جولائی ۲۰۰۹

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| جولائی ۲۰۰۹ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

ایک شوہر کی سوچ

سوال:  میں شادی شدہ ہوں اور تین بچوں کی ماں ہوں۔ دینی لحاظ سے یہ جاننا چاہتی ہوں کہ اسلام نے ہمیں کس طرح کے رہن سہن کی تاکید کی ہے؟ ہر انسان اپنی سہولت کے مطابق دین کی بات کرتا ہے۔ میرے میاں کے بقول: ’’اسلام میں یہ مناسب نہیں کہ ہمارا بیڈروم ایک ہو۔ مجھے بیٹیوں کے ساتھ اور اُنھیں بیٹے کے بیڈروم میں سونا چاہیے‘‘۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ مناسب بات نہیں ہے، جب کہ ہمارے بچے بھی بڑے ہوچکے ہوں۔ سوال یہ ہے کہ ایک عورت جو سارا دن بچوں کے ساتھ گزارتی ہے، گھر کا کام کاج کرتی ہے، شوہر کے ماں باپ کی خدمت کرتی اور مہمان داری کرتی ہے، اور خاوند جو کہ عموماً چار پانچ بجے گھر آئے، پھر روز ہی کہیں اپنے کام سے یا دوستوں کے پاس چلا جائے اور رات گئے تک ٹی وی دیکھے اور سو جائے، تو کیا اُس عورت کو اپنے دکھ سُکھ کہنے کے لیے اس بندے کی کوئی ضرورت نہیں؟

سیرت پاکؐ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ نبی پاکؐ کی ازدواجی زندگی کتنی متوازن اور مثالی تھی۔ میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ نبی پاکؐ کی ازواجِ مطہراتؓ خاص طور پر حضرت عائشہؓ کے بارے جو کچھ بیان کیا جاتا ہے کیا وہ صرف پڑھنے کے لیے ہے یا کہ عمل کرنے کے لیے بھی ہے؟ مجھے اپنے خاوند کے اس رویے پر بہت دکھ ہوتا ہے۔ اگر میرے خاوند کی بات ٹھیک ہے تو وضاحت کر دیں تاکہ میں اس اذیت و کیفیت پر صابرہ و شاکرہ بن کر رہوں۔

جواب: قرآن و سنت کے ہر اُس طالب علم کے لیے جو اس کا مطالعہ اور اس پر غوروفکر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، قرآن کریم کے ظاہر مفہوم اور اس کے سیاق و سباق سے واقف ہو، اور  سیرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں آپؐ کے عمل، قول اور تقریر کی مدد سے صحیح مقصود و مطلوب حکم تک پہنچ سکتا ہو، دین کے معاملات کو سمجھنا ہرگز مشکل نہیں رہتا۔ دین کو ایک مسلمان کے لیے آسان بنا دیا گیا ہے۔اس لیے من مانی تاویلات کرنے یا سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر اسلام کے نام پر اپنی ذاتی سہولت کی بناپر کسی کام پہ اصرار کی گنجایش نہیں چھوڑی گئی۔ معاشرتی معاملات میں خصوصاً قرآن وسنت کے احکام غیرمعمولی طور پر واضح اور غیرمبہم ہیں۔

حدیث صحیح میں یہ بات فرمائی گئی ہے کہ جب بچے بلوغ کے قریب پہنچیں تو ان کے بستر الگ کردیے جائیں۔ وجہ ظاہر ہے حقیقی خونی رشتوں کے احترام کے باوجود حالت ِ نیند میں ایک بستر میں سونے کے سبب غیرارادی طور پر کسی غلطی کا ارتکاب ہوسکتا ہے۔ اس لیے برائی کے ذریعے کا سدباب کرنے کے لیے واضح حکم دے دیا گیا۔ قرآن کریم کا واضح حکم ہے کہ جس کمرے میں شوہر اور بیوی استراحت کر رہے ہوں اس میں تین اوقات میں داخل ہونے سے قبل اجازت لی جائے۔ یہ اجازت کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ قرآن نے خود اس کا جواب دیا ہے اور یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ ہم اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتے ہیں تاکہ کوئی مومن اور مومنہ اپنے ذاتی تصورِ تقویٰ کی بنیاد پر اپنے اُوپر کوئی ناجائز پابندی نہ لگا لے۔

