اللہ رب ا لعزت کا ارشاد ہے:
وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللہِ۰ۭ اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۱۰ۧ (الانفال ۸:۱۰) اور مدد نہیں آنی ہے،مگر اللہ ہی کی جانب سے جو غلبہ والا اور حکمت والا ہے۔
بِنَصْرِ اللہِ۰ۭ يَنْصُرُ مَنْ يَّشَاۗءُ۰ۭ وَہُوَالْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ۵ۙ (الروم۳۰:۵) اللہ جسے چاہتا ہے اپنی نصرت سے نوازتا ہے اور وہی غالب ہے ، وہی رحم فرمانے والا ہے ۔
وَاعْتَصِمُوْا بِاللہِ۰ۭ ہُوَ مَوْلٰىكُمْ۰ۚ فَنِعْمَ الْمَوْلٰى وَنِعْمَ النَّصِيْرُ۷۸ (الحج ۲۲:۷۸) اور اللہ سے تعلق جوڑ لو، وہی تمھارا مولیٰ ہے، کیا ہی خوب مولیٰ ہے و ہ اور کیا ہی بہترین مدد گار ہے وہ۔
ان آیات میں اہلِ ایمان کو یہ حقیقت ذہن نشین کرائی گئی ہے کہ اللہ ہی ان کا مولیٰ اور کارساز ہے،وہی ان کا حامی و ناصر ہے۔ اسی کی تائید و توفیق سے انھیں فتح و نصرت نصیب ہوتی ہے۔ اسی کے فضل و کرم سے وہ کامیابی و کامرانی سے شاد کام ہوتے ہیں اور اسی کی عنایت و رحمت سے انھیں مصائب و مشکلات سے نجات ملتی ہے۔ لہٰذا، ہر حال میں وہ اسی سے رجوع کریں، اسی کو راضی کرنے والے کاموں میں مصروف رہیں اور اسی کی نصرت کے طلب گار بنیں ۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جو ان کے دکھ درد کا درماں فراہم کرے، ان کی مشکلات کو آسان بنائے اور مخالفوں اور دشمنوں کی ریشہ دوانیوں سے ان کی حفاظت فرمائے ۔
بِنَصْرِ اللہِ۰ۭ يَنْصُرُ مَنْ يَّشَاۗءُ۰ۭ وَہُوَالْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ۵ۙ وَعْدَ اللہِ۰ۭ لَا يُخْلِفُ اللہُ وَعْدَہٗ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۶ ( الروم۳۰:۵) اللہ جس کی چاہتا ہے مدد فرماتا ہے اور وہی غالب ہے ، وہی رحم فرمانے والا ہے ،یہ اللہ کا وعدہ ہے، اور اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا، لیکن اکثر لوگ اسے نہیں جانتے [ سمجھتے]۔
وَاللہُ يُـؤَيِّدُ بِنَصْرِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَعِبْرَۃً لِّاُولِي الْاَبْصَارِ۱۳ (اٰل عمرٰن ۳:۱۳) اللہ اپنی فتح و نصرت سے جس کی چاہتا ہے تائید فر ماتا ہے،اصحابِ بصیرت کے لیے اس میں بڑا سبق ہے۔
اہلِ ایمان کے لیے یہ بڑے شرف کی بات اور وجہِ تسلّی ہے کہ اللہ نے مومن بندوں کی مدد اپنے اوپر ان کا حق قرار دیا ہے، جیسا کہ ارشادِ ربّانی ہے:
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ رُسُلًا اِلٰى قَوْمِہِمْ فَجَــاۗءُوْہُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَانْتَـقَمْنَا مِنَ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا۰ۭ وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ۴۷ (الروم:۳۰:۴۷) اور ہم نے تم سے پہلے رسولوں کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے ، پھر جنھوں نے جرم کیاان سے ہم نے انتقام لیا اور ہم پر یہ حق تھا کہ مومنین کی مدد کریں۔
ایک دوسری آیت میں گذشتہ قومو ں کے حوالے سے یہ بیان کیا گیا کہ سرکش و نافرمان لوگوں پر عذاب آنے کی صورت میں اللہ نے اپنے رسولوں اور اہلِ ایمان کو اس سے بچا لیا:
