بسم اللہ الرحمن الرحیم
مشہور مقولہ ہے کہ آپ کچھ لوگوں کو بہت دیر تک اور سب لوگوں کو کچھ دیر کے لیے بے وقوف تو ضرور بنا سکتے ہیں مگر تمام لوگوں کو ہمیشہ کے لیے بے وقوف نہیں بنا سکتے___ جھوٹ اور فریب کا پردہ چاک ہوکر رہتا ہے۔ یہ ایک دن بلبلے کی طرح پھٹ جاتا ہے اور اندر کی حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔
نائن الیون کے معاً بعد سے دہشت گردی کے نام پر پوری دنیا میں دہشت گردی کا بازار گرم ہے۔ اس کے نتیجے میں دنیا جدید تاریخ کی طویل ترین عالمی جنگ کی آماج گاہ بن گئی ہے۔ عراق جہنم زار ہے، پوری دنیا میں عدم تحفظ اور خوف و ہراس کے بادل چھائے ہوئے ہیں، اور اس سے بڑھ کر، اس کا اختتام دُور دُور نظر نہیں آرہا ہے۔
افغانستان امریکا اور ناٹو کی جدید عسکری ٹکنالوجی سے لیس ۶۰ ہزار افواج کی جولانیوں کا میدان بنا ہوا ہے۔ اس نام نہاد مقصد کا حصول، یعنی بن لادن اور القاعدہ کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کرنا، جس کے لیے اکتوبر ۲۰۰۱ء میں فوج کشی کی گئی تھی وہ ایک قصۂ پارینہ اور زیبِ داستان کے لیے گھڑے ہوئے افسانے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ طالبان، جن کا کوئی کردار نائن الیون کے واقعے میں آج تک ثابت نہیں کیا جاسکا ہے، بظاہر جنگ کا عنوان بن گئے ہیں، جب کہ اصل مقصد افغانستان پر مسلسل قبضہ ہے جسے تبدیلیِ قیادت کے نام پر افغانستان پر ایک کٹھ پتلی حکومت مسلط کرکے اور جمہوریت کے قیام اور معاشی ترقی کے ایک نئے دور کی نوید سناکر حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ رہا معاملہ زمینی حقائق کا، تو جس معاشی اور تعلیمی ترقی اور جدیدیت کے انقلاب کا چرچا تھا اس کا کہیں وجود نہیں۔
امریکا اور ناٹو کے کرتا دھرتا اب اصل بات اس پر کر رہے ہیں کہ عراق سے تو واپسی کا سوچا جاسکتا ہے لیکن افغانستان سے نہیں۔ ستم یہ ہے کہ امریکا ہی نہیں، ناٹو اقوام جن کا اتحاد نارتھ اٹلانٹک کے دفاع کے لیے مخصوص تھا، وہ اب نارتھ اٹلانٹک سے ہزاروں میل دُور اپنے لیے نیا میدانِ جنگ متعین کرنے میں مصروف ہیں اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اب ناٹو کے مستقبل کا انحصار افغانستان میں اس کے مشن کی کامیابی پر ہے، حالانکہ امریکا کے سوا تمام ہی اتحادی ممالک کی افواج کا عمل گواہ ہے کہ وہ اُوپر سے جتنی چاہے بم باری کر رہے ہوں، زمین پر جنگ اور مقابلے کے لیے تیار نہیں۔ ان میں سے کچھ اپنی فوجیں واپس بلاچکے ہیں اور کچھ کے وزراے خارجہ علانیہ طور پر کہہ چکے ہیں کہ اگر ہمارے چند درجن مزید سپاہی افغانستان میں مارے جاتے ہیں تو ہمارے عوام افواج کی واپسی کا مطالبہ کردیں گے۔
اس سب کے باوجود امریکا اپنی فوجوں کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے اور دوسروں پر اضافے کے لیے دبائو ڈال رہا ہے۔ اس وقت ۷ ہزار مزید کمک کا منصوبہ ہے۔ امریکا کے تمام ہی صدارتی امیدوار عراق سے تو فوجوں کی واپسی کی بات کرتے ہیں مگر افغانستان میں اضافے ہی کا راگ الاپ رہے ہیں، اور ایران اور پاکستان دونوں پر مختلف انداز میں دبائو بڑھانے اور ایک (ایران) پر حملہ کرکے اس کی قوت پر ضرب لگانے اور دوسرے (پاکستان) کا ہاتھ مروڑ کر اس کی فوجوں کو اپنے ہی عوام کے خلاف خون آشام کارروائیوں میں مصروف رکھنے اور علاقے میں مذاکرات، امن اور سلامتی، استحکام اور ترقی کے ہر منصوبے کو درہم برہم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ بلکہ گذشتہ تین مہینوں سے بار بار ایک نئے خطرے کا ڈھونگ پیٹا جا رہا ہے کہ اگلا نائن الیون جیساحملہ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے متوقع ہے۔ نیگرو پونٹے سے لے کر خود بش بہادر تک یہ شور مچا رہے ہیں اور پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو بلیک میل کرکے اور گاجر اور چھڑی (carrot and stick) کی روایتی پالیسی کا استعمال کرتے ہوئے اسے جنگ کی دلدل میں مزید دھکیلنے اور امن و استحکام کے حصول کی ہرکوشش کو ناکام بنانے میں مصروف ہیں۔ یہ خاص طور پر اس لیے ہورہا ہے کہ پاکستانی عوام جن کی نگاہ میں پہلے دن سے امریکا کی افغانستان کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت، حصہ داری اور کردار پاکستان اور اُمت ِمسلمہ کے مفادات کے خلاف اور صرف امریکا کے ایجنڈے کی تکمیل کا ذریعہ تھے اور پرویز مشرف کی اس پالیسی کے خلاف تھے، اور فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے موقع پر انھوں نے پرویز مشرف کی اس امریکی جنگ میں شرکت کو یکسر رد کردیا اور اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ تسلسل نہیں، تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ امریکا کا موجودہ دبائو دراصل عوام کے اس مینڈیٹ کی نفی کرنے اور پرویز مشرف کی خون آشام اور عوام دشمن پالیسیوں کو جاری رکھنے کے لیے دبائو بڑھانے اور نئی حکومت کو اسی طرح خوف زدہ کرنے کی مہم کا حصہ ہے جس طرح نائن الیون کے بعد پرویز مشرف اور ان کے اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ کو ڈرا دھمکا کر امریکا کا آلۂ کار بنانے کا کارنامہ انجام دیا تھا۔