قرآن کریم نے شوہر اور بیوی کے رشتے کو لباس سے تعبیر کیا ہے، مؤدت و رحمت اور قربت سے تعبیر کیا ہے۔ اس پس منظر میں اپنی من مانی تعبیرات کے ذریعے اپنے اُوپر مشقت اور بیوی پر ظلم نہ اسلام کا مقصود ہے اور نہ عقل کا تقاضا۔ اگر کوئی شوہر بغیر کسی نص شرعی کے محض کسی واعظ کے بیان کی بنا پر کوئی طریقہ اختیار کرتا ہے تویہ اسلام کے نظامِ معاشرت کی روح کے منافی ہے۔

دین کے معاملات میں یہ سمجھنا کہ جو بات شوہر کے دماغ میں آجائے وہ تو دین ہے اور جو حق بیوی کے پاس ہو وہ قابلِ توجہ نہیں، دین سے بغاوت پر مبنی رویہ ہے۔ ہر مسلمان کو ایسے ظلم سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔ شوہر اور بیوی کا ایک ساتھ رہنا، سونا اور استراحت کرنا دین کے تقاضوں میں سے ہے اور یہ ایک دوسرے پر وہ حق ہے جسے لباس کی جامع اصطلاح سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیا شوہر اور بیوی کا سماجی اور عائلی سطح پر تعلق محض چند لمحات تک محدود ہے اور اس کے بعد وہ اچھوتوں کی طرح ایک دوسرے سے دُور الگ الگ رہیں؟ کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک موقع پر بھی یہ پسند فرمایا کہ اُمہات المومنینؓ کو ایک جگہ قید کردیں اور خود ان سے الگ تھلگ ایک حجرے میں قیام فرمائیں؟ آخر ہمارے عمل کی بنیاد کیا ہوگی، اپنی من مانی تعبیرات یا قرآن و سنت کے واضح احکامات کی روشنی میں پندرہ سو سال کا اُمت کا عمل؟

ایک بیوی کو شوہر پر وہی حق ہے جو شوہر کو بیوی پر ہے۔ یہ کسی فرد کا نہیں قرآن کریم کا حکم اور قیامت تک کے لیے فیصلہ ہے۔ ہمیں اس فیصلے کو ماننا ہوگا، چاہے اس سے ہمارے نفس کو تکلیف پہنچے، اَنا کو ٹھیس لگے اور علمیت کو صدمہ پہنچے۔ دین نصیحت کا نام ہے، یعنی حق کی بات کو بھلائی کے جذبے کے ساتھ ایک دوسرے تک پہنچانا۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ بیوی اوربیٹی کے حقوق کی ادایگی کے بارے میں علم بھی حاصل کریں اور انھیں کماحقہ ادا بھی کریں۔

ایک شخص اگر روزی کمانے کے لیے آٹھ، دس گھنٹے صرف کرتا ہے اور ٹی وی کے سامنے چار گھنٹے بیٹھتا ہے اور دعوتِ دین کے کام کے لیے ہفتے میں ایک یا دو دن، چند گھنٹوں کے لیے  کسی اجتماع میں یا کسی ذمہ داری کی ادایگی میں مصروف ہوتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ   بظاہر تھک ہار کر رات کو ۱۰، ۱۱ بجے گھر آئے اور علیحدہ کمرے میں سو جائے۔ اس کا ایسا کرنا   گھریلو زندگی کے جملہ پہلوئوں کو نظرانداز کرنے اور متعلقین کے حقوق کی پامالی کے مترادف ہے۔ یہ بیوی کا شوہرپر حق ہے کہ وہ اس کے جذبات کا خیال رکھے، حُسنِ سلوک سے پیش آئے، اور جہاں تک ممکن ہو سہولت پہنچائے۔ اسلام کی واضح تعلیمات کی موجودگی میں، دین کے نام پر    ان ہدایات سے انحراف نہ تقویٰ ہے نہ اسلامی معاشرت اور خاندانی نظام کی پیروی۔ لہٰذا ماضی میں جو زیادتی کسی شوہر نے بیوی کے ساتھ کی ہو اس پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے اور بیوی کے ساتھ صحیح رویہ اپنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کے مدعا اور مقصد کو سمجھنے اور اپنی ذاتی راے کے مقابلے میں دینی تعلیمات پر اعتماد کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین! واللّٰہ اعلم بالصواب (ڈاکٹر انیس احمد)

