فرزانہ تبسم قاضی


اللہ تعالیٰ نے یہ ساری کائنات اور انسان کو ایک نہایت اہم مقصد کی خاطر تخلیق کیا ہے تاکہ اس دنیا پر الله کی خلافت و نیابت قائم ہو۔ اللہ ہی کے احکام کے مطابق اس دنیا کا نظام چلے، اللہ ہی کا دین اور اس کے قوانین نافذ ہوں، اور تمام انسان اللہ کے دین سے آشنا ہو جائیں ۔

  • نکاح اور اس کے مقاصد :خداوند کریم نے خلافتِ ارضی جیسے عظیم مقصد کی تکمیل کی خاطر انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اور مرد و عورت کے رُوپ میں پیدا کیا۔ لیکن انھیں جانوروں کی طرح بے لگام نہیں چھوڑ دیا کہ جس جانور یعنی (اپنی ہی جنس ) سے چاہیں اپنی فطری پیاس بجھائیں بلکہ ان کے لیے ایک ضابطۂ حیات مقرر کیا اور ان پر کچھ حدود و قیود اور پابندیاں عائد کرکے انھیں نکاح کے مقدس بندھن میں باندھ دیا، تا کہ اس سے نسل انسانی پروان چڑھے اور خاندان کی تشکیل ہو۔ اس کے ساتھ ہی اپنی اولاد کے لیے ان کے دلوں میں محبت کا بے کراں سمندر رکھ دیا، تاکہ نسلِ انسانی اپنے والدین اور خاندان کے افراد کی محبتوں کے سائے تلے بہترین کردار کے ساتھ پروان چڑھے۔ مرد و عورت کی جسمانی ساخت اور نفسیاتی ترکیب مقاصد ِزوجیت کے لیے مناسب بنائی اور دونوں میں ایک دوسرے کے لیے صنفی کشش رکھ دی، تاکہ وہ ایک دوسرے کے لیے پیدا کی گئی کشش کی تکمیل کے ذریعے اپنی محبت سے نسلِ انسانی کی پیدائش کا ذریعہ بنیں اور پروان چڑھائیں اور اللہ تعالیٰ کے مقصدِ خاص خلافت ارضی کی ذمہ داری اٹھائیں اور مرد و عورت کو کھیت اور کسان سے تشبیہ دی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’تمھاری عورتیں تمھاری کھیتیاں ہیں ‘‘۔ (البقرہ۲:۲۲۳)

جس طرح کسان کھیت سے پیداوار حاصل کرتا ہے، اسی طرح تم بھی اپنی کھیتیوں یعنی عورتوں کے ذریعے اللہ کی زمین کو آباد رکھنے کے لیے نسل انسانی کو بڑھائو، جس طرح کسان کھیت میں بیج ہی نہیں بوتا ، بلکہ جو فصل تیار ہوتی ہے اس کی رکھوالی بھی کرتا ہے اور جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے اسے مہیا کرتا ہے۔ اسی طرح عورت اور اس سے پیدا ہونے والی نسل بھی مکمل طور سے مرد کی محتاج ہوتی ہے کہ وہ نہایت توجہ اور دھیان سے اس کی نگہبانی کرے اور انھیں پروان چڑھائے۔

مرد و عورت کے تعلق کو حیوانوں کی طرح محض شہوانی غرض و غایت پوری کرنے والا نہیں بنایا ، بلکہ مرد و عورت کی زوجیت کا یہ بھی مقصد بتایا کہ ان میں آپس میں صنفی محبت، قلبی لگاؤ اور دلی وابستگی ہو۔ دونوں ایک دوسرے کے شریک راز اور شریک غم ہوں ۔

ارشاد خداوندی ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے خود تم ہی میں سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمھارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی‘‘ (الروم ۳۰:۲۱)۔ انھیں ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ۔ ارشا د ہے:، ھُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ۝۰ۭ (البقرہ۲: ۱۸۷) ’’وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو‘‘۔

یعنی جس طرح لباس اور جسم کے درمیان کوئی پردہ نہیں رہ سکتا، اسی طرح تمھارا اور تمھاری بیویوں کا تعلق ہے۔ وہ تمھاری شریک راز ہیں اور سکون وراحت کا سرمایہ ہیں۔ نکاح کو نبی کی سنت قرار دیا اور حکم دیا کہ کوشش کی جائے کہ کوئی بھی بغیر نکاح کے نہ رہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں، اور تمھارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں، ان کے نکاح کر دو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے گا ، اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے‘‘ (النور۲۴:۳۲)۔ اس ضمن میں اسلامی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ جو لوگ کچھ مسائل کے سبب نکاح نہ کر سکتے ہوں، ان کے نکاح کروا دیں کیونکہ نکاح نہ کیے جانے سے آدمی غلط راہ پر چل پڑتا ہے۔

