اقبال کی فکر اپنے موضوعات اور اپنے مطالب کے لحاظ سے ان عنوانات کا احاطہ کرتی ہے، جو دراصل ہمارے عقائد و نظریات اور ہماری تاریخ و تہذیب سے متعلق ہیں اور یہ اپنی قوم اور ملّت کو اپنے بنیادی عقائد اور تاریخ و تہذیب سے قریب تر کرنے کے مقاصد کی حامل بھی ہے۔اس اعتبار سے اپنی فکر اور پیغام کے لحاظ سے اقبال بیسویں صدی میں دنیائے اسلام کی سب سے اہم اور مؤثر شخصیت ثابت ہیں جنھیں محض عالمِ اسلام ہی نہیں مغرب میں بھی شناخت و تسلیم کیاگیاہے۔ اگرچہ ان کے اوّلین مخاطب ایک حد تک جنوبی ایشیا کے مسلمان رہے اور ان کی فکر کے اثرات یہاں کے مسلمانوں پر زیادہ واضح بھی ہیں، لیکن دنیائے اسلام کے دیگر ممالک میں اور وہاں کے افکار و تحریکات پر بھی ان کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔
اقبال نہ صرف گذشتہ صدی میں دنیائے اسلام کے منفرد اور ممتاز مفکر ہیں، بلکہ اپنے عہد میں ملّتِ اسلامیہ کے معمار بھی ہیں کیوں کہ اپنے وقت کے فکری اور جذباتی رجحان کو تبدیل کرنے، فکرِ اسلامی کو جمود سے نکالنے اور اس کی تشکیلِ جدید میں ان کا حصہ سب سے نمایاں ہے۔ پھربحیثیتِ مفکربھی اقبال کی یہ ایک بڑی کامیابی تھی کہ انھوں نے اپنی فکر اور شاعری کے ذریعے اپنے عہد کی فکری اور جذباتی زندگی میں بیداری اور اضطراب پیدا کردیا۔ ان کی فکر میں دنیائے اسلام کے تقریباً تمام اہم افکار و تحریکات کی بازگشت یاان پر تنقید محسوس ہوتی ہے۔ جن مسائل نے ملّتِ اسلامیہ کو انتشار اور اضطراب میں مبتلا کردیا تھا اور جو اسے اپنے اسلامی تشخص سے دُور کررہے تھے، اقبال کی بھرپور تنقید کا نشانہ بنے اور جو افکار، تحریکیں اور شخصیات دنیائے اسلام کی فلاح، اصلاح اور تعمیر و ترقی کے لیے کوشاں ہوئیں، اقبال نے ان کی تائید و ستائش کی۔ اس طرح اپنے مقصد اور پیغام کے لحاظ سے اقبال نے احیائے اسلام کے لیے نہ صرف ایک مربوط اور مستحکم فکر کی تشکیل کی بلکہ ملّتِ اسلامیہ میں دنیائے اسلام کی آزادی، خودمختاری اور بہتر مستقبل کی تعمیر کا احساس بھی پیدا کیا۔
جنوبی ایشیا کے مسلمانوں پر بالخصوص ان کا احسان یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنی فکر اور شاعری کے توسط سے ان میں قومی و ملّی شعور بیدار کیا، ان میں آزادی کی تڑپ اور ایک آزاد اسلامی مملکت کے قیام کا جذبہ پیدا کیا اور عہدِ جدید کے تقاضوں کے مطابق ایک مربوط اور مستقل نظامِ فکر تشکیل دیا تاکہ اس پر عمل پیرا ہوکر مسلمان اپنے انفرادی و اجتماعی کردار (یعنی خودی) کی تعمیر کرسکیں۔ اس لحاظ سے فکرِ اقبال کا مطالعہ دراصل ملّتِ اسلامیہ کے بنیادی عقائد و نظریات، اس کی تاریخ و تہذیب اور اس کے نشیب و فراز کا مطالعہ ہے، جو اگر جنوبی ایشیا کے تناظر میں کیا جائے تو اس کے توسط سے مسلمان اپنے جداگانہ ملّی و تہذیبی عناصر سے آگاہی اور ہندوستان کے سیاسی و معاشرتی ماحول میں اپنے علیحدہ قومی تشخص سے واقفیت حاصل کرسکتے ہیں، اور اپنے بنیادی عقائد و ملّی مقاصد کے تحت ایک آزاد اسلامی مملکت کے قیام اور اس میں ایک فلاحی و رفاہی اسلامی معاشرے کی تشکیل کے مراحل تک رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ اس اعتبار سے اقبال کی فکر اور شاعری کا مطالعہ، بالخصوص پاکستانی مسلمانوں کو جہاں ایک طرف اپنی تاریخ و تہذیب سے قریب تر کرتا ہے، وہیں پاکستان میں ایک مکمل اسلامی معاشرے کی تشکیل کی بنیادیں بھی فراہم کرتا ہے۔ یوں اسے ایک مستقل حیثیت میں ہمارے تعلیمی نصاب کا حصہ بننا چاہیے۔
