جولائی ۲۰۰۹

فہرست مضامین

اِسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ اپنے رب سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹو (ھود ۱۱:۵۲)

افشاں نوید | جولائی ۲۰۰۹ | تذکیر

Responsive image Responsive image

مالاکنڈ ڈویژن کے اضلاع بونیر، دیر اور سوات کے لاکھوں محب وطن مسلمانوں پر فوجی آپریشن ایک بلاے ناگہانی بن کر نازل ہوا ہے۔ یہ لوگ نہ صرف اپنے وطن میں ہجرت پر مجبور ہوئے بلکہ ان کے گھر بار، فصلیں و باغات اور مویشی سب کچھ برباد ہوگیا۔ وہ چند سو لوگ جنھیں طالبان کہا جا رہا ہے اور جن کی تلاش میں یہ آپریشن کیا جا رہا ہے(کوئی نہیں جانتا کہ یہ طالبان ہیں یا اُن کے  روپ میں امریکی اور بھارتی ایجنٹ)، اگر یہ آپریشن ناگزیر ہی تھا تو ان مٹھی بھر افراد کی خاطر ہزاروں لوگوں کو موت کے گھاٹ کیوں اُتار دیا گیا؟ ۴۰ لاکھ سے زائد معصوم اور بے گناہ لوگوں کو جن میں عورتیں اور بچے شامل ہیں کیوں گھر سے بے گھر کردیا؟ ایک طرف امریکی ڈرون حملوں کا نشانہ بے گناہ عام شہری بنتے ہیں تو دوسری طرف پاکستانی طیاروں کا نشانہ بھی یہی عام لوگ بن رہے ہیں۔ ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ آپریشن سے قبل ان بے گناہ شہریوں کو انخلا کا موقع تک نہ دیا گیا۔ بے رحم اور عاقبت نااندیش حکمرانوں نے نہ ان کے لیے محفوظ مقامات کا بندوبست کیا، نہ ٹرانسپورٹ کی سہولت ہی مہیا کی گئی۔ شدید گرمی، میلوں کی مسافت، بوڑھوں، بچوں، خواتین اور بیماروں پر بھوک پیاس کے عالم میں کیا بیتی ہوگی! اور پھر کیمپوں میں جن مصائب سے دوچار ہیں، ذرا ان کا تصور تو کیجیے!!

ایک طرف جہاں اس انسانی المیے پر ہمارے دل غم سے نڈھال ہیں وہیں دوسری طرف ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے مستقبل کی تاریکی یا تابناکی کا اصل انحصار اس امر پر ہوگا کہ ہم اس چشم کشا انتباہ پر واقعی آنکھیں کھولتے ہیں یا نہیں، اور یہ آزمایش بحیثیت قوم ہمارے رویوں میں کوئی تبدیلی لاتی ہے یا نہیں؟

اسے امریکی مداخلت کہہ لیں یا حکمرانوں کی بے بصیرتی اور کاسہ لیسی___ حقیقت یہ ہے کہ یہ عذابِ الٰہی کی ایک شکل اور قوم کے اجتماعی ضمیر کے لیے ایک چیلنج ہے جو ہم سب کو لمحۂ فکریہ فراہم کرتا ہے۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں، نہ اسے محض اتفاقی عوامل کی پیداوار قرار دیا جاسکتا ہے۔ ۶۲سالہ تاریخ میں جو پے درپے جھٹکے ہمیں لگتے رہے یہ ان میں سب سے بڑا ہے۔ اگر اس پر بھی قوم خوابِ غفلت سے بیدار نہ ہوئی تو خدانخواستہ ہمارا مستقبل تاریک ہوسکتا ہے۔

