جاپان کی علمی صورت حال اور یہاں کی جامعات اور علمی وتحقیقی اداروں میں ہونے والے علمی کاموں اور تحقیقا ت اور مطالعات کے بارے میں بیرون جاپان خصوصاً اردو دنیا اور برعظیم پاک و ہند کے باشندوں کو بہت کم علم ہوتا ہے۔ اردو زبان و ادب کے تعلق سے یہاں جو سر گر میاں مختلف صورتوں میں دیکھنے میں آتی ہیں، اور جن کی ایک دیرینہ اور مستقل روایت کم و بیش ۱۰۰ برس سے یہاں موجود ہے، زیر نظر سطور میں ،زبان و ادب اور پاکستان اور جنوبی ایشیا کے بارے میں یہاں ہونے والے علمی وتحقیقی مطالعات سے قطع نظر،اسلا م اور اسلامی دنیا کے تعلق سے ہونے والے تازہ مطالعات اور تحقیقی و علمی سر گرمیوں کا ایک سرسری سا جائزہ مقصود ہے۔
اگر چہ زیر نظر جائزے کا دائرہ گذشتہ چھے سات سال کی تحقیقات اور مطالعات پر مشتمل ہے لیکن سر سری طور پر شاید یہ تذکرہ بے محل نہ ہو گا کہ یہاں اسلامی دنیا یا مسلمانوں سے جاپانیوں کا رابطہ ایک تواتر کے ساتھ انیسویں صدی کے آخر میں شروع ہوتا ہوا نظر آتا ہے لیکن اسلا م کے بارے میں سوچنے اور سمجھنے کی علمی سطح پر کوششیں بیسویں صدی کی تیسری چوتھی دہائی سے نمایاں ہونے لگتی ہیں۔ اس عرصے میں ،ہمارے نقطۂ نظر سے ،مشہور انقلابی رہنما مولوی برکت اللہ بھوپالی کا قیامِ جاپان بھی، جو اگر چہ زیادہ طویل نہیں تھا لیکن پھر بھی یوں اہم ہے کہ انھوں نے یہاں رہ کر اپنی انقلابی سرگرمیاں جا ری رکھیں اور Islamic Fraternity کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا جو انگریزی میں شائع ہوتا تھا اور اس میں استعماری طاقتوںکے خلاف جذبات ابھارے جاتے تھے۔ انھوںنے ایسے چند نوجوانوں کو بھی اپنا ہم خیال بنا لیا جو نہ صرف استعمار کے خلاف سرگرم ہوئے بلکہ اسلام کے بھی قریب آگئے۔یوں یہاں نوجوانوں میں اسلا م کو سمجھنے کی ابتدائی چند کوششیں نظر آئیں۔
شومے اوکاوا اورپرو فیسر گامووہ اولین دانش ورہیں جنھوں نے باقاعدہ اسلام کو اپنے مطالعے کا موضوع بنایا۔اوکاوا تو ایک مشہور سیاست دان تھے ،لیکن انھوں نے اپنی دل چسپی کے تحت نہ صرف اسلام کا مطالعہ کیا بلکہ قرآن کا تر جمہ بھی جاپانی زبان میں کیاجس کی بنیادایک انگریزی ترجمۂ قرآن تھا جو ان کے پیش ِ نظر رہا۔اس وقت کسی سیاست دان کا مطالعۂ اسلام اور ترجمۂ قرآن معنی خیز تھا، جو دراصل اس حکمت کے تحت تھا کہ عالمی جنگوں کے درمیانی عرصے میں استعماری طاقتوں کے بڑھتے ہوئے عزائم اور ان کے مقابلے میں عالم ِاسلام میں ردِعمل کی فضا کو دیکھتے ہوئے یہاں یہ احساس پیدا ہوا کہ یہاں استعمار کے خلاف دنیاے اسلام سے ایک اتحاد اور ہم آہنگی کی فضا میں ایک محاذ تشکیل پانے سے جاپان بھی اپنا بچائو کر سکے گا۔پھر عالمِ اسلام کے نام سے ایک جاپانی رسالے کااجرا بھی شومے اوکاوا کے ایسے کاموں کا ایک اگلا قدم تھا جو ۱۹۴۰ء کی دہائی میںنکلتارہا، لیکن دوسری جانب دانش ور اورتعلیم یافتہ طبقے میں اسلام کا مطالعہ ایک علمی و تہذیبی تناظر میں شروع ہوا۔
