اللہ تعالیٰ نے یہ ساری کائنات اور انسان کو ایک نہایت اہم مقصد کی خاطر تخلیق کیا ہے تاکہ اس دنیا پر الله کی خلافت و نیابت قائم ہو۔ اللہ ہی کے احکام کے مطابق اس دنیا کا نظام چلے، اللہ ہی کا دین اور اس کے قوانین نافذ ہوں، اور تمام انسان اللہ کے دین سے آشنا ہو جائیں ۔
جس طرح کسان کھیت سے پیداوار حاصل کرتا ہے، اسی طرح تم بھی اپنی کھیتیوں یعنی عورتوں کے ذریعے اللہ کی زمین کو آباد رکھنے کے لیے نسل انسانی کو بڑھائو، جس طرح کسان کھیت میں بیج ہی نہیں بوتا ، بلکہ جو فصل تیار ہوتی ہے اس کی رکھوالی بھی کرتا ہے اور جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے اسے مہیا کرتا ہے۔ اسی طرح عورت اور اس سے پیدا ہونے والی نسل بھی مکمل طور سے مرد کی محتاج ہوتی ہے کہ وہ نہایت توجہ اور دھیان سے اس کی نگہبانی کرے اور انھیں پروان چڑھائے۔
مرد و عورت کے تعلق کو حیوانوں کی طرح محض شہوانی غرض و غایت پوری کرنے والا نہیں بنایا ، بلکہ مرد و عورت کی زوجیت کا یہ بھی مقصد بتایا کہ ان میں آپس میں صنفی محبت، قلبی لگاؤ اور دلی وابستگی ہو۔ دونوں ایک دوسرے کے شریک راز اور شریک غم ہوں ۔
ارشاد خداوندی ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے خود تم ہی میں سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمھارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی‘‘ (الروم ۳۰:۲۱)۔ انھیں ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ۔ ارشا د ہے:، ھُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ۰ۭ (البقرہ۲: ۱۸۷) ’’وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو‘‘۔
یعنی جس طرح لباس اور جسم کے درمیان کوئی پردہ نہیں رہ سکتا، اسی طرح تمھارا اور تمھاری بیویوں کا تعلق ہے۔ وہ تمھاری شریک راز ہیں اور سکون وراحت کا سرمایہ ہیں۔ نکاح کو نبی کی سنت قرار دیا اور حکم دیا کہ کوشش کی جائے کہ کوئی بھی بغیر نکاح کے نہ رہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں، اور تمھارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں، ان کے نکاح کر دو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے گا ، اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے‘‘ (النور۲۴:۳۲)۔ اس ضمن میں اسلامی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ جو لوگ کچھ مسائل کے سبب نکاح نہ کر سکتے ہوں، ان کے نکاح کروا دیں کیونکہ نکاح نہ کیے جانے سے آدمی غلط راہ پر چل پڑتا ہے۔
مردوں کی طرح عورتیں بھی اگر زنا یا ہم جنسی میں ملوث ہوتی ہیں تو وہ بھی ان سب جرائم کی مرتکب ہوتی ہیں ۔ تشویش تو اس بات کی ہے کہ ہم جنسیت جو کہ نہایت گھناؤنا فعل ہے، نسل انسانی کو روکنے والا عمل ہے اور خاندانی نظام کو تباہ و برباد کرنے والا خلافِ فطرت عمل ہے۔ اس کو گہرے سازشی مقاصد کے تحت پھیلایا اور عالمی ضابطوں اور ابلاغی دبائو کے تحت جواز مہیا کیا جارہا ہے۔ اگر اسے قانونی جو از دے د یا جائے تو لوگوں کا رجحان ہی ختم ہونے لگے گا کہ نکاح کی بندش میں بندھ کر نوع انسانی کی پیدائش اور افزائش کی ذمہ داری ادا کریں ۔