اس وقت ہمارے تعلیمی نصاب میں جہاں جہاں اقبال کی شخصیت اور ان کا پیغام اور ان کی فکر کو، چاہے کسی پیرائے (شاعری، خطبات، مقالات، مکاتیب) میں بھی پیش کرنے کی طرف توجہ دی گئی ہے، وہ پورے طور پر قابلِ اطمینان نہیں اور ایسی کوششیں ہمارے نصابوں میں فکرِ اقبال کی شمولیت کے تقاضوں کو کماحقہٗ پورا نہیں کرتیں۔ اس ضمن میں اور اس حوالے سے جو جائزے لیے گئے یا مطالعات کیے گئے ہیں ان سے بھی بے اطمینانی کی یہی صورت ظاہر ہوتی ہے۔
یہ صرف اقبال کے افکار و خیالات کی حد تک ہی نہیں، ہمارا نصابِ تعلیم اپنی مجموعی حیثیت اور بہت واضح صورت میں نظریۂ پاکستان کے بنیادی عناصر، جن میں حصول و قیامِ پاکستان کے اغراض و مقاصد، مسلمانوں کی ملّی و تہذیبی فکر و تاریخ اور عقائد و افکار شامل ہیں اور اپنے قومی و ملّی تقاضوں کے مطابق جدید دنیا کا حصہ رہتے ہوئے ایک نظریاتی و فلاحی معاشرے کی تشکیل و تعمیر کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی طرف نہ اپنے طلبہ کی مناسب رہنمائی کرتا ہے، نہ انھیں بہ حیثیت پاکستانی، مؤثر صورت میں ملّتِ اسلامیہ کے اجتماعی وجود کا ایک حصہ قرار دیتا ہے۔
ابتدائی و ثانوی درجات کے نصاب کی چند کتب میں، بعض اسلاف کے تذکروں کے ساتھ، اقبال کی کچھ نظموں یا ان کی شخصیت و سوانح کے سرسری تعارف کو شامل کرکے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ نصاب پاکستانی قوم اور معاشرے کے بنیادی تقاضوں سے ہم آہنگ ہوگیا! لیکن ایسی تمام ’مخلصانہ یا مصلحت آمیز‘ کوششوں کے باوجود ہمارا نصاب اپنے مذکورہ حقیقی مقاصد و مزاج اور اپنے مفید اثرات سے بڑی حد تک عاری ہے۔ ہم ہر صوبے اور علاقے کے نصابوں میں اس متعلقہ صوبے کے اکابر اور جغرافیائی و علاقائی موضوعات کو زیادہ حاوی دیکھ سکتے ہیں۔ ایسے وفاقی نصابوں سے، اور خود ایسے صوبائی نصابوں سے بھی، جنھیں وفاقی حکومت تجویز یا مرتب کرتی رہی ہے یا کرتی ہے، زیادہ تر نصاب کے صوبائی یا علاقائی ہونے کا تاثر ابھرتا ہے، اور قومی و ملّی نقطۂ نظر سے یہی ہمارے نصاب کی بدقسمتی، محرومی یا کمزوری ہے۔ بعض تعلیمی سفارشات کے تجویز کردہ مناسب رہنما خطوط کے باوجود ذمہ دار وفاقی اور صوبائی نصابی مجلسیں اور ادارے ان خطوط سے ہم آہنگ موزوں و معیاری نصاب کی عدم موجودگی اور اس کی ترتیب میں مسلسل ناکامیابی اور اداروں اور ان سے منسلک افراد کی ایک حد تک بے نیازی، عدم آمادگی اور نااہلی کی طرف ذہن کو منتقل کرتی ہے، جب کہ دوسری جانب ایسے اداروں سے منسلک بیش تر افراد کا خلوص شک و شبہ سے بالاتر ہے۔
