دسمبر ۲۰۲۴

فہرست مضامین

فسطائیت کا دوسرا نام ’عوامی لیگ ‘

پروفیسرعبداللہ احسن | دسمبر ۲۰۲۴ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت میں مشیرِ قانون ڈاکٹر آصف نذرل نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’عوامی لیگ کے خون میں فسطائی صفات پائی جاتی ہیں‘‘۔ گذشتہ دنوں بنگلہ اکیڈمی میں منعقدہ ایک نشست میں ان کا کہنا تھا کہ ’’نہ صرف حالیہ جولائی اور ۲۸؍ اکتوبر ۲۰۰۶ء کا قتل عام، بلکہ ۱۹۷۱ء کے بعد بھی عوامی لیگ نے جے ایس ڈی اور سربہارا پارٹی کے کارکنوں سمیت ہزاروں شہریوں کےخون سے ہاتھ رنگے تھے۔ سیکٹر کمانڈر میجر جلیل کی گمشدگی اور سراج سکندر کے قتل میں بھی عوامی لیگ ملوث تھی۔ اس سے بے شک و شبہ یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ عوامی لیگ کے خون میں فسطائیت کا زہر موجود ہے‘‘۔

موجودہ عبوری حکومت سے منسلک کئی دیگر نمایاں افراد بھی اس جلسے میں شریک تھے۔ ڈاکٹر آصف کا ’بے شک و شبہ‘ کا یہ دعویٰ نہایت اہم حقیقت ہے۔ قانونی نظام میں ’بے شک و شبہ‘ کی اصطلاح یقین کی آخری حد کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ اس بات سے مجھے عوامی لیگ کی کئی بدمعاشیاں یاد آتی ہیں، جن کا میں خود شاہد ہوں۔ ڈاکٹر آصف نے ان واقعات کا ذکر کیا ہے، جو قیام بنگلہ دیش کے بعد وقوع پذیر ہوئے۔ لیکن تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے میں انھیں ۱۹۷۱ء کی تحریک سے بھی پیچھے لے جانا چاہتا ہوں۔ عوامی لیگ کا جنم قیامِ بنگلہ دیش سے پہلے کی بات ہے۔

عوامی لیگی ارکان کے ہاتھوں مشرقی پاکستان اسمبلی کے نائب اسپیکر شاہد علی پٹواری کا قتل تو میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے کی بات ہے، لیکن خود میں نے اپنی جوانی میں عوامی لیگ کے طلبہ ونگ چھاترو لیگ (اسٹوڈنٹس لیگ) کو کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں ہاکیاں، ڈنڈے اور آہنی سریے اٹھائے دہشت پھیلاتے ہوئے دیکھا ہے۔ تب اسے ’مشرقی پاکستان چھاترو لیگ‘ (ایسٹ پاکستان اسٹوڈنٹس لیگ: EPSL)کہا جاتا تھا۔ ان دنوں ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ وہاں پر این ایس ایف کو سپورٹ کرتی تھی جو کالجوں اور جامعات میں پھیلی ہوئی ایسی ہی ایک اور بدمعاش جماعت تھی۔ بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی مشرقی پاکستان چھاترو یونین (ایسٹ پاکستان اسٹوڈنٹس یونین:EPSU، ایک اتحادی کی طرح) این ایس ایف اور دوسری طلبہ تنظیموں سے نپٹنے میں مشرقی پاکستان چھاترو لیگ کی مدد کرتی تھی۔

