کراچی میں تین ڈاکوئوں کا سرِبازار زد و کوب کرنے کے بعد زندہ نذرِ آتش کردینا ایک ایسا المناک سانحہ ہے جس نے پورے ملک کے اہلِ دانش کے قلب و دماغ کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور بہت واضح طور پر دو نقطۂ نظر سامنے آئے ہیں۔ ملک میں لاقانونیت اور اداروں کی ناکامی کے پیش نظر ایک پڑھالکھا طبقہ یہ راے رکھتا ہے کہ عوام کا خود اپنے ہاتھوں معاملات کا فیصلہ کرنا ہی شاید اس مسئلے کا علاج ہے، اس لیے جو کچھ ہوا وہ قابلِ فہم ہے۔ لیکن ایک دوسرا مکتب ِفکر یہ راے رکھتا ہے کہ اداروں کی ناکامی کے باوجود ایک شہری کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی ملزم یا مجرم کو جان سے مار ڈالے، حتیٰ کہ جلا ڈالے۔ یہ ایک ناجائز اور قابلِ مذمت فعل ہے جس کی روک تھام ازبس ضروری ہے۔ یہ واقعہ ملک کے موجودہ سیاسی، قانونی اور معاشرتی نظام میں نہ صرف ٹوٹ پھوٹ اور زوال کا پتا دیتا ہے، اور اگر بروقت اس ملک کی نوجوان نسل کی صحیح روحانی، سیاسی اور معاشرتی رہنمائی نہ کی گئی تو اس سے زیادہ بھیانک واقعات کا ظہور ہوسکتا ہے۔
اسلام جس عدل کا علَم بردار ہے اس میں قانون اور خصوصاً فوج داری قانون کو ایک فرد کے اپنے ہاتھ میں لینے کی کوئی گنجایش نہیں پائی جاتی۔ دیوانی معاملات ہوں یا فوج داری، جیسے ڈاکا، چوری، قتل، بے حُرمتی یا رہزنی اور ارتداد، ان تمام معاملات میں صرف اور صرف اسلامی ریاست ہی وہ ادارہ ہے جو کسی ملزم یا مجرم کو مناسب تحقیق اور کارروائی کے بعد تعزیر یا سزا دے سکتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مختلف علاقائی اور قبائلی روایات اور دیگر مذاہب اور تہذیبوں سے ربط کے نتیجے میں بعض ایسے طریقے ہمارے معاشرے میں رائج ہوگئے جو نہ اسلامی نقطۂ نظر سے اور نہ انسانی حقوق کے عمومی اصولوں سے مناسبت رکھتے ہیں، مثلاً غیرت کے نام پر قتل یا خون کا بدلہ چکانے کے لیے کم عمر لڑکیوں کو نکاح میں دے دینا۔
یہ صحیح ہے کہ اسلامی شریعت صرف قانون کے ذمہ داروں کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ تنازعات کا فیصلہ کریں اور جرم ثابت ہونے پر کسی شخص کو سزا دیں جو جرم کی نوعیت اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہو، لیکن بات محض اصول کی نہیں ہے۔ یہ مسئلہ گہرے اثرات کا حامل ہے اور جب تک اس طرح کے قابلِ مذمت واقعے کے اسباب پر غور نہ کیا جائے اصولی بات کافی نہ ہوگی۔
اس المناک واقعے سے پہلی بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ پولیس اور عدالت جیسے اداروں پر اعتماد کھو چکا ہے اور اس کا عدمِ اعتماد ایک ایسے مقام تک پہنچ چکا ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہوگیا ہے۔ یہ احساس اور یہ طرزِفکر کسی بھی معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے مترادف ہے اور فوری توجہ اور تدارک کا مطالبہ کرتا ہے۔
دوسری چیز جو اس اندوہناک حادثے سے سامنے آتی ہے، وہ ہمارے معاشرے میں انسانی جان کی حُرمت، عظمت اور قیمت سے تعلق رکھتی ہے۔ ایک چور، زانی اور راہ زن اپنے انتہائی قابلِ نفرت فعل کے باوجود ایک انسان ہے اور جب تک یہ تحقیق نہ کرلی جائے کہ وہ اس جرم کے ارتکاب پر کیوں مجبور ہوا، اس کی جان کا احترام دین کا مدعا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ ہمارے ابلاغِ عامہ کے ذرائع جس طرح اپنے ناظرین کو تشدد، ماردھاڑ اور رشتوں کا احترام نہ کرنے کی تعلیم دیتے ہیں، مثلاً ڈراموں اور ’حقیقت پسندانہ‘ فلموں میں شوہر کا بیوی پر اور بیوی کا شوہر پر تشدد کرنا، نام نہاد ’مردانگی‘ کے نام پر عورت پر ہاتھ اٹھانا اور پنجابی فلموں کے ہیرو کی طرح ہرلمحے ماردھاڑ کرنے کو اپنی برتری سمجھنا۔ اسی طرح مغربی فلمیں حتیٰ کہ ٹی وی پر بچوں کے لیے کارٹونوں میں بھی تشدد،مار دھاڑ اور قتل و غارت کے مناظر اس کثرت سے دکھائے جاتے ہیں کہ اگر ان کے سامنے کسی زندہ انسان کو جلایا بھی جا رہا ہو تو ان کی انسانیت نہ جاگتی ہے اورنہ تکلیف محسوس کرتی ہے۔ یہ بے حسی جس کا اظہار اس واقعے سے ہوا ہے براہِ راست ابلاغِ عامہ کی تجارتی پالیسی کا نتیجہ ہے، اور یہ ظاہر کرتاہے کہ انسانوں کے ضمیر کو بے حس بنانے یا انسانوں میں انسانیت جگانے میں ابلاغِ عامہ (اخبارات، رسائل، ٹی وی، انٹرنیٹ وغیرہ) مثبت اور منفی دونوں کردار ادا کرسکتے ہیں، جب کہ فی الوقت ان سب کا رخ بحیثیت مجموعی منفی اور تباہ کن رجحانات پیدا کرنے کی طرف نظر آتاہے۔
تیسری بات یہ واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ ریاست جب بھی اپنے رفاہی کردار سے مجرمانہ طور پر غافل ہوگی، ملک میں نہ صرف غربت، فاقہ، بدامنی بلکہ قتل و غارت کا دور دورہ ہوگا۔ اسلام نے دورِ جدید میںانسانیت کو جو تحفہ دیا ہے وہ اسلامی ریاست کا ایک فلاحی ریاست ہونا ہے۔ چنانچہ شریعت کی بنیاد پر قائم ہونے والی اسلامی ریاست، وہ ریاست ہے جس میں نہ صرف ایک انسان بلکہ کوئی بھی جان دار خواہ انسان ہو یا حیوان، اگر فاقے سے مرتا ہے تو اس کا خون ریاست کے سر پر ہوتا ہے۔ حضرت عمرؓ کا فرمان اس سلسلے میں ریاست کی ذمہ داری کے اصول کا اثبات کرتا ہے۔ اگر گذشتہ ۶۱ سال میں اس ملک کے بانی اور عوام کی خواہش، وعدے اور تصور کے پیشِ نظر پاکستان میں اسلامی فلاحی ریاست وجود میں آجاتی تو آج فاقے کی بنا پر خودکشی یا انسان سوزی کے یہ اندوہ ناک واقعات پیش نہ آتے۔ انسانوں کو زندہ جلانا نہ اسلام کی روایت ہے اور نہ شریعت کا مدعا۔ اسلام تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ قحط کے زمانے میں کسی باغ سے کوئی پھل یا کسی کا غلہ چرا لینے پر چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ حضرت عمرؓ نے قحط سالی کے دوران جس پالیسی پر عمل فرمایا، وہ حقیقت پسندی اور مقاصدِ شریعت کی پاس داری کی روشن مثال ہے۔
اس واقعے کا چوتھا قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ ملک میں جو سیاسی نظام رائج رہا ہے وہ بدعنوانی، عدمِ تحفظ اور غربت و امارت کے فاصلوں کو کم یا ختم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ اس طرح کے دردناک واقعات اس مجرمانہ غفلت، مفاد پرستی اور عوام کی ضروریات کا احساس نہ ہونے کی بنا پر ہی وجود میں آتے ہیں، اور اگر معاشرے کے ان ناسوروں کو بند نہ کیا جائے تو پھر یہی ناسور معاشرے کا سرطان بن جاتے ہیں۔
کیا مسئلے کا حل قراردادِ مذمت یا حکومت پر ذمہ داری ڈالنے سے ہوسکتا ہے، یا ہر باشعور شہری کو اپنے گریبان میں منہ ڈال کر یہ دیکھنا ہوگا کہ کم سے کم وقت میںکس طرح اس فتنے کا سدّباب کیا جائے؟ اس ضمن میں چار ایسے پہلو ہیں جنھیں ہم نظرانداز نہیں کرسکتے۔