پروفیسرگامونے اس جانب اولین پیش رفت کی اور اسلامکے نام سے ایک تعارفی کتاب جاپانی زبان میں تصنیف کی۔ انھیں فارسی اور اردو سے کامل واقفیت تھی۔فارسی میں گلستان کا ترجمہ ان سے منسوب ہے۔اردو کے یہ پرو فیسر ’ٹوکیو یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز‘ کے سربراہ رہ کر اُردو زبان و ادب کے لیے بیش بہا خدمات انجام دیتے رہے۔ باغ و بہار کا ان کا کیا ہوا ترجمہ، جس کا ایک عمدہ اڈیشن چند سال قبل مفید مقدمے اور اضافوں کے ساتھ اس یونی ورسٹی کے پروفیسر اسادا نے شائع کیا،جو ان کے اہم کاموں میں سے ایک ہے۔ پرو فیسرگامو حقیقی معنوں میں ایک اسکالر تھے، جن کا فیض یہ بھی تھا کہ انھوں نے اپنے ایسے لائق شاگرد پیدا کیے جنھوں نے اپنے اپنے زمانے اور اپنے اپنے حلقوں میں اردو زبان و ادب اور ساتھ ہی مطالعۂ اسلام کی ایک فضا قائم کی، خود بھی تحقیقی اور تصنیفی کام کیے اور پھر اگلی نسلوں کو بھی متا ثر کیا۔ان کے ایسے راست شاگردوں میں پروفیسر سوزوکی تاکیشی، پروفیسر کرویا ناگی اور پرو فیسر کان کاگایا خاصے اہم اور نام ور اسکالر ثابت ہوئے۔
پروفیسر سوزوکی اپنی بے مثال اور مؤثر خدمات کے باو صف،جو انھوں نے جاپان میں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے انجام دیں ،بجا طور پر ’جاپان کے باباے اردو‘ کے خطاب سے معروف ہوئے۔ پروفیسر کرو یا ناگی فارسی زبان و ادب اور مطالعۂ اسلام کے حوالے سے معروف ہوئے۔ انھوں نے ایک تحقیقی مجلہ انڈو ایران جاری کیا جواپنے موضوعات تاریخ و ادب کے لیے مخصوص رہا۔پرو فیسرکرویا ناگی کا ایک مبسوط تحقیقی مقالہ ’فکر اسلامی ہند‘ کے بارے میں خاصا مشہور ہوا جس میں انھوں نے ہندستان میں اسلامی فکر کے ارتقا کو پیش کیا اور با لخصوص مولانا مودودی اور اقبال کی فکر کے تجزیاتی مطالعے پر اس مقالے کو مرکوز رکھا۔ پروفیسر کان کا گا یا عربی، فارسی اور اُردو سے راست استفادہ کرتے ہوئے اپنے مقالات تحریر کرتے ہیں اور ان کی دل چسپی کا محور اسلام اور اسلامی علوم رہے ہیں۔انھوں نے متعدد تحقیقی مقالات ان موضوعات پر تحریرکیے ہیں جو انسائی کلوپیڈیا ،مجموعۂ مقالات اور تحقیقی مجلّوں میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ حال میں انھوں نے ایک اولین ضخیم اُردو-جاپانی لغت مرتب اور شائع کی ہے جو ان کی ۴۰سالہ شبانہ روز محنت، تلاش و جستجو کا ثمر ہے۔