  • فطرت سے غداری : خداوند کریم نے نکاح کے علاوہ تمام ذرائع سے جنسی تسکین پورا کرنے کو حرام قرار دیا اور سخت سزائیں مقرر کیں اور آخرت میں ذلت کے عذاب کی وعید بھی سنائی۔ باوجود اس کے جو شخص اللہ تعالیٰ کے بتائے گئے نکاح کے طریقے کے بر خلاف غلط طریقے سے اپنی شہوانیت کی تسکین کا سامان کرتا ہے، وہ یا تو زنا کا راستہ اپناتا ہے یا فتنہ ہم جنسی میں ملوث ہے ۔ اس طرح وہ فطرت سے غداری بلکہ جنگ کرتا ہے ۔ کیونکہ قدرت نے جس مقصد کے لیے اس میں جنسی کشش رکھی تھی اور جو ذمہ داریاں اس کے تحت سونپی تھیں، وہ ان سے رُو گردانی کرتا ہے اور خالق کائنات کے منصوبے یعنی نکاح کے ذریعے جو خاندان اور تمدنی ادارے وجود میں آئے تھے، ان میں وہ اپنی قوتوں کو غلط طریقے سے استعمال کر کے نظام خاندان اور اجتماعی تمدن کو تباہ و برباد کرنے اور نسل انسانی کی رکاوٹ کا سبب بنتا ہے۔ وہ معاشرت کو بے راہ روی اور اخلاقی پستی کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ یعنی بیک وقت وہ کئی جرائم کا ارتکاب کرتا ہے۔

مردوں کی طرح عورتیں بھی اگر زنا یا ہم جنسی میں ملوث ہوتی ہیں تو وہ بھی ان سب جرائم کی مرتکب ہوتی ہیں ۔ تشویش تو اس بات کی ہے کہ ہم جنسیت جو کہ نہایت گھناؤنا فعل ہے،  نسل انسانی کو روکنے والا عمل ہے اور خاندانی نظام کو تباہ و برباد کرنے والا خلافِ فطرت عمل ہے۔ اس کو گہرے سازشی مقاصد کے تحت پھیلایا اور عالمی ضابطوں اور ابلاغی دبائو کے تحت جواز مہیا کیا جارہا ہے۔  اگر اسے قانونی جو از دے د یا جائے تو لوگوں کا رجحان ہی ختم ہونے لگے گا کہ نکاح کی بندش میں بندھ کر نوع انسانی کی پیدائش اور افزائش کی ذمہ داری ادا کریں ۔

  • باہم رضامندی اور فتنہ ہم جنسیت :کہا جاتا ہے کہ ’اگر باہم رضامندی سے دوافراد اس میں ملوث ہوں تو کسی کو کیا پریشانی ہے؟‘ یعنی ایک ہی جنس کے دو افراد ملوث ہوں تو اس کی اجازت انھیں حاصل ہونا چاہیے ۔ مسلمانوں کے لیے تو اس سوال کا تصور ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن غیر مسلم معاشرے میں بھی یہ گھناؤنا اور قابلِ تعزیر جرم ہے۔ یہ اس طرح ہے کہ جیسے رشوت ، سودوغیرہ کے لین دین ہو یا جہیز وغیرہ کی رسمیں جو باہم رضامندی سے ہی ہوتی ہیں، لیکن معاشرے میں جرم قرار پاتی ہیں ۔ اگر کوئی آدمی رشوت دیتے ہوئے پکڑا جائے تو سخت سزا کا مستحق قرار پاتا ہے۔

اگر اس ہم جنسیت کے فتنہ کو قانونی جواز مل جائے تو بہترین انسانی نظام تمدن کے بجائے، حیوانی نظام تمدن وجود میں آئے گا جو اپنے مادی غرض و فائدہ کی خاطر اکٹھے تو ضرور ہوتے ہیں ، اور جب تک مرضی اور غرض باقی رہے ساتھ رہتے ہیں اور جب چاہیں الگ ہو جاتے ہیں ۔ انھیں خاندانی و سماجی نظام تمدن سے کوئی غرض اور سروکا ر نہیں۔ حالانکہ بہ حیثیت انسان وہ خاندانی اور سماجی نظام ہی کے سبب پیدا ہوئے اور پلے بڑھے ہیں۔ اس کے باوجود حیوانوں کی طرح دنیا میں اپنے پیٹ بھرنے اور شہوانی خواہش پوری کرنے کے علاوہ ان کا کوئی مقصد اور ذمہ داری نہ ہو۔  ظاہر ہے کہ اس شنیع فعل میں ملوث افراد کسی کام کے نہیں رہتے، نہ ان کا کوئی اخلاق اور کردار ہوتا ہے، نہ ایسے خود غرض اور نفس پرست انسان ملک کے انتظامی امور اور کوئی سماجی خدمت کرنے کے ہی اہل ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں پر مشتمل معاشرہ، حیوانیت کی سطح سے بھی بہت نیچے اسفل السافلین قرار پائے گا۔