چنانچہ اقبال کے ساتھ بھی یہی المیہ رہا ہے۔ اگر فکرِ اقبال کو نصاب کا حصہ بنانے کی طرف توجہ دی بھی گئی ہے تومحض ٹالنے کے لیے، لہٰذا اس کا حق ادا نہ ہوسکا۔ یوں لگتا ہے کہ جہاں جہاں اور جس درجے میں اقبال کو نصاب میں شامل کیا گیا، محض ان کی معروف و دل چسپ نظموں یا اقبال کی شخصیت و سوانح کے سرسری تعارف کو شامل کرکے یہ سمجھ لیا گیا کہ نصاب یا موضوع کا حق ادا ہوگیا، اس طرح بات خانہ پُری سے آگے نہ بڑھی۔ ملّتِ اسلامیہ اور بالخصوص جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو درپیش قومی و سیاسی اور معاشرتی مسائل میں فکرِ اقبال سے جو رہنمائی حاصل ہوتی ہے یا تعمیر کردار اور ایک نظریاتی و فلاحی معاشرے کی تشکیل و تعمیر میں جس طرح اسے استعمال کیا جاسکتا ہے، ہمارا نصاب اس قسم کی مثال شاذ ہی پیش کرسکتا ہے۔ اور ایسی جو بھی اکّا دکّا مثالیں نظر آتی ہیں، وہ بعض اعلیٰ سطحی درجات یا استثنائی طور پر’ علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی‘ کی چند نصابی کتب میں ملتی ہیں۔ جب کہ ابتدائی اور بالخصوص ثانوی درجات کے نصابات، جہاں طلبہ کی تعداد نسبتاً زیادہ ہوتی ہے اور ان کا ذہن قدرے سادہ و ناپختہ اور جذب و قبول کا اہل ہوتا ہے، فکرِ اقبال کی شمولیت بہت زیادہ توجہ چاہتی ہے۔ پھر اس کی شمولیت کا انداز و نہج اور معیار تمام متعلقہ نصابوں میں، صوبائی و علاقائی حوالے سے قطع نظر، یکساں اہمیت کے ساتھ ہونا چاہیے اور یہ لحاظ بھی رہنا چاہیے کہ مثلاً اقبال کی ایک نظم کسی نصاب میں ثانوی درجے میں شامل ہے تو وہ اسی جگہ یا کسی اور جگہ کسی اعلیٰ یا کم تر درجے میں شامل نہ رہے۔ موجودہ نصابوں میں یہ تعجب خیز صورت رابطے کی کمی کے باعث موجود ہے کہ کسی جگہ اقبال کی ایک نظم ثانوی درجے میں شامل ہے، وہی نظم خود اسی جگہ یا کسی اعلیٰ ثانوی نصاب میں بلکہ ایک اور جگہ ڈگری سطح کے نصاب میںبھی نظر آتی ہے۔ ان کی نثر بھی کم و بیش اسی صورتِ حال سے دوچار ہوئی ہے (اور یہ صرف اقبال کے ساتھ ہی نہیں، دیگر قدیم و جدید مصنّفین کے ساتھ بھی ہوا ہے)۔
ان سارے مسائل اور اس صورتِ حال کا مداوا یا تلافی میرے خیال میں درجِ ذیل صورتوں میں ممکن ہے:
۱- نصاب، بالخصوص وہ نصاب، جس کی نظریاتی و قومی اور معاشرتی اہمیت ہے یا جن میں متعلقہ موضوعات کو بہ آسانی پیش کیا جاسکتا ہے، صرف وفاقی سطح پر ترتیب دیا جائے اور پھر اسی کو سارے صوبوں میں رائج کیا جائے۔ محض مخصوص صورتوں میں جزوی موضوعات اور عنوانات ہر صوبے یا علاقے کی حد تک اضافی ہوں اور اس تمام نصاب کی ترتیب میں تمام صوبوں کو مناسب نمائندگی حاصل رہے۔
۲- نصاب میں اقبالیات سے متعلق موضوعات اور فکرِ اقبال پر مشتمل مضامین اور نظم و نثر کو مرحلہ وار شامل کیا جانا چاہیے۔
الف: پرائمری سطح تک اقبال کی ایسی منظومات شامل کی جائیں، جو سبق آموز ہوں اور جن سے انسانوں کے درمیان محبت و اخوت اور ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہوں۔
ب: ثانوی و اعلیٰ ثانوی سطح کے نصاب میں تعمیرِ سیرت، مسلمانوں کے شاندار ماضی، بہتر (اسلامی) معاشرے کے قیام میں فرد کے کردار اور اسلام کے قومی و تہذیبی تصورات جیسے موضوعات پر مؤثر اور دل چسپ تحریریں شامل ہوں۔