بیوٹی پارلر کی تعلیم اور کاروبار

س: آج کل بیوٹیشن اور بیوٹی پارلر کی تعلیم، کاروبار اور رواج عام ہورہا ہے۔ ایک خاتون نے انگلینڈ کے ایک کالج میں ایک سالہ ڈپلومہ ٹریننگ کورس میں داخلہ لیا ہوا ہے۔ میں اس قسم کی تعلیم اور کاروبار کو جائز نہیں سمجھتا لیکن اُن کا کہنا ہے کہ ’’اس میں کوئی ہرج نہیں کیونکہ اسلام میں عورتوں کے بننے، سنورنے اور سنوارنے کی اجازت ہے، جب کہ باقاعدہ دکان بھی نہیں کھولی جائے گی۔ عورتیں گھر پر آجاتی ہیں یا اپنے ہاں لے جاتی ہیں جس سے معقول اور جائز آمدنی ہوسکتی ہے‘‘۔صحیح موقف کیا ہے؟

ج: آپ کے سوال کے دو پہلو غورطلب ہیں: اول یہ کہ تزئین و آرایش کے طریقوں کی تعلیم چاہے وہ آرایش گیسو ہو، غازہ کا صحیح تناسب سے استعمال ہو ، کیا ایسے فن کی تعلیم اسلامی نقطۂ نظر سے جائز ہوگی یا ناجائز؟ دوسرے یہ کہ زینت اختیار کرنا کیا بجاے خود مکروہ ہے یا حرام؟

اگر غور کیا جائے تو ہر وہ علم جو معاشرتی اور عائلی زندگی کو زیادہ مستحکم بنانے والا ہو اور اس میں شریعت کی کسی نص کی خلاف ورزی نہ ہو رہی ہو، اصولاً مباح ہوگا۔ علم کا استعمال جب بھی کسی فحش یا برائی کے فروغ کے لیے ہو تو وہ حرام ہوجائے گا۔ اگر ایک خاتون بیوٹیشن کی حیثیت سے خواتین کو بنائو سنگھار کی خدمت اپنے گھر میں بیٹھ کر فراہم کرتی ہے تو اس میں کسی شرعی اصول سے تضاد نہیں پایا جاتا، البتہ اسراف، نمود و نمایش، لغویات اور وقت کے مصرف اور ترجیحات کا پہلو بھی سامنے رہنا چاہیے۔ تاہم، اگر وہ بازار میں دکان کھول کر بیٹھتی ہے جہاں عورتوں ہی کو نہیں مردوں کو بھی   یہ خدمت فراہم کی جاتی ہو تو یہ لازماً حرام ہوگا۔

دین کے معاملات میں محض اپنی پسند پر فیصلہ کرنا کسی لحاظ سے مناسب نہیں۔ ہمارے پاس قرآن و سنت سے دلیل ہونی چاہیے۔ جب تک یہ بات واضح نہ ہوجائے کہ کسی خاتون کے کسی دوسری خاتون کے غازہ لگانے سے فحش کی ترویج ہو رہی ہے، اس قسم کی اعانت کرنے اور گھر میں دوسری خواتین کو سہولت فراہم کرنے کو ناجائز قرار دینا ممکن نہیں۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ (ا- ا)