اس بات میں کسی اختلاف اور مبالغے کی گنجایش نہیں کہ گذشتہ ڈیڑھ صدیوں میں جن علما اور بزرگوں کی علمی و تصنیفی خدمات، دعوتی وتبلیغی مساعی اور ان سے وابستہ اشخاص و رجال نے برِّصغیر جنوبی ایشیا کے دینی و علمی ماحول کو متاثر کیا،اور انسانوں کو دین سے جوڑا، اُن میں مولانا محمداشرف علی تھانویؒ [۱۸۶۳ء-۱۹۴۳ء]کا اسمِ گرامی بہت ممتاز اور نمایاں ہے۔ انھیں ایک بڑے حلقے میںحکیم الامت کے لقب سے یاد کیاجاتا ہے۔
بچپن ہی میں مجھے اپنے مربی و سرپرست محترم میاں ثابت علیؒ [م: ۱۹۶۲ء] اور بعض دوسرے بزرگوں کی زبانی جن قدسی صفات علما اور بزرگوں کے نام اور کارنامے سننے کو ملے تھے، ان میں سیّداحمد شہیدؒ [م:۱۸۳۱ء]کے خانوادے کے معروف عالم ومجاہد حضرت مولانا سید محمد امین نصیرآبادیؒ اور مولانا اشرف علی تھانویؒ کے اسمائے گرامی خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکرہیں۔ ایسا شاید ہی کوئی دن گزرتاہو، جس میں کسی نہ کسی کام یا شرعی حکم کے ذیل میں ان کا ذکر سننے میں نہ آیا ہو۔
شاید اسی خاص ماحول، ان بزرگوں کے احوال و کوائف سننے اور بچپن کی مخصوص ذہنی و فکری تربیت کاہی نتیجہ ہے کہ میں زندگی کے مختلف نشیب وفراز سے گزرنے کے باوجود ان بزرگوں کے روحانی سحر سے خود کو کبھی آزاد محسوس نہیں کرسکا۔ الحمدللہ، کتاب و سنت اور عقائدِ صحیحہ سے ہمیشہ رشتہ استوار رہا۔
مولانا تھانویؒ کی ذات دین پسند حلقوں کے لیے آج بھی باعثِ فیض و برکت ہے۔ وہ اپنے اندر علم و معرفت کا ایک جہاں سمیٹے ہوئے تھے۔ وہ بہ یک وقت قرآنی علوم کے عالم بھی تھے اور احادیث و سیرت کے رمز شناس بھی۔ تصوف ﴿جس کامناسب نام اِحسان ہے ﴾ کے غوطہ زن تھے اور علم فقہ کے ادا شناس بھی اور اپنے عہدکے واعظ و متکلم بھی۔
گذشتہ صدی کی مذہبی شخصیتوں کی تاریخ اوران کی سیرت کامطالعہ کریں تو ایسی شخصیتیں بہت کم ملیںگی، جنھوںنے عوامی زندگی اور اصلاح و تربیت کے منصب پر فائز ہوتے ہوئے اتنی بااصول اور منظم و منضبط زندگی گزاری ہو۔ ان کی زندگی کا کوئی گوشہ شاید ہی بے اصول اور قول وعمل کے تضاد سے داغ دار ہو۔ ان کی پوری زندگی عامتہ المسلمین کی دینی، اصلاحی اور علمی راہ نمائی سے عبارت ہے۔ انھوں نے اپنے شب و روز مشاغل کے لیے جو اصول اور ضوابط بنائے تھے، تمام عمر اس کی پابندی کی اور ایسی پابندی کی کہ کبھی اس کے سامنے کسی بڑی سے بڑی شخصیت یا عہدہ و منصب کی رعایت نہیں فرمائی۔
مولاناتھانویؒ کی بڑی چھوٹی کتابوں کی تعداد سیکڑوں سے متجاوز ہے۔ مولانا کے اندر شخصیت سازی اور تعمیر سیرت کی بے پناہ صلاحیت تھی۔ ان کے فیضِ تربیت سے ایسے ایسے آفتاب و ماہتاب پیدا ہوئے، جنھوںنے اپنے مرشد کی وفات کے بعد ان کے مشن کو آگے بڑھایا اور دعوت واصلاح کے میدان میں بڑی نمایاں خدمات انجام دیں۔
مولانا تھانویؒ قرآن و حدیث، فقہ وتفسیر اور معرفت و سلوک میں غیرمعمولی امتیاز و تفوق کے علاوہ انسانوں کی نفسیات میں انھیں گہرا ادراک حاصل تھا۔ کس انسان سے کب اور کیا برتائو کیا جائے؟ اس سے وہ بہ خوبی واقف تھے۔ یہ وہ خوبی ہے، جو اصلاح و تربیت اور دعوت و تبلیغ کے کام کے لیے نہایت ناگزیر ہے۔ اس صلاحیت کے بغیر اس راہ میں کوئی مفید خدمت نہیں انجام دی جاسکتی۔ اس کے بغیر جو بھی کام ہوگا، وہ اطمینان بخش نہیں ہوگا۔ جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتا چلتاہے کہ اب تک جتنے بھی داعی، مبلغ اور مصلح گزرے ہیں ، انھوں نے اسی نفسیات شناسی اور مزاج رسی کی بدولت کامیابی حاصل کی ہے۔ مولانا عبدالماجددریابادی کی کتاب حکیم الامت مولانا تھانوی کی زندگی کے اسی رُخ کو پیش کرتی ہے۔
حفیظ جون پوری [۱۸۶۵ء-۱۹۱۸ء] انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل کے ایک مشہور شاعر گزرے ہیں۔ بدقسمتی سے شراب کی انھیں لت تھی۔ ایک بار انھوں نے جون پور میں حضرت تھانویؒ کا وعظ سنا تو انھیں اپنی زندگی پر شدیدپشیمانی ہوئی۔ وہیں مجلس میں بیٹھے بیٹھے ایک خط لکھ کر مولانا تھانویؒ کی خدمت میں پیش کیا، جس میں انھوں نے اپنی اب تک کی زندگی پر اظہار تاسف و پشیمانی کیاتھا اور توبہ و بیعت کی خواہش بھی ظاہر کی تھی۔مولانا نے حفیظ صاحب کا خط پڑھااور قریب بلاکر فرمایا: ’’سفر میں یک سوئی نہیں ہوتی، آپ تھانہ بھون آئیے، وہیں تفصیل سے گفتگو ہوگی‘‘۔
