان کی سرمایہ دارانہ اور استحصالی ذہنیت پر تبصرہ کرتے ہوئے قرآن میں کہا گیا ہے :
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَ الرُّھْبَانِ لَیَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَ الْفِضَّۃَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمo (التوبۃ ۹: ۳۴) اے مومنو! بہت سے احبار اور رہبان (یہود و نصاریٰ کے مذہبی پیشوا) لوگوں کے مال غلط طریقے سے کھاتے ہیں،اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔ اور جولوگ جمع کرکے رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، ان کو دردناک عذاب کی خوش خبری سنادو۔
لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھانا اور اللہ کی راہ سے روکنا ، ان مذہبی پیشوائوں کا وہ کارنامہ تھا جو ان کو مشرکوں کی خصوصیات کے مشابہ بنا دیتا تھا۔ اہل کتاب میں بلاشبہہ ایسے لوگ بھی تھے جو راست باز تھے مگر ان کی تعداد بہت کم تھی، اکثریت ان لوگوں کی تھی جن کا رویہ خد اپرستی اور انسان دوستی کے مخالف تھا، حالاـنکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی مذکورہ دونوں باتوں کو مضبوطی سے پکڑنے کا حکم دیا تھااورعہد بھی لیا تھا ۔ ارشاد ہے:
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰہَ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْکُمْ وَ اَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ o (البقرہ ۲:۸۳) اور یادکرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے یہ عہدلیا تھا کہ تم لوگ اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کرنا، اور والدین، رشتہ داروں، اور مسکینوں سے اچھاسلوک کرنا ، لوگوں سے بھلی بات کرنا اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا، مگر تھوڑے آدمیوں کے سوا تم اس عہد سے پھر گئے اور تم ابھی تک برگشتہ ہو۔
بنی اسرائیل میں یہود اور نصاریٰ دونوں شامل ہیں۔ مگر یہ استحصالی ذہنیت خاص طور پر یہود کی تھی جنھوں نے سرمایہ داری ، سود خوری اور ذخیرہ اندوزی کو اپنا شعار بنا لیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی ؑ کوپھر وہی حکم دے کر بھیجا کہ اللہ کی توحید اور انسانوں کی خدمت کی تبلیغ کریں۔ چنانچہ انھوں نے اپنی قوم کو یہ بھولا ہوا سبق یاد دلایا۔ انجیل میں متعدد مقامات پر اس کی تفصیل موجود ہے۔
انجیل میں زرپرستوں اور خدمت گاروں کے انجام کا حال تمثیلی طور پر اس طرح بیان کیا گیا ہے : ’’سب قومیں اس کے سامنے جمع کی جائیں گی اور وہ ایک کو دوسرے سے جدا کرے گا جیسے چرواہا بھیڑوں کو بکریوں سے جدا کرتا ہے اور بھیڑوں کو اپنے دائیں اور بکریوں کو اپنے بائیں کھڑا کرے گا۔ اس وقت بادشاہ اپنے دائیں والوں سے کہے گا: آئو میرے باپ کے مبارک لوگو! جو بادشاہی بناے عالم سے تمھارے لیے تیار کی گئی ہے، اسے میراث میں لے لو، کیونکہ میں بھوکا تھا، تم نے مجھے کھانا کھلایا، میں پیاسا تھا، تم نے مجھے پانی پلایا، میں پردیسی تھا، تم نے مجھے اپنے گھر میں اتارا، میں ننگا تھا، تم نے مجھے کپڑا پہنایا، میں بیمار تھا، تم نے میری خبرگیری کی، میں قید میں تھا، تم میرے پاس آئے۔ تب راست باز جواب میں کہیں گے، اے خداوند! ہم نے کب تجھے بھوکا دیکھ کر کھانا کھلایا ، کپڑا پہنایا۔ ہم کب تجھے بیمار یا قید میں دیکھ کر تیرے پاس آئے؟ بادشاہ جواب میں کہے گا: میں تجھ سے سچ کہتاہوں کہ جب تم نے میرے ان سب سے چھوٹے بھائیوں میں سے کسی کے ساتھ یہ سلوک کیا تو میرے ہی ساتھ کیا۔ پھر وہ بائیں جانب مڑے گا اور کہے گا: اے ملعونو! میرے سامنے سے ہمیشہ کے لیے آگ میں چلے جائوجو ابلیس اور اس کے فرشتوں کے لیے تیار کی گئی ہے ۔ کیونکہ میں بھوکا تھا، تم نے مجھے کھانا نہ کھلایا، پیاسا تھا، تم نے مجھے پانی نہ پلایا اور پردیسی تھا تم نے مجھے گھر میں نہ اتارا ، ننگا تھا، تم نے مجھے کپڑا نہ پہنایا ، بیمار اور قید میں تھا، تم نے میری خبر نہ لی۔(عہدنامہ جدید)
