جولائی ۲۰۰۹

فہرست مضامین

جاپان میں: پاکستان اور جنوبی ایشیا پر تازہ کاوشیں

ڈاکٹر معین الدین عقیل | جولائی ۲۰۰۹ | احوالِ عالم

Responsive image Responsive image

جاپان ہمہ اقسام کی ایجادات اور مصنوعات کی وجہ سے ساری دنیا میں جانا پہچانا جاتا ہے، لیکن یہاں کی علمی اور تحقیقی سرگرمیوں سے باہر کی دنیا پوری طرح آگاہ نہیں۔ یہ زیادہ تر جاپانی زبان میں ہوتی ہیں، اس لیے بیرونی دنیا اور خصوصاً اُردو دنیا کو کوئی علم نہیں ہوپاتا۔

راقم الحروف نے اپنے جاپان کے اولین قیام کے عرصے (۱۹۹۳ء-۲۰۰۰ء) میں علمی و تحقیقی میدان میں، خصوصاً تاریخ اور سیاست، اسلام اور دنیاے اسلام اور پھر اُردو زبان و ادب کے تعلق سے یہاں ہونے والی تصنیفی و تالیفی اور تراجم پر مبنی سرگرمیوں کے احوال کو اُردو دنیا سے متعارف کرانے کا ایک سلسلہ ’مشرقِ تاباں‘ کے زیرعنوان کراچی کے ایک کثیرالاشاعت رسالے میں جاری رکھا تھا اور پھر بعد میں گاہے گاہے نئی معلومات بھی مختلف رسائل میں پیش کی ہیں۔ اس مضمون میں جاپان میں، خصوصاً حالیہ چند برسوں میں، پاکستان اور جنوبی ایشیا کی تاریخ و سیاست اور معاشرت و مذہب پر جو مطالعات اور تحقیقات سامنے آئی ہیں ان میں سے چند کا سرسری تعارف مقصود ہے۔

ایک عرصہ قبل پاکستان سے متعلق مطالعہ و تحقیق کی روایت جاپان میں محض چند اسکالروں اور ایک دو اداروں تک محدود تھی جن میں دی سنٹر فار ایسٹ ایشین کلچرل اسٹڈیز ٹوکیو، ٹوکیو یونی ورسٹی، تویو بونکو (Toyo Bunko)، اورینٹل لائبریری ٹوکیو، ٹوکیو یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز، اور جاپان پاکستان ایسوسی ایشن ٹوکیو نمایاں تھے۔ ان میں سے مؤخر الذکر ادارہ خصوصاً پاکستان کے تعلق سے مطالعے کے ساتھ ساتھ تعارفی و سماجی نوعیت کی تقریبات اور خطبات کا اہتمام بھی کرتا ہے لیکن اس کے چند علمی کام یادگار بھی ہیں۔ ان میں سے ایک اس کا وہ جریدہ ہے، جو پاکستان کے نام سے کچھ عرصہ قبل تک باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ جریدہ جاپانی زبان میں جاپانی اسکالروں کی تحریروں سے، جو کسی نہ کسی لحاظ سے پاکستان اور اس کی معاشرت، معیشت، تاریخ اور سیاست سے متعلق ہوتی تھیں، مزین ہوتا تھا۔ کبھی کبھی اس میں کسی پاکستانی تخلیق، جیسے افسانہ یا کسی اور نوعیت کی ہلکی پھلکی تحریر کا جاپانی ترجمہ بھی شائع کیا جاتا تھا۔ اس میں گاہے گاہے جاپانیوں کی وہ تحریریں بھی شامل ہوتی تھیں جو ان کے پاکستان کے سفر یا قیام کے دوران ان کے مشاہدات و تاثرات پر مبنی ہوتی تھیں۔ پاکستان کے بارے میں اس طرح کی ذاتی مشاہدات و تاثرات اور جائزے و مطالعے پر مشتمل تحریروں کے دوسرے مجموعے وقتاً فوقتاً جاپان میں چھپتے رہے ہیں، جن کے بیش تر موضوعات کا تعلق بالعموم پاکستان کی تہذیب و ثقافت، معاشرت، مناظر اور سیاست و معیشت سے ہوتا ہے۔