اول: مسئلے کا روحانی اور دینی پہلو یہ مطالبہ کرتا ہے کہ عوام ہوں یا خواص، ہم نے گذشتہ ۶۱سال سے کسی فرد کو اسلام کی عادلانہ، مصلحانہ اور اخلاقی تعلیمات سے نہ آگاہ کیا اور نہ ایسا کرنے کو اچھا سمجھا، بلکہ اسلام سے دُوری اور فاصلے قائم کرنے کو اپنی ترقی پسندی، روشن خیالی اور جدیدیت قراردیا جس کے پھل ہمارے سامنے ہیں۔ اگر اس عرصے میں اس قوم کو انسانی رشتوں کا احترام، جان کی قدروقیمت کا احساس اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کا علم ہوتا اور وہ اخلاق جو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیاز تھے اور جن کی بنا پر قرآن کریم نے کہا تھا کہ ’’آپؐ اخلاق کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہیں‘‘، ہمارے نوجوانوں کے کردار و شخصیت کا حصہ ہوتے تو آج ملک کی فضا امن، محبت، سلامتی، حق، عدل اوررواداری سے بھری ہوتی۔
دوم: اگر ہم نے اسلامی عدل کو رائج کیا ہوتا اور شریعت کی بنیاد پر عدالتی، سیاسی، معاشی نظام اور تعلیم کو ڈھالا ہوتا تومعاشی تفاوت و تفریق، معاشی طبقاتی نظام، سیاسی انتشار اور اخلاقی زوال سے محفوظ ہوچکے ہوتے۔ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ آزاد اور ذمہ دار عدلیہ کو زندہ کیا جائے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو اور وہ قانونی اداروں کے ذریعے عدل و انصاف کے حصول کی کوشش کریں۔
سوم: فوری طور پر یہ کیا جائے کہ موجودہ حکومت زکوٰۃ کی وہ رقوم جو اس کے پاس امانت ہیں، مستحقین کو ایک شفاف اور ذمہ دار نظام کے تحت فراہم کرے تاکہ فاقہ، غربت اور محرومی کے احساس میں کمی ہو۔ اسلام وہ واحد دین ہے جو معاشرے سے احساسِ محرومی اور معاشی فاصلوں کو کم کرنے کے لیے اپنے نظامِ عبادت میں زکوٰۃ کو دین کا ایک رُکن قرار دیتا ہے تاکہ غربت اور فاقہ کشی کا خاتمہ کیا جاسکے۔ ظاہر ہے کہ ایمان کی تکمیل اسی وقت ہوسکتی ہے جب ارکانِ اسلام کو نہ صرف مانا جائے بلکہ ان پر عمل کیا جائے۔
چہارم: ہمارے ابلاغِ عامہ کا ذمہ دارانہ اور تعمیری کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اگر ٹی وی پر قتل و غارت اور فلموں میں انسانی لاشوں کو جلتے ہوئے دکھایا جاتا رہے گا، چاہے وہ ’حقیقت پسندی‘ کے نام پر ہو یا سنسنی پیدا کرنے کے لیے، تو ہم انسانوں کے احساسات کو مُردہ کردیں گے۔ اس لیے ابلاغ عامہ کو اخلاقی ضابطے کی پیروی کرنا ہوگی اور شعوری طور پر اسلامی اقدار اور قرآن وسنت کے مقرر کردہ انسانی حقوق کو ناظرین کے ذہن نشین کرنا ہوگا۔
ایک صحت مند، مثبت اور تعمیری رجحان ہی معاشرے سے نہ صرف ڈاکے اور چوری بلکہ خاندان میں ہونے والے بہت سے مظالم میں کمی کا باعث بن سکتا ہے۔ نتیجتاً معاشرتی اصلاح، انسانیت کے احترام، قانون کے احترام اور معاشی انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کیاجاسکتا ہے۔
یہ پہلا موقع ہے جب ڈاکوئوں کو عوامی عدالت میں یوں سزا دی گئی لیکن اس ملک میں جن سیاسی شاطروں نے غیردستوری اور غیرقانونی طور پر صدارت پر ڈاکا ڈالا، جن نام نہاد فرماں روائوں نے ملک کے خزانے کو ذاتی ہوس کی خاطر لوٹا، جن برسرِاقتدار افراد نے اس ملک کی مائوں، بیٹیوں، بہنوں کو ابلاغِ عامہ کے ذریعے بے حیا بنانے میں نام پیدا کیا، یا تعلیم کے ذریعے نوجوان نسل کو اس کی اصل روایات و ثقافت سے دُور کرنے میں قومی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا___ یہ اور اس قبیل کے رہزن اپنی سفاکی میں ان ڈاکوئوں سے کم قرار نہیں دیے جاسکتے جو چند سکّے اور زیور لوٹنے کے نتیجے میں اس انجام تک پہنچے۔ مسئلے کا حل تشدد اور جان سوزی نہیں بلکہ زاویۂ نگاہ کی تشکیلِ نو اور اسلام کے رفاہی، عادلانہ اور انسان دوست نظام کا فوری نفاذ ہے۔