  • اصولوں کا تعیّن  :یہ بات تو تقریباً تمام ہی انسان بجز ملحدین کے ، مانتے ہیں کہ یہ کائنات یعنی یہ آسمان، زمین، چاند، تارے، سورج، غرض ہر چیز خالق کائنات یعنی اللہ نے بنائی ہے، اور ان کو اصولوں یعنی ایک ضابطے کا پابند بنایا ہے۔ انسانوں یعنی مرد و عورت کو بھی ایک خاص مقصد کے لیے پیدا کیا اور انھیں بھی کچھ حدود و قیود مقرر کر کے اختیارات بھی دیئے۔ سوچنے سمجھنے اور بولنے کی صلاحیت عطا کی اور کچھ اصول وقوانین ان کے لیے متعین کرکے ایک حد کے اندر آزادی بھی بخشی۔ جب سے دنیا بنی پیغمبروں کے ذریعے ہر دور میں بنی آدم کے لیے بنائے گئے، اصولوں کی یاد دہانی کی جاتی رہی۔ اس کی ہر سانس اللہ کے اذن سے ہے اور اللہ جب تک چاہے انسان کی سانس جاری رکھے اور جب چاہے روک کر موت دے دے ۔ غرض انسان کا اپنا جسم اور جان بھی اللہ کی امانت ہے ، انسان خود اپنا بھی مالک نہیں ۔ وہ نہیں جانتا کون کون سے اصول اس کے لیے مفید ہیں اور کون کون سے مضر ؟ تو پھر یہ بے لگام آزادی کیوں؟ میرا جسم میری مرضی کا یہ نعرہ کیسا؟
  • ہم جنسیت پر وعیدیں : اس موذی جرم کے سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’عمل قومِ لوط اللہ کی لعنت ہے اس شخص پر ،جو قومِ لوط کا سا عمل کرے‘‘ (مسند احمد)۔ مزید فرمایا: ’’فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو، شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسا کوئی مقدمہ پیش نہیں ہوا ، اس لیے قطعی طور پر یہ بات متعین نہ ہوسکی کہ اس کی سزا کس طرح دی جائے؟ حضرت علیؓ کی رائے یہ ہے کہ مجرم تلوار سے قتل کیا جائے اور دفن کرنے کی بجائے اس کی لاش جلائی جائے ۔ اسی رائے سے حضرت ابو بکرؓ نے اتفاق فرمایا ۔ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کی رائے یہ ہے کہ کسی بوسیدہ عمارت کے نیچے کھڑا کر کے وہ عمارت اس پر ڈھا دی جائے۔ 

ابن عباسؓ کا فتویٰ یہ ہے کہ ’’بستی کی سب سے اُونچی عمارت سے ان کو سر کے بل پھینک دیا جائےاور اُوپر سے پتھر برسائیں جائیں‘‘۔ امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ: ’’فاعل و مفعول واجب القتل ہیں، خواہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ‘‘۔ شعبی ، زہری، مالک اور احمد رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ ’’ان کی سزا رجم ہے‘‘۔

سعید بن مسیب، عطا، حسن بصری، ابراہیم نخعی ،سفیان ثوری اور اوزاعی رحمہم اللہ کی رائے میں ’’اس جرم پر وہی سزادی جائے گی جو زنا کی سزا ہے، یعنی غیر شادی شدہ کو سو کوڑے مارے جائیں گےاور جلا وطن کر دیا جائے گا اور شادی شدہ کو رجم کیا جائے گا‘‘۔ امام ابو حنیفہؒ کی رائے میں ’’اس پر کوئی حد مقرر نہیں ، بلکہ یہ فعل تعزیر کا مستحق ہے جیسے حالات و ضروریات ہوں ان کے لحاظ سے کوئی عبرت ناک سزادی جا سکتی ہے‘‘۔ ایک قول امام شافعیؒ سے بھی اسی کی تائید میں منقول ہے۔

معلوم رہے کہ آدمی کے لیے یہ بات قطعی حرام ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’عورت سے یہ فعل کرنے والا ملعون ہے‘‘ (ابوداؤد)۔ آپؐ نے مزید فرمایا: ’’اللہ اس مرد کی طرف ہرگز رحمت سے نہ دیکھے گا، جو عورت سے اس فعل کا ارتکاب کرے‘‘۔ (ابن ماجہ، مسند احمد) 

ترمذی میں آپ کا یہ فرمان ہے: ’’جس نے حائضہ عورت سے مجامعت کی یا عورت کے ساتھ عملِ قومِ لوط کا ارتکاب کیا ' یا کاہن کے پاس گیا اور اس کی پیشن گوئیوں کی تصدیق کی، اس نے اس تعلیم سے کفر کیا جو محمدؐ پر نازل ہوئی ہے۔ (تفہیم القرآن، جلد دوم، سورۂ اعراف ،حاشیہ ۶۸)

الغرض ہم جنسیت نہایت ، گھناؤنا، قبیح اور شنیع فعل ہے۔ اس کے مرتکب افراد اللہ کے عذاب کو دعوت دیتے ہیں ، یہ ایک بھیانک جرم، بدترین گناہ، انسانی تمدن بلکہ فطرت سے جنگ ہے۔

  • ہم جنسیت اور مہلک امراض: یہ ایک نفسیاتی مرض ہے اور صحت کے لیے سمِ قاتل ہے۔ اس میں ملوث افراد مہلک امراضِ خبیثہ میں مبتلا ہو کر اور بے انتہا تکلیفیں اٹھاتے ہوئے اپنی جانیں گنوا دیتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے رابطہ کار افراد کو بھی ان موذی امراض کا شکار بنا جاتے ہیں ۔

