جس طرح قدرت اللہ شہاب کی خود نوشت سوانح حیات شہاب نامہ کے مطالعے سے پاکستان کے ابتدائی دور کے حکمرانوں کو جاننے اور پرکھنے کاموقع ملتا ہے، اسی طرح رائے ریاض حسین کی کتاب رائے عامہ اس ملک کے موجودہ حکمرانوں کو قریب سے جاننے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ ریاض صاحب کو پاکستان کے چار وزرائے اعظم: میاں محمد نواز شریف، بلخ شیر مزاری، معین قریشی اور ظفراللہ خان جمالی کے پریس سیکرٹری رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔ نواز شریف نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دو اَدوار میں انھی کو پریس سیکرٹری کے لیے منتخب کیا۔
خبروں کے مرکز بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں لگ بھگ تین عشروں تک میرے لیے رائے ریاض کی اہمیت یہ رہی ہے کہ ۲۰۰۴ء سے ۲۰۰۷ء تک وہ پاکستان ہائی کمیشن میں ’پریس منسٹر‘ رہے۔چونکہ بھارتی میڈیا کے لیے پاکستان کی خبروں کو کور کرنا، اور انڈیا میں چاہے کہیں تشدد کا واقعہ ہو، بم دھماکا یا کوئی کبوتر پکڑا گیا ہو، تو اس کا الزام پاکستان کے سر تو منڈھنا ہی ہوتا ہے اور اس شکل میں پاکستانی ہائی کمیشن کا وجود اور پریس منسٹر توانتہائی اہم ہوجاتا ہے۔ نیوز ایڈیٹر صاحب کا فرمان ہوتا ہے: ’’یہ لکھو کہ پاکستان کے پریس منسٹر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی، مگر اخبار کے پریس میں جانے تک ان کا کوئی جواب نہیں آیا‘‘۔ماضی قریب تک دہلی میں شاید ہی کسی اور ملک کے پریس آفیسر کی اتنی طلب ہوتی ہوگی، جتنی پاکستان ہائی کمیشن کے پریس منسٹر کی ہوتی تھی۔ اس لیے اس فرد کا زیرک اور معاملہ فہم ہونا بہت ہی ضروری تھا۔
مئی ۱۹۹۵ء کو بطور ایک جونیئر رپورٹر کے مجھے دہلی میں منعقد ہ سارک سربراہ کانفرنس میں اپنے سینئر آدتیہ سنہا کا ہاتھ بٹانے کے لیے کہا گیا۔ اُنھوں نے مجھے ہدایت دی کہ پاکستانی صدر سردارفاروق خان لغاری کے ہمراہ آنے والے میڈیا وفد پر نظررکھوں اور اگر پاکستانی وفد کوئی بریفنگ دیتا ہے تو ان کے مندرجہات سے فوراً ان کو مطلع کروں۔ دہلی میں ان دنوں روزنامہ جنگ اور دی نیوز کا باضابطہ بیورو عبدالوحید حسینی کی زیرنگرانی کام کر رہا تھا۔پھر کراچی کے جلیل احمد اے پی پی کے نمائندے کے طور پر دہلی میں مقیم تھے۔ مجھے بھاگ دوڑ کرتے دیکھ کر The Nation کے ایڈیٹر مرحوم عارف نظامی صاحب بہت شفقت سے پیش آئے اور انھوں نے مجھے بھارت سے دی نیشن اور نوائے وقت کے لیے رپورٹنگ کی پیش کش کر دی اور کہا کہ لاہور پہنچ کر وہ تقرر کے کاغذات وغیرہ بھیج دیں گے۔ اسی دورے کے دوران صدر پاکستان نے پہلی بار ’جموں و کشمیر حُریت کانفرنس‘ کے لیڈروں سے پاکستان ہائی کمیشن میں اس وقت کے سفیر ریاض کھوکھر کی مدد سے ملاقات کی۔ یوں ۲۰۰۲ء تک میرا دی نیشن کے ساتھ تعلق رہا، پھر ڈیلی ٹائمز اورفرائیڈے ٹائمز کے ساتھ وابستہ ہوگیا۔ بعد میں کئی برس تک پاکستانی میڈیا کے ساتھ تعلق منقطع ہوگیا تھا۔ مگر ۲۰۱۱ء میں صاحب ِ طرز کالم نگار اور دانش ور ہارون الرشید صاحب نےروزنامہ دُنیا میں ہفتہ وار کالم لکھنے کا حکم دے کر اس تعلق کو پھر سے استوار کروایا۔
