دسمبر ۲۰۲۴

فہرست مضامین

اسلام کا خط ، ایک مسلمان کےنام

نعیم صدیقی | دسمبر ۲۰۲۴ | تذکیر

Responsive image Responsive image

تمھارا خط ملا بدقسمتی سے تم پتہ لکھنا بھول گئے، مگر خیر تم جہاں کہیں بھی ہو میراجواب تم تک ضرورپہنچے گا۔ ہے یہ بالکل جواب ہی ، کورا جواب!

صاف بات یہ ہے کہ میرا کام کرنے کے لیے تم جیسے لوگ موزوں نہیں؟ تم تھوڑا سا ناقص کام کرکے وہ آخری نتیجہ حاصل کرنا چاہتے ہو اور بہت جلد حاصل کرنا چاہتے ہو، جس کا بھائو تاریخ کی منڈی میں مقابلے کی تمام دوسری اجناس سے زیادہ رہا ہے۔

عزیز ِ من! یہ ایسےتھڑدلے لوگوں کا مشغلہ نہیں ہے،جوچارقدم گھسٹ گھسٹ کر چلیں اور پھر مطالبہ کریں کہ منزل کو حاضرہونا چاہیے، منزل کالےکوسوں دُورسے تو چل کے آنے سے رہی۔ پس جب تمھاری مراد پوری نہیںہوتی تو تم مجھے سزا دینے کے لیے میری مخالف تحریکوں کے سے اطوار اختیار کرلو گے ۔ یہی نہیں بلکہ تم ایک جواز سے دوسرے جواز کی راہیں نکال کر ٹھیک اس نصب العین اورمسلک سے فرار کا راستہ اختیار کررہےہو جس سے وابستہ رہنے کا میثاق تم نےمجھ سے باندھا تھا۔ پھر اپنی فراریت کے نشے میںآکر تم ذاتی مفاد کے تمام بُت خانے آراستہ کرنے لگے ہو۔

عزیزِ من! تم تو اتنی وفا بھی نہ دکھا سکے جتنا کہ نسوانیت کےروایتی عشّاق دکھاتے رہے ہیں۔ کتنوں نے اپنی جانیں نذرکردیں، کتنوں نے تخت و تاج چھوڑدیئے، کتنوں نے صحرائوں کی خاک چھانی، کتنوں نے ساری عمر ہجر میںگزار دی، کتنوں کو نگاہِ اوّل کے بعد تادمِ مرگ کوئی اورتجلّی تک نصیب نہ ہوئی۔ کتنوں نےنازونعمت کی دُنیا چھوڑکر گریبان چاک چاک اور دامنِ تار تار کے مجذوبانہ و مجنونانہ انداز میں کوچہ گردی کرتے رہنے کو مشغلۂ حیات بنا لیا۔ مجازی دنیا کے سچے عشّاق نے کبھی کسی مقررہ مدت میں حصولِ وصال کی شرط نہیں لگائی۔ تم خد ا سےلَو لگانے کا دعویٰ کرنے والے تو اُن دُنیوی عشّاق کے مقابلے میں بہت کوتاہ ظرف نکلے۔

تم کہتے ہو ہم نے بڑا کام کیامگر کامیابی نہیں ہورہی۔ قطع نظر اس بات سے کہ تم نے جب مجھ سے پیمان باندھاتھا کہ دنیا کے حالات سخت ناسازگار ہیں۔ معاشرے کاماحول برسوں کے انحطاط کی وجہ سے بالکل فاسد ہے۔ مخالف قوتوں کے چاروں طرف ریلے ہیں، لیکن اس کام کو مجھے اس لیے کرنا ہے کہ وہ میرے ربّ کی طرف سے میری ڈیوٹی ہے۔ میں اس ڈیوٹی کو مخالفتوں اور اذیتوں سے اور ناکامی کی چوٹوں کو پیہم سہتے ہوئے انجام دوں گا۔ چاہے ظاہری نتیجہ میری زندگی میں نکلے یا بعد کی نسل کے دَور میں، یا اس سے بعد۔ میں تم سے یہ سوال کرتا ہوں کہ تم نے آخرکتنا کام کیا ہے؟ ذرا کاغذ قلم لے کر نوٹ کرو کہ تم نے پچھلے ہفتے میں، یا پورے ایک مہینے میں، یا گزرے ہوئے ایک سال میں، یا اپنے پورے دورِ کار میں کس کس پہلو سے کتنا کام کیا؟ ذرا بتائو کہ تم نے اپنی محنت سے کتنے افراد کو میری خدمت کےلیے تیار کرکے تاریخ کی صف میں لاکھڑا کیا۔ چلو ۳۰سال کی مدت کا حساب بتائو ، خوب سوچ لینا۔ میرا اندازہ ہے کہ براہِ راست تمھاری کوششوں سے دعوتِ حق کی خدمت کا راستہ اختیارکرنے والوں کی تعداد دس سے زیادہ نہیں ہے۔ جلسوں اور تقریروں اور اجتماعی سرگرمیوں کو الگ رکھ کر حساب لگائو اور بتائو کہ میں نے غلط رائے تو نہیں قائم کی۔ میری رائے غلط نہیں ہوسکتی۔ میں توتمھارے ساتھ ساتھ تمھارے دل میں موجود رہا ہوں، میں نے سب کچھ دیکھاہے۔