یہ جریدہ پاکستان اب بھی نکلتا ہے، اور اب حال میں اس کا ۲۰۰ واں شمارہ ،بطور خاص نمبر، قدرے زیادہ ضخامت سے شائع ہوا ہے۔ اس خاص نمبر میں اس کے ۲۰۰ شماروں کا ایک خصوصی جائزہ ’کی کوتایوتاکا‘ صاحب نے تحریر کیا ہے، جس میں ایسوسی ایشن کی تاریخ پر بھی نظر ڈالی ہے۔

جاپان پاکستان ایسوسی ایشن کے علمی کاموں میں سے ایک اہم علمی کام ایک ضخیم کتابیات رہنماے پاکستان (جاپانی) کی ترتیب و اشاعت تھا۔ یہ متنوع اور مبسوط کتابیات، جو پاکستان کی تاریخ و سیاست ، تہذیب، ثقافت، معاشرت اور زبان و ادب کے متعدد پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہے، اگرچہ جاپانی زبان میں ہے اور زیادہ تر جاپانی مطبوعات پر مشتمل ہے لیکن اس میں مغربی زبانوں بالخصوص انگریزی مآخذ اور کتب ِحوالہ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ بہت جامع اور سائنٹی فک انداز سے مرتب کی ہوئی کتابیات ہے، جس کی نظیر، بعض مغربی زبانوں کی کتابیات سے قطع نظر، جو پاکستان کے تعلق سے بالخصوص مرتب ہوئیں، کسی مشرقی زبان میں مشکل ہی سے مل سکتی ہے۔

اس کتابیات کے مرتبین میں متعدد نام ہیں لیکن بنیادی اور حاوی کام پروفیسر اسادایوتاکا (صدر شعبۂ اُردو، ٹوکیو یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز) اور ہیرو کی فوکاماچی (ماہر معاشیات پاکستان) نے انجام دیا۔ ان دونوںاسکالروں نے اپنی دل چسپی اور مطالعے کا محور پاکستان کو بنا رکھا ہے۔ پروفیسر اسادایوتاکا کے کام اُردو زبان و ادب سے متعلق ہیں اور وہ اور ان کی بیگم میہارو اسادا پاکستان کی شمالی زبانوں پر بھی کام کرچکی ہیں، جب کہ فوکاماچی نے پاکستان کی معیشت اور سیاست میں دل چسپی لی ہے اور بجاطور پر جاپان میں ان کے ماہر مانے جاتے ہیں۔

پاکستان پر مختلف نوعیت کی متعدد کتابیں،سفری رہنما کتب، وہاں سے آنے والے جاپانیوں کے تاثرات پر مبنی کتب یا مضامین کے مجموعے، معاشی جائزے اور تاریخی و تحقیقی نوعیت کی مکمل یا جزوی کتب شائع ہوتی رہتی ہیں۔ ایک ایسی ہی کتاب چند سال قبل ۲۰۰۳ء میں،سویامانے، ہیروسے تکاکو اور اودا ہسایا نے مل کر مرتب کی ہے، جس کے عنوان کا ترجمہ یوں ہوسکتا ہے کہ ’پاکستان جانے کے لیے ۶۰ ابواب‘۔ اس کتاب میں ۶۰ مختلف عنوانات کے تحت پاکستان کے بارے میں وہ معلومات فراہم کی گئی ہیں جو پاکستان کے بارے میں جاننے اور وہاں جانے والوں کے لیے دل چسپ اور مفید ہوسکتی ہیں۔ مرتبین کو پاکستان سے نسبت رہی ہے اور ان میں سویامانے تو پاکستان میں تعلیم بھی حاصل کرچکے ہیں۔ قونصل خانہ جاپان میں سرکاری فرائض بھی انجام دیتے رہے ہیں اور اب اوساکا یونی ورسٹی کے شعبۂ اُردو میں پروفیسر رہ کر ایک عرصے سے اُردو، پاکستان، اسلامی فکر اور تحریکوں پر تحقیق و تصنیف اور تدریس میں مصروف ہیں۔ یہ کتاب یہاں بہت مقبول ہوئی ہے، دو سال بعد اس کا دوسرا اڈیشن اور اب اگلے سال اس کا تیسرا اڈیشن شائع ہو رہا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے حالیہ دو تین دہائیوں کے تعلقات اور مسائل پر بھی یہاں کئی مطالعے ہوچکے ہیں۔ افغانستان بھی خصوصی موضوع کی حیثیت یہاں اختیار کرچکا ہے۔ ماہرین مختلف پہلوئوں سے ان دونوں ملکوں پر الگ الگ یا مشترکہ موضوع کی حیثیت میں مطالعہ کر رہے ہیں اور کتابیں اور مقالات سامنے آرہے ہیں۔ اس نوعیت کی ایک مختصر کتاب فوکاماچی ہیروکی اور ادوا ہسایا نے مرتب کی ہے جس کے عنوان کا ترجمہ کچھ یوں ہوسکتا ہے کہ ’’افغانستان اور پاکستان: کیا یہ بحران ریاست کے وجود کے لیے ہے؟‘‘ دونوں مرتبین پاکستان پر مختلف نوعیت کے تحقیقی اور تجزیاتی مطالعے کرچکے ہیں۔ فوکاماچی صاحب یہاں پاکستان کی سیاست و معیشت کے ماہرین میں شمار ہوتے ہیں اور اُردو خوب جانتے ہیں۔ ان کی بیگم بھی پاکستان سے بے حد محبت و انسیت رکھتی اور اُردو جانتی ہیں اور اپنے تاثرات لکھ بھی چکی ہیں۔