ثُمَّ نُنَجِّيْ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كَذٰلِكَ۰ۚ حَقًّا عَلَيْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِيْنَ۱۰۳ (یونس ۱۰:۱۰۳)پھر ہم اپنے رسولوں کو اور ان لوگوں کو بچا لیا کرتے ہیں جو اہلِ ایمان ہیں، اس طرح ہم پر یہ حق ہے کہ ہم مومنوں کو بچا لیں۔
مزید یہ کہ اللہ رب العزت نے اپنے رسولِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم اور اہلِ ایمان کو اپنی نصرت کا یقین دلاتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ وہ اطمینان رکھیں کہ ہم اپنے پیغمبروں اور اہلِ ایمان کو دنیا میں اپنی نصرت سے نوازتے ہیں اورآخرت میں بھی انھیں نوازیں گے: اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْہَادُ۵۱ ( المؤمن ۴۰:۵۱)۔ سورۃ الانفال کی آیت ۶۴ میں ارشادِ ربّانی ہے: يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللہُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۶۴ۧ ’’اے نبیؐ! اللہ تمھارے لیے اور ان مومنین کے لیے کافی ہے جو تیری اتباع کریں ‘‘۔
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ قرآن میں متعدد مقام پر اہل ایمان کو یاد دلایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مخالفین سے جنگ کے مو ا قع پر( ان کی قلتِ تعداد اور جنگی ساز و سامان کی کمی کے باجود) ان کی مدد کرکے انھیں فتح سے نوازا تھا (اٰل عمرٰن ۳:۱۲۳، الانفال۸:۹-۱۰، ۶۲-۶۴ ،التوبۃ۹:۴۰ )۔
ا ن واقعا ت کو بیان کر نے سے مقصود یہ ہے کہ اہلِ ایمان انھیں ذہن میں رکھیں، ان پر غور کریں، ان سے سبق حاصل کریں تو نصرتِ الٰہی نصیب ہونے کا یقین اور پختہ ہوجائے گا اور توکّل علی اللہ کی کیفیت تازہ اور مزید مضبوط ہوجائے گی۔ یہاں اس نکتہ کی طرف اشارہ بھی اہم معلوم ہو تا ہے کہ جن آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو اپنی نصرت کا یقین دلایا ہے یا انھیں اپنی نصرت سے نوازنے کے کسی واقعہ کا ذکر کیا ہے، ان کے آخر میں یہ صفات الٰہی مذکور ہیں: العزیز الحکیم، قَوِیٌّ عَزِیْزٌ ، العزیز الرحیم ( الانفال ۸:۱۰، اٰل عمرٰن ۳: ۱۲۶، الحج ۲۲:۴۰ ) ۔
اس سے ذہن میں یہ حقیقت بٹھانی مقصود ہے کہ اللہ ہی ہر طرح کی قوت وطاقت کا مالک ہے۔وہ مختارِ کل ہے، نصرت و فتح سے نوازنا اسی کے اختیار میں ہے، شکست و ہزیمت کی آزمائش اسی کی مرضی سے ہوتی ہے۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ يَنْصُرْكُمْ ( محمد۴۷:۷) اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو وہ تمھاری مدد فرمائے گا۔
وَلَيَنْصُرَنَّ اللہُ مَنْ يَّنْصُرُہٗ۰ۭ اِنَّ اللہَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ۴۰ (الحج۲۲:۴۰) اور اللہ ضرور مدد کرے گا ان لوگوں کی جو اس کی مدد کرتے ہیں، بے شک اللہ طاقت والا اور غلبہ والا ہے۔
عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مختلف غزوات میں معاندین و مخالفین کے مقابلے میں ا ہلِ ایمان کو نصرتِ الٰہی سے شاد کام کیے جانے اور دشمنوں کی سازشوں ا و ریشہ دوانیوں سے محفوظ رکھنے سے متعلق آیات پر غور و خوض سے یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ اہلِ ایمان پر اللہ کا یہ فضل و کرم کسی خاص زمانہ تک محدود نہیں، بلکہ انھیںاللہ کی مدد نصیب ہوتی رہتی ہے اور ہوتی رہے گی۔ سورۂ محمد کی مذکورہ بالا آیت میں مومنین کو یہی اطمینان دلایا گیا ہے کہ وہ اللہ ( یعنی اس کے دین) کی مدد کرتے رہیں، اللہ ان کی مدد فرمائے گا۔ اس آیت اور اس نوع کی دوسری آیات کی وضاحت میں مفسرین نے عام طور پر ’اللہ کی مدد‘ سے مراد اس کے دین کی مدد مراد لیا ہے، یعنی دینِ حق کی تبلیغ و اشاعت کی راہ میں سرگرم رہنا اور اللہ کی عطا کردہ جسمانی،ذہنی و علمی صلاحیتوں اور اس کے عنایت کردہ وسائل کو خدمتِ دین میں لگا دینا اور اس راہ میں ہر طرح کی قربانی کے لیے تیار رہنا۔
ان سب کے ساتھ یہ بھی پیشِ نظر ر ہے کہ روز مرہ زندگی میں دین کے مطالبات پورے کرنے، یعنی ہر کام کے وقت اس سے متعلق حکمِ الٰہی اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد رکھنے، اسی کے مطابق عملی قدم اٹھانے اور دوسروں کو اس کی یاد دہانی کراتے رہنے سے دین کو تقویت ملتی ہے، اس کی طرف لوگ راغب ہوتے ہیں۔ اس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں کہ عمل بالقرآن والسنّۃ سے دین کی اشاعت کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔
بلاشبہ ایمان لانے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو صدق دل سے ایمان لائے ،اس کے تقاضے کو بحسن و خوبی پورا کیا ا ور سورۃ البقرۃ کی آیت يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً ۰۠ (۲:۲۰۸)کا مصداق بن گئے۔ انصار اللہ بن جانے کی دعوت سے متعلق آیات سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ روز مرہ زندگی میں دینِ برحق کے تقاضوں کو پورا کرنے اورمختلف زمانے میں ا للہ کے مبعوث کردہ رسولوں کی بے لوث رفاقت و نصرت کے لیے کھڑے ہوجا نے کو اللہ کے دین کی مدد سے تعبیر کیا گیا ہے اور ا س خدمت میں سرگرم رہنے والوں کو ’انصار اللہ ‘ کہا گیا ہے ۔ بلا شبہ یہ بہت بلند مقام اور یہ معزز لقب انھی لوگوں کو نصیب ہوتا ہے جو دین کی اشاعت اور اس کی سر بلندی کی خاطر ہر طرح کی قربانی کے لیے تیار رہتے ہیں اور اپنے قول وعمل سے اسے سچ کر دکھاتے ہیں ۔
سورۃ الصفّ کی مذکورہ آیت سے پہلے کی آیت بتارہی ہے کہ اللہ رب العزت ایسے ہی مومنین و صادقین کو اپنی نصرت سے مشرف فرما تا ہے اور اس کی خوش خبری سنا کر ان کے دل کو باغ باغ کردیتا ہے۔ واقعہ یہ کہ عا ملین بالکتاب و السنّت کی حیثیت معاشرہ میں چلتی پھرتی کتابوں کی ہوتی ہے، اور یہ کتابیں یقینی طور پران کے پڑھنے والوں، یعنی ان کی زندگی کا مشاہدہ کرنے والوں کو متاثر کرتی ہیں۔ اللہ کے دین کی مدد کا یہ پہلو بھی لائقِ توجہ ہے۔ سورۃ الانفال کی آیت۴۰ کی تفسیر میں ایک مفسر کی یہ وضاحت صحیح معلوم ہوتی ہے کہ جس کو اللہ کی مدد کی خواہش ہو اسے چاہیے کہ اس کے حکم پر عمل کرے( آسان تفسیر، عائض القرنی، ترجمہ: محمد طارق ایوبی ندوی، ص ۱۰۶۲)۔