ان علما کے معا صرین میں ایک بہت بڑا نام پرو فیسر ازتسو کا ہے جو فلسفۂ مذہب سے خاص نسبت رکھتے تھے اور ان کے بنیادی اسلامی موضوعات دل چسپی میں مذہب ،فلسفۂ تصوف نمایاں رہے۔وہ عربی اور انگریزی سے خوب واقف تھے اور چوں کہ زیادہ تر انھوں نے انگریزی زبان میں لکھا جس کی وجہ سے ان کی شہرت جاپان کے باہر بھی خاصی پھیل گئی۔انھوں نے قرآن کا ترجمہ بھی جاپانی زبان میں کیا اور اسلامی فلسفہ اور تصوف پر متعدد کتابیں اور مقالات تحریر کیے جن کی وجہ سے وہ عالمی شہرت کے حامل جاپانی اسکالر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ وہ ساری زندگی ٹوکیو کی ایک نجی یونی ورسٹی سے منسلک رہے اور وہاں مطالعۂ اسلام کا شعبہ قائم کر کے اس میں درس و تدریس اور مطالعہ و تحقیق کو فروغ دیتے رہے اور ایسی ایک نسل کی آبیاری کی جو ان کے بعد جاپان کی مختلف یونی ورسٹیوں اور علمی و تحقیقی اداروں سے منسلک ہو کر مطالعۂ اسلام اور تحقیق و تصنیف کو فروغ دینے میں آج جاپان بھر میں مستعد اور سرگرم ہے۔
اس سے قبل کہ یہاں اس نسل کا اور اس کی خدمات کا ذکر کیا جائے ،یہاں ایک اور ایسے اسکالر کا ذکر ضروری ہے جنھوں نے پروفیسر از تسو کی طرح اسلامی علوم کے مطالعہ و تحقیق کو فرو غ دینے میں مثالی اور مؤثر کردار ادا کیا ہے۔یہ پروفیسر ناکامورا کو جیرو ہیں جو ازتسو صاحب کے معاصر ہیں اور ان کا امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے ٹوکیو یونی ورسٹی میں، جو جاپان کی سب سے معیاری اور نام ور یونی ورسٹی ہے ،اسلامیات پڑھانے کے ساتھ ساتھ یہاں نہ صرف اس کا ایک باقا عدہ شعبہ قائم کیا بلکہ اس میںایک ’ ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی‘ کی بنیاد رکھی جو جاپان میں اپنی نو عیت کا اہم اور اوّلین ادارہ ہے۔ اس میں ایک عالی شان کتب خانہ بھی قائم ہوا جہاں دنیا بھر سے ہر زبان میں اسلامی علوم،تاریخ و تہذیب اور متعلقہ عنوانات پر کتابیں جمع کی گئیں اور یہاں سے ایک اعلیٰ سطحی تحقیقی مجلے کا اجرا عمل میں آیا ،جس میں یہاں کے اسکالر اپنے اپنے تحقیقی مقالات شائع کرتے ہیں۔یہ مقالات اسلامی تعلیمات، فکر، تاریخ،دنیاے اسلام کی معاشرت، صورت حال، سیاست و معیشت ،مفکرین ،قومی و سیا سی مسائل جیسے موضوعات پر مشتمل ہوتے ہیں۔
ٹوکیو یونی ورسٹی کے’ادارۂ تحقیقات ِاسلامی ‘کی طرح کیوتو یونی ورسٹی میں بھی، جو جاپان کے قدیم تاریخی اور روایتی شہر کی نہایت معروف اور معیاری یونی ورسٹی ہے ،ایک ’مرکزِ مطالعاتِ اسلامی‘ بھی اسلامی علوم اور فکر و تاریخ پر ہمہ جہت مطالعات میں مصروف ہے اور ایسے مطالعات کے تسلسل کو اب ربع صدی کا عرصہ گزر چکا ہے۔