قرآن و حدیث، تاریخ انبیا اور سیرتِ صحابہؓ و آئمہ اور احوالِ مجدّدین کی روشنی میں کیا تمھیں یہ معلوم نہیں کہ دعوت کا منشا ہی یہ ہوتا ہے کہ لوگوںکو پکارا اور جمع کیا جائے اور جب ان کی ایک مؤثر قوت جمع ہوجاتی ہے اور وہ ایمان و عملِ صالح کا حق ادا کرتی ہے تو کوئی نتیجہ رُونما ہوتا ہے۔ اگر تم اس شعور سے کام لیتے اورکسان کی سی محنت کرتے تو کم سے کم تمھاری اوسط کارگزاری سالانہ ایک سو افراد کو ساتھ ملانے کی ہوتی۔ ۳۰سال میں تم ۳ہزار افراد کو جمع کرچکتے اور تمھارے دوسرے پانچ سو ساتھی بھی اگر اس معیار پر کام کرتے تو اس مدت کا ماحصل ۱۵لاکھ افراد ہوتے۔ چلو کم سہی، ۱۰لاکھ اور کم سہی ۵ لاکھ۔

تم کہو گے قصور میرا نہیں، معاشرے کی زمین ہی بڑی سنگلاخ ہے۔ چلو یوں ہی سہی، اس صورت میں تم چاہتےہو کہ جس معاشرے میں نظامِ حق کے طلب گار اور اس کے لیے کوشش کرنے والے صرف دوچار افراد فی ہزار ہوں، اسے نظامِ حق کی برکتوں سے مالا مال کر دیا جائے؟ محض تمھاری دلجوئی کی خاطر؟ حق کی چاہت نہ رکھنے والےمعاشرے کو اللہ تعالیٰ نے زبردستی اپنی عظیم ترین نعمت سے کبھی نہیں نوازا۔

لیکن میرے نزدیک زیادہ قصور تمھارا ہے۔ تم نے صرف اتنا کیا کہ جلسوں میں اپنی باتیں سنادیں، یا پمفلٹوں میں لکھ کر جلدی جلدی لوگوں کووہ پمفلٹ پہنچا دیئے۔ کیا معلوم ان میں سے کتنے پڑھتے ہیں؟ کتنے مخالفانہ نقطۂ نظر سے پڑھتے ہیں؟ کتنے اس کو سرسری نظر سے دیکھتے ہیں کہ کوئی خاص اثر نہیں لیتے؟ کتنے ہیں جو معمولی سا وقتی اثر لیتے ہیں۔ شاذونادر اِکّا دُکّا آدمی غوروفکر کرتا ہے اور اچھا یا گہرا اثر لیتا ہے۔ پمفلٹ وہی اثر کرتا ہے جس کے ساتھ آدمی بھی لگا ہوا ہو، اور وہ اپنے رابطےسے،ا پنے کردار سے، اپنے حُسنِ تکلّم سے، اپنے جذبۂ ہمدردی سے لوگوں کے دلوں میں نفوذ کررہا ہو۔ تم کبھی عام لوگوں کے پاس گئے؟ مسجدوں اورچوپالوں میں ان کی مجلسوں میں شریک ہوئے؟ مختلف تقاریب میں اور دوسری سماجی ضروریات کے تحت ان کے گھروں میں پہنچے؟ ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کے مسائل اوردُکھوں اوردردوں اور کمزوریوں کو سمجھا؟ کیا اِن پر اپنے مسلسل مخلصانہ و خیرخواہانہ رویّے سے یہ ثابت کردیا کہ تم ان کے لیے ایک بے لوث محبّ، ان سےتعاون کرنے والے، ان کی مصیبتوں میں ان کا ساتھ دینےوالے، ان کی خیروفلاح چاہنے والے اور ان کی زندگیوں کو بہتربنانے کےخواہاں ہو؟جولوگ یہ مہم سر کرتے ہیں اُن کی زبان سے دی ہوئی دعوت بھی اثرکرتی ہے۔ ان کے پمفلٹ بھی دلوں میں جگہ بناتے ہیں۔ ان کے جلسے بھی لوگوں کو کھینچتے ہیں۔

