ڈاکٹر معین الدین عقیل


اقبال کی فکر اپنے موضوعات اور اپنے مطالب کے لحاظ سے ان عنوانات کا احاطہ کرتی ہے، جو دراصل ہمارے عقائد و نظریات اور ہماری تاریخ و تہذیب سے متعلق ہیں اور یہ اپنی قوم اور ملّت کو اپنے بنیادی عقائد اور تاریخ و تہذیب سے قریب تر کرنے کے مقاصد کی حامل بھی ہے۔اس اعتبار سے اپنی فکر اور پیغام کے لحاظ سے اقبال بیسویں صدی میں دنیائے اسلام کی سب سے اہم اور مؤثر شخصیت ثابت ہیں جنھیں محض عالمِ اسلام ہی نہیں مغرب میں بھی شناخت و تسلیم کیاگیاہے۔ اگرچہ ان کے اوّلین مخاطب ایک حد تک جنوبی ایشیا کے مسلمان رہے اور ان کی فکر کے اثرات یہاں کے مسلمانوں پر زیادہ واضح بھی ہیں، لیکن دنیائے اسلام کے دیگر ممالک میں اور وہاں کے افکار و تحریکات پر بھی ان کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔

اقبال نہ صرف گذشتہ صدی میں دنیائے اسلام کے منفرد اور ممتاز مفکر ہیں، بلکہ اپنے عہد میں ملّتِ اسلامیہ کے معمار بھی ہیں کیوں کہ اپنے وقت کے فکری اور جذباتی رجحان کو تبدیل کرنے، فکرِ اسلامی کو جمود سے نکالنے اور اس کی تشکیلِ جدید میں ان کا حصہ سب سے نمایاں ہے۔ پھربحیثیتِ مفکربھی اقبال کی یہ ایک بڑی کامیابی تھی کہ انھوں نے اپنی فکر اور شاعری کے ذریعے اپنے عہد کی فکری اور جذباتی زندگی میں بیداری اور اضطراب پیدا کردیا۔ ان کی فکر میں دنیائے اسلام کے تقریباً تمام اہم افکار و تحریکات کی بازگشت یاان پر تنقید محسوس ہوتی ہے۔ جن مسائل نے ملّتِ اسلامیہ کو انتشار اور اضطراب میں مبتلا کردیا تھا اور جو اسے اپنے اسلامی تشخص سے دُور کررہے تھے، اقبال کی بھرپور تنقید کا نشانہ بنے اور جو افکار، تحریکیں اور شخصیات دنیائے اسلام کی فلاح، اصلاح اور تعمیر و ترقی کے لیے کوشاں ہوئیں، اقبال نے ان کی تائید و ستائش کی۔ اس طرح اپنے مقصد اور پیغام کے لحاظ سے اقبال نے احیائے اسلام کے لیے نہ صرف ایک مربوط اور مستحکم فکر کی تشکیل کی بلکہ ملّتِ اسلامیہ میں دنیائے اسلام کی آزادی، خودمختاری اور بہتر مستقبل کی تعمیر کا احساس بھی پیدا کیا۔

جنوبی ایشیا کے مسلمانوں پر بالخصوص ان کا احسان یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنی فکر اور شاعری کے توسط سے ان میں قومی و ملّی شعور بیدار کیا، ان میں آزادی کی تڑپ اور ایک آزاد اسلامی مملکت کے قیام کا جذبہ پیدا کیا اور عہدِ جدید کے تقاضوں کے مطابق ایک مربوط اور مستقل نظامِ فکر تشکیل دیا تاکہ اس پر عمل پیرا ہوکر مسلمان اپنے انفرادی و اجتماعی کردار (یعنی خودی) کی تعمیر کرسکیں۔ اس لحاظ سے فکرِ اقبال کا مطالعہ دراصل ملّتِ اسلامیہ کے بنیادی عقائد و نظریات، اس کی تاریخ و تہذیب اور اس کے نشیب و فراز کا مطالعہ ہے، جو اگر جنوبی ایشیا کے تناظر میں کیا جائے تو اس کے توسط سے مسلمان اپنے جداگانہ ملّی و تہذیبی عناصر سے آگاہی اور ہندوستان کے سیاسی و معاشرتی ماحول میں اپنے علیحدہ قومی تشخص سے واقفیت حاصل کرسکتے ہیں، اور اپنے بنیادی عقائد و ملّی مقاصد کے تحت ایک آزاد اسلامی مملکت کے قیام اور اس میں ایک فلاحی و رفاہی اسلامی معاشرے کی تشکیل کے مراحل تک رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ اس اعتبار سے اقبال کی فکر اور شاعری کا مطالعہ، بالخصوص پاکستانی مسلمانوں کو جہاں ایک طرف اپنی تاریخ و تہذیب سے قریب تر کرتا ہے، وہیں پاکستان میں ایک مکمل اسلامی معاشرے کی تشکیل کی بنیادیں بھی فراہم کرتا ہے۔ یوں اسے ایک مستقل حیثیت میں ہمارے تعلیمی نصاب کا حصہ بننا چاہیے۔

اس وقت ہمارے تعلیمی نصاب میں جہاں جہاں اقبال کی شخصیت اور ان کا پیغام اور ان کی فکر کو، چاہے کسی پیرائے (شاعری، خطبات، مقالات، مکاتیب) میں بھی پیش کرنے کی طرف توجہ دی گئی ہے، وہ پورے طور پر قابلِ اطمینان نہیں اور ایسی کوششیں ہمارے نصابوں میں فکرِ اقبال کی شمولیت کے تقاضوں کو کماحقہٗ پورا نہیں کرتیں۔ اس ضمن میں اور اس حوالے سے جو جائزے لیے گئے یا مطالعات کیے گئے ہیں ان سے بھی بے اطمینانی کی یہی صورت ظاہر ہوتی ہے۔

یہ صرف اقبال کے افکار و خیالات کی حد تک ہی نہیں، ہمارا نصابِ تعلیم اپنی مجموعی حیثیت اور بہت واضح صورت میں نظریۂ پاکستان کے بنیادی عناصر، جن میں حصول و قیامِ پاکستان کے اغراض و مقاصد، مسلمانوں کی ملّی و تہذیبی فکر و تاریخ اور عقائد و افکار شامل ہیں اور اپنے قومی و ملّی تقاضوں کے مطابق جدید دنیا کا حصہ رہتے ہوئے ایک نظریاتی و فلاحی معاشرے کی تشکیل و تعمیر کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی طرف نہ اپنے طلبہ کی مناسب رہنمائی کرتا ہے، نہ انھیں بہ حیثیت پاکستانی، مؤثر صورت میں ملّتِ اسلامیہ کے اجتماعی وجود کا ایک حصہ قرار دیتا ہے۔

ابتدائی و ثانوی درجات کے نصاب کی چند کتب میں، بعض اسلاف کے تذکروں کے ساتھ، اقبال کی کچھ نظموں یا ان کی شخصیت و سوانح کے سرسری تعارف کو شامل کرکے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ نصاب پاکستانی قوم اور معاشرے کے بنیادی تقاضوں سے ہم آہنگ ہوگیا! لیکن ایسی تمام ’مخلصانہ یا مصلحت آمیز‘ کوششوں کے باوجود ہمارا نصاب اپنے مذکورہ حقیقی مقاصد و مزاج اور اپنے مفید اثرات سے بڑی حد تک عاری ہے۔ ہم ہر صوبے اور علاقے کے نصابوں میں اس متعلقہ صوبے کے اکابر اور جغرافیائی و علاقائی موضوعات کو زیادہ حاوی دیکھ سکتے ہیں۔ ایسے وفاقی نصابوں سے، اور خود ایسے صوبائی نصابوں سے بھی، جنھیں وفاقی حکومت تجویز یا مرتب کرتی رہی ہے یا کرتی ہے، زیادہ تر نصاب کے صوبائی یا علاقائی ہونے کا تاثر ابھرتا ہے، اور قومی و ملّی نقطۂ نظر سے یہی ہمارے نصاب کی بدقسمتی، محرومی یا کمزوری ہے۔ بعض تعلیمی سفارشات کے تجویز کردہ مناسب رہنما خطوط کے باوجود ذمہ دار وفاقی اور صوبائی نصابی مجلسیں اور ادارے ان خطوط سے ہم آہنگ موزوں و معیاری نصاب کی عدم موجودگی اور اس کی ترتیب میں مسلسل ناکامیابی اور اداروں اور  ان سے منسلک افراد کی ایک حد تک بے نیازی، عدم آمادگی اور نااہلی کی طرف ذہن کو منتقل کرتی ہے، جب کہ دوسری جانب ایسے اداروں سے منسلک بیش تر افراد کا خلوص شک و شبہ سے بالاتر ہے۔

چنانچہ اقبال کے ساتھ بھی یہی المیہ رہا ہے۔ اگر فکرِ اقبال کو نصاب کا حصہ بنانے کی طرف توجہ دی بھی گئی ہے تومحض ٹالنے کے لیے،  لہٰذا اس کا حق ادا نہ ہوسکا۔ یوں لگتا ہے کہ جہاں جہاں اور جس درجے میں اقبال کو نصاب میں شامل کیا گیا، محض ان کی معروف و دل چسپ نظموں یا اقبال کی شخصیت و سوانح کے سرسری تعارف کو شامل کرکے یہ سمجھ لیا گیا کہ نصاب یا موضوع کا حق ادا ہوگیا، اس طرح بات خانہ پُری سے آگے نہ بڑھی۔ ملّتِ اسلامیہ اور بالخصوص جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو درپیش قومی و سیاسی اور معاشرتی مسائل میں فکرِ اقبال سے جو رہنمائی حاصل ہوتی ہے یا تعمیر کردار اور ایک نظریاتی و فلاحی معاشرے کی تشکیل و تعمیر میں جس طرح اسے استعمال کیا جاسکتا ہے، ہمارا نصاب اس قسم کی مثال شاذ ہی پیش کرسکتا ہے۔ اور ایسی جو بھی اکّا دکّا مثالیں نظر آتی ہیں، وہ بعض اعلیٰ سطحی درجات یا استثنائی طور پر’ علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی‘ کی چند نصابی کتب میں ملتی ہیں۔ جب کہ ابتدائی اور بالخصوص ثانوی درجات کے نصابات، جہاں طلبہ کی تعداد نسبتاً زیادہ ہوتی ہے اور ان کا ذہن قدرے سادہ و ناپختہ اور جذب و قبول کا اہل ہوتا ہے، فکرِ اقبال کی شمولیت بہت زیادہ توجہ چاہتی ہے۔ پھر اس کی شمولیت کا انداز و نہج اور معیار تمام متعلقہ نصابوں میں، صوبائی و علاقائی حوالے سے قطع نظر، یکساں اہمیت کے ساتھ ہونا چاہیے اور یہ لحاظ بھی رہنا چاہیے کہ مثلاً اقبال کی ایک نظم کسی نصاب میں ثانوی درجے میں شامل ہے تو وہ اسی جگہ یا کسی اور جگہ کسی اعلیٰ یا کم تر درجے میں شامل نہ رہے۔ موجودہ نصابوں میں یہ تعجب خیز صورت رابطے کی کمی کے باعث موجود ہے کہ کسی جگہ اقبال کی ایک نظم ثانوی درجے میں شامل ہے، وہی نظم خود اسی جگہ یا کسی اعلیٰ ثانوی نصاب میں بلکہ ایک اور جگہ ڈگری سطح کے نصاب میںبھی نظر آتی ہے۔ ان کی نثر بھی کم و بیش اسی صورتِ حال سے دوچار ہوئی ہے (اور یہ صرف اقبال کے ساتھ ہی نہیں، دیگر قدیم و جدید مصنّفین کے ساتھ بھی ہوا ہے)۔

ان سارے مسائل اور اس صورتِ حال کا مداوا یا تلافی میرے خیال میں درجِ ذیل صورتوں میں ممکن ہے:

            ۱-         نصاب، بالخصوص وہ نصاب، جس کی نظریاتی و قومی اور معاشرتی اہمیت ہے یا جن میں متعلقہ موضوعات کو بہ آسانی پیش کیا جاسکتا ہے، صرف وفاقی سطح پر ترتیب دیا جائے اور پھر اسی کو سارے صوبوں میں رائج کیا جائے۔ محض مخصوص صورتوں میں جزوی موضوعات اور عنوانات ہر صوبے یا علاقے کی حد تک اضافی ہوں اور اس تمام نصاب کی ترتیب میں تمام صوبوں کو مناسب نمائندگی حاصل رہے۔

            ۲-         نصاب میں اقبالیات سے متعلق موضوعات اور فکرِ اقبال پر مشتمل مضامین اور نظم و نثر کو مرحلہ وار شامل کیا جانا چاہیے۔

            الف: پرائمری سطح تک اقبال کی ایسی منظومات شامل کی جائیں، جو سبق آموز ہوں اور جن سے انسانوں کے درمیان محبت و اخوت اور ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہوں۔

            ب:        ثانوی و اعلیٰ ثانوی سطح کے نصاب میں تعمیرِ سیرت، مسلمانوں کے شاندار ماضی، بہتر (اسلامی) معاشرے کے قیام میں فرد کے کردار اور اسلام کے قومی و تہذیبی تصورات جیسے موضوعات پر مؤثر اور دل چسپ تحریریں شامل ہوں۔

            ج:         ڈگری اور اعلیٰ سطحوں پر فکرِ اقبال کے اہم نکات اور مضامین کو عالمی اور دنیائے اسلام کے تناظر میں اس طرح پیش کیا جاناچاہیے کہ یہ مسلمانوں کے لیے عصری تقاضوں کی موجودگی میں ایک فلاحی معاشرے اور اسلامی مملکت کے قیام میں رہنما ثابت ہوسکیں۔

            ۳-         اگر نصاب کو محض وفاقی سطح پر مرتب کرکے نافذ کرنا قرینِ مصلحت نہ ہو تو اسے کم از کم مذکورہ بالا تجویز ۲ کے مطابق مرتب یا یکسانیت سے بچا جاسکتا ہے۔

یہاں یہ معروضات صرف اسکولوں اور کالجوں کی سطح پر رائج نصابات کے تعلق سے پیش کی گئی ہیں، جب کہ اگر ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح کے مطالعات و تحقیقات موضوع بنیں تو ان کے لیے ظاہر ہے ایسے نصابی تکلفات کے بجائے اس سطح کے تقاضوں اور ضرورتوں کے مطابق موضوعات اور منصوبوں کی بابت سوچا جانا چاہیے اور ان سطحات کے موضوعات کوفکرِ اقبال کے تناظر میں قوم و معاشرے کی اصلاح و بہتری اورتعمیر و ترقی کے مقاصد کے تحت طے کیاجانا چاہیے۔اس سطح پر محض احوال و آثار اور سرسری و سطحی جائزوںکواختیارکرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے ۔ان سطحوں کے مطالعات میں اگرمقررہ نصابی تربیت اورسرگرمیوں کا کسی طرح کا التزام رکھا جاتا ہے اور مطالعات و تحقیقات کسی طرح سے اور کسی بھی حوالے سے فکرِ اقبال سے منسلک ہوں، تو ان کا نصاب اور لائحہ عمل اقبال کی فکر اور مقاصد کو مجروح کرنے کا سبب نہ بنیں بلکہ مطالعات ِ اقبال کے لیے معاون اوران کے فروغ کا سبب بنیں۔

  • خلاصۂ بحث: اس وقت ہمارے تعلیمی نصاب میں جہاں جہاں اقبال کی شخصیت اور ان کا پیغام اور ان کی فکر کو، چاہے کسی پیرائے (شاعری، خطبات، مقالات، مکاتیب) میں بھی پیش کرنے کی طرف توجہ دی گئی ہے، وہ پورے طور پر قابلِ اطمینان نہیں اور ایسی کوششیں ہمارے نصابوں میں فکرِ اقبال کی شمولیت کے تقاضوں کو کماحقہٗ پورا نہیں کرتیں۔ اس ضمن میں اور اس حوالے سے جو جائزے لیے گئے یا مطالعات کیے گئے ہیں ان سے بھی بے اطمینانی کی یہی صورت ظاہر ہوتی ہے۔

اس صورتِ حال میں ہمیں نصاب کوقومی و ملی تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے  فوری طور پر اصلاح و ترمیم اور اہتمام کی ضرورت ہے۔ اس غرض سے نصاب، بالخصوص وہ نصاب، جس کی نظریاتی و قومی اور معاشرتی اہمیت ہے یا جن میں متعلقہ موضوعات کو بہ آسانی پیش کیا جاسکتا ہے، صرف وفاقی سطح پر ترتیب دیا جائے اور پھر اسی کو سارے صوبوں میں رائج کیا جائے۔ڈگری اور اعلیٰ سطحوں پر فکرِ اقبال کے اہم نکات اورمضامین کو عالمی اور دنیائے اسلام کے تناظر میں اس طرح پیش کیا جاناچاہیے کہ یہ مسلمانوں کے لیے عصری تقاضوں کی موجودگی میں ایک فلاحی معاشرے اور اسلامی مملکت کے قیام میں رہنما ثابت ہوسکیں۔

 اگراقبالیات کے مطالعات و تحقیقات موضوع بنیں تو ان کے لیے ظاہر ہے ایسے نصابی تکلفات کے بجائے اس سطح کے تقاضوں اور ضرورتوں کے مطابق موضوعات اور منصوبوں کی بابت سوچا جانا چاہیے اور ان سطحوں کے موضوعات کوفکر اقبال کے تناظر میں قوم و معاشرے کی اصلاح و بہتری اورتعمیر و ترقی کے مقاصد کے تحت طے کیاجانا چاہیے۔اس سطح پر محض احوال و آثار اور سرسری و سطحی جائزوںکو اختیارکرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے ۔ان سطحوں کے مطالعات میں اگرمقررہ نصابی تربیت اورسرگرمیوں کا کسی طرح کا التزام رکھا جاتا ہے اور مطالعات و تحقیقات کسی طرح سے اور کسی بھی حوالے سے فکرِ اقبال سے منسلک ہوں، تو ان کا نصاب اور لائحہ عمل اقبال کی فکر اور مقاصد کو مجروح کرنے کا سبب نہ بنیں بلکہ مطالعات ِ اقبال کے لیے معاون اوران کے فروغ کا سبب بنیں۔

فکرِاقبال میں جدید دنیاے اسلام کے تقریباً تمام مسائل، افکار اور تحریکات کی بازگشت پائی جاتی ہے۔ اقبال نے ایک تو جدید دنیاے اسلام کو پیش آنے والے مسائل پر اپنا نقطۂ نظر بیان کیا ہے، یا جو تحریکیں جدید دنیاے اسلام میں اصلاحی و تعمیری مقاصد کے تحت رُونما ہوئیں، ان کی تائید و تحسین کی ہے،یا ایسی شخصیات جن کے افکار دنیاے اسلام کو متاثر کرنے کا سبب بنے، اقبال کی فکر کو بھی کسی نہ کسی طور متاثر کرتی نظر آتی ہیں۔
بہت بڑے بڑے مسائل، افکار اور تحریکات کے علاوہ خود اقبال کے عہد میں بعض ایسی شخصیات، ان کے افکار اور ان کی تحریکیں پیدا ہوئیں، جن کی اقبال نے یا تو تائید و حمایت کی، یا  ان میں دل چسپی لی۔ ایسی شخصیات اور تحریکات کا مقصد چونکہ مجموعی طور پر احیاے اسلام رہا ہے، اس لیے اقبال نے احیاے اسلام، مسلمانوں کی فلاح و بہبود، ترقی اور بیداری کا ذکر کرتے ہوئے اور اپنی خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے ان شخصیات و تحریکات کی تعریف و تحسین کی، یا بطورِ مثال ان کا حوالہ دیا ہے۔ اس ضمن میں ایسی شخصیات، جنھوں نے اپنی راسخ فکر اور اپنی مفید کاوشوں سے دنیاے اسلام کو متاثر کیا، متعدد ہیں اور اقبال نے ان میں سے بیش تر کا ذکر کیا ہے۔ لیکن بعض شخصیات اور ان کے کارنامے اقبال کی نظروں میں زیادہ پسندیدہ اور زیادہ قابلِ توجہ رہے:

  •  ٹیپوسلطان: (۱۷۵۰ء-۱۷۹۹ء) ٹیپو سلطان کی شخصیت اور ان کی جدوجہد اقبال کے لیے بڑی پسندیدہ اور مثالی تھی۔ ٹیپو کی شہادت کو وہ دنیاے اسلام کی تاریخ میں بے حد اہم سمجھتے تھے۔ ان کے خیال میں ٹیپو کی شہادت کے بعد مسلمانوں کو ہندستان میں سیاسی نفوذ حاصل کرنے کی جو اُمید تھی، اس کا بھی خاتمہ ہوگیا۔۱  اور پھر تقریباً ربع صدی بعد ۲۰؍اکتوبر ۱۸۲۷ء ’جنگ نوارنیو‘ لڑی گئی، جس میں برطانوی اتحاد نے سلطنت عثمانیہ ترکی کا بحری بیڑا تباہ کر دیا، جس کے نتیجے میں اقبال کے خیال میں ایشیا میں مسلمانوں کا انحطاط اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔۲ اور اسی کے زیراثر وہ سمجھتے تھے کہ جدید اسلام اور اس کے مسائل ظہور میں آئے۔۳

اقبال کو ٹیپو سے جو عقیدت تھی، اس کا اظہار اس امر سے ہوتا ہے کہ جب وہ دسمبر ۱۹۲۸ء کے آخری ایام اور جنوری ۱۹۲۹ء کے اوائل میں جنوبی ہند کے سفر پر گئے، تو میسور میں بالخصوص ٹیپو کے مزار پر پہنچے۔۴
اسی عرصے میں اقبال ٹیپو پر ایک نظم لکھ کر اپنی کتاب جاوید نامہ میں شامل کرنا چاہتے تھے، جسے وہ اپنی زندگی کا ماحصل بنانا چاہتے تھے۔۵ چنانچہ جاوید نامہ    (اشاعت ۱۹۳۲ء)  میں اقبال نے زندگی کی حقیقت، موت اور شہادت کے موضوع پر جو خیالات بیان کیے ہیں،   وہ جاوید نامہ کے اہم مقامات میں سے ہیں۔ اس کے علاوہ اقبال نے ضربِ کلیم (اشاعت ۱۹۳۵ء) میں بھی ایک نظم ’سلطان ٹیپو کی وصیت‘ کے عنوان سے لکھی۔ اس نظم میں انھوں نے ٹیپو کی سیرت کے حوالے سے ان اصولوں کی وضاحت کی ہے، جن پر ٹیپو ساری عمر کاربند رہے۔

  • مہدی سوڈانی (۱۲؍اگست ۱۸۴۴ء- ۲۲جون ۱۸۸۵ء)۶ :ان کی شخصیت اور جدوجہد کے حوالے سے اقبال کی یہ آرزو رہی کہ مسلمانوں کے انتشار اور زوال کے اس دور میں کاش! کوئی ایسا شخص پیدا ہوجائے، جو اپنے پیغام سے قوم کے دل میں جہاد کا ولولہ پیدا کردے  ؎

سارباں یاراں بہ یثرب ما بہ نجد
آں حدی کو ناقہ را آرد بوجد

[سارباں دوست، مدینہ منورہ پہنچے ہوئے ہیں، اور ہم اس شہر مقدس سے دور نجد میں ہیں۔ وہ حُدی خواں کہاں ہے، جو ہمارے ناقے کو وجد میں لاکر (جلد وہاں پہنچادے)۔]
جاوید نامہ میں اقبال نے مہدی سوڈانی کے حوالے سے مسلمانوں کو جہاد اور سخت کوشی کی تلقین کی ہے اور عالمِ عرب کے سرکردہ رہنمائوں کو مخاطب کرکے سوال کیا ہے کہ: تم کب تک اس طرح تفرقے کا شکار بنے رہو گے؟ کب تک اپنی ذاتی ترقی کے لیے کوشاں رہو گے؟ کب تک ملّت اسلامیہ کے عمومی مفاد سے غافل رہو گے؟ اب وقت آگیا ہے کہ تم اپنے اندر سوز پیدا کرو اور اسلام کی سربلندی کے لیے متحد ہوجائو۔ اس مقام پر وہ سوڈان کے مسلمانوں سے بڑی اُمیدیں وابستہ کرتے ہوئے انھیں انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہونے کا پیغام دیتے ہیں۔ اسی ذیل میں وہ فرعون کی روح کے حوالے سے انگریز جنرل ہربرٹ کچنر سے سوال کرتے ہیں کہ مہدی سوڈانی کی قبر کو کھود کر اور ایک مردِ مومن کی نعش کی بے حُرمتی کرکے تمھاری قوم کی حکمت میں کیا اضافہ ہوا؟۷

