دسمبر ۲۰۲۴

فہرست مضامین

’’غزہ،مشرق وسطیٰ کا سنگاپور؟‘‘

حافظ محمدعبداللہ | دسمبر ۲۰۲۴ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

غزہ ۴۰ ملین ٹن ملبے کا ڈھیر ہے۔ ۱۰۰ بڑے ٹرالر اگر اس ملبے کو ہٹانے پر لگائے جائیں تو انھیں ۱۵ سال لگیں گے۔ غزہ کی پٹی میں چاروں طرف اسرائیلی جارحیت کے سبب تباہی و بربادی اور موت کا راج ہے۔ تاہم، اسرائیل اور اس کے حواری ۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد اپنی وحشت، درندگی اور خون آشام صہیونیت کے دفاع میں ایک بار پھردنیا کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ فلسطین کی تحریک مزاحمت کے پاس غزہ کی ریت اُڑاتی سر زمین پر ’مشرق وسطیٰ کے سنگاپور‘ کی تعمیر کا پورا موقع موجود تھا، جو اس نے اپنی نااہلی کی بدولت کھو دیا ہے۔

فی الحقیقت یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے، جسے اسرائیل اور اس کے حواری اپنی پروپیگنڈا مشین کے زور پر چند عشروں، خصوصاً اوسلو مذاکرات کے بعد سے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ اسرائیل ابتدا ہی سے اقتصادی طور پر ’مضبوط غزہ‘ کے خلاف تھا اور ہمیشہ سے اس کی کوشش رہی کہ غزہ کو اقتصادی طور پر تباہ حال رکھے۔ کبھی اس قابل نہ ہو نے دے کہ یہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا پیش خیمہ اور نقطۂ آغاز بن سکے ۔ مکار اسرائیلی پالیسی ساز ایک طرف عالمی برادری کے سامنےیہ راگ الاپتے رہے کہ غزہ ’مشرق وسطیٰ کا سنگاپور‘بن سکتا ہے ، تو دوسری طرف اپنی نجی محفلوں میں برملا اعتراف کرتے اور خوشیاں مناتے رہے کہ ہماری سازشوں کے نتیجے میں غزہ مالی بحرانوں کی دلدل میں دھنسے چلے جارہا ہے اور ہمیشہ اسی دلدل میں غرق رہے گا۔

کیا اسرائیل کے ہوتے ہوئے غزہ فی الواقع مشرق وسطیٰ کا سنگاپور بن سکتا تھا؟ اس کا جواب حاصل کرنے کے لیے ۷؍ اکتوبر سے قبل کی اسرائیلی پالیسی کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے، جب غزہ میں حماس انتظامیہ کا وجود ہی نہیں تھا۔

مشرق وسطیٰ میں سنگاپور کے قصے کا آغاز اس وقت سے ہوتا ہے جب جنوری ۱۹۸۸ ءمیں امریکی جریدہ نیویارک ٹائمز نے ایک مضمون شائع کیا ، جس کا عنوان تھا: ’ریاست غزہ، جو مشرق وسطیٰ کا سنگاپور بن سکتا ہے‘۔ مضمون نگار مارٹن گوتھرمین نے اپنے مضمون میں یہ تصور دیا تھا کہ غزہ کی پٹی میں ایک علیحدہ آزاد اور مستقل ریاست قائم کر دی جائے۔ مصنّف کےخیال میں مجوزہ ریاست کے پاس ممکنہ طور پر وہ سارے امکانات ا ور وسائل موجود ہیں، جو اسے مشرق وسطیٰ کا سنگاپور بناسکتے ہیں۔ گوتھرمین وہ پہلے فردہیں جنھوں نے غزہ کو ’سنگاپور‘سے مشابہہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ غزہ، سنگاپور کی ڈٹو کاپی بن سکتا ہے۔ تاہم، اسرائیلی قبضہ کے زیر سایہ ان کا یہ خیال ایک ایسا خواب تھا جسے دور کی کوڑی ہی کہا جاسکتا ہے۔

صورت حال یہ تھی کہ غزہ اُس وقت عملاً اسرائیلی ظالمانہ قبضہ کے تحت جی رہا تھا اور فلسطینی اتھارٹی اور صہیونی انتظامیہ کے مابین مذاکراتی عمل مکمل طور پر تعطل کا شکار تھا۔ ۱۹۹۱ء میں اسرائیلی انتظامیہ نے غزہ کے لوگوں پر اس وقت عرصۂ حیات تنگ کرنا شروع کر دیا، جب اس نے وہ عمومی پاس منسوخ کر دیا جو مغربی کنارے اور غزہ کے باسیوں کو اسرائیلی مقبوضہ علاقوں میں آنے جانے کے لیے نسبتاً آزادی فراہم کرتا تھا۔ اب ہر فرد کو خوب چھان پھٹک کے بعد ہرمرتبہ نیا پاس حاصل کرنا ہوتا۔