توحید کو عیسائیوں نے تثلیث میں تبدیل کردیا لیکن عیسائیوں کے ایک طبقے نے انسانی خدمت کے اس فریضے کو اپنا شعار بنایا، اور اس روایت کو آگے بڑھایا، بلکہ اس کے ذریعے عیسائیت کی تبلیغ و اشاعت کی، جب کہ یہودتوحید کی دعوت اور انسانی خدمت دونوں سے بے گانہ رہے۔
نبی کریمؐ نے مسلمانوں کوجو تعلیم دی اس کا مرکزی نکتہ یہ تھا: ’’بھوکوں کو کھانا کھلائو، بیماروں کی خبرگیری کرو، اور قیدیوں کو رہا کرائو‘‘۔(بخاری)
حضرت رسالت مآبؐ نے انسانوں کی محبت کو اللہ کی محبت سے تعبیر کیا، مخلوق کی خدمت کو اللہ تک پہنچنے کا راستہ قرار دیا، اور جہنم سے آزادی اور جنت کے حصول کا ذریعہ بتایا۔ مسلمانوں کی اجتماعی اور انفرادی زندگی میںیہ تعلیم ریڑھ کی ہڈی کی طرح اہمیت رکھتی ہے ۔ اگر انسانوں کی خدمت نہ کی جائے تو اللہ کی خوشنودی حاصل نہیں ہوسکتی۔ یہ ایسی گھاٹی ہے جسے پار کیے بغیر رضوانِ الٰہی کی بلندی تک پہنچا نہیں جاسکتا۔ قرآن پاک نے وضاحت کی:
فَلاَ اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ o وَمَآ اَدْرٰکَ مَا الْعَقَبَۃُ o فَکُّ رَقَبَۃٍ o اَوْ اِِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ o یَّـتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ o اَوْ مِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ o ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ o اُوْلٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ o (البلد ۹۰:۱۱-۱۸) اس نے دشوارگزار گھاٹی پار نہ کی، تمھیں کیا معلوم کہ کیا ہے وہ دشوار گزار گھاٹی، کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا، یا فاقہ کے دن کسی رشتہ دار یتیم یا خاک نشیں مسکین کو کھانا کھلانا، پھر ان لوگوں میں شامل ہونا جو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے کو صبر اور انسانوں پر رحم کرنے کی تلقین کی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسولؐ اللہ کی ایک حدیث نقل کی ہے ، آپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انسانوں سے مخاطب ہوگا اور اس طرح جواب طلب کرے گا: ’’اے آدم کی اولاد! میں بیمار تھا مگر تونے میری عیادت نہیں کی، بندہ کہے گا: اے پروردگار! میں کس طرح تیری عیادت کرتا، جب کہ تو رب العالمین ہے، اللہ کہے گا: تجھے معلوم تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے مگر تونے اس کی عیادت نہیں کی، اگر تو اس کی عیادت کے لیے جاتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانامانگا مگر تونے مجھے کھانا نہیں کھلایا، بندہ کہے گا : اے پروردگار! میںتجھے کھانا کس طرح کھلاتا جبکہ تو رب العالمین ہے۔ اللہ کہے گا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا مگر تو نے کھانا نہیں کھلایا۔ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو یہ کھانا میرے پاس پاتا۔ اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے پانی مانگا مگر تونے مجھے پانی نہیں پلایا۔ بندہ کہے گا کہ اے پروردگار! میں تجھے پانی کس طرح پلاتا جب کہ تو رب العالمین ہے اللہ کہے گا کہ میرے فلاں بندے نے پانی مانگا مگر تونے اسے پانی نہیں پلایا، اگر تو اسے پانی پلاتا تواسے میرے پاس پاتا‘‘۔(مسلم)
