دسمبر ۲۰۲۴

فہرست مضامین

شریعت کا نفاذ ، مفہوم اور تقاضے

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | دسمبر ۲۰۲۴ | دعوت وتحریک

Responsive image Responsive image

سب سے پہلے یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ’شریعت‘ سے مراد کیا ہے؟ بعد میں یہ عرض کروں گا کہ اس کے نفاذ کا کیا مطلب ہے، اور آخر میں یہ بتائوں گا کہ پاکستان میں اس کے نفاذ کے امکانات کیا ہیں اور کیا ضروری شرائط ہیں؟

شریعت کا مفہوم

’شریعت‘ سے مراد محض قانون نہیں ہے، جس کو عدالتوں کے ذریعے نافذ کیا جائے۔ ’شریعت‘ قانون کے ہم معنی نہیں۔ ’شریعت‘ سے مراد زندگی کا پورا نظام ہے، جو عقائد و ایمانیات سے شروع ہوتا ہے ، اور عبادات واخلاقیات پر منتج ہوتا ہے۔یہ زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہے۔

شریعت کے تقاضے

  • پختہ ایمان: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو شریعت ہی کو نافذ کرنے کے لیے مبعوث فرمائے گئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ برس مکہ معظمہ میں، اس کے بعد مدینہ منورہ میں اپنی ساری طاقت صرف فرمائی کہ لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں ایمان کی طاقت بٹھا دیں۔ کیوں کہ یہ شریعت اس وقت تک نافذ ہی نہیں ہوسکتی، جب تک اس کے چلانے والوں میں ایمان موجود نہ ہو، اور جن پر وہ چلائی جائے ان کے اندر بھی ایمان نہ ہو۔ اگر ایمان موجود نہ ہو تو یہ ممکن نہیں ہے کہ شریعت کو نافذ کیا جاسکے، اور ممکن نہیں ہے کہ جس آبادی پر اس کو نافذ کیا جارہا ہے وہ اس کو برداشت کرلے۔

مثال کے طور پر آپ سے عرض کرتا ہوں کہ حدودِ شریعہ میں سے ایک شرعی حد یہ ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹ دو۔ اس کے اُوپر عمل وہی لوگ کرسکتے ہیں، جن کے دلوں میں ایمان ہو۔ وہ سچّے دل سے یہ سمجھتے ہوں کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ سچّے دل سے یہ مانتے ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُوپر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ وحی اور کلام نازل ہوا ہے۔ یہ اللہ کا حکم ہے، جو رسولؐ کی زبان سے جاری ہورہا ہے، اور سچّے دل سے یہ مانتے ہوں کہ اگر ہم نے اس کے نافذ کرنے میں ذرّہ برابر بھی کوتاہی کی تو آخرت میں ہمیں اللہ کے رُوبرو جواب دہ ہونا پڑے گا۔ اگر یہ چیزیں موجود نہیں ہیں تو حدودِ شرعیہ کا اجراہو نہیں سکتا، ممکن ہی نہیں۔

کوئی ایسا فرد جس کو قانون کی شکل میں حد ِ شرعی ملے، لیکن وہ اس پر ایمان نہ رکھتا ہو، تو وہ پہلی فرصت تلاش کرے گا جس میں اس قانون کو منسوخ کرے اور اپنے لیے نیا قانون بنائے۔ اسی طرح جن لوگوں پر یہ قانون نافذ کیا جاتا ہے، اگر ان کے اندر ایمان نہ ہو، وہ یہ نہ مانتے ہوں کہ قرآن برحق ہے اور اسلام کے قانون میں چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہی ہے۔ اگر وہ اس کے اُوپر یقین نہ رکھتے ہوں، تو ہوسکتا ہے کہ کسی غریب، چھوٹے اور بے اثر آدمی کے ہاتھ تو کاٹ دیئے جائیں، لیکن اگر کسی بااثر آدمی کا ہاتھ کاٹنے کی نوبت آجائے تو بغاوت برپا ہوجائے۔ وہ آبادی اس چیز کو برداشت ہی نہیں کرے گی کہ یہ قانون نافذ ہو ۔ اس لیے شریعت سب سے پہلے جس چیز کا تقاضا کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ اس کو نافذ کرنے والے اور جن لوگوں پر اس کا نفاذ کیا جائے ان کے اندر ایمان ہو، ان کے دلوں میں ایمان ہو۔

  • اسلامی اخلاق: اس کے بعد دوسری چیز کا شریعت یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اسلام جو اخلاقیات دیتا ہے، بھلے اور بُرے کا جو امتیاز دیتا ہے، خیروشر کا جو فرق بتاتا ہے اور جو اقدار انسان کو دیتا ہے کہ یہ چیز قیمتی ہے اور یہ چیز بے قیمت ہے، اس کو ٹھیک ٹھیک مان کر سمجھ لیا جائے۔ اگر یہ چیز موجود نہ ہوگی تو مانتے ہوئے بھی وہ اس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں گے، کیونکہ ان میں اخلاق موجود نہ ہوگا۔ اخلاقی حیثیت سے دیوالیہ لوگ، جن کے اخلاق کو گھن کھا چکا ہو، ان کے بس کا یہ کام نہیں ہے کہ شریعت کو نافذ کریں۔ اس لیے کہ شریعت اسلامیہ اخلاقیات بھی دیتی ہے، اور اخلاقیات کا نہایت وسیع تصوّر دیتی ہے، جو زندگی کے ہرمعاملے سے تعلق رکھتا ہے۔
  • شریعت کا پوری زندگی پر نفاذ : اس کے بعد تیسری چیز یہ ہے کہ شریعت کا نظام انسانی زندگی کے پورے دائرے پر پھیلتا ہے۔ وہ اس بات سے بھی بحث کرتا ہے کہ پانی میں پاک کیا ہے اور ناپاک کیا ہے؟ اس شے سے بھی بحث کرتا ہے کہ انسان نجس کس حالت میں ہوتا ہے اور کس حالت میں کس طرح وہ پاک ہوسکتا ہے؟ یعنی شریعت کوئی محدود سا قانونی تصور نہیں رکھتی۔