۱۹۹۳ء میں اسرائیلی انتظامیہ نے مغربی کنارے اور غزہ کے باسیوں کی نقل و حرکت پر مزید پابندیاں عائد کردیں، تاہم یہی وہ برس تھا جب غزہ اور سنگاپور کا نام ایک بار پھر شد و مد سے لیا جانے لگا۔ لیکن اس بار ’مشرق وسطیٰ کے سنگا پور‘ کی یہ اصطلاح مشرق وسطیٰ میں نہیں، اوسلو معاہدے کے مذاکرات کاروں کے مابین سننے کو مل رہی تھی۔ فلسطینی سیاسی رہنما مرحوم شفیق الحوت اپنی ڈائری میں پی ایل او کی ایگزیکٹو کمیٹی سے اپنے استعفا کی وجوہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اوسلومعاہدے کے نتائج اور مضمرات سے میں متفق نہیں تھا، لہٰذا میں نے استعفا دینے اور صدر یاسر عرفات کو ان کے منافق مشیروں کے نرغے میں چھوڑنے کا فیصلہ کیا کہ وہ غزہ کی ریت اور مغربی کنارے کے ٹیلوں پر ’مشرق وسطیٰ کا سنگاپور‘ تعمیر کرتے رہیں‘‘۔ یوں شفیق الحوت اور ان جیسی سوچ رکھنے والے دیگر لوگ استعفا دے کر ایک طرف ہوگئے اور ستمبر ۱۹۹۳ء میں صدر یاسر عرفات کی زیر صدارت فلسطینی انتظامیہ نے امریکی صدر کلنٹن اور اسرائیلی وزیراعظم شمعون پیریز کی موجودگی میں اوسلو معاہدے پر دستخط کر دیے۔

غزہ اریحا معاہدہ

۱۹۹۴ء میں طے پانے والی مفاہمتی یادداشتوں میں جہاں دیگر بہت سے امور پر بات کی گئی تھی، وہیں اسرائیل نے اپنی سخت نگرانی اور کنٹرول میں غزہ کے لیے بندرگاہ اور ایئرپورٹ کے قیام کی اجازت دینے کا عندیہ بھی دیا تھا۔ اسے گویا غزہ کو سنگاپور بنانے کی طرف اولین عملی قدم کہا جاسکتا تھا۔ چنانچہ ۱۹۹۶ء میں غزہ ایئرپورٹ کی تعمیر کا آغاز ہوا،جسے عرب اور مغربی ممالک مل کر اسپانسر کر رہے تھے۔ دسمبر ۱۹۹۸ء میں امریکی صدر بل کلنٹن اپنی زوجہ ہیلری اور دیگر ہمراہیوں کے ساتھ اسی غزہ ایئرپورٹ پر اُترے جہاں صدریاسر عرفات نے ان کے ساتھ مل کر غزہ انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا افتتاحی فیتہ کاٹا۔ تاہم، غزہ انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو بنے کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اسرائیلیوں کو اس کا وجود کھٹکنے لگا اور ۲۰۰۱ء میں انھوں نے بمباری کر کے اسے تباہ و برباد کر دیا۔

غزہ کی بندرگاہ کا نصیب بھی غزہ ایئرپورٹ سے کچھ مختلف نہیں تھا۔ جولائی ۲۰۰۰ء میں اس پر ابتدائی کام کا آغاز ہوا اور تین ماہ بعد ہی ستمبر ۲۰۰۰ء میں اسرائیلی ٹینکوں اور بلڈوزروں نے اب تک تعمیر ہونے والی اس کی مرکز ی عمارت اور اس کے ساتھ بننے والی دیگر عمارتوں کو اُڑا کر ریت کے ڈھیر میں تبدیل کردیا۔

اسی پر بس نہیں بلکہ اور بھی بدترین حالات ابھی غزہ کے تابناک مستقبل کی گھات میں بیٹھے تھے۔ جون ۲۰۰۴ء میں اسرائیلی کابینہ نے یک طرفہ طور پر غزہ سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کردیا۔ اسی سال اکتوبر میں اسرائیلی پارلیمنٹ ’کنیست‘ نے بھی اس پلان کی منظوری دے دی۔ سازشی پلان کے مطابق غزہ کی پٹی میں واقع ۲۱؍ اسرائیلی نوآبادیوں کوخالی کردیا گیا،جب کہ مغربی کنارے میں آباد صرف چار نوآباد یہودی بستیاں خالی کی گئیں۔یوں غزہ صہیونی وجود سے مکمل طور پر خالی ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی اسرائیل نے غزہ کی بری، بحری، اور فضائی ناکہ بندی اور محاصرے کو شدیدتر کردیا۔