۱۹۶۹ء کے شروع میں ایوب خان کے خلاف ایک بڑی مہم شروع ہو ئی۔ اگرچہ مشرقی پاکستان چھاترا یونین اور مشرقی پاکستان چھاترو لیگ اولین صفوں میں تھیں، لیکن حزب اختلاف کی دیگر تمام جماعتیں بشمول روایتی مسلم لیگ (تب کونسل مسلم لیگ کہلاتی تھی)، جماعت اسلامی، نظام اسلام پارٹی، دیگر چھوٹی جماعتیں اور عوامی لیگ بھی اس میں شامل تھیں۔ میں اپنے آبائی شہر میں اس تحریک کے جلسوں کا حصہ بنا کرتا تھا، لیکن وہاں چھاترو لیگ اور چھاترو یونین کی طرف سے لگائے جانے والے نعروں سے متفق نہیں تھا۔ ایک نعرہ ’لگائو لگائو، آگ لگائو‘ بھی تھا۔ یہ تحریک آج کل کی تعریف کے مطابق بظاہر پُرتشدد تو نہیں تھی لیکن پُرامن بھی نہ تھی۔ ایوب مخالف تحریک کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ہماری صفوں میں موجود کئی نامعلوم اور گمنام لوگ مشرقی پاکستان چھاترو لیگ کے اہم رہنما بن گئے۔

اس کے بعد جنرل یحییٰ خان کی حکومت آئی، جو مشرقی پاکستان کی جگہ بنگلہ دیش دے گئی۔ ایک عام تاثر پایا جاتا ہے کہ ۱۹۷۰ء کے انتخابات صاف شفاف تھے لیکن ایسا نہیں ہے۔ عوامی لیگ اور مشرقی پاکستان میں موجود مارشل لا حکومت، دونوں نے اس تاثر کو مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ ۱۹۷۰ء میں پوری انتخابی مہم کے دوران عوامی لیگ کے غنڈے خوف کی فضا پیدا کرکے حزبِ اختلاف کی ریلیوں اور جلسوں کو خراب کرتے رہے۔ ۱۸ جنوری ۱۹۷۰ء کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جماعت اسلامی کے جلسے پر حملہ کر کے دو افراد کو قتل اور سیکڑوں کو زخمی کر دیا گیا۔ جماعت اسلامی کے امیر سید مودودی اس جلسے سے خطاب کرنے والے تھے، لیکن عوامی لیگ سے وابستہ کارکنوں اور طلبہ نے باقاعدہ میدان پر ہلہ بول دیا۔ حکومت اور عوامی لیگ دونوں اس جارحیت میں شامل تھے۔ ایک خاموش مددگار، دوسرا حملہ آور، یہی صورتِ حال پوری انتخابی مہم کے دوران جاری رہی۔

وقت کے ساتھ ساتھ عوامی لیگ کا فسطائی کردار اور واضح ہوتا گیا۔ انتخابات کے روز ۷دسمبر۱۹۷۰ء کو مشرقی پاکستان کے کئی علاقوں میں عوامی لیگ کے غنڈوں نے دیگر جماعتوں کے پولنگ ایجنٹوں کو انتخابی مراکز میں بھی بطورِ پولنگ ایجنٹ بیٹھے تک نہ دیا۔ یک طرفہ من مانی کے انتخابات جیتنے کے بعد مزید ماردھاڑ کی گئی۔ اگرچہ یکم مارچ ۱۹۷۱ءکو جو ظلم کی سیاہ رات شروع ہوئی، اس کی ذمہ داری حکومت پاکستان پر ہے لیکن عوامی لیگ کے بنگالی بدمعاشوں نے جس طرح صورتِ حال کو مزید خراب کرنے کی کوشش کی، اسے بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پولیس اور مسلح افواج کے غیر بنگالی اہلکار اور ان کے بیوی بچّے آسان ہدف تھے اور صوبے کے مختلف علاقوں میں ایسے کئی افراد کو بے دردی سے ذبح کیا گیا۔ جنسی بے حُرمتی کی گئی، لاشوں کے ٹکڑے کیے گئے۔ بہت سی جگہوں پر بہاری بھی ہدف قرار پائے۔ تباہ حال شہری انتظامیہ مکمل ناکام ہو گئی اور ملک خانہ جنگی کے حوالے کر دیا گیا۔