جب رائے ریاض نے دہلی میں بطور پریس منسٹر کے عہدہ سنبھالا تو مَیں ڈیلی ٹائمز کے لیے رپورٹنگ اور فرائیڈے ٹائمز کے لیے ہفتہ وار اسپیشل رپورٹ یا کالم لکھتا تھا۔ دیگر بھارتی صحافیوں میں جاوید نقوی ڈان کے لیے، پرویز احمد ’اے آر وائی ٹی وی‘ کے لیے اور پشپندر کلوستے ’آج ٹی وی‘ کے لیے کام کرتے تھے۔ اے پی پی اور ریڈیو پاکستان کے بھی نمائندے دہلی میں موجود تھے، جو پاکستان سے تین سال کی مدت کے لیے آتے تھے۔ اس طرح ۱۹۹۵ء سے ہی مجھے پاکستان ہائی کمیشن کے پریس منسٹر سے واسطہ پڑنا شروع ہوگیا تھا۔ چونکہ ابھی انٹرنیٹ وغیرہ کی آمد نہیں ہوئی تھی، اس لیے پاکستان سے آنے والے اخبارات لینے ان کے دفتر جانا پڑتا تھا۔ مگر رائے ریاض نے پریس کے شعبہ میں اور مرحوم منور سعید بھٹی نے بطورِ سفارت کار دہلی جیسی مشکل جگہ پر خدمات کی جو چھاپ چھوڑی، وہ کسی اور کے نصیب میں نہیں آئی۔ بعد میں اس کو کسی حدتک منظورمیمن نے نبھایا۔
رائے ریاض جب دہلی وارد ہوئے تو بھارت اور پاکستان کے درمیان وفود کا تانتا لگارہتا تھا۔ رائے صاحب پاکستانی میڈیا کے لیے کام کرنے والے ہم چھ صحافیوں کو کسی بھی وفد کی آمد کی پیشگی اطلاع دیتے تھے اور ان کے ساتھ ملاقات کا بندوبست بھی کرواتے تھے۔ وفد چاہے حکومتی ہو یا اپوزیشن، وہ دونوں کے ساتھ ہماری ملاقات کرواتے تھے، اور بھارتی میڈیا کے لیے کام کرنے والے چند صحافیوں کو بھی ضرور بلاتے تھے۔ ان کا کہنا تھا: بیرونِ ملک وہ پاکستان کے ترجمان یا پریس آفیسر ہیں، نہ کہ صرف ہائی کمیشن یا حکومت کے اہل کار۔ ہاں، جب وفد اپوزیشن کا ہوتا تو وہ خود پس منظر میں رہتے تھے۔ انڈس واٹر کمیشن کی بھی ان دنوں میٹنگیں ہوتی تھیں، جن کے ختم ہونے کے بعد وہ انڈس واٹر کمیشن کے سربراہ سیّدجماعت علی شاہ سے بھی ملاقاتیں کرواتے تھے۔ چونکہ جامع مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری تھا، اس لیے اس دوران پاکستان کے وفاقی سیکرٹری حضرات جو شرکت کرنے کے لیے آتے تھے، ان کے ساتھ ملاقاتوں کا اہتمام کرتے۔ یوں ہمیں خاصی بیک گرائونڈ انفارمیشن حاصل ہوجاتی تھی۔
رائے ریاض جب دہلی آئے تو منور بھٹی بطور ڈپٹی ہائی کمشنر تعینات تھے۔ انھوں نے پندرہ دن میں ایک بار پاکستانی میڈیا کے لیے کام کرنے والے صحافیوں کے لیے بیک گرائونڈ بریفنگ کا سلسلہ شروع کیا۔ جس سے بھارت اور پاکستان کے درمیان معاملات اور پیش رفت سے خاصی آگاہی ملتی تھی۔ رائے ریاض نے نئے ڈپٹی ہائی کمشنر اور دانش وَر جناب افراسیاب ہاشمی کو اس بریفنگ کو جاری رکھنے پر آمادہ کیا، مگر ان کے جانے کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔
رائے ریاض کی کتاب رائے عامہ میں کئی دلچسپ واقعات درج ہیں: کس طرح صدر جنرل پرویز مشرف، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو امریکا کے حوالے کرنے پر بضد تھے ، اور کس طرح وزیراعظم ظفراللہ جمالی نے اس کوشش کو ناکام بنایا؟ صدر اور وزیراعظم کے درمیان اختلافات تب وسیع ہوگئے جب پرویز مشرف نے امریکا کو خوش کرنے کے لیے عراق میں فوجیں بھیجنے کا فیصلہ کیا، جس کو جمالی صاحب نے فوراً مسترد کر دیا۔ انھی دنوں دہلی میں وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی بھی عراق میں امریکی افواج کی معاونت کے سلسلے میں خاصے دبائو میں تھے۔اسی دوران کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا ایک وفد ہرکشن سنگھ سرجیت کی سربراہی میں ان سے ملا، اورفوجیں بھیجنے کے متوقع فیصلے پر احتجاج کرتے ہوئے ایک میمورنڈم واجپائی کو سونپ دیا۔ واجپائی نے مسکراتے ہوئے وفد سے کہا: ’’آج کل بائیں بازو والے بھی لگتا ہے کہ کانگریس کی طرز پر ڈرائنگ روموں میں ہی احتجاجی بیانات داغتے ہیں‘‘۔ بس یہ اشارہ تھا اور اگلے روز سے ہی کئی شہروں میں سڑکوں پر امریکا کے عراق پر حملہ اوربھارتی فوج بھیجنے کے متوقع فیصلے کےخلاف احتجاج شروع ہوگیا۔ واجپائی نے فوراً پارلیمنٹ میں بیان دیا:’’ عوامی رائے عامہ کے پیش نظر، بھارت کا عراق میں فوج بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے‘‘۔ اس طرح انھوں نے امریکا سے معذرت کی۔
سری لنکا میں تقرر کے دوران رائے ریاض نے پاکستان سے پھل منگوانے اور اس ملک کو پاکستانی فروٹ تاجروں کے لیے کھولنے کی بڑی جدوجہد کی۔ اس سلسلے میں کولمبو میں مینگوفیسٹیول منعقد کروایا۔ مگر کراچی سے آنے والے آم انتہائی بدمزہ، خراب اور کھٹے نکلے۔ اسی طرح پاکستان کے ’مہربانوں‘ نے خربوزوں میں ہیروئن ڈال کر بھیج دی،جو ائرپورٹ پر پکڑی گئی۔ یعنی فروٹ مارکیٹ حصول سے قبل ہی ہاتھ سے نکل گئی۔ میڈیا میں خبر آئی کہ ’’پاکستانی خربوزے کی قیمت۱۰ لاکھ ڈالر‘‘۔ یہ اس ہیروئن کی بین الاقوامی قیمت تھی۔ اس کے ساتھ پاکستانیوں کی بغیر ویزا کے انٹری بھی بند ہوگئی۔
رائے ریاض نے دہلی میںقائداعظم محمدعلی جناح کے مکان کا ذکر کیا ہے، جو انھوں نے پاکستان جانے سے قبل Times of India کے مالک رام کرشن ڈالمیا کو بیچا تھا۔ انھوں نے لکھا ہے: مہاتما گاندھی، بھنگیوں کے محلے میںرہتے تھے۔ گاندھی کا دہلی میں قیام کچھ زیادہ نہیں رہا ہے۔ دہلی میں ۱۹۳۰ء سے قبل وہ دریا گنج میں ڈاکٹر ایم ایم انصاری کے مکان پر ٹھیرتے تھے۔ پھر ’جناح ہائوس‘ سے چندمیٹر دُوری پر ’برلا ہائوس‘ ان کی رہائش کے لیے وقف کی گئی تھی۔ ’جناح ہائوس‘ میں اس وقت نیدرلینڈ کے سفیررہتے تھے اور ’برلا ہائوس‘ میں اب گاندھی میوزیم ہے۔ اسی جگہ پر گاندھی کو گوڈسے نے ہلاک کیا تھا۔ جب ڈالمیا نے ’جناح ہائوس‘ کا قبضہ لیا تو بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے پہلےاس پورے بنگلے کو گائے کے پیشاب سے دھویا اور پھر ٹینکروں میں دریائے گنگا سے پانی منگوا کر اس کو صاف کیا۔ مگر اتنی ’احتیاطوں‘ کے بعد بھی، وہ اس مکان میں منتقل نہیں ہوئے اور اس کو کرایہ پر دے دیا۔
مصنف نے کتاب میں پاکستانی پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان صاحب کا بھی ذکر کیا ہے، جو ویسے تو اکثر دہلی وارد ہوتےتھے، اور جمعیت العلماء ہند ان کی میزبانی کرتی تھی۔ مجھے بھی ان سے واسطہ پہلی بار ۱۹۹۵ء میں ہی پڑا۔ ۴جولائی۱۹۹۵ء کو کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں پہلگام کے لدروت علاقے سے چھ مغربی سیاحوں اور ان کے دو گائیڈز کو ایک غیرمعروف تنظیم ’الفاران‘ نے اغوا کرلیا۔ ۲۲ یا ۲۳ جولائی کے آس پاس حُریت لیڈر جناب سیّدعلی گیلانی دہلی آئے ہوئے تھے اور چانکیہ پوری میں واقع ’کشمیر ہائوس‘ میں ٹھیرے تھے۔ ان کے قیام کے دوران ہی اس اغوا کے بارے میں میڈیا میں رپورٹ آئی۔ اس دہشت پسندانہ کارروائی کے حوالے سے وہ خاصے مضطرب تھے۔ فلسطین کے برعکس کشمیرکےحوالے سے مغربی دُنیا میں ایک روایتی نرمی پائی جاتی تھی۔ ایک دن میری چھٹی تھی کہ میں گیلانی صاحب سے ملنے کشمیر ہائوس پہنچا۔ انھوں نے اغوا کی اس واردات کے حوالے سے سخت دُکھ کا اظہار کیا۔ اسی دن ہندستان ٹائمز میں مولانا فضل الرحمان کے حوالے سے خبر چھپی تھی، کہ وہ دہلی آئے ہوئے ہیں اور اغوا کی اس واردات کے حوالے سے وہ مدد کریں گے۔ چونکہ یہ معلوم تھا کہ ’حرکت الانصار‘ میں ان کی پہنچ ہے، اور جس طرح ان کا یہ بیان چھپا تھا، اس سے انھوں نے تقریباً اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
محترم گیلانی صاحب نے میری موجودگی میں ہی اپنے سیکرٹری فردوس عاصمی کو ہدایت دی کہ ’’مولانا کی جائے رہائش کا پتہ لگا کر ملاقات کا وقت لیا جائے، کیونکہ یہ ایک سنگین معاملہ ہے‘‘۔ عاصمی صاحب پہلی بار دہلی آئے تھے۔انھوں نے میری معاونت چاہی۔ خیرمعلوم ہوا کہ مولانا کنشکا ہوٹل میں ٹھیرے ہیں۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ وہ چیک آئوٹ کرکے دیوبند تشریف لے گئے ہیں۔ چند روز کی تگ و دو کے بعد معلوم ہوا کہ وہ واپس آکر جمعیت کے دفتر میں ٹھیرے ہیں۔ عاصمی صاحب نے کئی بار فون کرکے وقت لینے کی کوشش کی مگر ناکام ہوگئے۔ میں ایک روز نماز کے وقت جمعیت کے دفتر پہنچا اور جونہی انھوں نے نماز ختم کی تو میں ان کے سامنے پہنچا اور گزارش کی کہ ’’کشمیری لیڈرگیلانی صاحب دہلی میں ہیں اور آپ سے ملنے کے متمنی ہیں‘‘۔ مجھے اب ان کے الفاظ تو یاد نہیں ہیں ، مگر ان کا رویہ ہتک آمیز تھا۔ میں نے عاصمی صاحب کو فون پر بس اتنا بتایا کہ ’’مولانا کے پاس وقت نہیں تھا اور وہ واپس جارہے ہیں‘‘۔ ان کی واپسی کے بعد ۱۳؍اگست ۱۹۹۵ء کو ان سیاحوں میں ناروے کے ہانس کرسچن اوسٹرو کا سر قلم کردیا گیا۔ امریکی جان چائلڈز ۱۷؍اگست کو فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا، باقی کا کبھی پتہ نہیں چلا۔
۲۰۱۳ء میں جب برطانوی صحافیوں ایڈرین لیوی اور کیتھی اسکاٹ کی معرکہ آرا تفتیشی کتاب دی میڈوز منظرعام پر آئی تو معلوم ہوا کہ بھارتی خفیہ اداروں کو ان مغویہ سیاحوں کی جگہ کا علم تھا۔ ’را‘ کے طیارے ان کے فوٹو بھی لیتے رہے۔ مگر جموں و کشمیر پولیس کے افسران نے جب ان کو بازیاب کرنے اور ان کو اغوا کاروں سے چھڑانے کے لیے آپریشن کرنے کی اجازت مانگی، تو دہلی سے انھیں جواب تھا: ’’جتنی دیر یہ مغربی سیاح اس تنظیم کے پاس رہیں گے، اتنی ہی دیر پاکستانی سفارت کاروں کو مغربی دُنیا میں سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑےگا۔ اس لیے ان کے اغواکا طول دینا بھارت کے مفاد میں ہے‘‘۔ لیوی اوراسکاٹ کے مطابق بعد میں ’’جب اغواکار تنگ آگئے، تو انھوں نے ان کو سرکاری بندوق برداروں کے ہاتھوں بیچا۔ مگر چند روز بعد ان کو احساس ہوا کہ اگر ان کو چھوڑاگیا، تو الزام بھارتی فوج کے سر آجائے گا۔ اس طرح ان کو خاموشی کے ساتھ رات کے اندھیرے میں موت کی نیندسُلا کر نامعلوم مقام پر زمین میں دبا دیا گیا۔ مگر تب تک یہ اغوا کشمیر میں جاری تحریک کے سر پڑچکا تھا اور مغربی دُنیا نے آزادی کی تحریک کو ’دہشت گردی‘ سے تعبیر کرنا شروع کر دیا تھا۔ مولانا فضل الرحمان نے کشمیر کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے کتنی شان دار خدمات انجام دیں اور اپنے دورۂ دہلی کے دوران کتنی بار وہ کسی کشمیری لیڈر سے ملے؟ یہ معلوم کرنا کسی صحافی کا کام ہے۔
کتاب رائے عامہ کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ سارے واقعات ایک فلم کی طرح میرے سامنے آرہے تھے۔انھوں نے کتاب میں کارٹونسٹ سدھیر تیلانگ کے ساتھ اپنی ملاقات کا تذکرہ کیا ہے۔ تیلانگ کے ساتھ ان کا رویہ ان کی شخصیت کے بالکل برعکس اور جواب غیرموزوں تھا۔ بلاشبہ اس نے ان کے صبر کا امتحان لیا تھا، مگر کسی اور صورت میں بھی جواب دیا جاسکتاتھا۔ ۲۰۱۶ء میں ان کا انتقال ہوا تھا، مگر جب بھی ان سے پریس کلب میں ملاقات ہوتی تھی، تو وہ ہم سے اس رویے کی شکایت کرتے تھے۔ چند کمیوں کے باوجود کتاب واقعی پاکستان کی موجودہ تاریخ کا ایک آئینہ ہے، جس کو ایک ایسے شخص نے لکھا ہے جس کو طاقت کی راہداریوں تک رسائی تھی اور جس نے کئی رازوں سے پردہ اُٹھایا ہے۔ (ناشر: ’قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل‘، لاہور۔ فون: 0300-0515101)