اگر اس ہم جنسیت کے فتنہ کو قانونی جواز مل جائے تو بہترین انسانی نظام تمدن کے بجائے، حیوانی نظام تمدن وجود میں آئے گا جو اپنے مادی غرض و فائدہ کی خاطر اکٹھے تو ضرور ہوتے ہیں ، اور جب تک مرضی اور غرض باقی رہے ساتھ رہتے ہیں اور جب چاہیں الگ ہو جاتے ہیں ۔ انھیں خاندانی و سماجی نظام تمدن سے کوئی غرض اور سروکا ر نہیں۔ حالانکہ بہ حیثیت انسان وہ خاندانی اور سماجی نظام ہی کے سبب پیدا ہوئے اور پلے بڑھے ہیں۔ اس کے باوجود حیوانوں کی طرح دنیا میں اپنے پیٹ بھرنے اور شہوانی خواہش پوری کرنے کے علاوہ ان کا کوئی مقصد اور ذمہ داری نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ اس شنیع فعل میں ملوث افراد کسی کام کے نہیں رہتے، نہ ان کا کوئی اخلاق اور کردار ہوتا ہے، نہ ایسے خود غرض اور نفس پرست انسان ملک کے انتظامی امور اور کوئی سماجی خدمت کرنے کے ہی اہل ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں پر مشتمل معاشرہ، حیوانیت کی سطح سے بھی بہت نیچے اسفل السافلین قرار پائے گا۔
ابن عباسؓ کا فتویٰ یہ ہے کہ ’’بستی کی سب سے اُونچی عمارت سے ان کو سر کے بل پھینک دیا جائےاور اُوپر سے پتھر برسائیں جائیں‘‘۔ امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ: ’’فاعل و مفعول واجب القتل ہیں، خواہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ‘‘۔ شعبی ، زہری، مالک اور احمد رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ ’’ان کی سزا رجم ہے‘‘۔
سعید بن مسیب، عطا، حسن بصری، ابراہیم نخعی ،سفیان ثوری اور اوزاعی رحمہم اللہ کی رائے میں ’’اس جرم پر وہی سزادی جائے گی جو زنا کی سزا ہے، یعنی غیر شادی شدہ کو سو کوڑے مارے جائیں گےاور جلا وطن کر دیا جائے گا اور شادی شدہ کو رجم کیا جائے گا‘‘۔ امام ابو حنیفہؒ کی رائے میں ’’اس پر کوئی حد مقرر نہیں ، بلکہ یہ فعل تعزیر کا مستحق ہے جیسے حالات و ضروریات ہوں ان کے لحاظ سے کوئی عبرت ناک سزادی جا سکتی ہے‘‘۔ ایک قول امام شافعیؒ سے بھی اسی کی تائید میں منقول ہے۔
معلوم رہے کہ آدمی کے لیے یہ بات قطعی حرام ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’عورت سے یہ فعل کرنے والا ملعون ہے‘‘ (ابوداؤد)۔ آپؐ نے مزید فرمایا: ’’اللہ اس مرد کی طرف ہرگز رحمت سے نہ دیکھے گا، جو عورت سے اس فعل کا ارتکاب کرے‘‘۔ (ابن ماجہ، مسند احمد)
ترمذی میں آپ کا یہ فرمان ہے: ’’جس نے حائضہ عورت سے مجامعت کی یا عورت کے ساتھ عملِ قومِ لوط کا ارتکاب کیا ' یا کاہن کے پاس گیا اور اس کی پیشن گوئیوں کی تصدیق کی، اس نے اس تعلیم سے کفر کیا جو محمدؐ پر نازل ہوئی ہے۔ (تفہیم القرآن، جلد دوم، سورۂ اعراف ،حاشیہ ۶۸)
الغرض ہم جنسیت نہایت ، گھناؤنا، قبیح اور شنیع فعل ہے۔ اس کے مرتکب افراد اللہ کے عذاب کو دعوت دیتے ہیں ، یہ ایک بھیانک جرم، بدترین گناہ، انسانی تمدن بلکہ فطرت سے جنگ ہے۔