آج پھر ملک اور اس کی قیادت ایک ویسے ہی امتحان اور انتخاب سے دوچار ہے۔ اس لیے ضروری ہے صدر بش اور امریکا کی اس جنگ کے اصل مقاصد کا صحیح ادراک پیدا کیا جائے، سات سال میں پرویز مشرف کی امریکا کی محکومی میںاختیار کی جانے والی پالیسی کے نتائج کا پوری علمی دیانت کے اور سیاسی حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے۔ عوام کے جذبات، احساسات اور مطالبات کا بھی احترام کیا جائے اور اچھی طرح سمجھا جائے کہ فردِواحد کی بنائی جانے والی پالیسی کے مقابلے میں عوام کی منتخب سیاسی قیادت کو اپنی پالیسی کس طرح اور کن مقاصد کے لیے مرتب اور نافذ کرنی چاہیے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ایک بنیادی بات کی وضاحت ضروری ہے۔ عوام نے ۱۸ فروری کو بڑا واضح مینڈیٹ دیا ہے اور اس میں پانچ چیزیں بہت واضح ہیں:
۱- پرویز مشرف کا دور حکومت تاریک اور ناکام دور تھا اور قوم ان سے اور ان کی مسلط کردہ پالیسیوں سے نجات چاہتی ہے، ان کا تسلسل نہیں۔
۲- عدلیہ پر پرویز مشرف کا حملہ اور اعلیٰ ججوں کی برطرفی ایک قومی جرم اور دستور اور اس کے تحت قائم ہونے والے ادارتی نظام کو درہم برہم کرنے اور ایک تابع مہمل عدلیہ ملک پر مسلط کرنے کی باغیانہ کوشش تھی۔ نئی حکومت کی پہلی ذمہ داری تھی اور یہ ذمہ داری ابھی ختم نہیں ہوئی کہ ججوں کو بحال کرے اور عدلیہ کی آزادی اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے۔
۳- ملکی سیاست میں فوج کا کردار ختم ہونا چاہیے۔ فوج کا کام ملک کا دفاع اور دستور کے تحت سول حکومت کے احکام کی پاس داری کرنا ہے۔ ملک کی قسمت کے فیصلے اور پالیسی سازی دستور، قانون اور ضابطوں کے مطابق عوام کے منتخب نمایندے کریں۔ پارلیمنٹ کو بالادستی حاصل ہو اور قیادت عوام کی مرضی کے مطابق جمہوری عمل کے ذریعے حکومت کی ذمہ داری ادا کرے، کھلے انداز میں کرے، اور ان کے سامنے جواب دہ ہو۔
۴- پاکستان کے معاملات میں امریکا کا کردار جو شکل اختیار کرگیا ہے وہ قومی حاکمیت، عزت و وقار اور مفادات کے خلاف ہے۔ اس سلسلے میں سب سے تباہ کن چیز امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت اور کردار اور اس کے نتیجے میں ملک اور پورے علاقے میں جو خون ریزی ہورہی ہے اور دہشت گردی کو جو فروغ حاصل ہوا ہے وہ ناقابلِ برداشت ہے۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان، سوات، پاکستانی قانون کے زیرعمل داری (settled) علاقوں، حتیٰ کہ اسلام آباد اور لاہور میں جو حالات رونما ہوئے اور لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں ظلم اور سرکاری دہشت گردی کا جو خونیں ڈراما رچایا گیا ہے، وہ عوام کے غیظ و غضب کا سبب بنا ہے۔ نئی حکومت کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ اس جنگ میں پاکستان کی شرکت پر بنیادی نظرثانی کرے اور علاقے میں امن و سلامتی کے لیے نئی حکمت عملی پر عمل پیرا ہو۔
۵- آخری چیز پرویزی دور کی دوسری تمام پالیسیوں خصوصیت سے معاشی، تعلیمی، ثقافتی پالیسیوں سے عوام کی بے زاری، بھارت کے سلسلے میں یک رخے انداز میں پسپائی اور یک طرفہ رعایات (one way concessions) اور مسئلہ کشمیر پر اُلٹی زقند (u-turn) کا رویہ ہے جس کے بارے میں انتخابی مہم کے دوران اور اس کے بعد عوام نے اپنے جذبات کا بھرپور اظہار کیا ہے۔ ملک جس طرح خوراک، مہنگائی، بدامنی، بجلی، گیس اور پانی کے بحران میں مبتلا ہے، وہ مشرف کی آٹھ سالہ غلطیوں، کوتاہیوں اور غلط ترجیحات کا مجموعی نتیجہ (cumulative result) ہے، اور ان سب کے بارے میں نئی حکومت کو پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیوں اور عوام کی مشکلات کو حل کرنے اور ان کی توقعات کو پورا کرنے کے لیے جنگی بنیادوں پر کارروائی کی ضرورت ہے۔
یہ تو تھا عوام کا مینڈیٹ اور ان کی توقعات کا خاکہ ___ مخلوط حکومت کے قیام کو ملک کی تمام کی تمام قوتوں نے خوش آمدید کہا اور ان دینی اور سیاسی جماعتوں نے بھی جنھوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا، کھلے دل سے حکومت کو موقع دیا اور اسے صحیح مشوروں سے نوازا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کچھ درپردہ اور کچھ کھلی سودے بازیوں کے پس منظر میں جو سیاسی عناصر میدان میں آئے تھے، ان کی نگاہیں عوام کے مینڈیٹ اور توقعات سے کہیں زیادہ اپنے مفادات پر تھی اور جو کام پہلے ہفتے میں ہوجانے چاہییں تھے، ان پر چھے ہفتے گزر جانے کے باوجود بھی لیت و لعل کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ حکومت کے کرتا دھرتا گومگو کا شکار ہیں، پارلیمنٹ جس کی بالادستی کے دعوے ہو رہے تھے ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کا منظر پیش کر رہی ہے اور زرداری ہائوس اور ایوانِ صدر اپنے اپنے کردار ادا کرنے میں مصروف اور ایک دوسرے کے لیے گنجایش نکالنے کا پریشان کن نقشہ بنانے میں مصروف نظر آرہے ہیں۔ وزرا گاڑیوں پر جھنڈے تو لہرا رہے ہیں اور انتقالِ اقتدار کے ڈرامے کے باوجود انتقالِ اختیارات کی صورت نظر نہیں آرہی۔ کسی بھی اہم میدان میں نئی پالیسی سازی کی کوئی جھلک دیکھنے میں نہیں آرہی بلکہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ وزیردفاع، وزیرخزانہ اور وزیرخارجہ تک پالیسیوں کے تسلسل کی بات کر رہے ہیں اور وزیرخارجہ نے تو یہاں تک فلسفہ بگھارا ہے کہ ملک کی خارجہ پالیسی کا انحصار اس کے اسٹرے ٹیجک مفادات (strategic interests) پر ہوتا ہے اور قیادت کی تبدیلی سے خارجہ پالیسی تبدیل نہیں کی جاتی۔ وہ بھول گئے کہ الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے معرکے میں بنیادی ایشو ہی یہ تھا کہ ملک کے اسٹرے ٹیجک مفادات کو قربان کیا جا رہا ہے اور اس ناکام پالیسی کی تبدیلی کے لیے عوام نئی قیادت کو سامنے لائے ہیں۔