سائنسی تجربہ سے سامنے آیا ہے کہ ایڈز جیسے مرض کے ، دوسرے افراد کے مقابلے میں ، کئی گنا زیادہ ہم جنسیت میں ملوث افراد شکار ہوتے ہیں اور اس جرم میں مبتلا افراد میں اس موذی مرض کا شکار ہونے کے واقعات میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ایک لا علاج بیماری ہے اور اب تک لاکھوں افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ اس بیماری میں مبتلا افراد کے جو لوگ رابطے میں رہتے ہیں، وہ بھی اس موذی مرض کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ خصوصاً ان ممالک میں اس بیماری کا گراف بہت زیادہ بڑھا ہوا ہے جہاں ہم جنسی میں ملوث افراد کی تعداد زیادہ ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق ہم جنسی میں مبتلا افراد کی عمر دوسرے عام لوگوں کے مقابلے میں ۳۰ سال کم ہو جاتی ہے ۔ ایسے افراد ہر قسم کی مہلک بیما ریوں میں بھی دوسرے لوگوں کے مقابلے میں جلد شکار ہو جاتے ہیں۔

  • قومِ لوط میں فتنہ ہم جنسیت: قرآن اور اس کی مختلف تفاسیر، خصوصاً تفہیم القرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ عراق اور فلسطین کے درمیان ایک علاقہ جسے آج کل شرقِ اردن کہا جاتا ہے، وہاں ایک قوم رہتی تھی۔ اس علاقے کے صدر مقام کا نام بائیبل میں ’سدوم‘ بتایا گیا ہے، جو بحیرۂ مُردار کے قریب واقع تھا۔ تلمود میں ہے کہ سدوم کے آس پاس بڑے بڑے شہر تھے اور  ان شہروں کے درمیان کا علاقہ میلوں تک بہترین باغ پر مشتمل تھا۔ اس علاقہ میں ایک قوم آباد تھی جوکئی برائیوں میں مبتلا تھی لیکن اس کی سب سے گھناؤنی برائی ہم جنسیت میں مبتلا ہونا تھا۔ یہ تو انسانوں کی پرانی روش ہے کہ جب اللہ تعالیٰ خوب نوازتا ہے، بے شمار دولت اور ہر قسم کی نعمتیں عطا فرماتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا شکر کرنے کے بجائے عیش کوشی اور ہر قسم کی بُرائیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ نعمتیں تو انھیں ہمیشہ حاصل رہیں گی۔اسی طرح قومِ لوط بھی اللہ سے سرکش اور باغی ہو کر لوٹ کھسوٹ، ظلم و نا انصافی، مسافروں کو قتل کرنا وغیرہ کئی بُرائیوں میں ملوث تھی، لیکن اسی قوم کی سب سے گھناؤنی برائی ہم جنسیت میں مبتلا ہونا تھا، جسے وہ قوم کھلم کھلا سب کے سامنے اختیار کرتی تھا۔ ظاہر ہے کہ جب پوری قوم اس میں مبتلا تھی تو شرم وحیا کس سے؟ اس قوم کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمٰؑ کے بھتیجے حضرت لوطؑ کو اس علاقے میں بھیجا تاکہ قوم کو اللہ کی طرف بلائیں اور ان سے برائیوں کو دُور کریں ۔ حضرت لوطؑ نے اس قوم کی اصلاح کے لیے عرصہ تک تمام تر جدوجہد کی لیکن سوائے حضرت لوطؑ کے گھر کے، کسی نے بھی ان کی نصیحتوں اور تنبیہات کو قبول نہیں کیا بلکہ حضرت لوطؑ ہی کو شہر بدر کرنے کی دھمکی دے دی ، حتیٰ کہ حضرت لوطؑ کی بیوی بھی ایمان نہ لائی اور اپنی قوم کے ساتھ رہی ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اور لوط کو ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا ، پھر یاد کرو جب اس نے اپنی قوم سے کہا: کیا تم ایسے بے حیا ہوگئے ہو کہ وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا ؟.... حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو ۔مگر اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ’’نکالو ان لوگوں کو اپنی بستیوں سے ، بڑے پاکباز بنتے ہیں یہ‘‘۔ (اعراف۷:۸۰-۸۲ )

اسی طرح سورۂ شعراء (۱۶۰ سے ۱۷۳) میں اس قوم کا ذکر ہے۔ سورۂ عنکبوت میں بھی فرمایا گیا کہ ’’تم وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا والوں میں سے کسی نے نہیں کیا ؟ کیا تمھارا حال یہ ہے کہ مردوں کے پاس جاتے ہو، اور رہزنی کرتے ہو اور اپنی مجلسوں میں بُرے کام کرتے ہو؟‘‘ (العنکبوت۲۹: ۲۸-۲۹)

حضرت لوط ؑ نے اپنی قوم کو بار بار ان برائیوں کے ارتکاب پر تنبیہ کی، جس میں وہ ملوث تھے، بُرے انجام سے ڈرایا، لیکن اتنی تنبیہات کا اُس قوم نے کوئی اثر قبول نہ کیا، نہ اپنی حرکتوں سے تائب ہوئے۔ بالآخر اللہ کا غضب نازل ہوگیا اور وہ قوم ملیا میٹ کر دی گئی ۔ ارشادِ خداوندی ہے : ’’آخرکار پو پھٹتے ہی اُن کو ایک زبردست دھماکے نے آ لیا۔ اور ہم نے اُس بستی کو تل پٹ کرکے رکھ دیا اور ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھروں کی بارش برسا دی‘‘ ۔ (الحجر۱۵:۷۳-۷۴)