  •  سعید حلیم پاشا (۱۸۶۳ء-۱۹۲۱ء): ۸ علامہ اقبال ان سے، بالخصوص قومیت اور تہذیب و معاشرت میں ان کے خیالات سے بہت متاثر تھے۔ چنانچہ اپنے خطبے The Principle of Movement in the Structure of Islam [الاجتہاد فی الاسلام] میں ترک وطن پرستوں کے لادینی نظریۂ سیاست کی تردید کرتے ہوئے سعید حلیم پاشا کے خیالات کی تائید اور تعریف کی ہے۔ خصوصاً قومیت کے تعلق سے ان کے یہ خیالات کہ: ’’اسلام کا کوئی وطن نہیں ہے___ اور نہ کسی ترکی اسلام کا کوئی وجود ہے، نہ عربی، ایرانی اور ہندی اسلام کا‘‘۔۹ اقبال کے خیال میں وہ نہایت ہی بابصیرت صاحب ِ قلم تھے ۔۱۰ اور ان کا طرزِ فکر سراسر اسلامی تھا۔۱۱

جاوید نامہ میں بھی اقبال نے ایسے خیالات پیش کیے ہیں کہ جن میں مغربی تہذیب سے گریز کا پیغام ملتا ہے۔ حلیم پاشا کے حوالے سے اقبال کہتے ہیں کہ تقلید ِمغرب کی بجاے مسلمانوں کو قرآن کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ قرآن کے مطالعے کے بعد یہ معلوم ہوجائے گا کہ: ’’اسلام ایک ایسا ضابطۂ حیات ہے، جو دنیا میں کسی اور قوم کے پاس نہیں۔ اگر مسلمان اس پر عمل کریں تو ساری دنیا ان کے قدموں پر جھک سکتی ہے‘‘۔ 
اسی موقعے پر انھوں نے ترکوں کی اس روش پر تنقید کی کہ: ’’وہ قرآن سے بیگانہ ہوکر مغرب کی تقلید کر رہے ہیں‘‘۔ آگے چل کر ایک اور مقام پر اقبال، حلیم پاشا کے توسط سے علما اور صوفیہ کو ان کی اہمیت جتاتے ہوئے انھیں مسلمانوں کو ماضی سے روشناس کرانے اور انھیں ان کے مقام اور مقاصد سے آگاہ کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔۱۲

  • مفتی عالم جان بارودی (۱۸۵۷ء-۱۹۲۱ء): ۱۳ اقبال ان کی مساعی کے بھی قدردان تھے۔ انھوں نے روس میں مسلمانانِ وسط ایشیا کی فکری رہنمائی کی اور مسلمانوں کی پستی کا علاج جدید تعلیم کو قرار دیا تھا۔۱۴  اقبال کا خیال تھا کہ وہ غالباً محمد بن عبدالوہاب سے متاثر تھے۔۱۵ چونکہ ان کے بارے میں اقبال کی معلومات محدود تھیں، اس لیے انھیں تفصیلات معلوم کرنے کا اشتیاق رہا۔ مولانا سیّد سلیمان ندوی سے انھوں نے اس ضمن میں استفسار کیا تھا کہ مفتی عالم جان کی تحریک کی اصل غایت کیا تھی؟ یہ محض ایک تعلیمی تحریک تھی یا اس کا مقصود مذہبی انقلاب بھی تھا؟۱۶ چنانچہ رسالہ معارف  (اعظم گڑھ، مئی ۱۹۲۲ء) میں مفتی عالم جان کے حالات پر مشتمل ایک مضمون ’علماے روس‘شائع ہوا تو اقبال نے سیّد سلیمان ندوی کو لکھا کہ وہ ’میری آرزو سے بڑھ کر ہے‘۔۱۷

اقبال کو اُس تحریک ِ انقلاب سے بھی دل چسپی رہی جو چینی ترکستان کے مسلمانوں میں نمودار ہورہی تھی۔ ۱۹۱۴ء میں وہاں چینی منصفوں کے تقرر اور حکومت کی طرف سے وہاں کی آبادی پر، جو تقریباً سب مسلمانوں پر مشتمل تھی، چینی زبان مسلط کرنے کی وجہ سے بڑی بے چینی پھیل گئی تھی۔ مسلمان یہاں عرصے سے چینیوں کے ظلم و ستم برداشت کرتے آئے تھے۔ اس کے نتیجے میں بعد میں جو بغاوت ۱۹۳۰ء میں شروع ہوئی، اس کی قیادت ماچونگ ینگ نامی ایک کم سن مسلمان نے کی۔ اقبال اس کی جدوجہد کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ: ’’چنگیز، تیمور اور بابر کا وطن اب بھی اعلیٰ درجے کا بہادر سپہ سالار پیدا کرسکتا ہے‘‘۔۱۸اقبال سمجھتے تھے کہ: ’’اس تحریک کی کامیابی سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ چینی ترکستان میں، جہاں مسلمانوں کی تعداد تقریباً ۹۹ فی صد ہے، ایک خوش حال اور مستحکم اسلامی مملکت قائم ہوجائے گی اور اس طرح وہاں کے مسلمان ہمیشہ کے لیے چینیوں کے برسوں کے ظلم و ستم سے نجات حاصل کرسکیں گے۔۱۹اور اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ہندستان اور روس کے درمیان ایک اور اسلامی مملکت کے قیام سے اشتراکیت، مادہ پرستی، دہریت کے خطرات اگر وسط ایشیا سے بالکل نہ مٹے تو کم از کم ہندستان کی سرحدوں سے زیادہ دُور ہوجائیں گے۔۲۰

  • ابومحمد مصلح (۱۸۷۸ء- ۳۰ستمبر۱۹۶۸ء):۲۱  اقبال کو ہندستان کے بعض زعما کی اصلاحی، تبلیغی اور احیائی مساعی سے بھی دل چسپی رہی،مثلاً مولوی ابومحمد مصلح کی تحریک ِ قرآن جس کا مقصد قرآنِ حکیم کی تعلیم، معنی اور مطلب کے ساتھ عام اور لازمی کرنا تھا۔ انھوں نے اس کی تائید و تحسین کی تھی۔۲۲

ابومحمد مصلح کے نام اپنے ایک خط میں انھوں نے لکھا تھا کہ قرآنی تحریک کا مقصد مبارک ہے۔ اس زمانے میں قرآن کا علم ہندستان سے مفقود ہوتا جارہا ہے۔ضرورت ہے کہ مسلمانوں میں نئی زندگی پیدا کی جائے۔ کیا عجب کہ آپ کی تحریک بارآور ہو اور مسلمانوں میں قوتِ عمل پھر عود کرآئے۔۲۳  اسی ضمن میں اقبال نے اُن کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جو وہ ترویجِ تعلیم قرآن کے سلسلے میں انجام دیتے رہے۔ انھیں تحریک قرآن کی رفتار سے بھی دل چسپی رہی۔۲۴
ان کے ایک خط سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے فرزند جاوید اقبال کے لیے وہ ان کا مرتب کیا ہوا قاعدہ حاصل کرنا چاہتے تھے، جس میں، ان کی تحریر کے مطابق، بچوں کو قرآن پڑھانے کا نیا طریقہ ایجاد کیا گیا تھا۔۲۵

  • سیّد ابوالاعلٰی مودودی (۱۹۰۳ء-۱۹۷۹ء): اقبال نے مولانا مودودی کی تحریک کو بھی، جو گو کہ ابھی اپنے تشکیلی اور ابتدائی مراحل میں تھی۔ ان کی تصانیف بالخصوص الجہاد فی الاسلام اور تنقیحات اور ان کے مجلے ترجمان القرآن  میں ان کی تحریروں سے اس تحریک کا آغاز ہوچکا تھا،۲۶اپنی آخری عمر میں اپنی توقعات کا انھیں مرکز بنالیا تھا۔ اس عرصے میں ان کی یہ خواہش ہوگئی تھی کہ ایک ایسا ادارہ قائم کریں اور کچھ ایسے افراد کو جو جدید علوم سے بہرہ ور ہوں چند ایسے لوگوں کے ساتھ یک جا کردیں، جنھیں دینی علوم میں مہارت حاصل ہو، تاکہ یہ لوگ اپنے علم اور اپنے قلم سے اسلامی تمدن کے احیا کے لیے کوشاں ہوسکیں۔۲۷

اقبال چاہتے تھے کہ کسی پُرسکون مقام پر ایک ایسی مختصر سی بستی کی بنیاد رکھی جائے، جہاں خالص اسلامی ماحول پیدا کیا جائے اور وہاں بہترین دل و دماغ کے نوجوانوں کو ایسی تربیت دی جائے، جس سے ان میں مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کی اہلیت پیدا ہوجائے۔۲۸ چنانچہ ان کی ا س خواہش کے پیش نظر چودھری نیاز علی خان نے پٹھان کوٹ کی اپنی اراضی میں سے ایک قطعہ اس کے لیے وقف کر دیا اور اقبال سے باہمی صلاح و مشورہ کے بعد۲۹مولانا مودودی کو، جو اس وقت حیدرآباد دکن میں مقیم تھے، پٹھان کوٹ منتقل ہونے کی دعوت دی۔ چنانچہ مولانا مودودی مارچ ۱۹۳۸ء میں نقل مکانی کرکے پٹھان کوٹ پہنچ گئے۔
اقبال، مولانا مودودی کے خیالات سے بڑی حد تک متفق تھے اور ترجمان القرآن میں ان کے مضامین کی تحسین و تعریف کرتے تھے۔۳۰علمی کاموں میں اس وقت اقبال کے پیش نظر اسلامی قانون اور فقہ کی تدوین کا کام تھا، اور وہ خود بھی اس کام کے دوران گاہے گاہے دارالاسلام (پٹھان کوٹ) جانے کا ارادہ رکھتے تھے۔۳۱  لیکن اقبال کی زندگی میں وہ مقصد ابتدائی مرحلے سے آگے نہ بڑھ سکا، جسے کچھ عرصے بعد جماعت اسلامی کے قیام اور تحریک ِ اسلامی کے فروغ سے مولانا مودودی نے پورا کرنے کی جدوجہد کی۔
_______________
۱-    حرفِ اقبال، مرتبہ: لطیف احمد خان شیروانی (لاہور، ۱۹۵۵ء) ،ص ۱۴۲
۲-    ایضاً، ص ۱۴۷،    ۳-ایضاً،ص ۱۴۲
۴-    گفتارِ اقبال، مرتبہ: محمد رفیق افضل (لاہور، ۱۹۶۹ء)، ص ۲۲۹؛ انوارِ اقبال ، مرتبہ: بشیراحمد ڈار (کراچی، ۱۹۶۷ء)، ص ۲۲۷- ۲۲۸
۵-    اقبال بنام محمد جمیل (۴؍اگست ۱۹۲۹ء) مشمولہ اقبال نامہ، مرتبہ: شیخ عطاء اللہ ، حصہ دوم (لاہور، ۱۹۵۱ء) ، ص ۹۱-۹۳؛ اسی مکتوب میں اقبال نے مکتوب الیہ سے ٹیپو کے ایک روزنامچے کا علم ہونے پر اسے دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔
۶-    سیّد محمد احمد، سوڈان کے ایک مصلح، مجاہد اور درویشوں کی تحریک کے بانی تھے۔ سوڈان کو انگریزوں اور خدیو مصر سے آزاد کرایا اور ایک فلاحی مملکت قائم کرنے کی کوشش کی۔ ان کی وفات کے بعد عبداللہ بن محمد نے ان کے خلیفہ کے طور پر ۱۸۸۵ء سے ۱۸۹۸ء تک حکومت کی ذمہ داریاں سنبھالیں، لیکن مصری حکومت نے برطانوی جنرل ہربرٹ کچنر کی قیادت میں ۱۸۹۸ء میں سوڈان پر حملہ کرکے اس اقتدار کو ختم کر دیا اور سوڈان پر پھر مصری اور برطانوی تسلط قائم ہوگیا۔
۷-    کلیاتِ اقبال (فارسی) اشاعت دوم (لاہور، ۱۹۷۵ء) ، ص ۶۸۴-۶۸۶
۸-    دولت عثمانیہ کے مصری نژاد وزیراعظم، ممتاز مدبر، سیاست دان اور احیاے اسلام کے موضوع پر متعدد کتابوں کے مصنف اور مغربی سیاست، تہذیب اور قومیت کے مخالف اور اسلامی تہذیب، اتحاد اور اخلاقیات کے مبلغ۔ ان کا عقیدہ تھا کہ: ’’مسلمانوں کا صرف وہی وطن ہے جہاں شریعت نافذ ہو‘‘۔
۹-    The Reconstruction of Religious Thought in Islam ، (لاہور، ۱۹۵۱ء)، ص ۱۵۶
۱۰-    ایضاً        ۱۱- ایضاً، ص ۱۵۶-۱۵۷
۱۲-    کلیاتِ اقبال (فارسی)، ص ۶۵۳- ۶۵۴، ۶۶۴- ۶۶۵
۱۳-    قازان (وسط ایشیا) میں جدید طرز کی اسلامی یونی ورسٹی کے بانی۔ اس درس گاہ نے روسی مسلمانوں کے انقلاب و ترقی میں نمایاں اثر پیدا کیا۔ مسلمانوں کی بیداری کی سرگرمیوں کے نتیجے میں زار کی حکومت نے انھیں قیدوبند کی صعوبتیں دیں، لیکن ان کی تحریکات کو نقصان نہ پہنچا۔ سلطان عبدالمجید خاں نے ان کی رہائی کے لیے کوشش کی۔ چنانچہ زار نے انھیں ترکی بھیج دیا، وہاں سے وہ ۱۹۱۱ء میں روس لوٹے اور سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینا شروع کیا۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں All Russia Muslim Democratic Party قائم ہوئی۔ ۱۹۱۷ء کے اشتراکی انقلابِ روس کا انھوں نے خیرمقدم کیا۔ لیکن ان کے بڑھتے ہوئے اثر کو دیکھ کر اشتراکیوں نے ان کو قید کر دیا۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد رہائی ملی تو  مئی ۱۹۱۸ء میں روسی مسلمانوں کے ایک نمایندہ وفد میں شریک ہوکر ماسکو گئے اور اشتراکی اکابر کے سامنے مسلمانوں کا یہ مطالبہ پیش کیا کہ مسلمانوں کے اداروں کو مداخلت سے پاک رکھا جائے۔
۱۴-    حرفِ اقبال، ص ۱۴۸    ۱۵- ایضاً
۱۶-    مکتوب بنام ، سیّد سلیمان ندوی، مؤرخہ یکم مئی ۱۹۲۴ء ، مشمولہ اقبال نامہ، مرتبہ : شیخ عطاء اللہ،    حصہ اوّل (لاہور، ۱۹۵۱ء) ، ص ۱۲۸-۱۲۹
۱۷-    مکتوب مؤرخہ ۲۹ مئی ۱۹۲۲ء، مشمولہ ایضاً، ص ۱۱۸
۱۸-    Speeches, Writings and Statements of Iqbal مرتبہ: لطیف احمد شیروانی (لاہور، ۱۹۷۷ء)،  ص ۲۲۸
۱۹-    ایضاً، ص ۲۳۰    ۲۰- ایضاً
۲۱-    نام وزیر علی خاں، کنیت ابومحمد مصلح تھی۔ ۱۹۰۰ء میں دیوبند گئے۔ مولانا انورشاہ کشمیری سے تلمذ حاصل ہوا۔ تحریک ِ خلافت میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ سہسرام ہی سے اپنی اصلاحی تحریک کا آغاز کیا اور الاصلاح  کے نام سے رسالہ جاری کیا۔ حیدرآباد دکن منتقل ہوگئے، جہاں ’ادارئہ عالم گیر تحریک قرآنی‘ قائم کیا اور اس کے ساتھ ساتھ رسالہ ترجمان القرآن  جاری کیا۔ ۱۹۳۶ء میں لاہور منتقل ہوئے اور علامہ اقبال کے انتقال (اپریل ۱۹۳۸ء)تک وہیں رہے اور پھر حیدرآباد دکن چلے گئے۔ وہاں سے قرآنی دنیا کے نام سے انگریزی اور اُردو میں مجلہ جاری کیا۔ قرآن کی تعلیم کو عام کرنے میں زندگی بھر مستعدی سے حصہ لیا۔ مستعد، حوصلہ مند، منتظم اور دین دار عالم تھے۔ (ماہنامہ ذکریٰ، رام پور، اپریل ۱۹۸۲ء، ص۵۲-۵۴)، ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی اقبال کی صحبت میں، (لاہور، ۱۹۷۷ء)،ص ۴۶۶-۴۶۷، ابومحمد مصلح اقبال اور قرآن ، (لاہور ، سنہ ندارد)
۲۲-    کچھ تفصیلات کے لیے : اقبال اور قرآن، ص ۱۳-۱۴
۲۳-    مکتوب، مشمولہ ایضاً، ص ۱۵    ۲۴- ایضاً، ص ۱۸
۲۵-    ’’مجھے اس کتاب کی ضرورت ہے، جس میں انھوں نے بچوں کو قرآن پڑھانے کا نیا طریقہ ایجاد کیا ہے۔ اس قاعدے کی جاوید کے لیے ضرورت ہے‘‘۔ مکتوب بنام ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی، مؤرخہ ۶؍اکتوبر ۱۹۳۶ء، مشمولہ اقبال نامہ، حصہ دوم، ص ۳۳۶-۳۴۰۔غالباً یہ قاعدہ قرآنِ مجید معہ بچوں کی تفسیر کے نام سے شائع ہوا۔ اس کا ذکر ابومحمد مصلح نے کیا ہے۔ (ص ۱۷-۱۸)
۲۶-    سیّدابوالاعلیٰ مودودی، مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش، حصہ سوم (پٹھان کوٹ، بارسوم) ، ص۴
۲۷-    مکتوب، بنام مصطفیٰ المراغی، مؤرخہ ۵؍اگست ۱۹۳۶ء، مشمولہ خطوطِ اقبال،مرتبہ: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی (لاہور، ۱۹۷۶ء)، ص ۲۸۵؛ نیز مکتوب دیگر ، مشمولہ ، اقبال نامہ ، حصہ اوّل، ص ۲۵۱-۲۵۳
۲۸-    چودھری نیاز علی خان ، دارالاسلام کی حقیقت بحوالہ قاضی افضل حق قرشی، ’نادراتِ اقبال‘ مشمولہ صحیفہ (لاہور)، اقبال نمبر ، ۱۹۷۳ء، حصہ اوّل، ص ۲۲۹-۲۳۰۔
۲۹-    جس کی تفصیل ایضاً، ص ۲۳۰، سیّد نذیر نیازی ’علامہ اقبال کی دعوت پر مولانا مودودی پنجاب میں‘ مشمولہ ہفت روزہ ایشیا ، لاہور، ۱۷؍اپریل ۱۹۶۹ء، نیز ’’ کیا مولانا مودودی علامہ اقبال کی دعوت پر پنجاب آئے؟‘‘ (مشمولہ ایضاً، ۱۹؍اپریل ۱۹۷۰ء)۔
۳۰-    مکتوبِ مولانا مودودی، مشمولہ سیّد اسعد گیلانی، مولانا مودودی سے ملیے، (سرگودھا، ۱۹۶۲ء)، ص ۳۳۸     ۳۱-  ایضاً، ص ۲۵۳-۲۵۶
 

جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی آمد اور یہاں ان کے ایک نئے اور مختلف معاشرے کی تشکیل کے مراحل میں، اسلامی تہذیب اور ہندو تہذیب کے باہمی اختلافات کے باوجود،جس نئے معاشرے نے جنم لیا، اس میں ان دونوں تہذیبوں کے اتصال اور ملاپ کے قوی امکانات موجود تھے۔  چنانچہ ایک طویل عرصے تک باہم ساتھ رہنے کی وجہ سے ان دونوں کے درمیان زندگی کے تمام ہی پہلوئوں میں اختلاف و اشتراک پیدا ہوا اور یوں ایک ایسے نئے معاشرے نے جنم لیا، جس نے ایک یکسر مخلوط معاشرے کی شکل اختیار کی۔

اس نئے معاشرے میں برہمن اسرارِ توحید سیکھنے اور قرآن کا درس دینے کے قابل ہوگئے اور مسلمان علما ہندوئوں کے علوم کے درس و تدریس اور تراجم میں مصروف ہوگئے۔۱  یہی دور تھا کہ جب ہندو مسلم بھائی بھائی کے نظریے کو فروغ حاصل ہوا۔ اس نظریے کے حامیوں نے ، جو زیادہ تر ہندو یا ہندوئوں سے متاثر مسلمان تھے، اس خیال کو عام کرنا شروع کیا کہ کفرواسلام ایک ہی دریا کے دو دھارے ہیں جو ایک انتہا پر باہم مل جاتے ہیں۔ اس صورتِ حال سے ہندوئوں نے بہت فائدہ اُٹھایا۔ ایک جانب انھوں نے ہندودھرم کے احیا کی جانب قدم بڑھائے اور دوسری جانب مسلمانوں کو باقاعدہ مرتد کرنا شروع کیا۔۲

اسی عرصے میں تصوف کے فروغ اور اس کی مقبولیت نے مزید ستم ڈھایا۔ صوفیا نے صلح کُل کا مشرب عام کیا جس نے ’رام‘ اور’ رحیم‘ کے فرق کو مٹانے میں بڑا مؤثر کردار ادا کیا۔

قرونِ وسطیٰ کے اس زمانے میں کہ جب ہندستان میں ’بھگتی تحریک‘کا اثر پھیل رہا تھا اور ’تصوف‘ اور’ ویدانت‘ کے پیروکار مذہب کا نام لے کر عوام میں مذاہب کے باہمی اشتراک اور ’رام‘ اور ’رحیم‘ کے ایک ہونے کا پیغام دے رہے تھے، ہندوئوں نے مسلمان فاتحین اور حکمرانوں کی رضا اور خوش نودی کے لیے حمد، نعت اور سلام و مرثیے اور منقبتیں لکھنی شروع کیں۔ فارسی زبان کو اختیار کیا، قرآن کے منظوم ترجمے کرنے لگے اور صوفیا اور بزرگوں کی محفلوں میں شرکت اور ان کے مزاروں پر حاضری دینے کو خود اپنے لیے حاجت روائی اور نجات کا وسیلہ سمجھنے لگے۔ اس کے جواب میں مسلمانوں نے رام، کرشن اور شیو اور گنگا جمنا پر نظمیں لکھنی شروع کیں۔ ڈھولک کی تھاپ پر درگاہوں اور خانقاہوں میں سماع اور قوالی کو ثواب سمجھ کر اپنا لیا اور بسنت کی تقریبات اہتمام سے منائی جانے لگیں۔ مسلمان حکمرانوں نے ’رام لِیلا‘ اور ’دَسَہرے‘ کے تیوہارکو عوامی انداز میں سرکاری سطح پر رائج کیا۔    جو ’لطف‘ انھیں ’بھگتی تحریک‘ کے زمانے میں کیرتن اور بھجن کے عوامی ناچ گانوں میں آتا تھا وہ بعد میں دلی اور لکھنؤ کے امام باڑوں اور کربلاے معلی میں سوزخوانی کی محفلوں اور تعزیہ نکالنے میں ملنے لگا۔