یہ حدیث حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مذکورہ تمثیلی تعلیم خدمتِ خلق سے ملتی جلتی ہے۔ اس سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسٰی ؑ اور حضرت محمدؐ کی انسانی خدمت کی تعلیم ایک ہی بحررحمت کی دو موجیں ہیں جو زمان ومکان کے فاصلہ سے ابھری ہیں، وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی مصیبت اور ضرورت کو نظر انداز کرکے کوئی شخص اللہ کی رضا حاصل نہیں کرسکتااور نہ روحانیت کا علَم بردار ہوسکتا ہے۔ روحانیت اور خدمت یک جان دو قالب ہیں ۔ ان کو جدا کرکے مذہب کی نمایندگی نہیں کی جاسکتی ۔ اسی لیے قرآن میں جہاں جہاں صلوٰۃ کا حکم ہے، وہاں زکوٰۃ کا بھی حکم ملتا ہے ۔ جہاں اللہ کی بندگی کامطالبہ ہے، وہاں انسانوں کی راحت رسانی کا بھی تقاضا ہے۔
مشرکانہ اور عیسائی عقیدے کے برخلاف اسلامی عقیدے میں خدا مجرد ہے، اس کا کوئی خاندان نہیں اور ازواج و اولاد نہیں۔ مگر رسولؐ اللہ نے پوری انسانیت کو اللہ کے کنبے سے تعبیر کیا ہے، جناب رسول کریمؐ نے فرمایا:
مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔ مخلوق میں سب سے زیادہ اللہ کو محبوب وہ بندہ ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ حُسنِ سلوک کرے۔ (مشکوٰۃ)
یعنی انسانوں سے محبت اور ان کی خدمت کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا اظہار بندوں کی خدمت کی شکل میں ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں اللہ کے محبوب بندوں کی علامت یہ بیان کی گئی ہے:
وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا o اِِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لاَ نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلاَ شُکُوْرًا o اِِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا o (الدھر ۷۶:۸-۱۰) وہ کھانا کھلاتے ہیں اللہ کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو، (ان کا کہنا ہے کہ) ہم تم کو اللہ کی رضا کے لیے کھانا کھلاتے ہیں۔ ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکر گزاری ، ہم تو اپنے رب سے اداسی والے دن کی سختی سے ڈرتے ہیں
رسولؐ اللہ نے فرمایا : میں اور یتیم کی کفالت کرنے والے جنت میں اس طرح ہوںگے جیسے یہ دونوں انگلیاں۔(بخاری)
یہ تعلیم انسانی خدمت کے محرک اور مقصد کو واضح کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ اللہ کی محبت کا راستہ بندوں کی خدمت سے گزرتا ہے۔ جو اس منزل تک پہنچنا چاہتا ہے، اسے یہ راستہ اختیار کرنا ہوگا، ورنہ وہ منزل سے دور ہوجائے گا۔ اسی وجہ سے نبی کریمؐ نے اللہ کی رضا کے لیے جان و مال قربان کرنے والوں کے مساوی درجہ انسانی خدمت گزاروں کا بیان فرمایا ہے ۔
اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُنِ o (الحج ۲۲:۳۹) اجازت دی گئی ان لوگوں کو جنگ کی جن سے کفار لڑتے ہیں کیونکہ ان (مسلمانوں) پر ظلم ڈھایا گیا اور اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے ۔
وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَاوَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا o (النسائ۴:۷۵) اور تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان کمزور اور مغلوب مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو فریاد کرتے ہیں کہ ہمارے رب ہمیں اس آبادی سے نکال یہاں کے لوگ ظالم ہیںاور اپنے پاس سے ہمارا کوئی حمایتی بنا دے اور ہمارے لیے اپنی طرف سے مددگار بھیج دے۔