سائنسی تجربہ سے سامنے آیا ہے کہ ایڈز جیسے مرض کے ، دوسرے افراد کے مقابلے میں ، کئی گنا زیادہ ہم جنسیت میں ملوث افراد شکار ہوتے ہیں اور اس جرم میں مبتلا افراد میں اس موذی مرض کا شکار ہونے کے واقعات میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ایک لا علاج بیماری ہے اور اب تک لاکھوں افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ اس بیماری میں مبتلا افراد کے جو لوگ رابطے میں رہتے ہیں، وہ بھی اس موذی مرض کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ خصوصاً ان ممالک میں اس بیماری کا گراف بہت زیادہ بڑھا ہوا ہے جہاں ہم جنسی میں ملوث افراد کی تعداد زیادہ ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق ہم جنسی میں مبتلا افراد کی عمر دوسرے عام لوگوں کے مقابلے میں ۳۰ سال کم ہو جاتی ہے ۔ ایسے افراد ہر قسم کی مہلک بیما ریوں میں بھی دوسرے لوگوں کے مقابلے میں جلد شکار ہو جاتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اور لوط کو ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا ، پھر یاد کرو جب اس نے اپنی قوم سے کہا: کیا تم ایسے بے حیا ہوگئے ہو کہ وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا ؟.... حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو ۔مگر اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ’’نکالو ان لوگوں کو اپنی بستیوں سے ، بڑے پاکباز بنتے ہیں یہ‘‘۔ (اعراف۷:۸۰-۸۲ )
اسی طرح سورۂ شعراء (۱۶۰ سے ۱۷۳) میں اس قوم کا ذکر ہے۔ سورۂ عنکبوت میں بھی فرمایا گیا کہ ’’تم وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا والوں میں سے کسی نے نہیں کیا ؟ کیا تمھارا حال یہ ہے کہ مردوں کے پاس جاتے ہو، اور رہزنی کرتے ہو اور اپنی مجلسوں میں بُرے کام کرتے ہو؟‘‘ (العنکبوت۲۹: ۲۸-۲۹)
حضرت لوط ؑ نے اپنی قوم کو بار بار ان برائیوں کے ارتکاب پر تنبیہ کی، جس میں وہ ملوث تھے، بُرے انجام سے ڈرایا، لیکن اتنی تنبیہات کا اُس قوم نے کوئی اثر قبول نہ کیا، نہ اپنی حرکتوں سے تائب ہوئے۔ بالآخر اللہ کا غضب نازل ہوگیا اور وہ قوم ملیا میٹ کر دی گئی ۔ ارشادِ خداوندی ہے : ’’آخرکار پو پھٹتے ہی اُن کو ایک زبردست دھماکے نے آ لیا۔ اور ہم نے اُس بستی کو تل پٹ کرکے رکھ دیا اور ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھروں کی بارش برسا دی‘‘ ۔ (الحجر۱۵:۷۳-۷۴)
سورۂ ہود میں ارشاد خداوندی ہے: ’’پھر جب ہمارے فیصلے کا وقت آپہنچا تو ہم نے اس بستی کو تل پٹ کر دیا اور اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر تا بڑ توڑ برسائے، جن میں سے ہر پتھر تیرے ربّ کے یہاں نشان زدہ تھا۔ اور ظالموں سے یہ سزا کچھ دُور نہیں ہے ‘‘۔(ھود ۱۱:۸۲-۸۳)
مولانا مودودی اس ضمن میں لکھتے ہیں: ’’غالباً یہ عذاب سخت زلزلے اور آتش فشانی انفجار کی شکل میں آیاتھا۔ زلزلے نے ان کی بستیوں کو تل پٹ کیا اور آتش فشاں کے پھٹنے سے ان کے اوپر زور کا پتھراؤ ہوا۔ بحر لوط کے جنوب اور مشرق کے علاقے میں اس انفجار کے آثار ہر طرف نمایاں ہیں۔ ’اور ظالموں سے یہ سزا کچھ دُور نہیں‘ سے مراد آج بھی جو لوگ ظلم کی اس روش پر چل رہے ہیں وہ بھی عذاب کو اپنے سے دور نہ سمجھیں ۔ عذاب اگر قومِ لوط پر آسکتا تھا تو ان پر بھی آسکتا ہے ۔ خدا کو نہ لوطؑ کی قوم عاجز کرسکی تھی، نہ یہ کر سکتے ہیں۔ (تفہیم القرآن، دوم، سورۂ ہود، حاشیہ ۹۱،۹۳)