وزیرخارجہ یہ بھی بھول گئے کہ پاکستان ہی کی تاریخ میں سیاسی قیادت نے ایک بار نہیں بار بار خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں کی ہیں اور وہ تبدیلیاں اسٹرے ٹیجک مفادات کے ادراک ہی کی بنیاد پر کی گئی ہیں۔ حالات کی تبدیلی سے اسٹرے ٹیجک مفادات میں تبدیلی ہوتی ہے، جیسے برلن کے انقلاب کے بعد، امریکا کی ہر کوشش کے علی الرغم پاکستان کا چین کوتسلیم کرنا اور اس کے ساتھ اسٹرے ٹیجک شراکت داری کا قیام۔ واضح رہے کہ خارجہ پالیسی کی اس تبدیلی میں خود جناب ذوالفقار علی بھٹو کا ایک اہم کردار تھا لیکن آج کی پیپلزپارٹی کی قیادت کو اس کا کوئی ادراک ہی نہیں۔ اسی طرح افغانستان پر اس کی کھلی فوج کشی اور برزنیف ڈاکٹرائن کی افغانستان کے لیے توسیع نے پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات میں ایک جوہری تبدیلی کردی تھی اور اس کے نتیجے میں خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں کرنا پڑیں۔ خود پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد جو یوٹرن لیا اس کے نتیجے میں خارجہ پالیسی کا رخ بالکل بدل گیا۔ آج نائن الیون کے سات سال بعد دنیا کا جو حال ہے، عراق میں جو کچھ ہو رہا ہے، یورپ، چین اور روس جس طرح کروٹیں لے رہے ہیں، تیسری دنیا کے ممالک عالم گیریت کے بوجھ تلے دبے جس طرح کراہ رہے ہیں اور اپنے لیے زندہ رہنے کی نئی راہیں تلاش کرنے کی جو جستجو کر رہے ہیں، اور امریکا کی سات سالہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے جو نتائج افغانستان اور اس پورے خطے (region) بلکہ پوری دنیا پر مرتب ہوئے وہ اسٹرے ٹیجک مفادات میں تبدیلیوں کی نشان دہی کر رہے ہیں اور ان مفادات اور مقاصد کے حصول کے لیے خارجہ پالیسی کے ازسرنو بنیادی جائزے کی ضرورت ہے نہ کہ ضمنی تبدیلیوں کی۔ ان حالات میں تبدیلی کی جگہ تسلسل کی بات نہایت مایوس کن بلکہ تشویش ناک ہے۔ اصلاح کی توقع اسی وقت ہوسکتی ہے جب مرض کا احساس، خرابی کا ادراک اور تبدیلی کا عزم ہو___ اور پیپلزپارٹی کی حکومت کا اقتدار کے پہلے ۵۰ دن میںریکارڈ کسی اعتبار سے بھی قابلِ فخر تو کیا تسلی بخش بھی نہیں کہا جاسکتا۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں ہم قبائلی علاقہ جات میں جاری پالیسی، اس میں تبدیلی کی ضرورت اور کوشش اور بحیثیت مجموعی امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ یہ مسئلہ ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اس پر پاکستان کے نظریاتی تشخص کے ساتھ قومی یک جہتی، ملک میں امن و امان کے قیام اور فوج اور قوم کے تعلقات کا انحصار ہے۔ اس کا تعلق قومی سلامتی، ملک کی آزادی اور حاکمیت اور ہماری پوری دفاعی صلاحیت کی حکمت عملی سے ہے۔ بلاشبہہ اس کا گہرا تعلق پاک امریکا تعلقات سے بھی ہے اور ایک متوازن اور حقیقت پسندانہ پالیسی کی تشکیل ان سارے پہلوئوں کو سامنے رکھ کر ہی ممکن ہے۔ سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان میں امریکا اور ناٹو کی افواج کے مقاصد اور اہداف کیا ہیں اور وہ اہداف کہاں تک خود پاکستان کے مفادات اور اس خطے میں اس کے مقاصد سے مطابقت رکھتے ہیں۔ جو پالیسی وقتی حالات، بیرونی دبائو، یا خوف اور مجبوری کے تحت بنے گی وہ کبھی بھی قومی مقاصد اور مفادات کی ضامن نہیں ہوسکتی۔
ہم اس وقت اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ نائن الیون کے بعد آزاد فیصلہ سازی کے لیے کتنی گنجایش موجود تھی اور اس وقت کن حالات میں کیا فیصلہ کیا گیا۔ ہم اس پر اپنے خیالات کا اظہار بار بار کرچکے ہیں اور اس کے اعادے کی اس وقت ضرورت نہیں۔ لیکن آج کے حالات مختلف ہیں۔ خود امریکا میں بش کی پالیسیوں کو اب وہ پذیرائی حاصل نہیں اور دنیا کے عوام، حکومتیں اور دانش ور اپنے اپنے انداز میں اس سے فاصلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ برطانیہ، اسپین، اٹلی اور آسٹریلیا کے عوام اور حکومتوں نے اپنے تعاون کی مقدار (quantum) اور شکلوں پر نظرثانی کی ہے۔ جاپان، جرمنی، فرانس، پولینڈ اور دسیوں ملک نظرثانی میں مشغول ہیں۔ خود امریکا کے تھنک ٹینک عراق اور افغانستان میں امریکی پالیسیوں کی ناکامیوں پر کھل کر بحث کر رہے ہیں اور امریکی مقتدرہ سے متعلق افراد، خصوصیت سے کلیدی مقامات پر خدمات انجام دینے والے فوجی اور سول شخصیات جو ریٹائر ہوچکی ہیں پالیسی کی ناکامیوں اور تبدیلی کی ضرورت پر کھل کر کلام کر رہے ہیں۔
ان حالات میں اور بھی ضروری ہوگیا ہے کہ امریکا کے احکام اور بلیک میل کرنے والے مطالبات پر سرِتسلیم خم کرنے کی روش ترک کی جائے،دوستی اور محکومی کے فرق کو سامنے رکھاجائے، دوسروں کے مفادات اور اپنے مفادات کا صحیح صحیح ادراک کیا جائے اور عوام کی خواہشات اور ان کو اعتماد میں لے کر پوری دانش مندی سے پالیسیوں پر نظرثانی کی جائے اور پالیسی سازی کے طریق کار کو بھی درست کیا جائے تاکہ ذاتی پسندوناپسند، شخصی مفادات اور ترجیحات کا کوئی سایہ قومی پالیسیوں پر نہ پڑے اور یہ پالیسیاں مکمل طور پر قومی مقاصد، اہداف اورمفادات کے مطابق مشاورت کے اداراتی عمل کے ذریعے بنیں اور ان پر پارلیمنٹ میں کھلی بحث ہو اور ہرسطح پر عوام کی شرکت کا اہتمام کیا جائے۔ زمینی حقائق کو نظرانداز کر کے جو پالیسی بنے گی وہ خام ہوگی اور نتائج کے حصول میں ناکام رہے گی۔ صوبہ سرحد کی نئی حکومت کو سیکولر قوتوں کی فتح کہا جا رہا تھا اور اے این پی کی صوبے میں کامیابی کو دینی قوتوں کی شکست سے تعبیر کیا جا رہا تھا اور امریکی حکومت نے اے این پی کی قیادت سے بلاواسطہ تعلقات قائم کرنے اور اس کے ساتھ اشتراکِ عمل کی راہیں استوار کرنے کے لیے تمام حربے بھی استعمال کرنا شروع کردیے ہیں، لیکن صوبے کی حکومت کو طالبان اور سوات کی مقتدرہ قوتوں سے بات چیت ہی کا راستہ استعمال کرنا پڑا اور شریعت محمدیؐ کے نفاذ کو معاہدے میں سرفہرست رکھنا پڑا۔ یہ زمینی حقائق اور حقائق پر مبنی سیاست کا لازمی حصہ ہے۔ سیاسی قوتوں کو سیاسی حقائق کی روشنی میں مسائل کے سیاسی حل ہی کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ یہ صرف خودپسند جرنیلوں یا مفادات کی دلدل میں پھنسے ہوئے سیاست دانوں کا رویہ ہوتا ہے کہ وہ انا ولاغیری کے زعم میں من مانے فیصلے کرڈالتے ہیں اور اس کا کوئی خیال نہیں کرتے کہ قوم اس کی کیا قیمت ادا کرتی ہے؟
اب یہ بات دو اور دو چار کی طرح ثابت ہوچکی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا مقصد دہشت گردی سے انسانیت کو نجات دلانا نہیں، بلکہ دہشت گردی کے نام پر اپنے عالمی منصوبوں کی تکمیل اور اہداف کا حصول ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل نکات پر غور مناسب رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
۱- دہشت گردی کی کوئی متفق علیہ تعریف نہ موجود ہے اور نہ امریکا نے اس سلسلے میں کوئی قرارواقعی کوشش کی ہے۔ اس کے برعکس ایک مبہم بات کوایک دوسرے غیرواضح مبہم وجود، یعنی القاعدہ کے شانوں پر سجا کر ایک عالمی جنگ کا عنوان بنا دیا ہے اور عملاً دنیا کو اس جنگ کی آگ میں جھونک دیا ہے جس کا کوئی اختتام نظر نہیں آرہا۔
۲- نائن الیون سے پہلے بلکہ صدیوں سے دہشت گردی کا وجود رہا ہے اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق مختلف گروہوں نے قوت کا ایسا استعمال بار بار کیا ہے جس سے خواہ ان کے سیاسی مقاصد اور اہداف توجہ کا مرکز بن گئے ہوں مگر معصوم انسانوں کی جانوں کی قربانی بھی اس کا حصہ رہی ہے۔ اسی وجہ سے ان کے مقاصد سے ہمدردی کے باوجود ان کے اس طریق کار پر گرفت کی گئی ہے اور ریاست اور قانون کی نگاہ میں ان کے یہ اقدامِ جرم شمار کیے گئے لیکن امریکا نے اپنے سوچے سمجھے استعماری منصوبوں کی تکمیل کے لیے نائن الیون کے واقعے کے ۲۴ گھنٹے کے اندر ایک مجرمانہ کارروائی (criminal activity) کو جنگ کا نام دے دیا اور اس کے جواب میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عنوان سے ایک عالمی جنگ کا آغاز کردیا۔ یہ ایک جوہری تبدیلی تھی جس کے نتیجے میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سیاسی تدابیر اور ان کے ساتھ مجرموں سے نمٹنے کے عدالتی طور طریقوں کو ترک کر کے جنگ کے مثالیے (paradigm) کو مسئلے کے نمٹنے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا اور مسئلے کے عسکری حل (military solution) کی حکمت عملی کو ساری دنیا پر مسلط کرنے کی کوشش کی۔
امریکا کے اسٹرے ٹیجک مفکرین روس کے انتشار اور دیوارِ برلن کے انہدام کے بعد سے ایک ایسی عالمی حکمت عملی کا تانا بانا بُننے میں مشغول تھے جس کے ذریعے امریکا ۲۱ویں صدی کی واحد سوپر پاور رہ سکے، اس کا مقابلہ کرنے والی کوئی قوت (challenger) نہ اُبھر سکے، دنیا کے تمام اسٹرے ٹیجک پوائنٹس پر امریکا کے فوجی اڈے موجود ہوں، تیل،گیس اور خام مال کی رسد پر اس کا کنٹرول رہے، اس کی مصنوعات کے لیے عالمی منڈیاں، خصوصیت سے عرب دنیا اور تیسری دنیا کے ممالک کی منڈیاں کھلی رہیں، نیز مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کا سیاسی نقشہ اس طرح دوبارہ بنایا جائے کہ امریکا کے مفادات کو مکمل تحفظ حاصل ہو، اور اسرائیل کو نہ صرف یہ کہ کوئی حقیقی خطرہ پیش نہ آئے بلکہ اسرائیل امریکا کے نائب (surrogate) کی حیثیت سے اس پورے علاقے میں امریکی اور اسرائیلی مفادات کے حصول کے لیے ایک کلیدی کردار ادا کرتا رہے۔ اس کے لیے عراق کی کمر توڑنا، افغانستان میں اپنے قدم جمانا، ایران کو نہ صرف یہ کہ ایٹمی طاقت نہ بننے دینا بلکہ معاشی اور سیاسی اعتبار سے بھی اس کو ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھنے دینا، پاکستان پر دبائو، چین پر نگرانی اور جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر اسے ہراساں کرنے کا ہمہ گیر پروگرام اور بھارت کے ساتھ تعاون کے ذریعے اس علاقے میں اپنے اثرات کو بڑھانا، جب کہ مسلم ممالک خاص طور پر عراق، پاکستان، افغانستان کو علاقائی، فرقہ وارانہ اور اسی قسم کی دوسری عصبیتوں کی بنیاد پر ٹکڑے ٹکڑے کرکے کمزور کرنا___ وہ کلیدی اہداف تھے، جن پر ۹۰ کے عشرے سے عمل ہو رہا تھا۔ نائن الیون کے حادثے کو ایک سنہری موقع بناکر پورے بین الاقوامی قانون کو بالاے طاق رکھ کر اپنے دفاع کے نام پر دوسرے ممالک پر فوج کشی، ان کی سرحدوں کی بے دریغ خلاف ورزی کے سامراجی فلسفے کو پالیسی کا مرکز و محور بنانا، جمہوریت کے فروغ اور تبدیلیِاقتدار (regime change ) کے نام پر دوسرے ممالک میں مداخلت اور سیاسی تبدیلیوں کا کھیل، جنگ اور قومی سلامتی کا سہارا لے کر ان تمام حقوق کی پامالی جو مہذب دنیا کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں، وہ مقاصد ہیں جن کے لیے امریکا خصوصیت سے نائن الیون کے بعد سرگرم ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اس کا صرف عنوان ہے اوراصل سامراجی کھیل کے لیے قائم مقام (proxy) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں امریکا کی سرکاری دستاویزات، دنیا بھر کے اہم تھنک ٹینکس کی مطبوعات اور صدربش سے لے کر ان کے سول اور فوجی ترجمانوں اورسابقہ کمانڈروں اور خفیہ اداروں کے ترجمانوں کے بیانات چشم کشا ہیں۔ کسی کو باہر سے الزام لگانے کی ضرورت نہیں۔ امریکا کا عمل اور اس کے ذمہ داروں کے بیانات سیاسی شطرنج کا پورا نقشہ پیش کردیتے ہیں۔
