جائز اور صحیح نوعیت کی ’خلافت‘ کا حامل کوئی ایک شخص یا خاندان یا طبقہ نہیں ہوتا بلکہ اہل ایمان کی جماعت کا ہرفرد ’خلافت‘ میں برابر کا حصہ دار ہے۔ کسی شخص یا طبقے کو عام مومنین کے اختیاراتِ خلافت سلب کرکے انھیں اپنے اندر مرکوز کرلینے کا حق نہیں ہے، نہ کوئی شخص یا طبقہ اپنے حق میں خدا کی خصوصی خلافت کا دعویٰ کرسکتا ہے۔
یہی چیز ’اسلامی خلافت‘ کو ملوکیت ، طبقاتی حکومت اور تھیاکریسی (Theocracy)سے الگ کرکے اسے جمہوریت کے رُخ پر موڑتی ہے۔ لیکن اس میں اور مغربی تصورِ جمہوریت میں اصولی فرق یہ ہے کہ مغربی تصور کی جمہوریت عوامی حاکمیت (Popular Sovereignty) کے اصول پر قائم ہوتی ہے، اور اس کے برعکس اسلام کی جمہوری خلافت میں خود عوام، خدا کی حاکمیت تسلیم کرکے اپنے اختیارات کو برضا و رغبت، قانونِ خداو ندی کے حدود میں محدود کرلیتے ہیں۔
اس نظامِ خلافت کو چلانے کے لیے جو ریاست قائم ہوگی، عوام اس کی صرف اطاعت فی المعروف کے پابند ہوں گے، معصیت (قانون کی خلاف ورزی) میں نہ کوئی اطاعت ہے اور نہ تعاون۔
’منتظمہ‘ کے اختیارات لازماً حدود اللہ سے محدود اور خدا اور رسولؐ کے قانون سے محصور ہوں گے، جس سے تجاوز کرکے وہ نہ کوئی ایسی پالیسی اختیار کرسکتی ہے، نہ کوئی ایسا حکم دے سکتی ہے جو معصیت کی تعریف میں آتا ہو۔ کیونکہ اس آئینی دائرے سے باہر جاکر اسے اطاعت کے مطالبہ کا حق ہی نہیں پہنچتا۔ علاوہ بریں یہ منتظمہ لازماً شوریٰ، یعنی انتخاب کے ذریعے سے وجود میں آنی چاہیے اور اسے شوریٰ، یعنی باہمی مشاورت کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔ لیکن انتخاب اور مشاورت، دونوں کے متعلق قرآن قطعی اور متعین صورتیں مقرر نہیں کرتا بلکہ ایک وسیع اصول قائم کرکے اس پر عمل درآمد کی صورتوں کو مختلف زمانوں میں معاشرے کے حالات اور ضروریات کے مطابق طے کرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیتا ہے۔
’مقننہ‘ لازماً ایک ’شورائی ہیئت‘ (Consultative Body) ہونی چاہیے، لیکن اس کے اختیاراتِ قانون سازی بہرحال ان حدود سے محدود ہوں گے۔ جہاں تک ان اُمور کا تعلق ہے جن میں خدا اور رسولؐ نے واضح احکام دیئے ہیں یا حدود اور اصول مقرر کیے ہیں۔ یہ مقننہ ان کی تعبیروتشریح کرسکتی ہے، ان پر عمل درآمد کے لیے ضمنی قواعد اور ضابطۂ کارروائی تجویز کرسکتی ہے، مگر ان میں رَدّوبدل نہیں کرسکتی۔ رہے وہ اُمور جن کے لیے بالاتر قانون ساز نے کوئی قطعی احکام نہیں دیئے ہیں، نہ حدود اور اصول معین کیے ہیں، ان میں اسلام کی اسپرٹ اور اس کے اصولِ عامہ کے مطابق مقننہ ہرضرورت کے لیے قانون سازی کرسکتی ہے، کیونکہ ان کے بارے میں کوئی حکم نہ ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ شارع نے ان کو اہل ایمان کی صواب دید پر چھوڑ دیا ہے۔
’عدلیہ‘ ہر طرح کی مداخلت اور دبائو سے آزاد ہونی چاہیے، تاکہ وہ عوام اور حکام سب کے مقابلے میں قانون کے مطابق بے لاگ فیصلہ دے سکے۔ اسے لازماً ان حدود کا پابند رہنا ہوگا۔ اس کا فرض ہوگا کہ اپنی اور دوسروں کی خواہشات سے متاثر ہوئے بغیر، ٹھیک ٹھیک حق اور انصاف کے مطابق معاملات کے فیصلے کرے۔(’قرآن کی سیاسی تعلیمات‘،سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۲، عدد۳-۴، نومبر، دسمبر ۱۹۶۴ء، ص۶۸، ۷۲-۷۴)