مزید یہ کہ اہلِ ایمان کو اپنی نصرت سے نواز تے رہنے کے واقعات کو یاد دلاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے : لَعَلَّکُمْ تَشْكُرُوْنَ۱۲۳ (اٰل عمرٰن۳:۱۲۳) ۔ یعنی نصرتِ ا لٰہی نصیب ہونے کا تقاضا ہے کہ ربِّ کریم کا شکر ادا کیا جائے اور یہ بخوبی معلوم ہے کہ اللہ کا شکر ادا کرنے کا ایک نہایت اہم پہلو ( جس کی طرف لوگوں کی توجہ کم جاتی ہے) یہ ہے کہ روز مرّہ زندگی سے متعلق اس کی ہدایات کو یاد رکھا جائے، ان پر عمل کیا جائے اور شب وروز اس کی مرضی کے مطابق بسر کیے جائیں ۔ ان سب باتوں سے مقصود اس نکتہ پر زور دینا ہے کہ دینِ حق کی اشاعت کی جو بھی ممکنہ صورتیں ہیں انھیں اختیار کیا جائے اوراسی کے ساتھ عملی زندگی میں دین کے تقاضوں کو پورا کرنے کی ہرممکن کوشش کی جائے تو اللہ کی مدد نصیب ہوگی ۔
lگناہوں سے پرہیز: قرآن کریم کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آزمائش میں ربّ کریم کی مدد طلب کرنے کے لیے دو چیزیں خاص طور سے مطلوب ہیں : گناہ کے کاموں سے پرہیز اور مغفرت طلبی۔ یعنی قرآن کریم نصرتِ الٰہی کے طلب گا ر وں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ان تمام کاموں سے دُور رہیں اور دوسروں کو ان سے دُور رکھنے کی کو شش کریں جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے اور ان کاموں کو انجام دینے کے لیے آگے بڑھتے رہیں، جنھیں ربِّ کریم پسند فرماتا ہے یا جن کے کرنے والوں کو وہ محبوب رکھتا ہے ۔ بلا شبہ اللہ کو ناراض کرنے والے کاموں سے اجتناب رضائے الٰہی کا وسیلہ بنتا ہے اور اسی سے بالآخر نصرتِ الٰہی نصیب ہوتی ہے۔
قرآن کریم میں متعدد مقام پر نافرمان، سرکش اور شنیع گناہوں میں ملوث قوموں کو عذاب سے دوچار کئے جانے کے ضمن میں صاف طور پر یہ مذکور ہے کہ وہ اہل ایمان عذاب سے محفوظ رہے جو گناہ سے پرہیز کر تے تھے اور اللہ رب العزت کی ناراضگی سے ڈرتے تھے۔ نا فرمان و سرکش قوموں میں قومِ ثمود بہت معروف ہے۔ ان پر ان کے بُرے کر تو توں کی پاداش میں عذاب مسلط کرتے ہوئے ارشادِ الٰہی ہے: وَاَنْجَيْنَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ۵۳ (النمل ۲۷:۵۳) ’’اور ہم نے ان لوگوں کو (عذاب سے) بچا لیا جو ایمان لائے اور تقویٰ والے تھے‘‘۔
تقویٰ والے کون لوگ ہیں اورمتقی کسے کہیں گے؟ بعض آیات میں اس کی بڑی جامع تعریف ملتی ہے۔ اس کا ماحصل یہ ہے کہ جو سچ بات لانے والے کی تصدیق کرتے ہیں اور خود بھی اپنے قول وعمل سے سچ بات کو ماننے کی تصدیق کرتے ہیں،یعنی اسی کے مطابق اپنے قول وعمل کو ڈھال لیتے ہیں، جو اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق کی اد ا ئیگی میں سنجیدہ و سرگرم رہتے ہیں، گناہ میں ملوث ہوکر نہ اللہ کو ناراض کرتے ہیں اور نہ ا للہ کے بندوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں، اور اللہ کے غضب سے ڈرتے رہتے ہیں (البقرہ۲:۱۷۷، الزمر۳۹: ۳۳)۔ سورئہ حجرات کی آیت ۱۵ صادقون یا سچّے لوگوں کی خصوصیات سے تعلق رکھتی ہے۔ اس آیت کے مطابق ایمان میں سچے وہ لوگ ہیں جو ایمان لانے کے بعد پھر اس سے متعلق کسی شک وشبہ میں مبتلا نہیں ہوئے،اس پر جمے رہے اور دینِ حق کی راہ میں جان ومال کی قربانی بلا کسی پس و پیش دیتے ر ہے۔