حفیظ جون پوری کچھ دنوں کے بعد تھانہ بھون، ضلع مظفرنگر پہنچے۔ وہاں پتا چلاکہ مولانا کسی جلسے میں شرکت کے لیے دیوبند تشریف لے گئے ہیں۔ وہ فوراً وہاں سے دیوبند کے لیے روانہ ہوگئے۔ دیوبندپہنچے تو حضرت مولانا تھانہ بھون کے لیے روانہ ہوچکے تھے۔ وہ پھر وہاں سے تھانہ بھون پہنچے اور مولانا تھانوی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جون پور کی ملاقات کا حوالہ دیا، اپنی ماضی کی زندگی پر افسوس کا اظہار کیا اور بیعت کی خواہش دُہرائی۔
مولانا تھانویؒ بیعت کے معاملے میں بہت محتاط واقع ہوئے تھے۔ کافی دن دیکھنے اور پرکھنے کے بعد ہی بیعت کا فیصلہ فرماتے تھے۔ لیکن چوں کہ وہ انسانی مزاج و طبائع کی شناخت رکھتے تھے، اس لیے انھوںنے غالباً پہلی ہی نظر میں پہچان لیاکہ حفیظ طلبِ صادق لے کر حاضر ہوئے ہیں۔ اس لیے بیعت کے لیے جمعہ کی نماز کے بعد کا وقت مقرر کردیا۔ مولانا کا یہ فیصلہ خانقاہ میں موجودلوگوںکے لیے حیرت ناک تھا کہ ایک نووارد اور بہ ظاہر بے دین شخص کی طرف مولاناکا یہ التفات ان کی سمجھ سے باہر تھا۔
حفیظ جون پوری بیعت کے لیے حاضر ہوئے تو ان کا چہرہ بالکل صاف تھا۔ مولانا تھانویؒ نے انھیں دیکھا، کچھ دیر دیکھتے ہی رہے۔ قبل اس کے کہ مولانا کچھ فرماتے، حفیظ صاحب خود ہی گویا ہوئے : ’’حضرت، میں بیعت کے لیے حاضر ہوا ہوں، چوں کہ میں ہمیشہ اسی حال میں رہتا ہوں، طویل سفر میں موقع نہ ملنے کی وجہ سے شیو بڑھاہواتھا ، اس لیے میں نے اسے صاف کرانا ضروری سمجھا، تاکہ آپ سے میری کوئی بات پوشیدہ نہ رہے‘‘۔ مولانا صاف گوئی کے قدردان تھے، اس لیے انھوںنے بغیر کسی ڈانٹ کے انھیں اپنے حلقۂ ارادت میں شامل کرلیا۔ چند روز قیام کے بعد حفیظ صاحب اپنے وطن آگئے، خط کتابت کا سلسلہ جاری رکھا۔ گھرجانے کے بعد حفیظ جون پوری میں ایسی تبدیلی آئی کہ بڑے بڑے علما اور زہاد کو ان پر رشک آنے لگا۔ انھوںنے اپنی شاعری کے سلسلے میں بھی مولانا تھانویؒ کی مرضی دریافت کی تھی کہ ’’حکم دیں تو شاعری ترک کردوں‘‘۔ مولاناتھانویؒ نے فرمایا: ’’ترکِ سخن مناسب نہیں۔ البتہ حکمت و موعظت کی باتوں کو موضوعِ سخن بنانے کا التزام کیجیے‘‘ اور پھر باقی زندگی میں انھوں نے اس پر عمل کیا۔
جگر مرادآبادی [۱۸۹۰ء-۱۹۶۰ء] سے اردو زبان و ادب کاہر فرد واقف ہے۔ یہ اپنے زمانے کے نہایت مقبول اور ہر دل عزیز شاعر تھے۔ غزل سے ان کے مزاج کو خصوصی مناسبت تھی۔ اسی وجہ سے انھیں اردو دنیا میں سلطانِ تغزل کے لقب سے یاد کیاجاتاتھا۔ آج بھی ان کے اشعار ذوق وشوق کے ساتھ پڑھے جاتے ہیں۔ جتنی شہرت ان کی غزلوں کو حاصل تھی، اتنی ہی یا اس سے کچھ کم و بیش ان کی رندی و سرشاری کو بھی حاصل تھی۔ ہر وقت نشے میں رہتے تھے۔ بلانوشی کی اصطلاح شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے وضع ہوئی ہو۔ ان کی رندی، سرشاری اور بادہ خواری کے سیکڑوں واقعات مشہور ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ پہلو بھی تھا کہ کبھی آپے سے باہر نہیں ہوئے۔ ہمیشہ سنجیدگی کے دائرے میں رہتے تھے۔ علما اور بزرگوں کا ہرحال میں اور بے حد احترام کرتے تھے۔
جگرصاحب ایک روز مظفرنگر یا سہارن پور کے کسی مشاعرے میں شرکت کے لیے جارہے تھے۔ اسٹیشن پر ان کی ملاقات حضرت مولانا تھانویؒ کے مشہور خلیفہ خواجہ عزیزالحسن مجذوبؒ سے ہوگئی۔خواجہ صاحب بھی بلند پایہ شاعر تھے۔ دونوں بڑے تپاک سے ملے۔ پوچھا:’’کہاں جارہے ہو؟‘‘ حضرت مجذوب نے بتایاکہ: ’’تھانہ بھون جارہاہوں، حضرتِ مرشد سے ملاقات کے لیے‘‘۔ جگر صاحب بے چین ہوگئے اور کہا:’’میری بھی دیرینہ خواہش ہے کہ میں بھی حضرت مولانا کی خدمت میں حاضری دوں۔ لیکن کیا کروں، اپنی بلانوشی کی وجہ سے ہمت نہیں کرپاتا‘‘۔ مجذوب صاحب نے فرمایا: ہاں، یہ بات تو درست ہے۔ حضرت کے ہاں اس سلسلے میں بڑی سختی ہے۔ اس حال میں کبھی مت آجانا‘‘۔ کچھ دیر میں دونوں اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ عصر بعد کی مجلس میں مجذوب صاحب نے حضرت مولانا تھانویؒ کے سامنے جگر صاحب سے ہونے والی گفتگو بیان کی۔ مولاناتھانویؒ مجذوب صاحب پر بہت ناراض ہوئے اور کہا:’’تم نے انھیں آنے سے کیوں روک دیا؟ یہ تو درست ہے کہ میرے ہاں سختی و پابندی زیادہ ہے۔ لیکن یہ پابندیاں یا سختیاںشخصیتوں کو دیکھ کر عائد ہوتی ہیں۔ جگر اس سے مستثنیٰ ہیں۔ تمھیںانھیں آنے دینا چاہیے تھا۔ کیا عجب کہ یہاں آنا ہی ان کی اصلاح کا ذریعہ بن جاتا‘‘۔