جہاد کا مذکورہ مقصد انسانیت کی حفاظت ہے ، اس لیے اس پر بڑا اجر مقرر کیاگیا ہے ۔ کمزوروں اور ناداروں کی خدمت بھی اسی مقصد کی تکمیل کرتی ہے بلکہ نسبتاً مثبت اوراحسن طریقے سے کرتی ہے۔ اس لیے رسولؐ پاک نے انسانی خدمت انجام دینے والوں کو بھی مجاہد ہی کی طرح اہمیت دی ہے اور ان کو اجر و ثواب کا مستحق قرار دیا ہے :
بیوائوں اور مسکین کی خدمت کرنے والامجاہد فی سبیل اللہ کے مانند ہے، راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ وہ اس نمازی کی طرح ہے جو مسلسل نماز پڑھتا ہے اور اس روزہ دار کی طرح ہے جو افطار نہیں کرتا۔(بخاری و مسلم)
رسول کریمؐ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے سے جہاں انسانی خدمت کے میدان و اطراف کا پتا چلتا ہے، وہاں انسانی خدمت میں کار فرما عوامل اور عناصر ترکیبی کا بھی ادراک ہوتا ہے۔ اگر ان عناصر کو پیش نظر نہ رکھا جائے تو انسانی خدمت کا عمل بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے ۔ وہ عناصر ہیں اکرام ، انصاف اور ایثار۔
وَ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰھُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰھُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰھُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۷۰) اور ہم نے آدم کی اولاد کو محترم بنایا ہے اور خشکی اور دریا میں سواری عطا کی ہے اور ہم نے اس کوپاکیزہ رزق عطا کیا ہے اور جن مخلوقات کو ہم نے پیدا کیا ہے، ان میں سے بیش تر پر اسے فضیلت بخشی ہے۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ o (التین ۹۵:۴) بے شک ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیداکیا ہے۔
یہ اکرام و احترام انسانو ں کے کسی مخصوص طبقے کو نہیںبخشا گیا، بلکہ پورے بنی نوع انسان کو عطاکیا گیا ہے ۔اس لیے خدمت انجام دینے والے فرد اور گروہ کو انسانی خدمت سے پہلے انسانوںکی عزت و احترام کا جذبہ اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے۔ بہت سے لوگ محتاجوں کی مددتو کرتے ہیں مگر ان کو حقیر سمجھتے ہیں۔ مال دیتے ہیں مگر دل میں جگہ نہیں دیتے۔
قرآن نے مشرکوں کو اسی انسانی احترام کی تعلیم دیتے ہوئے کہا تھا کہ’’ تم لوگ یتیموں کا احترام نہیں کرتے‘‘۔ یتیم، سماج کی سب سے قابل رحم یونٹ ہے۔ اگر اس کا احترام تمھارے اندر نہیں ہے تو سمجھ لو کہ انسانی خدمت کا جذبہ بھی نہیںہے۔ علامہ اقبال نے اسی روح کو شعری پیکر میں اس طرح ڈھالاہے:
آدمیت احترام آدمی
باخبر شو از مقام آدمی
(آدمی کے مقام و مرتبہ سے باخبر ہوجائو کہ آدمیت آدمی کے احترام کا نام ہے )۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ خیرات کرتے ہیں ، کارخیر میں حصہ لیتے ہیں، ان میں احساس برتری پیدا ہوجاتا ہے ۔ وہ خود کو مختاراور لینے والے کو محتاج سمجھتے ہیں۔ مختار و محتاج کی یہ نفسیات اکرام کا جذبہ باقی نہیں رہنے دیتی۔ اس لیے نبیؐ نے یہ تعلیم دی کہ تم سب دراصل محتاج ہو اور مختار صرف اللہ ذوالجلال ہے۔ اس لیے اپنی احتیاج آپس کے تعاون سے دور کرو۔ قرآن میں فرمایا گیا:
وَاللّٰہُ الْغَنِیُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَآئُ (محمد ۴۷:۳۸) اللہ غنی ہے اور تم سب محتاج ہو۔