۲۵مارچ کو فوج نے ’آپریشن سرچ لائٹ‘ شروع کیا تو یہ خانہ جنگی، ’جنگ آزادی‘ میں بدل دی گئی۔ بہت سے بہاری خاندان اس نسل کشی کا نشانہ بن گئے جو مارچ ۱۹۷۱ء میں شروع ہوئی اور نو مہینے کی جنگ اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بھی جاری رہی۔ ایسی کئی لرزہ خیز کہانیاں ہمیں عظمت اشرف کی کتاب Refugee  اور قطب الدین عزیز کی کتاب Blood and Tears میں  ملتی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ مشیرقانون ڈاکٹر آصف نذرل قیامِ بنگلہ دیش سے پہلے اور فوراً بعد عوامی لیگ کی غنڈا گردی سے واقف ہیں یا نہیں۔

اسی پس منظر میں ہم اس سلوک کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے جس کا ۱۶دسمبر۱۹۷۱ء کے بعد کچھ بنگالی بولنے والوں کو بھی سامنا کرنا پڑا۔ ان لوگوں میں نظام اسلام پارٹی کے مولوی فرید احمد اور ڈھاکہ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سید سجاد حسین کا نام نمایاں ہے۔ مولوی فرید احمد جو ایک بڑے عالم اور رکن پارلیمنٹ بھی تھے ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کو سنگسار کر دیے گئے۔ پروفیسر سجاد حسین کو مُردہ سمجھ کر گلستان سینما ہال کے سامنے پھینک دیا گیا، لیکن وہ بچ گئے اور انھوں نے اپنی کتاب The Waste of Time بھی لکھی۔

عوامی لیگ اور اس کے حامیوں نے بنگلہ دیش کی تاریخ کو بری طرح مسخ کیا ہے۔ میں نے یونی ورسٹی کی سطح پر تیس سال تک تاریخ پڑھائی ہے لیکن میں نے کسی علاقے کی تاریخ میں ایسی تحریف اور حقائق کی پامالی نہیں دیکھی جو ہمیں بنگلہ دیش کی تاریخ میں ملتی ہے۔ اس لیے پُرزور تجویز پیش کرتا ہوں کہ موجودہ حکومت تاریخ کے نصاب کو اَزسرِ نو مرتب کرے۔ حال ہی میں عوامی لیگ کے نام نہاد طلبہ ونگ چھاترو لیگ پر پابندی لگائی گئی ہے، لیکن اگر اس کی خاطر خواہ وجوہات پیش نہ کی گئیں تو یہ قدم الٹا نقصان کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ چنانچہ ایک ایسا نصاب جو منطقی و عقلی بنیادوں پر بنگلہ دیش چھاترو لیگ اور اس کی پیش رو مشرقی پاکستان چھاترو لیگ کی تاریخ پیش کرے، ایک اچھی بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔

بنگلہ دیشی سیاست کے سامنے اس وقت سب سے بڑا سوال عوامی لیگ کے مستقبل کا ہے، قدرتی طور پر حالات اس انتہا تک پہنچ چکے ہیں۔ ملک میں شاید ہی کوئی اختلاف کرے کہ شیخ حسینہ کی حکومت اپنے فسطائی رویے کے خلاف ہونے والے بڑے عوامی احتجاج کے باعث رخصت ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ عبوری حکومت کے مشیر اعلیٰ ڈاکٹر محمد یونس نے شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ کو تمام ’فسطائی خصوصیات‘ کا مظاہرہ کرنے پر قصوروار قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس پارٹی کی فی الحال ملکی سیاست میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ عوامی لیگ کا کیا کیا جائے؟ کیا اس پر باقاعدہ پابندی لگا دی جائے؟ اگرچہ ایک بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) نے عوامی لیگ پر پابندی کی مخالفت کی ہے، حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ عوامی لیگ جیسے فاشسٹ اور کرپٹ ٹولے کو بنگلہ دیشی سیاست میں واپسی کا کوئی حق حاصل نہیں۔