کچھ دنوں کے بعد پھر اسی جگہ پر جگر اور مجذوب کی ملاقات ہوئی۔ علیک سلیک کے بعد مجذوب صاحب نے بتایاکہ ’’میں نے آپ سے اُس دن کی ملاقات کا تذکرہ حضرت سے کیاتھا‘‘۔ اور اتنا کہہ کر خاموش ہوگئے۔ جگر صاحب نے نہایت اضطراب اور بے چینی کے ساتھ حضرت تھانویؒ کا تاثر معلوم کرنا چاہا۔ مجذوب صاحب نے بتایاکہ ’’حضرت مجھ پر بہت ناراض ہوئے اور فرمایاکہ تمھیں انھیں آنے دینا چاہیے تھا۔ تم نے یہاں کی سختی اور پابندی کا تذکرہ کرکے ناحق انھیں روک دیا۔ جگر صاحب اس پابندی سے مستثنیٰ ہیں‘‘۔ بس، یہ سننے کے بعد جگر مرادآبادی کہیں اور جانے کا ارادہ ملتوی کرکے مجذوب صاحب کے ہم راہ تھانہ بھون کے لیے چل پڑے۔ قصبے میں پہنچ کر کسی مسجد کے غسل خانے میں غسل کیااور خانقاہِ اشرفی میں حاضر ہوئے۔ حضرت تھانویؒ بڑے تپاک سے ملے۔ کچھ دیر گفتگو کے بعد ان سے کلام کی فرمایش کی۔ جگرصاحب نے وہ غزل سب سے پہلے اسی مجلس میں پڑھی تھی، جس کامطلع یہ ہے:
جان کر من جملۂ ارباب مے خانہ مجھے
مدّتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ مجھے
جب یہ شعر پڑھاتو آواز رندھی اور پھر جگر کی ہچکیاں بندھ گئیں:
ننگِ مے خانہ تھا میں، ساقی نے یہ کیاکردیا
پینے والے کہہ اٹھے یا پیرِ مے خانہ مجھے
جگرنے دو تین روزوہیں قیام کیا۔ اس کے بعد ان کی زندگی یکسر بدل گئی اور ہمیشہ وہ جائے نماز دربغل رہنے لگے۔
یہ دونوں واقعات یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ حضرت تھانویؒ واقعی حکیم الامت تھے۔ افرادِ امت کے حالات و کوائف باریک بینی سے دیکھتے اور ان کے امراض کاعلاج کرتے تھے۔ ان کی اِسی حکمت و دانائی اور فہم وتدبر کے باعث سیکڑوں گم گشتگانِ راہ کومنزل نصیب ہوئی۔
مولانا اشرف علی تھانوی ؒ گروہی ومسلکی تعصبات سے بلندہوکر سوچنے کے عادی تھے۔ ہربات میں حکمت واصلاح کے پہلو نکالنا، دین کے وسیع مقصد کو سامنے رکھ کر اس کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا اور اپنے وابستگان کو بھی اس کی طرف متوجہ کرنا ان کا خاص مزاج تھا۔ اس سلسلے کے ان کے متعدد واقعات آج بھی اہل ِ علم و دانش کی مجلسوں میں سننے کو ملتے ہیں۔
مولانا احمد رضاخاں بریلویؒ [۱۸۵۶ء-۱۹۲۱ء] اپنے نقطۂ نظر کے اظہار میں بڑے سخت واقع ہوئے تھے۔ ان کے مزاج کی یہ سختی اس درجے کو پہنچ چکی تھی کہ بعض علما کے بارے میں انھوںنے کفر کا فتویٰ دے ڈالاتھا۔ جب ان کا اِنتقال ہوا تو مولانا تھانویؒ کی مجلس میں کسی نے اطلاع دی کہ ’’احمد رضاخاں کا انتقال ہوگیا ہے‘‘۔ مولانا کو یہ بات پسند نہ آئی کہ اتنے بڑے عالم کا نام بس یوں ہی جناب اورصاحب کے بغیر لے لیاجائے۔ فرمایا: ’’کون؟ مولانااحمد رضاخاں بریلوی؟‘‘ اطلاع دینے والے نے کہا: ’’جی ہاں‘‘۔ فرمایا: اناللہ واناالیہ رٰجعون۔ آئیے ان کے لیے دعائے مغفرت کریں‘‘۔ ہاتھ اٹھاکر کافی دیر تک ان کے حق میں دعا فرماتے رہے۔ حاضرین نے بھی ہاتھ اٹھاکر دعا کی۔ لیکن ان میں بعض لوگ ایسے تھے، جنھیں یہ بات ناگوار خاطرہوئی۔ جب مولانا تھانویؒ دعا فرماچکے تو ایک نے کہا: ’’حضرت ! حیرت ہے کہ آپ نے ایک بدعتی کانام تعظیم کے ساتھ لیا‘‘۔ مولانا نے فرمایا: ’’وہ بدعتی نہیں تھے، محبتی تھے۔ جب کسی کو کسی سے محبت ہوتی ہے تو اس میں غلو کے بھی امکان ہوتے ہیں‘‘۔ ابھی مولانا نے اتنی بات کہی تھی کہ ایک دوسرے صاحب بول پڑے کہ ’’حضرت! وہ تو آپ کو کافر کہتے تھے۔ پھر بھی آپ نے ان کے لیے دعائے مغفرت فرمائی‘‘۔ مولانا نے بڑے ٹھیرے ہوئے لہجے میں فرمایا:’’میاں!مجھے وہ کافر اس لیے کہتے تھے کہ وہ مجھے کافر سمجھتے تھے۔ میری کسی بات سے انھوںنے یہی نتیجہ نکالاہوگاکہ میں کافر ہوں۔ اگر وہ مجھے کافر سمجھتے ہوئے بھی ’کافر‘ نہ کہتے تو وہ خود کافر ہوجاتے۔ یہ فقہ کامسلّمہ مسئلہ ہے‘‘۔
اعظم گڑھ کے کسی گائوں سے ایک صاحب نے مولانا کو خط لکھا۔ اس کامتن کچھ اس طرح تھا :’’میں آپ کے خلیفہ مولانا عبدالغنی پھول پوریؒ کامرید ہوں۔ میں نے گذشتہ برس مدرستہ الاصلاح میں اپنے بیٹے کا داخلہ کرایاہے۔ الحمدللہ، داخلے کے بعد سے میرے بیٹے میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ نمازیں پڑھتا ہے، گائوں کے خراب بچّوں سے الگ رہتا ہے اور جی لگاکر تعلیم بھی حاصل کررہا ہے۔ میرے بعض اعزّہ کے بچے بھی اسی مدرسہ میں پڑھتے ہیں۔ وہاں پڑھانے میں مجھے بڑی سہولت ہے۔ لیکن میرے مرشد مولانا عبدالغنی صاحب کو یہ بات پسند نہیں ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ بچے کو اس مدرسے سے اٹھالو، وہاں کی فکر صحیح نہیں ہے ۔ بچّہ آزاد خیال ہوجائے گا اور قرآن کو حدیث و تفسیر سے سمجھنے کے بجائے اپنی عقل سے سمجھنے کی کوشش کرے گا۔ میرے مرشد نے یہاں تک فرمادیاکہ بچے کو وہاں سے ہٹالو ورنہ میں بد دُعا کردوںگا، جب کہ میرا بیٹا بھی اسی مدرسے میں پڑھنا چاہتا ہے۔ حضرت، اب آپ فرمائیں کہ میں ایسی صورت میں کیا کروں؟‘‘