آپ دیکھیے کہ فقہ کی کتابیں بابِ عبادت سے شروع ہوتی ہیں۔ دُنیا کا کوئی قانون آپ کو ایسا نہیں ملے گا، جس کے اندر طہارت کے مسئلے سے بحث کی گئی ہو، بلکہ حقیقت میں دُنیا کی کسی زبان میں طہارت کا ہم معنی لفظ موجود نہیں۔ مغربی ممالک جانتے ہی نہیں کہ طہارت کس چیز کو کہتے ہیں؟ ان کی زبان میں اس کا ہم معنی لفظ موجود نہیں، لیکن اسلامی شریعت، طہارت سے بحث کرتی ہے جو کہ ایک فرد کا معاملہ ہے، اور پھر افراد کے اندر طہارت پیدا کرتی ہے۔ افراد کے اندر اسلامی اخلاق پیدا کرتی ہے۔ افراد کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لیے آمادہ کرنا، ان کو بندگی کے طریقے سکھانا، یہ شریعت کا کام ہے۔ پھر افراد کو جوڑ کر ایک جماعت بنانا اور اس جماعت کے اندر اسلامی طریقے رائج کرنا۔ عبادات سے لے کر نکاح کے معاملات تک اور تجارت سے لے کر سیاست اور قانون و عدالت کے معاملات تک، جنگ سے لے کر صلح تک اور ملک کی مالیات سے لے کر ملک کی صنعت و حرفت تک، ہرچیز کے بارے میں قانون موجود ہے۔

اس چیز کو اگر نافذ کرنا ہے تو آدمی یہ سمجھ لے کہ انسانوں کی پوری زندگی کو بدل ڈالنا ہے۔ یہ نہیں ہے کہ صرف ایک پہلو سے ان کی زندگی کو بدلا جائے، بلکہ ان کی پوری زندگی کو ہرپہلو سے، افراد سے لے کر جماعت تک، پوری آبادی کو بدلنا ہے۔ ان کے اندر ایمان اُتارنا ہے۔ ان کے اندر اخلاقیات پیدا کرنی ہیں۔ ان کے اندر آمادگی پیدا کرنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قانون کی پابندی کریں اور اس کے بعد تمام معاملات کو اس کے مطابق ڈھالنا ہے۔ مارکیٹ میں جو لین دین ہورہا ہے، اس کے اُوپر بھی شریعت کو نافذ کرنا ہے۔ بنکوں میں جو مالیاتی لین دین ہورہا ہے ، ان کو بھی شریعت کے مطابق بدلنا ہے۔ یہ انشورنس کمپنیاں جو چل رہی ہیں، ان کو بھی شریعت کے مطابق بدلنا ہے۔ حکومت جو ٹیکس لگاتی ہے اور ٹیکس لگا کر جس طرح خرچ کرتی ہے، ان دونوں چیزوں میں، پھر جو قرض دیتی ہے اور جو قرض لیتی ہے، اور قرض لے کر جس طرح خرچ کرتی ہے، ان سب پر بھی شریعت کے احکام کو نافذ کرنا ہے۔ عدالتوں میں بھی شریعت کے احکام کو نافذ کرنا ہے۔

حکومت کے انتظامی شعبوں کو بھی شریعت کے مطابق بدلنا ہے۔ مثال کے طور پر اگر پولیس کے محکمے میں کثیرتعداد بے ایمان ملازمین کی ہے تو اسلامی شریعت کا نفاذ نہیں ہوسکتا۔ وجہ یہ ہے کہ ایک بے ایمان پولیس کے ہاتھ میں اسلامی شریعت دے دی جائے تو وہ پوری آبادی کو نچوا دے گی۔ اس لیے پوری انتظامی پالیسی کو بدلنا ضروری ہے۔ رشوت خور لوگ اسلامی شریعت کو نافذ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

اس طرح سے شریعت کی اس حیثیت کو نگاہ میں رکھیے کہ یہ پوری زندگی کا قانون ہے، کسی ایک پہلو کا ضابطہ نہیں۔ یہ ایمان سے لے کر معاملات کے چھوٹے سے چھوٹے اجزا تک، حتیٰ کہ سڑکوں کی صفائی تک سے بھی بحث کرتی ہے۔ سڑک پر کوئی شخص کانٹے بچھاتا ہے، یا لوگوں کو تکلیف دینے والی چیز ڈالتا ہے، کوئی نجاست پھینکتا ہے تو وہ ایک گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ ان سارے معاملات پر شریعت حاوی ہے اور رہنمائی دیتی ہے۔

شریعت کے زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہونے کے پہلو کو نگاہ میں رکھنے کے بعد اب دیکھیے کہ اس کے نفاذ کا کیا مطلب ہے؟

نفاذِ شریعت کا حقیقی تقاضا

اس کے نفاذ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے مدرسوں میں بیٹھ کر صرف شریعت کی کتابیں پڑھیں۔ اس کے نفاذ کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ آپ وعظوں میں، تقریروں میں اور اپنے خطبوں میں اس کو محض بیان کریں۔ اس کے نفاذ کا مطلب یہ ہے کہ احکامِ شریعت کو پوری طاقت، شعور، عقل اور عدل سے نافذ کیا جائے۔ جو کام صدرِ مملکت کا ہے وہ اپنے دائرے میں اسے نافذ کرے۔ جو وزیراعظم کے کرنے کا کام ہے وہ اپنے دائرے میں اسے نافذ کرے۔ جو گورنروں اور صوبے کے وزراء کا کام ہے، وہ اپنے دائرے میں اسے نافذ کریں۔ جو مالیات کے محکمے کا کام ہے، جو عدالت کے محکمہ کا کام ہے، جو اقتصادیات کے محکموں کا کام ہے، جو صحت و تندرستی کے محکموں کا کام ہے، وہ سارے کے سارے شریعت کے مطابق چلیں۔ یعنی صرف کوئی ایک چیز نہیں ہے جو درکار ہو، بلکہ پوری کی پوری حکومت کا نظام، پورے کا پورا تجارت و صنعت و حرفت و اقتصادیات کا نظام، پورے کا پورا عدالتی اور معاشرتی نظام، سب کچھ اس کے مطابق ہونا چاہیے۔ ہرچیز میں اس کو نافذ کرنا چاہیے۔ جو چیز محلّے کے لوگوں کے نافذ کرنے کی ہے، اسے وہ نافذ کریں۔ جو میونسپلٹیوں کے نافذ کرنے کی ہیں، انھیں وہ نافذ کریں۔ جو چیز لیجسلیٹو اسمبلی کے کرنے کی ہے، وہ اپنے دائرے میں اسے نافذ کرے۔ پوری کی پوری گورنمنٹ اس کے مطابق ہونی اور چلنی چاہیے۔ نہ یہ کہ کسی فرد کو ’شیخ الاسلام‘ بناکر بٹھا دیا جائے، یا وزارتِ مذہبی اُمور بنا دی جائے اور سمجھ لیا جائے کہ شریعت کا نفاذ ہوگیا۔یہ بات نہیں ہے، بلکہ پورے کے پورے نظامِ حکومت کو تبدیل کرنا اور اسلام کے مطابق چلانے کا نام ہے نفاذِ شریعت۔ یہ پہلو مختصراً عرض کررہا ہوں، ورنہ اس کی تفصیل زیادہ ہے۔