چاہے بیرونی طاقتوں کا زورآور ہونا ہو یا ہمارے حکمرانوں کی بے رحمانہ سوچ، حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اللہ کے غضب کو دعوت دینے والے اعمال و احوال کا ادراک کرنا ہوگا۔ خود احتسابی، انفرادی اور اجتماعی رویوں کا جائزہ، اپنے رب سے سچی توبہ اور حقوق العباد کے معاملے میں حساسیت ہی ہمارے لیے راہِ نجات بن سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو فہم و فراست اور شعور و ادراک کی   جو نعمتیں عطا کی ہیں ان کا امتیازی پہلو ہی یہ ہے کہ وہ جہاں انسانی زندگی کے طبیعی پہلو اور    حوادثِ زمانہ کا مادی حوالوں سے ادراک کرتا ہے وہیں ان حقیقتوں کو اخلاقی و روحانی سبق کی تفہیم کا ذریعہ بھی بناتا ہے۔ قرآن کا منشا ہی یہ ہے کہ حادثات و سانحات اور کامیابیوں یا ناکامیوں کے ذریعے ہم قرآن کے دیے ہوئے اخلاقی اور ابدی معیار سے وابستہ ہوجائیں!‘ اور نافرمانی کے راستے کو ترک کر کے خلوص اور ندامت کے ساتھ اپنے رب سے رجوع کرلیں، تو پھر ظلمتوں کی اس شبِ تاریک سے صبح نمودار ہونے میں کچھ بھی دیر نہیں! فرمانِ ربیّ ہے: ’’اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے مگر انھوں نے تو جھٹلایا، لہٰذا ہم نے اس بُری کمائی کے حساب میں انھیں پکڑلیا جو وہ سمیٹ رہے تھے۔ پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک ان پر رات کے وقت نہ آجائے گی کہ وہ سوئے پڑے ہوں؟ انھیں اطمینان ہوگیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ آپڑے گا، جب کہ وہ کھیل رہے ہوں‘‘۔ (الاعراف ۷: ۹۶-۹۸)

آزمایش کی اس گھڑی میں ملتِ اسلامیہ پاکستان کے لیے سب سے اہم پہلو خود اپنی حالت سے عبرت پکڑنے کی فکر ہے۔ یہ وقت محض ظاہری اسباب پر ماتم کرنے کا نہیں بلکہ فساد  اور بگاڑ کے حقیقی اسباب اور کائنات میں جاری و ساری اخلاقی قانون کی روشنی میں اپنا احتساب کرنے کا ہے تاکہ اس انسانی المیے سے ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی تشکیلِ نو کا سامان کرسکیں:

ہم ضرور تمھیں خوف و خطر، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمھاری آزمایش کریں گے، ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے، انھیں  خوش خبری دے دو اور ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی۔ اس کی رحمت ان پر سایہ فگن ہوگی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں۔ (البقرہ ۲: ۱۵۵-۱۵۶)

قرآن پچھلی قوموں کا تذکرہ کرکے اور ان کے عبرت ناک انجام کا بار بار ذکر کر کے ہمیں سوچ کے اس انداز کی تعلیم دیتا ہے کہ حدود اللہ کی خلاف ورزی پر ان قوموں کو جو عذاب دیا گیا   ہم ماضی سے سبق حاصل کرتے ہوئے حال کی اصلاح کی جانب متوجہ ہوں۔ ہمیں جاننا چاہیے کہ اللہ کی گرفت کی حیثیت کب عذاب کی ہے اور کب انتباہ کی، اور وہ کون سے افعال ہیں جو آج ہمیں تباہی کے اس دہانے پر لے آئے ہیں؟

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت مؤثرانداز میں اس جانب توجہ مبذول کرائی ہے۔ حضرت عمرو بن عاصؓ کی روایت ہے کہ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’کوئی قوم ایسی نہیں ہے کہ اس میں بدکاری عام ہو مگر یہ کہ وہ قحط سالی میں گرفتار ہوجاتی ہے۔ اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں رشوت پھیل جائے مگر یہ کہ اس پر خوف اور دہشت طاری ہوجاتی ہے‘‘ (مشکوٰۃ، کتاب الحدود)۔ کیا بدکاری اور رشوت معاشرے کا ناسور نہیں! حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے، آپؐ نے فرمایا:

جب کسی قوم یا بستی میں نمایاں طور پر بدکاری اور سودخوری ہونے لگے تو یوں سمجھو گویا لوگوں نے اپنے آپ کو عذابِ الٰہی کے مستحق ہونے کا اعلان کر دیا۔ (ترغیب و ترہیب بحوالہ حاکم)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

قیامت کے قریب لوگ مجمع میں سے مخصوص لوگوں کو سلام کریں گے اور تجارت کی طرف عام رجحان ہوجائے گا (یعنی دنیاداری بہت بڑھ جائے گی)، یہاں تک کہ عورت بھی اپنے شوہر کو تجارت میں مدد دے گی۔قیامت کے قریب لوگ رشتہ داروں سے قطع تعلق کرلیں گے۔ جھوٹی گواہیاں دیں گے، سچی گواہیاں چھپائیں گے اور جوئے کا رواج عام ہوجائے گا۔ (مسنداحمد، جلداول)