جاپان میں تحقیقی مطالعات کی مستحکم اور دیرینہ روایت میں علاقائی مطالعات کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ فیجی کے زمانے میں، یعنی انیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں جب یہاں نئے نظامِ معاشرت و معیشت کی تشکیل کی بابت سوچا گیا تو یہ بھی سوچا گیا اوراس کے لیے باقاعدہ اور منظم طریقے پر سیاسی سرپرستی میں یہ اہتمام کیا گیا کہ تمام ترقی یافتہ ممالک کی معاشرتی اور معاشی ترقی کا راز معلوم کیا جائے اور ان کی مثبت خصوصیات کو اختیار کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے جو جو اہتمام ہوئے اور جو کامیابیاں جس جس طرح سے حاصل ہوئیں، یہ ایک الگ داستان ہے۔ علاقائی مطالعات کو اس وقت سے یہاں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ بعض جامعات اس مقصد سے قائم    کی گئیں، جیسے ٹوکیو یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز، اوساکا یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز، اور پھر  دیگر متعدد سرکاری اور نجی جامعات میں ایسے خصوصی شعبوں اور کلیّوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ ان جامعات اور کلیّوں میں ہر اہم موضوع پر، جن میں خصوصیت سے مذہب، تاریخ، تہذیب و ثقافت اور سیاست و بین الاقوامی تعلقات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، تحقیق اور تدریس کا خاص اہتمام ہوتا ہے، کتابیں شائع ہوتی ہیں اور مجلے بھی نکلتے ہیں۔

آج کل ایسے مطالعات کا ایک نیا اور اہم مرکز، مذکورہ جامعات سے قطع نظر، کیوتو یونی ورسٹی بن گئی ہے۔ اس کے کلیہ ایشیا، افریقہ، علاقائی مطالعات اور مرکز براے اسلامی مطالعات ان دنوں تحقیقی سرگرمیوں کا محور بنے ہوئے ہیں۔ یہاں خاص طور پر اسلامی مطالعات کو مرکزیت اور توجہ حاصل ہوگئی ہے۔ تحقیقی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں اور سیمی ناروں اور کانفرنسوں کا ایک سلسلہ بندھا ہوا ہے۔ اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ ان مراکز کے صدر ایک پروفیسر کوسوگی ہیں، جو عربی کے استاد ہیں۔ پی ایچ ڈی جامعہ ازہر، قاہرہ سے کی ہے اور مسلمان بھی ہوچکے ہیں۔ بہت لائق، متحرک اور مستعد انسان ہیں۔ کئی اہم کتابیں اسلام اور دنیاے اسلام کے تعلق سے مرتب کی ہیں۔ ایک تحقیقی مجلہ بھی نکالتے ہیں اور ایک عمدہ اور وقیع کتب خانہ بھی قائم کررکھا ہے۔ یہ پہلے ٹوکیو یونی ورسٹی اور اس کے مرکز مطالعات اسلامی سے منسلک تھے لیکن کچھ سالوں سے کیوتو یونی ورسٹی آگئے ہیں، اور ان کی آمد سے یہاں اسلامی مطالعات اور علاقائی مطالعات میں روز افزوں اضافہ ہوگیا ہے۔ ویسے تو یہاں علاقائی مطالعات کے ضمن میں مشرق وسطیٰ کے ممالک کو ترجیح حاصل ہے، کیونکہ پروفیسر کوسوگی کی بنیادی دل چسپی عربی اور مشرق وسطیٰ کی حالیہ معاشرت و سیاست سے متعلق ہے، لیکن اب وہ جنوبی ایشیا اور یہاں کی اسلامی فکروتحریک کے مطالعے کی طرف بھی راغب ہو رہے ہیں اور ایسے موضوعات بھی اپنے نوجوان اسکالروں میں تقسیم کر رہے ہیں، جن کا تعلق جنوبی ایشیا سے ہے۔