مولانا تھانوی علیہ الرحمہ نے خط کامختصر جواب دیتے ہوئے فرمایا: ’’اگر آپ اس بات سے مطمئن ہیں کہ آپ کے بیٹے کی وہاں صحیح تعلیم ہورہی ہے اور آپ کا بیٹا بھی وہیں پڑھناچاہتا ہے، تو آپ اسے وہیں پڑھنے دیجیے۔ مولوی عبدالغنی کی بددعا کی فکر مت کیجیے۔ اگر وہ بددعا کریں گے تو میں یہاں سے دعا کردوںگا‘‘۔
قارئین ان دو واقعات سے اس بات کا پورا اندازہ کرسکتے ہیں کہ اصلاح وتربیت کے سلسلے میں مولانا کی کیاسوچ تھی اور ہر بات سے وہ کس طرح مفید اور مثبت پہلو نکالتے تھے۔
مولاناتھانوی ؒبے حد منظم اور بااصول شخص تھے۔ انھوںنے اِسی نظم وضبط اور اصول وضوابط کی روایت کو اپنے مریدوں اور قریب رہنے والوں میں بھی پروان چڑھانے کی کوشش کی۔ اس سے ان کی غرض صرف یہی تھی کہ لوگوں کو سکون اور راحت حاصل ہو۔ ان کا احساس تھا کہ نظم و ضبط اور اصول پسندی کے بغیر کوئی دعوت یا تبلیغ مؤثر نہیں ہوگی۔ یہ مولانا تھانویؒ کی زندگی کاایک ایسا وصف ہے، جو ہمارے آج کے داعیوں ، مربّیوںاور مبلغوںکی زندگیوں میں مفقود ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مولانا اشرف علی تھانویؒ کسی شخص یا فرد کانام نہیں، بلکہ ایک علمی، روحانی اور تربیتی ادارے کا نام ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک ایسی دانش گاہ تھے، جس نے اصلاح و تربیت کے لاتعداد پیاسوں کی پیاس بجھائی۔ آج کے دور میں دعوت و تبلیغ اور اصلاح و تربیت کاکام کرنے کے لیے ان کی تعلیمات مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ تحریک پاکستان کے حامی اور دوقومی نظریہ کے طرف دار تھے۔
’حسد‘ عربی کا لفظ ہے۔ اس کے لُغوی معنی کینہ، جلن، ڈاہ، بدخواہی یاکسی کا زوال چاہنے کے ہیں۔ اِصطلاحِ عام میں حسد اُن خداداد نعمتوںاور ترقیات و بلندیِ مدارج کے زوال یا ان کے اپنی طرف منتقلی کی آرزو و تمنا یا سعی و کوشش کو کہتے ہیں، جو کسی ہم پیشہ، پڑوسی یا ہم عصر کو علم وہُنر ، دولت و ثروت، عہدہ ومنصب، عزت ونام وری یا کاروبار وتجارت کے طورپر حاصل ہوئے ہوں۔ یہ نہایت رذیل اور بدترین خصلت ہے۔ یہ بیماری پست ذہن وفکر رکھنے والوں کے اندر ہی پائی جاتی ہے۔
یہ خصلت کسی کی ترقی و شہرت، کامیابی ومقبولیت، مقام ومنصب کی بلندی اورعام انسانوںمیں اس کی عزت و نام وری کے نتیجے میں پروان چڑھتی ہے۔ اِس لیے کہ حاسداپنے یا اپنے متعلقین کے علاوہ کسی کی عزت و سرخ روئی یا ترقی وبلندی کو برداشت نہیں کرپاتا۔ وہ ہر قسم کی عزت و سرخ روئی یا ترقی و سربلندی کامستحق صرف اور صرف خود کو سمجھتا ہے۔ اس وجہ سے وہ ’محسود‘ [جس سے حسد ہو] میں طرح طرح کے عیب نکالتا ہے، اس کی خوبیوںاور ہنرمندیوں کو خامیوں سے تعبیر کرتاہے۔ اس کی نیکی، تقویٰ اور حسنِ اخلاق وکردارکو ریاکاری، خودپسندی اور نام ونمود کامظہر قرار دیتا ہے۔ اس کے علمی وفکری کارناموںاور قومی وملّی خدمات کے حوالے سے لوگوں کو طرح طرح سے بدگمان کرتا ہے۔ اس کے بارے میں لوگوں کی آرا خراب کرتا ہے۔ اس لیے کہ خود وہ ان اعلیٰ محاسن وفضائل تک نہیں پہنچ پاتا۔ وہ چاہتاہے کہ ’محسود‘ کے سلسلے میںایسی فضا بنادے کہ لوگ اس سے نفرت کرنے لگیں اور چھوٹا یا بڑا جو مقام و مرتبہ اس کو ملاہے، وہ چھِن جائے۔ وہ ہر وقت اپنی تمام تر صلاحیتوںکو ’محسود‘ کوزیروپست کرنے میں صرف کرتاہے۔ وہ یہ بھول جاتاہے کہ عزت وذلت اور ترقی و تنزل اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بہت صاف اور واضح طورپر ارشاد فرمایاہے:
قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ ۰ۡ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۰ۭ بِيَدِكَ الْخَيْرُ۰ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۲۶ (اٰل عمٰرن۳:۲۶)کہو : اے اللہ! ملک کے مالک! تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے، جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کردے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