یہ امریکا میں صدر بش کا دورِ صدارت تھا اور وہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی طرف پیش رفت کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی عوام کو بھی اس وقت ایک ایسے الیکشن کی ضرورت تھی، جس سے ان کی نمائندگی کرنے کے لیے ان کی اپنی منتخب کردہ سیاسی قیادت سامنے آتی ۔چنانچہ غزہ سے آخری صہیونی نوآباد کار کے نکلنے کے ٹھیک چار ماہ بعد، جنوری ۲۰۰۶ء میں غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں ’فلسطینی قانون ساز اسمبلی‘ 'کے انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں نمایاں ترین دو پارٹیاں تھیں: تحریک الفتح اور حماس۔ حماس نے قانون ساز اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کر لی۔ سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے ان انتخابات کو مشرق وسطیٰ کے شفاف ترین انتخابات قرار دیا تھا ۔ بعدازاں قانون ساز اسمبلی نے فلسطین کی تاریخ میں پہلی مرتبہ وزیر اعظم فلسطین کے منصب کے لیے اسماعیل ھنیہ شہید کو منتخب کرلیا اور وہ فلسطینی تاریخ کے پہلے وزیر اعظم بن گئے۔

قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کا نتیجہ امریکی و صہیونی انتظامیہ دونوں کے لیے شدید صدمے کا باعث تھا۔ انھیں ہر گز توقع نہیں تھی کہ حماس یہ انتخابات جیت جائے گی اور اپنا وزیر اعظم منتخب کر لے گی۔ چنانچہ حماس حکومت کے خلاف بیک ڈور سازشوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا ۔

 پینٹاگون کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے حماس کی جیت کے بعد وہاں کی صورتِ حال کو ’ہولناک صدمہ‘ سے تعبیر کیا۔پینٹا گون میں ہر کوئی ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھیرا رہا تھا اور سبھی یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ فلسطینی قانون ساز اسمبلی کےانتخابات اور ان کے نتیجے میں نمائندہ فلسطینی انتظامیہ کے قیام کی تجویز آخر پیش کس نے کی تھی؟

حماس کے زیر انتظام غزہ کی اصل مشکلات کا آغاز اس چار ملکی کمیٹی کے اجلاس کے بعد شروع ہوا، جس نے حماس کے سامنے شرمناک اسرائیلی شرائط پیش کرنا شروع کیں۔ شرط یہ تھی کہ ’’حماس مسلح مزاحمت ترک کرے، اسرائیل کو جائز ریاست تسلیم کرے، اور غیر منتخب تحریک فتح کی جانب سے اب تک اسرائیل کے ساتھ کیے گئے تمام معاہدوں کو من و عن تسلیم کرے‘‘۔

دوسری طرف تحریک الفتح کی طرف سے بھی نومنتخب حماس حکومت کو منتقلیٔ اقتدار کے سلسلے میں ٹال مٹول سے کام لیا جانے لگا ۔منتخب اسمبلی وجود میں آنے اور منتخب وزیر اعظم کے منصب سنبھال لینے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نئے منصب داروں کو اقتدار منتقل کردیا جاتا، اور مکمل آزادی کے ساتھ کام کرنے دیا جاتا، مگر تحریک الفتح کی طرف سے منتقلیٔ اقتدار کے اس عمل میں ہر آن رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہیں۔ آخرکار ۲۰۰۷ء میں حماس کو اس مسئلے سے خود ہی نبٹنا پڑا، اور غزہ کا مکمل انتظام و انصرام ا س نے سنبھال لیا۔ غزہ کے مکمل محاصرے کا عمل تو اسرائیل نے حماس کے الیکشن جیتنے کے ساتھ ہی شروع کر دیا تھا، لیکن جولائی ۲۰۰۷ء میں حماس کی طرف سے غزہ کا کنٹرول مکمل طور پر سنبھالنے کے بعد یہ محاصرہ شدید تر کر دیا گیا۔