یہاں ایک ایسے ادارے کا ذکر بھی مناسب ہے جو محض جنوبی ایشیا کی ثقافت اور زبانوں کے مطالعے کے لیے مخصوص ہے اور یہ ’ٹوکیو یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز‘ کا ایک ذیلی ادارہ ’سائوتھ ایشین لینگویجز اینڈ کلچر‘ ہے جس میں اس ادارے کے نام اور مقاصد کے تحت مطالعات کا ایک تسلسل برسہا برس سے قائم ہے۔ یہاں پی ایچ ڈی کے متعدد منصوبے مکمل ہوچکے ہیں اور بیشتر مقالات شائع بھی ہوچکے ہیں۔ یہاں سے ایک تحقیقی مجلہ ’جرنل آف سائوتھ ایشین لینگویجز اینڈ کلچر‘ شائع ہوتا ہے جس میں جاپانی زبان کے ساتھ ساتھ انگریزی اور یورپی زبانوں میں بھی مقالات چھپتے ہیں اور سب ہی تحقیقی وتجزیاتی نوعیت اور معیار کے حامل ہوتے ہیں۔اس کے ایک حالیہ شمارے میں پروفیسر ہیروجی ہاگیتانے، جو ٹوکیو یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز کے شعبۂ اُردو میں استاد اور کئی اُردو افسانوں کے مترجم اور اب ’اُردو جاپانی لغت‘ کے مرتب بھی ہیں، ایک کتابیات اُردو کے ان ناولوں اور افسانوں کی مرتب کی ہے، جو اَب تک جاپانی میں ترجمہ ہوچکے ہیں۔

جنوبی ایشیا کے تعلق سے اوساکا یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز بھی اہم ہے جس میں مختلف متعلقہ شعبے تحقیقی و تدریسی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ یہاں سے بھی ایک تحقیقی مجلہ جرنل آف اوساکا یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز شائع ہوتا ہے، جس میں متنوع تحقیقی مقالات شائع ہوتے ہیں، جو اگرچہ مختلف موضوعات پر ہوتے ہیں، لیکن جنوبی ایشیا، یہاں کی ثقافت اور زبان و ادب کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ فارسی، اُردو اور ہندی و بنگالی زبانوں اور ان کے ادب پر اس جرنل میں متعدد قابلِ قدر مقالات شائع ہوتے ہیں۔

جنوبی ایشیا کے تعلق سے یہاں ایک اور ادارے کا ذکر ضروری ہے جو ٹوکیو میں ادارۂ شرقی (Toyo Bunko) کے نام سے معروف ہے۔ اس کا ایک بڑا اور وقیع کتب خانہ علومِ شرقیہ پر کتابوں اور مخطوطات کے قیمتی ذخیرے کی بنا پر بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں موجود مطبوعات اور مخطوطات کی فہرستیں چھپ چکی ہیں۔ ٹوکیو میں اس کے علاوہ ٹوکیو یونی ورسٹی کا ایک ذیلی ادارہ ’مرکز براے مشرقی ایشیائی ثقافتی مطالعات‘ ہے جس کے تحت مختلف متعلقہ موضوعات پر تحقیقات اور علمی و تحقیقی سرگرمیوں اور منصوبوں کا ایک تسلسل یہاں قائم ہے۔ یہاں سے کئی کتابیں اور کتابچے چھپ چکے ہیں اور ایک تحقیقی مجلہ Asian Research Trends یہاں سے شائع ہوتا ہے۔ اس میں جو مقالات شائع ہوتے ہیں ان کی نوعیت تحقیقی جائزوں اور کتابیاتی مطالعات کی ہوتی ہے۔ اگرچہ اس کا محور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک مثلاً چین، کوریا، فلپائن، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، برما پر محیط رہتا ہے لیکن گاہے گاہے جنوبی ایشیا پر بھی مقالات شائع ہوتے ہیں، مثلاً ایک سلسلۂ مضامین ’ہندستان میں تحقیقی اداروں کا جائزہ‘ کے عنوان سے ناکازاتو ناریاکی نے تحریر کیا، جو چار قسطوں میں شائع ہوا۔ اس میں اداروں کا تعارف، نوعیت اور سرگرمیوں کی تفصیلات درج کی گئی ہیں۔ ایک شمارے میں نیدرلینڈ میں اسلام سے متعلق جو تحقیقات ہوئی ہیں ان کا ایک بہت محققانہ جائزہ اور کتابیات شائع ہوئی ہے۔ چین میں اسلامی تحقیقات پر بھی ایک محققانہ سلسلۂ مضامین اس میںشائع ہوا ہے۔ ایک شمارے میں وسط ایشیا، قازقستان کے تعلق سے اور نوآبادیاتی بنگال کے بارے میں مقالات شائع ہوئے ہیں۔