حسد کامرض انسان میں اُس اعتقادی کم زوری کے نتیجے میں پیداہوتاہے، جو اسلامی زندگی کی روح اور اساس ہے۔ وہ یہ کہ تمام تر خوش حالی و بدحالی اور پستی و بلندی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ وہی انسان کو بدحالیوں سے نجات دیتا ہے اور خوش حالیوں ، مسرتوں اور شادکامیوں سے ہم کنار کرتا ہے۔ اِسے قرآنِ مجید میں اس طرح بیان کیاگیا ہے:
وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللہُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ہُوَ ۰ۭ وَاِنْ يَّمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۱۷ (انعام۶:۱۷)اگراللہ تمھیں کسی قسم کا نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں، جو تمھیں اس نقصان سے بچاسکے اور اگر وہ تمھیں کسی بھلائی سے بہرہ مند کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
کبھی کبھی لوگ اپنی کم فہمی، لاعلمی اور کج روی کی وجہ سے حسد اور رشک کو ایک ہی خانے میں رکھ کر طرح طرح کی بے جا اور بعیداز فہم تاویلیں کرتے ہیں اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ جوکچھ کررہے ہیں وہ حسد نہیں ہے۔ حالاںکہ حسد ایک روحانی بیماری ہے، جو انسان کے اندر بزدلی ، پست ہمتی، کم ظرفی اور پست وارذل ماحول میں رہنے، پلنے بڑھنے اور پروان چڑھنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، جب کہ رشک ایک صالح اور پاکیزہ جذبہ ہے، جو کسی کے اندر صالح و پاکیزہ تربیت، ذہنی وفکری بلندی اور معیاری خاندانی اثرات سے پیدا ہوتااور پروان چڑھتا ہے۔ اِسے ہم چراغ سے چراغ جلنے یا جلانے سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔ رشک وہ اعلیٰ جذبہ ہے، جس کی وجہ سے انسان کسی پڑوسی، ہم سایے، ہم پیشہ یا ہم عصر کی ترقی و بلندی اور رفعت وعظمت کو دیکھ کر خوش ہوتاہے اور وہ یہ جاننے کے لیے بے چین اور مضطرب ہوجاتاہے کہ اُسے جو ترقی اور خوش حالی نصیب ہوئی ہے، اس کے لیے اُسے کیا کیاکرنا پڑا ہے اور وہ کن مراحل سے گزرکر اس مقامِ بلند تک پہنچا ہے۔ یہ سب جان لینے کے بعد وہ بھی محنت ومشقت اور سعی و کاوش کرکے خوشی و مسرت، شہرت و نام وری اور خوش حالی و نیک نامی کے اس مقام بلندتک پہنچتا یا پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ کسی کو پست و ذلیل یا زوال پزیر کرنے کا نہیں، بل کہ اعلیٰ ظرفی، بلند ہمتی اور روحانی طہارت وپاکیزگی کاجذبہ ہے۔ اسلام نے اِس جذبے کی تحسین بھی کی ہے اور ترغیب بھی دی ہے۔ قرآنِ مجید میں اِسے تنافس سے تعبیر کیاگیا ہے:
وَفِيْ ذٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنٰفِسُوْنَ۲۶ۭ (المطففین ۸۳:۲۶)جو لوگ دوسروں پر بازی لے جانا چاہتے ہوں، وہ اس چیز کو حاصل کرنے کی بازی لے جانے کی کوشش کریں۔
فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ(البقرہ۲:۱۴۸) پس تم بھلائیوں کی طرف سبقت کرو۔
سَابِقُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ (الحدید۵۷:۲۱) دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت کی طرف۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک بہت مشہور حدیث ہے کہ ایک بار غریب و مفلس مہاجرین کی ایک جماعت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ عرض کی: یارسول اللہ! مال دارو خوش حال لوگ مرتبے میں ہم سے آگے بڑھتے جارہے ہیں۔ وہ لوگ ہماری ہی طرح نمازیں پڑھتے ہیں، ہماری ہی طرح روزے رکھتے ہیں، لیکن ان سب کے ساتھ ساتھ چوں کہ وہ ارباب ثروت ہیں، اس لیے وہ حج بھی کرلیتے ہیں، عمرہ بھی کرلیتے ہیں اور جب جہادکا وقت آتاہے تو وہ مال و دولت سے بھرپور مدد کرتے ہیں، صدقہ و خیرات کرتے ہیںاور ضرورت پڑنے پر غریبوں،مفلسوں اور حاجت مندوں کی بھی امداد کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ ہم ان پر سبقت نہیں حاصل کرسکتے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کی اُس جماعت کی بات سنی اور ارشاد فرمایا: کیا میں تم کو ایسا عمل نہ بتادوں، جس سے تم بھی ان سب کے برابر ہوجائو، تم اپنے پیچھے رہنے والوں سے بہت آگے بڑھ جائو، اور تمھاری برابری اُن لوگوں کے سوا کوئی نہ کرسکے جو وہی عمل کریں، جو میں تمھیںبتانا چاہتاہوں؟ سب نے خوشی خوشی بہ یک زبان کہا: کیوں نہیں ، اے اللہ کے رسولؐ! ضرور ارشاد فرمائیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے شوق وطلب کو دیکھتے ہوئے ارشاد فرمایا: ہر فرض نماز کے بعد ۳۳، ۳۳ مرتبہ سُبْحَانَ اللہِ ، الْحَمْدُلِلہِ اور اللہُ اَکْبَرُ کہہ لیا کرو۔ (بخاری، مسلم، بیہقی، کتاب الصلوٰۃ ، باب ما یقول بعد السلام، حدیث: ۳۴۸)