مگر تم آہستہ آہستہ دولت سمیٹنے، معیارِ زندگی بلند کرنے اور اپنا statusبنانے میں لگ گئے ہو۔ حالانکہ یہ الگ ایک مستقل مشن ہے جس میں کھوئے ہوئے ہزاروں لوگ تمھارے سامنے ہیں جن کے لیے معاشی مسابقت سے ایک لمحہ فارغ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ معیارِ زندگی کے جنون میں اب تم نے آہستہ آہستہ ان چیزوں کے لیے جواز کے بہانے ڈھونڈ نے شروع کردیئے ہیں جن کے خلاف لڑائی لڑنے کے لیے تم بڑی مضبوطی سے کھڑے ہوئے تھے۔ تم مغرب کی جس ملحدانہ تہذیب سے لڑنے اُٹھے تھے اور اس کے تیزوتند ریلوں میں مضبوطی سے کچھ دیرقدم جماکر کھڑے رہے ، بلکہ اس استقامت کی وجہ سے تم نے کچھ فتوحات بھی حاصل کیں اور تمھارے معاونوں اور محبّوں میں اضافہ بھی ہوا۔ تم دوسرے سب لوگوں کے لیے سہارا بھی بنے اور تمھاری دیکھا دیکھی کمزور لوگ بھی استقلال پسندی سیکھنے لگے۔ اب تم خود ہی مضبوط عقلی دلائل کے ساتھ اس کام کا خود آغاز کرو، مگر یہ کیا ہے کہ تم معرکے میں پسپائی اختیار کر رہے ہو؟ ایک ایک بُرائی آہستہ آہستہ تمھاری زندگی کے قلعے میں شگاف ڈال کر گھستی چلی آرہی ہے اور اس پر بھی تمھیں یہ خوش گمانی ہے کہ تم تحریک اسلامی کے مجاہد ہو اور خوب معرکہ آرائی کررہےہو۔

تو اے میرے مجاہد! ذرا مجھے بتائو تو سہی کہ تم کتنے مواقع اجتماعیت یا ادائے فرض پر پابندیٔ وقت کا حق ادا کرتے ہو؟ نظام کی اطاعت میں تمھارامعیار کیا ہے؟ اپناذاتی احتساب بھی کرتے ہو؟ کتنی نمازیں تم مسجد میں ادا کرتے ہواور پھر کتنی نمازیں پورے آداب و شرائط کے ساتھ دل لگا کرقائم کرتے ہو؟ تمھارا تعلق قرآن و حدیث سے کتناہے؟ تم اپنے علم میں کس رفتار سے اضافہ کررہے ہو؟تم نے اپنے گھر والوں یا قرابت داروں کو دین کی طرف دعوت دینے کے لیے کتنا کام کیا ہے اور اس کا ماحصل کیا ہے؟ تمھارے دل میں اپنے کتنے رفقا کے لیے غلّ اور سوئے ظن موجود ہے؟ تم غیبت کے کھاتے میں ہرروز کتنا سرمایہ ڈیپازٹ کراتے ہو؟ تمھارے دُنیوی مفاد کی وجہ سے کن کن لوگوں کے ساتھ کیا کیا جھگڑے ہوچکے ہیں؟

ذرا ٹھنڈے دل سے سوچو کہ افراد اور کاروبار کی طرح تحریکوں اور جماعتوں کی بھی ایک ساکھ ہوتی ہے جو برسوں کی محنت سے بنتی ہے۔ تمھارے کام کی ساکھ بھی کئی سال میں صدہا افراد کی محنتوں سے بنی ہے۔ اگر تم نے جمود و انحراف کی روش اختیار کرلی تو ابتدا ً تھوڑی سی مدت کو پچھلی ساکھ پردہ پوشی کرتی رہے گی لیکن بس اس تھوڑی سی مدت کے بعد یہ ساکھ خدانخواستہ اگر تباہ ہوگئی تو دوبارہ اسے کسی قیمت پر بحال نہ کیا جاسکے گا۔