سورۂ شعراء میں ارشاد خداوندی ہے: آخر کار ہم نے اسے اور اس کے سب اہل وعیال کو بچالیا بجز ایک بڑھیا کے ، (مراد حضرت لوطؑ کی بیوی جو اسی قوم سے تھی) جو پیچھے رہ جانے والوں میں تھی۔ باقی ماندہ لوگوں کو ہم نے تباہ کر دیا اور ان پر برسائی ایک برسات، بڑی ہی بُری بارش تھی جواُن ڈرائے جانے و الوں پر نازل ہوئی‘‘۔ (سورۂ شعراء، آیات۱۷۰ تا ۱۷۳)
اس کی تشریح کرتے ہوئے مولانا مودودی فرماتے ہیں: ’’قرآن مجید میں اس عذاب کی جو تفصیل بیان ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت لوطؑ جب رات کے پچھلے پہر اپنے بال بچوں کو لے کر نکل گئے (سوائے ان کی بیوی کے ) تو صبح پو پھٹتے ہی یکایک زور کا دھماکا ہوا۔ ایک ہولناک زلزلہ نے ان کی بستیوں کو تل پٹ کر کے رکھ دیا۔ ایک زبر دست آتش فشانی انفجار سے ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر برسائے گئے اور ایک طوفانی ہوا سے بھی ان پر پتھراؤ کیا گیا‘‘۔ (تفہیم القرآن، سوم، سورۂ شعراء حاشیہ۱۱۴ )
وہ لکھتے ہیں: ’’اس شنیع فعل یعنی ہم جنسیت کو سب سے پہلے یونان نے بڑھاوا دیا۔ اسے قانونی جواز فراہم کیا۔ پھر یورپ اور امریکا نے بھی اس کے حق میں زبردست آواز اٹھائی اور کئی ممالک نے اسے قانونی جواز فراہم کردیا۔ہم جنسیت تمام مذاہب میں گھناؤنا عمل سمجھا جاتا ہے۔ لیکن انیسویں صدی کے اواخر سے اس کے حق میں آواز بلند ہوئی۔ بیسویں صدی کے نصف اوّل میں متعدد مغربی ممالک کے قوانین میں ترمیم کی گئی اور اس عمل پر سزا ساقط کی گئی۔ پھر عوامی سطح پر ہم جنسیت کے حامی افراد نے منظم ہوکر جگہ جگہ مظاہرے کیے، کانفرنسیں منعقد کیں اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔ پہلے ایسے افراد کو حکومتی، انتظامی اور فوجی مناصب کے لیے نا اہل قرار دیا گیا تھا، لیکن ان افراد کی منظم کوشش اور دباؤ کی بنا پر آہستہ آہستہ ان کے حقوق تسلیم کیے جانے لگے اور انھیں ہر منصب کے لیے اہل قرار دیا گیا۔ پھر ان کے حق میں دائمی رفاقت کے قانون (Partnership Act) منظور کیے گئے اور اجازت دی گئی کہ ہم جنسیت پر عامل افراد بھی پارٹنر کی حیثیت سے منسلک ہوکر ایک جوڑے کی شکل میں (نکاحی جوڑوں کی طرح) رجسٹرڈ کرواسکتے ہیں اور اس کی بنیاد پر ملکیت، وراثت، امیگریشن ٹیکس اور سوشل سیکوریٹی کے حقوق حاصل کرسکتے ہیں۔ ایسے جوڑوں کو بچوں کو گود لینے کا بھی حق دیا گیا‘‘۔(ایضاً)
مولانا جلال الدین عمری نے ۲۹ دسمبر ۲۰۱۳ء کو انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر، نئی دہلی میں منعقدہ ایک بین المذاہب اجلاس کے صدارتی خطاب میں بھارت کی سپریم کورٹ کی طرف سے ہم جنسیت کے خلاف ایک فیصلے کی تائید کرتے ہوئے کہا: ’’اس وقت اسٹیج پر مختلف مذاہب کے نمائندے جمع ہیں۔ یہ سب ہم جنسیت کے خلاف ہیں۔ اس معاملہ میں اسلام کا جو نقطۂ نظر ہے، وہی دیگر مذاہب کا بھی ہے۔ضرورت ہے کہ ہم حکومت کے ذمہ داران سے کہیں کہ وہ اس دفعہ(۳۷۷) کو ختم کرنے کی نادانی نہ کریں۔ ہم پارلیمنٹ کے ممبروں سے کہیں کہ اگر حکومت کی طرف سے ایسی نادانی ہو تو آپ ہرگز اس کی تائید نہ کریں۔ اسی طرح ہم ملک کے عوام سے کہیں کہ آپ لوگ اس کے خلاف کھڑے ہوجائیں۔ ایک برائی اگر پنپتی ہے تو وہ دوسری برائیوں کے لیے راستہ کھول دے گی۔ پھر ان برائیوں کو روک پانا ممکن نہیں ہوگا‘‘۔