چنانچہ اس صورتِ حال میں عوامی لیگ کا مستقبل کیا ہونا چاہیے؟

ہم اپنے تاریخی شعور سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ دنیا کے دوسرے ممالک نے فسطائی سیاسی جماعتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ جرمنی نے جنگ کے بعد ہٹلر کی ’نازی پارٹی‘ پر پابندی لگا دی تھی۔ اٹلی نے بھی اپنی ’نیشنلسٹ فاشسٹ پارٹی‘ کے ساتھ یہی کیا تھا۔ ان ممالک نے تعلیمی اصلاحات، عدالتی فعالیت اور قانونی طریقوں سے آمریت کی واپسی کا دروازہ بھی بند کردیا۔ بنگلہ دیش کا المیہ یہ ہے کہ ’جولائی اگست ۲۰۲۴ء کے طلبہ انقلاب‘ کے بعد عبوری حکومت کے چند سرکردہ رہنماؤں کا موقف یہ تھا کہ ملک کو چلانے کے لیے ایک آئین درکار ہے، چنانچہ انہوں نے اسی دستور کے ساتھ جڑے رہنے کا فیصلہ کیا، جسے استعمال کر کے عوامی لیگ نے اپنی فسطائی حکومت قائم کی تھی۔ انھیں یہ احساس نہیں ہو سکا کہ یہ آئین خود ’غیر آئینی‘ ہے۔

انقلاب نے اس کے جواز پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ سوال بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ کیا ملکوں کو چلانے کے لیے آئین ضروری بھی ہیں یا نہیں؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ دنیا میں بہت سے ممالک کسی باقاعدہ دستور کے بغیر چل رہے ہیں۔ ان کا کام شہریوں کے درمیان اتفاق رائے سے چلتا ہے۔ فرانسیسی مفکر ژاں ژاک رُوسو (م:۱۷۷۸ء)نے اس اتفاق رائے کو ’اجتماعی امنگ‘ کا نام دیا ہے۔ کیا بنگلہ دیشیوں کے ہاں اس وقت ایک اجتماعی امنگ موجود ہے؟ اس کا جواب ہے: ’’بالکل موجود ہے‘‘۔ طلبہ نے انصاف کی بالادستی کے لیے اپنی تحریک کچھ مطالبات کو سامنے رکھتے ہوئے شروع کی تھی۔ لیکن جب انھیں احساس ہوا کہ حکومت ان مطالبات پر توجہ دینے کے لیے تیار نہیں، تو انہوں نے حکومت کی رخصتی کو ہی اپنا واحد مطالبہ بنا لیا۔ ساری قوم طلبہ کے پیچھے کھڑی ہوئی اور انقلاب کامیاب ہو گیا۔ یہ کامیابی انقلابِ فرانس سے کسی طرح بھی کم نہیں تھی۔ اتفاق سے فرانس کا انقلاب بھی جولائی اگست ۱۷۸۹ء میں رونما ہوا تھا۔ چنانچہ کون کہہ سکتا ہے کہ بنگلہ دیش میں ایک اجتماعی امنگ موجود نہیں؟ طلبہ کے تمام ابتدائی مطالبات کو نئے دستور کی بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔ یہ واضح رہے کہ اجتماعی امنگ پوری آبادی کی اُمنگوں کا نام نہیں اور نہ یہ اکثریت کی نمائندہ ہوتی ہے۔ اس کے برعکس یہ پوری آبادی کے بنیادی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے ایک بڑی اکثریت کی نمائندگی کرتی ہے‘‘۔