رسول کریمؐ نے مسلمانوں کو یہ تاکید بھی فرمائی کہ صدقہ، زکوٰۃ اور خیرات خاموشی سے محتاجوں کو دیا جائے ، اس کی تشہیر نہ کی جائے، بلکہ اس حد تک اخفا کیا جائے کہ بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔ اس حکم کی روح بھی دراصل یہ ہے کہ صدقہ قبول کرنے والوں کی عزت نفس محفوظ رہے اور ان کی غیرت کو ٹھیس نہ لگے ۔ یہ انسانی اکرام و احترام کا انتہائی اعلیٰ مرتبہ ہے اور خدمت خلق کی روح ہے۔
وَالَّذِیْنَ فِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ o لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ o (المعارج ۷۰: ۲۴- ۲۵) ان کے مالوں میں مقررہ حق ہے، سائل اور محروم کا۔
تم کوجو رزق دیاجاتا ہے اور اللہ کی طرف سے تمھاری جو مدد کی جاتی ہے، وہ تمھارے کمزور طبقات کی بدولت ہے۔(بخاری و ترمذی)
یعنی دولت تمھارا استحقاق نہیں، بلکہ اللہ کا عطا کردہ عطیہ اور امانت ہے۔ کوئی انسان اگر غریب اور محتاج ہے تو یہ اس کا دائمی مقدر نہیں، اسی طرح اگر کوئی انسان مال دار اور مختار ہے تو یہ اس کا پیدایشی حق نہیں۔ رسول پاکؐ نے محتاجوں سے یہ نہیں فرمایا کہ تم مال داروں کے پاس جائو اور ان سے اپنا حق مانگو، بلکہ مال داروں پر یہ ذمہ داری عائد کی کہ وہ ناداروں کو ان کا حق پہنچائیں:
فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَ الْمِسْکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ ذٰلِکَ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (الروم ۳۰:۳۸) قرابت داروں، مسکینوں اور مسافر کو اس کاحق ادا کرو، یہ بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہیں۔
نادار اگر مال داروں کی خدمت قبول کرتے ہیں تومال داروں کو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے اپنا حق قبول کیا اور مال داروں کا فریضہ ادا ہوا۔ مسجد نبوی میں رمضان المبارک میں اہل خیرحضرات مسلمانوں کو روزہ افطار کی دعوت دیتے ہیں، ان کو اپنے دسترخوان پر لے جاتے ہیں اور ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں، یہ بھی سیرتِ نبویؐ کا فیضان ہے ۔
وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (الحشر ۵۹:۹) وہ دوسروں کواپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود فاقہ سے ہوں، اور جو اپنے نفس کے بخل سے بچا لیا گیا سمجھو کہ وہی کامیاب ہیں۔
رسول کریمؐ کی پوری زندگی خدمت خلق کے اسی اعلیٰ مرتبے کی نمایندگی کرتی ہے۔ یہاں تک کہ آپ کے صحابہ کرام میں یہی روح جاری و ساری نظر آتی ہے۔ بعدکی صدیوں میں بھی ہم اس کا اثرمسلم سماج میں محسوس کرتے ہیں۔
حضرت سہل بن سعد روایت کرتے ہیں کہ ایک خاتون رسولؐ اللہ کے لیے ایک چادر بُن کر لائیں اورکہنے لگیں کہ یہ چادر میں اپنے ہاتھ سے تیار کرکے آپ کے لیے لائی ہوں۔ رسولؐ اللہ نے اس چادر کو قبول فرمالیا اور اس وقت آپؐ کو اس کی ضرورت تھی۔ آپؐ نے اسے اپنا تہبند بنالیا اور ہمارے درمیان تشریف لائے تو ایک شخص نے کہا: کیا خوب چادر ہے مجھے عنایت کردیجیے۔ نبیؐ نے منظور کرلیا۔ تھوڑی دیر آپؐ مجلس میں تشریف فرما رہے پھر واپس ہوئے تو چادر لپیٹ کر اس شخص کو بھجوادیا۔ لوگوں نے اس شخص سے کہا: تو نے اچھا نہیںکیا۔ نبیؐ کو اس کی ضرورت تھی اس لیے اسے پہنے ہوئے تھے۔ تم نے یہ جان کر کہ نبیؐ مانگنے والے کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے، وہ چادر بھی مانگ لی۔ اس شخص نے کہا : اللہ کی قسم! میں نے پہننے کے لیے یہ چادرنہیں مانگی ،بلکہ اسے اپنا کفن بنانے کے لیے مانگی ہے۔ (بخاری)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص جناب رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: میں پریشان حال اوربھوکا ہوں۔ یہ سن کر جناب رسالت مآبؐ نے بعض ازواجِ مطہرات کو اطلاع دی کہ اگر کچھ کھانے کو موجود ہو تو بھیجیں۔ جواب ملا کہ گھر میں پانی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ آپؐ نے یکے بعد دیگرے تمام ازواجِ مطہراتؓ کے یہاں معلوم کیا مگر ہر جگہ سے یہی جواب ملا تو آپؐ نے اپنے صحابہؓ سے فرمایا: کوئی ہے جو آج رات اسے اپنا مہمان بنالے؟ ایک انصاری نے کہاکہ میں اسے ساتھ لے جاتا ہوں۔ وہ صحابی اس مہمان کو ساتھ لے کر گھر آئے اور اہلیہ سے کہا کہ کچھ ہے جس سے رسول پاکؐ کے مہمان کی ضیافت کروں۔ اہلیہ نے جواب دیاکہ بچوں کا کھانا ہے، شوہر نے کہا کہ ان کو کسی طرح بہلا کر سلا دینا، اور جب مہمان کھانے بیٹھیں تو چراغ بجھا دینا اور یہ تاثر دینا کے ہم ان کے ساتھ کھارہے ہیں، چنانچہ پروگرام کے مطابق سب کھانے بیٹھے، مہمان نے کھانا کھالیا اور ان دونوں نے بھوکے رہ کر رات گزاری۔ جب صبح رسولؐ اللہ کے پاس گئے تو آپؐ نے فرمایا : ’’ تم دونوں میاں بیوی نے رات جومہمان نوازی کی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کو بھاگئی‘‘۔(بخاری)
ایثار کی یہ روشن مثال شاید سیرت رسولؐہی کے دامن میں مل سکے گی، دنیا کے دوسرے خدمت گاروں کے یہاں اس طرح کی مثالیں مشکل سے مل سکیں گی۔ انسانی خدمت کی یہ اعلیٰ مثال ہے جو ہر عہد اور ہر قوم کے لیے قابل تقلید ہے۔ خدمت خلق کا حقیقی اور کامل تصور اسی وقت ابھرتا ہے، جب کہ اس میں مذکورہ تینوں عناصر موجود ہوں۔
رسول پاکؐ نے انسانی خدمت کے معروف طریقوں میں دو اہم اور نادر اضافے فرمائے۔ ایک تو انسانی خدمت کو بعد از مرگ باقی رکھنا اور دوسرے خدمت کو ادارتی شکل دینا۔ تسلسل کا مطلب یہ ہے کہ وقتی طور پر انسانی خدمت کرنے کے ساتھ کوئی ایسا کام کیا جائے جس سے خدمت کا سلسلہ مرنے کے بعد بھی جاری رہے، اس کے لیے جناب رسالت مآب نے صدقہ جاریہ کا تصور دیا، آپ نے فرمایا:
جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے اعمالِ خیر کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے سواے تین اعمال کے، ایسا صدقہ جس کا فیض جاری رہے، ایسا علم جس سے استفادہ باقی رہے، صالح اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے۔(مسلم)
صدقہ جاریہ میں عام طور پر اجتماعی اور سماجی استفادے کی چیزیں شامل ہیں، مثلاً نل لگوانا، کنواں کھدوانا، تالاب بنوانا، سراے بنوانا، سڑکیں اور پل بنوانا، مسافر خانہ تعمیر کرنا وغیرہ ۔ قابلِ استفادہ علم میں درس گاہ کھولنا، لائبریری بنانا، کتابیں لکھنا یا شائع کرنا، اسکالر شپ وغیرہ کا انتظام کرنا شامل ہے۔ یہ ایسی خدمت ہے کہ اگر انسان مرجائے تب بھی اس کا فیض جاری رہتا ہے اور وہ اپنی فیض رسانی کے حوالے سے زندہ رہتا ہے۔ ہر باشعور انسان چاہتا ہے کہ مرنے کے بعد اس کانام باقی رہے۔ رسول پاکؐ نے انسان کی اس آرزو کو انسانی خدمت سے وابستہ کرکے ایک تعمیری جہت عطا کی ہے ۔