یہاں نسبتاً ایک کم عمر پروفیسر کوسوگی اس کے سربراہ اور تحقیقات و مطالعات کے محرک اور رہنما ہیں۔ عربی اور انگریزی پر بھی عبور رکھتے ہیں، جامعہ الازہر(قاہرہ)سے فارغ التحصیل ہیں اور وہیں دورانِ قیام نہ صرف وہ بلکہ ان کی جاپانی بیگم مشرف بہ اسلام ہو ئے ہیں۔ پروفیسرکوسوگی نہایت فعال ،متحرک اور قدیم وجدید علوم سے بہرہ مند انسان ہیں اور ان میں قائدانہ صلاحیتیں بھی عروج پر ہیں۔چنانچہ یہاں اس وقت یہ جاپان کے اسلامی اسکالرز کی تیسری نسل کے ممتاز ترین اسکالر ہیں، جن کی شبانہ روز محنت ، دل چسپی اور ذوق و شوق کے باعث نہ صرف ان کی اپنی یونی ورسٹی میں بلکہ ان کے زیرِاثر اور ان کی مثال کے پیشِ نظر جاپان بھر میں آج کل مطالعاتِ اسلامی میں ایک حوصلہ افزا، خوش آیند اور قابلِ رشک سرگرمی دیکھنے میں آرہی ہے ،جو روز افزوں بھی ہے۔ اب نوجوانوںکی ایک ایسی نسل تیار ہوچکی ہے جو ایک منصوبہ بندی کے ساتھ سارے جاپان میںجہاں جہاں اورجس جس جامعہ یاادارے میں شعبہ ہاے مطالعاتِ اسلامی قائم ہیں، نہ صرف یہ مستعد اور سرگرم ہے بلکہ جن جامعات میں اسلامیات کے شعبے یا درس و تدریس اور مطالعہ وتحقیق کی روایت موجود نہیں، وہاں یہ شعبۂ مطالعاتِ اسلامی قائم کر رہے ہیں اور اس طرح اس روایت کے فروغ میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔
آج مزید قابلِ رشک صورتِ حال یہ ہے کہ نوجوانوں کی ایک نسل ،جو ۹۰کی دہائی میں ابھری ہے، محققین کی چوتھی نسل ہے اور تیسری نسل کے لائق اور مستعد محققین پروفیسر کوسوگی، اتا گاکی یوزو، گوتو آکیرا،ساتوسوگوتاکی اورشیماداجویے کی زیرِسرپرستی و رہنمائی میںاسلامی مطالعات میں اس حد تک سرگرم دکھائی دیتی ہے کہ رشک آتا ہے،بلکہ اس تیسری اور چوتھی نسل نے آج کے جاپان میں مطالعاتِ اسلامی میں جو معیار،وسعت اور افادیت پیدا کی ہے وہ اس حد تک مثالی اور منفرد ہے کہ شاید اس کی نظیر کسی اور ملک میں تلاش نہ کی جا سکے۔یورپ کے متعدد تحقیقی ادارے اور جامعات بشمول ای جے بریل (لائیڈن) ، ایڈنبرا یونی ورسٹی کا مرکزِ تحقیقاتِ اسلامی یا ان کی طرح یورپ اور شمالی امریکا وکینیڈا(بمثل مونٹریال کاادارۂ تحقیقاتِ اسلامی) کے دیگر ادارے بھی اگرچہ نہایت وسیع اور مفید کام کر رہے ہیں لیکن جاپان میں تحقیقاتِ اسلامی کی جو نوعیت ہے اس کا مقابلہ شاید کہیں کسی ادارے یا جامعہ سے نہ کیا جاسکے۔
