اس بات میں کسی اختلاف اور مبالغے کی گنجایش نہیں کہ گذشتہ ڈیڑھ صدیوں میں جن علما اور بزرگوں کی علمی و تصنیفی خدمات، دعوتی وتبلیغی مساعی اور ان سے وابستہ اشخاص و رجال نے برِّصغیر جنوبی ایشیا کے دینی و علمی ماحول کو متاثر کیا،اور انسانوں کو دین سے جوڑا، اُن میں مولانا محمداشرف علی تھانویؒ [۱۸۶۳ء-۱۹۴۳ء]کا اسمِ گرامی بہت ممتاز اور نمایاں ہے۔ انھیں ایک بڑے حلقے میںحکیم الامت کے لقب سے یاد کیاجاتا ہے۔
بچپن ہی میں مجھے اپنے مربی و سرپرست محترم میاں ثابت علیؒ [م: ۱۹۶۲ء] اور بعض دوسرے بزرگوں کی زبانی جن قدسی صفات علما اور بزرگوں کے نام اور کارنامے سننے کو ملے تھے، ان میں سیّداحمد شہیدؒ [م:۱۸۳۱ء]کے خانوادے کے معروف عالم ومجاہد حضرت مولانا سید محمد امین نصیرآبادیؒ اور مولانا اشرف علی تھانویؒ کے اسمائے گرامی خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکرہیں۔ ایسا شاید ہی کوئی دن گزرتاہو، جس میں کسی نہ کسی کام یا شرعی حکم کے ذیل میں ان کا ذکر سننے میں نہ آیا ہو۔
شاید اسی خاص ماحول، ان بزرگوں کے احوال و کوائف سننے اور بچپن کی مخصوص ذہنی و فکری تربیت کاہی نتیجہ ہے کہ میں زندگی کے مختلف نشیب وفراز سے گزرنے کے باوجود ان بزرگوں کے روحانی سحر سے خود کو کبھی آزاد محسوس نہیں کرسکا۔ الحمدللہ، کتاب و سنت اور عقائدِ صحیحہ سے ہمیشہ رشتہ استوار رہا۔
مولانا تھانویؒ کی ذات دین پسند حلقوں کے لیے آج بھی باعثِ فیض و برکت ہے۔ وہ اپنے اندر علم و معرفت کا ایک جہاں سمیٹے ہوئے تھے۔ وہ بہ یک وقت قرآنی علوم کے عالم بھی تھے اور احادیث و سیرت کے رمز شناس بھی۔ تصوف ﴿جس کامناسب نام اِحسان ہے ﴾ کے غوطہ زن تھے اور علم فقہ کے ادا شناس بھی اور اپنے عہدکے واعظ و متکلم بھی۔
گذشتہ صدی کی مذہبی شخصیتوں کی تاریخ اوران کی سیرت کامطالعہ کریں تو ایسی شخصیتیں بہت کم ملیںگی، جنھوںنے عوامی زندگی اور اصلاح و تربیت کے منصب پر فائز ہوتے ہوئے اتنی بااصول اور منظم و منضبط زندگی گزاری ہو۔ ان کی زندگی کا کوئی گوشہ شاید ہی بے اصول اور قول وعمل کے تضاد سے داغ دار ہو۔ ان کی پوری زندگی عامتہ المسلمین کی دینی، اصلاحی اور علمی راہ نمائی سے عبارت ہے۔ انھوں نے اپنے شب و روز مشاغل کے لیے جو اصول اور ضوابط بنائے تھے، تمام عمر اس کی پابندی کی اور ایسی پابندی کی کہ کبھی اس کے سامنے کسی بڑی سے بڑی شخصیت یا عہدہ و منصب کی رعایت نہیں فرمائی۔