اب دیکھیے کہ پاکستان میں اس کا نفاذ کیسے ہوسکتا ہے؟

پاکستان میں نفاذِ شریعت کیوں نہیں ہوا؟

پاکستان میں اس کے نفاذ میں اختلاف کیوں پیدا ہوا؟ ویسے تو ہم ایک مسلمان قوم ہیں، اور پاکستان اسلام کا نام لے کر بنایا گیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا اور فطرتاً آدمی یہ سمجھتا ہے کہ یہ آپ سے آپ ہونا چاہیے تھا کہ جس روز پاکستان بنا تھا، شریعت ِاسلامی اسی روز نافذ ہوجاتی۔ لیکن ایسا کیوں نہیں ہوا؟ اس کی کچھ وجوہ ہیں:

کافرانہ حکومت کے اثرات

ایک وجہ یہ ہے کہ ایک مدتِ دراز تک یہاں کفر کی حکومت مسلط رہی ہے۔ اس نے تعلیم کا نظام ایسا بنایا کہ جس نے لوگوں کے ذہن بدل کر رکھ دیئے، سوچنے کے انداز بدل دیئے۔ اُس نظامِ حکومت نے اپنی تعلیم کے اثر سے لوگوں کو اس حد تک بہکایا کہ قلیل تعداد تعلیم یافتہ لوگوں کی ایسی رہ گئی، جو واقعی دل میں ایمان رکھتی ہو اور سچّے دل سے مانتی ہو کہ اللہ کے رسولؐ جو کچھ لائے وہ برحق ہے، ورنہ ایک کثیر تعداد ایسی تیار ہوگئی، جو اس بات کی قائل ہی نہیں تھی کہ وحی آسکتی ہے۔ جو اس بات کی قائل ہی نہیں رہی تھی کہ نبوت بھی کسی چیز کا نام ہے، جو سمجھتے تھے کہ نبوت اور وحی افسانے ہیں۔ ان کے نزدیک جو کچھ یورپ اور امریکا سے آتا ہے، بس وہی برحق ہے۔ اس کے بارے میں کوئی سوال کرنے کی حاجت نہیں، جیساکہ وہ آرہا ہے جوں کا توں مان لیں گے۔ اس میں کوئی چیز شک کی اور دریافت طلب بات نہیں ہے۔ مگر وہ کتاب جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ لاریب فیہ، ان کے نزدیک اس میں ہرریب اور شک کی گنجایش ہے۔ تو یہ اُس تعلیم کے اثرات تھے۔

ان میں جن لوگوں نے اپنا ایمان کچھ بچایا، ان کی فکر اسلامی نہیں تھی اور سوچنے کا انداز اسلامی نہیں تھا۔ جنھوں نے سوچنے کا انداز اسلامی بنانے کی کوشش کی، ان کے پاس علم اسلامی نہیں تھا۔ وہ یہ بات جانتے ہی نہیں تھے کہ اسلام کیا ہے،اس کے احکام کیا ہیں اور کس قسم کا نظام وہ چاہتا ہے؟

جس وقت ہم نے یہ نام لینا شروع کیا کہ ’اسلامی نظامِ حکومت قائم ہونا چاہیے‘ تو لوگ پوچھتے تھے کہ ’اسلامی نظامِ حکومت سے کیا مراد ہے؟‘ عام لوگ ہی نہیں، بلکہ بعض دفعہ خود علما کے لیے بھی یہ سمجھنا مشکل ہوتا تھا۔ بعض لوگوں نے ہم سے یہاں تک کہا کہ ’یہ تم کس چیز کی باتیں کر رہے ہو۔ یہ اس زمانے میں چلنے والی چیز نہیں‘ اور میں نے ان سے یہ عرض کیا کہ ’حضور اگر یہ چلنے والی چیز نہیں تو اس پر ایمان کیوں رکھتے ہیں؟ پھر جو چلنے والی چیز ہے اس پر ایمان لایئے‘۔ بعض علما سے میری بات چیت ہوئی، جس میں انھوں نے مجھ سے یہ بات کہی اور میں نے ان سے یہی عرض کیا۔

ایک اچھا خاصا گروہ یہ سمجھتا تھا کہ اگر ’شیخ الاسلامی‘ قائم ہوجائے اور قضائے شرعی کا انتظام ہوجائے تو بس اسلام کا نفاذ ہوجائے گا، سمجھ لیجیے اسلامی نظام نافذ ہوگیا۔ جب ہمارے دینی مدارس کے فارغ التحصیل لوگوں کے یہ خیالات تھے، تو آپ اندازہ لگایئے کہ کالجوں اور یونی ورسٹیوں سے نکلنے والے لوگوں کا کیا حال ہوگا؟ ان کے اندر ایسے لوگ بھی موجود تھے، جو یہ کہتے تھے کہ اگر ہم اسلامی نظام یہاں نافذ کریں گے تو ہم دُنیا کو کیا منہ دکھائیں گے کہ یہ چودہ سو برس پہلے کا قانون یہاں نافذ کر رہے ہیں۔ یہ باتیں ہم نے خود سنی ہیں، جب ہم نے یہ سوال اُٹھایا کہ یہاں اسلامی نظام نافذ ہونا چاہیے۔ اس بات کا اس وجہ سے ذکر کر رہا ہوں کہ آپ کو وہ رکاوٹیں سمجھ میں آجائیں۔