باتیں تو اور بھی بہت سی قابلِ غور ہیں مگرفی الحقیقت اتنی ہی بہت ہیں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ غلبۂ دین کی راہ میں اس وقت تم ہی بہت بڑی رکاوٹ ہو۔ تم نے اپنے احیائے نظامِ اسلامی کے جھنڈے اُٹھا کر یہ بھاری ذمہ داری تو لےلی، مگر اس کا حق ادا کرنے پر تیار نہیں ہو۔ اچھے لوگوں کے لیے تم ہی سرمایۂ اُمید بنے ہوئے ہو کہ یہ شخص اوراس کے ساتھی کام کررہے ہیں تو آخر کچھ نہ کچھ بات بن ہی جائے گی اورمیرے نقطۂ نظر سے تمھارے ہاتھوں بات بنتی نظر نہیں آتی۔ دوسری مشکل یہ ہے کہ تم لوگ اپنی جگہ خالی بھی نہیں کرتے کہ خلاکو بھرنے کے لیے آج نہیں تو کل کوئی اور قوت اُٹھے۔ تم رکاوٹ اس لیے ہو کہ تم وہ شرائط پوری نہیں کررہے ہو جو اقامت ِدین کا جہاد کرنے والوں کو پوری کرنی چاہیے۔

ایسے میں اگراُٹھاکر تخت پر بٹھا دیا جائے تو تمھارا کمزور کردار اسلام کے لیے سخت بدنامی کا باعث بن جائے گا اورپھرمدتوں تک اسلامی نظام اوراسلامی حکومت کانام لینا کسی کے لیے ممکن نہ رہے گا۔

پس میں تم سے درخواست کرتا ہوں کہ تم میرادروازہ چھوڑ دو اورکسی اور طرف کا رُخ کرو۔ مجھے ایسے مجاہدوں کی ضرورت نہیں ہے۔ میراکام کرنے کے لیے نئی نئی طاقتیں نمودار ہوتی رہیں گی۔ میں تمھارایاکسی اورکا محتاج نہیں بلکہ تم اورساری انسانیت میری محتاج ہے۔

آج سےفیصلہ یہ ہے کہ تم نے میرے ہاتھ پر بیعت کرکے جو قلادہ گلے میں ڈالا تھا وہ فوراً الگ کردیا جانا چاہیے۔ تم اور تمھارے جیسے لوگ اگر الگ ہو جائیں تو میرے مخلص خادموں کی جو تعداد باقی رہ جائے گی، اس کے کام کی رفتار کئی گنا بڑھ جائے گی، اور اس کےلیےخدا کی تائید بھی زیادہ ہوگی اوراس کی سرگرمیوں میں خاص برکات دکھائی دیں گی۔

عزیز ِ من! اگر تمھیں اس موقع کی بات کو سن کر دل میں کچھ بھی رنج اور ضمیرمیں کچھ بھی خلش محسوس ہوتو پھرمَیں مہلت دیتاہوں کہ اپنے متعلق نئے سرے سے فیصلہ کرلو کہ تم اپنے روزِ اوّل کے بیان کا حق ادا کروگے، اورمیرے کام کو پوری سرگرمی کے ساتھ میرے اسلوب و طریق سے انجام دیتے ہوئے، ہر دوسری چیز کو،خواہ وہ کاروبار ہو، خانگی زندگی ہو، قبیلہ داری کے معاملات ہوں___ ثانوی حیثیت دو گے،اور اپنی تمام دوسری دُنیوی سرگرمیوں میں پیچھے رہ جانا گوارا کرلوگے۔ اگررزقِ کفاف پر اکتفا کرکے اپنے وقت کی زیادہ سے زیادہ گھڑیاں بچاکر میرے کام میں لگاسکتے ہو تو پیمان برقراررہ سکتا ہے۔ ورنہ اس حبلِ متین کے ٹوٹے ہوئے ریشوں کے درمیان جو چند تار سلامت رہ گئے ہیں، وہ بھی جلد ہی اَزخود ٹوٹ جائیں گے۔مجھ سے معاملہ رکھنا ہے تو محبت کرنے والے کا سا معاملہ رکھو، جو ہمہ وقت اپنے ہی محبوب کے خیال میں غرق رہتا ہے، اور اپناسب کچھ قربان کر تا چلا جاتا ہے اور جواب میں کوئی قیمت نہیں مانگتا۔کہو، اس کا بل بوتا ہے؟