مولاناتھانویؒ کی بڑی چھوٹی کتابوں کی تعداد سیکڑوں سے متجاوز ہے۔ مولانا کے اندر شخصیت سازی اور تعمیر سیرت کی بے پناہ صلاحیت تھی۔ ان کے فیضِ تربیت سے ایسے ایسے آفتاب و ماہتاب پیدا ہوئے، جنھوںنے اپنے مرشد کی وفات کے بعد ان کے مشن کو آگے بڑھایا اور دعوت واصلاح کے میدان میں بڑی نمایاں خدمات انجام دیں۔
مولانا تھانویؒ قرآن و حدیث، فقہ وتفسیر اور معرفت و سلوک میں غیرمعمولی امتیاز و تفوق کے علاوہ انسانوں کی نفسیات میں انھیں گہرا ادراک حاصل تھا۔ کس انسان سے کب اور کیا برتائو کیا جائے؟ اس سے وہ بہ خوبی واقف تھے۔ یہ وہ خوبی ہے، جو اصلاح و تربیت اور دعوت و تبلیغ کے کام کے لیے نہایت ناگزیر ہے۔ اس صلاحیت کے بغیر اس راہ میں کوئی مفید خدمت نہیں انجام دی جاسکتی۔ اس کے بغیر جو بھی کام ہوگا، وہ اطمینان بخش نہیں ہوگا۔ جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتا چلتاہے کہ اب تک جتنے بھی داعی، مبلغ اور مصلح گزرے ہیں ، انھوں نے اسی نفسیات شناسی اور مزاج رسی کی بدولت کامیابی حاصل کی ہے۔ مولانا عبدالماجددریابادی کی کتاب حکیم الامت مولانا تھانوی کی زندگی کے اسی رُخ کو پیش کرتی ہے۔
حفیظ جون پوری [۱۸۶۵ء-۱۹۱۸ء] انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل کے ایک مشہور شاعر گزرے ہیں۔ بدقسمتی سے شراب کی انھیں لت تھی۔ ایک بار انھوں نے جون پور میں حضرت تھانویؒ کا وعظ سنا تو انھیں اپنی زندگی پر شدیدپشیمانی ہوئی۔ وہیں مجلس میں بیٹھے بیٹھے ایک خط لکھ کر مولانا تھانویؒ کی خدمت میں پیش کیا، جس میں انھوں نے اپنی اب تک کی زندگی پر اظہار تاسف و پشیمانی کیاتھا اور توبہ و بیعت کی خواہش بھی ظاہر کی تھی۔مولانا نے حفیظ صاحب کا خط پڑھااور قریب بلاکر فرمایا: ’’سفر میں یک سوئی نہیں ہوتی، آپ تھانہ بھون آئیے، وہیں تفصیل سے گفتگو ہوگی‘‘۔
حفیظ جون پوری کچھ دنوں کے بعد تھانہ بھون، ضلع مظفرنگر پہنچے۔ وہاں پتا چلاکہ مولانا کسی جلسے میں شرکت کے لیے دیوبند تشریف لے گئے ہیں۔ وہ فوراً وہاں سے دیوبند کے لیے روانہ ہوگئے۔ دیوبندپہنچے تو حضرت مولانا تھانہ بھون کے لیے روانہ ہوچکے تھے۔ وہ پھر وہاں سے تھانہ بھون پہنچے اور مولانا تھانوی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جون پور کی ملاقات کا حوالہ دیا، اپنی ماضی کی زندگی پر افسوس کا اظہار کیا اور بیعت کی خواہش دُہرائی۔