یہ حدیث اپنے عہد کے نام ور عالم حدیث امام محی الدین النَووِیؒ نے صحیحین کے حوالے سے اپنی مشہور کتاب ریاض الصالحین میں کتاب الاذکار کے باب فضل الذکر و الحث علیہ میں نقل کی ہے ۔ تاریخ و سیرت کی کتابوں میں سیکڑوں ایسے واقعات ملتے ہیں، جن سے پتا چلتاہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں صدقات وخیرات اور نیکی و تقویٰ کے سلسلے میں باہم رشک و تنافس پایاجاتاتھا اور وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے تھے۔ سیدناحضرت ابوبکرصدیق اورسیدنا حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہما بھی اکثر خیر اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش میں رہتے تھے۔ مذکورِ بالا آیات، احادیث اور واقعات سے اِس نتیجے تک پہنچنا مشکل نہیں رہتا کہ اچھائی اور نیکی کے کاموں میں رشک و تنافس اور ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کا جذبہ، ایک محمود واَحسن جذبہ ہے۔ اِس سے انسان کے بلندیِ درجات کا اندازہ ہوتا ہے۔
حاسد دوسروں کو حاصل شدہ دولت و نعمت کا بدخواہ ہوتاہے۔ اس دولت و نعمت کے سلسلے میں وہ لوگوں میں طرح طرح کی بدگمانیاں اور شکوک وشبہات پھیلاتاہے، حتیٰ کہ وہ اِس سلسلے میں فرضی اور من گھڑت واقعات عام کرنے سے بھی نہیں چوکتا۔ اس کی ساری کوشش صرف اور صرف یہ ہوتی ہے کہ ’محسود‘ ذلیل و خوار ہو، اس کی شہرت و نام وری میں بٹّا آجائے، اس کی عزّت و عظمت مشکوک اور اس کی شخصیت و خاندانی شرافت داغ دار ہوجائے۔ خواہ خود حاسد کو وہ دولت ونعمت، عزت و عظمت اور شہرت و نام وری مل سکے یا نہ مل سکے۔ حاسد کایہ رویہ دراصل اللہ تعالیٰ کی حکمت ومصلحت پر عدم اعتماد ویقین کامظہر ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ہم اُسے (نعوذباللہ) اللہ تعالیٰ کا حریف ومدمقابل بھی کہہ سکتے ہیں۔
اسلام امن وسکون اور خیر وخیرخواہی کا علم بردار ہے۔ وہ انسانی معاشرے کو سعید و خوش گوار دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے اس نے انسان کو اخلاقیات اور معاشرتی آداب سے آشنا و باخبر کیاہے اور پوری انسانی برادری کو لاضرر ولاضرار( کوئی بھی انسان کسی انسان کو چھوٹے سے چھوٹا یا بڑے سے بڑا نقصان نہ پہنچائے) کا درس دیا ہے اور بتایا ہے کہ ایک اِنسان کو دوسرے انسان کے لیے رنج وغم اور دُکھ درد کا علاج، اس کے آرام و راحت کاسامان اور ایک دوسرے کے لیے محبت واخوت کاپیکر ہوناچاہیے۔ اسلام اس بات کو قطعی پسند نہیں کرتا کہ معاشرے میں حسد یا جلن کی آگ بھڑکے اور اس کے اثر سے پورا معاشرہ نفرت وتعصب اور جوڑ توڑ کی آماج گاہ بن جائے۔
اسلام نے حسد کی اخلاقی برائی اور اس کی شناعت کو واضح اور واشگاف انداز میں بیان کرکے انسان کو اس کی ہلاکتوں اور تباہیوں سے خبردارکیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
لَا تَحَاسَدُوْا وَلَا تَبَاغَضُوْا وَلَا تَقَاطَعُوْا وَلَا تَدَابَرُوْا وَکُوْنُوْا عِبَادَ اللہِ اِخْوَانًـا (مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب النھی عن التحاسد ، حدیث ۴۷۴۸) آپس میں بغض و حسد، قطع تعلق اور ترک معاونت نہ کرو۔ اللہ کے بندو! تم اخوت ومحبت کے ساتھ رہو۔
دَبَّ اِلَیْکُمْ دَاءُ الْاُمَمِ قَبْلَکُمْ الْحَسَدُ وَالْبَغْضَاءُ ____ اَلَا أُنَبِّئْکُمْ بِشَیْ ءٍ اِذَا فَعَلْتُمُوْہُ تَحَابَبْتُمْ اَفْشُوْالسَّلَامَ بَیْنَکُمْ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، حدیث۲۴۹۴)تم سے پچھلی امتوں کی بیماریوں میں سے بغض و حسد کی بیماری تمھارے اندر سرایت کرگئی ہے۔ کیا میں تمھیںکوئی ایسی چیز نہ بتائوں، جو تمھارے اندر محبت پیداکردے؟ وہ یہ ہے کہ تم باہم سلام کو عام کرو۔
اللہ تعالیٰ نے جب پہلے انسان ابوالابا حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق فرمائی، اُنھیں نبوت کے اعلیٰ مقام سے سرفراز فرمایا اور جِنّ وملک کو حکم دیا کہ سب اُنھیں سجدہ کریں، تو سب نے حکمِ الٰہی کی تعمیل میں سجدہ کیا۔ بس ایک ابلیس تھا جو حسد کی آگ میں جل اُٹھا اور سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور اللہ کی نافرمانی پر اترآیا۔ اُسے یہ بات نہ بھائی کہ ایک مٹی کے پیکر کو اتنا بلند مقام ملے کہ اُسے جن و ملک سجدہ کریں۔ اس کے نتیجے میں وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ذلیل، رسوا اور راندۂ درگاہ قرار پایا۔ اس کابیان قرآنِ مجید میں بہت واضح طورپر آیاہے:
وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ ۰ۭ اَبٰى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ۳۴ (البقرہ ۲:۳۴) پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیاکہ آدم ؑکے آگے جھک جائو،تو سب جھک گئے، مگرابلیس نے انکار کیا، وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑگیا اور نافرمانوں میں شامل ہوگیا۔
ابلیس نے جو رویہ اختیارکیا، حسد، جلن اور اپنے آپ کو آدم کے مقابلے میں اعلیٰ وبرتر سمجھنے کے ہی نتیجے میں اختیار کیا۔ وہ اِس مقامِ بلند کا مستحق خود کوسمجھتاتھا۔ دراصل انسان جب کسی کی عظمت و بلندی، عزت و شہرت یا ترقیِ درجات سے جلتاہے تو اس میں یہی جذبہ کارفرما ہوتا ہے کہ یہ شخص اِس کامستحق نہیں ہے۔ وہ یہ بات بھول جاتاہے کہ اِسے جو کچھ بھی حاصل ہے، وہ محض اللہ کا عطیہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اُسے جو کچھ دیاہے، وہ مستحق و حق دار سمجھ کر ہی دیاہے۔ وہ جس کومناسب سمجھتا ہے ، دیتاہے اور جسے نہیں چاہتا، اُسے نہیں دیتا۔ اس کے ہاں سفارش کا کوئی سلسلہ نہیں ہے۔ ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ جو شخص کسی کی ترقی وکام یابی سے جلتا یا حسد کرتاہے گویا وہ خود کو (نعوذباللہ) اللہ تعالیٰ سے زیادہ عقل و فہم والاسمجھتا ہے۔
’حسد‘اسلامی مزاج کے منافی ایک شیطانی جذبہ ہے۔ یہ یہود و نصاریٰ کی خصلتوں میں سے ہے۔ یہ انسانیت سے گری ہوئی ایسی خصلت ہے، جس سے ہر مسلمان کو بچنا اور بچنے کی دعا کرنی چاہیے۔ حسد بڑی خاموشی سے دلوں میں گھر کرلیتا ہے۔ حسد کا مریض کبھی کبھی یہ باور کرلیتاہے کہ وہ جو کچھ کررہاہے، اظہار حق کے طورپر اور عدل وانصاف کے تقاضوں کے پیش نظر کررہاہے۔ لیکن اگر وہ تنہائی میں بیٹھ کر اللہ کو حاضر وناظر اور آخرت میں اس کے حضور جواب دہی کے احساس کے ساتھ سوچے اور غور کرے تو اس پر یہ حقیقت واضح اور منکشف ہوجائے گی کہ وہ بڑی مہلک روحانی بیماری کا شکار ہے۔
’حسد‘ احساس کم تری، متعلقہ میدان میںحاسد کی ناکامی و نامرادی اور کسی دیرینہ کدورت کی وجہ سے جنم لیتاہے۔ احساسِ برتری، کبرو نخوت اور خودپسندی وخودبینی بھی حسد کا مظہر ہے۔ انسان کی تنگ نظری وبخل مزاجی بھی حسد کاسبب بنتا ہے۔ تنگ نظر و بخیل کسی کو اچھے حال میں نہیں دیکھ سکتا۔ وہ اپنے ہم سفروں، ہم جماعتوں اورپڑوسیوں کی پریشانی و بدحالی پردل ہی دل میں شادو مسرور ہوتاہے۔
کبھی کبھی یہ بھی دیکھاگیاہے کہ لوگ کسی بھوکے کو کھانا کھلادیتے ہیں اور اگر اس کے پاس پہننے کے لیے کپڑے نہیں ہیں تو کپڑوں کاانتظام کردیتے ہیں، لیکن جب اُس شخص کی خستہ حالی، پریشانی اور مفلسی ختم ہوجاتی ہے، وہ خود کفیل ہوجاتاہے اورمعاشرے میں سراٹھاکر چلنے کے لائق ہوجاتاہے، تو وہی لوگ اس سے جلنے اور اس پر شکوک و شبہات کی انگلیاں اٹھانے لگتے ہیں اور سماج میں اس کی تصویر خراب کرنے لگتے ہیں، جو کبھی اس کی بھوک کی حالت میںاُسے کھانا کھلاچکے ہوتے ہیں اور بے لباسی کی صورت میں اسے لباس فراہم کرچکے ہوتے ہیں۔
یہ بات ہمیں، آپ کو اور ہر اہلِ ایمان کو یاد رکھنی چاہیے کہ ’محسود‘ کے ساتھ حاسد کی بدخواہی، اس کے زوال و تنزل کی خواہش، اس کی مصیبت و پریشانی پرمسرت وشادمانی اور اس کی خوش حالی و شادمانی پر کبیدہ خاطری منافقین کی خصلت ہے۔ حاسد کو ’محسود‘ سے قطعِ تعلق ، ترک تعاون اور نفرت وبُعد اسلامی مزاج کے منافی اور اظہارِ محبت و اخوت کرتے ہوے دل میں جلن، بغض اور کینہ رکھنا سراسر نفاق ہے۔ یہ عمل ایمان سے دُور کردیتا ہے۔ ’محسود‘ کی غیبت، چغلی، اس پر کسی قسم کااتہام، اس کی ہتکِ عزت یا اس کے کسی راز کاافشا اور اس کااستخفاف و استہزا یا اس کے حقوق سے بے نیازی غیرمومنانہ اور ناجائز رویہ ہے۔
