دنیا ایک باطل نظام کی گرفت میں آچکی ہے اور باطل ایسی قوت و شوکت کے ساتھ زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے کہ حق کے لیے موجودہ نظامِ زندگی میں کوئی جگہ ہی سرے سے باقی نہیں رہی ہے--- نیک سے نیک انسان، جو فی الحقیقت نیکی اور سچائی کے راستے ہی پر چلنا چاہتا ہے، آج چند قدم بھی بغیر مزاحمت کے نہیں اٹھاسکتا۔ اگردُور والے اسے تھوڑی دیر کے لیے بخش دیں تو قریب والے ہی اس سے اُلجھتے ہیں اور کسی طرح نہیں چاہتے کہ وہ اپنی منتخب کی ہوئی راہ میں دو قدم بھی آگے بڑھ سکے۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: ’’بدی کی راہ فراخ ہے اور اس پر چلنے والے بہت ہیں، اورنیکی کی راہ تنگ ہے اور اس کے چلنے والے تھوڑے ہیں‘‘۔ یہ چیز آج آنکھوں سے مشاہدہ کی جاسکتی ہے۔ باطل کی منزل پر پہنچنے کے لیے فراخ سڑکیں ہیں، دو رویہ درختوںکا سایہ ہے، تیزرو سواریاں ہیں، حفاظت کے لیے بدرقہ ہے، ہر منزل پر عیش و آرام ہے۔ آپ جس وقت چاہیں اس پر سفر کر کے منزلِ مقصود تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس کے برعکس حق کی راہ پہلے ہی قدم پررُندھی ہوئی ہے۔ اگر آپ ہمت کرکے اس مزاحمت کو دُور کرسکے تو آگے کی راہ میں ہر قدم پر خطرہ ہے۔ یہاں تک کہ شروع سے لے کر آخر منزل تک خطرے کے سوا کچھ ہے ہی نہیں اور کوئی شخص اس راہ میں آج سر لیے ہوئے پائوں رکھ ہی نہیں سکتا۔
ایسے نازک اور پُرآشوب زمانے میں یہ بات ذرا تعجب انگیز نہیں ہے کہ لوگ راہ سے بے راہ ہوگئے۔ تعجب انگیز اگر کوئی ہوسکتی ہے تو یہ ہوسکتی ہے کہ گمراہی کے اتنے سامان مہیا ہونے اور شیطان کے ایسے عالم گیر تسلط کے باوجود، خدا کے کچھ بندوں کو اللہ کا نام یاد کیسے رہ گیا! یہ بے چارے داد کے مستحق ہیں نہ کہ ملامت کے، اور سینے سے لگا لیے جانے کے لائق ہیں نہ کہ کاٹ پھینکے جانے کے۔ جن لوگوں نے اتنے نامساعد حالات کے اندر اپنی شمعِایمان زندہ رکھی اگرچہ وہ کتنی مضمحل حالت میں سہی، وہ اپنے پاس اس بات کی سند رکھتے ہیں کہ اگر ان کو موافق حالات میسر آتے تو وہ بہتر سے بہتر مسلمان ہوتے۔ اس وجہ سے ان کی غلطیوں اور غیرشعوری گمراہیوں یا اضطراری ضلالتوں کی بنا پر ان کو ایمان سے محروم قرار دے کر ان سے نفرت کرنے کے بجاے اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ ان میں ایمان و اسلام کے صحیح مقتضیات کا شعور بیدار ہو۔ (’اشارات‘، مولانا امین احسن اصلاحی، ترجمان القرآن، جلد ۲۸، عدد۴، ربیع الثانی ۱۳۶۵ھ، مارچ ۱۹۴۶ئ، ص ۶-۷)