مولانا تھانویؒ بیعت کے معاملے میں بہت محتاط واقع ہوئے تھے۔ کافی دن دیکھنے اور پرکھنے کے بعد ہی بیعت کا فیصلہ فرماتے تھے۔ لیکن چوں کہ وہ انسانی مزاج و طبائع کی شناخت رکھتے تھے، اس لیے انھوںنے غالباً پہلی ہی نظر میں پہچان لیاکہ حفیظ طلبِ صادق لے کر حاضر ہوئے ہیں۔ اس لیے بیعت کے لیے جمعہ کی نماز کے بعد کا وقت مقرر کردیا۔ مولانا کا یہ فیصلہ خانقاہ میں موجودلوگوںکے لیے حیرت ناک تھا کہ ایک نووارد اور بہ ظاہر بے دین شخص کی طرف مولاناکا یہ التفات ان کی سمجھ سے باہر تھا۔
حفیظ جون پوری بیعت کے لیے حاضر ہوئے تو ان کا چہرہ بالکل صاف تھا۔ مولانا تھانویؒ نے انھیں دیکھا، کچھ دیر دیکھتے ہی رہے۔ قبل اس کے کہ مولانا کچھ فرماتے، حفیظ صاحب خود ہی گویا ہوئے : ’’حضرت، میں بیعت کے لیے حاضر ہوا ہوں، چوں کہ میں ہمیشہ اسی حال میں رہتا ہوں، طویل سفر میں موقع نہ ملنے کی وجہ سے شیو بڑھاہواتھا ، اس لیے میں نے اسے صاف کرانا ضروری سمجھا، تاکہ آپ سے میری کوئی بات پوشیدہ نہ رہے‘‘۔ مولانا صاف گوئی کے قدردان تھے، اس لیے انھوںنے بغیر کسی ڈانٹ کے انھیں اپنے حلقۂ ارادت میں شامل کرلیا۔ چند روز قیام کے بعد حفیظ صاحب اپنے وطن آگئے، خط کتابت کا سلسلہ جاری رکھا۔ گھرجانے کے بعد حفیظ جون پوری میں ایسی تبدیلی آئی کہ بڑے بڑے علما اور زہاد کو ان پر رشک آنے لگا۔ انھوںنے اپنی شاعری کے سلسلے میں بھی مولانا تھانویؒ کی مرضی دریافت کی تھی کہ ’’حکم دیں تو شاعری ترک کردوں‘‘۔ مولاناتھانویؒ نے فرمایا: ’’ترکِ سخن مناسب نہیں۔ البتہ حکمت و موعظت کی باتوں کو موضوعِ سخن بنانے کا التزام کیجیے‘‘ اور پھر باقی زندگی میں انھوں نے اس پر عمل کیا۔
جگر مرادآبادی [۱۸۹۰ء-۱۹۶۰ء] سے اردو زبان و ادب کاہر فرد واقف ہے۔ یہ اپنے زمانے کے نہایت مقبول اور ہر دل عزیز شاعر تھے۔ غزل سے ان کے مزاج کو خصوصی مناسبت تھی۔ اسی وجہ سے انھیں اردو دنیا میں سلطانِ تغزل کے لقب سے یاد کیاجاتاتھا۔ آج بھی ان کے اشعار ذوق وشوق کے ساتھ پڑھے جاتے ہیں۔ جتنی شہرت ان کی غزلوں کو حاصل تھی، اتنی ہی یا اس سے کچھ کم و بیش ان کی رندی و سرشاری کو بھی حاصل تھی۔ ہر وقت نشے میں رہتے تھے۔ بلانوشی کی اصطلاح شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے وضع ہوئی ہو۔ ان کی رندی، سرشاری اور بادہ خواری کے سیکڑوں واقعات مشہور ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ پہلو بھی تھا کہ کبھی آپے سے باہر نہیں ہوئے۔ ہمیشہ سنجیدگی کے دائرے میں رہتے تھے۔ علما اور بزرگوں کا ہرحال میں اور بے حد احترام کرتے تھے۔