سب سے مختلف اور نہایت قابلِ تحسین کام جو یہاں گذشتہ دو دہائیوںکے عرصے میں دیکھنے میں آیا ہے وہ ایک مشترکہ تحقیقاتی منصوبہ بندی ہے، جس کو تشکیل دے کر یہاں خاص منصوبوں کے تحت مشترکہ منصوبے ترتیب دینے کا ایک سلسلہ شروع ہوا ہے جس کے تحت کوئی ایک موضوع ، کوئی ایک علاقہ ،کوئی ایک نہج ،یہاں طے کی جانے لگی ہے اور یہاں کے ایسے تمام ادارے اور جامعات اور ان سے منسلک اساتذہ اور ان کے طلبہ سب مل کر باہمی طور پر اتفاقِ راے سے ایک پنج سالہ منصوبہ تشکیل دیتے ہیں اور اس منصوبے کو ،جو کسی ایک موضوع پر مشتمل ہوتا ہے، جزوی طور پر تقسیم کر کے ہر ایک اپنے مزاج اور دائرۂ عمل کے تحت اپنے لیے اس کا کوئی جزو یا پہلو منتخب کرکے کام شروع کر دیتا ہے، اور پھر ہر سال یہ سب ایک جگہ ملتے ہیں اور سال بھر کی اپنی اپنی کارروائی ، کارگزاری اور روداد پیش کرتے ہیں، مسائل و امکان پر بحث ہوتی ہے اور پھر سب مل کر اس پر راے زنی کرتے ہیں اور پچھلے کام پر نظرثانی کی جاتی ہے اور اس کے بعد وہ اگلے سال یا اگلے مرحلے کے لیے مستعد ہوجاتے ہیں۔ اس طرح اب تک دو پنج سالہ منصوبے مکمل ہوچکے ہیں اوردو ایسے موضوعات پر اعلیٰ درجے کی تحقیقات سامنے آئی ہیںکہ ان موضوعات پر ایسے ہمہ جہت، مبسوط اور مفید کاموں کی مثال شاید اورنہ مل سکے۔
ان منصوبوں میں پہلا منصوبہ ۱۹۸۸ء میں شروع کیا گیا تھا ،جو ۱۹۹۳ء میں مکمل ہوا۔ اس کا بنیادی موضوع ’بلادِ اسلامیہ‘کہاجاسکتا ہے۔ اس منصوبے یا موضوع کے تحت ۱۳۰ اسکالروں نے اس میں شامل ہوکر اسلامی ممالک کے تاریخی شہروںکا تعمیراتی ،تاریخی، تہذیبی، عمرانی، علمی و ثقافتی مطالعہ کیا اور ہر اسکالر نے کسی ایک شہرپر اپنے ان مذکورہ موضوعات کے تحت ایک تحقیقی مقالہ تحریر کیا جو ہر لحاظ سے اس شہر کے بارے میں ایک قاموسی مقالے کی حیثیت رکھتا ہے، مثلاً بغداد، دمشق، تہران، اصفہان،مشہد،دہلی، لکھنؤ، قاہرہ، استنبول، مکّہ،مدینہ۔ گویا تمام اہم شہر اور ان کی تاریخ، تعمیر اور عمرانیات کا مطالعہ اس منصوبے کے تحت مکمل ہوگیا ہے اور یوںدو مختلف اور ضخیم جلدوں میں یہ مقالے شائع کر دیے گئے ہیں۔ مگر یہ سب جاپانی زبان میں ہیں۔
اس طرح جو دوسرا پنج سالہ تحقیقی منصوبہ جاپانی اسکالروں نے مکمل کیا، وہ ۱۹۹۷ء سے ۲۰۰۲ء تک ان کے پیشِ نظر رہا۔ اس منصوبے کے تحت دنیاے اسلام کا مطالعہ علاقائی حوالے سے کیا گیا اور اس مطالعے کے ذیل میں مختلف اسلامی ممالک کی تاریخ ، معاشرت، سیاست اور شہروں اور خطوں میں رونما ہونے والی اسلامی تحریکات بھی ان میںشامل ہیں۔چنانچہ ان مطالعات کو تصوف، شریعت، اسلامی ادارے، اوقاف،فتاویٰ، فرامین، خواتین، تعلیمات،معیشت و سیاست جیسے موضوعات کے تحت آٹھ موضوعاتی جلدوں میں تقسیم کیا گیااور پھر انھیں شائع کردیا گیا۔ یہ آٹھ جلدیں یہاں کے نام ور محققین کے عالمانہ محققانہ مقالات پر مشتمل ہیں اور یہ آٹھ جلدیں دراصل اپنے اپنے موضوعات کے تحت ایک مستند اور معیاری مآخذ کی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔ اس طرح کے چند دیگر منصوبے بھی مطالعاتِ اسلامی کے تعلق سے یہاں مکمل ہوئے ہیں جن میں سے دو کا تعلق اسلامی انسائی کلوپیڈیا کے منصوبوں سے ہے۔ حالیہ چند برسوںمیںیہاں وقفے وقفے سے دو ضخیم اسلامی انسائی کلوپیڈیا مختلف اداروںاور ناشروں نے شائع کیے ہیں جن میں لکھنے والوں کی اکثریت جاپانی اسکالروں پر مشتمل ہے اور کوئی اہم عنوان یا موضوع ایسا نہیں جسے ان میں تلاش نہ کیا جا سکے۔ یہ دونوں بہت اہتمام اور حسن و سلیقے سے شائع کیے گئے ہیں۔
ان تمام منصوبوں اور اجتماعی تحقیقات کے ساتھ ساتھ انفرادی سطح پر بھی تحقیقات کا اپنا اپنا تسلسل ان محققین نے جاری رکھا ہوا ہے۔ایسی تمام جامعات، جن میں اسلامیات کے شعبے موجود ہیں، ان سے منسلک اساتذہ اور اسکالر اپنے ذاتی کاموں میں مصروف ہیں اور اپنی تحقیقات کو مقالات اور کتابی صورت میں سامنے لاتے رہتے ہیں۔پھر ان نوجوانوںنے اپنی تحقیقات کو اشاعت سے قبل سیمی ناروںمیں پیش کرنے کا بھی ایک متواتر اہتمام کر رکھا ہے اور قریب قریب ہرمہینے کسی جامعہ میں یہ نوجوان باقاعدہ ایک سیمی نار یا مجلسِ مذاکرہ میں مل بیٹھتے ہیں اور ایک دومقالے یاکسی موضوع پر اپنے نتائج مطالعہ یا تحقیقات کو بحث و نظر کے لیے پیش کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل راقم الحروف کو اسی سلسلۂ سیمی نار کی ایک نشست میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ جس میں دونوجوانوں یوکوتا تاکا یوگو (کیوتو یونی ورسٹی) اور سویامانے (اوساکایونی ورسٹی ) نے علی الترتیب ’حسن البنا کی مذہبی فکر‘ اور ’مولانا مودودی کے تصورِاجتہاد‘ پر اپنے اپنے نتائجِ مطالعہ پیش کیے جن میں جاپان کے مختلف شہروں اور جامعات کے نوجوان اسکالروں نے شرکت کی اور خوب بحث و مباحثہ کیا۔ راقم کے لیے یہ تعجب خیز اور قابلِ رشک رہا کہ ان نوجوانوں نے ان موضوعات پر اور ان سے متعلقہ موضوعات پر بھر پور مطالعہ کر رکھا تھا اور قدیم و جدید مآخذ سے پوری طرح نہ صرف آشنا تھے بلکہ ان سے استفادہ بھی کر چکے تھے۔ سویاما نے تو اُردو کے پروفیسر ہیں اور اردو خوب بولتے اور لکھتے ہیں، اس لیے انھوں نے مولانامودودی کی تصانیف کو راست اردو میں پڑھا ہے اور سمجھا بھی ہے۔ اس سے قبل وہ مولانا مودودی پر ایک محققانہ مقالہ ’احیاے اسلام اور مولانا مودودی کا دارالاسلام‘ یہاں کے ایک تحقیقی جرنل میں لکھ چکے ہیںاور اس کے علاوہ مولانا کی ایک معروف تصنیف الجہاد فی السلام کے ابتدائی باب کا ترجمہ اور اس کے تجزیاتی مطالعے پر مشتمل ایک مقالہ یہاں کے ایک تحقیقی مجلے میں شائع کر چکے ہیں۔