اسی زمانے سے بعض جگہ تو ہندوئوں اور مسلمانوں کی آپس کی شادیاں، یا پھر ایک دوسرے کی شادی کی تقریبات اور تیج تیوہاروں میں باہمی شرکت اور ہولی دیوالی مشترکہ طور پر منائی جانے لگیں۔ یہ سماجی قربت انھیں اور قریب تر کرنے کا باعث بنی۔ چنانچہ مسلمان صوفیا نے ہندو پنڈتوں سے سنسکرت زبان اور الٰہیات کے درس لینے شروع کر دیے اور ہندو جوگیوں کی پیروی میں رہبانیت کو نجات کا راستہ سمجھ کر اسے اختیار کرنے لگے، تو ان کی تہذیب و ثقافت، تمدن اور فکروعمل، یہاں تک کہ ان کے عقائد کیسے متاثر نہ ہوتے۔ چنانچہ اس وقت کے صوفیا میں حددرجہ تعظیم کے احساس کے تحت آں حضوؐر کی ذات کے مافوق الفطرت ہونے کا خیال بھی عام ہوگیا تھا۔۳ اسی طرح تصوف کے زیراثر دیگر شعبہ ہاے حیات کی مانند اُردو ادب اور خاص طور پر اُردو شاعری نے عہدِ قدیم کے ہندستانی ادب سے ہرسطح پر اثرات قبول کیے۴ اور اس بنیاد پر اُردو نعت بھی ان خیالات و مضامین سے خود کو محفوظ نہ رکھ سکی، جو اس وقت کے ہندستانی ادب اور ’کیرتن‘ اور ’بھجنوں‘ میں پیش کیے جاتے تھے۔

اس صورتِ حال میں، جس کا آغاز مسلمانوں کی یہاں آمد کے وقت ہی سے شروع ہوچکا تھا لیکن ’بھگتی تحریک‘ کے دور میں اسے گہری بنیادیں اور وسعت حاصل ہوگئی۔ پھر مغل شہنشاہ  جلال الدین اکبر (م: ۱۶۰۵ء) کی خام خیالی نے’دین الٰہی‘ کی حکمت کے تحت اسلام کے عقیدے اور معاشرتی نظام کو بہت بُری طرح متاثر کیا۔ ہندو اکثریت کو خوش کرنے کے لیے اس نے ان کے بہت سے عقائد اور رسوم کو اختیار کرنے کے احکامات صادر کر دیے اور فرائض اسلامی کو ممنوع تک قرار دے دیا۔۵

اکبر کے عہد میں شرعی طور پر حالات اس قدر ناگفتہ بہ ہوگئے تھے کہ سیّد احمد سرہندی مجددالف ثانی (م: ۱۶۲۴ء) بھی اس دور میں ظہورِ مہدی کے منتظر تھے۔۶ ایسے مایوس کن حالات میں کچھ جرأت مند اور راسخ العقیدہ علما، اکبر کے اقدامات کی مزاحمت پر کمربستہ ہوگئے۷ لیکن   اکبر ان کی مخالفتوں کو دبانے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کی وفات کے بعد مجدد الف ثانی نے اپنی حکمت عملی سے اس صورتِ حال میں مثبت تبدیلیاں لانے کی کچھ کامیاب کوششیں کیں، جنھیں ’تحریک ِ احیاے دین‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ان کی اس تحریک کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو ہندوئوں کے ساتھ اشتراکِ عمل سے روکنا تھا۔۸

اکبر کے بعد مغل فرماں روا اورنگ زیب (م: ۱۷۰۷ء) تک صورتِ حال کی اصلاح طلبی یوں ہی برقرار رہی۔ اورنگ زیب کے عہد میں سرکاری سطح پر اور طبقہ اولیٰ میں، بمثل داراشکوہ (م:۱۶۵۹ء)، ہندومت سے قرب یا یگانگت کے احساس کے تحت فکری مماثلت کی کسی نے بظاہر عملی کوشش نہیں کی۔ لیکن عوامی سطح پر صورتِ حال راسخ العقیدگی کے لحاظ سے قابلِ اطمینان نہ تھی۔ داراشکوہ کے برعکس اورنگ زیب نے دینِ اسلام سے قربت کی مجدد الف ثانی جیسی روش اختیار کی۔

 اکبرکی پیدا کردہ مذہبی، سیاسی اور معاشرتی صورتِ حال میں راسخ العقیدگی کو سلطنت میں دوبارہ رواج دینا کچھ آسان نہ تھا، لیکن اورنگ زیب نے برسرِاقتدار آکر نہ صرف سلطنت کو استحکام بخشا،بلکہ دینی علوم کی ترویج و سرپرستی کے ساتھ مسلم قومیت کو بھی تشخص آشنا کیا۔ اخلاقی انحطاط کو روکنے اور اسلام کو غیراسلامی زوائد سے پاک کرنے کی مؤثر کوشش کی۔ لیکن اورنگ زیب کے بعد مغلیہ سلطنت تیزی سے زوال پذیر ہوئی اور یہ اس کا انتشار ہی تھا کہ جس کے باعث صرف۵۰سال کے عرصے میں برطانوی تاجروں کی ’ایسٹ انڈیا کمپنی‘ نے ۱۷۵۷ء میں ہندستان کے سب سے زرخیز صوبے بنگال کے مسلمان حکمران کو شکست دے کر اس کی حکومت و وسائل پر قبضہ کرلیا اور اگلے ایک سو سال کے بعد ۱۸۵۷ء میں آخری مغل حکمران محمدبہادر شاہ ظفر (۱۸۳۷ء-۱۸۵۷ء) پر بغاوت کا الزام عائد کرکے قید کردیا۔ اس عرصے میں ہندوئوں کی جنگجو قوتیں اُبھرتی رہیں، جنھوں نے انگریزوں کے ساتھ شریک ہوکر مسلمانوں کو اپنے انتقام کا نشانہ بنایا اور ہندو قومیت کے جذبات کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے سارے اَدوار میں مسلمانوں کے مقابل ایک مستقل حریف کے طور پر سامنے رہے۔

یہ سارا عرصہ مسلمانوں کے لیے سیاسی زوال اور معاشرتی، مذہبی اور اخلاقی انحطاط سے عبارت ہے۔ ایسی صورتِ حال میں ایک اصلاحی اور فکری تحریک کی ضرورت مسلم ملّت کو تھی، جو اس وقت کے سب سے بڑے اور مؤثر مفکرومصلح شاہ ولی اللہ (۱۷۰۳ء-۱۷۶۱ء) نے شروع کی، جو اپنے وقت کے اُن کُل عوارض سے واقف تھے، جن میں ملت اسلامیہ مبتلا تھی۔ ان کے ذہن میں مذہب کا منطقی اور عملی تصور موجود تھا اور اس تصور کو عملی شکل دینے کی صلاحیتیں بھی ان میں موجود تھیں۔ پہلے تو وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کو تباہی سے بچایا جائے اور امن و امان قائم کیا جائے تاکہ مذہبی، معاشرتی اور ثقافتی اصلاحات کا انقلاب برپا کیا جاسکے۔ ان کی اس ضمن میں عملی کوششیں  تو بارآور نہ ہوسکیں کہ حکمران کاہلی اور کوتاہ بینی سے نکل نہ سکے۔ تاہم، شاہ صاحب نے اپنے وابستگان میں جو شعور پیدا کر دیا تھا، اس سے بعد میں آنے والے مصلحین اور مجاہدین: شاہ عبدالعزیز (م:۱۸۲۴ء) ، شاہ اسماعیل (م: ۱۸۳۱ء) اور سیّداحمد بریلوی (م: ۱۸۳۱ء) نے اپنی اپنی حد تک استفادہ کیا اور مسلم ملّت کے لیے تبلیغ و جہاد کو اختیار کرکے اپنی جدوجہد سے ایک تاریخ رقم کرڈالی۔

سیّداحمد شہید کی تحریکِ جہاد کو بظاہر کامیابی نصیب نہ ہوسکی، لیکن انگریزوں کے خلاف ۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی ان ہی کے جذبہ و احساس کے زیراثر شروع ہوئی۔ مسلمانوں کے لیے یہ جنگ ناکامی لے کر آئی لیکن اس کے اثرات کے طفیل وہ اس قابل ضرور ہوئے کہ کچھ ہی عرصے بعد اپنی ناکامیوں کا محاسبہ کرسکیں اور اپنے قومی مستقبل کے لیے ایک ایسی راہِ عمل کا انتخاب کرسکیں جس پر چل کر اپنا مستقبل تعمیر کرسکیں اور اپنے مٹتے ہوئے وجود کو سنبھالا دے سکیں۔ مسلمانوں کے لیے اس قیامت خیز زمانے میں سرسیّداحمد خاں (۱۸۱۷ء- ۱۸۹۸ء) ایک فکری، رفاہی اور تعلیمی ایجنڈا لے کر سامنے آتے ہیں۔{ FR 613 }

جنوبی ایشیا کے نوآبادیاتی دور میں فی الحقیقت ہندو اور مسلمان تہذیبی بساط پر پہلے سے زیادہ فاصلے پر نظر آتے ہیں۔ اس عہد میں ہندو ایک نئے اور بڑے طاقت ور طبقے کے طور پر اُبھرے جنھوں نے بڑی حکمت و چالاکی کے ساتھ انگریزوں کی سرپرستی میں اپنے لیے نئے تصورات، نئی زبان (ہندی) اور نئے تعصبات کو وضع کیا اور ان کے مطابق نیا مستقبل متعین کرلیا۔ اس نے انگریزوں سے اپنے مخالفین کو زیر کرنے اور راے عامہ کو اپنے حق میں منظم کرنے کے طورطریقے بھی سیکھے۔ اس تبدیلی کے بعد اس نے انگریزوں کو للکارنا بھی شروع کیا، تاکہ اس کے عوض اس کے طبقاتی مفادات بھی پورے ہوتے رہیں۔

ہندوئوں کے اس طرزِعمل پر برطانوی طریق حکومت اور اندازِ زندگی کی چھاپ تھی، جس کے بغیر یہ تحریک آگے نہ بڑھ سکتی تھی۔ ان کے مقابلے میں مسلمان یہاں اپنی روایات اور باقیات کو سینے سے لگائے بیٹھے تھے۔ نئے تصورات اور حقیقتوں کا ادراک کرنے سے خائف اور گریزاں تھے۔۹ ان دونوں قوموں میں ایک نفسیاتی فرق یہ پیدا ہوگیا کہ ہندو اپنی ہر تحریک معاشرتی اصلاح اور قدیم رسومات کو ترک کرنے کے لیے شروع کر تے، جب کہ مسلمان ابھی تک آٹھ نو سو سالہ حکمرانی کے سحر میں گرفتار رہے۔ ایک مستقبل پانے کے لیے تو دوسرا ماضی میں گم رہنے کے لیے کوشاں رہا۔ نوآبادیاتی دور کے استحکام کے عرصے میں ہندوئوں کا عمل محض اپنے قومی مفادات کے حصول پر مرتکز رہا۔ اس عہد کی تاریخ دراصل دو ہندستانوں کی تاریخ ہے۔

نوآبادیاتی عہد کے ہندستان میں، کہ جب ۱۸۵۷ء کی ناکام جنگ ِ آزادی کے بعد یہاں کی سیاسی زندگی میں مسلمانوں کا حصہ بہت معمولی رہ گیا تھا۔ اس صورتِ حال میں سرسیّداحمد خاں اور علّامہ اقبال مسلمانوں کے قومی وجود کے تحفظ کی جدوجہد میں نہایت اہم مفکرین کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ ان دونوں نے اپنے اپنے عہد کے قومی مسائل میں ان کے حل کے ساتھ ساتھ مستقبل کے لیے بھی سوچا اور اس کی تعمیر و تشکیل کی منصوبہ بندی بھی کی:

اوّلاً: ان دونوں میں جوقدر مشترک تھی وہ یہ کہ ان دونوں نے اپنے اپنے طرزِ احساس اور خلوص کے مطابق ضروری خیال کیا تھا کہ انگریزوں اور ہندوئوں کے مقابلے میں اپنی قوم کو نبردآزما کرنے کے لیے قوم کو جدید حالات کے تقاضوں کے مطابق تیار کیا جائے، ان میں قومی شعور پیدا کیا جائے اور سیاسی شعور کو عام کیا جائے۔

سیّداحمدخاں نے مسلمانوں کی سیاسی، معاشی اور سماجی تباہی کا حل بجاطور پر تعلیمی بیداری میں دیکھا۔ اس کے لیے عملی جدوجہد کے دوران محض ہندستان کے ماحول ہی میں نہیں بلکہ مسلم دنیا کے وسیع تناظر میں مسلمانوں کے قومی مسائل کو موضوع بنایا۔ بالکل اسی طرح اقبال کی فکر اور ان کے پیغام میں خلوص بھی تھا، اثر بھی اور زور بھی، خود ان کے اپنے دور ہی میں جنوبی ایشیا کی ملت اسلامی کے لیے خاصا انقلابی اور پُرکشش تھا۔ اس کے اثرات گہرے اور دیرپا ثابت ہوئے۔

اگرچہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے اتحاد پر ایک مدت تک سیّد احمد خاں زور دیتے رہے، لیکن انگریزی سامراج کے زیراثر ہندوئوں کی مسلم دشمن تحریکوں کے نتیجے میں، وہ اس کی طرف سے یکسر مایوس ہوگئے ۔ پھر سیّداحمد خاں نے دو قومی نظریہ پیش کرتے ہوئے علانیہ اظہار کیا  کہ: ’اب ہندستان میں ہندو اور مسلمان ایک ساتھ نہیں رہ سکتے‘۔ علّامہ اقبال کے عہد تک پہنچتے پہنچتے دوقومی نظریہ اپنی ارتقا کی انتہائی منزلوں پر تھا، اور درمیانی عرصے میں علیحدگی کے جذبات کا مختلف اکابر کی طرف سے آئے دن مختلف النوع اظہار ہوتا رہا۔

بیسویں صدی کے ہندستان میں مسلمانوں کے لیے یہ سیاسی مسائل مزید خدشات اور خطرات کا سبب بن گئے۔ چنانچہ اقبال نے ان مسائل اور خطرات پر گہری تشویش کااظہار کیا۔ اپنے زمانے کے عام حالات کا جائزہ لیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ: ’’ہندی اور اُردو کے   نزاع سے لے کر جب سالہا سال ہوئے مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں اور انھوں نے محسوس کیا کہ سرسیّد کا یہ قول کہ ’ہمارا اور ہندوئوں کا راستہ الگ الگ ہے‘، حرف بحرف صحیح ثابت ہورہاہے۔ یہ احساس اس وقت بھی قائم تھا، جب ترک موالات کی تحریک زوروں پر تھی اور اس وقت بھی جب کانگریس نے علی الاعلان مسلمانوں کی جداگانہ قومیت سے انکار کیا، جب ’نہرو رپورٹ‘ پیش کی گئی اور جب اس سیاسی محاذ کے ساتھ قومی تعلیم اور قومی زبان کے نام سے ایک نیا محاذ ہماری تہذیب و تمدن اور ہمارے اخلاق و معاشرت کے خلاف قائم کیا گیا‘‘۔؎۱۰

سرسیّد بجا طور پر ہندی یا ہندستانی کے نعرے کو مسلمانوں کے خلاف ہندوئوں کی ایک سازش سمجھتے تھے۔ چنانچہ ان کا خیال تھا کہ ’ہندی کی تحریک‘ دراصل اُردو پر حملہ ہے اور اُردو کے پردے میں بالواسطہ اسلامی تہذیب پر یلغار ہے۔؎۱۱ یہی وجہ ہے کہ علی گڑھ کی بدولت مسلمانوں میں جدید تعلیم سے وابستہ بیداری پیدا ہوئی، جسے ایک طبقہ، ہندی مسلمانوں کی نشاتِ ثانیہ کی تحریک کہتا ہے۔؎۱۲ جب کہ دوسرے طبقے کی راے میں: ’سرسیّد کے طرزِفکر نے مغرب زدگی اور تجدّد پسندی کی جو راہ ہموار کی تھی ، اس کے برگ و بار آج تک ہماری قومی زندگی میں تلخی پیدا کیے ہوئے ہیں‘۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال نے بھی وطنی قومیت کے نظریے کی تردید کی اور مسلم اُمہ کو دنیاے اسلام کے ناقابلِ تقسیم ہونے کے خیال سے سرشار کیا۔ پھر انھیں کم از کم برعظیم کے مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک آزاد اسلامی مملکت کے ایک واضح تصور کی تشکیل کا حصہ دار بنادیا۔

حوالہ جات

۱-            ’جیسے رزاق اللہ مشتاقی اور میاں طٰہٰ کو ہندوئوں کے علوم پر بڑا عبور حاصل تھا‘ خلیق احمد نظامی،سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات، اعظم گڑھ، ۱۹۸۵ء،ص۴۵۱؛ ’محمد غوث گوالیاری ہندوئوں کے علوم پر دسترس رکھتے تھے، شیخ محمد اکرام، ۱۹۷۵ء، رُودِ کوثر، لاہور،ص ۳۹؛  مزید تفصیلات کے لیے: ڈاکٹر محمد اسلم، ۱۹۷۰ء دینِ الٰہی اور اس کا پس منظر، لاہور،  ص ۲۶، ۱۴۶-۱۵۱

۲-            اس عہد کی تاریخوں میں ایسے متعدد واقعات ملتے ہیں جن سے مسلمانوں کے ارتداد کی اطلاعات ملتی ہیں۔ تفصیلات کے لیے دینِ الٰہی اور اس کا پس منظر، از ڈاکٹر محمد اسلم، ص ۲۷-۲۸؛ ان سے یہ بھی علم ہوتا ہے کہ ہندودھرم کے احیا اور شدھی کی تحریکوں نے جارحیت کا انداز اختیار کرلیا تھا۔ مختلف اَدوار میں اس کی مثالوں کے لیے: اے پنجابی، ۱۹۳۹ء،Confedracy of India، لاہور،ص ۵۱-۵۴

۳-            این میری شیمل،۱۹۶۳، Gabriel's Wing، ص ۱۷۷

۴-            متعدد محققین نے اس موضوع پر دادِ تحقیق دی ہے ۔ ایک مبسوط مطالعہ، مونس، پرکاش، اُردو ادب پر ہندی ادب کا اثر، الٰہ آباد، ۱۹۷۸ء،اس موضوع کا مفصل احاطہ کرتا ہے، جب کہ اس کے برعکس ایک باہمی اثرپذیری کے مطالعے کے لیے ، سیّد اسد علی، ۱۹۷۹ء، ہندی ادب کے بھگتی کال پر مسلم ثقافت    کے اثرات، دہلی ، مفید ہے۔

۵-            اس کے مذہبی عقائد کے بارے میں کافی لکھا جاچکا ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر محمد اسلم، تصنیف مذکور؛ خلیق احمد نظامی، Akbar and Religion ؛ اطہر عباس رضوی، ۱۹۶۵ء، Muslim Revivalist Movement in North India in the Sixteenth and Seventeenth Centuries ،لکھنؤ ،۱۹۶۵ء  مفصل ہیں۔ نیز ڈاکٹراشتیاق حسین قریشی، ۱۹۷۲ء، Ulema in Politics ، ص ۴۳-۸۱، کراچی

۶-            شیخ احمد سرہندی، مکتوباتِ امام ربانی، جلداوّل، لکھنؤ ۱۹۲۵ء، ص ۱۶۳؛ ایک اور مکتوب میں وہ لکھتے ہیں کہ کفّار صرف اس پر راضی نہیں کہ اسلامی حکومت میں علانیہ کافرانہ قوانین نافذ ہوجائیں بلکہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ اسلامی احکام اور قوانین سرے سے ناپید کردیے جائیں اور ان کومٹا دیا جائے تاکہ اسلام اور مسلمانوں کا کوئی اثر اور نشان یہاں باقی نہ رہے۔(ایضاً، ص ۱۰۵)

۷-            تفصیلات کے لیے، ص ۲۳۹-۲۴۰؛ حفیظ ملک، Muslim Nationalism in India and Pakistan،  ۱۹۶۸ ء ، ص ۵۳-۵۴، واشنگٹن

۸-            اسی بنا پر علّامہ محمد اقبال نے مجدد الف ثانی کو برعظیم میں مسلم قومیت کا بانی قرار دیا تھا۔

۹-            اسلام کے تعلق سے ان کوششوں کا ایک جائزہ: فری لینڈ ایبٹ  Islam and Pakistan، ص ۶۶- ۷۶ ؛ حفیظ ملک: Muslim Nationalism in India and Pakistan میں ہے، ص ۶۴-۶۹

۱۰-         مقالاتِ سرسیّد، ج اوّل، ایضاً، ص ۴۹

۱۱-         ایضاً، ص ۱۳۶

۱۲-         سیّد نذیر نیازی [مرتبہ]،اقبال کے حضور، لاہور، ۱۹۷۶ء، ج ۱، ص ۲۹۲-۲۹۳

پاکستان اپنے قیام ہی سے اپنے قائدین کے جوش و جذبے اور عزم و ارادوں سے سرشار تھا۔ چنانچہ معاشی و فنی وسائل کی کمی اور نامساعد حالات کے باوجود، چند ہی برسوں میںنہ صرف اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا اور زندگی کے متعدد شعبوں اور میدانوں میں ترقی کی جانب بڑھتے ہوئے اس نوزائیدہ مملکت نے متعدد ایسی کامیابیاں بھی حاصل کیں جوتوقع سے بھی بڑھ کر تھیں۔تعلیمی اور  علمی میدانوں میںبھی صورت حال مایوس کن نہ تھی۔قیامِ پاکستان کے وقت لاہور میں قائم پنجاب یونی ورسٹی اور بالخصوص اس سے ملحق اورینٹل کالج علوم و ادبیات کی تدریس و مطالعات میں ایک  شان دار علمی شہرت و مقام پر فائز تھے۔ اور یہاں کے علمی و تحقیقی منصوبے اور ان کی عالمانہ و محققانہ تصانیف ہرایک کے لیے قابلِ رشک تھیں۔ یہاں کے گورنمنٹ کالج اور اسلامیہ کالج نے بھی علمی و تعلیمی سرگرمیوں کی ایک شان دار روایت قائم کررکھی تھی۔ان تینوں اداروں سے منسلک اساتذہ و طلبہ نے دل چسپی کے اپنے اپنے شعبوں میں اپنی تخلیقی و تصنیفی سرگرمیوں سے زبان و ادب، تاریخ اور علوم کے دیگر متنوع شعبوں میں قابل قدر خدمات کی ایک مستحکم روایت قائم کردی تھی کہ جو بعد کی نسلوں کے لیے بھی پُرکشش اور قابل تقلید رہی۔ پنجاب یونی ورسٹی لائبریری، پنجاب پبلک لائبریری اور لاہور ریکارڈ آفس کے ذخائر نے معلّمین و محققین کے لیے ممکنہ وسائل فراہم کرنے میں اپنا مفید کردار ادا کیا۔پشاور آرکائیوز بھی اپنی ایک حیثیت کا حامل تھا۔

کراچی کے قومی عجائب گھر کے نادر ذخائراور پھرچند ہی برسوں میں کراچی اور حیدرآباد میں جامعات کے قیام نے ان شہروں اور خصوصا ً کراچی کو ایک علمی و تہذیبی مرکز بنادیا۔جس میں کراچی یونی ورسٹی نے اپنے لائق وقابل سربراہوں اور اساتذہ کی حددرجہ مخلصانہ انتظامی کاوشوں اور جدید سائنسی علوم کے شعبوں کے قیام اور اعلیٰ سطحی تحقیقات کے سبب بہت جلد ملک کی ممتاز ترین جامعہ کی حیثیت حاصل کرلی۔

’انجمن ترقی اُردو‘ کے وقیع کتب خانے کی دہلی سے کراچی منتقلی نے بھی کراچی میں علمی تحقیقات کو حددرجہ مہمیز دی اور ادبی تحقیقات و مطالعات کا ایک قابلِ رشک آغاز ہوا۔