رسول پاکؐ نے انسانی خدمت کو ادارتی شکل دینے کے لیے وقف کا تصور دیا۔ وقف کا مطلب یہ ہے کہ اصل جایداد باقی رہے اور اس کی آمدنی سے خدمت رسانی کے کام ہوتے رہیں۔ مثلاً مکان، دُکان، فیکٹری، زمین ، باغ وغیرہ وقف کیا جائے تو یہ جایداد نہ تو ہبہ ہوگی اور نہ بیچی جاسکے گی، بلکہ اس کے منافع اور آمدنی سے وہ خدمت انجام پاتی رہے گی جس کے لیے وہ جایداد وقف کی گئی ہے ۔ انسانی خدمت کی تاریخ میں یہ ایک نیا تصور تھا جو جناب رسالت مآب نے انسانی دنیا کو عطا کیا ۔ اس کی تقلید دوسرے مذاہب اور تہذیبوں نے بھی کی۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد حضرت عمرؓ کو خیبر میں ایک زمین ملی تو انھوں نے رسولؐ اللہ سے عرض کیا کہ مجھے خیبر میں ایک مال ملا ہے جس سے بہتر مال مجھے کبھی نہیں ملا، آپؐ اس کے بارے میں مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا:
اگر تم چاہو تو اس کی اصل کو باقی رکھو اور پیدا وار کو صدقہ کردو ۔ حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو صدقہ کردیا، اس شرط کے ساتھ کہ نہ وہ فروخت کی جائے گی ،نہ ہبہ کی جائے گی اور نہ اس میں وراثت جاری ہوگی، اور اس کی منفعت فقیروں، رشتہ داروں، غلاموں کی آزادی، مہمانوں اور مسافروں کے لیے وقف ہوگی اور اس کے متولی کے لیے اس سے معروف کے مطابق اجرت لینا جائز ہوگا۔ (بخاری)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ جب مدینہ تشریف لائے تو رومہ نامی کنویں کے علاوہ میٹھے پانی کا دوسرا کنواں نہ تھا۔ آپؐ نے فرمایا کون ہے جو رومہ کنویں کو خرید کر اپنے ڈول کے ساتھ مسلمانوں کے ڈول کو بھی شریک کرے گا اور اس کے صلے میں اسے جنت کی بھلائی حاصل ہوگی؟ تو میں نے اپنے اصل مال سے اسے خرید لیا اور اس میں خود بھی ڈول ڈال کر پانی نکالتا تھا اور سارے مسلمان بھی ڈول ڈال کر پانی نکالتے تھے۔ (ترمذی)
وقف کے مزید واقعات نبی ؐ کی حیاتِ مبارکہ میں ملتے ہیں ۔ حاصل یہ ہے کہ جناب نبیؐ نے وقف کا تصور دے کر مسلم سماج کو ایک تعمیری اور فلاحی سماج میں تبدیل کردیا اور حق یہ ہے کہ آج بے شمار تعلیمی ، مذہبی ، سماجی اور رفاہی ادارے وقف کی جایداد کی آمدنی سے چل رہے ہیں اور اس نے خدمتِ خلق کے میدان میں انتہائی اہم اور مؤثر رول ادا کیا ہے ، اور اس کا سلسلہ ان شاء اللہ قیامت تک جاری رہے گا۔
رسول کریمؐ کی انسانی خدمت کی تعلیمات اوراسوۂ حسنہ نے مسلم معاشرے میں جہاں انفرادی طور پر زکوٰۃ و صدقات اور انفاق کاجذبہ پیدا کیا، وہاں اجتماعی کفالت کے اداروں کی تنظیم اور تشکیل کی تحریک فراہم کی۔ اوقاف اس کی نمایاں مثال ہے۔ اوقاف کے علاوہ انسانی خدمت کے دیگر اداروں میں یتیم خانوں کا قیام سنت نبوی کی اہم عملی تعبیر ہے۔ اسلام سے پہلے بھی یتیم تھے اور انفرادی طور پر ان کی دیکھ بھال ہوتی ہوگی ، مگر یتیموں کی نگہداشت اور ان کی تعلیم و تربیت کے لیے اداروں کا تصور نہ تھا ، نبی کریمؐ نے یتیموں کی نگہداشت کی جو مسلسل تلقین فرمائی اور اسے انسانیت اور اسلام کا اہم فریضہ بتایا، اس کے سبب سے مسلم حکومتوں نے یتیم خانوں کے قیام پر پوری توجہ دی اور غیر حکومتی سطح پر بھی اہلِ خیر مسلمانوں نے بڑے بڑے یتیم خانے بنوائے۔
علامہ سید سلمان ندوی کے بقول : ’’آج دنیا کے شہر شہر میں یتیم خانے قائم ہیں مگر اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا محمدؐ سے پہلے بھی یہ بدقسمت گروہ اس نعمت سے آشنا تھا تو تاریخ کی زبان سے جواب نفی میں ملے گا، اسلام پہلا مذہب ہے جس نے اس مظلوم فرقے کی دادر سی کی ، عرب پہلی سرزمین ہے جہاں کسی یتیم خانے کی بنیاد پڑی، اور اس کی حکومت دنیا کی پہلی حکومت ہے جس نے اس ذمہ داری کو محسوس کیا ، اور عرب ، مصر، شام، عراق، ہندستان جہاں جہاں مسلمانوں نے اپنی حکومتوں کی بنیادیں ڈالیں ساتھ ساتھ ان مظلوموں کے لیے بھی امن و راحت کے گھر بنائے، ان کے لیے وظیفے مقرر کیے، مکتب قائم کیے، جایدادیں وقف کیں‘‘۔ (سیرت النبیؐ، ج ۶)