سورۂ ہود میں ارشاد خداوندی ہے: ’’پھر جب ہمارے فیصلے کا وقت آپہنچا تو ہم نے اس بستی کو تل پٹ کر دیا اور اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر تا بڑ توڑ برسائے، جن میں سے ہر پتھر تیرے ربّ کے یہاں نشان زدہ تھا۔ اور ظالموں سے یہ سزا کچھ دُور نہیں ہے ‘‘۔(ھود ۱۱:۸۲-۸۳)

مولانا مودودی اس ضمن میں لکھتے ہیں: ’’غالباً یہ عذاب سخت زلزلے اور آتش فشانی انفجار کی شکل میں آیاتھا۔ زلزلے نے ان کی بستیوں کو تل پٹ کیا اور آتش فشاں کے پھٹنے سے ان کے اوپر زور کا پتھراؤ ہوا۔ بحر لوط کے جنوب اور مشرق کے علاقے میں اس انفجار کے آثار ہر طرف نمایاں ہیں۔ ’اور ظالموں سے یہ سزا کچھ دُور نہیں‘ سے مراد آج بھی جو لوگ ظلم کی اس روش پر چل رہے ہیں وہ بھی عذاب کو اپنے سے دور نہ سمجھیں ۔ عذاب اگر قومِ لوط پر آسکتا تھا تو ان پر بھی آسکتا ہے ۔ خدا کو نہ لوطؑ کی قوم عاجز کرسکی تھی، نہ یہ کر سکتے ہیں۔ (تفہیم القرآن، دوم، سورۂ ہود، حاشیہ ۹۱،۹۳)

سورۂ شعراء میں ارشاد خداوندی ہے: آخر کار ہم نے اسے اور اس کے سب اہل وعیال کو بچالیا بجز ایک بڑھیا کے ، (مراد حضرت لوطؑ کی بیوی جو اسی قوم سے تھی) جو پیچھے رہ جانے والوں میں تھی۔ باقی ماندہ لوگوں کو ہم نے تباہ کر دیا اور ان پر برسائی ایک برسات، بڑی ہی بُری بارش تھی جواُن ڈرائے جانے و الوں پر نازل ہوئی‘‘۔ (سورۂ شعراء، آیات۱۷۰ تا ۱۷۳)

اس کی تشریح کرتے ہوئے مولانا مودودی فرماتے ہیں: ’’قرآن مجید میں اس عذاب کی جو تفصیل بیان ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت لوطؑ جب رات کے پچھلے پہر اپنے بال بچوں کو لے کر نکل گئے (سوائے ان کی بیوی کے ) تو صبح پو پھٹتے ہی یکایک زور کا دھماکا ہوا۔ ایک ہولناک زلزلہ نے ان کی بستیوں کو تل پٹ کر کے رکھ دیا۔ ایک زبر دست آتش فشانی انفجار سے ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر برسائے گئے اور ایک طوفانی ہوا سے بھی ان پر پتھراؤ کیا گیا‘‘۔ (تفہیم القرآن، سوم، سورۂ شعراء حاشیہ۱۱۴ )