اس ادارے میں ’توسیعی خطبات‘ کی ایک مستحکم روایت بھی قائم ہے، جس کے تحت ماہرین کو ’توسیعی خطبات‘ کے لیے مدعو کیا جاتا ہے اور وہ خطبات کتابچوں کی صورت میں شائع کیے جاتے ہیں۔ ان خطبات اور ان پر مبنی کتابچوں کو انگریزی زبان میں Oriental Studies in Japan: Retrospect and Prospectکے زیرعنوان ترتیب دیا جاتا ہے۔ اس وقت دوخطبات: ۱- جنوبی ایشیا کی تاریخ اور ۲- عصرِحاضر کا جنوبی ایشیا، میرے پیش نظر ہیں، جو علی الترتیب کراشیما نوبورو اور ناکامورا ہے ایچی نے تحریر کیے ہیں۔ ان میں عنوان کے مطابق بہت جامع اور تجزیاتی مطالعات کیے گئے ہیں۔ ان کا سلسلۂ شمار ۲۷ تک پہنچا ہے اور ان کے موضوعات میں تاریخ، تہذیب و ثقافت، فلسفہ، ادب، لسانیات، فن تعمیر، بشریات اور فنون شامل ہیں اور علاقائی ذیل میں ان کا دائرہ جاپان کے علاوہ، مغربی ایشیا، افریقہ، چین، کوریا، وسط ایشیا اور مشرق وسطیٰ تک پھیلا ہوا ہے۔

اس طرح کے اور بھی مطالعاتی سلسلے یہاں جاپانی اسکالروں اور علمی و تحقیقی اداروں کے  پیش نظر رہتے ہیں۔ مثلاً ٹوکیو یونی ورسٹی نے ایک خصوصی تحقیقی منصوبہ Islamic Area Studies Project جاری کیا تھا، جو ۱۹۹۷ء سے ۲۰۰۲ء تک جاری رہا۔ اس منصوبے کے تحت جو تحقیقات شائع ہوئیں، ان میں سے ۱۹ راقم الحروف کی نظر سے گزریں۔ ان میں سے نصف سے زیادہ منصوبے جاپانی اسکالروں نے مکمل کیے، جب کہ دیگر متعلقہ ممالک کے اسکالروں نے بھی ان منصوبوں کی تکمیل میں شرکت کی۔