ان سیمی ناروں یامجالسِ مذاکرہ کی بھی ایک خصوصیت یا انفرادیت یہاں دیکھنے میں آئی کہ بالعموم انھیں بھی موضوعاتی رخ دے دیا گیا ہے۔ چنانچہ مثلاً گذشتہ سال جتنے بھی سیمی نار جاپان میں اس نوجوان حلقے نے منعقد کیے ہیں، ان کا موضوع ’اسلامی فکر کی تشکیلِ جدید‘ تھا۔ یعنی عہدِحاضر میں فکرِ اسلامی میں جو تبدیلیاں آرہی ہیں ان کا محرک اور ان کی نوعیت کیا ہے؟
ان سیمی ناروں اور تحقیقی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ حالیہ چند برسوں میں جاپان میں اسلامی مطالعات کے ضمن میں ان تحقیقی مجلّوں کا ذکر بھی غیر متعلق نہیں ، جو یہاں سے شائع ہوتے ہیں۔ مختلف جامعات یا تحقیقی ادارے جو مجلے شائع کرتے ہیں وہ عالمی سطح کے تحقیقی مجلّوں کے معیار کے حامل ہیں اور ان میں عالمانہ تحقیقی مقالات ہی شائع کیے جاتے ہیں۔ ایک عرصہ قبل ’ایسوسی ایشن فار اسلامک اسٹڈیز ان جاپان‘ نامی ادارہ ایک مجلہ The World of Islamشائع کرتا رہا ہے، جس کے تقریباً ۵۰شمارے شائع ہوچکے ہیں۔ یہ دنیاے اسلام اور اسلامی موضوعات پر تحقیقی اور علمی مقالات کے لیے مخصوص تھا۔ اسی نوعیت کا ایک مجلہ Orient کے نام سے ٹوکیو سے شائع ہوتا ہے۔ آج کل چونکہ ایک لحاظ سے کیوتو یونی ورسٹی مطالعاتِ شرقیہ اور مطالعاتِ اسلامی میں پیش پیش اور زیادہ سرگرم و فعال ہے اس لیے یہاں تحقیقی اور عملی دونوں سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ اس وجہ سے ایک تو متعدد اسکالر کا مجمع یہاںاکٹھا ہو گیا ہے اور تحقیقی سرگرمیاں بھی کمال پر ہیں اور تحقیقی مجلے بھی یہاں بڑی آب و تاب سے نکل رہے ہیں۔ ان میں سے ایک مجلہ Asian And African Area Studies ہے ، جو سال میں ایک مرتبہ شائع ہوتا ہے اور یہ ۲۰۰۱ء سے جاری ہے۔ یہیں سے دوسرا تحقیقی مجلہ Journal of Islamic Area Studiesبھی شائع ہورہاہے ،جس کا اولین شمارہ ۲۰۰۷ء میں شائع ہوا ہے۔ پروفیسر سویا مانے کا مذکورہ مقالہ ’مولانا مودودی کا تصورِ اجتہاد‘ اس کے اولین شمارے میں شائع ہوا ہے۔
اپنی نوعیت کے لحاظ سے جاپان میں اسلام اور دنیاے اسلام کے بارے میں جو تحقیقی اور علمی کام ہوئے ہیں اور جس اتفاقِ باہمی اورمشترکہ منصوبہ بندی کے ساتھ انجام دیے جارہے ہیں، یہ ایک مثال ہے جس کی نظیر آج خاص طور پر خود اسلامی دنیا میں کہیں نظر نہیں آتی۔ ہماری جامعات اور تحقیقی ادارے اور خاص طور پر وہ ادارے جو مطالعاتِ اسلامی کے لیے وجود میں آئے ہیں ، کاش جاپان کی مثال کو سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کے تحت ایسے مفید کام انجام دے سکیں، اور جامعات جہاں پی ایچ ڈی اور ایم فل کی سطح پر تحقیقی کام ایک تسلسل سے ہو رہے ہیں،اتفاقِ باہمی اور مشترکہ و اجتماعی تحقیقی منصوبوں کی اہمیت اور افادیت کو سمجھتے ہوئے اس جانب سوچ سکیں۔