چند ہفتے پہلے اقوام متحدہ کے ’ادارہ برائے انسانی حقوق‘ (UNHR)کے سربراہ نے بنگلہ دیش کا دورہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’انصاف کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے، اس میں تمام ہلاک شدگان اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نشانہ بننے والوں کو شامل ہونا چاہیے‘‘۔ کیا ان کا اشارہ عوامی لیگ کے ارکان کی جانب ہے، جن میں سے کچھ واقعی جولائی اگست میں تشدد کا نشانہ بنے؟ کیا بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی تکثیریت کے نام پر عوامی لیگ کے غنڈوں کو واپس لانے کی کوشش کر رہی ہے؟ اقوام متحدہ نے بنگلہ دیش کی موجودہ صورتِ حال کو سب سے زیادہ ہیجان خیز قرار دیا ہے۔ یقیناً ایسی صورتِ حال کو سنبھالنا مشکل ہوتا ہے، لیکن عوامی لیگ کی فسطائیت کا بندوبست کیے بغیر موجودہ انتظامیہ کبھی بنگلہ دیش کو مستحکم نہیں کر سکے گی۔

پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا میں فسطائیت کے خلاف کوئی بھی انقلاب بغیر خون بہائے مکمل ہوا ہے؟

ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ’’فسطائیت عوامی لیگ کے خون میں شامل ہے‘‘۔ تو کیا ہمیں عوامی لیگ سے اس لیے کوئی امتیازی سلوک کرنا چاہیے کہ یہ تحریک ایک زمانے میں بہت مقبول رہی ہے؟ یہاں ایک دفعہ پھر ہم جرمنی کی مثال لیتے ہیں۔ ہٹلر جمہوری طریقے سے کھلے عام، پاپولر ووٹ لے کر اقتدار میں آیا تھا اور اسی نے پہلی جنگ ِ عظیم کے تباہ شدہ جرمنی کو مکمل طور پر دیوالیہ ہونے سے بچایا تھا۔ پھر اس نے بڑی محنت سے دنیا کا مقابلہ کرنے کے لیے جرمنی کو ایک طاقتورملک بنا دیا۔ انھی حیران کن اور قابلِ رشک کامیابیوں نے اس کے دماغ میں وہ ہوا بھر دی کہ اس نے نہ صرف جرمنی میں اپنی آمریت قائم کر لی، بلکہ وہ باقی دنیا کو بھی اپنے زیر نگیں لانا چاہتا تھا۔ تاہم، دنیا نے ان کامیابیوں کے باوجود ہٹلر کو معاف نہیں کیا۔

اس وقت سب سے بڑا کام اجتماعی امنگ اور ایک مقبول رہنما کی اُمنگوں کے درمیان حدِ فاصل قائم کرنا ہے۔ رُوسو کے بقول احتساب، انسانی وقار کا احترام، شفافیت اور سیاسی شمولیت اس اجتماعی امنگ کے اظہار کے لیے ضروری ہیں۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عوامی لیگ نے اپنی عمر کے تقریباً ستّر برسوں میں ان خصوصیات کا مظاہرہ کیا ہے؟ جواب ہے: ’’ہرگز نہیں، بلکہ اسی میں ناکامی کے باعث طلبہ اس کے خلاف کھڑے ہوئے۔ چنانچہ موجودہ حکومت کو چاہیے کہ اجتماعی اُمنگوں کو بروئے کار لانے کے لیے پوری کوشش کرے‘‘۔

اس امر کے بڑے واضح ثبوت موجود ہیں کہ راندۂ درگاہ عوامی لیگ کے بدمعاش، موجودہ حکومت کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ’’آزادی رائے کی جمہوری روایت کا احترام کیا جائے‘‘ لیکن ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ جمہوری روایات کی تباہی کے سب سے بڑے ذمہ دار وہ خود ہیں۔ یہ صورتِ حال موجودہ حکومت سے ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کرتی ہے۔ ہمارے شعور کے مطابق عوامی لیگ پر پابندی لگانا جمہوری روایات کا تقاضا ہے۔ ملک میں انصاف کی حکمرانی اور عوامی لیگ کی آمریت کے خلاف جانیں دینے والوں کا احترام کرتے ہوئے حکومت کو ایسا قدم اٹھانے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