حسد کے روحانی مرض میں مبتلاشخص گرچہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوںسے بہرہ ورافراد کی تصویر بگاڑنے کی کوشش کرکے اپنے نفس کی تسکین محسوس کرتا ہے اور بسااوقات ’محسود‘ کو وہ کچھ نقصان پہنچانے میں کامیاب بھی ہوجاتاہے ۔ تاہم، ’محسود‘ کا یہ نقصان یاکسی قسم کی تکلیف و پریشانی وقتی و عارضی ہوتی ہے۔ اس نقصان یا تکلیف وپریشانی کی تلافی اس کے صبرو تحمل اور ایمانی استقامت کے ذریعے سے بہت جلد ہوجاتی ہے، جب کہ حاسد کی زندگی ہمیشہ دکھ، درد، اضطراب اور بے چینی سے دوچار رہتی ہے۔ اس کے حالات وکیفیات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فرحت وانبساط، مسرت وشادمانی اور بشاشت و تازگی کی دولت سے محروم ہوچکا ہے۔ بعض حکما نے حسد کو جسمانی مرض بھی بتایاہے۔ الحسد داء الجسد (حسد جسم کی بیماری ہے) کا عربی مقولہ بہت مشہور ہے۔ حاسد کا وقار گرجانا، لوگوں کا اس سے منحرف ومتنفرہوجانا اور اس کو مشکوک و مشتبہ نگاہوں سے دیکھنا حسد کے لازمی اثرات میںسے ہے۔ یہ اثرات حسد کرنے والے کی زندگی پر کسی نہ کسی درجے میں مرتب ہوکر رہتے ہیں۔ وہ کبھی باعزت و سرخ رو نہیںہوسکتا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
شَرُّالنَّاسِ مَنْ یُبْغِضُ النَّاسَ وَیُبْغِضُوْنَہٗ ، سب سے برا وہ شخص ہے، جو لوگوں سے بغض و کینہ رکھے اور اس کی وجہ سے لوگ اس سے بغض و کینہ رکھیں۔ (المعجم الکبیر، الطبرانی، حدیث: ۱۰۵۸۲)
اب تک کی کسی قدر تفصیلی گفتگو سے یہ بات واضح اور منکشف ہوجاتی ہے کہ حسد ایک انتہائی قبیح، رذیل اور ذلیل خصلت ہے۔ اس کے اندر بے شمار دینی، اعتقادی، سماجی، معاشرتی، روحانی اور جسمانی مفاسد ہیں اور اس کااُخروی انجام نہایت خطرناک اور تباہ کن ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
اِیَّـاکُمْ وَالْحَسَدَ فَاِنَّ الْحَسَدَ یَأْکُلُ الْحَسَنَاتِ کَمَا تَاْکُلُ النَّارُ الْحَطَبَ (ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی الحسد،حدیث ۴۲۷۸) تم اپنے آپ کو حسد سے بچائو، اس لیے کہ حسد نیکیوںکو اس طرح جلادیتاہے، جس طرح کہ آگ لکڑی جلادیتی ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی شب و روز کی زندگی کاجائزہ لیں اور دیکھیں کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ بیماری ہمارے اندر سرایت کرکے ہمارے خرمنِ دین و ایمان کو جلاکر راکھ کررہی ہو، تاکہ ہم جو کچھ چھوٹی بڑی نیکیاں کررہے ہیں اور جو ہم سے تھوڑے بہت کار خیر انجام پارہے ہیں، وہ ہمارے لیے اُخروی فلاح وکام یابی اورحصولِ جنت کا وسیلہ بن سکیں۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے طریق سے ایک حدیث بیان کی ہے:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابیِ رسولؐ کے سلسلے میں جنت کی بشارت سنائی۔ صحابہ نے اُن صحابی کے اعمال کابہ غور مطالعہ و مشاہدہ کیا تو اُنھیںاعمال کے اعتبار سے کسی اعلیٰ و بلند مقام پرنہیں پایا۔ اُن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی بشارت کی وجہ پوچھی تو انھوںنے بتایاکہ میرے حق میں جنت کی بشارت کی وجہ صرف یہ ہے کہ میںنے آج تک کسی بھی مسلمان سے بغض و حسد کا معاملہ نہیں کیا‘‘۔(مسند احمد ،ج۳، ص ۱۶۶)
حسد کا علاج کسی دو ا دارو، جھاڑپھونک یا شیخ و مرشد کی توجہ سے ممکن نہیں، بل کہ یہ علم و عمل دونوں کا متقاضی ہے۔ اس کے بغیرحسد کا علاج نہیںہوسکتا۔ یہ بات ہم سب پر واضح رہنی چاہیے کہ حسد سے ’محسود‘ کا نہ کوئی دنیوی نقصان ہوتا ہے اور نہ اُخروی، بل کہ اخروی طورپراس کے لیے یہ مفید اور باعث اجرو ثواب ہے۔ اس لیے کہ حاسد غیبت، چغلی اور لگائی بجھائی کے ذریعے سے ’محسود‘ کی آخرت کے لیے ہدیہ و توشہ فراہم کرتا ہے۔ میں نے کبھی کہاتھا:
مری ذات ہی اس کا موضوع تھی
وہ میرے گناہوں کو دھوتا رہا
اِس شعر میں اس فرمانِ رسولؐ کی ترجمانی کی گئی ہے، جس میں حاسد کو ’محسود‘ کے گناہوں کا دھوبی کہاگیاہے۔ جب کوئی کسی کی غیبت کرتاہے یا اس کی شبیہ بگاڑنے کا کام کرتاہے تو گویا وہ اس کے گناہوں اور خرابیوں کا صفایا کرتاہے۔
حسد کی تباہ کاریوں سے بچنے کا بہترین علاج یہی ہے کہ جس سے ہمیں کسی قسم کی تکلیف پہنچی ہو یا جسے ہم کسی وجہ سے ناپسند کرتے ہوں اور اس کی فلاح و کامیابی ہمیںایک آنکھ نہ بھاتی ہو، ہم اپنے آپ کو اس سے راضی کریں۔ اس کی ترقیِ درجات سے خوش ہونے کی عادت ڈالیں۔ اس کی عزت و شہرت سے تنگی و کوفت محسوس کرنے کی بہ جائے دل سے مسرت وشادمانی کا اظہار کریں۔ اگر ممکن ہوتو اس کی عزت و شہرت میں کچھ نہ کچھ اضافے کی کوشش کریں۔جس محفل و مجلس میں اس کا تذکرہ ہورہا ہو، اس میں خوش اسلوبی سے حصہ لیں اور اس کی اچھائیاں بیان کریں۔ حسب موقع اس کی دعوت کریں اور تحائف وہدایا کااہتمام کریں اور اس کے دکھ درد اور خوشی و مسرت میں شریک ہوں۔ یہ علاج ہے تو تلخ مگر اس میں نہایت مؤثر و مفید شفا پوشیدہ ہے۔ اگر یہ طریقۂ علاج ہم نے اختیارکرلیا تو اس میں ہمارے لیے غیرمعمولی سکون و راحت کا سامان ہے۔