اسلام ناآشنا قیادت

باوجود اس کے کہ یہ ایک مسلمان قوم تھی اور اس نے اسلام کا نام لے کر پاکستان قائم کیا تھا، لیکن وہ اسلام کا نظام نافذ نہیں کرسکی۔ کیوں نہیں کرسکی؟ اس کے جو کارفرما لوگ تھے، جن کے ہاتھ میں اقتدار اور نظام تھا، ان کی تعلیم و تربیت کسی اور طرز پر ہوئی تھی۔ وہ جانتے بھی نہ تھے کہ اسلام کیا ہے؟ ان کے سوچنے کا انداز بھی اسلامی نہ تھا اور ان کے اندر خواہش بھی اسلامی نظام کو نافذ کرنے کی نہیں تھی۔ نہ اس کو وہ جانتے تھے کہ اسلامی نظام کیا چیز ہے، نہ اس کو مانتے تھے کہ وہ برحق ہے اور نہ وہ یہ ارادہ رکھتے تھے کہ اس کو نافذ کرنا چاہیے۔ ظاہر بات ہے یہ پھر کیسے نافذ ہوسکتا تھا؟

جہاں تک عام آبادی کا تعلق تھا اور ہے، اس کے اندر اسلام کے ساتھ عقیدت موجود ہے۔ بلاشبہہ یہ بہت بڑا سرمایہ ہے۔ اس کے اندر ایمان بھی مجمل طور پر موجود ہے۔ چاہے وہ ایمان کی تفصیلات نہ جانتے ہوں، لیکن مجمل طور پر ایمان ان میں ہے۔ وہ خدا کو مانتے ہیں، رسولؐ کو مانتے ہیں بلکہ رسولؐ کے نام پر جان دینے کو تیار ہیں۔ قرآن کو برحق مانتے ہیں، اس کی تلاوت کرتے ہیں اور اس کا احترام کرتے ہیں۔ آخرت کے بھی منکر نہیں ہیں۔ یہ ساری چیزیں موجود ہیں لیکن کفّار کی ایک طویل مدت کی حکومت اور کافرانہ قوانین کے اجرا نے اور ان کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کردینے نے، اس مدتِ دراز کے اندر لوگوں کے عادات و خصائل بدل ڈالے ہیں۔

مسلمان جانتا ہے کہ یہ گناہ ہے لیکن اس میں مبتلا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ وہی چیز اس پر مسلط ہے۔ ہر طرف سے وہ اس پر محیط ہے، مثلاً سود کو کون مسلمان نہیں جانتا کہ سود حرام ہے، مگر جب سود ہی پر سارا نظام قائم ہوجائے، تجارت کا، صنعت و حرفت کا، مالیات کا، تو کون آدمی اس سے بچے؟ اس میں مبتلا ہوتے وقت مسلمان کو یہ فکر ہوتی ہے کہ کسی طرح اسے بھی حلال کر دیا جائے کیونکہ حرام کو حرام جانتے ہوئے اس کو کرنا بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ یہ تو وہ کرنہیں سکتا کہ حرام سے اجتناب کرے، مگر چاہتا یہ ہے کہ کسی طرح حرام کو حلال کردیا جائے۔ اب تک میرے پاس ایسے لوگ آتے ہیں، جو اسی طرح کے سوالات کرتے ہیں اور میں ان سے کہتا ہوں کہ بھائی حرام کو حلال کرنے کے اختیارات مجھے حاصل نہیں۔  پھر کیسے آپ کے لیے حلال قرار دوں؟

اسلام ناآشنا قیادت نے قوم کو بدلنا چاہا

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک کافرانہ نظام کے تسلط کی بدولت لوگوں کے سوچنے کے انداز ہی نہیں بدلتے، عادات بھی بدل جاتی ہیں اور ان کے لیے ممکن نہیں رہتا کہ وہ نظام اسلامی کو برحق ماننے کے باوجود اس کے برعکس چیز سے پرہیز کریں۔ اب اس کے بعد جب ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ملک کی حکومت آئی جو نہ اسلام کو جانتے تھے، نہ اسلام کو نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، نہ اسلام کو نافذ کرنے کی قابلیت رکھتے تھے، تو ان کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ اگر ہم اس بات کو پھیلنے دیں کہ ملک میں اسلامی شریعت کا نفاذ ہو اور عام لوگوں کے اندر اس بات کی طلب پیدا ہوجائے، تو پھر ہمارا چراغ کہاں جلے گا؟ لوگ ہماری طرف کیسے توجہ کریں گے؟ پھر لازماً اس کی تلاش ہوگی جو اسے نافذ کرسکے۔

اس لیے انھوں نے گذشتہ برس اس کام پر صرف کیے کہ قوم کے مزاج کو بدلا جائے۔ ان کے اخلاق کو بدلا جائے۔ ان کے اندر بُرائیوں کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے۔ اس کو زیادہ سے زیادہ اخلاق باختگی کا رسیا بنایا جائے۔ اس کے اندر جہاں تک ہوسکے شراب خوری پھیلائی جائے۔ اس کو زیادہ سے زیادہ سود میں مبتلا کیا جائے، اتنے سود میں جتنا انگریز کے زمانے میں بھی نہیں تھا۔ اس میں مخلوط تعلیم رائج کی جائے تاکہ عورتوں اور مردوں کے میل جول سے جو کچھ تہذیب و تمدن کا ستیاناس ہوتا ہے اور ہورہا ہے، وہ اور زیادہ ہو۔ غرض یہ کہ انھوں نے ہرممکن طریقے سے پوری قوم کو بگاڑ دینے کا پروگرام بنایا، جس پر برابر عمل ہوتا رہا ہے۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ نفاذِ شریعت کے لیے جس قسم کا ماحول چاہیے اس نوعیت کا ماحول بنانے کے بجائے، اس کے برعکس نوعیت کا ماحول بنایا گیا۔

نفاذِ شریعت کیسے ؟

اب جب ہم یہ سوچنے کے لیے بیٹھیں گے کہ ہم یہاں نفاذِ شریعت کیسے کریں؟ تو اس کے لیے سب سے پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان اُتارنا پڑے گا۔