علمی و تحقیقی ادارے

جامعات کے ساتھ ساتھ ،حکومت نے اپنے قلیل وسائل کے باوجود، علمی ادارے قائم کیے اور نجی کوششوں کی سرپرستی بھی کی۔لاہور میں:’ مجلس ترقی ادب‘؛’ اقبال اکیڈمی‘؛ ’ادارۂ ثقافت اسلامیہ‘؛’مرکزی اُردو بورڈ‘، بعد میں’ اُردو سائنس بورڈ‘؛’ادارۂ تحقیقات پاکستان‘؛’اُردو دائرۂ معارف اسلامیہ‘؛کراچی میں:’انجمن ترقی اُردو‘؛ ’پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی‘؛ ’مسلم ایجوکیشنل کانفرنس‘؛ ’ترقی اُردو بورڈ‘ اب’ اُردو لغت بورڈ‘؛ اسلام آباد میں:’ادارۂ تحقیقات اسلامی‘؛ ’قومی کمیشن براے تحقیق، تاریخ و ثقافت‘؛کچھ عرصے بعد مقتدرہ قومی زبان بھی کراچی سے یہیں منتقل کردیا گیا۔ پھر ہر صوبے میں قائم کردہ علاقائی زبانوں کی اکادمیوں:’ پنجابی ادبی اکادمی‘؛ ’بلوچی اکیڈمی‘؛ ’سندھی ادبی بورڈ‘؛ ’پشتو اکیڈمی‘ ان سب نے اپنے اپنے دائرے میں مفید علمی و مطالعاتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی کوششیں کیں جن میں سے خاص طور پر’ سندھی ادبی بورڈ‘ اور’پنجابی ادبی اکادمی‘ نے زیادہ سرگرمی دکھائی اور کلاسیکی ادب اور تاریخ ا ور تاریخی متون کو ترتیب و تدوین کے بعد شائع کیا۔ پھر ان کی کارکردگی یا تو ماندپڑگئی یا منقطع بھی ہوگئی۔ اداروں کے سربراہوں کے انتخاب و تقرر میں سیاسی فیصلے در آئے تھے، چنانچہ اقربا پروری ، سفارشوں اور جانب داری نے اپنے اثرات قائم کرنے شروع کیے۔ سربراہوں میں اہلیت، خلوص، دیانت داری اور مستعدی کی صفات رفتہ رفتہ عنقاہوگئیں اور اب اکثر اداروں میں بالائی سطح پر کم ہی کہیں اہلیت و مستعدی دیکھی جاسکتی ہے۔

متعدد قابل تحسین ادارے اپنی ابتدا یا ماضی میں اپنی ہی جس مستحسن روایت پر کاربند تھے اور عمدہ علمی و تصنیفی منصوبوں میں سرگرمِ عمل ہونے کے بجاے اپنے سربراہوں کی ذاتی اغراض، خود نمائی یا اقربا پروری میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اُن میں کسی بڑے منصوبے کی تشکیل یا اس میں پیش رفت کا شعور اور صلاحیت موجود نہیں ہے ۔ اگرچہ یہ صورتِ حال اداروں میں سیاست کے عمل دخل کا نتیجہ ہے، مگر خرابی کی ایک اور وجہ قحط الرجال بھی ہے۔ جو اکابر اداروں سے منسلک تھے وہ رفتہ رفتہ اس دنیاسے رخصت ہوتے رہے تو ان کی جگہ لینے والے اہل اور مخلص افراد نا پید تھے۔

جامعات کاکردار

 آج علمی و تحقیقی اور ادبی اداروں کی بے عملی اور کج روی کے باوجود علمی و تحقیقی سرگرمیاں بھی کہیں مرکوز نظر آتی ہیں، مگر جامعات کے ادارے یا شعبہ جات ایسے کم ہیں جو اپنے طورپر اجتماعی اور گروہی تحقیقی و مطالعاتی منصوبے تشکیل دیں اور مثالی صورت میں انھیں مکمل کریں۔ جامعات میں تحقیقات و مطالعات بالعموم اساتذہ یا منسلک مصنّفین و محققین کی ذاتی دل چسپیوں اور ان کے اپنے ذوق و شوق کے تحت رہنے کی ایک طویل اور دیرینہ روایت رہی ہے اور بہت مستحکم بھی رہی ہے۔ پنجاب یونی ورسٹی کے اورینٹل کالج سے منسلک محققین نے، جن میں بعض عالمی شہرت رکھتے تھے، قیامِ پاکستان سے قبل ہی اپنی اعلیٰ معیار تحقیقات اور مطالعات کے باوصف بہت نمایاںاور نہایت قابلِ قدر خدمات کی ایک درخشاںمثال قائم کی تھی۔ یہاں سے نکلنے والاتحقیقی مجلّہ اورینٹل کالج میگزین، اپنے معیار کے سبب ایک عالمی وقار اور امتیاز کا حامل تھا۔ کچھ برسوں کے بعد یہاں سے مجلہ تحقیق  اور دیگر مجلّوںکے کامیاب اجرا نے اس روایت کو مزید فروغ اور استحسان عطا کیا۔ بعض اساتذہ کے تحقیقی مطالعات نے بھی عمدہ علمی و سماجی اور ادبی موضوعات پر لائقِ تحسین مثالیں پیش کیں۔

جامعہ کراچی سے ایسے اکابر محققین اور مصنّفین منسلک رہے ہیں، جن میں سے کچھ نے قیامِ پاکستان اور کراچی میں آباد ہونے سے قبل ہی علمی اور تعلیمی دنیا میں اپنے مؤقر کارناموں کے باوصف شہرت و امتیاز حاصل کیاتھا اور جامعہ کراچی سے منسلک ہوکر اپنے تجربے اور اپنی لیاقت سے اس جامعہ کو ملک کی ممتاز ترین جامعہ کے درجے تک پہنچادیا ۔ پھر اس شہر کو قوم پرستانہ سیاست کی نظر لگ گئی۔ اب جامعہ کراچی کا نظم و نسق اور معیار بھی حسب سابق برقرار نہیں رہا اور مطالعات اور تحقیقات کا معیار بھی مزید زوال پذیر ہے۔اس کا ایک بڑا سبب جامعہ کا شہرکے سیاسی نظام کے تابع ہوجانا یا کردیا جانا ہے۔چنانچہ اساتذہ کے تقرر اور ان کی ترقیوں کا انحصار اب سفارشوں اور سیاسی وابستگیوں پر زیادہ ہوکر رہ گیاہے اور مطالعہ و تحقیق کی جو شرائط اور پابندیاں ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان (ایچ ای سی) کی جانب سے جائز طور پر جامعات اور ان کے اساتذہ پر عائد ہیں، یہ جامعہ اور اس کے اساتذہ بڑی حد تک ان سے گریزاں ہیں۔ نتیجتاً جامعہ کی تعلیمی اور تحقیقی سرگرمیاں اب زوال پذیر ہیں۔

یہی صورت اب ملک کی دیگر متعدد سرکاری جامعات میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ تقرر اور ترقیوں کے لیے ایچ ای سی کی جانب سے عائد شرائط میں سے عالمی سطح کے معیاری مجلّوں میںتحقیقی مقالات کی اشاعت کے بارے میں غلط بیانیاں عام ہیں اور سطحی اور سرسری مضامین کو تحقیقی مقالہ قرار دینا اور اسے انتظامیہ کی جانب سے تسلیم کرلیاجانا ایسا عمل ہے جس نے اساتذہ میں اہلیت پیدا کرنے کے بجاے انھیں جرم پر آمادہ کرنے کی آزادی دے دی ہے۔

اس ضمن میں خود ہایر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے اپنے ہی قواعد و ضوابط کا لحاظ نہ رکھا اور ان پر عمل درآمد کے جائزے کا کوئی مستحکم اور مؤثر نظام تشکیل نہیںدیا کہ بدعنوانیوں اور غلط بیانیوں کی روک تھام ہوسکتی۔بعض اساتذہ کی اپنی کاوشوں کے تحت جو معیاری تحقیقی و مطالعاتی سرگرمیاں ہیں وہ اس صورت حال سے ماورا ہیں لیکن وہ تعداد میں بہت قابلِ اطمینان نہیں۔

جامعات میں مطالعات و تحقیق کی یہ صورتِ حال حد درجے افسوس ناک ہے۔اس میں اساتذہ اور جامعات کے ساتھ خود ایچ ای سی بھی اس کی بڑی ذمے دار ہے کہ اس کے نظام میں اساتذہ کی تحقیقات و مطالعات کو خود جانچنے اور اس کے اپنے فیصلوں کے معیار کو پرکھنے اور ساتھ ہی اس کی اپنی عائد پابندیوں کو نظر انداز کرکے غلط بیانیوں اور دھوکا دہی کے ذمے دار اساتذہ کو سزا دینے کا کوئی اختیار نہیں۔ جامعات بھی اپنی داخلی علمی بدعنوانیوں کی روک تھام کا کوئی مؤثر نظام نہیں کرسکیں۔

تعلیمی معیار رُوبہ زوال و تدارک

تحقیقات و مطالعات سے قطع نظر سرکاری جامعات کا تعلیمی معیار بھی گذشتہ دہائیوں میں متاثر ہوا ہے۔ معیار کی بہتری کے لیے جو کوششیں خود جامعات اور ان کی سرپرست ایچ ای سی کو  کرنی چاہییں تھیں، وہ بھی ہر سطح کے تعلیمی نصاب کی بہتری کے باب میں مجموعی طور پر بے نیاز اور لاپروا ہیں۔ برسوں بلکہ عشروں تک بھی نہ نصابات پر نظر ثانی کی جاتی ہے نہ ان کی تجدید کے بارے میں کوئی عمل ہوتاہے اور نہ نصابات کو قومی تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی کوئی مخلصانہ اور شعوری کوشش ہوتی ہے۔ بالعموم ہمارے سارے ہی قومی اور صوبائی نصابات ازکارِرفتہ، فرسودہ اور طلبہ کے لیے بے فیض ہیں اوروہ ان میں کسی طرح بھی قومی اور اجتماعی سو چ پیدا کرنے کے لائق نہیں۔ایک مقصدی اور تعمیری نصاب کی عدم موجودگی ہمارے اکثر قومی اور سیاسی و سماجی مسائل اور مشکلات کا سبب ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم ایک قوم اب تک نہ بن سکے۔

صدرجنرل یحییٰ خاںکے دور میں ائیر مارشل نورخان کی تعلیمی تجاویز، اپنے چند اسقام کے باوجود، ملک میںتعلیمی نظام کی اصلاح وبہتری کاایک فکر انگیز اور مخلصانہ اقدام تھا، لیکن افسوس صد افسوس کہ  پھر کبھی اس طرح کی کوئی مخلصانہ اور سنجیدہ و مؤثر کوشش نہ ہوسکی۔

نظامِ تعلیم اورنصاب کی طرح ہم نے جامعات میں اپنے مطالعات اور تحقیقات کو بھی قومی تقاضوں اور عہد حاضر کی معاشرتی اور علمی ضرورتوں کے مطابق ڈھالنے کی جانب بھی کبھی نہیں سوچا۔ سائنسی شعبوں کے تحقیقی موضوعات سے قطع نظر،سماجی علوم اور زبان و ادبیات کے شعبوں میں تحقیق کے لیے بالعموم ایسے موضوعات کی بھرمار رہتی ہے جو سطحی، سرسری اور فرسودہ و از کار رفتہ ہوتے ہیں،جن سے نہ متعلقہ علم کوکوئی فائدہ پہنچتاہے ، نہ ان سے کوئی علمی و تحقیقی خلا پُر ہوتا ہے۔ جامعات میںسندی سطح کے امیدواروں میں اگرموزوں و مفید یا تعمیری موضوعات کے انتخاب کا شعور نہیں تو ان کے نگران اساتذہ بھی اس شعور سے بمشکل ہی کہیں بہرہ مند ہوتے ہیں۔ جامعات میں ایچ ای سی کی ہدایت پر حالیہ کچھ عرصے سے بظاہر ایک ’صیغۂ فروغِ تحقیق ‘ (Research Enhancement Cell)کاقیام عمل میں آیاہے، جس پر تحقیق کے معیار کی بہتری اور اس کے فروغ کی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ اسے موضوعات کی افادیت کے نقطۂ نظر سے اپناکردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ ہماری قومی بدقسمتی ہے کہ  ایشیا کی پانچ سو جامعات میں ہمارے ملک کی کوئی جامعہ بھی کبھی شمار میں نہیں آتی ، عالمی سطح کی جامعات کا تو کیا ذکر!

میں سمجھتا ہوں کہ تعلیمی معیارکی بہتری اور طلبہ میں قومی سوچ کو عام کرنے کے لیے جہاں ایک قومی سطح کی منصوبہ بندی، بمثل نورخان تجاویز، اشد ضروری ہے ،وہیں ایچ ای سی کو ایک فعال کردار ادا کرتے ہوئے اپنے فرائض میںتعلیمی معیار کی بہتری،جامعات میں نظم و نسق کے قیام کی نگرانی، جامعات اوراساتذہ کو اس کے اپنے ہدایت کردہ قواعد و ضوابط کا پابند کرنا اور اساتذہ اور سربراہوں میں اہلیت، فرض شناسی اور دیانت داری کی صفات کے جانچنے اور اس کے اپنے عائدکردہ ضوابط سے انحراف پرمناسب سزا کا اہتمام کرنابھی شامل ہونا چاہیے۔ آج ہمارا تعلیمی معیار بڑی حد تک اساتذہ کی نااہلی،بدعنوانی اور اپنے فرائض سے غفلت کے سبب برباد ہوا ہے۔میں یہ بارہا لکھتا رہاہوں کہ آج ہمارے معاشرے کی تعمیر اور تخریب تین افرادکی کارکردگی پر منحصر ہوتی ہے: ایک استاد، دوسرا صحافی اور تیسرا منصف(جج)،جب کہ صحافی اور منصف بھی استاد ہی بناتے ہیں۔

ہمارے تعلیمی اداروں اور بالخصوص جامعات میں سیاست کے عمل دخل نے تعلیمی نظم و نسق اور معیار کو بری طرح متاثر کیاہے۔سیاست اور اقربا پروری کے پروردہ نااہل اور بدعنوان اساتذہ نے سارے ماحول کو برباد کرنے میں مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ایچ ای سی کی غفلت اور اپنے بنیادی فرائض میں روورعایت اور بے نیازی کی اس کی حالیہ کیفیت بدعنوان اساتذہ پر کوئی قدغن عائد نہیں کرتی، جس کے سبب تعلیم و تدریس کا معیار پست ہوتاجارہاہے اور تحقیق و مطالعات زوال پذیر ہوگئے ہیں۔اور یہی ایچ ای سی تدریس اور تحقیق کے لیے ایسے رہنما اصول و ضوابط بھی تجویز نہیں کرتی کہ اساتذہ کی تدریسی کارکردگی کا محاسبہ ہوسکے اور تحقیق کامعیار حقیقی معنوں میں بلند ہوسکے۔ اگرچہ ایچ ای سی نے اساتذہ کے لیے لازم کیا ہے کہ وہ تحقیقی مقالات ایچ ای سی کے منظورشدہ مجلّوں میں چھپوائیں، لیکن ایچ ای سی نے کبھی نہیں سوچاکہ وہ اساتذہ کے لیے، ترقی یافتہ ملکوں کی جامعات کی طرح لازم کریں کہ وہ اپنے موضوعات کی دل چسپی کے پیش نظر سال میں ایک یا دو سیمی نار پیش کرنے کا اہتمام کریں، جو ان کی ترقی کے لیے شمار میں آئیں۔

پاکستان اور پاکستانی قوم کا یہ المیہ ہے کہ تعلیم اور تدریس اب اپنا جیسا تیساسابقہ معیار و امتیاز بھی بتدریج کھوتے جارہے ہیں اور یہ دونوں ہی آئے دن زوال پذیر ہیں۔یقیناً ہماری قوم کے نابغہ افراد نے انفرادی طور پران ہی جامعات سے تحصیل علم کے بعد اپنے اپنے شعبوں میں بڑے نام کمائے ہیں، اور عالمی سطح پر بھی ایسے کارنامے انجام دیے ہیںکہ اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کیاہے۔ ایسے اعزازات و عزت کا حصول ہر فرد کا حق ہے، جب کہ اس کی تربیت اور حوصلہ افزائی کے لیے ضروری وسائل کی فراہمی اور ایک عمومی حوصلہ افزا ماحول پیدا کرنا ہماری جامعات کا کام ہے لیکن آج جامعات میں جو حوصلہ شکن فضا عام نظر آتی ہے اس سے کیا توقعات باندھی جاسکتی ہیں؟

جاپان میں مطالعات ِ اسلامی کی روایت بہت قدیم نہیں۔اس سے قبل کہ جاپانی مصنفین مطالعۂ اسلام میں دل چسپی لیتے، جس کی شہادت بیسویں صدی کے آغاز میں ملتی ہے، ہندستانی انقلابی رہنما مولوی برکت اللہ بھوپالیl نے جب اپنی سیاسی سرگرمیوں کے تسلسل میں وطن کو خیرباد کہا اور ہندستان سے نکل کر مختلف ممالک سے ہوتے ہوئے بیسویں صدی کے اوائل ۱۹۰۹ء میںکچھ عرصے کے لیے جاپان کو اپنا مسکن بنایا تو وہاں مطالعۂ اسلام کا بھی آغاز کیا۔وہ ۱۹۱۴ء تک ٹوکیو میں مقیم رہ کر زبانیں سکھانے والے وہاں کے سرکاری ادارے، جس نے بعد میں ’ٹوکیو یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز‘ کی صورت و حیثیت اختیار کی، اُردوکے استاد کی حیثیت سے منسلک ہوئے۔ اپنے انقلابی خیالات کی تشہیر کے لیے انھوں نے۱۹۱۰ء میں انگریزی میں ایک اخبار  Islamic Fraternity  بھی جاری کیا، جو ان کے وہاں قیام (۱۹۱۴ئ) تک نکلتارہا۔

جاپانیوں میںاسلام قبول کرنے کی روایت کا آغاز انیسویں صدی کے آخر سے شروع ہوچکا تھا، جب پہلے پہل ایک جاپانی صحافی شوتارو نودا (۱۸۶۸ئ-۱۹۰۴ئ) نے ترکی کے اپنے دوسالہ قیام کے دوران ۲۱؍ مئی ۱۸۹۱ء کو اسلام قبول کیا، اور عبدالحلیم نام اختیار کیا۔اس کے کچھ ہی دنوں بعدایک اور جاپانی تاجر توراجیرہ یامادا نے بھی وہیں اسلام قبول کیا [۱]۔

خود جاپانیوں میں اسلام کی تفہیم اور مطالعے کا آغازپہلی اور دوسری جنگ ِ عظیم کے دوران ہواجب جاپانی رہنماؤں میں استعماری طاقتوں کے بڑھتے ہوئے سیاسی عزائم کو دیکھ کر یہ احساس پیدا ہوا کہ عالمِ اسلام کے ساتھ ایک اتحاد اور ہم آہنگی خود جاپان کے دفاع کے لیے مفید ثابت ہوسکتی ہے۔اس ’اسلام حکمت عملی‘ کا آغاز اولا ً ۱۹۱۰ء سے ہوا جب ’مشرقِ اعظم‘ کے عنوان سے ٹوکیو کے ’ادارۂ ایشیا پارلیمنٹ ‘(بمثل قومی اسمبلی) سے ایک جریدے کی طباعت کا آغاز ہوا، جو    ڈیڑھ سال تک نکلتارہا۔ اس کے مدیر تویاما میتسورو اور اینوکائی سویوشی (اس وقت کے وزیر اعظم) تھے۔

مذکورہ ’اسلام حکمت عملی‘ کا بیرونی سطح پر آغازاسلامی ممالک سے پہلے چین میں ہوا، جہاں ’عظیم ایشیایت‘ کے تصور کے حامیوں نے ’حلقہ ٔ مطالعۂ اسلام ‘قائم کرکے ایسی کوششیں کیں جن کا مقصد چینی مسلمانوں کو چین میں جاپانیوں کی سیاسی مداخلت کی راہ ہموار کرنے کے لیے تیار کرنا اور ان میں جاپانی مفادات کو توسیع دینا تھا۔اس مقصد کے لیے اس حلقے نے۱۹۲۷ء میں رسالہ دین اسلام جاری کیا جو دوسال تک جاری رہا۔ اس کے مدیر کوامورا کیودو تھے۔کہا جاتا ہے کہ د راصل وہ جاپانی جاسوس تھے جو مسلمانوں میں جاپانی مفادات کے لیے سرگرم رہے [۲]۔

اسی ضمن میں ایک جاپانی سیاسی رہنما  شومے  اوکاوا  خاصے سرگرم ہوئے اور انھوں نے اسلام کو اپنے باقاعدہ مطالعے کا موضوع بنایا۔اسلام کا مطالعہ کرنے کے دوران میں، قرآن کا (اوّلین) ترجمہ بھی کردیا۔اس ترجمے کی بنیاد ایک انگریزی ترجمۂ قرآن پر تھی۔ اسی طرح  انھوں نے عالم اسلام  کے نام سے جاپانی زبان میںایک رسالے کا اجرا بھی کیا، جو دوسری جنگ ِ عظیم کے اختتام تک نکلتارہا۔

علمی سطح پر اس عرصے میں پروفیسر رے ایچی گامو نے جاپان میں پہلے پہل اسلام کے مطالعے میں دل چسپی لی۔وہ’ ٹوکیو یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز‘ سے منسلک تھے اور اُردو زبان کے پروفیسر تھے ۔ انھوں نے جاپان میں اُردو ادب کے مطالعے کو بے حد فروغ دیا ، گلستانِ سعدی اور باغ و بہار کے جاپانی ترجمے کیے۔ پروفیسر گامو نے نہ صرف اُردو ادب کے مطالعے کا    ذوق عام کیا بلکہ اپنے طلبہ میں اسلام کے مطالعے کا شوق بھی پیدا کیا۔ان کے شاگردوں میںپروفیسر کان کگایا، پروفیسر سوزوکی تاکیشی اور پروفیسر کرویا ناگی نام وَر اسکالر تھے۔ سوزوکی صاحب نے اُردو و فارسی زبان و ادب کی تعلیم کو بہت وسعت دی اور شعبۂ اُردو کو مستحکم کیا۔ پروفیسر کان کاگایا اُردو کے علاوہ فارسی اور عربی سے بھی خوب واقف ہیں اور اسلام کے مطالعے میں مصروف رہ کر اسلام کے بارے میں مختلف عنوانات کے تحت متعدد تحقیقی مقالات لکھ چکے ہیں۔کرویا ناگی فارسی سے وابستہ ہیں ، جنھوں نے ایک مجلہ انڈو ایران  جاری کیا اور ایک مبسوط تحقیقی مقالہ ’ہند میں اسلامی فکر کا ارتقا‘ تحریر کیا اور اقبال اور مولانا مودودی کے افکار کے مطالعے پر اس مقالے کو    مرکوز رکھا۔ ان علما کے معاصرین میں ایک اہم نام پروفیسرتوشی ہیکو اِزتسو کا ہے، جنھوں نے قرآن کا ترجمہ جاپانی زبان میں کیا۔ انھوں نے ٹوکیو کی ایک نجی یونی ورسٹی میں مطالعۂ اسلام کا ایک شعبہ قائم کیا اور اس کے تحت اسلام کے مطالعے اور تحقیق و تصنیف کو فروغ دیا۔مطالعۂ اسلام کے ضمن میں ان کا ایک بڑا کارنامہ ایک ایسی نسل کی تیاری ہے جس نے سارے جاپان کی جامعات اور تحقیقی اداروں سے منسلک ہو کر اسلام کی تفہیم و تعلیم اور اس کے مطالعے کو فروغ دیا ہے۔

اسی طرح ایک اور پروفیسر ناکامورا کوجیرو کا ذکر بھی ضروری ہے، جو اِزتسو صاحب کے معاصر ہیں، انھوں نے ٹوکیو یونی ورسٹی سے منسلک رہ کر اسلامیات کی تدریس کے ساتھ ساتھ وہاں شعبہ ٔ اسلامیات قائم کیا اور اس کے تحت ایک ’ادارۂ تحقیقات ِ اسلامی‘ کی بنیاد رکھی جو جاپان میں اپنی نوعیت کا اولین ادارہ تھا۔یہاں ایک عالی شان کتب خانہ بھی قائم ہوا جو جاپان میںعلومِ اسلامی کے مطالعے میں بہت معاون ہے۔ اس ادارے سے ایک اعلیٰ سطحی تحقیقی مجلہ بھی شائع ہوتاہے جو مطالعۂ اسلامی کے لیے اور عالمِ اسلام کے سیاسی، تہذیبی اور معاشرتی موضوعات کے لیے مختص ہے۔