امریکا نے اپنے آپ کو ساری دنیا میں ’کروسیڈ‘ کے قائد کی حیثیت سے پیش کرنے اور کسی بھی جگہ، کسی بھی وقت، کسی بھی مدت کے لیے مداخلت کو جائز ثابت کرنے کے لیے کچھ عرصے سے عالمی دہشت گردی کے تصور کو استعمال کیا ہے۔ (ص ۴۴)
القاعدہ اور حکومت طالبان کے خلاف جنگ کی وجہ سے امریکا نے افغانستان میں ۱۲ ہزار، ازبکستان میں ۱۵۰۰ اور جارجیا میں کم و بیش ۱۰۰ فوجی تعینات کر دیے۔ (ص۱۳۱)
تمام ظاہری محرکات سے زیادہ، امریکا نے اپنی فوجی شان و شوکت کے مظاہرے کے لیے مسلم دنیا کو بطور ہدف اور ’عذر خصوصی‘ (priveleged pretext) اس لیے منتخب کیا ہے کہ کم خرچ پر اپنی طاقت کی ہرجگہ اسٹرے ٹیجک موجودگی کو سامنے لایا جائے۔ یہ بالکل سادہ سی بات ہے کہ ایسا عالمِ عرب کی عمومی کمزوری کی وجہ سے ہوا ہے۔ امریکا عربوں کے ساتھ بدسلوکی کرے گا اس لیے کہ وہ فوجی لحاظ سے کمزور ہیں، اس لیے کہ ان کے پاس تیل ہے اور تیل اتنا اہم ہے کہ امریکا کے ہرقسم کی اشیاے تجارت پر عالمی انحصار سے توجہ منتقل کردے گا۔ (ص ۱۴۲-۱۴۳)
ایک بنگلہ دیشی نژاد برطانوی محقق نفیض مصدق احمد نے، جو برطانیہ کے ایک تھنک ٹینک Institute of Policy & Research کے ڈائرکٹر ہیں، دو تحقیقی کتب شائع کی ہیں۔ پہلی The War on Truthاور دوسری Behind the War on Terror۔ ان کتابوں میں قابلِ اعتماد حوالوں کے ساتھ امریکا کی عالمی غلبے کی حکمت عملی کے تمام ہی پہلوئوں کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔ موصوف جس نتیجے پر پہنچے ہیں،وہ مختصراً یہ ہے:
حقیقت یہ ہے کہ ۱۱ستمبر کے دہشت گردی کے حملے کے بعد امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جو نئی جنگ شروع کی، یہ انھی بنیادی اصولوں اور منصوبوں کی توسیع ہے جنھوں نے دوسری جنگ کے بعد امریکی خارجہ پالیسی کی تشکیل کی اور آگے بڑھایا۔ عالمی دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے بہانے درحقیقت امریکی حکومت اپنی عالمی برتری کو توسیع دینے اور مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ ان طویل المیعاد حکمت عملیوں کے مطابق ہے جنھیں گذشتہ کئی عشروں میں غوروفکر کرکے محنت سے تکمیل تک پہنچایا گیا۔ Behind the War on Terror: Western Secret Strategies and the Struggle for Iraq این ایس احمد، Calavian Sussex ، ۲۰۰۳ئ، ص ۳)
ایک امریکی تھنک ٹینک Project for the New American Century (PNAC) نے بڑی چشم کشا رپورٹ تیار کی ہے۔ اس کے تیار کرنے والوں میں صدر جارج بش کے چوٹی کے مشیر شامل رہے ہیں جن میں ڈک چینی (موجودہ نائب صدر) ڈونالڈ رمزفیلڈ (سابق وزیردفاع)، لیوس لبی نائب صدر کے سابق چیف آف اسٹاف وغیرہ شامل تھے۔ اس میں صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ ہمارا مقصد ایک ایسا بلیو پرنٹ تیار کرنا ہے جس کا مقصد:
عالمی سطح پر امریکا کی برتری کو برقرار رکھنا، کسی دوسری عظیم طاقت کے بطور حریف عروج کو روکنا، اور بین الاقوامی سلامتی کے نظام کو امریکی اصولوں اور مفادات کے مطابق تشکیل دینا ہے۔
یہ امریکا کی نئی قومی سلامتی کی حکمت عملی کے ذریعے اپنی آخری شکل اختیار کرے گا۔ یہ منصوبہ دنیا پر امریکا کی حکومت قائم کرنے کے لیے ہے۔ اس کا کھلا کھلا مرکزی خیال ایک ہی طاقت کا میدان میں رہنا (unilateralism) ہے لیکن یہ بالآخر غلبہ حاصل کرنے کی کہانی ہے۔ اس کا تقاضا ہے: دوستوں اور دشمنوں پر ایک جیسا غلبہ۔
امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا تعلق دہشت گردی سے کم اور امریکا کے اپنے عالمی عزائم جس کا اصل ہدف دنیا پر امریکی غلبہ (Pax Americana) ہے، تیل اور انرجی کے دوسرے ذخائر پرقبضہ اور ان کی رسد کے راستوں پر حکمرانی، دنیا کے اسٹرے ٹیجک پوائنٹس پر اپنے فوجی اڈوں کا قیام اور دنیا کے اہم علاقوں خصوصیت سے مشرق وسطیٰ اور وسط افریقہ کے سیاسی نقشے کی امریکی مفادات اور اسرائیلی خواہشات کی روشنی میں تشکیلِ نو۔
سوڈان میں جو کچھ ہو رہا ہے اور عراق، افغانستان اور لبنان میں جو کچھ کیا جا رہا ہے، نیز پاکستان کے بارے میں جو نئے نئے نقشے تیار کیے جا رہے ہیں، ان سب کا تعلق اس بڑی (grand) حکمت عملی سے ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکا کی دل چسپی اس عظیم تر منصوبے کا حصہ ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ اس حکمت عملی پر عمل درآمد کا ایک پہلو ہے۔
ڈاکٹر نفیض احمد نے بڑے پتے کی بات لکھی ہے جو امریکی حکمت عملی کے سینے کے اصل راز کو فاش کرتی ہے:
اس طرح بین الاقوامی دہشت گردی امریکی بالادستی کے ماتحت ورلڈ آرڈر میں ایک عملی کردار ادا کرتی ہے۔ دہشت گرد اسامہ صدر بش کی ضرورت ہے۔ بن لادن نہ رہے، تو بش کے پاس پوری دنیا میں کوئی مستقل ہدف نہیں رہے گا اور اس طرح نئے امریکی غلبے (New Pax Americana) کے لیے جواز ختم ہوجاتا ہے۔ (ص ۱۷)
دہشت گردی کو فروغ دینے اور اسے اپنے سیاسی پروگرام میں ایک حربے کے طور پر استعمال کرنے میں امریکا کا اپنا کردار بہت زیادہ داغ دار ہے اور اس تاریخی روایت کی روشنی میں دہشت گردی کے باب میں امریکا کے حالیہ جوش و خروش کو سنجیدگی سے لینا محال ہے۔ ڈاکٹر احمد کا یہ تبصرہ لائق توجہ ہے کہ:
مشرق وسطیٰ کے کلیدی گرم محاذ عراق کے ہمارے تفصیلی تجزیے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مغربی پالیسی نے اسٹرے ٹیجک حکومتوں کے کنٹرول اور توانائی کے کلیدی وسائل پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے ان بنیادی انسانی اصولوں کی مسلسل خلاف ورزی کی ہے جن کی وہ علَم بردار ہے۔ یہ امر بہت اہم ہے کہ اس عمل میں مغربی پالیسی ریاستی دہشت گردی میں باقاعدہ ملوث رہنے کی رہی ہے، دونوں طرح سے، بالواسطہ طور پر ان حکومتوں کو جو دہشت گردی کی مرتکب تھیں اسپانسر کرکے اور بلاواسطہ طور پر ایسے فوجی آپریشن کرکے جو دہشت گردی پر مبنی تھے۔ اس سے بنیادی طور پر نائن الیون کے نتیجے کے طور پر جاری دہشت گردی کے خلاف نئی جنگ کے درست ہونے کا تصور بلاشبہہ ختم ہوجاتا ہے۔ علاوہ ازیں مشرق وسطیٰ میں مغربی پالیسی کی بنیاد میں یہ بات شامل ہے کہ تنازعات کو پیدا کیا جائے اور/یا بڑھایا جائے تاکہ مغربی مفادات سے ہم آہنگی ہو۔ یہ استعماری دور کی روایتی لڑائو اور حکومت کرو پالیسی کی یاد دلاتا ہے۔ (ص ۲۴۳)
امریکی پالیسی کے مقاصد بہت واضح ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ محض ایک عنوان اور نعرہ ہے۔ اصل مقصد امریکا کی بالادستی، مسلمان اور دوسرے ممالک میں اپنی مفید مطلب حکومتوں کا قیام، تیل اور دوسرے وسائل پر قبضہ اور ان کا اپنے مفادات کے لیے استعمال، اسرائیل کا تحفظ اور اسے مشرق اوسط میں کھل کھیلنے کے مواقع کی فراہمی اور اس کی جارحانہ سرگرمیوں کی سرپرستی اور حفاظت، احیاے اسلام کی تحریکوں کا راستہ روکنا اور اسلامی بنیاد پرستی، اسلامی انتہا پسندی اور اسلامی دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کو اپنے ملکوں میں اسلام کو حکمران قوت بنانے سے روکنا اور اپنی سیاسی، معاشی، نظریاتی، عسکری، ثقافتی اور ذہنی غلامی میں جکڑنا ہے۔
افغانستان میں امریکا اور اس کی حلیف قوتوں کا اصل مقصد مغربی استعمار کے ان ہی اہداف کا حصول ہے، اور پرویز مشرف کا امریکا کو اس کی جنگ میں پاکستان کا تعاون فراہم کرنا اور پاکستان کی سرحدات کو امریکی جولانیوں کے لیے کھول دینا پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات سے متصادم اور امریکا کے مفادات کی خدمت رہا ہے۔ پاکستانی عوام امریکا اور مشرف کے اس کھیل پر مضطرب، سرگرداں اور متفکر رہے ہیں۔ اپنی مخالفت کا اظہار ہر میدان میں کرتے رہے ہیں اور پورے خطے میں تصادم اور خون خرابے کے اضافے کاسبب بھی مشرف حکومت کی یہی پالیسی رہی ہے۔ گیلپ، World Public Opinion Survey، The Pew Global Attitudes Projectاور خود امریکی اداروں کے زیراہتمام کیے جانے والے IRI Index ،تمام سروے راے عامہ کی مخالفت کی گواہی دیتے ہیں۔ گیلپ کے ان تمام جائزوں کے تجزیے پر مبنی کتاب Who Speaks for Islam? What A Billion Muslims Realy Think حال ہی میں گیلپ پریس نے شائع کی ہے۔ جو سروے ۲۰۰۳ء سے ۲۰۰۷ء تک کیے گئے ہیں، ان کا تجزیہ مشہور امریکی محقق جان ایسپوزیٹو نے کیا ہے۔ ان جائزوں کی روشنی میں مسلمان اپنے دین پر ایمان اور اعتماد رکھتے ہیں۔ وہ اپنی اجتماعی زندگی کو قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب اورمنظم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو بڑی حد تک اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کا کوئی تعلق مذہب سے نہیں، بلکہ جو بھی احتجاج امریکا کے خلاف ہو رہا ہے، اس کی بنیادی وجہ امریکا کی خارجہ پالیسیاں ہیں۔
Pew (پیو) کے گلوبل سروے کے مطابق جو جون ۲۰۰۶ء میں شائع ہوا تھا اور جس میں ۲۰۰۰ء سے ۲۰۰۶ء تک کے سروے کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا تھا، اس کے مطابق پوری دنیا میں اور خصوصیت سے پاکستان میں امریکا کی مقبولیت کا گراف برابر گر رہا ہے۔ ۷۰ فی صد سے زیادہ پاکستانی عوام امریکا کی پالیسیوں کے مخالف تھے اور ان کا خیال تھا کہ امریکا کی اس جنگ نے دنیا کو زیادہ خطرناک جگہ بنا دیا ہے۔
اسی طرح World Public Opinion Surveyکے سروے کی روشنی میں پاکستانی عوام کے ۹۰ فی صد کی خواہش ہے کہ ان کی اجتماعی زندگی کی صورت گری اسلام کے اصولوں کے مطابق ہو، جب کہ آبادی کے ۴۶ فی صد کی راے یہ تھی کہ اس وقت زندگی کے اجتماعی معاملات اسلام کے مطابق نہیں چلائے جا رہے۔ سیکورٹی اور معیشت کے معاملات میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے بارے میں ۴۴ فی صد کا خیال تھا کہ اس کا فائدہ صرف امریکا کو پہنچ رہا ہے، جب کہ ۹فی صد کا خیال تھا کہ یہ پاکستان کے لیے مفید رہی ہیں۔ ۲۹ فی صد نے کہا کہ یہ پاکستان کے مفادات پر ضرب لگارہی ہیں۔ ۷۲ فی صد عوام کی راے یہ تھی کہ ایشیا میں امریکا کی عسکری موجودگی پاکستان کے لیے خطرہ ہے، ایک فیصلہ کن خطرہ (critical threat ) ہے، جب کہ مزید ۱۲ فی صد نے اسے خطرہ قرار دیا اور صرف ۶ فی صد کی راے میں اس سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں۔ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے بارے میں پاکستانیوں کی تشویش اور بھی سوا ہے۔ ۶۸ فی صد کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ کن خطرہ ہے۔ اسامہ بن لادن کے لیے ہمدردی پائی جاتی ہے اور اس سوال کے جواب میں کہ اسامہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہو اور حکومت کو اس کا صحیح پتا بھی چل جائے تو کیا پاکستان کو اسامہ بن لادن کو گرفتار کر لینا چاہیے۔ ۳۹ فی صد نے کہا کہ نہیں کرنا چاہیے، جب کہ۲۴ فی صد نے اسے گرفتار کرنے کے حق میں راے دی۔