حقیقت یہ ہے کہ کوتاہ بین نظریں ان حوادث و آلام کے صرف ظاہری احوال کا جائزہ لیتی ہیں لیکن ایک مومن اخلاقی اور روحانی اسباب پر نظر رکھتے ہوئے ان سے درسِ عبرت حاصل کرتا ہے۔ اِن ارشاداتِ نبویؐ میں مستقبل کے حالات و واقعات کی نشان دہی کرکے بار بار ہمیں خبردار کیا گیا ہے تاکہ ہم حالات و واقعات کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر خود کو بری الذمہ نہ سمجھیں بلکہ یہ یاد رکھیں کہ انسانوں کی جب بھی گرفت ہوتی ہے اس میں ان کے اپنے اعمالِ بد اور ظلم و طغیان کا بھی برابر کا حصہ ہوتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا، لوگ خود اپنے اُوپر ظلم کرتے ہیں۔ (یونس ۱۰:۴۴)

اور بچو اس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف ان ہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنھوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو۔ اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ (الانفال ۸:۲۵)

اللہ رب العزت کے قوانین اٹل ہیں اور ان کا مقصد انسانوں کے لیے انتباہ اور ان کا اخلاقی تزکیہ اور روحانی تربیت ہے۔ ’’اور تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کردے حالانکہ ان کے باشندے اصلاح احوال کرنے والے ہوں‘‘۔ (ھود ۱۲:۱۱۷)

لمحۂ موجود میں سب سے زیادہ لرزا دینے والا آپؐ کا وہ ارشاد گرامی ہے جو ترمذی میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے اور آج ہمارا معاشرہ ۱۴ سو برس قبل کہے گئے ان الفاظ کی لفظ بہ لفظ عکاسی کر رہا ہے۔ اس وقت ہم جس تباہی اور ذلت و مسکنت سے دوچار ہیں، حضورِاکرمؐ کے اس ارشاد گرامی کی روشنی میں اس کا جائزہ لینے کے لیے کہیں دُور جانے اور کسی دوسرے کو موردِ الزام ٹھیرانے کی گنجایش نہیں۔ ملاحظہ فرمایئے:

  •  جب مالِ غنیمت کو ذاتی مال سمجھا جانے لگے اور امانت کو مالِ غنیمت سمجھ لیا جائے،
  • زکوٰۃ ادا کرنا جرمانہ بن جائے 
  • اور علم حاصل کرنے کا مقصد دین پر عمل کرنا نہ ہو
  • اور مرد اپنی ماں کی نافرمانی کرتے ہوئے بیوی کی بات ماننے لگے اور باپ سے دُوری اختیار کرے اور اس کے مقابلے میں دوست کی قربت چاہے، 
  • مسجدوں میں شور ہونے لگے۔ 
  • قبیلے کا سردار فاسق بن جائے اور قوم کا سربراہ گھٹیا انسان بن جائے 
  • اور آدمی کی عزت اس کے شر سے محفوظ رہنے کے لیے کی جانے لگے
  • آلاتِ موسیقی کثرت سے ظاہر ہوجائیں 
  • شراب پی جانے لگے 
  • اس اُمت کا آنے والا گروہ گزر جانے والے گروہ پر لعنت ملامت کرنے لگے تو تم انتظار کرو___ سرخ آندھیوں کا ___ زمین کے دھنس جانے کا___ صورتوں کے بگڑ جانے کا___ آسمان سے نازل ہونے والے عذاب کا___ اور یہ نشانیاں یکے بعددیگرے اس طرح ظاہر ہونے لگیں گی جیسے پرانی تسبیح کا دھاگا ٹوٹ جائے تو اس کے موتی مسلسل گرنے لگتے ہیں۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ کہتے ہیں، آپؐ نے ارشاد فرمایا: جو لوگ جہاد (دین کے لیے محنت اور جانفشانی اور مالی اور جانی قربانی) نہیں کریں گے  تو اللہ ایسے لوگوں پر عذاب مسلط کرے گا (ترغیب بحوالہ طبرانی)۔ یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ اللہ کے قانون کی گرفت (عذابوں کی صورت میں) جب واقع ہوتی ہے تو مجرموں کو چھانٹ کر علیحدہ نہیں کرلیا جاتا بلکہ اس ظالم اور باغی معاشرے کا ہرفرد ظالم اور باغی قرار پاکر اس عذاب کا شکار ہوتا ہے۔