ان معروف و ممتاز اساتذہ کے زیر اثر اب جہاں نوجوانوں میں مطالعہ اسلامی کو فروغ ملا ہے ،وہیں دیگر متعدد جامعات میں اسلامیات کے شعبے بھی قائم ہوئے ہیں اور اب چند برسوں سے خاص طور پر کیئیو یونی ورسٹی، ٹوکیو؛ واسیدا یونی ورسٹی، ٹوکیو؛ اور کیوتو یونی ورسٹی، کیوتو، مطالعۂ اسلام کے اہم مراکز کی صورت میں نمایاں ہوئے ہیں، جہاں تدریس کے ساتھ ساتھ اسلام اور عالمِ اسلام پر مستقل تحقیقات کا ایک تسلسل قائم ہے اور گاہے گاہے کانفرنسوں اور سیمی ناروں کا سلسلہ بھی رہتا ہے۔ ان کے علاوہ کئی اور جامعات بھی ہیں جہاں اگر اجتماعی نہیں تو انفرادی سطح پر اسلامی تحقیقات کا عمل جاری رہتاہے۔

جاپان کی جملہ جامعات میں کیوتو یونی ورسٹی کا امتیاز یہ ہے کہ یہاں اسلام اور عالمِ اسلام کے تعلق سے بمقابلہ جاپان کی دوسری جامعات، زیادہ نمایاں علمی و تحقیقی سرگرمیاں جاری ہیں۔  اس کا ایک بڑا سبب یہاں پروفیسر کوسوگی یاسوشی کی موجودگی ہے جو ایک لائق پروفیسرہونے کے ساتھ ساتھ نہایت فعّال و مستعداور سرگرم انسان بھی ہیں۔عربی اور انگریزی پر عبور رکھتے ہیں۔ جامعۂ ازہر سے فارغ التحصیل ہیں اور وہیں دوران قیام مشرف بہ اسلام ہوچکے ہیں۔ ان کی اہلیہ نے بھی اسلام قبول کیاہے۔اس یونی ورسٹی میں شعبۂ اسلامیات کے علاوہ ایک ’گریجویٹ اسکول آف ایشیا، افریقہ ایریا اسٹڈیز‘ بھی سرگرمِ عمل ہے۔ان اداروں کے تحت مطالعات و تحقیقات ِ اسلامی کو یہاں فروغ حاصل ہورہا ہے۔ ان سرگرمیوں میں نوجوانوں کی ٹیم نہایت اہم موضوعات پر تحقیق میں مصروف ہے۔۳؎ 

اسی ٹیم میں وہ نوجوان بھی شامل ہیں، جن کی تحقیقات کا تعلق جنوبی ایشیا کے موضوعات،  خاص طور پر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی تاریخی، تہذیبی، فکری اور سیاسی زندگی اور ترجیحاً عہدحاضر سے ہوتاہے۔اس ضمن میںیہ قابلِ لحاظ ہے کہ فکر ِ اسلامی کی نسبت سے تحریکِ احیاے اسلامی،    مولانا مودودی اور جماعت اسلامی مختلف پہلوؤں اور زاویوں سے اس نوعیت کے تحقیقی مطالعات کا ایک تواتر سے موضوع بن رہے ہیں۔اس ضمن میں پروفیسر ہیروشی کاگایا نے دراصل مولانا مودودی اور جماعت ِ اسلامی پرراست مطالعے کا آغاز کیاتھا۔ان کا مقالہ: Documentation regarding Formation of Jama'at-e Islami. (جاپانی) ’اوساکا یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز‘کے مجلے: Ryou Tatsen-Kanki ni Okeru Seiji jo Shakai ، ۱۹۸۷ء میں شائع ہوا تھا۔ اس حوالے سے اگرچہ پروفیسر کرویاناگی نے ابتدا کی تھی اور علامہ محمداقبال اور مولانا مودودی کے افکار کو اپنے مبسوط مطالعے میں خصوصیت سے شامل کیا تھا، لیکن اب اس کو ایک تسلسل پروفیسر سو یامانے کی توجہ اور کاوشوں سے حاصل ہوا ہے۔ یہ اوساکا یونی ورسٹی سے منسلک ہیں اور بظاہر شعبۂ اُردو میں اُردو زبان و ادب کی تدریس سے وابستہ ہیں لیکن زبان وادب سے بڑھ کر اب ان کی توجہ اور ترجیحات جنوبی ایشیا کی سیاسی و فکری تاریخ اور عصری مسائل و حالات کے مطالعے و تحقیق تک پھیل گئی ہیں۔

پروفیسر کرویا ناگی کے بعد غالباً پروفیسر سویامانے ہی ہیں جنھوں نے جنوبی ایشیا کی تحریکات ِ اسلامی اور خاص طور پر جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کے افکار و خیالات کو نہ صرف خود موضوع بنایا اور متعدد تحقیقی مقالات تحریر کیے، اور اپنے طلبہ میں بھی ان موضوعات کے مطالعے و تحقیق کا ذوق عام کیاہے۔پروفیسر سویامانے نے ایم اے اُردو، پنجاب یونی ورسٹی اورینٹل کالج لاہور سے کیا۔ مجموعی طور پر وہ کئی سال پاکستان، خصوصا ً اسلام آباد اور لاہور میں رہ چکے ہیں۔ اسلام آباد میں ان کا قیام سفارت خانے کی ملازمت کے سلسلے میں تھا۔ اس کے بعد سے ہر سال ایک دو مرتبہ لاہور میں ان کی آمد رہتی ہے۔یہاں کے اکابر ِ علم و ادب،کتب خانوں اورعلمی و تحقیقی اداروں سے ان کا تعلق رہتا ہے ۔

پروفیسر سو یامانے نے اب تک درج ِ ذیل مقالات، بہ اعتبار ِ زمانی، جماعت ِ اسلامی اور مولانا مودودی پر تصنیف کیے ہیں:

                ۱-            Syed Abu al A'la Maududi's Islamic Revivalism and the Establishment of Dar al Islam.     [۴]۔

                ۲-  Maududi's Islamic Revivalist Movement: A Dynamic Study of Indian Muslim Intellectuals of the 20th Century.          جاپانی زبان میں، انگریزی ترجمہ[۵]۔

                ۳-              Legal and Inevitable War in Islam- in Maududi's Al-Jihad fi al Islam.     ۔[۶]۔

                ۴-              Horizons of Islam in South Asia: Iqbal and Maududi. [۷] ۔

اس عرصے میں، پروفیسر سویامانے نے تسلسل سے جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کو موضوع بنایا، لیکن ان کے ساتھ ساتھ اس جانب توجہ دینے والوں میں ایک اسکالر ناکاگاوا یاسوشی  بھی ہیں، جن کا مقالہ : Maududi: Islamic National Characteristic Authority  تھا، جو اوساکا یونی ورسٹی کے مجلے: Bulletin of Asia Pacific Studies   شمارہ ۱۱، ۲۰۰۱ء میں شائع ہوا تھا۔  پروفیسر سویامانے اگرچہ اوساکا یونی ورسٹی سے منسلک ہیں، لیکن ان کا علمی رابطہ جاپان بھر کے اُن اسکالرز سے قائم ہے، جو جنوبی ایشیا اور اسلام کے موضوعات پر مطالعات میں مصروف ہیں یا ایسے موضوعات پرتحقیقی کام کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے اپنے ان ذاتی مطالعات کے ساتھ ساتھ اسلام اور پاکستان سے متعلقہ موضوعات پر دیگر نوجوانوں کو بھی راغب کیاہے اور  ان کی رہنمائی و معاونت بھی کرتے ہیں۔ اس طرح اب تک ان کی سرپرستی و حوصلہ افزائی کے نتیجے میں  کم از کم دو مبسوط کاوشیں سامنے آچکی ہیں۔ ایک پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ ہے جسے کیوتو یونی ورسٹی میں آنسہ سُناگا ایمی کو نے پروفیسر کوسوگی کی نگرانی میں ’گریجویٹ اسکول آف ایشیا، افریقہ ایریا اسٹڈیز‘ میں پیش کرکے سند حاصل کی ہے۔لیکن اس سے قبل اسی طالبہ نے ایک مبسوط مقالہ،  بعنوان: Characteristics of the Quranic Interpretations in the Urdu Language: From Shah Waliullah to Maududi لکھا تھا، جو کیوتو یونی ورسٹی میں پیش کیا تھا، جو G-COE Series، نمبر شمار ۱۲۲ میں شائع ہوا۔ اس مقالے میں مصنفہ نے   جنوبی ایشیا میں تفسیر نویسی کی روایت اور خاص طور پر اُردو میں اس روایت پر ایک تاریخی نظر ڈالتے ہوئے مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کا قدرے مفصل مطالعہ پیش کیا تھا۔جب کہ یہی موضوع خاصی تفصیل اور دیگر متعلقہ پہلوؤں کے ساتھ اس کے پی ایچ ڈی کے مقالے میں زیر ِ مطالعہ آیا ہے۔ اس تحقیقی منصوبے کا عنوان تھا: Islamic Revival and Urdu Publication in Pakistan: A Study of Maulana Maududi as a Writer and Thinker.  اس مقالے پر اس ریسرچ اسکالر کو ۲۰۱۳ء میں پی ایچ ڈی کی سند تفویض ہوچکی ہے۔یہ جاپان میں اپنی نوعیت اور ضخامت کا اولین کام ہے، جو مولانا مودودی اور جماعت ِ اسلامی کے بارے میں جاپان میں سامنے آیاہے۔

یہ مقالہ جاپانی زبان میں لکھا گیاہے اور اس کی کُل ضخامت ۲۰۱صفحات ہے۔مقالے کی مصنفہ نے اسلام اورپاکستان کے تعلق سے جاپان و پاکستان میںمنعقد ہونے والے متعدد سیمی ناروں میں شرکت کرکے ان میں اپنے مقالات بھی پیش کیے ہیں۔ مولانا مودودی کے تعلق سے اس نے اپنے مطالعات کے لیے جاپان کے علاوہ لاہور کے کتب خانوں اور ’عقیل کلیکشن‘سے کراچی اور کیوتو میں خاطر خواہ استفادہ کیا اورایک مقالہ اس نے خاص ’عقیل کلیکشن‘ کے بارے میں کیوتو یونی ورسٹی میں منعقدہ سیمی نار ، مورخہ ۲۹؍ نومبر ۲۰۱۳ء میں پیش کیا، جس کا ذکر اگلی سطور میں دیکھا جاسکتاہے۔

دوسرا اہم کام کتابیاتِ مودودی کی ترتیب ہے، جو ایک نوجوان طالبہ سساؤکی نوریکو نے انجام دی ہے[۸]۔ یہ کتابیات اوساکا یونی ورسٹی کے’ گریجویٹ اسکول آف لینگویج اینڈ کلچر‘ میںایم اے کی تکمیل کی غرض سے مقالے کے ایک حصے کے طور پر مرتب و پیش کی گئی تھی۔مقالے کا موضوع تھا: ’’مولانا مودودی کی تصانیف کے مراحل اور ان مراحل میں مولانا مودودی کے افکار کی تنظیم و تشکیل‘‘۔کتابیات :Urdu Works of Abu al A'la Maududi, An Annotated Bibliography کے عنوان سے ۲۰۱۳ء میں منظر عام پر آئی ہے۔ اسے سو یامانے صاحب کی ہدایت و نگرانی کے تحت مرتب کیا گیاہے۔ اس لیے اس میں موضوع کا شعور اورمحنت و سلیقہ اور ترتیب کا سلیقہ،یہ سب دیدنی ہیں۔ اس کتابیات کا انگریزی متن (ترجمہ)بھی نوریکو نے تیار کیا ہے جو مارچ ۲۰۱۴ء میں شائع ہوا ہے۔اس نے اس کتابیات کی تیاری اولا ً اپنی اوساکا یونی ورسٹی کے’ اسکول آف فارن لینگویجز‘کے کتب خانے سے شروع کی ۔پھر کچھ دن لاہور میں رہ کر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی معاونت سے ادارۂ معارف اسلامی (منصورہ) کے کتب خانے سے استفادہ کیا۔ راقم کے کتب خانے (کراچی) سے بھی اسے خاصی مدد ملی ہے ۔آخر میں ’کیوتو یونی ورسٹی‘ کے ’گریجویٹ اسکول آف ایشیا، افریقہ ایریا اسٹڈیز‘ کے کتب خانے میں راقم کے کتب خانے کے ایک بڑے حصے کی ستمبر۲۰۱۲ء میں منتقلی اور وہاں ’عقیل کلیکشن‘ کے طور پر ترتیب کے بعداس طالبہ کووہاں یکسوئی سے اپنے کام کو حتمی شکل دینے کا موقع ملا۔

کتابیات میں اندراج کی تفصیلات سائنسی انداز سے درج کی گئی ہیں۔ترتیب کے لحاظ سے اسے آٹھ زمروں میں تقسیم کیاگیاہے، جو یہ ہیں:۱- قرآن و حدیث (تعداد ۱۰)؛ ۲-وہ تصانیف جنھیں خود مولانا مودودی نے مرتب کیا یا ان کی نگرانی میں مرتب ہوئیں (تعداد۴۹)؛ ۳-کتابچے (تعداد۱۰۲)؛۴-مجموعہ ہائے مکاتیب (تعداد۱۱)؛۵-تراجم از مولانا مودودی (تعداد۴)؛۶-وہ منتشر تحریریں، جنھیں مجموعوں کی صورت میںکسی دوسرے نے مرتب کیا (تعداد۳۸)؛ ۷-مولانا مودودی کی تصانیف سے ماخوذ اقتباسات پر مشتمل کتابیں(تعداد۷۳)؛۸-وہ مضامین، جو مولانا مودودی نے ۱۹۱۸ء اور ۱۹۳۰ء کے دوران لکھے (تعداد۹)۔ان تمام اندراجات کو انفرادی حیثیت میں متعلقہ تمام تفصیلات کے اہتمام سے کہ جن کے توسط سے کتاب کی کُل اشاعتوں کے بارے میں ساری معلومات حاصل ہوسکیں، اسے مرتب کیاگیاہے۔ بیشتر یہ اہتمام بھی کیاگیاہے کہ کس کس کتاب کے متن میں کیا کیا اضافے یا ترامیم شامل ہوتی رہیں۔ اس مقصد کے لیے ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی کی کتابیاتِ مودودی سے بھی بھرپور استفادہ کیا گیا ہے۔[۹]

اپنے مقالے میں اس طالبہ نے جو جائزہ پیش کیا اس کے مطابق مولانا مودودی پر اس گوشے میں مولانا کی اپنی تصانیف کے علاوہ وہ تصانیف شامل ہیں جو مولانا مودودی اور جماعت ِ اسلامی کے بارے میں ہیں اور ساتھ ہی ایسی تصانیف بھی شامل ہیں جن کے موضوعات و مباحث کسی نہ کسی طرح ان دونوں سے تعلق رکھتے ہیں۔اس جائزے میں ایسی۱۲۶ کتابوں کا حوالہ دیاگیا ہے جو اہم بھی ہیں اور نادر و کمیاب بھی۔ پھر ان میں ایسی کتابیں بھی شامل ہیں جنھیں مولانا مودودی کے مخالفین نے ان کے افکار و نظریات کی تردید یا مخالفت میں تحریر کیا، اور ان میں ایسی کتابیں بھی ہیں جو ان کے دفاع میں لکھی گئیں۔

اس طالبہ کے جائزے کے مطابق مولانا مودودی نے اپنے جریدے ترجمان القرآن میںتقریبا ً ۹۰۰ مضامین تحریر کیے تھے، جن سے ۳۰۰ کتابیں مرتب ہوئیں، جن میں۵۰ کتابیں خود مولانا مودودی کی تصانیف کی شکل میںسامنے آئیں، جب کہ ۱۰۰کتابچے اور۱۱۰ مجموعے ان کے عقیدت مندوں نے مرتب و شائع کیے۔اس طالبہ کے مطابق مولانا مودودی کی کتابیں کم از کم ۵۰زبانوں میں ترجمہ ہوئیں۔ اس جائزے کے مطابق ’عقیل کلیکشن‘میں موجود کئی کتابیں جاپان کے چند کتب خانوں میں موجود ہیں لیکن اس ذخیرے کی وجہ سے اب جاپان میں مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے ساتھ ساتھ عہد ِ جدید کی اسلامی تحریکات اور افکار کے بارے میں تحقیقی مطالعات کرنے والوں کے لیے بھی بہت آسانیاں فراہم ہوگئی ہیں۔ اس طالبہ کا یہ مقالہ پہلے مذکورہ سیمی نار میں پیش ہوا، پھر کیوتو یونی ورسٹی کے اسلامی علاقائی مطالعے کے مرکز کے مجلے: Kyoto Bulletin of Islamic Area Studies کے شمارہ ۷، مارچ ۲۰۱۴ء میں شائع ہوا۔

’عقیل کلیکشن‘ کے سلسلے میں منعقد ہونے والے سیمی ناروں میں مختلف اسکالرز اپنے اپنے دائرۂ موضوعات کے ذیل میں ،جو کچھ ان کو اس ذخیرے سے دستیاب ہورہا ہے اور ان کے متعلقہ مطالعات کے لیے مفید ثابت ہوا ہے۔ مثلاً جنوبی ایشیا کی فکر اسلامی کے تعلق سے شاہ ولی اللہ، علماے دیوبند، جمال الدین افغانی، ابوالکلام آزاد، مولانا مودودی کے بارے میں اس ذخیرے میں موجود اہم کتابوں کا تعارف کرایا گیاجو ان کے مقالات میں زیر ِ گفتگورہے۔اس ضمن میں  سُناگا  ایمی کو  اور سساؤکی نوری کو نے مولانا مودودی سے متعلق گوشے میں محفوظ ذخیرے کا اپنے اپنے زاویے سے تعارف کرایاہے۔

اس نوعیت کے سیمی ناروںکے تسلسل میں ایک اور تعارفی سیمی نار ، منعقدہ  ۲۹؍ نومبر ۲۰۱۳ء میں، جو دیگر موضوعات اور دیگر اسکالرز کے مقالات پر مشتمل تھا، سُنا گا ایمی کو نے Material on Maodudi in Aqeel Collection کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا۔اس تعارف میں جہاں مولانا مودودی کے احوال و آثار اور جماعت اسلامی کی تاسیس جیسے موضوعات کا احاطہ کیاگیا، وہیں اس ذخیرے میں موجود مولانا مودودی کی تصانیف اور متعلقات کا ذکرکیا گیاتھا بالخصوص تفہیم القرآن کی خصوصیات، اہمیت اور اس کے اثرات پر بھی روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی۔اس تعارف کے دوران ۳۲ نقشوں اور ۱۲ تصاویر سے مدد لی گئی، جب کہ سات عدد جدولیں، گوشوارے اور ایک بہت جامع اور مفصل کتابیات بھی اس سیمی نار میں پیش کیے جانے والے مقالے کے آخر میں شامل تھی، ان سب کو مصنفہ نے وضاحت کی خاطر اپنی گفتگو اور اس مقالے میں شامل رکھا تھا۔

اس نوعیت اور تسلسل کے حامل مطالعات کا ایک سلسلہ جو جاپان میں شروع ہوا ہے، اور جو ذوق و شوق مطالعات ِ اسلامی کا جاپان کی جامعات میں نظر آرہا ہے، یہ روز افزوں ہے اوراس لیے یقین کیا جاسکتاہے کہ اس میں ہر جہت سے اضافہ ہوتا رہے گا۔

حواشی

  •                برکت اللہ بھوپالی (۷ جولائی ۱۸۵۴ئ، اتوار محلہ، بھوپال- وفات:۲۷ستمبر ۱۹۲۷ئ، سیکرانٹو،       سان فرانسسکو، امریکا) پرائمری سے کالج تک بھوپال میں تعلیم حاصل کی، پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے بمبئی اور لندن گئے۔ وہاں مسلم انسٹی ٹیوٹ لیورپول سے وابستہ ہوئے۔ بہ یک وقت مختلف زبانوں کا فہم رکھتے تھے، جن میں عربی، فارسی، ترکی، انگریزی، جرمنی، جاپانی، اُردو شامل ہیں۔ ٹوکیو یونی ورسٹی شعبۂ اُردو میں استاد مقرر ہوئے۔ ’غدرپارٹی‘ کی بنیاد رکھی۔ آزادیِ ہندکے لیے لینن، ہٹلر، غازی پاشا، قیصرولیم دوم وغیرہ سے ملاقاتیں کیں۔ بھوپال میں ان کی یاد میںبرکت اللہ یونی ورسٹی قائم ہے۔ (ادارہ)

۱-            تفصیلات کے لیے:  میساوا نوبوؤ اور گوکور اکچاداغ، The First Japanese Muslim Shotaro Noda ( 1868-1904).، مشمولہ: Annals of Japan Association for Middle East Studies. ، شمارہ ۲۳۔ ۲۰۰۷ئ، ص ص۸۵۔۱۰۹

۲-            تفصیلات کے لیے: میساوا نوبوؤ  Japanese Commercial Museum in Istanbul (1928-1937) ، Annals of Japan Association for Middle East Studies.  ، شمارہ ۲۳، ۲۰۰۷ئ، ص ص ۲۳۷۔۲۳۸؛ ونیز  شویچی کوبایاشی اور نوبوؤ میساوا، Japanese Islam Policy. ، مشمولہ: Gondai Shakai Kankyu. ، مجلّۂ ٹوکیو یونی ورسٹی، شمارہ  ۲، ۲۰۰۸ئِ ۔ ص۹-۲۲

۳-            جاپان میں اسلام پر حالیہ مطالعات کی قدرے تفصیل راقم کی ایک تصنیف مشرقِ تاباں: جاپان میں اسلام، پاکستان اور اُردو زبان و ادب کا مطالعہ۔ پورب اکادمی، اسلام آباد، ۲۰۱۰ء میں دیکھی جاسکتی ہے۔ زیرنظر سطور میں محض اختصار روا رکھا گیاہے۔

۴-            مشمولہ: Bulletin of Asia-Pacific Studies.  ، جلد XI ، ۲۰۰۱ئ، ص ص ۱۶۷- ۲۱۰

۵-            مشمولہ: Ajia Taiheiyo Ronsi  ، جلد II ، ۲۰۰۱ئ،

۶-            مشمولہ:Kansai Arab-Islam Research Journal ،جلد ۳، ۲۰۰۳ئ، ص ۱۵۱-۱۶۵

۷-            مشمولہ: Memoirs of the Research Department of the Toyo Bunko.  ،  جلد ۶۳، ۲۰۱۰ئ، ص ۱۴۳-۱۷۴ (مذکورہ مقالے کا ترجمہ عالمی ترجمان القرآن ’جنوبی ایشیا میں اسلام کا مستقبل‘، علامہ اقبال اور مولانا مودودی کے افکار کے تناظر میں‘ (جون،اگست ۲۰۱۳ئ) میں شائع ہوچکا ہے۔)

۸-            یہ کتاب  NIHU، National Institute of Humanities کے سلسلۂ مطبوعات: Research Series of South Asia and Islam کے تحت ۲۰۱۳ء میںشائع کی گئی ہے اور یہ اس سلسلے کی تیسری کتاب ہے۔

۹-            مشمولہ تذکرۂ مودودی ، جلد سوم ۔ ادارۂ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور، ۱۹۹۸ء

 

مقالہ نگار: سابق صدر شعبہ اُردو، کراچی یونی ورسٹی، کراچی

حیدرآباد دکن یا مملکت ِ آصفیہ حیدرآباد ہندستان کے اُن علاقوں میں سے ایک ہے، جواپنی تاریخی اہمیت اور اپنی تہذیبی شان و شوکت کے لحاظ سے ایک انفرادی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مؤرخین نے بھی اس علاقے اور اس کی تاریخ اور اس کی تہذیبی انفرادیت پر کماحقہٗ توجہ دی ہے۔ اس موضوع پر کثیرتعداد میں کتب تواریخ مطبوعہ اور غیرمطبوعہ، کتب خانوں اور علمی ذخیروں میں موجود ہیں۔ اسی ضمن میں دکن یا مملکت ِ حیدرآباد کی تاریخ پر مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ (۱۹۰۳ء-۱۹۷۹ء) کی دو تصانیف: دولتِِ آصفیہ اور مملکت برطانیہ، سیاسی تعلقات کی تاریخ پر ایک نظر۱؎ اور دکن کی سیاسی تاریخ۲؎ بھی اہم اور معروف ہیں۔