یہ اللہ اور آخرت کو بھول جانے یا اس سے انجان بننے یا نظر چرانے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اگر اس طوفانِ بلا کو روکا نہ گیا تو انسان اپنی انسانیت ہی کھو دیں گے۔ اس طرح کے رویے جو کوئی قوم اختیار کرے یا دنیا بھر کے غلیظ انسان، اللہ کو حساب چکاتے دیر نہیں لگتی۔
اگر اُمتِ مسلمہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے بعد سے اپنی اقامتِ دین کی ذمہ داری پوری کر رہی ہوتی اور فکری اور عملی شہادت دینے کی کوشش کا فریضہ انجام دیتی رہتی، تو آج دنیا اس طرح تباہی کے غار میں نہ گرتی۔ اگر دنیا بھر میں مسلم معاشرہ احکامِ الٰہی اور رسولؐ کے مطابق گامزن ہوتا اور دنیا کے سامنے ایک بہترین ماڈل بنا رہتا تو ظاہر ہے کہ دوسری گمراہیوں کے ساتھ یہ گمراہی ہی ناپیدا ہوتی۔ لیکن افسوس ہے کہ نبیؐ کے بعد سے اُمت اپنا مقصد ہی بھول بیٹھی۔ حق کے علَم برداروں نے اپنے مادی اور دنیاوی مفاد کو سامنے رکھا، اور اپنی دین حق قائم کرنے کی ذمہ داری بھول گئے اور زمین کو باطل پرستوں کے لیے چھوڑ دیا۔
اب ،جب کہ دنیا میں خلافتِ الٰہیہ قائم نہ رہ سکی تو اُمتِ مسلمہ کی ذمہ داری کم ہونے کے بجائے بڑھ چکی ہے۔ سب سے پہلے تو وہ اپنے آپ کو اور اپنے خاندان و معاشرہ کو مکمل اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی تگ و دو میں لگ جائیں۔ اس طرح کہ معاشرہ کا کوئی فرد بھی حکمِ الٰہی کی تعمیل میں کوتاہی نہ برت سکے۔ خواہ کمانے اور خرچ کرنے کا معاملہ ہو یا شادی بیاہ اور وراثت کی تقسیم وغیرہ کا یا باہمی حقوق کی ادائیگی کا سوال ہو، کسی ایک عمل میں بھی امت کا کوئی فرد اللہ کی نافرمانی نہ کرنے پائے۔ اور سب سے اہم یہ کہ معاشرہ کا ہر فرد اللہ کے دین کو تمام دین سے نا آشنا بندوں تک پہنچانے میں نہایت مستعد ہو اور اسے اوّلین فریضہ سمجھے۔ ساتھ ہی اُمتِ مسلمہ کے ہر ہرفرد میں یہ شعور اُجاگر ہو کہ اللہ کی زمین میں اسی کا دین، اسی کے قوانین چلنے چاہئیں یعنی خلافت قائم ہو۔
مرد و عورت کا مخلوط میل جول اسلام کا مزاج نہیں اور یہ افعال اسلام میں ناجائز ہیں۔ اس سے دوسرے افراد اور اپنی اولاد اور متعلقین کو بچائیں۔ اپنے بچوں کو بے حیائی اور اخلاق باختہ مغربی کلچر سے بچائیں۔ انھیں ایک حد تک آزادی دیتے ہوئے بھی ان پر اور ان کی دلچسپیوں پر نظر رکھیں ۔ قرآنی تعلیم اور اُمتِ مسلمہ کے نصب العین سے انھیں شروع ہی سے باخبر رکھیں۔ اللہ کے دین کی تبلیغ اور اللہ کے دین کے غلبہ کی کوششوں میں کوتاہی نہ رہ جائے۔
یہ صرف اسلامی تحریکوں ہی کی نہیں بلکہ دنیا بھر میں پوری امہ کی ذمہ داری ہے کہ اس فتنے کے طوفان کو روکیں۔ پچھلی قوموں پر آئے عذاب سے عبرت حاصل کریں۔ اللہ کی طرف گامزن ہوں، اللہ کی اطاعت کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیں اور اللہ کے دین سے نا آشنا بندوں کو بھی ان کی غلط روش سے باز رکھنے کی بھرپور کوشش کریں۔ حکمت اور محبت سے پچھلی قوموں پر آئے عذاب سے باخبر کریں۔ انھیں بھی اس فتنہ سے برپا ہونے والی تباہیوں سے آگاہ کریں۔ انھیں بتائیں کہ کس طرح فتنہ ہم جنسیت کی شکل میں عظیم تباہی ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے اور کس طرح ہم جنسیت میںملوث افراد دنیا کو برباد کرنے کے درپے ہیں۔