  • بحرِ مُردار ، نشان عبرتناک:قومِ لوط پر آئے عذاب کے تذکرے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’اس کے بعد ہم نے وہاں بس ایک نشانی اُن لوگوں کے لیے چھوڑ دی جو درد ناک عذاب سے ڈرتے ہوں‘‘ (الذاریات  ۵۱: ۳۷)۔ اس آیت کے ضمن میں مولانا مودودی فرماتے ہیں: ’’اس نشانی سے مراد بحیرۂ مُردار (Dead Sea) ہے، جس کا جنوبی علاقہ آج بھی ایک عظیم الشان تباہی کے آثار پیش کررہا ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کا اندازہ ہے کہ قوم لوط کے بڑے شہر غالباً شدید زلزلے سے زمین کے اندر دھنس گئے تھے اور ان کے اوپر بحیرۂ مردار کا پانی پھیل گیا تھا ۔ کیونکہ اس جزیرے کا وہ حصہ جو اللسان نامی چھوٹے سے جزیرہ نما کے جنوب میں واقع ہے، صاف طور پر بعد کی پیداوار معلوم ہوتا ہے۔ اور قدیم بحیرۂ مردار کے جو آثار اس جزیرہ نما کے شمال تک نظر آتے ہیں، وہ جنوب میں پائے جانے والے آثار سے بہت مختلف ہیں۔ اس سے یہ قیاس کیاجاتا ہے کہ جنوب کا حصّہ پہلے اس بحیرے کی سطح سے بلند تھا، بعد میں کسی وقت دھنس کر اس کے نیچے چلا گیا۔ اس کے دھنسنے کا زمانہ بھی دو ہزار برس قبل مسیح کے لگ بھگ معلوم ہوتا ہے، اور یہی تاریخی طور پر حضرت ابراہیمؑ اور حضرت لوطؑ کا زمانہ ہے… بحیرے کے جنوب میں جو علاقہ ہے، اس میں اب بھی ہر طرف تباہی کے آثار موجود ہیں اور زمین میں گندھک، رال، کول تار اور قدرتی گیس کے اتنے ذخائر پائے جاتے ہیں، جنھیں دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ کسی وقت بجلیوں کے گرنے سے یا زلزلے کا لاوا نکلنے سے یہاں ایک جہنم پھٹ پڑی ہوگی (تفہیم القرآن، پنجم ، سورئہ ذاریات، حاشیہ ۳۵)۔ اس مقام عبرت کی مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: العنکبوت حاشیہ ۳۵، الشعراء حاشیہ ۱۱۴، الحجرحاشیہ ۶۔
  • سرمایہ دارانہ استعماری سازش:ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی اپنی کتاب فتنہ ہم جنسیت میں ہم جنسیت کے عالمی فروغ اور اس کے پیچھے سرمایہ دارانہ مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ہم جنسیت سماج کے لیے اتنی ہی خطرناک ہے اور انسانی آبادی پر اس کے اتنے بھیانک اثرات مرتب ہورہے ہیں تو پھر دنیا میں اسے اتنا بڑھاوا کیوں دیا جارہا ہے؟ سو سے زیادہ ممالک اسے قابلِ تعزیر جرائم کی فہرست سے خارج کرچکے ہیں، اور ان کو (اس جرم میں ملوث افراد کو) سہولیات فراہم کرنے کی غرض سے قوانین وضع کیے جارہے ہیں۔دراصل حقیقت یہ ہے کہ دورِ موجودہ سرمایہ داروں کا ہے۔ انھی کے اشاروں پرممالک کی پالیسیاں وضع کی جاتی ہیں، قانون بنائے جاتے ہیں۔ جن کاموں میں سرمایہ داروں کا فائدہ ہوتا ہے انھیں فروغ دیا جاتا ہے اور جن چیزوں میں ان کا فائدہ نہیں ہوتا ان کی ہمت شکنی کی جاتی ہے۔ ہم جنسیت نے موجودہ دور میں عالمی سطح پر بہت بڑی انڈسٹری کی شکل اختیار کرلی ہے۔ مختلف ممالک میں ہم جنسیت کے حامی افراد کے لیے مخصوص بڑے بڑے ہوٹل قائم کیے گئے ہیں۔ ان کے کلب (Gay Clubs) چل رہے ہیں۔ بڑے پیمانے پر ان سے متعلق لٹریچر شائع ہورہا ہے۔ وقتاً فوقتاً ان کے مظاہرے اور ریلیاں منعقد ہوتی ہیں۔ اسی طرح عیش و مستی کے دیگر پروگرام اور تقریبات ہوتی ہیں۔ ان سب میں سرمایہ داروں کا اربوں کھربوں ڈالر کا سرمایہ لگا ہوا ہے۔ اس لیے وہ اپنے سرمایہ کے اضافے کے لیے چاہتے ہیں کہ ہم جنسیت کا کاروبار خوب چمکے‘‘۔

وہ لکھتے ہیں: ’’اس شنیع فعل یعنی ہم جنسیت کو سب سے پہلے یونان نے بڑھاوا دیا۔ اسے قانونی جواز فراہم کیا۔ پھر یورپ اور امریکا نے بھی اس کے حق میں زبردست آواز اٹھائی اور کئی ممالک نے اسے قانونی جواز فراہم کردیا۔ہم جنسیت تمام مذاہب میں گھناؤنا عمل سمجھا جاتا ہے۔ لیکن انیسویں صدی کے اواخر سے اس کے حق میں آواز بلند ہوئی۔ بیسویں صدی کے نصف اوّل میں متعدد مغربی ممالک کے قوانین میں ترمیم کی گئی اور اس عمل پر سزا ساقط کی گئی۔ پھر عوامی سطح پر ہم جنسیت کے حامی افراد نے منظم ہوکر جگہ جگہ مظاہرے کیے، کانفرنسیں منعقد کیں اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔ پہلے ایسے افراد کو حکومتی، انتظامی اور فوجی مناصب کے لیے نا اہل قرار دیا گیا تھا، لیکن ان افراد کی منظم کوشش اور دباؤ کی بنا پر آہستہ آہستہ ان کے حقوق تسلیم کیے جانے لگے اور انھیں ہر منصب کے لیے اہل قرار دیا گیا۔ پھر ان کے حق میں دائمی رفاقت کے قانون (Partnership Act) منظور کیے گئے اور اجازت دی گئی کہ ہم جنسیت پر عامل افراد بھی پارٹنر کی حیثیت سے منسلک ہوکر ایک جوڑے کی شکل میں (نکاحی جوڑوں کی طرح) رجسٹرڈ کرواسکتے ہیں اور اس کی بنیاد پر ملکیت، وراثت، امیگریشن ٹیکس اور سوشل سیکوریٹی کے حقوق حاصل کرسکتے ہیں۔ ایسے جوڑوں کو بچوں کو گود لینے کا بھی حق دیا گیا‘‘۔(ایضاً)