مولانا مودودیؒ ایک مفکروعالم کی حیثیت و شہرت کے حامل ہیں لیکن تصنیف و تالیف کے ابتدائی دور میں انھوں نے تاریخ کے مطالعے اور تراجم میں زیادہ دل چسپی لی تھی اور اپنی نوجوانی ہی میں متعدد اہم مقالات و کتابیں تصنیف کیں جو شائع بھی ہوئیں۔ مذکورہ تصانیف اسی ضمن میں ان کی ابتدائی کاوشیں ہیں۔ ان میں سے اول الذکر ایک عصری تناظر میں لکھی گئی تھی اور ایک تاریخی تسلسل اور عمومی دل چسپی کا اس میں احاطہ نہیں کیا گیا تھا لیکن مملکت ِ آصفیہ کی ایک ایسی تاریخ جس میں اس کے قیام کا پس منظر اور عہد بہ عہد حالات و واقعات شامل ہوں، مولانا مودودیؒ کی نظر میں اس کی ضرورت موجود تھی۔ چنانچہ اپنی مذکورہ اول الذکر کتاب کی تصنیف اور اشاعت کے بعد انھوں نے اس ضرورت کے ذیل میں اپنی اس تصنیف کے لیے جب وہ ۱۹۳۰ء میں بھوپال میں چند ماہ مقیم رہے، تو مواد جمع کرنا شروع کیا تھا اور وہاں سے جولائی ۱۹۳۱ء میں حیدرآباد منتقل ہوئے تو وہاں اسی جستجو اور مآخذ کی جمع آوری میں منہمک ہوگئے۔۳؎ 

ان کاارادہ ایک مفصل تاریخ لکھنے کا تھا جو چار جلدوں پر مشتمل ہوتی۔ انھوں نے اس کا آغاز بھی کردیا تھا لیکن اسے دیکھ کر ان کے ایک مقامی دوست مولوی احمدعارف نے مشورہ دیا کہ ان کا منصوبہ تحقیقی مطالعہ کرنے والوں کے لیے مفید ہوسکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ایک ایسی کتاب کی ضرورت بھی موجود ہے جو مبتدی طلبہ کے لیے ہو۔ یہ مشورہ انھیں پسند آیا۔ چنانچہ انھوں نے اس پر عمل شروع کردیا اور بہت آسان اسلوب میں دکن کے عہدقدیم سے  قطب شاہی تک کے مختصر حالات لکھ دیے۔ پھر یہ طے ہوا کہ خود مولوی احمد عارف بھی اس تصنیف میں شریک ہوجائیں گے۔ چنانچہ مولوی احمد عارف نے اس میں شامل کرنے کے لیے مغلیہ عہد  اور آصف جاہی عہد کے حالات تحریر کیے۔ اس طرح ایک مشترکہ کوشش سے ایک مختصر کتاب تاریخ دکن مرتب ہوگئی اور شائع بھی ہوگئی۔۴؎ 

یقین کیا جاسکتا ہے کہ یہ وہی کتاب ہے جس کا ذکر خود مولانا مودودی نے اپنی ’خودنوشت‘ میں مختصر تاریخ دکن کے طور پر کیا ہے لیکن اس کا ذکر ان کی تصانیف کی کسی فہرست میں نظر نہیں آتا  ۵؎  ، اور نہ اس کا پھر کہیں کسی جگہ ذکر ہوا، جب کہ دکن کے تعلق سے مولانا مودودیؒ کی کُل کاوشوں پر اور دکن و حیدرآباد سے ان کی نسبتوں پر خاص طور پر ڈاکٹر محمدرفیع الدین فاروقی نے حیدرآباد دکن میں رہ کر دادِ تحقیق بھی دی۔۶؎ 

مولانا مودودی کے یہ دوست مولوی احمد عارف (م: ۱۹۴۹ء) حیدرآباد دکن کے معزز اور معروف شخص تھے۔ وہاں کے اکابر میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ادب اور فنون لطیفہ سے خاصی دل چسپی تھی۔۷؎  وہ صحافت سے منسلک تھے اور ایک بہت مؤثر اخبار صبحِ وطن کے مدیر تھے۔اس اخبار کو قومی تحریکوں میں قومی اُمنگوں کی ترجمانی اور حکومت ِ وقت کی تائید و حمایت کی وجہ سے خاصی مقبولیت حاصل تھی۔۸؎ 

ہمیں حال ہی میں اس نادر و نایاب کتاب کا ایک نسخہ ملا ہے۔ ذیل میں ہم اس کا دیباچہ (از قلم مولانا مودودی) نقل کر رہے ہیں، جس سے اندازہ ہوگا کہ یہ کتاب طلبہ کے لیے لکھی گئی تھی اور اس کا مقصد انھیں دکن کی تاریخ سے واقف کرانا تھا۔ ساتھ ہی مولانا ان میں تاریخ کے مطالعے بلکہ تاریخ کے فلسفیانہ مطالعے کا ذوق و شوق پیدا کرنا چاہتے تھے۔ اس کتاب کو موضوعات اور   عہد کے لحاظ سے آٹھ ابواب میں تقسیم کیا گیا، لیکن ہرباب کو بھی ذیلی اسباق میں تقسیم کیا گیا، تاکہ طلبہ ہر عہد کی ذیلی موضوعاتی تفریق و تقسیم کی مصلحت سے بھی واقف ہوسکیں اور تاریخ کو ان کے تناظر میں سمجھ سکیں۔

تاریخِ دکن کی نایابی اور ندرت، اور مولانا مودودی کی ایک غیرمعروف تصنیف ہونے کے باعث، اس کا دیباچہ اور فہرست ِمضامین ، مع صفحات نمبر، ذیل میں نقل کیے جاتے ہیں:

ص ۱:’’ تین چار سال سے مَیں دکن کی ایک مفصل تاریخ لکھنے میں مشغول ہوں، جس کے متعلق میرا اندازہ ہے کہ چار جلدوں میں تمام ہوگی۔ اس کے بعض حصوں کو دیکھ کر میرے دوست مولوی احمد عارف صاحب نے یہ راے دی کہ یہ کتاب تحقیقی مطالعہ کرنے والوں کے لیے مفید ہوسکتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ایک ایسی کتاب کی بھی ضرورت ہے جس میں مبتدی طلبہ کے لیے تاریخ کا ایک مختصر اور واضح خاکہ کھینچا جائے۔ ان کی اس تجویز کے مطابق میں نے قدیم زمانے سے قطب شاہی عہد تک کے مختصر حالات لکھ دیے اور ان پر مغل اور آصف جاہی عہد کے حالات کااضافہ مولوی احمد عارف صاحب نے کیا۔ اس متحدہ کوشش سے یہ کتاب مرتب ہوئی۔

’’جہاں تک کتاب کے حُسن و قبح کا تعلق ہے اس کو جانچنا ناقدین کا کام ہے۔ البتہ ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے حتی الامکان اس کا تاریخی مواد نہایت معتبرومستند مآخذ سے اخذ کیا ہے اور ایسے واقعات درج کرنے سے پرہیز کیا ہے جن کی سند مشتبہ ہو۔

’’اس کتاب میں جن باتوں کا خاص خیال رکھا گیا ہے وہ یہ ہیں کہ مبتدی طلبہ کے ذہن میں دکن اور اس کی جغرافی، نسلی، لسانی، تاریخی اور عمرانی حالات کی ایک صاف اور واضح تصویر [نقش] ہوجائے۔ مختلف زمانوں میں جو قومیں یہاں__ ص۲: آئیں اور جو سلطنتیں قائم ہوئیں ان کے زمانی اور جغرافی حدود، ان کے پیدا کردہ تغیرات اور ان کے چھوڑے ہوئے اثرات کو طلبہ کی استعداد کا لحاظ رکھتے ہوئے، روشن خطوط کے ساتھ نمایاں کردیا گیا ہے۔ پرانی لکھی ہوئی کتابوں کی تقلید میں دکن کی تاریخ کے متعلق جو نظریات قائم کرلیے گئے تھے، ان کو چھوڑ کر وہ نظریات اختیار کیے گئے ہیں جو جدید تحقیق و مطالعے کا نتیجہ ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ کوشش کی گئی ہے کہ مبتدی طلبہ کے ذہن میں ابھی سے ایک غیرمحسوس طور پر تاریخ کے فلسفیانہ مطالعے کی بنا پڑ جائے۔

’’بچوں کو یہ کتاب پڑھاتے وقت اساتذہ کو دو باتوں کا خصوصیت کے ساتھ لحاظ رکھنا چاہیے: ایک یہ کہ دو دفعہ پڑھائی جائے۔ پہلی دفعہ میں تاریخ کا صرف ایک عمومی خاکہ ذہن نشین کرنے کوشش کی جائے اور دوسری دفعہ میں تفصیلات یاد کرائی جائیں مگر تفصیلات میں بھی غیراہم اشخاص اور سنین کی طرف زیادہ توجہ نہ کی جائے۔ دوسری یہ کہ ہرسبق کو پڑھانے سے پہلے استاد خود اس کو غور سے پڑھے اور یہ راے قائم کرے کہ اس سبق میں کون سی باتیں اہم ہیں، نیز وہ نقشے کی مدد سے اس سبق کو اچھی طرح سمجھ بھی لے۔ پھر وہی سبق بچوں کو لیکچر کے انداز میں پڑھائے اور باربار نقشے سے مدد لیتا جائے۔ اس کتاب میں جو نقشے دیے گئے ہیں، صرف ان ہی پر اعتماد کرنا ٹھیک نہیں ہے، ہرتاریخی تغیر اور اہم واقعے کو سمجھانے کے لیے نقشے کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے، اور یہ ظاہر ہے کہ کتاب میں اتنے نقشے نہیں دیے جاسکتے‘‘۔

مولانا مودودی نے اس کتاب کے چھے ابواب تحریر کیے، جن کے عنوانات یہ ہیں:

  • ہمارا ملک اور اس کے باشندے
  • دولت ِ آصفیہ کا رقبہ اور آبادی
  • پرانے زمانے کی تاریخ
  • دکن کی آریہ اور دراوڑ ریاستیں
  • دکن میں مسلمانوں کی آمد
  • سلطنت ِ بہمنیہ
  • دکن کی پانچ ریاستیں۔

یہ ابواب کُل ۱۷۱صفحات پر مشتمل ہیں، جب کہ کتاب کی کُل ضخامت ۲۲۴صفحات ہے۔ اس طرح ۵۳صفحات مولوی احمد عارف نے تحریر کیے تھے۔گویا تین چوتھائی کتاب مولانا کی کاوش کا نتیجہ ہے اور ایک چوتھائی مولوی احمد عارف صاحب کی تحریر ہے۔

حوالے اور حواشی

  1. شائع کردہ: کتب خانہ رحیمیہ، دہلی، ۱۹۲۸ء۔ یہ تصنیف بعد میں ۱۹۴۱ء میں عبدالحق اکیڈمی حیدرآباد نے دوبارہ شائع کی۔ اس کی دوسری اشاعت میں کچھ ترامیم بھی شامل کی گئی تھیں، جیسے ’معاہدۂ برار‘ کا متن اضافہ کیا گیا۔ اس کی مزید ایک اشاعت (سوم) کا اہتمام ہفت روزہ آئین، لاہورنے ۲۵جون ۱۹۸۷ء کے شمارے میں، اپنی خصوصی اشاعت کے طور پر کیا۔
  2. مطبوعہ: دارالاشاعت سیاسیہ، حیدرآباد دکن، ۱۹۴۴ء۔ بعد میں یہ کتاب اسلامک پبلی کیشنز لاہور سے اگست ۱۹۶۸ء میں اور پھر جون ۱۹۶۹ء میں شائع ہوئی۔
  3. سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ’’خودنوشت‘‘،(مشمولہ: ادب اور ادیب، سیدمودودی کی نظر میں (مرتبہ: سفیراختر) دارالمعارف، واہ کینٹ، جنوری ۱۹۹۸ء، ص ۲۹
  4. مطبع عہدآفریں، حیدرآباد، ۱۳۵۱ھ۔
  5. مشمولہ: ادب اور ادیب، سیدمودودی کی نظر میں ،ص ۱۹، ۴۳۔ اس تصنیف کا ذکر اور اشاعتی تفصیلات کسی اور جگہ دستیاب نہیں۔ یہاں تک کہ نصیرالدین ہاشمی صاحب نے ’’دکن کی تاریخوں پر ایک نظر‘‘ (مشمولہ: تاریخ و سیاست، کراچی ، نومبر ۱۹۵۳ء،ص ۶۱-۹۸) کے عنوان سے اپنی مرتبہ وضاحتی فہرست میں بھی اس کا ذکر نہیں کیا، جو ان کی قریب العہد تصنیف ہے۔ اس تصنیف کے دو نسخے کتب خانہ انجمن ترقی اُردو، کراچی میں شمار: الف ۱۹؍۳، ۱۰ اور ۱۱ کے تحت موجود ہیں۔ راقم نے اس تصنیف پر ایک علیحدہ تعارفی مضمون تحریر کیا ہے۔ اس تصنیف کے دو نسخے کتب خانہ انجمن ترقی اُردو، کراچی میں الف ۱۹؍۳،۱۰ اور ۱۱ کے تحت موجود ہیں۔
  6. مقالہ، بعنوان: ’’مولانا مودودی اور حیدرآباد دکن‘‘، مشمولہ: تذکرۂ سیدمودودی (مرتبہ: جمیل احمد رانا، سلیم منصور خالد) جلد۳،ادارہ معارف اسلامی، لاہور، ۱۹۹۸ء، ص ۳۱۲-۳۳۱۔
  7. سید محمد جعفری ، اسٹار ڈائرکٹری ،اسٹار پریس، الٰہ آباد، سن ندارد، ص ۴۴۴-۴۴۵، صبح وطن، ۱۹۲۸ء میں جاری کیا  تھا۔ سید ممتاز مہدی، حیدرآباد کے اُردو روزناموں کی ادبی خدمات۔ قومی کونسل براے قومی زبان، نئی دہلی، ۱۹۹۸ء ،ص ۴۱، دارالعلوم، حیدرآباد سے فارغ التحصیل تھے۔ ۱۹۴۸ء میں یہ اخبار بند ہوگیا، طیب انصاری، حیدرآباد میں اُردو صحافت۔ ادبی ٹرسٹ حیدرآباد، ۱۹۸۰ء، ص۶۰۔
  8. اس اخبار میں اسی زمانے میں کہ جب یہ کتاب لکھی جارہی تھی، مولانا مودودی نے دکن کی تاریخ کے ایک اہم اور غیرمطبوعہ ماخذ فتوحاتِ آصفی ، مصنفہ ابوالفیض معنی کا بغائر مطالعہ کیا اور ایک مفصل مقالہ اس کی اہمیت اور خصوصیات و مندرجات پر لکھا جو اس اخبار کے ’سالگرہ نمبر‘ ، ۱۳۵۱ھ میں شائع ہوا۔ مولانا مودودی کا یہ اہم مقالہ بھی غیرمعروف اور غیرمدوّن ہے۔ اس مقالے کی اہمیت کے پیش نظر ایک ضروری تعارف و حواشی کے ساتھ راقم نے اسے بغرضِ اشاعت علیحدہ مرتب کیا ہے۔
  9. ص ۱۔
  10. ص ۱-۲۔

مقالہ نگار شعبہ اُردو ، جامعہ کراچی کے سابق صدر ہیں

جاپان ہمہ اقسام کی ایجادات اور مصنوعات کی وجہ سے ساری دنیا میں جانا پہچانا جاتا ہے، لیکن یہاں کی علمی اور تحقیقی سرگرمیوں سے باہر کی دنیا پوری طرح آگاہ نہیں۔ یہ زیادہ تر جاپانی زبان میں ہوتی ہیں، اس لیے بیرونی دنیا اور خصوصاً اُردو دنیا کو کوئی علم نہیں ہوپاتا۔

راقم الحروف نے اپنے جاپان کے اولین قیام کے عرصے (۱۹۹۳ء-۲۰۰۰ء) میں علمی و تحقیقی میدان میں، خصوصاً تاریخ اور سیاست، اسلام اور دنیاے اسلام اور پھر اُردو زبان و ادب کے تعلق سے یہاں ہونے والی تصنیفی و تالیفی اور تراجم پر مبنی سرگرمیوں کے احوال کو اُردو دنیا سے متعارف کرانے کا ایک سلسلہ ’مشرقِ تاباں‘ کے زیرعنوان کراچی کے ایک کثیرالاشاعت رسالے میں جاری رکھا تھا اور پھر بعد میں گاہے گاہے نئی معلومات بھی مختلف رسائل میں پیش کی ہیں۔ اس مضمون میں جاپان میں، خصوصاً حالیہ چند برسوں میں، پاکستان اور جنوبی ایشیا کی تاریخ و سیاست اور معاشرت و مذہب پر جو مطالعات اور تحقیقات سامنے آئی ہیں ان میں سے چند کا سرسری تعارف مقصود ہے۔

ایک عرصہ قبل پاکستان سے متعلق مطالعہ و تحقیق کی روایت جاپان میں محض چند اسکالروں اور ایک دو اداروں تک محدود تھی جن میں دی سنٹر فار ایسٹ ایشین کلچرل اسٹڈیز ٹوکیو، ٹوکیو یونی ورسٹی، تویو بونکو (Toyo Bunko)، اورینٹل لائبریری ٹوکیو، ٹوکیو یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز، اور جاپان پاکستان ایسوسی ایشن ٹوکیو نمایاں تھے۔ ان میں سے مؤخر الذکر ادارہ خصوصاً پاکستان کے تعلق سے مطالعے کے ساتھ ساتھ تعارفی و سماجی نوعیت کی تقریبات اور خطبات کا اہتمام بھی کرتا ہے لیکن اس کے چند علمی کام یادگار بھی ہیں۔ ان میں سے ایک اس کا وہ جریدہ ہے، جو پاکستان کے نام سے کچھ عرصہ قبل تک باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ جریدہ جاپانی زبان میں جاپانی اسکالروں کی تحریروں سے، جو کسی نہ کسی لحاظ سے پاکستان اور اس کی معاشرت، معیشت، تاریخ اور سیاست سے متعلق ہوتی تھیں، مزین ہوتا تھا۔ کبھی کبھی اس میں کسی پاکستانی تخلیق، جیسے افسانہ یا کسی اور نوعیت کی ہلکی پھلکی تحریر کا جاپانی ترجمہ بھی شائع کیا جاتا تھا۔ اس میں گاہے گاہے جاپانیوں کی وہ تحریریں بھی شامل ہوتی تھیں جو ان کے پاکستان کے سفر یا قیام کے دوران ان کے مشاہدات و تاثرات پر مبنی ہوتی تھیں۔ پاکستان کے بارے میں اس طرح کی ذاتی مشاہدات و تاثرات اور جائزے و مطالعے پر مشتمل تحریروں کے دوسرے مجموعے وقتاً فوقتاً جاپان میں چھپتے رہے ہیں، جن کے بیش تر موضوعات کا تعلق بالعموم پاکستان کی تہذیب و ثقافت، معاشرت، مناظر اور سیاست و معیشت سے ہوتا ہے۔

یہ جریدہ پاکستان اب بھی نکلتا ہے، اور اب حال میں اس کا ۲۰۰ واں شمارہ ،بطور خاص نمبر، قدرے زیادہ ضخامت سے شائع ہوا ہے۔ اس خاص نمبر میں اس کے ۲۰۰ شماروں کا ایک خصوصی جائزہ ’کی کوتایوتاکا‘ صاحب نے تحریر کیا ہے، جس میں ایسوسی ایشن کی تاریخ پر بھی نظر ڈالی ہے۔

جاپان پاکستان ایسوسی ایشن کے علمی کاموں میں سے ایک اہم علمی کام ایک ضخیم کتابیات رہنماے پاکستان (جاپانی) کی ترتیب و اشاعت تھا۔ یہ متنوع اور مبسوط کتابیات، جو پاکستان کی تاریخ و سیاست ، تہذیب، ثقافت، معاشرت اور زبان و ادب کے متعدد پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہے، اگرچہ جاپانی زبان میں ہے اور زیادہ تر جاپانی مطبوعات پر مشتمل ہے لیکن اس میں مغربی زبانوں بالخصوص انگریزی مآخذ اور کتب ِحوالہ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ بہت جامع اور سائنٹی فک انداز سے مرتب کی ہوئی کتابیات ہے، جس کی نظیر، بعض مغربی زبانوں کی کتابیات سے قطع نظر، جو پاکستان کے تعلق سے بالخصوص مرتب ہوئیں، کسی مشرقی زبان میں مشکل ہی سے مل سکتی ہے۔

اس کتابیات کے مرتبین میں متعدد نام ہیں لیکن بنیادی اور حاوی کام پروفیسر اسادایوتاکا (صدر شعبۂ اُردو، ٹوکیو یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز) اور ہیرو کی فوکاماچی (ماہر معاشیات پاکستان) نے انجام دیا۔ ان دونوںاسکالروں نے اپنی دل چسپی اور مطالعے کا محور پاکستان کو بنا رکھا ہے۔ پروفیسر اسادایوتاکا کے کام اُردو زبان و ادب سے متعلق ہیں اور وہ اور ان کی بیگم میہارو اسادا پاکستان کی شمالی زبانوں پر بھی کام کرچکی ہیں، جب کہ فوکاماچی نے پاکستان کی معیشت اور سیاست میں دل چسپی لی ہے اور بجاطور پر جاپان میں ان کے ماہر مانے جاتے ہیں۔

پاکستان پر مختلف نوعیت کی متعدد کتابیں،سفری رہنما کتب، وہاں سے آنے والے جاپانیوں کے تاثرات پر مبنی کتب یا مضامین کے مجموعے، معاشی جائزے اور تاریخی و تحقیقی نوعیت کی مکمل یا جزوی کتب شائع ہوتی رہتی ہیں۔ ایک ایسی ہی کتاب چند سال قبل ۲۰۰۳ء میں،سویامانے، ہیروسے تکاکو اور اودا ہسایا نے مل کر مرتب کی ہے، جس کے عنوان کا ترجمہ یوں ہوسکتا ہے کہ ’پاکستان جانے کے لیے ۶۰ ابواب‘۔ اس کتاب میں ۶۰ مختلف عنوانات کے تحت پاکستان کے بارے میں وہ معلومات فراہم کی گئی ہیں جو پاکستان کے بارے میں جاننے اور وہاں جانے والوں کے لیے دل چسپ اور مفید ہوسکتی ہیں۔ مرتبین کو پاکستان سے نسبت رہی ہے اور ان میں سویامانے تو پاکستان میں تعلیم بھی حاصل کرچکے ہیں۔ قونصل خانہ جاپان میں سرکاری فرائض بھی انجام دیتے رہے ہیں اور اب اوساکا یونی ورسٹی کے شعبۂ اُردو میں پروفیسر رہ کر ایک عرصے سے اُردو، پاکستان، اسلامی فکر اور تحریکوں پر تحقیق و تصنیف اور تدریس میں مصروف ہیں۔ یہ کتاب یہاں بہت مقبول ہوئی ہے، دو سال بعد اس کا دوسرا اڈیشن اور اب اگلے سال اس کا تیسرا اڈیشن شائع ہو رہا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے حالیہ دو تین دہائیوں کے تعلقات اور مسائل پر بھی یہاں کئی مطالعے ہوچکے ہیں۔ افغانستان بھی خصوصی موضوع کی حیثیت یہاں اختیار کرچکا ہے۔ ماہرین مختلف پہلوئوں سے ان دونوں ملکوں پر الگ الگ یا مشترکہ موضوع کی حیثیت میں مطالعہ کر رہے ہیں اور کتابیں اور مقالات سامنے آرہے ہیں۔ اس نوعیت کی ایک مختصر کتاب فوکاماچی ہیروکی اور ادوا ہسایا نے مرتب کی ہے جس کے عنوان کا ترجمہ کچھ یوں ہوسکتا ہے کہ ’’افغانستان اور پاکستان: کیا یہ بحران ریاست کے وجود کے لیے ہے؟‘‘ دونوں مرتبین پاکستان پر مختلف نوعیت کے تحقیقی اور تجزیاتی مطالعے کرچکے ہیں۔ فوکاماچی صاحب یہاں پاکستان کی سیاست و معیشت کے ماہرین میں شمار ہوتے ہیں اور اُردو خوب جانتے ہیں۔ ان کی بیگم بھی پاکستان سے بے حد محبت و انسیت رکھتی اور اُردو جانتی ہیں اور اپنے تاثرات لکھ بھی چکی ہیں۔