  • دلوں میں ایمان کی آبیاری: ایمان کے بغیر وہ بنیاد قائم نہیں ہوسکتی جس پر نظامِ شریعت کا نفاذ ہوسکے۔ اس کے بغیر وہ عمارت ہی نہیں کھڑی ہوسکتی۔ اس لیے پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان اُتارنا پڑے گا۔ تمام شکوک و شبہات کے کانٹے جو ان کے اندر چبھے ہوئے ہیں وہ نکالنے پڑیں گے۔ ان کو مطمئن کرنا پڑے گا، پڑھے لکھوں کو بھی اور عوام کو بھی۔ جتنا کچھ عوام کے لیے درکار ہے، اتنا کچھ عوام کے لیے اور جتنا کچھ پڑھے لکھوں کے لیے درکار ہے، اتنا کچھ پڑھے لکھوں کے لیے کرنا پڑے گا۔
  • اصلاحِ اخلاق کی طرف توجہ:پھر آپ کو ان کے اخلاق کی طرف توجہ کرنی پڑے گی، کیونکہ ایک بداخلاق قوم کبھی اس قابل نہیں ہوتی کہ وہ اسلامی نظام نافذ کرسکے۔ اس لیے اخلاق کی بہتری کی فکر کرنی پڑے گی۔
  • اسلامی نظام کے لیے تڑپ : اس کے بعد آپ کو عام لوگوں کے اندر یہ تڑپ پیدا کرنی پڑے گی کہ وہ یہ سمجھیں کہ جب تک اسلام کا نظام جس پر ہم ایمان رکھتے ہیں، نافذ نہیں ہوتا، اس وقت تک ہمارے لیے کوئی زندگی نہیں۔ اس کے بغیر آپ اس کو نافذ نہیں کرسکتے۔ اگر لوگ قائل ہوں کہ فی الواقع اسلام کا نظام آنا چاہیے اور اس بات کے وہ خواہش مند بھی ہوں کہ یہ نافذ ہو، لیکن اس کے لیے کوئی تڑپ موجود نہ ہو، اس کے لیے کوئی لگن موجود نہ ہو اور یہ ارادہ موجود نہ ہو کہ دوسرے نظام کو ہم نہیں چلنے دیں گے اگر وہ ہمارے اُوپر نافذ ہوگا۔ اس وقت تک قوم اس کے لیے تیار نہیں ہوسکتی کہ ایک غلط اور غیر اسلامی نظام جو چل رہا ہے، وہ جگہ چھوڑنے کے لیے مجبور ہوجائے اور اس کی جگہ اسلامی نظام نافذ کیا جائے۔
  • نفاذِ شریعت کا کام پھولوں کی سیج نہیں:اسلامی نظام کے نفاذ کی کوشش اور اسلامی نظام کا نفاذ کھیل نہیں ہے۔ یہ زبان سے کہنے کے لیے بہت آسان کام ہے، لیکن یہ ایسا کام ہے کہ اس راہ میں ہرقدم انسان کے لیے مصیبتوں، اذیتوں، تکلیفوں اور نقصانات سے اَٹا پڑا ہے۔ آپ اندازہ کیجیے کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نظام کو نافذ کرنے کے لیے آئے تھے تو جن لوگوں نے اس کو قبول کیا تھا ان پر کیا گزری تھی؟ اور جس شخص نے اسے پیش کیا تھا اس کے ساتھ کیا کچھ نہ ہوا؟اگر وہ اس بھٹی سے نہ گزرتے تو اسلامی نظام نافذ نہیں ہوسکتا تھا۔ اُس وقت بھی لوگ اس بھٹی سے گزرے تھے اور گزرنے کے بعد جن لوگوں نے قدم قدم پر چوٹیں کھائی تھیں اور قدم قدم پر تکلیفیں اُٹھائی تھیں۔ قدم قدم پر نقصانات اُٹھائے تھے، گھربار چھوڑے تھے، آگ کے انگاروں پر لٹائے گئے تھے۔ تپتی ہوئی ریت پر لٹا کر پتھر ان پر رکھ دیئے گئے تھے، اور اُلٹا لٹکا کر ان کو بوری میں لپیٹ کر آگ کی دھونی دی گئی تھی۔ جب تک ان سارے راستوں سے گزر نہ گئے، اُس وقت تک اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں اقتدار نہیں دیا۔

ان راستوں سے گزرنے کے بعد بھی بدر و اُحد کے دنوں کو یاد کیجیے اور حُنین کا معرکہ بھی یاد کرلیجیے۔ ایسے تمام حالات میں اپنے سے کئی کئی گنا زبردست طاقتوں کے مقابلے میں آدمی کھڑا ہو اور ہرمصیبت اور ہرمشکل و تکلیف کو یاد کرلے اور کوئی پروا نہ کرے کہ مقابلے میں کتنی بڑی طاقت ہے۔ کوئی پروا نہ کرے کہ کتنی زیادہ چوٹ مجھے لگتی ہے۔ کتنا میں قید کیا جاتا ہوں اور کتنی مجھے اذیت دی جاتی ہے، اور کیسے کیسے زبردست دشمنوں سے مجھے سابقہ پیش آرہا ہے۔ کس آگ کے گڑھے کی طرف لے جایا جارہا ہوں۔ اس سب کچھ کی پروا کیے بغیر جو لوگ آگے بڑھیں گے، وہ یہاں نظامِ شریعت نافذ کرسکتے ہیں اور باطل پر قابو پاسکتے ہیں۔