سب سے اہم سوال یہ تھا کہ امریکا کے عالمی کردار کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستانی عوام کی کیا راے ہے کہ امریکا کے اصل مقاصد کیا ہیں۔ ۵۳ فی صد نے کہا: عیسائیت کا فروغ ان کے مقاصد میں سے ایک ہے۔ تیل کے ذخائر پر قبضے کے باب میں ۷۸ فی صد کا خیال تھاکہ یہ ایک واضح ہدف ہے۔ لیکن سب سے چشم کشا جواب اس سوال کا تھا کہ کیا امریکا اسلامی دنیا کو تقسیم اور کمزور کرنا چاہتا ہے تو ۸۶ فی صد کا خیال تھا کہ ہاں، یہ امریکا کا ایک واضح ہدف ہے۔
اب ایک نظر اس سروے پر بھی ڈال لی جائے جو امریکا نے پاکستان میں انتخاب سے چند ہفتے قبل (۱۹-۲۹ جنوری ۲۰۰۸ئ) کروایا ہے اور جو IRI index کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔ اس سروے کی رو سے ۸۴ فی صد آبادی کی راے میں مشرف کی قیادت میں پاکستان جس رخ پر جارہا ہے وہ غلط ہے۔ پاکستانیوں کی نگاہ میں دہشت گردی سب سے اہم مسئلہ نہیں۔ سب سے اہم مسئلہ افراطِ زر کا ہے جسے ۵۵ فی صد نے نمبر ایک پر رکھا ہے۔ بے روزگاری کو ۱۵ فی صد سب سے اہم مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ دہشت گردی کو صرف ۱۲ فی صد نے اہم مسئلہ قرار دیا ہے لیکن عوام کی راے کاصحیح اندازہ دو دوسرے سوالوں کے جواب سے کیا جاسکتا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ صوبہ سرحد اور فاٹا میں انتہاپسندی کے خلاف فوجی کارروائی کے حق میں ہیں تو ۶۴ فی صد نے اس کی مخالفت کی اورجب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان کو امریکا سے دہشت گردی کے خلاف اس کی جنگ میں تعاون کرنا چاہیے تو ۸۹ فی صد نے عدمِ تعاون اور مخالفت کو اپنی ترجیح قراردیا۔
یہ ہے عوام کی اصل سوچ___ اور اسی کا اظہار ۱۸ فروری کے انتخابات میں ہوا۔ اس کا تقاضاہے کہ نومنتخب حکومت اور پارلیمنٹ مشرف کی بنائی ہوئی پالیسی کوجلد از جلد تبدیل کرے اور عوام کی خواہش اور ملک کے اسٹرے ٹیجک مفادات کی روشنی میں فوجی آپریشن کو ختم کرکے مذاکرات اور سیاسی عمل کے ذریعے معاملات کو سلجھائے، امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ سے ایک مناسب منصوبے کے تحت دست کش ہو، افغانستان میں مکمل عدمِ مداخلت کی روش اختیار کرے اور امریکا اور مغربی اقوام کو اس زمینی حقیقت کو پڑھ لینے کی ترغیب دے کہ افغانستان میں امریکی اور ناٹو کی فوجوں کی موجودگی فساد کا اصل سبب ہیں۔ ان افواج کو افغان عوام قابض افواج شمار کرتے ہیں اور ان کا کردار بھی قابض طاقتوں ہی جیسا ہے۔یہ انتظام اور یہ حکمت عملی مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ یہ افغانستان میں بھی ناکام ہے اور عراق میں بھی۔ اسے جاری رکھنے کا نتیجہ مزید خون خرابے کے سوا کچھ نہیں۔ عقل و دانش کا تقاضا ہے کہ اس پالیسی کو بتدیل کرانے کے لیے سرتوڑ کوشش کی جائے اور اس کا آغاز پاکستان کی شرکت اور صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں امریکا کی جنگ کے سپاہی کاکردار ختم کر کے امن و امان کے قیام کا امکان پیدا کیا جائے اور اور فوج اور عوام کی یک جہتی کے ماڈل کی طرف پیش قدمی کی جائے۔
پرویز مشرف کی پالیسی کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تواس کے نتیجے میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان اور افغانستان قریب آنے کے بجاے عملاً ایک دوسرے سے دُور ہوئے ہیں۔ پاکستان کی سرحدات کی امریکی خلاف ورزیاں بڑھی ہیں اور ہمارے معاملات میں ان کی مداخلت اس حد تک پہنچ گئی ہے جو پاکستان کی آزادی، حاکمیت کے لیے خطرہ اور قومی عزت و وقار کے منافی ہے۔ فوج اور قوم میں صرف دُوری ہی نہیں ہوئی، بلکہ وہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ ۱۲۰۰ سے زیادہ فوجی اپنی جان گنوا چکے ہیں اور ۳ ہزار کے قریب سویلین موت کے گھاٹ اُتارے جاچکے ہیں، کوئی علاقہ محفوظ نہیں۔ محسود قبائل کے علاقے کے بارے میں امن و امان کے قیام کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ وہاں پہلی مرتبہ پاکستانی صحافیوں کو لے جایا گیا ہے اور ان کی رپورٹ یہ ہے کہ فوج کی چوکیاں تو وہاں ہیں مگرمحسودعلاقے میں وہ کسی محسود باشندے کو نہیں دیکھ سکے۔ پورا علاقہ انسانوں سے خالی ہے اور ایک بھوتوں کے مسکن کی تصویر پیش کر رہا ہے۔ ایسا امن قبرستان کا امن تو کہا جاسکتا ہے، انسانی بستیوں کا امن اسے نہیں کہا جاسکتا۔
پھر جس معاشی امداد کا چرچاہے بلکہ امریکی اس کے نام پر چرکے لگا رہے ہیں، اس کا حال یہ ہے کہ خود امریکی حکام کے بقول: اس کا ۳۰ فی صد امریکا کے مشیروں (consultants) پر صَرف ہوا ہے اور ۷۰ فی صد پاکستان پہنچا ہے۔ پھر یہاں اس کا فائدہ کس نے اٹھایا ہے اور عوام کے حصے میں کیا آیا ہے؟ اس کا تذکرہ نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔ البتہ جس ۱۱ ارب ڈالر کی امداد کا دعویٰ ہے، اس میں سے ۶ ارب ڈالر توفوجی خدمات کا معاوضہ ہے، کوئی مدد نہیں ہے۔ صرف ۵ارب ڈالر سات سال میں مدد کی مد میں آئے ہیں لیکن پہلے چار سال میں جو معاشی نقصان پاکستان کو ہوا ہے اور جس کا اعتراف خود امریکی فوج کے مرکز (centcom) نے کیا ہے، وہ ۱۰ ارب ڈالر ہے۔ اگر باقی تین سال کے بارے میں بھی اندازہ کیا جائے تو قرین عقل یہ ہے کہ یہ نقصان ۱۵ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اگر نفع نقصان کا میزانیہ بنایا جائے تو بات خواہ ملک کی آزادی اور حاکمیت کی ہو، عزت اور وقار کی ہو، جانی اور مالی نقصان کی ہو، حکومت اور عوام اور فوج اور قوم کے درمیان تعلقات کی ہو___ یہ ایک خسارے اور صرف خسارے کا سودا رہا ہے جس کا اعتراف اب عالمی سطح پر بھی ہو رہا ہے۔ پاکستانی عوام تو پہلے دن سے اس پر چیخ رہے ہیں۔ Counter Punch کے تازہ شمارے میں ایک امریکی دانش ور رچرڈ ڈبلیو بی ہان لکھتا ہے:
دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک فراڈ ہے، محض ایک لیبل جو ایک ایسی انتظامیہ کی جعل سازی اور ڈھنڈورا پیٹنے کے مترادف ہے جو اپنی ’مستند‘ بددیانتی کے لیے معروف ہے۔ یہ لیبل بش انتظامیہ کے بلااشتعال فوجی حملوں کے جرائم کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ افغانستان اور عراق کی دو خودمختار مملکتوں پر جو حملے ہوئے وہ بش انتظامیہ اقتدار میں آنے کے پہلے ہی دن سے کرنا چاہتی تھی۔
یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں ہے۔ آج افغانستان اور عراق مقبوضہ ممالک ہیں جن کا انتظام کٹھ پتلی حکومتیں کر رہی ہیں اور جو فوجی چھائونیوں کی بنیاد پر اپنا کام، یعنی توانائی کے اثاثوں کی حفاظت کر رہی ہیں۔ یہ بش انتظامیہ کی جنگی کارروائی کا ضمنی نتیجہ نہیں ہے، بلکہ یہ اس کا مقصد تھا… دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک تصدیق شدہ دھوکا (certified fraud) ہے۔ (دی نیشن، ۱۱ مئی ۲۰۰۸ئ)
اس جنگ میں پاکستان کے کردار کا حاصل کیا ہے؟ یہ بھی کرسچین سائنس مانیٹر کے نمایندے گورڈن لوبالڈ کے تازہ ترین مراسلے میں دیکھ لیجیے:
پاکستان میں انتہاپسندوں کے خلاف فوجی حملوں کو بش انتظامیہ مرکزی اہمیت دے رہی ہے۔ اس پر تجزیہ نگار تشویش ظاہر کر رہے ہیں کہ امریکا ایک ناکام پالیسی پر اپنے ایک اہم حلیف سے ایک ایسے وقت میں اصرار کر رہا ہے، جب کہ خطے میں بدلتے ہوئے حالات، یعنی پاکستان میں ایک نئی منتخب حکومت اور افغانستان میں محاذ آرائی میں اضافہ، حکمت عملی میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ (دی نیشن، ۱۳ مئی ۲۰۰۸ئ)
اس رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ امریکا پاکستان کو سابقہ پالیسی جاری رکھنے پر مجبور کر رہا ہے جب کہ سب دیکھ رہے ہیں کہ یہ پالیسی ناکام رہی ہے اور اس دلدل سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ فوجی حل کی حکمت عملی کو ترک کر کے زمینی حقائق، عوامی خواہشات، اور پاکستان کے اپنے مفادات اور مقاصد و ترجیحات کی روشنی میں سیاسی حل نکالا جائے اور خطے کو مزید عدمِ استحکام سے بچایا جائے۔
اس وقت جو جنگ قبائلی علاقوں میں ہورہی ہے اور جس سے صوبہ سرحد اور ملک کے دوسرے علاقے بھی متاثر ہو رہے ہیں، وہ نہ پاکستان کی جنگ ہے اور نہ اُمت ِمسلمہ کے مفادات کی جنگ۔ یہ صرف امریکا کے استعماری عزائم کے حصول کی جنگ۔ یہ جو خود امریکا کے عوام کے مفاد میں بھی نہیں اور اس کی وجہ سے آج امریکا کے خلاف نفرت کا لاوا ساری دنیا میں پھٹ رہا ہے اور بے چینی، بے اطمینانی اور مخالفت کی لہریں بلند تر ہورہی ہیں۔ امریکا میں عوام کی بڑی تعداد اس جنگ سے بے زار ہے اور امریکی معیشت اس کے بوجھ کو مزید برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ دنیا بھر میں امریکا جمہوریت اور انسانی حقوق اور آزادیوں کے علَم بردار کی حیثیت سے نہیں، ایک غاصب اور استعماری قوت کی حیثیت سے پہچانا جا رہا ہے اور یہ کوئی اچھی پہچان نہیں۔ امریکا کو دنیا کا امن تہہ و بالا کرنے کا ذمہ دار گردانا جا رہا ہے اور دنیا آج نائن الیون کے مقابلے میں کہیں زیادہ غیرمحفوظ اور غیرمستحکم ہے۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ سیاسی قیادتیں اپنی آنکھیں کھولیں اور ہوش کے ناخن لیں۔ اور اگر امریکا تباہی کے راستے پر چلنے کے لیے مصر ہے تو ہمارے حکمرانوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ دن کی طرح روشن حقائق کو بھی دیکھنے کو تیار نہیں، عوام کی آواز کو سننے کے لیے ان کے کان بند ہیں اور وہ تبدیلی کی جگہ تسلسل کی پُرفریب وادیوں میں گم نظر آتے ہیں۔ قوم صاف الفاظ میں تبدیلی کا مطالبہ کررہی ہے۔ قوم کی راے میں دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ پاکستان، پاکستانی قوم اوراُمت مسلمہ کی جنگ نہیں___ یہ امریکا کی استعماری جنگ ہے اور اس میں آلۂ کار بنے رہنا ایک اخلاقی، سیاسی اور نظریاتی جرم ہے۔ جتنی جلد اس جنگ سے ہم نکل آئیں اتنا بہتر ہے۔
ہم یہ بھی کہہ دینا چاہتے ہیں کہ یہ تو نوشتۂ دیوار ہے کہ یہ جنگ ناکام ہے اور فساد اور بگاڑ کو بڑھانے کے سوا اس کا کوئی نتیجہ نہیں۔ اسے ختم ہونا ہی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہم کتنی تباہی کے بعد اس آگ سے نکلتے ہیں؟ اب بھی بہت نقصان ہوچکا ہے۔ ہماری دعوت ہے کہ اس ملک کی سیاسی قیادت اب بھی عقل و دانش کا راستہ اختیار کرے اور امریکا کی اس جنگ سے نکلنے اور پاکستان اور اُمت مسلمہ کے مفادات کے حصول کے لیے اپنی خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کا بہترین استعمال کرے۔ ارباب اقتدار کو جاننا چاہیے کہ ایک بے عقل کو بھی بالآخر وہی کرنا پڑتا ہے جس کا مشورہ اصحاب دانش و بینش پہلے قدم ہی پر دے رہے ہوتے ہیں لیکن بے عقل اس فیصلے پر بڑی خرابی اور تباہی کے بعد پہنچتے ہیں ؎
آں کہ دانا کند ، کند ناداں
لیک بعد از خرابیِ بسیار