  • ہندستان کا حال:اسی طرح :’’ہندوستان کا شمار بھی ایسے ممالک میں ہوتا ہے، جہاں زمانۂ قدیم سے ہم جنسیت کو قابلِ نفرت عمل سمجھا جاتا رہا ہے۔ چنانچہ ۱۸۶۱ءمیں تشکیل پانے والے ’تعزیراتِ ہند‘ (Indian Panel Code)کی دفعہ ۳۷۷ میں ہم جنسیت کو ایک غیرقانونی فعل اور جرم قرار دیا گیا، جس پر ۱۰ سال عمرقید تک کی سزا دی جاسکتی ہے۔ لیکن دنیا کے دوسرے ممالک میں اس جرم کو قانونی جواز فراہم کیا گیا تو ہندوستان میں بھی ہم جنسیت کو قانونی جواز فراہم کرنے کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ اقوامِ متحدہ کی جانب سے حکومت ہند سے اس دفعہ کے خاتمہ کا مطالبہ کیا گیا۔ لا کمیشن آف انڈیا نے ۲۰۰۰ءمیں اپنی ۱۷۲ ویں رپورٹ میں قانون کی اس دفعہ کو منسوخ کرنے کی سفارش کی۔ اس مہم میں تیزی اس وقت آئی، جب ایک سماجی تنظیم ’ناز فاونڈیشن‘ نے ’تعزیراتِ ہند‘ کی مذکورہ دفعہ کو ختم کرنے کے لیے دہلی ہائی کورٹ میں مفادِ عامہ کی عرضی داخل کی۔ ساتھ ہی بڑے شہروں مثلاً دہلی، بنگلور، کلکتہ اور ممبئی وغیرہ میں ہم جنسیت کے حامی افراد کے مظاہرے کرائے گئے۔ بالآخر ۲ جولائی ۲۰۰۹ءمیں دہلی ہائی کورٹ نے ’تعزیراتِ ہند‘ کی دفعہ ۳۷۷ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ہم جنسیت کو قانونی جواز فراہم کردیا۔اس فیصلے سے ہم جنسیت کے حامی افراد کی سرگرمیاں مزید تیز ترہوگئیں، آن لائن میگزینوں کا اجراءہوا اور بھی کئی سرگرمیاں عمل میں آنے لگیں۔ جماعت اسلامی ہند ، ہم جنسیت کے خلاف مہم میں شروع ہی سے پیش پیش رہی۔ جماعت نے مختلف مذاہب کے نمائندوں کے ساتھ پریس کانفرنس کرکے ہم جنسیت کو متمدن سماج کے لیے خطرہ قرار دیا۔ دوسری طرف ملک کی مختلف تنظیموں اور سماجی اداروں نے  مل کر ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل داخل کی۔ ۱۱دسمبر ۲۰۱۳ءکو جسٹس سنگھوی نے اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک دن پہلے فیصلہ سنایا جس میں کہا گیا کہ جس عمل کو قانون میں جرم قرار دیا گیا ہے اسے عدالت جرائم کی فہرست سے خارج نہیں کرسکتی۔ اس بنا پر دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کو رد کیا جارہا ہے۔ناز فاونڈیشن نے دوبارہ سپریم کورٹ میں اپیل کی مگر سپریم کورٹ نے وہ اپیل بھی رَد کردی۔ ساتھ ہی عدالت عالیہ نے یہ بھی کہا کہ قانون بنانا حکومت کا کام ہے۔ اگر وہ چاہے تو پارلیمنٹ سے قانون منظور کرکے اس دفعہ کو منسوخ کرسکتی ہے‘‘۔(فتنہ ہم جنسیت )

مولانا جلال الدین عمری نے ۲۹ دسمبر ۲۰۱۳ء کو انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر، نئی دہلی میں منعقدہ ایک بین المذاہب اجلاس کے صدارتی خطاب میں بھارت کی سپریم کورٹ کی طرف سے ہم جنسیت کے خلاف ایک فیصلے کی تائید کرتے ہوئے کہا: ’’اس وقت اسٹیج پر مختلف مذاہب کے نمائندے جمع ہیں۔ یہ سب ہم جنسیت کے خلاف ہیں۔ اس معاملہ میں اسلام کا جو نقطۂ نظر ہے، وہی دیگر مذاہب کا بھی ہے۔ضرورت ہے کہ ہم حکومت کے ذمہ داران سے کہیں کہ وہ اس دفعہ(۳۷۷) کو ختم کرنے کی نادانی نہ کریں۔ ہم پارلیمنٹ کے ممبروں سے کہیں کہ اگر حکومت کی طرف سے ایسی نادانی ہو تو آپ ہرگز اس کی تائید نہ کریں۔ اسی طرح ہم ملک کے عوام سے کہیں کہ آپ لوگ اس کے خلاف کھڑے ہوجائیں۔ ایک برائی اگر پنپتی ہے تو وہ دوسری برائیوں کے لیے راستہ کھول دے گی۔ پھر ان برائیوں کو روک پانا ممکن نہیں ہوگا‘‘۔