  • محنت کے اثرات ظاہر ہوکر رہیں گے: یہ چیز جب آپ کریں گے تو اس کے اثرات آہستہ آہستہ پھیلیں گے۔ اس کے اثرات کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں بھی جائیں گے، اور انھی درس گاہوں میں جو کافر بنانے والی ہیں، وہاں اسلامی ذہن کی نسل تیار ہوگی۔ انھی میں وہ نوجوان تیار ہوں گے جو اسلامی نظام چاہتے بھی ہوں گے اور وہ علم بھی حاصل کریں گے کہ اسلامی نظام کیسے نافذ ہو؟ اور اس کے لیے جب وہ منظم ہوکر کام کریں گے تو ان کے مقابلے پر ہرحربہ استعمال کیا جائے گا کہ یہ کسی طرح دب جائیں۔ ان کے اُوپر گولیوں کی بھی بوچھاڑ ہوگی۔ ان کے اُوپر لاٹھیوں کی بھی بوچھاڑ ہوگی۔ ان کو جیلوں میں بھی ٹھونسا جائے گا۔ ان کو اذیتیں بھی دی جائیں گی۔ مگر جب تک وہ اس بھٹی سے نہیں گزریں گے، وہ کھرا سونا نہیں بن سکتے جو اس بھٹی سے گزر کر بنتا ہے۔
  • ملازمین میں اسلامی ذہنیت کا فروغ: اسی طرح سرکاری ملازمین کے اندر بھی ان خیالات کو بڑے پیمانے پر پھیلنا چاہیے کہ وہ کسی ظالم کے آلۂ کار بننے کے لیے تیار نہ ہوں۔ ان کے ہاتھوں سے غلط کام نہ کروایا جاسکے۔ وہ اس بات کے لیے تیار ہوجائیں کہ نوکری چھوٹ جائے، وہ تیار ہوجائیں کہ ان کے بیوی بچّے فاقے کریں گے، لیکن اس کے لیے تیار نہ ہوں گے کہ غلط کام اپنے ہاتھوں سے کریں۔ یہ ذہنیت سرکاری ملازمین میں بھی پیدا ہونی ضروری ہے۔ جب حکومت محسوس کرے گی کہ اب ہمارا کام نہیں چل سکتا، جب تک ہم اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے تیار نہ ہوں ۔ اور اگر ہم تیار نہ ہوں تو پھر اُن لوگوں کے لیے جگہ خالی کردیں جو اس کو نافذ کرسکیں۔
  • رائـے عامہ کو اسلام کے حق  میں بدلنے کی ضرورت: اسی طرح جیسا جمہوری نظام یہاں چل رہا ہے اور انتخابات میں کوشش کی جاتی ہے کہ عوام کو جس طرح بھی ہوسکے دھوکا اور   فریب دے کر، طرح طرح کے وعدے کرکے ان کی تائید حاصل کرلی جائے اور دُنیا کو یہ دکھایا جائے کہ ہم عوام کی رائے سے آئے ہیں۔ آپ کو عوام کی رائے اس قدر بڑے پیمانے پر بدلنی پڑے گی کہ اس طرح کے لوگ عوام کا ووٹ حاصل نہ کرسکیں۔ عوام کے اندر یہ خیال پیدا ہوجائے کہ ہمارا جینا حرام ہے، اگر ہم یہاں اسلامی نظام نافذ نہ کریں۔ عوام یہ سوچ ہی نہ سکیں کہ ہم کسی ایسے شخص کو بھی ووٹ دے سکتے ہیں، جس کی اپنی زندگی میں اسلامی نظام کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دیتی ہے اور جس کا عمل اسلامی نہیں ہے۔ جس کے متعلق ہم جانتے ہیں کہ وہ شاید باقی سب کچھ جانتا ہے مگر بہرحال اسلام نہیں جانتا ، تو ایسے کسی شخص کے لیے کوئی ووٹ نہ ہو۔ یہ حالت آپ کو پیدا کرنی ہوگی۔
  • عزم کے مقابلے میں دھاندلی کامیاب نہیں ہوسکتی: اگر منصفانہ انتخابات ہوں تو بہت اچھا ہے، کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ ٹیڑھی انگلیوں سے گھی نکالا جائے۔ اگر گھی ٹیڑھی انگلی کیے بغیر نکل سکتا ہے تو کوئی احمق ہی ہوگا، جو خواہ مخواہ انگلی ٹیڑھی کرے۔ لیکن اگر قوم کے اندر یہ عزم پیدا ہوجائے کہ ہمیں اس نظام کو یہاں نافذ کرنا ہے، تو پھر کوئی دھن، دھونس اور دھاندلی اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔

آپ یہ بات ضرور یاد رکھیے کہ آپ کو جان مار کر ایک مدت دراز تک کام کرنا پڑے گا، یہاں تک کہ وہ مرحلہ آجائے، جس میں ذرا سی عقل رکھنے والے لوگ بھی اَزخود جگہ خالی کردیتے ہیں، اور خود ہٹ جاتے ہیں۔ وہ مرحلہ جب آجاتا ہے تو ان کو معلوم ہوجاتا ہے کہ اب ہمارا چراغ اس قوم میں نہیں جل سکتا، اس لیے بہتر ہے کہ وہ خود ہی پیچھے ہٹ جائیں۔ اس مرحلے پر پہنچ کر وہ اگر نہ ہٹیں تو ان کو ہٹانا کوئی مشکل کام نہیں رہ جاتا، بشرطیکہ قوم کے اندر پورا عزم پایا جائے۔

میں نے ایک عام تصوّر آپ کے سامنے رکھ دیا ہے کہ شریعت اسلامی کیا ہے؟ اور یہ بھی آپ کے سامنے واضح ہوگیا ہے کہ اس کے نفاذ کے کیا معنی ہیں؟ اور یہ بھی آپ کے سامنے آگیا ہے کہ اس کو نافذ کرنے کا راستہ کیا ہے؟ اب یہ ایک سوال باقی رہ جاتا ہے کہ کیا یہاں اس کا امکان ہے؟

پاکستان میں نفاذِ شریعت کے امکانات

 آپ سے عرض کرتا ہوں کہ امکان کے سوال کے دو جواب ہیں:

  • تدّبر و قربانی سے یہ کام ممکن ہـے: ایک جواب یہ ہے کہ انسان اگر پیہم اور مسلسل سعی کرے اور سوچ سمجھ کر سعی کرے ، بیوقوفوں کی طرح نہیں بلکہ سوچ کر عقل مندی کے ساتھ، تو وہ بڑے سے بڑے پہاڑوں کے اندر سرنگ کھود سکتا ہے۔ وہ سمندروں کے نیچے سے سرنگ بناسکتا ہے۔ سمندروں کے اندر سے تیل نکال سکتا ہے۔ وہ چاند کے اُوپر پہنچ سکتا ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایسی عظیم طاقتیں دی ہیں۔ جب انسان یہ کچھ کرسکتا ہے تو پھر اگر وہ اللہ کا نظام نافذ کرنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہو تو اس کو بھی نافذ کرسکتا ہے، لیکن اس کے لیے جان لڑانی ہے، محنت کرنی ہے، عقل مندی کے ساتھ کام کرنا ہے اور مسلسل جان کھپانی ہے۔