 ستمبر ۲۰۰۷ء میں صہیونی حکومت نے غزہ کو ’دشمن سرزمین‘ قرار دے دیا، جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ اب غزہ کو خوفناک اقتصادی نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا ہوگا اور ہوا بھی ایسا ہی۔ اسرائیل نے یکے بعد دیگرے وہ اقتصادی پابندیاں عائد کرنا شروع کردیں، جن کا بنیادی مقصد غزہ کی معیشت کو کمزور کرنا اور پیداواری صلاحیت کو محدود تر کرنا،صنعت و تجارت کو تباہ کرنا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ اہل غزہ غربت اور بدحالی سے تنگ آ کر خود حماس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کے نقش قدم پر چل نکلیں، جو نسبتاً خوشحالی سے بہرہ مند تھے اور اسرائیل کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ دراصل اہل غزہ کو حماس کو ووٹ دینے کی اجتماعی سزا دی گئی تھی۔

عائد کردہ اقتصادی پابندیوں میں غزہ میں آنے والے سامان کی نقل و حمل، اس کی مقدار اور حجم کو محدود کرنا، ایندھن اور بجلی کی سپلائی محدود کرنا، اور غزہ آنے جانے والے لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی لگانا شامل تھیں۔ ظالمانہ اسرائیلی پالیسی اور اس کے پیچھے کار فرما سوچ اس وقت مزید نمایاں ہوکر سامنے آگئی، جب ۲ نومبر ۲۰۰۸ء کو تل ابیب میں امریکی سفارت خانے نے اپنی وزارتِ خارجہ کو ایک برقیہ بھیجا، جو بعد میں وکی لیکس کے ذریعے عام ہوا۔ برقیے کے مطابق اسرائیلی انتظامیہ نے ایک سے زائد مرتبہ امریکی سفارت خانے کے اقتصادی امور کے انچارج سے کہا تھا کہ ’’غزہ کی ناکہ بندی کی یہ پالیسی ہمارے جامع معاشی منصوبہ کا حصہ ہے، اور اس کا مقصد یہ ہے کہ غزہ کی معیشت ہمیشہ دیوالیہ پن کے کنارے پر رہے، مگر مکمل طور پر تباہ نہ ہو‘‘۔

در اصل اسرائیل چاہتا تھا کہ غزہ کی معیشت کام تو کرتی رہے مگر اپنی صلاحیت کے ادنیٰ ترین درجے پر، تاکہ کوئی بڑا انسانی بحران پیدا نہ ہو۔ غزہ پر بھوک مسلط رکھنے کی اس پالیسی کی کچھ تفصیلات جون ۲۰۰۹ء میں اسرائیلی اخبار ہاریٹس' نے مزید وضاحت کے ساتھ بیان کیں۔ اخبار کے مطابق اسرائیلی فوج غزہ میں داخل ہونے والی غذائی اجناس میں موجود کیلوریز تک کا حساب کتاب رکھتی تھی۔

بدترین پہلو اس پالیسی کا یہ تھا کہ غزہ میں بس اس قدر غذا فلسطینی باشندوں کے لیے داخل ہونے دی جائے جس سے جسم و جان کا رشتہ برقرار رہ سکے۔ یہ صرف ایک مثال ہے کہ کس طرح اسرائیل نے غزہ کی معیشت کو تباہ کیا۔ ایک طرف اس کی پیداواری صلاحیت کو محدود اور ختم کیا اور دوسری طرف غزہ کے باشندوں کی زندگی کو اجیرن کیا۔ سروسز سیکٹر اس سے پہلے ہی اسرائیلی پابندیوں اور عقوبتوں کی نذر تھا ۔

۲۰۱۵ءمیں ایک رپورٹ نشر ہوئی تھی، جس کا عنوان ’فلسطینی و اسرائیلی اقتصادی تعلقات‘ تھا۔ رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۳ء سے ایک برس قبل ہی فلسطینی معیشت کو تباہ کیا جا چکا تھا۔۲۰۱۲ء میں اقوام متحدہ کی رپورٹ میں توقع ظاہر کی گئی تھی کہ ’’آنے والے آٹھ برسوں میں خصوصاً ۲۰۲۰ء تک اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے غزہ رہنے کے قابل نہیں رہے گا ‘‘۔