یہ امر بھی دل چسپی کا باعث اور قابلِ رشک ہے کہ جاپان میں علمی اور تحقیقی منصوبے بھی ’پنج سالہ‘ بنائے جاتے ہیں، یعنی نجی اور ذاتی منصوبوں سے قطع نظر وہ منصوبے جو سرکاری یا اداراتی  یا جامعاتی سطح پر بنائے جاتے ہیں، انھیں اسی طرح پانچ سالوں کے ہدف سے پورا کیا جاتا ہے۔   یہ منصوبے بالعموم مشترکہ منصوبے ہوتے ہیں، یعنی انھیں کئی افراد کے سپرد کردیا جاتا ہے اور تقسیمِ کار کے بعد رفتارِ کار کا جائزہ سالانہ بنیادوں پر لیا جاتا ہے اور پھر ضروری فیصلے کیے جاتے ہیں۔ بعض منصوبے جو بڑے اور زیادہ اہم ہوتے ہیں انھیں کئی اداروں اور جامعات کے سپرد کردیا جاتا ہے کہ اس منصوبے کا فلاں حصہ، فلاں جامعہ یا فلاں ادارے کے سپرد رہے گا اور فلاں اُس ادارے کے سپرد۔ پھر وہ ادارہ یا جامعہ اسے اپنے افرادِ متعلقہ کے سپرد کر دیتی ہے یا ان میں تقسیم کردیتی ہے اور پھر سالانہ بنیادوں پر رفتار کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ راقم الحروف کی معلومات کی حد تک، یہ سلسلہ یہاں ۱۹۸۴ء سے شروع ہوا ہے اور بڑے منصوبے بالعموم پانچ سالوں پر محیط آگے بڑھتے ہیں۔ جب یہ مکمل ہوجاتے ہیں تو انھیں شائع کردیا جاتا ہے۔ تحقیق میں اشتراکِ عمل کی یہ مستحسن اور مفید روایت کاش کہ ہمارے ملک میں عام ہوسکے۔ لیکن ہم تو ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہی کے حصار میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ ایثار، رواداری اور اشتراکِ عمل ہماری سرشت ہی میںنہیں۔

حال ہی میں جنوبی ایشیا سے متعلق تازہ تر تحقیقات پر جو مطالعے راقم الحروف کی نظر سے گزرے ہیں ان میں ایک پروفیسر اونایاسویوکی کی تصنیف سلطنت مغلیہ میں ہندستانی معاشرہ ہے۔  یہ کتاب اسی سال شائع ہوئی ہے۔ جنوبی ایشیا کے تعلق سے زیادہ مبسوط اور متنوع کام ابھی حال ہی میں جنوبی ایشیا کی تاریخ کے عنوان سے چار جلدوں کا ایک ضخیم منصوبہ ہے، جس کی تین جلدیں پچھلے سال اور اس سال چھپ چکی ہیں اور چوتھی جلد اگلے سال شائع ہو رہی ہے۔ اس کے مرتب نوبورو کراشیما ہیں اور جلد اول اور جلد سوم خود ان ہی کی تصنیف کردہ بھی ہیں۔ چار جلدوں کی تقسیم اس طرح کی گئی ہے: جلد اول: عہدِ قدیم یا ہندو عہد، جلد دوم: عہدِ وسطٰی اور عہدِ جدید، جلد سوم: جنوبی ہند اور ریاستیں، جلد چہارم: حالیہ عہد کا جنوبی ایشیا۔

مغلیہ عہد کے جنوبی ایشیا پر پروفیسر کوندو اوسامو کا نام جاپان میں خاصا معروف اور محترم ہے۔ موصوف نے اپنے مطالعات کو فارسی مآخذ کی مدد سے مکمل کیا ہے۔ وہ فارسی خوب جانتے ہیں اور فارسی مآخذ اور متون کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ابھی حال میں کوندو صاحب کا ایک مقالہ ایک بہت انوکھے موضوع پر شائع ہوا ہے کہ عہداکبر میں سنسکرت کی اہم کتب کے جو تراجم ہوئے، ان تراجم کے دوران مترجمین کو کیا کیا مسائل درپیش رہے۔ خصوصاً لسانی حوالے سے کہ سنسکرت الفاظ یا اصطلاحات کو فارسی اِملا میں کس طرح ڈھالا جائے۔ پروفیسر کوندو نے ایسے الفاظ کی نشان دہی کی ہے۔ دراصل ان کا یہ مقالہ اوساکا یونی ورسٹی میں اُردو کے پروفیسر سویامانے کے ایک مقالے کی بازگشت کہا جاسکتا ہے، جس میں سویامانے صاحب نے اُردو اِملا اور رسم الخط کے تشکیلی دور کا تحقیقی مطالعہ کیا تھا اور اس ضمن میں انگریز مستشرقین کی ان کوششوں پر روشنی ڈالی تھی جو انھوں نے اُردو حروف اور رسم الخط کو وضع کرنے میں انجام دی تھیں۔ مثلاً ک، گ، ر، ڑ، ٹ کو پہلے کیسے لکھا جاتا تھا لیکن پریس کے قائم ہونے، طباعت کے شروع ہونے اور پھر نستعلیق ٹائپ کے استعمال کے باعث یہ حروف کس طرح تبدیل کرنے ضروری سمجھے گئے۔ پروفیسر سویامانے کے اس طرح کے مباحث کو، جو اُردو کے تعلق سے تھے، پروفیسر کوندو نے فارسی کے مقامی تلفظ کے حوالے سے اپنے مقالے میں سمیٹا ہے۔ لیکن اپنے اس مطالعے کو انھوں نے عہداکبری کی اہم تصنیف آئین اکبری مصنفہ ابوالفضل کے مطالعے اور حوالے تک مخصوص رکھا ہے۔