  • فساد برپا ہونا: یہ بات پہلے سے ہی ظاہر تھی کہ ہم جنسیت وہ شنیع فعل اور گھناؤنا عمل ہے اگر اس عمل کو بڑھاوا دیا جائے گا تو معاشرہ بلکہ دنیا کس کس طرح کی تباہی سے دوچار ہوگی، اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ یہ صرف دو افراد ہی کی تباہی کا موجب نہیں بلکہ پورا معاشرہ بربادی کے دہانے پر جاپہنچے گا۔ ارشادِ ربانی ہے:’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے، تاکہ مزہ چکھائے ان کو ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں‘‘۔ (الروم۳۰:۱۴)

یہ اللہ اور آخرت کو بھول جانے یا اس سے انجان بننے یا نظر چرانے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اگر اس طوفانِ بلا کو روکا نہ گیا تو انسان اپنی انسانیت ہی کھو دیں گے۔ اس طرح کے رویے جو کوئی قوم اختیار کرے یا دنیا بھر کے غلیظ انسان، اللہ کو حساب چکاتے دیر نہیں لگتی۔

اگر اُمتِ مسلمہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے بعد سے اپنی اقامتِ دین کی ذمہ داری پوری کر رہی ہوتی اور فکری اور عملی شہادت دینے کی کوشش کا فریضہ انجام دیتی رہتی، تو آج دنیا اس طرح تباہی کے غار میں نہ گرتی۔  اگر دنیا بھر میں مسلم معاشرہ احکامِ الٰہی اور رسولؐ کے مطابق گامزن ہوتا اور دنیا کے سامنے ایک بہترین ماڈل بنا رہتا تو ظاہر ہے کہ دوسری گمراہیوں کے ساتھ یہ گمراہی ہی ناپیدا ہوتی۔ لیکن افسوس ہے کہ نبیؐ کے بعد سے اُمت اپنا مقصد ہی بھول بیٹھی۔ حق کے علَم برداروں نے اپنے مادی اور دنیاوی مفاد کو سامنے رکھا، اور اپنی دین حق قائم کرنے کی ذمہ داری بھول گئے اور زمین کو باطل پرستوں کے لیے چھوڑ دیا۔

اب ،جب کہ دنیا میں خلافتِ الٰہیہ قائم نہ رہ سکی تو اُمتِ مسلمہ کی ذمہ داری کم ہونے کے بجائے بڑھ چکی ہے۔ سب سے پہلے تو وہ اپنے آپ کو اور اپنے خاندان و معاشرہ کو مکمل اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی تگ و دو میں لگ جائیں۔ اس طرح کہ معاشرہ کا کوئی فرد بھی حکمِ الٰہی کی تعمیل میں کوتاہی نہ برت سکے۔ خواہ کمانے اور خرچ کرنے کا معاملہ ہو یا شادی بیاہ اور وراثت کی تقسیم وغیرہ کا یا باہمی حقوق کی ادائیگی کا سوال ہو، کسی ایک عمل میں بھی امت کا کوئی فرد اللہ کی نافرمانی نہ کرنے پائے۔ اور سب سے اہم یہ کہ معاشرہ کا ہر فرد اللہ کے دین کو تمام دین سے نا آشنا بندوں تک پہنچانے میں نہایت مستعد ہو اور اسے اوّلین فریضہ سمجھے۔ ساتھ ہی اُمتِ مسلمہ کے ہر ہرفرد میں یہ شعور اُجاگر ہو کہ اللہ کی زمین میں اسی کا دین، اسی کے قوانین چلنے چاہئیں یعنی خلافت قائم ہو۔

مرد و عورت کا مخلوط میل جول اسلام کا مزاج نہیں اور یہ افعال اسلام میں ناجائز ہیں۔ اس سے دوسرے افراد اور اپنی اولاد اور متعلقین کو بچائیں۔ اپنے بچوں کو بے حیائی اور اخلاق باختہ مغربی کلچر سے بچائیں۔ انھیں ایک حد تک آزادی دیتے ہوئے بھی ان پر اور ان کی دلچسپیوں پر نظر رکھیں ۔ قرآنی تعلیم اور اُمتِ مسلمہ کے نصب العین سے انھیں شروع ہی سے باخبر رکھیں۔ اللہ کے دین کی تبلیغ اور اللہ کے دین کے غلبہ کی کوششوں میں کوتاہی نہ رہ جائے۔

یہ صرف اسلامی تحریکوں ہی کی نہیں بلکہ دنیا بھر میں پوری امہ کی ذمہ داری ہے کہ اس فتنے کے طوفان کو روکیں۔ پچھلی قوموں پر آئے عذاب سے عبرت حاصل کریں۔ اللہ کی طرف گامزن ہوں، اللہ کی اطاعت کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیں اور اللہ کے دین سے نا آشنا بندوں کو بھی ان کی غلط روش سے باز رکھنے کی بھرپور کوشش کریں۔ حکمت اور محبت سے پچھلی قوموں پر آئے عذاب سے باخبر کریں۔ انھیں بھی اس فتنہ سے برپا ہونے والی تباہیوں سے آگاہ کریں۔ انھیں بتائیں کہ کس طرح فتنہ ہم جنسیت کی شکل میں عظیم تباہی ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے اور کس طرح ہم جنسیت میںملوث افراد دنیا کو برباد کرنے کے درپے ہیں۔