جاپان میں تحقیقی مطالعات کی مستحکم اور دیرینہ روایت میں علاقائی مطالعات کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ فیجی کے زمانے میں، یعنی انیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں جب یہاں نئے نظامِ معاشرت و معیشت کی تشکیل کی بابت سوچا گیا تو یہ بھی سوچا گیا اوراس کے لیے باقاعدہ اور منظم طریقے پر سیاسی سرپرستی میں یہ اہتمام کیا گیا کہ تمام ترقی یافتہ ممالک کی معاشرتی اور معاشی ترقی کا راز معلوم کیا جائے اور ان کی مثبت خصوصیات کو اختیار کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے جو جو اہتمام ہوئے اور جو کامیابیاں جس جس طرح سے حاصل ہوئیں، یہ ایک الگ داستان ہے۔ علاقائی مطالعات کو اس وقت سے یہاں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ بعض جامعات اس مقصد سے قائم    کی گئیں، جیسے ٹوکیو یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز، اوساکا یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز، اور پھر  دیگر متعدد سرکاری اور نجی جامعات میں ایسے خصوصی شعبوں اور کلیّوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ ان جامعات اور کلیّوں میں ہر اہم موضوع پر، جن میں خصوصیت سے مذہب، تاریخ، تہذیب و ثقافت اور سیاست و بین الاقوامی تعلقات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، تحقیق اور تدریس کا خاص اہتمام ہوتا ہے، کتابیں شائع ہوتی ہیں اور مجلے بھی نکلتے ہیں۔

آج کل ایسے مطالعات کا ایک نیا اور اہم مرکز، مذکورہ جامعات سے قطع نظر، کیوتو یونی ورسٹی بن گئی ہے۔ اس کے کلیہ ایشیا، افریقہ، علاقائی مطالعات اور مرکز براے اسلامی مطالعات ان دنوں تحقیقی سرگرمیوں کا محور بنے ہوئے ہیں۔ یہاں خاص طور پر اسلامی مطالعات کو مرکزیت اور توجہ حاصل ہوگئی ہے۔ تحقیقی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں اور سیمی ناروں اور کانفرنسوں کا ایک سلسلہ بندھا ہوا ہے۔ اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ ان مراکز کے صدر ایک پروفیسر کوسوگی ہیں، جو عربی کے استاد ہیں۔ پی ایچ ڈی جامعہ ازہر، قاہرہ سے کی ہے اور مسلمان بھی ہوچکے ہیں۔ بہت لائق، متحرک اور مستعد انسان ہیں۔ کئی اہم کتابیں اسلام اور دنیاے اسلام کے تعلق سے مرتب کی ہیں۔ ایک تحقیقی مجلہ بھی نکالتے ہیں اور ایک عمدہ اور وقیع کتب خانہ بھی قائم کررکھا ہے۔ یہ پہلے ٹوکیو یونی ورسٹی اور اس کے مرکز مطالعات اسلامی سے منسلک تھے لیکن کچھ سالوں سے کیوتو یونی ورسٹی آگئے ہیں، اور ان کی آمد سے یہاں اسلامی مطالعات اور علاقائی مطالعات میں روز افزوں اضافہ ہوگیا ہے۔ ویسے تو یہاں علاقائی مطالعات کے ضمن میں مشرق وسطیٰ کے ممالک کو ترجیح حاصل ہے، کیونکہ پروفیسر کوسوگی کی بنیادی دل چسپی عربی اور مشرق وسطیٰ کی حالیہ معاشرت و سیاست سے متعلق ہے، لیکن اب وہ جنوبی ایشیا اور یہاں کی اسلامی فکروتحریک کے مطالعے کی طرف بھی راغب ہو رہے ہیں اور ایسے موضوعات بھی اپنے نوجوان اسکالروں میں تقسیم کر رہے ہیں، جن کا تعلق جنوبی ایشیا سے ہے۔

یہاں ایک ایسے ادارے کا ذکر بھی مناسب ہے جو محض جنوبی ایشیا کی ثقافت اور زبانوں کے مطالعے کے لیے مخصوص ہے اور یہ ’ٹوکیو یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز‘ کا ایک ذیلی ادارہ ’سائوتھ ایشین لینگویجز اینڈ کلچر‘ ہے جس میں اس ادارے کے نام اور مقاصد کے تحت مطالعات کا ایک تسلسل برسہا برس سے قائم ہے۔ یہاں پی ایچ ڈی کے متعدد منصوبے مکمل ہوچکے ہیں اور بیشتر مقالات شائع بھی ہوچکے ہیں۔ یہاں سے ایک تحقیقی مجلہ ’جرنل آف سائوتھ ایشین لینگویجز اینڈ کلچر‘ شائع ہوتا ہے جس میں جاپانی زبان کے ساتھ ساتھ انگریزی اور یورپی زبانوں میں بھی مقالات چھپتے ہیں اور سب ہی تحقیقی وتجزیاتی نوعیت اور معیار کے حامل ہوتے ہیں۔اس کے ایک حالیہ شمارے میں پروفیسر ہیروجی ہاگیتانے، جو ٹوکیو یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز کے شعبۂ اُردو میں استاد اور کئی اُردو افسانوں کے مترجم اور اب ’اُردو جاپانی لغت‘ کے مرتب بھی ہیں، ایک کتابیات اُردو کے ان ناولوں اور افسانوں کی مرتب کی ہے، جو اَب تک جاپانی میں ترجمہ ہوچکے ہیں۔

جنوبی ایشیا کے تعلق سے اوساکا یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز بھی اہم ہے جس میں مختلف متعلقہ شعبے تحقیقی و تدریسی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ یہاں سے بھی ایک تحقیقی مجلہ جرنل آف اوساکا یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز شائع ہوتا ہے، جس میں متنوع تحقیقی مقالات شائع ہوتے ہیں، جو اگرچہ مختلف موضوعات پر ہوتے ہیں، لیکن جنوبی ایشیا، یہاں کی ثقافت اور زبان و ادب کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ فارسی، اُردو اور ہندی و بنگالی زبانوں اور ان کے ادب پر اس جرنل میں متعدد قابلِ قدر مقالات شائع ہوتے ہیں۔

جنوبی ایشیا کے تعلق سے یہاں ایک اور ادارے کا ذکر ضروری ہے جو ٹوکیو میں ادارۂ شرقی (Toyo Bunko) کے نام سے معروف ہے۔ اس کا ایک بڑا اور وقیع کتب خانہ علومِ شرقیہ پر کتابوں اور مخطوطات کے قیمتی ذخیرے کی بنا پر بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں موجود مطبوعات اور مخطوطات کی فہرستیں چھپ چکی ہیں۔ ٹوکیو میں اس کے علاوہ ٹوکیو یونی ورسٹی کا ایک ذیلی ادارہ ’مرکز براے مشرقی ایشیائی ثقافتی مطالعات‘ ہے جس کے تحت مختلف متعلقہ موضوعات پر تحقیقات اور علمی و تحقیقی سرگرمیوں اور منصوبوں کا ایک تسلسل یہاں قائم ہے۔ یہاں سے کئی کتابیں اور کتابچے چھپ چکے ہیں اور ایک تحقیقی مجلہ Asian Research Trends یہاں سے شائع ہوتا ہے۔ اس میں جو مقالات شائع ہوتے ہیں ان کی نوعیت تحقیقی جائزوں اور کتابیاتی مطالعات کی ہوتی ہے۔ اگرچہ اس کا محور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک مثلاً چین، کوریا، فلپائن، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، برما پر محیط رہتا ہے لیکن گاہے گاہے جنوبی ایشیا پر بھی مقالات شائع ہوتے ہیں، مثلاً ایک سلسلۂ مضامین ’ہندستان میں تحقیقی اداروں کا جائزہ‘ کے عنوان سے ناکازاتو ناریاکی نے تحریر کیا، جو چار قسطوں میں شائع ہوا۔ اس میں اداروں کا تعارف، نوعیت اور سرگرمیوں کی تفصیلات درج کی گئی ہیں۔ ایک شمارے میں نیدرلینڈ میں اسلام سے متعلق جو تحقیقات ہوئی ہیں ان کا ایک بہت محققانہ جائزہ اور کتابیات شائع ہوئی ہے۔ چین میں اسلامی تحقیقات پر بھی ایک محققانہ سلسلۂ مضامین اس میںشائع ہوا ہے۔ ایک شمارے میں وسط ایشیا، قازقستان کے تعلق سے اور نوآبادیاتی بنگال کے بارے میں مقالات شائع ہوئے ہیں۔

اس ادارے میں ’توسیعی خطبات‘ کی ایک مستحکم روایت بھی قائم ہے، جس کے تحت ماہرین کو ’توسیعی خطبات‘ کے لیے مدعو کیا جاتا ہے اور وہ خطبات کتابچوں کی صورت میں شائع کیے جاتے ہیں۔ ان خطبات اور ان پر مبنی کتابچوں کو انگریزی زبان میں Oriental Studies in Japan: Retrospect and Prospectکے زیرعنوان ترتیب دیا جاتا ہے۔ اس وقت دوخطبات: ۱- جنوبی ایشیا کی تاریخ اور ۲- عصرِحاضر کا جنوبی ایشیا، میرے پیش نظر ہیں، جو علی الترتیب کراشیما نوبورو اور ناکامورا ہے ایچی نے تحریر کیے ہیں۔ ان میں عنوان کے مطابق بہت جامع اور تجزیاتی مطالعات کیے گئے ہیں۔ ان کا سلسلۂ شمار ۲۷ تک پہنچا ہے اور ان کے موضوعات میں تاریخ، تہذیب و ثقافت، فلسفہ، ادب، لسانیات، فن تعمیر، بشریات اور فنون شامل ہیں اور علاقائی ذیل میں ان کا دائرہ جاپان کے علاوہ، مغربی ایشیا، افریقہ، چین، کوریا، وسط ایشیا اور مشرق وسطیٰ تک پھیلا ہوا ہے۔

اس طرح کے اور بھی مطالعاتی سلسلے یہاں جاپانی اسکالروں اور علمی و تحقیقی اداروں کے  پیش نظر رہتے ہیں۔ مثلاً ٹوکیو یونی ورسٹی نے ایک خصوصی تحقیقی منصوبہ Islamic Area Studies Project جاری کیا تھا، جو ۱۹۹۷ء سے ۲۰۰۲ء تک جاری رہا۔ اس منصوبے کے تحت جو تحقیقات شائع ہوئیں، ان میں سے ۱۹ راقم الحروف کی نظر سے گزریں۔ ان میں سے نصف سے زیادہ منصوبے جاپانی اسکالروں نے مکمل کیے، جب کہ دیگر متعلقہ ممالک کے اسکالروں نے بھی ان منصوبوں کی تکمیل میں شرکت کی۔

یہ امر بھی دل چسپی کا باعث اور قابلِ رشک ہے کہ جاپان میں علمی اور تحقیقی منصوبے بھی ’پنج سالہ‘ بنائے جاتے ہیں، یعنی نجی اور ذاتی منصوبوں سے قطع نظر وہ منصوبے جو سرکاری یا اداراتی  یا جامعاتی سطح پر بنائے جاتے ہیں، انھیں اسی طرح پانچ سالوں کے ہدف سے پورا کیا جاتا ہے۔   یہ منصوبے بالعموم مشترکہ منصوبے ہوتے ہیں، یعنی انھیں کئی افراد کے سپرد کردیا جاتا ہے اور تقسیمِ کار کے بعد رفتارِ کار کا جائزہ سالانہ بنیادوں پر لیا جاتا ہے اور پھر ضروری فیصلے کیے جاتے ہیں۔ بعض منصوبے جو بڑے اور زیادہ اہم ہوتے ہیں انھیں کئی اداروں اور جامعات کے سپرد کردیا جاتا ہے کہ اس منصوبے کا فلاں حصہ، فلاں جامعہ یا فلاں ادارے کے سپرد رہے گا اور فلاں اُس ادارے کے سپرد۔ پھر وہ ادارہ یا جامعہ اسے اپنے افرادِ متعلقہ کے سپرد کر دیتی ہے یا ان میں تقسیم کردیتی ہے اور پھر سالانہ بنیادوں پر رفتار کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ راقم الحروف کی معلومات کی حد تک، یہ سلسلہ یہاں ۱۹۸۴ء سے شروع ہوا ہے اور بڑے منصوبے بالعموم پانچ سالوں پر محیط آگے بڑھتے ہیں۔ جب یہ مکمل ہوجاتے ہیں تو انھیں شائع کردیا جاتا ہے۔ تحقیق میں اشتراکِ عمل کی یہ مستحسن اور مفید روایت کاش کہ ہمارے ملک میں عام ہوسکے۔ لیکن ہم تو ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہی کے حصار میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ ایثار، رواداری اور اشتراکِ عمل ہماری سرشت ہی میںنہیں۔

حال ہی میں جنوبی ایشیا سے متعلق تازہ تر تحقیقات پر جو مطالعے راقم الحروف کی نظر سے گزرے ہیں ان میں ایک پروفیسر اونایاسویوکی کی تصنیف سلطنت مغلیہ میں ہندستانی معاشرہ ہے۔  یہ کتاب اسی سال شائع ہوئی ہے۔ جنوبی ایشیا کے تعلق سے زیادہ مبسوط اور متنوع کام ابھی حال ہی میں جنوبی ایشیا کی تاریخ کے عنوان سے چار جلدوں کا ایک ضخیم منصوبہ ہے، جس کی تین جلدیں پچھلے سال اور اس سال چھپ چکی ہیں اور چوتھی جلد اگلے سال شائع ہو رہی ہے۔ اس کے مرتب نوبورو کراشیما ہیں اور جلد اول اور جلد سوم خود ان ہی کی تصنیف کردہ بھی ہیں۔ چار جلدوں کی تقسیم اس طرح کی گئی ہے: جلد اول: عہدِ قدیم یا ہندو عہد، جلد دوم: عہدِ وسطٰی اور عہدِ جدید، جلد سوم: جنوبی ہند اور ریاستیں، جلد چہارم: حالیہ عہد کا جنوبی ایشیا۔

مغلیہ عہد کے جنوبی ایشیا پر پروفیسر کوندو اوسامو کا نام جاپان میں خاصا معروف اور محترم ہے۔ موصوف نے اپنے مطالعات کو فارسی مآخذ کی مدد سے مکمل کیا ہے۔ وہ فارسی خوب جانتے ہیں اور فارسی مآخذ اور متون کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ابھی حال میں کوندو صاحب کا ایک مقالہ ایک بہت انوکھے موضوع پر شائع ہوا ہے کہ عہداکبر میں سنسکرت کی اہم کتب کے جو تراجم ہوئے، ان تراجم کے دوران مترجمین کو کیا کیا مسائل درپیش رہے۔ خصوصاً لسانی حوالے سے کہ سنسکرت الفاظ یا اصطلاحات کو فارسی اِملا میں کس طرح ڈھالا جائے۔ پروفیسر کوندو نے ایسے الفاظ کی نشان دہی کی ہے۔ دراصل ان کا یہ مقالہ اوساکا یونی ورسٹی میں اُردو کے پروفیسر سویامانے کے ایک مقالے کی بازگشت کہا جاسکتا ہے، جس میں سویامانے صاحب نے اُردو اِملا اور رسم الخط کے تشکیلی دور کا تحقیقی مطالعہ کیا تھا اور اس ضمن میں انگریز مستشرقین کی ان کوششوں پر روشنی ڈالی تھی جو انھوں نے اُردو حروف اور رسم الخط کو وضع کرنے میں انجام دی تھیں۔ مثلاً ک، گ، ر، ڑ، ٹ کو پہلے کیسے لکھا جاتا تھا لیکن پریس کے قائم ہونے، طباعت کے شروع ہونے اور پھر نستعلیق ٹائپ کے استعمال کے باعث یہ حروف کس طرح تبدیل کرنے ضروری سمجھے گئے۔ پروفیسر سویامانے کے اس طرح کے مباحث کو، جو اُردو کے تعلق سے تھے، پروفیسر کوندو نے فارسی کے مقامی تلفظ کے حوالے سے اپنے مقالے میں سمیٹا ہے۔ لیکن اپنے اس مطالعے کو انھوں نے عہداکبری کی اہم تصنیف آئین اکبری مصنفہ ابوالفضل کے مطالعے اور حوالے تک مخصوص رکھا ہے۔

حالیہ دنوں میں جو مزید قابلِ ذکر اور قابلِ رشک تحقیقی کام سامنے آئے ہیں، ان میں شویامانے (سویامانے نہیں) کا پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ ، مغل شہر: ’توسیعی تعمیر کا تصور اور ان کا ارتقائی و تقابلی مطالعہ‘ ہے، جوکچھ عرصہ قبل شائع ہوا ہے۔ یہ مقالہ انھوں نے کیوتو یونی ورسٹی میں مکمل کیا ہے اور ان کے نگران پروفیسر ہونو اور پروفیسر نشی کاوا تھے، جو خود جنوبی ایشیا کے ماہرین میں شمار ہوتے ہیں۔ مؤخر الذکر کو فنِ تعمیرات سے خاص دل چسپی ہے۔ اس ضخیم تحقیقی مقالے میں مقالہ نگار نے اسلامی شریعت میں شہروں کی تعمیر اور خصوصیات کے تعلق سے روایت اور تصورات پر فاضلانہ طریقے سے روشنی ڈالی ہے اور قدیم اسلامی شہروں مکہ، مدینہ، بغداد،دمشق اور ساتھ ہی یروشلم کی تعمیر اور شہریت کا تقابلی و ارتقائی مطالعہ پیش کیا ہے۔اپنے ان مطالبات میں انھوں نے جزئیات کو بھی اہمیت دی ہے اور اس حد تک گہرائی میں گئے ہیں کہ گلی اور کوچے تک کے فرق کا تحقیقی مطالعہ کر ڈالا ہے۔ اپنے ارتقائی مطالعے میںانھوں نے قدیم شہروں کے ذیل میں یوریشیا کے ماوراء النہر اور ایران کے شہروں کو بھی پیش نظر رکھا ہے، لیکن ان کے موضوع کا اہم حصہ مغل شہروں کا تعمیراتی مطالعہ تھا۔ اس ضمن میں انھوں نے بطور مثال و حوالہ چند اسلامی شہروں دہلی، لاہور اور احمدآباد کو بنیادی مطالعے کا موضوع بنایا ہے۔ اپنے اس مطالعے کو انھوں نے قدیم اور جدید نقشوں سے مزین کر کے نہایت قیمتی معلومات بھی فراہم کی ہیں۔ پروفیسر یامانے کو شہروں کی تعمیرات اور ان کے تحقیقی مطالعے سے ابتدا ہی سے دل چسپی رہی ہے۔ وہ جب ایم اے کے طالب علم تھے تو انھوں نے ایم اے کا مقالہ ’لاہور کی توسیعی تعمیروتشکیل‘ کے موضوع پر ۱۹۹۳ء میں لکھا تھا۔

اب آخر میں ایک ایسی کتاب کا ذکر مناسب ہوگا جو اگرچہ تصوف کے موضوع پر ہے لیکن اس میں تاریخی تناظر سے بھی مطالعہ شامل ہے۔ اس کتاب کو صوفیہ یونی ورسٹی (ٹوکیو) کے مرکز مغربی ایشیا و افریقہ (Centre for West Asia and Africa) نے شائع کیا ہے۔ یہ مرکز ایک عمدہ تحقیقی مجلہ بھی شائع کرتا ہے جس میں مشرق وسطیٰ اور افریقہ و ایران کے بارے میں مقالات شائع ہوتے ہیں۔ تصوف پر شائع شدہ اس کتاب میں مختلف حوالوں سے مقالات شامل ہیں جن میں سے ایک مقالہ آنحضوؐر کے ان تبرکات کے بارے میں ہے جو جنوبی ایشیا میں مختلف مقامات پر محفوظ ہیں۔ یہ مقالہ ایک جاپانی اسکالر محترمہ ساچیو کوماکی نے تحریر کیا ہے، جنھوں نے اس کے لیے پاکستان اور ہندستان کا سفر بھی کیا اور بچشم خود ان تبرکات کو دیکھ کر یہ مقالہ تحریر کیا۔

جاپان کی علمی صورت حال اور یہاں کی جامعات اور علمی وتحقیقی اداروں میں ہونے والے علمی کاموں اور تحقیقا ت اور مطالعات کے بارے میں بیرون جاپان خصوصاً اردو دنیا اور برعظیم پاک و ہند کے باشندوں کو بہت کم علم ہوتا ہے۔ اردو زبان و ادب کے تعلق سے یہاں جو سر گر میاں مختلف صورتوں میں دیکھنے میں آتی ہیں، اور جن کی ایک دیرینہ اور مستقل روایت کم و بیش ۱۰۰ برس سے یہاں موجود ہے، زیر نظر سطور میں ،زبان و ادب اور پاکستان اور جنوبی ایشیا کے بارے میں یہاں ہونے والے علمی وتحقیقی مطالعات سے قطع نظر،اسلا م اور اسلامی دنیا کے تعلق سے ہونے والے تازہ مطالعات اور تحقیقی و علمی سر گرمیوں کا ایک سرسری سا جائزہ مقصود ہے۔

اگر چہ زیر نظر جائزے کا دائرہ گذشتہ چھے سات سال کی تحقیقات اور مطالعات پر مشتمل ہے لیکن سر سری طور پر شاید یہ تذکرہ بے محل نہ ہو گا کہ یہاں اسلامی دنیا یا مسلمانوں سے جاپانیوں کا رابطہ ایک تواتر کے ساتھ انیسویں صدی کے آخر میں شروع ہوتا ہوا نظر آتا ہے لیکن اسلا م کے بارے میں سوچنے اور سمجھنے کی علمی سطح پر کوششیں بیسویں صدی کی تیسری چوتھی دہائی سے نمایاں ہونے لگتی ہیں۔ اس عرصے میں ،ہمارے نقطۂ نظر سے ،مشہور انقلابی رہنما مولوی برکت اللہ بھوپالی کا قیامِ جاپان بھی، جو اگر چہ زیادہ طویل نہیں تھا لیکن پھر بھی یوں اہم ہے کہ انھوں نے یہاں رہ کر اپنی انقلابی سرگرمیاں جا ری رکھیں اور Islamic Fraternity کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا جو انگریزی میں شائع ہوتا تھا اور اس میں استعماری طاقتوںکے خلاف جذبات ابھارے جاتے تھے۔ انھوںنے ایسے چند نوجوانوں کو بھی اپنا ہم خیال بنا لیا جو نہ صرف استعمار کے خلاف سرگرم ہوئے بلکہ اسلام کے بھی قریب آگئے۔یوں یہاں نوجوانوں میں اسلا م کو سمجھنے کی ابتدائی چند کوششیں نظر آئیں۔