جگرصاحب ایک روز مظفرنگر یا سہارن پور کے کسی مشاعرے میں شرکت کے لیے جارہے تھے۔ اسٹیشن پر ان کی ملاقات حضرت مولانا تھانویؒ کے مشہور خلیفہ خواجہ عزیزالحسن مجذوبؒ سے ہوگئی۔خواجہ صاحب بھی بلند پایہ شاعر تھے۔ دونوں بڑے تپاک سے ملے۔ پوچھا:’’کہاں جارہے ہو؟‘‘ حضرت مجذوب نے بتایاکہ: ’’تھانہ بھون جارہاہوں، حضرتِ مرشد سے ملاقات کے لیے‘‘۔ جگر صاحب بے چین ہوگئے اور کہا:’’میری بھی دیرینہ خواہش ہے کہ میں بھی حضرت مولانا کی خدمت میں حاضری دوں۔ لیکن کیا کروں، اپنی بلانوشی کی وجہ سے ہمت نہیں کرپاتا‘‘۔ مجذوب صاحب نے فرمایا: ہاں، یہ بات تو درست ہے۔ حضرت کے ہاں اس سلسلے میں بڑی سختی ہے۔ اس حال میں کبھی مت آجانا‘‘۔ کچھ دیر میں دونوں اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ عصر بعد کی مجلس میں مجذوب صاحب نے حضرت مولانا تھانویؒ کے سامنے جگر صاحب سے ہونے والی گفتگو بیان کی۔ مولاناتھانویؒ مجذوب صاحب پر بہت ناراض ہوئے اور کہا:’’تم نے انھیں آنے سے کیوں روک دیا؟ یہ تو درست ہے کہ میرے ہاں سختی و پابندی زیادہ ہے۔ لیکن یہ پابندیاں یا سختیاںشخصیتوں کو دیکھ کر عائد ہوتی ہیں۔ جگر اس سے مستثنیٰ ہیں۔ تمھیںانھیں آنے دینا چاہیے تھا۔ کیا عجب کہ یہاں آنا ہی ان کی اصلاح کا ذریعہ بن جاتا‘‘۔
کچھ دنوں کے بعد پھر اسی جگہ پر جگر اور مجذوب کی ملاقات ہوئی۔ علیک سلیک کے بعد مجذوب صاحب نے بتایاکہ ’’میں نے آپ سے اُس دن کی ملاقات کا تذکرہ حضرت سے کیاتھا‘‘۔ اور اتنا کہہ کر خاموش ہوگئے۔ جگر صاحب نے نہایت اضطراب اور بے چینی کے ساتھ حضرت تھانویؒ کا تاثر معلوم کرنا چاہا۔ مجذوب صاحب نے بتایاکہ ’’حضرت مجھ پر بہت ناراض ہوئے اور فرمایاکہ تمھیں انھیں آنے دینا چاہیے تھا۔ تم نے یہاں کی سختی اور پابندی کا تذکرہ کرکے ناحق انھیں روک دیا۔ جگر صاحب اس پابندی سے مستثنیٰ ہیں‘‘۔ بس، یہ سننے کے بعد جگر مرادآبادی کہیں اور جانے کا ارادہ ملتوی کرکے مجذوب صاحب کے ہم راہ تھانہ بھون کے لیے چل پڑے۔ قصبے میں پہنچ کر کسی مسجد کے غسل خانے میں غسل کیااور خانقاہِ اشرفی میں حاضر ہوئے۔ حضرت تھانویؒ بڑے تپاک سے ملے۔ کچھ دیر گفتگو کے بعد ان سے کلام کی فرمایش کی۔ جگرصاحب نے وہ غزل سب سے پہلے اسی مجلس میں پڑھی تھی، جس کامطلع یہ ہے:
جان کر من جملۂ ارباب مے خانہ مجھے
مدّتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ مجھے
جب یہ شعر پڑھاتو آواز رندھی اور پھر جگر کی ہچکیاں بندھ گئیں:
ننگِ مے خانہ تھا میں، ساقی نے یہ کیاکردیا
پینے والے کہہ اٹھے یا پیرِ مے خانہ مجھے
جگرنے دو تین روزوہیں قیام کیا۔ اس کے بعد ان کی زندگی یکسر بدل گئی اور ہمیشہ وہ جائے نماز دربغل رہنے لگے۔