اس کام کو وہی لوگ کرسکتے ہیں جو یہ شرط نہ لگائیں کہ ہم اس کو اپنے سامنے نافذ ہوتا ہوا دیکھیں۔ اس لیے کہ نامعلوم کتنوں کو اس کے نفاذ کی کوشش میں پہلے ہی جان دینی پڑے۔ ذرا سوچیے، بدر میں جن لوگوں نے شہادت پائی اگر وہ جان نہ دیتے اور یہ کہتے کہ ’ہمیں تو اس وقت کے لیے زندہ رہنا ہے جب اس نظام کو نافذ ہوتا دیکھیں گے ، دُنیا پر غالب ہوتا دیکھیں گے‘، تو دُنیا پر اسلام غالب نہیں ہوسکتا تھا۔ مگر یہ غالب ہوا اس طرح کہ بکثرت لوگ اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار رہے۔ انھوں نے اس بات کی فکر نہیں کی کہ یہ نافذ ہوسکے گا یا نہیں۔ انھوں نے صرف یہ دیکھا کہ یہی ہمارا فرض ہے۔ ہمیں اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنی ہے، جس کے نتیجے میں شہادت آتی ہے تو اس سے بڑی کوئی کامیابی نہیں۔ اس نظریئے کے ساتھ، اس سوچ کے ساتھ وہ آئے اور انھوں نے آکر کام کیا۔ ان کی قربانیوں کو اللہ تعالیٰ پہلے ہی قبول کرنے والا تھا، وہ قبول ہوگئیں۔ لیکن جو جان لڑانے والے تھے اور بچ رہے، اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ سے دین اس طرح سے غالب کیا کہ دُنیا کے بڑے حصے پر چھا گیا۔

  • اگر جدوجہد کے باوجود یہ نافذ نہیں ہوتا تو بدنصیبی ہے: اس امر کا بھی امکان ہے کہ آپ تمام عمر جدوجہد کریں اور پھر بھی یہ نظام نافذ نہ ہو۔ اس کی وجہ اس نظام کی کمزوری نہیں ہوگی۔ اگر آپ اس نظام کے لیے سعی کرنے کا حق ادا کریں تو یہ آپ کی کمزوری نہیں ہوگی، بلکہ یہ تو اُس قوم کی بدبختی ہوگی جو ایسے لوگوں کا ساتھ نہ دے۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو وہ چیز نہیں دیتا، جس کا وہ اپنے آپ کو اہل ثابت نہیں کرتی۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ قوم اپنے آپ کو فساق و فجار کے لیے تیار کرے اور انھی کی قیادت و سیادت قبول اور برداشت کرنے پر راضی ہوجائے اور یہ چاہے کہ فساق و فجار ہی ان کے اُوپر معاملات چلانے والے ہوں، تواللہ تعالیٰ زبردستی ان کو صالح، متقی اور امانت دار قیادت نہیں دے گا۔ اگر یہ نہیں ہوتا تو وہ لوگ جنھوں نے ایسی قوموں میں کام کیا اور اپنی عمریں ان کے اندر کھپادیں اور ان کی قوم سیدھے راستے پر نہ آئی، تو وہ ناکام نہیں تھے بلکہ وہ قوم ناکام تھی۔

حضرت لوط علیہ السلام کے قصّے میں آتا ہے، جس وقت فرشتے قومِ لوطؑ پر عذاب دینے کے لیے بھیجے گئے تو انھوں نے کہا: فَمَا وَجَدْنَا فِيْہَا غَيْرَ بَيْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِيْنَ۝۳۶ۚ (الذاریات ۵۱:۳۶)، یعنی پوری قوم میں ایک مسلم گھر تھا اور کوئی نہیں۔اب اس کے بعد ہوتا کیا ہے؟ جو مسلم گھر تھا، اس کے لوگوں سے کہا گیا کہ نکل جائو اور حضرت لوطؑ سے کہا گیا کہ بیوی کو چھوڑ جائو، یہ عذاب میں پکڑی جائے گی، یعنی اس گھر میں بھی کافرہ موجود تھی اور وہ گھر پورے کا پورا مومن نہیں تھا۔ ان کو چھوڑ دیا گیا اور اس کے بعد جو عذاب لایا گیا وہ آپ جانتے ہیں کہ قرآن پاک میں واضح ہے۔ لہٰذا، اگر ایک قوم نہ چاہتی ہو کہ ان کے اُوپر اسلامی نظام نافذ ہو، ایک قوم اگر نہ چاہتی ہو کہ اس کے معاملات ایمان دار اور خداترس لوگ چلائیں، ایک قوم خود بددیانت اور بے ایمان لوگوں کو چاہتی ہو، تو اللہ تعالیٰ ان کو زبردستی نیک لوگ نہیں دیتا۔ان نیک لوگوں کا اجر اللہ کے پاس ہے، وہ ناکام نہیں ہیں۔ اگر ان کی بات نہ چلے تو وہ ناکام نہیں ہیں، ناکام تو وہ قوم ہے جس نے ان کا ساتھ نہ دیا۔

  • امکان کو نگاہ میں رکھ کر کام نہ کریں: اس پہلو کو نگاہ میں رکھ کر کام کیجیے اور یہ سمجھ کر نہ کیجیے کہ اس کا امکان ہو تو ہم کام کریں گے۔ یہ سوال جو لوگ کرتے ہیں کہ کامیابی کا کیا امکان ہے؟ تو ان سے مَیں پوچھتا ہوں کہ بھائی فرض کرو کہ اس کا امکان نہیں ہے، تو کیا آپ یہ رائے رکھتے ہیں کہ جس چیز کا امکان ہے اس کے لیے کام کریں؟ یہ تو پھر مومن کا کام نہیں ہے۔

مومن کا کام تو یہ ہے کہ اگر اس کے نافذ ہونے کا ایک فی صد امکان نہ ہو بلکہ ایک فی ہزار بھی امکان نہ ہو، تب بھی وہ اس کے لیے جان لڑائے۔ اس راستے میں کوشش کرتے ہوئے اُس کا جان دے دینا کامیابی ہے، اور کسی غلط راستے پر جاکر وزیراعظم اور صدراعظم بن جانا کامیابی نہیں، بلکہ کھلی ناکامی ہے۔