ج: ڈگری اور اعلیٰ سطحوں پر فکرِ اقبال کے اہم نکات اور مضامین کو عالمی اور دنیائے اسلام کے تناظر میں اس طرح پیش کیا جاناچاہیے کہ یہ مسلمانوں کے لیے عصری تقاضوں کی موجودگی میں ایک فلاحی معاشرے اور اسلامی مملکت کے قیام میں رہنما ثابت ہوسکیں۔
۳- اگر نصاب کو محض وفاقی سطح پر مرتب کرکے نافذ کرنا قرینِ مصلحت نہ ہو تو اسے کم از کم مذکورہ بالا تجویز ۲ کے مطابق مرتب یا یکسانیت سے بچا جاسکتا ہے۔
یہاں یہ معروضات صرف اسکولوں اور کالجوں کی سطح پر رائج نصابات کے تعلق سے پیش کی گئی ہیں، جب کہ اگر ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح کے مطالعات و تحقیقات موضوع بنیں تو ان کے لیے ظاہر ہے ایسے نصابی تکلفات کے بجائے اس سطح کے تقاضوں اور ضرورتوں کے مطابق موضوعات اور منصوبوں کی بابت سوچا جانا چاہیے اور ان سطحات کے موضوعات کوفکرِ اقبال کے تناظر میں قوم و معاشرے کی اصلاح و بہتری اورتعمیر و ترقی کے مقاصد کے تحت طے کیاجانا چاہیے۔اس سطح پر محض احوال و آثار اور سرسری و سطحی جائزوںکواختیارکرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے ۔ان سطحوں کے مطالعات میں اگرمقررہ نصابی تربیت اورسرگرمیوں کا کسی طرح کا التزام رکھا جاتا ہے اور مطالعات و تحقیقات کسی طرح سے اور کسی بھی حوالے سے فکرِ اقبال سے منسلک ہوں، تو ان کا نصاب اور لائحہ عمل اقبال کی فکر اور مقاصد کو مجروح کرنے کا سبب نہ بنیں بلکہ مطالعات ِ اقبال کے لیے معاون اوران کے فروغ کا سبب بنیں۔
اس صورتِ حال میں ہمیں نصاب کوقومی و ملی تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے فوری طور پر اصلاح و ترمیم اور اہتمام کی ضرورت ہے۔ اس غرض سے نصاب، بالخصوص وہ نصاب، جس کی نظریاتی و قومی اور معاشرتی اہمیت ہے یا جن میں متعلقہ موضوعات کو بہ آسانی پیش کیا جاسکتا ہے، صرف وفاقی سطح پر ترتیب دیا جائے اور پھر اسی کو سارے صوبوں میں رائج کیا جائے۔ڈگری اور اعلیٰ سطحوں پر فکرِ اقبال کے اہم نکات اورمضامین کو عالمی اور دنیائے اسلام کے تناظر میں اس طرح پیش کیا جاناچاہیے کہ یہ مسلمانوں کے لیے عصری تقاضوں کی موجودگی میں ایک فلاحی معاشرے اور اسلامی مملکت کے قیام میں رہنما ثابت ہوسکیں۔
اگراقبالیات کے مطالعات و تحقیقات موضوع بنیں تو ان کے لیے ظاہر ہے ایسے نصابی تکلفات کے بجائے اس سطح کے تقاضوں اور ضرورتوں کے مطابق موضوعات اور منصوبوں کی بابت سوچا جانا چاہیے اور ان سطحوں کے موضوعات کوفکر اقبال کے تناظر میں قوم و معاشرے کی اصلاح و بہتری اورتعمیر و ترقی کے مقاصد کے تحت طے کیاجانا چاہیے۔اس سطح پر محض احوال و آثار اور سرسری و سطحی جائزوںکو اختیارکرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے ۔ان سطحوں کے مطالعات میں اگرمقررہ نصابی تربیت اورسرگرمیوں کا کسی طرح کا التزام رکھا جاتا ہے اور مطالعات و تحقیقات کسی طرح سے اور کسی بھی حوالے سے فکرِ اقبال سے منسلک ہوں، تو ان کا نصاب اور لائحہ عمل اقبال کی فکر اور مقاصد کو مجروح کرنے کا سبب نہ بنیں بلکہ مطالعات ِ اقبال کے لیے معاون اوران کے فروغ کا سبب بنیں۔