اوّلین تحقیقی کاوشیں

شومے اوکاوا اورپرو فیسر گامووہ اولین دانش ورہیں جنھوں نے باقاعدہ اسلام کو اپنے مطالعے کا موضوع بنایا۔اوکاوا تو ایک مشہور سیاست دان تھے ،لیکن انھوں نے اپنی دل چسپی کے تحت نہ صرف اسلام کا مطالعہ کیا بلکہ قرآن کا تر جمہ بھی جاپانی زبان میں کیاجس کی بنیادایک انگریزی ترجمۂ قرآن تھا جو ان کے پیش ِ نظر رہا۔اس وقت کسی سیاست دان کا مطالعۂ اسلام اور ترجمۂ قرآن معنی خیز تھا، جو دراصل اس حکمت کے تحت تھا کہ عالمی جنگوں کے درمیانی عرصے میں استعماری طاقتوں کے بڑھتے ہوئے عزائم اور ان کے مقابلے میں عالم ِاسلام میں ردِعمل کی فضا کو دیکھتے ہوئے یہاں یہ احساس پیدا ہوا کہ یہاں استعمار کے خلاف دنیاے اسلام سے ایک اتحاد اور ہم آہنگی کی فضا میں ایک محاذ تشکیل پانے سے جاپان بھی اپنا بچائو کر سکے گا۔پھر عالمِ اسلام کے نام سے ایک جاپانی رسالے کااجرا بھی شومے اوکاوا کے ایسے کاموں کا ایک اگلا قدم تھا جو ۱۹۴۰ء کی دہائی میںنکلتارہا، لیکن دوسری جانب دانش ور اورتعلیم یافتہ طبقے میں اسلام کا مطالعہ ایک علمی و تہذیبی تناظر میں شروع ہوا۔

پروفیسرگامونے اس جانب اولین پیش رفت کی اور اسلامکے نام سے ایک تعارفی کتاب جاپانی زبان میں تصنیف کی۔ انھیں فارسی اور اردو سے کامل واقفیت تھی۔فارسی میں گلستان کا ترجمہ ان سے منسوب ہے۔اردو کے یہ پرو فیسر ’ٹوکیو یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز‘ کے سربراہ رہ کر اُردو زبان و ادب کے لیے بیش بہا خدمات انجام دیتے رہے۔ باغ و بہار کا ان کا کیا ہوا ترجمہ، جس کا ایک عمدہ اڈیشن چند سال قبل مفید مقدمے اور اضافوں کے ساتھ اس یونی ورسٹی کے پروفیسر اسادا نے شائع کیا،جو ان کے اہم کاموں میں سے ایک ہے۔ پرو فیسرگامو حقیقی معنوں میں ایک اسکالر تھے، جن کا فیض یہ بھی تھا کہ انھوں نے اپنے ایسے لائق شاگرد پیدا کیے جنھوں نے اپنے اپنے زمانے اور اپنے اپنے حلقوں میں اردو زبان و ادب اور ساتھ ہی مطالعۂ اسلام کی ایک فضا قائم کی، خود بھی تحقیقی اور تصنیفی کام کیے اور پھر اگلی نسلوں کو بھی متا ثر کیا۔ان کے ایسے راست شاگردوں میں پروفیسر سوزوکی تاکیشی، پروفیسر کرویا ناگی اور پرو فیسر کان کاگایا خاصے اہم اور نام ور اسکالر ثابت ہوئے۔

پروفیسر سوزوکی اپنی بے مثال اور مؤثر خدمات کے باو صف،جو انھوں نے جاپان میں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے انجام دیں ،بجا طور پر ’جاپان کے باباے اردو‘ کے خطاب سے معروف ہوئے۔ پروفیسر کرو یا ناگی فارسی زبان و ادب اور مطالعۂ اسلام کے حوالے سے معروف ہوئے۔ انھوں نے ایک تحقیقی مجلہ انڈو ایران جاری کیا جواپنے موضوعات تاریخ و ادب کے لیے مخصوص رہا۔پرو فیسرکرویا ناگی کا ایک مبسوط تحقیقی مقالہ ’فکر اسلامی ہند‘ کے بارے میں خاصا مشہور ہوا جس میں انھوں نے ہندستان میں اسلامی فکر کے ارتقا کو پیش کیا اور با لخصوص مولانا مودودی اور اقبال کی فکر کے تجزیاتی مطالعے پر اس مقالے کو مرکوز رکھا۔ پروفیسر کان کا گا یا عربی، فارسی اور  اُردو سے راست استفادہ کرتے ہوئے اپنے مقالات تحریر کرتے ہیں اور ان کی دل چسپی کا محور اسلام اور اسلامی علوم رہے ہیں۔انھوں نے متعدد تحقیقی مقالات ان موضوعات پر تحریرکیے ہیں جو انسائی کلوپیڈیا ،مجموعۂ مقالات اور تحقیقی مجلّوں میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ حال میں انھوں نے ایک اولین ضخیم اُردو-جاپانی لغت مرتب اور شائع کی ہے جو ان کی ۴۰سالہ شبانہ روز محنت، تلاش و جستجو کا ثمر ہے۔

ان علما کے معا صرین میں ایک بہت بڑا نام پرو فیسر ازتسو کا ہے جو فلسفۂ مذہب سے خاص نسبت رکھتے تھے اور ان کے بنیادی اسلامی موضوعات دل چسپی میں مذہب ،فلسفۂ تصوف نمایاں رہے۔وہ عربی اور انگریزی سے خوب واقف تھے اور چوں کہ زیادہ تر انھوں نے انگریزی زبان میں لکھا جس کی وجہ سے ان کی شہرت جاپان کے باہر بھی خاصی پھیل گئی۔انھوں نے قرآن کا ترجمہ بھی جاپانی زبان میں کیا اور اسلامی فلسفہ اور تصوف پر متعدد کتابیں اور مقالات تحریر کیے جن کی وجہ سے وہ عالمی شہرت کے حامل جاپانی اسکالر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ وہ ساری زندگی ٹوکیو کی ایک نجی یونی ورسٹی سے منسلک رہے اور وہاں مطالعۂ اسلام کا شعبہ قائم کر کے اس میں درس و تدریس اور مطالعہ و تحقیق کو فروغ دیتے رہے اور ایسی ایک نسل کی آبیاری کی جو ان کے بعد جاپان کی مختلف یونی ورسٹیوں اور علمی و تحقیقی اداروں سے منسلک ہو کر مطالعۂ اسلام اور تحقیق و تصنیف کو فروغ دینے میں آج جاپان بھر میں مستعد اور سرگرم ہے۔

تحقیقی مراکز

اس سے قبل کہ یہاں اس نسل کا اور اس کی خدمات کا ذکر کیا جائے ،یہاں ایک اور ایسے اسکالر کا ذکر ضروری ہے جنھوں نے پروفیسر از تسو کی طرح اسلامی علوم کے مطالعہ و تحقیق کو فرو غ دینے میں مثالی اور مؤثر کردار ادا کیا ہے۔یہ پروفیسر ناکامورا کو جیرو ہیں جو ازتسو صاحب کے معاصر ہیں اور ان کا امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے ٹوکیو یونی ورسٹی میں، جو جاپان کی سب سے معیاری اور نام ور یونی ورسٹی ہے ،اسلامیات پڑھانے کے ساتھ ساتھ یہاں نہ صرف اس کا ایک باقا عدہ شعبہ قائم کیا بلکہ اس میںایک ’ ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی‘ کی بنیاد رکھی جو جاپان میں اپنی نو عیت کا اہم اور اوّلین ادارہ ہے۔ اس میں ایک عالی شان کتب خانہ بھی قائم ہوا جہاں دنیا بھر سے ہر زبان میں اسلامی علوم،تاریخ و تہذیب اور متعلقہ عنوانات پر کتابیں جمع کی گئیں اور یہاں سے ایک اعلیٰ سطحی تحقیقی مجلے کا اجرا عمل میں آیا ،جس میں یہاں کے اسکالر اپنے اپنے تحقیقی مقالات شائع کرتے ہیں۔یہ مقالات اسلامی تعلیمات، فکر، تاریخ،دنیاے اسلام کی معاشرت، صورت حال، سیاست و معیشت ،مفکرین ،قومی و سیا سی مسائل جیسے موضوعات پر مشتمل ہوتے ہیں۔

ٹوکیو یونی ورسٹی کے’ادارۂ تحقیقات ِاسلامی ‘کی طرح کیوتو یونی ورسٹی میں بھی، جو جاپان کے قدیم تاریخی اور روایتی شہر کی نہایت معروف اور معیاری  یونی ورسٹی ہے ،ایک ’مرکزِ مطالعاتِ اسلامی‘ بھی اسلامی علوم اور فکر و تاریخ پر ہمہ جہت مطالعات میں مصروف ہے اور ایسے مطالعات کے  تسلسل کو اب ربع صدی کا عرصہ گزر چکا ہے۔یہاں نسبتاً ایک کم عمر پروفیسر کوسوگی اس کے    سربراہ اور تحقیقات و مطالعات کے محرک اور رہنما ہیں۔ عربی اور انگریزی پر بھی عبور رکھتے ہیں، جامعہ الازہر(قاہرہ)سے فارغ التحصیل ہیں اور وہیں دورانِ قیام نہ صرف وہ بلکہ ان کی جاپانی بیگم مشرف بہ اسلام ہو ئے ہیں۔ پروفیسرکوسوگی نہایت فعال ،متحرک اور قدیم وجدید علوم سے بہرہ مند انسان ہیں اور ان میں قائدانہ صلاحیتیں بھی عروج پر ہیں۔چنانچہ یہاں اس وقت یہ جاپان کے اسلامی اسکالرز کی تیسری نسل کے ممتاز ترین اسکالر ہیں، جن کی شبانہ روز محنت ، دل چسپی اور ذوق و شوق کے باعث نہ صرف ان کی اپنی یونی ورسٹی میں بلکہ ان کے زیرِاثر اور ان کی مثال کے پیشِ نظر جاپان بھر میں آج کل مطالعاتِ اسلامی میں ایک حوصلہ افزا، خوش آیند اور قابلِ رشک سرگرمی دیکھنے میں آرہی ہے ،جو روز افزوں بھی ہے۔ اب نوجوانوںکی ایک ایسی نسل تیار ہوچکی ہے جو ایک منصوبہ بندی کے ساتھ سارے جاپان میںجہاں جہاں اورجس جس جامعہ یاادارے میں شعبہ ہاے مطالعاتِ اسلامی قائم ہیں، نہ صرف یہ مستعد اور سرگرم ہے بلکہ جن جامعات میں اسلامیات کے شعبے یا درس و تدریس اور مطالعہ وتحقیق کی روایت موجود نہیں، وہاں یہ شعبۂ مطالعاتِ اسلامی قائم کر رہے ہیں اور اس طرح اس روایت کے فروغ میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔

آج مزید قابلِ رشک صورتِ حال یہ ہے کہ نوجوانوں کی ایک نسل ،جو ۹۰کی دہائی میں ابھری ہے، محققین کی چوتھی نسل ہے اور تیسری نسل کے لائق اور مستعد محققین پروفیسر کوسوگی، اتا گاکی یوزو، گوتو آکیرا،ساتوسوگوتاکی اورشیماداجویے کی زیرِسرپرستی و رہنمائی میںاسلامی مطالعات میں اس حد تک سرگرم دکھائی دیتی ہے کہ رشک آتا ہے،بلکہ اس تیسری اور چوتھی نسل نے آج کے جاپان میں مطالعاتِ اسلامی میں جو معیار،وسعت اور افادیت پیدا کی ہے وہ اس حد تک مثالی اور منفرد ہے کہ شاید اس کی نظیر کسی اور ملک میں تلاش نہ کی جا سکے۔یورپ کے متعدد تحقیقی ادارے اور جامعات بشمول ای جے بریل (لائیڈن) ، ایڈنبرا یونی ورسٹی کا مرکزِ تحقیقاتِ اسلامی یا ان کی طرح یورپ اور شمالی امریکا وکینیڈا(بمثل مونٹریال کاادارۂ تحقیقاتِ اسلامی) کے دیگر ادارے بھی اگرچہ نہایت وسیع اور مفید کام کر رہے ہیں لیکن جاپان میں تحقیقاتِ اسلامی کی جو نوعیت ہے اس کا مقابلہ شاید کہیں کسی ادارے یا جامعہ سے نہ کیا جاسکے۔

پنج سالہ تحقیقی منصوبے کی روایت

سب سے مختلف اور نہایت قابلِ تحسین کام جو یہاں گذشتہ دو دہائیوںکے عرصے میں دیکھنے میں آیا ہے وہ ایک مشترکہ تحقیقاتی منصوبہ بندی ہے، جس کو تشکیل دے کر یہاں خاص منصوبوں کے تحت مشترکہ منصوبے ترتیب دینے کا ایک سلسلہ شروع ہوا ہے جس کے تحت کوئی ایک موضوع ، کوئی ایک علاقہ ،کوئی ایک نہج ،یہاں طے کی جانے لگی ہے اور یہاں کے ایسے تمام ادارے اور جامعات اور ان سے منسلک اساتذہ اور ان کے طلبہ سب مل کر باہمی طور پر اتفاقِ راے سے ایک پنج سالہ منصوبہ تشکیل دیتے ہیں اور اس منصوبے کو ،جو کسی ایک موضوع پر مشتمل ہوتا ہے، جزوی طور پر تقسیم کر کے ہر ایک اپنے مزاج اور دائرۂ عمل کے تحت اپنے لیے اس کا کوئی جزو یا پہلو منتخب کرکے کام شروع کر دیتا ہے، اور پھر ہر سال یہ سب ایک جگہ ملتے ہیں اور سال بھر کی اپنی اپنی کارروائی ، کارگزاری اور روداد پیش کرتے ہیں، مسائل و امکان پر بحث ہوتی ہے اور پھر سب مل کر اس پر راے زنی کرتے ہیں اور پچھلے کام پر نظرثانی کی جاتی ہے اور اس کے بعد وہ اگلے سال یا اگلے مرحلے کے لیے مستعد ہوجاتے ہیں۔ اس طرح اب تک دو پنج سالہ منصوبے مکمل ہوچکے ہیں اوردو ایسے موضوعات پر اعلیٰ درجے کی تحقیقات سامنے آئی ہیںکہ ان موضوعات پر ایسے ہمہ جہت، مبسوط اور مفید کاموں کی مثال شاید اورنہ مل سکے۔

ان منصوبوں میں پہلا منصوبہ ۱۹۸۸ء میں شروع کیا گیا تھا ،جو ۱۹۹۳ء میں مکمل ہوا۔ اس کا بنیادی موضوع ’بلادِ اسلامیہ‘کہاجاسکتا ہے۔ اس منصوبے یا موضوع کے تحت ۱۳۰ اسکالروں نے اس میں شامل ہوکر اسلامی ممالک کے تاریخی شہروںکا تعمیراتی ،تاریخی، تہذیبی، عمرانی، علمی و ثقافتی مطالعہ کیا اور ہر اسکالر نے کسی ایک شہرپر اپنے ان مذکورہ موضوعات کے تحت ایک تحقیقی مقالہ تحریر کیا جو ہر لحاظ سے اس شہر کے بارے میں ایک قاموسی مقالے کی حیثیت رکھتا ہے، مثلاً بغداد، دمشق، تہران، اصفہان،مشہد،دہلی، لکھنؤ، قاہرہ، استنبول، مکّہ،مدینہ۔ گویا تمام اہم شہر اور ان کی تاریخ،  تعمیر اور عمرانیات کا مطالعہ اس منصوبے کے تحت مکمل ہوگیا ہے اور یوںدو مختلف اور ضخیم جلدوں میں یہ مقالے شائع کر دیے گئے ہیں۔ مگر یہ سب جاپانی زبان میں ہیں۔

اس طرح جو دوسرا پنج سالہ تحقیقی منصوبہ جاپانی اسکالروں نے مکمل کیا، وہ ۱۹۹۷ء سے ۲۰۰۲ء تک ان کے پیشِ نظر رہا۔ اس منصوبے کے تحت دنیاے اسلام کا مطالعہ علاقائی حوالے سے کیا گیا اور اس مطالعے کے ذیل میں مختلف اسلامی ممالک کی تاریخ ، معاشرت، سیاست اور شہروں اور خطوں میں رونما ہونے والی اسلامی تحریکات بھی ان میںشامل ہیں۔چنانچہ ان مطالعات کو  تصوف، شریعت، اسلامی ادارے، اوقاف،فتاویٰ، فرامین، خواتین، تعلیمات،معیشت و سیاست جیسے موضوعات کے تحت آٹھ موضوعاتی جلدوں میں تقسیم کیا گیااور پھر انھیں شائع کردیا گیا۔ یہ آٹھ جلدیں یہاں کے نام ور محققین کے عالمانہ محققانہ مقالات پر مشتمل ہیں اور یہ آٹھ جلدیں دراصل اپنے اپنے موضوعات کے تحت ایک مستند اور معیاری مآخذ کی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔ اس طرح کے چند دیگر منصوبے بھی مطالعاتِ اسلامی کے تعلق سے یہاں مکمل ہوئے ہیں جن میں سے دو کا تعلق اسلامی انسائی کلوپیڈیا کے منصوبوں سے ہے۔ حالیہ چند برسوںمیںیہاں وقفے وقفے سے دو ضخیم اسلامی انسائی کلوپیڈیا مختلف اداروںاور ناشروں نے شائع کیے ہیں جن میں لکھنے والوں کی اکثریت جاپانی اسکالروں پر مشتمل ہے اور کوئی اہم عنوان یا موضوع ایسا نہیں جسے ان میں تلاش نہ کیا جا سکے۔ یہ دونوں بہت اہتمام اور حسن و سلیقے سے شائع کیے گئے ہیں۔

انفرادی سطح پر تحقیقی کاوشیں

ان تمام منصوبوں اور اجتماعی تحقیقات کے ساتھ ساتھ انفرادی سطح پر بھی تحقیقات کا اپنا اپنا تسلسل ان محققین نے جاری رکھا ہوا ہے۔ایسی تمام جامعات، جن میں اسلامیات کے شعبے موجود ہیں، ان سے منسلک اساتذہ اور اسکالر اپنے ذاتی کاموں میں مصروف ہیں اور اپنی تحقیقات کو مقالات اور کتابی صورت میں سامنے لاتے رہتے ہیں۔پھر ان نوجوانوںنے اپنی تحقیقات کو اشاعت سے قبل سیمی ناروںمیں پیش کرنے کا بھی ایک متواتر اہتمام کر رکھا ہے اور قریب قریب ہرمہینے کسی جامعہ میں یہ نوجوان باقاعدہ ایک سیمی نار یا مجلسِ مذاکرہ میں مل بیٹھتے ہیں اور ایک دومقالے یاکسی موضوع پر اپنے نتائج مطالعہ یا تحقیقات کو بحث و نظر کے لیے پیش کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل راقم الحروف کو اسی سلسلۂ سیمی نار کی ایک نشست میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ جس میں دونوجوانوں یوکوتا تاکا یوگو (کیوتو یونی ورسٹی) اور سویامانے (اوساکایونی ورسٹی ) نے علی الترتیب ’حسن البنا کی مذہبی فکر‘ اور ’مولانا مودودی کے تصورِاجتہاد‘ پر اپنے اپنے نتائجِ مطالعہ پیش کیے جن میں جاپان کے مختلف شہروں اور جامعات کے نوجوان اسکالروں نے شرکت کی اور خوب بحث و مباحثہ کیا۔ راقم کے لیے یہ تعجب خیز اور قابلِ رشک رہا کہ ان نوجوانوں نے ان موضوعات پر اور ان سے متعلقہ موضوعات پر بھر پور مطالعہ کر رکھا تھا اور قدیم و جدید مآخذ سے پوری طرح نہ صرف آشنا تھے بلکہ ان سے استفادہ بھی کر چکے تھے۔ سویاما نے تو اُردو کے پروفیسر ہیں اور اردو خوب بولتے اور لکھتے ہیں، اس لیے انھوں نے مولانامودودی کی تصانیف کو راست اردو میں پڑھا ہے اور سمجھا بھی ہے۔ اس سے قبل وہ مولانا مودودی پر ایک محققانہ مقالہ ’احیاے اسلام اور مولانا مودودی کا دارالاسلام‘ یہاں کے ایک تحقیقی جرنل میں لکھ چکے ہیںاور اس کے علاوہ مولانا کی ایک معروف تصنیف الجہاد فی السلام کے ابتدائی باب کا ترجمہ اور اس کے تجزیاتی مطالعے پر مشتمل ایک مقالہ یہاں کے ایک تحقیقی مجلے میں شائع کر چکے ہیں۔

ان سیمی ناروں یامجالسِ مذاکرہ کی بھی ایک خصوصیت یا انفرادیت یہاں دیکھنے میں آئی کہ بالعموم انھیں بھی موضوعاتی رخ دے دیا گیا ہے۔ چنانچہ مثلاً گذشتہ سال جتنے بھی سیمی نار جاپان میں اس نوجوان حلقے نے منعقد کیے ہیں، ان کا موضوع ’اسلامی فکر کی تشکیلِ جدید‘ تھا۔ یعنی عہدِحاضر میں فکرِ اسلامی میں جو تبدیلیاں آرہی ہیں ان کا محرک اور ان کی نوعیت کیا ہے؟

تحقیقی مجلے

ان سیمی ناروں اور تحقیقی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ حالیہ چند برسوں میں جاپان میں اسلامی مطالعات کے ضمن میں ان تحقیقی مجلّوں کا ذکر بھی غیر متعلق نہیں ، جو یہاں سے شائع ہوتے ہیں۔ مختلف جامعات یا تحقیقی ادارے جو مجلے شائع کرتے ہیں وہ عالمی سطح کے تحقیقی مجلّوں کے معیار کے حامل ہیں اور ان میں عالمانہ تحقیقی مقالات ہی شائع کیے جاتے ہیں۔ ایک عرصہ قبل ’ایسوسی ایشن فار اسلامک اسٹڈیز ان جاپان‘ نامی ادارہ ایک مجلہ The World of Islamشائع کرتا رہا ہے، جس کے تقریباً ۵۰شمارے شائع ہوچکے ہیں۔ یہ دنیاے اسلام اور اسلامی موضوعات پر تحقیقی اور علمی مقالات کے لیے مخصوص تھا۔ اسی نوعیت کا ایک مجلہ Orient کے نام سے ٹوکیو سے شائع ہوتا ہے۔ آج کل چونکہ ایک لحاظ سے کیوتو یونی ورسٹی مطالعاتِ شرقیہ اور مطالعاتِ اسلامی میں پیش پیش اور زیادہ سرگرم و فعال ہے اس لیے یہاں تحقیقی اور عملی دونوں سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ اس وجہ سے ایک تو متعدد اسکالر کا مجمع یہاںاکٹھا ہو گیا ہے اور تحقیقی سرگرمیاں بھی کمال پر ہیں اور تحقیقی مجلے بھی یہاں بڑی آب و تاب سے نکل رہے ہیں۔ ان میں سے ایک مجلہ Asian And African Area Studies ہے ، جو سال میں ایک مرتبہ شائع ہوتا ہے اور یہ ۲۰۰۱ء سے جاری ہے۔ یہیں سے دوسرا تحقیقی مجلہ Journal of Islamic Area Studiesبھی شائع ہورہاہے ،جس کا اولین شمارہ ۲۰۰۷ء میں شائع ہوا ہے۔ پروفیسر سویا مانے کا مذکورہ مقالہ ’مولانا مودودی کا تصورِ اجتہاد‘ اس کے اولین شمارے میں شائع ہوا ہے۔

اپنی نوعیت کے لحاظ سے جاپان میں اسلام اور دنیاے اسلام کے بارے میں جو تحقیقی اور علمی کام ہوئے ہیں اور جس اتفاقِ باہمی اورمشترکہ منصوبہ بندی کے ساتھ انجام دیے جارہے ہیں،   یہ ایک مثال ہے جس کی نظیر آج خاص طور پر خود اسلامی دنیا میں کہیں نظر نہیں آتی۔ ہماری جامعات اور تحقیقی ادارے اور خاص طور پر وہ ادارے جو مطالعاتِ اسلامی کے لیے وجود میں آئے ہیں ،  کاش جاپان کی مثال کو سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کے تحت ایسے مفید کام انجام دے سکیں، اور جامعات جہاں پی ایچ ڈی اور ایم فل کی سطح پر تحقیقی کام ایک تسلسل سے ہو رہے ہیں،اتفاقِ باہمی اور مشترکہ و اجتماعی تحقیقی منصوبوں کی اہمیت اور افادیت کو سمجھتے ہوئے اس جانب سوچ سکیں۔