اسی ضمن میں یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ متعدد آیات میں یہ فرمانِ الٰہی ملتا ہے کہ تقویٰ یا پرہیزگاری اختیار کرو،یعنی گناہوں سے دور ر ہو تو اللہ تم پر رحم فرمائے گا۔ارشادِ ربّانی ہے: وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۱۰ۧ (الحجرات۴۹:۱۰) ’’اور اللہ سے ڈرو،گناہ سے اپنے کو بچائو،تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘۔ ظاہر ہے کہ جو شخص روز مَرہ زندگی میں اللہ و رسولؐ کی اطاعت کا رویہ اختیارکرے گا، وہ ہر حالت میں اپنے کو ان کی نافرمانی سے بچائے گا اور گناہ کے کاموں سے پرہیز کرے گا۔
اسی طرح قرآن میں صاف صاف مذکور ہے کہ اللہ رب العزت اور اس کے رسولِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے رحمتِ الٰہی کے مستحق ہوتے ہیں: وَاَطِيْعُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۱۳۲ۚ (اٰل عمٰرن۳:۱۳۲)’’اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرو تو تم پر رحم کیا جائے گا‘‘۔
یہ امر بدیہی ہے کہ اللہ کی رحمت جنھیں نصیب ہوتی ہے وہ ا س کی تائید و نصرت سے بھی شاد کام ہوتے ہیں۔ یہا ں یہ ذکر اہمیت سے خالی نہ ہوگا کہ مولانا محمد منظور نعمانی ؒ نے ایک دفعہ علمِ دین کے حاملین کو خطاب کرتے ہوئے اسی نکتہ کی جانب خاص طور سے متوجہ فرمایا تھا کہ اللہ سے تعلق کی مضبوطی اور اس کی رضا کے حصول کے لیے گناہ کے کاموں سے پرہیز ضروری ہے، خود ان کے الفاظ میں:’’ اللہ سے تعلق پیدا کرو اور تقویٰ اختیار کرو،یعنی جن باتوں کو اللہ نے گندہ اور گناہ قرار دیا ہے ان سے اپنے کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرو۔اللہ کا تعلق اور اللہ کی رضا نصیب ہونے کی یہ خاص شرط ہے۔اللہ تعالیٰ بڑا غیور ہے،اگر کوئی شخص گندگیوں اور گناہوں اور ان باتوں سے بچنے کی فکر نہیں کرتا جو اللہ کو ناراض کرنے والی ہیں تو وہ اپنے لیے خدا کی رحمت و مقبولیت کے دروازے بند کرلیتا ہے‘‘(محمد منظور نعمانی، دینی مدارس کے طلباء سے:آپ کون ہیں،کیا ہیں اور آپ کی منزل کیا ہے؟لکھنؤ، ۲۰۱۷ء، ص۲۱)۔ خلاصہ یہ کہ اللہ اور رسول کی اطاعت اور گناہ سے پرہیز کا ایک بہت بڑا فیض ربِّ کریم کی نصرت کا مستحق بننا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ گناہوں سے بچنا اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے اور مصائب و مشکلات سے نجات کا مؤثر ذریعہ ہے۔ انسان روزمرّہ زندگی میں مصائب و مشکلات سے دوچار ہوتا رہتا ہے، شب وروز بسر کرتے ہوئے اسے طرح طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قرآن و حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان سے نجات کا سب سے اہم ذریعہ یہ ہے کہ ربِّ کریم کو راضی کیا جائے اور گناہوں سے بچا جائے۔
لہٰذا، نصرتِ الٰہی طلب کر نے والوں کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ ان باتوں اور کاموں کے قریب نہ جائیں جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنتے ہیں ۔ قرآن ہمیں صاف صاف بتا تا ہے کہ باطل عقائدکو ماننا ، برے اعمال میں ملوث ہونا یا گناہ کے کام کرتے رہنا اللہ رب العزت کو ناراض کر نا ہے۔اس ضمن میں قرآ ن میں خاص طور سے کفر و شرک اور ناشکری، مالی بددیانتی وخیانت، غیبت و بہتان تراشی،استہزاء و تحقیر، تکبر و غرور ، فتنہ و فساد، ظلم و زیادتی ، محرمات کو حلال سمجھنے ، قول و فعل میں عدمِ مطابقت یا نفاق، اللہ کی آیات کے بارے میں کٹ حجّتی اور کسی بھی معاملہ میں اللہ ربّ العزت کی مقررہ حدود سے تجاوز کرنے کا ذکر ملتا ہے (المومن۴۰:۱۰،۳۵)
اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والے اعمال کیسے موجبِ خیر بنتے ہیں اور اللہ کوناراض کرنے والے اعمال کس طرح انسان کے لیے تباہ کُن ثابت ہوتے ہیں؟ اسے حضرت ابو درداءؓ سے مروی ایک حدیث قدسی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ارشادِ نبویؐ ہے :
اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یَقُوْلُ اَنَـا اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنَـا مَالِکُ الْمُلُوْکِ وَ مَلِکُ الْمُلْوْکِ، قُلُوْبُ الْمُلُوْکِ فِی یَدِیْ وَ اِنَّ الْعِبَادِ اِذَا اَطَاعُوْنِیْ حَوَّلْتُ قُلُوْبَ مُلُوْکِھِمْ عَلَیْہِمْ بِالرَّحْمَۃِ وَالرَّاْفَۃِ وَ اِنَّ الْعِبَادَ اِذَا عَصَوْنِیْ حَوَّلْتُ قُلُوْبَہُمْ بِالسُّخْطَۃِ وَالنِّقْمَۃِ فَسَامُوْہُمْ سُوْءَ الْعَذَابِ فَلَا تَشْغَلُوْا اَنْفُسَکُمْ بِالدُّعَاءِ عَلَی الْمُلُوْکِ وَلٰکِنِ اشْغَلُوْا اَنْفُسَکُمْ بِالذِّکْرِ وَالتَّضَرُّعِ کَیْ اَکْفِیْکُمْ (محمد ابن عبد اللہ الخطیب التبریزی،مشکوٰۃ المصابیح۳۷۲۱، کتاب الامارۃ والقضا، الفصل الثالث،ج۲، ص۳۲۳) اللہ تعالیٰ فرما تا ہے: میں اللہ ہوں ،میرے سوا کوئی معبود نہیں۔میں بادشاہوں کا مالک ہوں اور بادشا ہوں کا بادشاہ ہوں، بادشاہوں کے دل میرے قبضے میں ہیں۔ جب میرے بندے میری اطاعت کرتے ہیں تو ان کے بادشاہوں کے دلوں کو ان کی طرف رحمت و شفقت کے ساتھ پھیر دیتا ہوں اور جب بندے میری نافرمانی کر تے ہیں تو بادشاہوں کے دلوں کو پھیر کر ان میں سختی و انتقامی جذبہ بھر دیتا ہوں،پھر وہ انھیں بدترین تکلیفوں سے دوچار کرتے ہیں۔اے میرے بندو! (ایسی حالت میں) ان بادشاہوں کو بد دُعا دینے کے بجائے (حالات میں تبدیلی کے لیے) ذکر و تضرع [اللہ کی یاد اور ا س کے سامنے رونے گڑگڑانے] میں مصرو ف ہوجائو تو میں اِن بادشاہوں (کے شرسے حفاظت) کے لیے تمھارے لیے کافی ہوں گا۔
اس آیت کی تشریح میں صاحبِ کشّاف نے حضرت حسن بصری ؒ کے تعلق سے ایک دلچسپ اور اہم روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص نے ان سے خشک سالی کی شکایت کی تو انھوں نے کہا کہ اس سے نپٹنے کے لیے استغفار کرو۔ دوسرے نے فقر و فاقہ کی شکایت کی تو کہا: مغفرت طلب کرو۔ تیسرے نے اولاد سے محرومی اور چوتھے نے پیداوار میں کمی کی شکایت کی تو سب کے جواب میں انھوں نے یہی فرمایا کہ استغفار کرو۔ لوگوں نے دریافت کیا کہ آپ کے سامنے مختلف قسم کے مسائل پیش کیے گئے ، آپ نے سب کا ایک ہی حل بتایا کہ استغفار کر و۔ اس اشکال کے جواب میں حضرت حسن بصریؒ نے سورۂ نوح کی مذکورہ بالا آیات تلاوت فرمائیں (الزمخشری، الکشّاف، بیروت، ۱۹۹۷ء، ۴؍ ۶۲۰۔ نیز ملاحظہ فرمائیں:سیّد مودودی، تفہیم القرآن، ششم، ص۱۰۰- ۱۰۱)۔