حالیہ دنوں میں جو مزید قابلِ ذکر اور قابلِ رشک تحقیقی کام سامنے آئے ہیں، ان میں شویامانے (سویامانے نہیں) کا پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ ، مغل شہر: ’توسیعی تعمیر کا تصور اور ان کا ارتقائی و تقابلی مطالعہ‘ ہے، جوکچھ عرصہ قبل شائع ہوا ہے۔ یہ مقالہ انھوں نے کیوتو یونی ورسٹی میں مکمل کیا ہے اور ان کے نگران پروفیسر ہونو اور پروفیسر نشی کاوا تھے، جو خود جنوبی ایشیا کے ماہرین میں شمار ہوتے ہیں۔ مؤخر الذکر کو فنِ تعمیرات سے خاص دل چسپی ہے۔ اس ضخیم تحقیقی مقالے میں مقالہ نگار نے اسلامی شریعت میں شہروں کی تعمیر اور خصوصیات کے تعلق سے روایت اور تصورات پر فاضلانہ طریقے سے روشنی ڈالی ہے اور قدیم اسلامی شہروں مکہ، مدینہ، بغداد،دمشق اور ساتھ ہی یروشلم کی تعمیر اور شہریت کا تقابلی و ارتقائی مطالعہ پیش کیا ہے۔اپنے ان مطالبات میں انھوں نے جزئیات کو بھی اہمیت دی ہے اور اس حد تک گہرائی میں گئے ہیں کہ گلی اور کوچے تک کے فرق کا تحقیقی مطالعہ کر ڈالا ہے۔ اپنے ارتقائی مطالعے میںانھوں نے قدیم شہروں کے ذیل میں یوریشیا کے ماوراء النہر اور ایران کے شہروں کو بھی پیش نظر رکھا ہے، لیکن ان کے موضوع کا اہم حصہ مغل شہروں کا تعمیراتی مطالعہ تھا۔ اس ضمن میں انھوں نے بطور مثال و حوالہ چند اسلامی شہروں دہلی، لاہور اور احمدآباد کو بنیادی مطالعے کا موضوع بنایا ہے۔ اپنے اس مطالعے کو انھوں نے قدیم اور جدید نقشوں سے مزین کر کے نہایت قیمتی معلومات بھی فراہم کی ہیں۔ پروفیسر یامانے کو شہروں کی تعمیرات اور ان کے تحقیقی مطالعے سے ابتدا ہی سے دل چسپی رہی ہے۔ وہ جب ایم اے کے طالب علم تھے تو انھوں نے ایم اے کا مقالہ ’لاہور کی توسیعی تعمیروتشکیل‘ کے موضوع پر ۱۹۹۳ء میں لکھا تھا۔

اب آخر میں ایک ایسی کتاب کا ذکر مناسب ہوگا جو اگرچہ تصوف کے موضوع پر ہے لیکن اس میں تاریخی تناظر سے بھی مطالعہ شامل ہے۔ اس کتاب کو صوفیہ یونی ورسٹی (ٹوکیو) کے مرکز مغربی ایشیا و افریقہ (Centre for West Asia and Africa) نے شائع کیا ہے۔ یہ مرکز ایک عمدہ تحقیقی مجلہ بھی شائع کرتا ہے جس میں مشرق وسطیٰ اور افریقہ و ایران کے بارے میں مقالات شائع ہوتے ہیں۔ تصوف پر شائع شدہ اس کتاب میں مختلف حوالوں سے مقالات شامل ہیں جن میں سے ایک مقالہ آنحضوؐر کے ان تبرکات کے بارے میں ہے جو جنوبی ایشیا میں مختلف مقامات پر محفوظ ہیں۔ یہ مقالہ ایک جاپانی اسکالر محترمہ ساچیو کوماکی نے تحریر کیا ہے، جنھوں نے اس کے لیے پاکستان اور ہندستان کا سفر بھی کیا اور بچشم خود ان تبرکات کو دیکھ کر یہ مقالہ تحریر کیا۔