  • آپ کا فرض کیا ہـے؟:اس بات کو اچھی طرح سے سمجھ لیجیے کہ امکان کی شرط کے ساتھ آپ کو یہ کام نہیں کرنا بلکہ یہ سمجھتے ہوئے کرنا ہے کہ یہ ہمارے کرنے کا کام ہے اور اس کے سوا ہمارے کرنے کا کوئی کام نہیں۔ مثلاً اگر ایک آدمی کے سامنے یہ سوال آئے کہ پیشاب بھی پینے کی چیز ہے، تو جو آدمی طہارت کی ذرّہ برابر بھی حِس رکھتا ہو، تو وہ سوچ ہی نہیں سکتا کہ یہ بھی کوئی پینے کے قابل چیز ہے۔ وہ برابر اسی تلاش میں رہے گا کہ اسے پینے کے لیے صاف پانی ملے، لیکن کبھی اس کا ذہن اس طرف نہیں جائے گا کہ پیشاب بھی کوئی پینے کے قابل چیز ہے۔

بالکل اسی طرح وہ آدمی جو اسلام کا سچّے دل سے قائل ہے، وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ دوسرے وہ راستے جن میں آسانیاں ہیں، سہولتیں ہیں، عیش ہے، فائدے ہیں، ان کی طرف جائے کہ انھی کا امکان ہے اور اسلام کا کوئی امکان نہیں۔ ایک مسلمان کے سوچنے کے قابل بھی وہ چیز نہیں ہے۔ وہ اُس طرف کبھی حسرت بھری نگاہ بھی نہیں ڈالے گا۔ ان کے محلات اور ان کی کوٹھیوں پر اور ان چیزوں کے بارے میں وہ کبھی نہیں سوچے گا کہ کاش یہ دولت میرے پاس آئے! اس وجہ سے صرف وہی لوگ اس کام کو کرسکتے ہیں، جو کامیابی کے امکان کو چھوڑ کریہ دیکھیں کہ ہمارا فرض کیا ہے؟ اور اس فرض کو ادا کرنے کے لیے ہرتکلیف، ہرمصیبت اور ہرمشکل برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں۔ یہی ان کے کرنے کا کام ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگ پیدا کر دیئے اور انھوں نے پوری ہمت کے ساتھ اس کے لیے کام کیا، تو میں یہ نہیں سمجھتا کہ کون سی طاقت یہاں ایسی ہے، جو انھیں آگے بڑھنے سے روک سکے۔ اللہ نے چاہا تو اس میں کامیابی ہی ہوگی۔

میں نے دوسرا پہلو آپ کے سامنے پیش کیا، وہ اس لیے کہ کامیابی کی شرط کے ساتھ آپ کام نہ کریں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر اس ملک کے اندر ایک مٹھی بھر تعداد ایسے لوگوں کی موجود ہو، جو پوری تنظیم کے ساتھ، پورے ڈسپلن کے ساتھ، عقل و ہوش کے ساتھ اور دیوانگی کے ساتھ، کہ یہ دونوں چیزیں ساتھ چاہییں، یہ کام کریں، اس میں جان لڑائیں اور مسلسل جان لڑاتے چلے جائیں اور ہرتکلیف اور خطرے کو انگیز کرنے کے لیے تیار ہوں، تو وہ لوگ جو اس وقت ایک غیر اسلامی نظام کو چلا رہے ہیں، وہ ایسی طاقت نہیں رکھتے کہ ان کے سامنے ٹھیرسکیں۔

  • نظام باطل کھوکھلا ہوتا ہـے: واقعہ یہ ہے کہ آپ اس بات کو دیکھیے کہ جو لوگ اس نظام کو چلا رہے ہیں، ان کی حالت کیا ہے؟ ان میں سے کوئی دو آدمی ایک دوسرے سے مخلص نہیں ہیں۔ ان کی دوستیاں بے غرضی اور بے لوثی پر مبنی نہیں، قلبی محبت پر مبنی نہیں، بلکہ مفاد پر مبنی ہیں۔ جس کے ساتھ ہیں، اس کا ساتھ بھی دے رہے ہیں اور دل میں گالیاں بھی دے رہے ہیں، بلکہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ بات نہیں پہنچے گی تو وہ اپنی نجی مجلسوں میں بھی کھلم کھلا کہتے ہیں۔

نظامِ باطل بظاہر بڑے زور کے ساتھ نافذ ہوتا ہے، لیکن اصل میں کھوکھلا ہوتا ہے۔ اس میں قائم رہنے کی طاقت نہیں ہوتی۔ جب تک اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے کہ ایسے لوگوں کو موقع دیا جائے، تو انھیں موقع ملتا ہے۔ وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے عقل مندی کرکے وہ تمام راستے بند کردیئے ہیں جن سے خطرہ آسکتا ہے، لیکن ایک راستہ اللہ تعالیٰ نے ایسا رکھ چھوڑا ہے جدھر سے اس کو خطرہ لانا ہوتا ہے، اس راستے کو وہ بند نہیں کرسکتے۔ اس طرح سے ایسے نظام جو قائم ہوتے ہیں، وہ بار بار جمتے اور اُکھڑتے ہیں۔ حالات اس انتظار میں ہیں کہ کوئی ایسا گروہ آئے، جو ایک مضبوط بنیاد پر ان کے لیے ایک نظامِ حق قائم کرے۔ جب تک ایسا گروہ سامنے نہیں آئے گا اور اس مرحلے تک نہیں پہنچ جائے گا کہ وہ نظامِ حق کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرسکے، اس وقت تک یہاں کھوکھلے نظام ہی قائم ہوتے اور بدلتے رہیں گے۔ انھیں چلانے والے اشخاص بدلتے چلے جائیں گے اور وہ کھوکھلا نظام جوں کا توں رہے گا۔

  • حالات اہلِ حق کے منتظر ہیں!آپ دیکھیے یہاں جو نظام آزادی کے بعد سے چلا آرہا ہے، اس میں صرف اشخاص بدلتے گئے، مگر قسم ایک ہی رہی ہے، نظام کی نوعیت ایک ہی رہی ہے، اس کی فطرت ایک ہی رہی ہے۔ یہی صورتِ حال جاری رہے گی اس انتظار میں کہ کب وہ لوگ آتے ہیں؟ اگر وہ لوگ نہ آئے تو نہیں معلوم اس قوم کا کیا حشر ہوگا کہ یہ مسلسل منفی انقلابات کو برداشت بھی کرسکے گی یا نہیں۔ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس قوم کو کوئی بھی چیز بچا سکتی ہے تو وہ یہی نظامِ حق ہے۔ وہ یہاں مضبوط بنیادوں پر قائم ہو، قبل اس کے کہ اللہ کا عذاب فیصلہ کردے کہ اس قوم کو زندہ نہیں رہنا چاہیے۔