اسی طرح حضرت ہودؑ نے اپنی قوم کو اس طور پر نصیحت فرما ئی تھی:وَيٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَيْہِ يُرْسِلِ السَّمَاۗءَ عَلَيْكُمْ مِّدْرَارًا وَّيَزِدْكُمْ قُوَّۃً اِلٰي قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِيْنَ۵۲(ھود ۱۱:۵۲) ’’ اور اے میری قوم کے لوگو! اپنے رب سے مغفرت طلب کرو،پھر اس کی طرف پلٹ کر آئو،وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمھاری( موجودہ)قوت میں مزید اضافہ فرمائے گا،اور حق سے منہ پھیر کر مجرم نہ بن جائو ‘‘۔
اسی سورہ کی آیت ۳ میں خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی قوم سے خطاب ان الفاظ میں ملتا ہے:وَّاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَيْہِ يُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَـنًا اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّيُؤْتِ كُلَّ ذِيْ فَضْلٍ فَضْلَہٗ۰ۭ(ھود ۱۱:۳) ’’اور تم اپنے رب سے مغفرت چاہو اور اس سے توبہ کرو تو وہ ایک خاص مدت تک تم کو اچھا سامانِ زندگی دے گا اور ہر صاحبِ فضل کو اس کا فضل عطا کرے گا‘‘، یعنی ہر نیکی کرنے والے کو اس کا اجر عطا فرمائے گا۔
توبہ و استغفار کے فیوض کے بیان میں یہ ارشادِ نبویؐ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے:
جو شخص توبہ و استغفار کو اپنے اوپر لازم کرلے تو اللہ اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے کی راہ پیدا فرماتا ہے۔ہر رنج و غم سے اسے نجات دیتا ہے اور ایسے ذریعے سے اسے روزی عطا فرماتا ہے کہ ا سے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا ( سنن ابوداؤد ، کتاب الوتر ، باب الاستغفار)
lرجوع الی اللہ: ان سب تفصیلات کا ماحصل یہ ہے کہ اللہ غنی و بے نیاز ہے، مختارِ کُل و قادر مطلق ہے۔ اس کے بندے محتاج، عاجز و درماندہ ہیں، انھیں مختلف قسم کی ضروریات لاحق ہوتی رہتی ہیں۔ وہ مسائل و مشکلات اور مصائب سے دوچا ر ہو تے ہیں اور بیماری و آزاری میں مبتلا ہو تے ہیں ۔ ان تمام آزمائشی حالات سے نجات کا سب سے مؤثر ذریعہ اللہ رب العالمین کویاد کرنا،اس سے رجوع کرنا اور اس کے فضل و کرم کی التجا اور اس کے دربار میں حاضر ہوکر ا س کی رحمت کے لیے فریاد کرنا ہے۔
حقیقت یہ کہ آزمائش اور مصائب و مشکلات کے گھیرے میں جب مومن بند ے صدقِ دل سے،عاجزی و انکساری کے ساتھ، ہر طرف سے کٹ کر اللہ تعالیٰ کے لیے پوری طرح یکسو ہو کر ربّ کریم کی بارگاہ میں فریاد کرتے ہیں اور اس کی مدد کے طلب گار ہو تے ہیں تو ان کی فریاد نہ صرف سنی جاتی ہے، بلکہ انھیں یہ اطمینان دلا یا جا تا ہے کہ بس ا للہ تعالیٰ کی مدد پہنچنا ہی چاہتی ہے:
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ۰ۭ مَسَّتْہُمُ الْبَاْسَاۗءُ وَالضَّرَّاۗءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰى نَصْرُ اللہِ۰ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللہِ قَرِيْبٌ۲۱۴(البقرہ ۲:۲۱۴) پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنّت کا داخلہ تمھیں مل جائے گا، حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے، جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے؟ اُن پر سختیاں گزریں،مصیبتیں آئیں، ہلا مارے گئے، حتیٰ کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہل ایمان چیخ اُٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟___ (اُس وقت انھیں تسلی دی گئی کہ) ہاں، اللہ کی مدد قریب ہے۔