یہ دونوں واقعات یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ حضرت تھانویؒ واقعی حکیم الامت تھے۔ افرادِ امت کے حالات و کوائف باریک بینی سے دیکھتے اور ان کے امراض کاعلاج کرتے تھے۔ ان کی اِسی حکمت و دانائی اور فہم وتدبر کے باعث سیکڑوں گم گشتگانِ راہ کومنزل نصیب ہوئی۔
مولانا اشرف علی تھانوی ؒ گروہی ومسلکی تعصبات سے بلندہوکر سوچنے کے عادی تھے۔ ہربات میں حکمت واصلاح کے پہلو نکالنا، دین کے وسیع مقصد کو سامنے رکھ کر اس کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا اور اپنے وابستگان کو بھی اس کی طرف متوجہ کرنا ان کا خاص مزاج تھا۔ اس سلسلے کے ان کے متعدد واقعات آج بھی اہل ِ علم و دانش کی مجلسوں میں سننے کو ملتے ہیں۔
مولانا احمد رضاخاں بریلویؒ [۱۸۵۶ء-۱۹۲۱ء] اپنے نقطۂ نظر کے اظہار میں بڑے سخت واقع ہوئے تھے۔ ان کے مزاج کی یہ سختی اس درجے کو پہنچ چکی تھی کہ بعض علما کے بارے میں انھوںنے کفر کا فتویٰ دے ڈالاتھا۔ جب ان کا اِنتقال ہوا تو مولانا تھانویؒ کی مجلس میں کسی نے اطلاع دی کہ ’’احمد رضاخاں کا انتقال ہوگیا ہے‘‘۔ مولانا کو یہ بات پسند نہ آئی کہ اتنے بڑے عالم کا نام بس یوں ہی جناب اورصاحب کے بغیر لے لیاجائے۔ فرمایا: ’’کون؟ مولانااحمد رضاخاں بریلوی؟‘‘ اطلاع دینے والے نے کہا: ’’جی ہاں‘‘۔ فرمایا: اناللہ واناالیہ رٰجعون۔ آئیے ان کے لیے دعائے مغفرت کریں‘‘۔ ہاتھ اٹھاکر کافی دیر تک ان کے حق میں دعا فرماتے رہے۔ حاضرین نے بھی ہاتھ اٹھاکر دعا کی۔ لیکن ان میں بعض لوگ ایسے تھے، جنھیں یہ بات ناگوار خاطرہوئی۔ جب مولانا تھانویؒ دعا فرماچکے تو ایک نے کہا: ’’حضرت ! حیرت ہے کہ آپ نے ایک بدعتی کانام تعظیم کے ساتھ لیا‘‘۔ مولانا نے فرمایا: ’’وہ بدعتی نہیں تھے، محبتی تھے۔ جب کسی کو کسی سے محبت ہوتی ہے تو اس میں غلو کے بھی امکان ہوتے ہیں‘‘۔ ابھی مولانا نے اتنی بات کہی تھی کہ ایک دوسرے صاحب بول پڑے کہ ’’حضرت! وہ تو آپ کو کافر کہتے تھے۔ پھر بھی آپ نے ان کے لیے دعائے مغفرت فرمائی‘‘۔ مولانا نے بڑے ٹھیرے ہوئے لہجے میں فرمایا:’’میاں!مجھے وہ کافر اس لیے کہتے تھے کہ وہ مجھے کافر سمجھتے تھے۔ میری کسی بات سے انھوںنے یہی نتیجہ نکالاہوگاکہ میں کافر ہوں۔ اگر وہ مجھے کافر سمجھتے ہوئے بھی ’کافر‘ نہ کہتے تو وہ خود کافر ہوجاتے۔ یہ فقہ کامسلّمہ مسئلہ ہے‘‘۔