اس تباہ کن صورتِ حال کا سبب اسرائیل ہمیشہ یہی بتاتاآیا ہے کہ ’حماس‘ غزہ کی معیشت کو ترقی دینے کی سرے سے صلاحیت ہی نہیں رکھتی اور غزہ کے باشندے حماس حکومت کے زیرانتظام خوش حال زندگی بسر کرنے کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ حقیقتاً غزہ کی لب ِگور معیشت کو اسرائیلی مکار کاریگروں نے کچھ اس طرح سے انجینئر کیا تھا کہ غزہ گھٹنوں کے بل جھک جائے اور اس کی طرف سے کسی قسم کی مزاحمت کا کوئی خطرہ باقی نہ رہے، اور اس کے ساتھ ہی ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا خواب بھی چکنا چور ہوجائے۔ اسی سیاق وسباق میں القدس بلدیہ کے اسرائیلی نائب چیئرمین میرون بینیفیستی کا وہ بیان قابل توجہ ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ :’’غزہ کی معیشت کو کمزور کرنا فلسطینی معیشت کو کمزور کرنے کی کنجی ہے اور اسی طرح فلسطینی ریاست اور قیادت کو عمومی طور پر کمزور تر کیا جا سکتا ہے‘‘۔

اسرائیل کی طرف سے آخری برسوں میں اٹھائے گئے اس سلسلے کے تمام اقدامات کو دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ غزہ کا محاصرہ اٹھانے اور اقتصادی پابندیاں ہٹانے کی اس کی نہ کوئی نیت تھی، اور نہ کوئی ارادہ تھا کہ غزہ کی معاشی صورت حال بہتر ہوسکے۔ مزاحمت نہ ہو تو غزہ کو ’مشرق وسطیٰ کا سنگاپور‘ بنادیں، یہ محض اس کا ایک پروپیگنڈا ٹول اور جھوٹا خواب تھا، جو اسرائیل کبھی اوسلو مذاکرات کی ٹیبل پر اور کبھی اقوام متحدہ کے ایوانوں میں فلسطینی باشندوں اور دنیا کو دکھاتا رہا تھا۔

جولائی ۲۰۱۸ء میں اس وقت کے صہیونی وزیر دفاع افیغدور لیبرمین اپنے ایک بیان میں اسی تاریخی سفید جھوٹ کو پھر دُہرا رہے تھے کہ ’’اسرائیل غزہ کو مشرق وسطیٰ کا سنگاپور بننے میں اس کی مدد کر سکتا ہے شرط بس یہ ہے کہ غزہ کے لوگ مزاحمت سے دست کش ہو کر حماس حکومت کا خاتمہ کردیں‘‘۔

اسرائیلی دانش ور ماہر لسانیات تانیہ رائنہارٹ کے مطابق اسرائیل اگر مغربی کنارے کو ضم کرنا چاہتا ہے تو اسے کسی صورت بھی غزہ کو اس کے حال پر نہیں چھوڑنا چاہیے۔دراصل اسرائیل کامقصد ہے بھی یہی۔ اس لیے کہ غزہ کو اگر آزاد چھوڑدیا گیا تو وہ عالم عرب سے براہِ راست تعلقات قائم کرلے گا اور یوں وہ صہیونی قبضے کے خلاف مزاحمت کا مرکز بن جائے گا۔ اسرائیلیوں کا پختہ خیال ہے کہ غزہ کو کسمپرسی کی حالت میں رکھ کر وہ در اصل اس ممکنہ مزاحمتی تحریک سے نبٹ رہے ہیں، جو مغربی کنارے کے مکمل انضمام کے نتیجے میں پھوٹنے کا احتمال ہے ۔

اسرائیل نے غزہ کو موجودہ حالت میں محصور رکھ کر جھکانے کے جو طریقے اختیار کیے ہیں، ان میں نمایاں ترین اس کی اقتصادی ناکہ بندی کرنا، جغرافیائی طور پر تنہا رکھنا اور مادی طور پر تباہ حال رکھنا شامل ہیں ۔

’ طوفان الاقصیٰ ‘سے قبل غزہ میں بے روزگاری کی شرح ۵۰ فی صد تھی اور ان نوجوانوں میں  جن کی عمریں ۱۵ سے ۲۹سال ہیں، بے روزگاری کی یہ شرح ۶۲ فی صد تھی۔ غزہ کی ۸۰فی صدآبادی کا ، اپنے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے عالمی خیراتی اداروں کی امداد پر تکیہ تھا۔ ۲۳ لاکھ سے زیادہ بنی آدم ایک ایسی محصور جگہ میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے، جسے دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل کہا جاتا ہے۔

اپنے قیام کے اوّلین روز سے ہی اسرائیلی ناسور کا اصل ہدف یہ رہا ہے کہ فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کرے اور یہاں کے باشندوں کو ہجرت کرجانے پر مجبور کردے، یا انھیں اتنا دبا لیا جائے کہ ان طرف سے کسی قسم کی مزاحمت کا تا اَبد خطرہ باقی نہ رہے۔ غزہ کی موجودہ جنگ اسی کا تسلسل ہے۔