موجودہ عہد میں انسانی خدمت کے لیے کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں سوشل ورک کے شعبے قائم کیے گئے ہیں۔ جہاں سماجی خدمت کا کورس پڑھایا جاتا ہے ، اور سوشل ورکر کی ٹریننگ ہوتی ہے۔ مگر دیکھا یہ جارہا ہے کہ سوشل ورک کی تعلیم لوگوں میں مالی منفعت کے حصول کا جذبہ اسی طرح پیداکررہی ہے جس طرح دیگر عصری تعلیم کا نتیجہ سامنے آرہا ہے۔ سوشل ورک کی ڈگری لے کر طلبہ خدمت سے زیادہ ملازمت کو پیشِ نظر رکھتے ہیں۔ چنانچہ اگر مقررہ وقت کے علاوہ بھی ان کو کام کرنا پڑے تو اس اضافی ڈیوٹی کے معاوضے کے طلب گار ہوتے ہیں۔ فرصت کے دنوں میں انسانی خدمت کی انجام دہی سے کتراتے ہیں۔ رسول پاکؐنے انسانی خدمت کی جو تعلیم دی ہے، وہ مقصد زندگی کا حصہ ہے۔ اس کے لیے وقت اور عمر کی قید نہیں بلکہ اس کا ر خیر کو کرتے کرتے مرنا ہے اور مرتے مرتے کرنا ہے اور اللہ سے قبولیت کی دعا کرتے رہنا ہے ۔ یہ خدمت ملازمت سے دور اور مالی منفعت سے بلند ہے۔
اس عہد کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ عالمی ، ملکی اور مقامی سطح پر سیاسی جماعتوں کی طرح سماجی خدمت کی تنظیمیں بھی وجود میں آئی ہیں۔ ان میں بعض تنظیمیں مخصوص میدان میں کام کرتی ہیں، مثلاً بعض بیماروں کی خدمت کے لیے ، بعض آسمانی اور حادثاتی مصائب میں راحت رسانی کے لیے، بعض معذوروں کی مدد کے لیے اور بعض یتیموں کی پرورش کے لیے ، جب کہ بہت سی تنظیمیں عمومی انسانی خدمت کے لیے ہیں۔ عیسائی تنظیمیں خاص طور پر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پیش پیش ہیں ، اور ان کی پشت پناہی امریکا اور یورپ کی حکومتیں کرتی ہیں۔
مسلمانوں نے بھی انسانی خدمت کے لیے بہت سی تنظیمیں ملکی اور بین الاقوامی سطح پرقائم کی ہیں ، ان تنظیموں کا فیض آفت زدہ، پریشان حال لوگوں تک پہنچتا ہے۔ مسلمانوں کی انسانی خدمت کی پیش رفت کو روکنے کے لیے امریکا اور یورپی ممالک نے ان رفاہی تنظیموں کی آمدنی اور امداد پر روک لگانی شروع کردی ہے۔ جواز یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ان کی امداد دنیا میں دہشت گردی کو بڑھاوا دے رہی ہے، مگر یہ ایک فرضی عذر ہے، اصل محرک یہ ہے کہ مسلمانوں کی تنظیمیں اگر انسانی خدمت کے کاموں کو اسی اخلاص اور ایثار سے انجام دیتی رہیں گی ، تو عیسائی مشنریز کا کام مشکل ہوجائے گا اور اسلام کی پیش رفت جاری رہے گی۔ چنانچہ بہت سے رفاہی ادارے آج امریکا کے قہر کا شکار ہوچکے ہیں۔
پاکستان میں سماجی خدمت کی دو تنظیمیں الرشید ٹرسٹ اور الاختر ٹرسٹ کے دفاتر میں چھاپے مارے گئے اور انھیں بند کردیا گیا۔ سعودی عرب اور کویت کے متعدد رفاہی اداروں اور تنظیموں نے تعلیمی، رفاہی اور راحت رسانی کے لیے امدادبند کردی۔ بھارت میں ہندو اور عیسائی تنظیمیں بیرونی ممالک سے بڑی رقمیں وصول کرتی ہیں اور مسلمانوں کے لیے راستے اگر بند نہیں تو تنگ ضرورہیں۔ ان حالات میں بڑی حکمت اور بصیرت سے انسانی خدمت کے مشن کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ چراغ مصطفوی آندھیوں کی زد میں ہے ، اس کی حفاظت کے لیے مسلمانوں کو ازسرنو سوچنا ہوگا اور راہ عمل متعین کرنی ہوگی۔ انسانی خدمت اور راحت رسانی کا کام چھوڑا نہیں جاسکتا کیونکہ یہ اللہ کی رضا کے حصول کا معتبر ذریعہ ہے، البتہ اس کی حکمت عملی بدلتے ہوئے حالات کو سامنے رکھ کر طے کی جانی چاہیے ۔