اعظم گڑھ کے کسی گائوں سے ایک صاحب نے مولانا کو خط لکھا۔ اس کامتن کچھ اس طرح تھا :’’میں آپ کے خلیفہ مولانا عبدالغنی پھول پوریؒ کامرید ہوں۔ میں نے گذشتہ برس مدرستہ الاصلاح میں اپنے بیٹے کا داخلہ کرایاہے۔ الحمدللہ، داخلے کے بعد سے میرے بیٹے میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ نمازیں پڑھتا ہے، گائوں کے خراب بچّوں سے الگ رہتا ہے اور جی لگاکر تعلیم بھی حاصل کررہا ہے۔ میرے بعض اعزّہ کے بچے بھی اسی مدرسہ میں پڑھتے ہیں۔ وہاں پڑھانے میں مجھے بڑی سہولت ہے۔ لیکن میرے مرشد مولانا عبدالغنی صاحب کو یہ بات پسند نہیں ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ بچے کو اس مدرسے سے اٹھالو، وہاں کی فکر صحیح نہیں ہے ۔ بچّہ آزاد خیال ہوجائے گا اور قرآن کو حدیث و تفسیر سے سمجھنے کے بجائے اپنی عقل سے سمجھنے کی کوشش کرے گا۔ میرے مرشد نے یہاں تک فرمادیاکہ بچے کو وہاں سے ہٹالو ورنہ میں بد دُعا کردوںگا، جب کہ میرا بیٹا بھی اسی مدرسے میں پڑھنا چاہتا ہے۔ حضرت، اب آپ فرمائیں کہ میں ایسی صورت میں کیا کروں؟‘‘
مولانا تھانوی علیہ الرحمہ نے خط کامختصر جواب دیتے ہوئے فرمایا: ’’اگر آپ اس بات سے مطمئن ہیں کہ آپ کے بیٹے کی وہاں صحیح تعلیم ہورہی ہے اور آپ کا بیٹا بھی وہیں پڑھناچاہتا ہے، تو آپ اسے وہیں پڑھنے دیجیے۔ مولوی عبدالغنی کی بددعا کی فکر مت کیجیے۔ اگر وہ بددعا کریں گے تو میں یہاں سے دعا کردوںگا‘‘۔
قارئین ان دو واقعات سے اس بات کا پورا اندازہ کرسکتے ہیں کہ اصلاح وتربیت کے سلسلے میں مولانا کی کیاسوچ تھی اور ہر بات سے وہ کس طرح مفید اور مثبت پہلو نکالتے تھے۔
مولاناتھانوی ؒبے حد منظم اور بااصول شخص تھے۔ انھوںنے اِسی نظم وضبط اور اصول وضوابط کی روایت کو اپنے مریدوں اور قریب رہنے والوں میں بھی پروان چڑھانے کی کوشش کی۔ اس سے ان کی غرض صرف یہی تھی کہ لوگوں کو سکون اور راحت حاصل ہو۔ ان کا احساس تھا کہ نظم و ضبط اور اصول پسندی کے بغیر کوئی دعوت یا تبلیغ مؤثر نہیں ہوگی۔ یہ مولانا تھانویؒ کی زندگی کاایک ایسا وصف ہے، جو ہمارے آج کے داعیوں ، مربّیوںاور مبلغوںکی زندگیوں میں مفقود ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مولانا اشرف علی تھانویؒ کسی شخص یا فرد کانام نہیں، بلکہ ایک علمی، روحانی اور تربیتی ادارے کا نام ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک ایسی دانش گاہ تھے، جس نے اصلاح و تربیت کے لاتعداد پیاسوں کی پیاس بجھائی۔ آج کے دور میں دعوت و تبلیغ اور اصلاح و تربیت کاکام کرنے کے لیے ان کی تعلیمات مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ تحریک پاکستان کے حامی اور دوقومی نظریہ کے طرف دار تھے۔