آیت کے آخری حصہ کی تفسیر میںمولانا امین احسن اصلاحی ؒ تحریر فرماتے ہیں: مَتٰی نَصْرُ اللہِ کا اسلوب اُس فریاد کو ظاہر کرتا ہے جس کی نوعیت امید کے دروازے پر آخری دستک کی ہوتی ہے۔فرمایاکہ نصرتِ الٰہی کا دروازہ اِسی دستک کی کلید سے کھلتا ہے:اَلَا نَصْرُ اللہِ قَرِیْب ۔
رہروِ تشنہ لب نہ گھبرانا اب لیا چشمۂ بقا تو نے ( تدبرِ قرآن،اوّل)
قرآن ہمیں اس حقیقت سے بھی با خبرکر تا ہے کہ رحمتِ الٰہی کا دروازہ کھلتا ہے توبہ و استغفار، یعنی گناہوں کی بخشش مانگنے سے ۔ ہم غور کریں اور اس پر توجہ دیں کہ اللہ تعالیٰ کتنے محبت بھرے انداز میں اپنے بندوں سے فرماتا ہے کہ اس کی رحمت کے طلب گار ہو تو مغفرت طلبی کو اپنا معمول بنائو ،آخر تم لوگ یہ راستہ کیوں نہیں اختیار کرتے ؟
فرما نِ الٰہی ہے: لَوْلَا تَسْتَغْفِرُوْنَ اللہَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۴۶(النمل۲۷:۴۶ ) ’’تم لوگ اللہ سے مغفرت کیوں نہیں طلب کرتے کہ تم پر رحم کیا جائے؟‘‘ سچ یہ ہے کہ آیت پکار پکار کر یہ کہہ رہی ہے کہ اے لوگو! اگر رحمتِ الٰہی کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہو تو اللہ رب العزت سے خوب کثرت سے توبہ واستغفار کر و ۔ اسی کے ساتھ یہ نکتہ بھی ذہن نشین ر ہے کہ توبہ و استغفار کی قبولیت اللہ کی صفتِ رحیمیت کا مظہر ہے، یعنی اللہ کی رحمت کے فیض سے ہی بندے کی توبہ قبول ہوتی ہے۔ حضرت ہودؑ نے اپنی قوم کے گمراہ و نافرمان لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنے اور اس سے رجوع کرنے کی نصیحت کر تے ہوئے خاص طور سے اللہ کی صفتِ رحیمیت ا ورودودیت کا حوالہ دیا تھا۔ ارشادِ الٰہی ہے: وَاسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَيْہِ۰ۭ اِنَّ رَبِّيْ رَحِيْمٌ وَّدُوْدٌ۹۰ (ھود ۱۱:۹۰) ’’اور اپنے رب سے مغفرت طلب کرو اور اس کی طرف پلٹ کر آئو ، بے شک میرا رب رحم فرمانے والا اور (اپنے بندوں سے ) بے حد محبت فرما نے والا ہے‘‘۔
بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہی ہمار ا حقیقی مولیٰ و مددگار ہے۔ ہمیں ہر حال میں اللہ ہی سے رجوع کرنا اور اس کو راضی کرنے والے اعمال بجا لانے ہیں۔ اسی میں ہمارے لیے خیر و فلاح ہے اور یہی نصرتِ الٰہی نصیب ہونے کا مؤثر ذریعہ ہے۔ یہ قرآن کا اعلان ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے، اپنی نصرت سے نوازتا ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے: وَاللہُ يُـؤَيِّدُ بِنَصْرِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَعِبْرَۃً لِّاُولِي الْاَبْصَارِ۱۳ (اٰل عمرٰن۳:۱۳) ’’اللہ اپنی فتح و نصرت سے جس کو چاہتا ہے، مدد دیتا ہے۔ دیدئہ بینا رکھنے والوں کے لیے اس میں بڑا سبق پوشیدہ ہے‘‘۔
اس کے بندوں کا کام بس یہ ہے کہ وہ نصرتِ الٰہی کی طلب کے تقاضے پورے کرتے رہیں۔ اللہ کرے یہ قرآنی حقیقت ہمارے ذہنوں میں جاگزیں ہوجائے او ر اس کے اثرات ہمارے اعمال میں پوری طرح سرایت کر جائیں۔