آج جہاں ہم متاثرین مالاکنڈ کے درد و کرب کو محسوس کر رہے ہیں، ان کی مدد کر رہے ہیں، ان کی آبادکاری کے لیے فکرمند ہیں، وہیں یہ وقت اللہ سے خلوصِ دل سے توبہ واستغفار کا، اجتماعی اور انفرادی جائزے اور احتساب کا بھی ہے۔ اپنی ذات، اپنے گھر، اپنے رسوم و رواج کا جائزہ لینے کا ہے کہ علم ہوتے ہوئے ہم کس طرح دیدہ دلیری سے حدود اللہ کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ہم نے زمین سے نافرمانیاں، ظلم، سرکشی آسمان کی طرف بھیجی تو آسمان سے ذلت و مسکنت زمین کی طرف آئی۔ اب ہم ندامت و استغفار، آہیں اور آنسو بھیجیں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی مغفرت و رحمت کا نزول نہ ہو، کیونکہ اس کا وعدہ ہے کہ وہ اپنی طرف پلٹ کر آنے والے ہر گناہ گار اور خطاکار کو اپنے دامنِ رحمت میں ڈھانپ لے گا:

کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی خیرات قبول کرتا ہے اور اللہ معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ (التوبہ ۹:۱۰۴)

پھر جو ظلم کرنے کے بعد توبہ کرے اور اپنی اصلاح کرلے تو اللہ کی نظرعنایت پھر اس پر مائل ہوجائے گی، اللہ بہت درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔ (المائدہ ۵:۳۹)

اس سانحے سے گزرتے ہوئے نہ صرف انفرادی توبہ بلکہ اجتماعی استغفار کا لازمی اہتمام کیا جائے کہ ہمارے ۶۲ برس کے اجتماعی گناہوں کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلوں کو نہ بھگتنا پڑے۔  اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اے مومنو! تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پائو گے‘‘ (النور ۲۴:۳۱)۔ اس وقت سب سے اہم ضرورت استغفار کے ساتھ جائزے اور محاسبے کی ہے کہ ہم نے اللہ کے ساتھ کیا معاملہ کیا ہے؟ اللہ رب العزت نے شب قدر میں جو ملک ہمیں عطا فرمایا، ہم نے عملاً اس کی باگیں اللہ کے باغیوں کے ہاتھوں میں دے دیں۔ ہم نے اُمت مسلمہ کا ساتھ دینے کے بجاے ان قوتوں کا ساتھ دیا جنھوں نے مسلم ممالک کو تباہ و برباد کیا، جن کے ذمے دفاعِ وطن کا فریضہ تھا وہ اپنے فریضے سے غافل ہوکر غیروں سے ہدایات لیتے رہے۔ سود اور ناجائز منافع خوری کے باعث عام آدمی کے لیے زندگی ناقابلِ برداشت بوجھ بن گئی۔ تہذیبی غلامی کو ہم نے رضاکارانہ اپنی گردن کا طوق بنا لیا۔ میڈیا کی بے راہ روی کے ذریعے اخلاقی اور نظریاتی سرحدوں کو پامال کیا۔ جب حالات یہ ہوں تو پھر اللہ کی پکڑ اور اس کی سنت کیوں نہ پوری ہو کیونکہ سنت الٰہی ہے: ’’اللہ کی سنت بدلا نہیں کرتی‘‘۔

دورِ فاروقیؓ میں جب جزیرۃ العرب میں قحط کی کیفیت رونما ہوئی تو آپ نے اہلِ حاجت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دن رات ایک کردیے۔ ریاست کے سارے وسائل تو استعمال کیے ہی خود بھی گوشت کھانا بند کر دیا اور روکھی سوکھی پر گزارا کیا، یہاں تک کہ خوش حالی لوٹ آئی۔ ان حالات میں نہ صرف حکومت اور اہلِ ثروت بلکہ ہر ایک کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان لاکھوں بے گھر لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کی ابتدا اپنے گھر سے کریں۔ اسراف و تبذیر عام حالات میں گناہ ہیں لیکن اس وقت وہ ایسا جرم ہے جسے معاف نہیں کیا جاسکتا۔ ہم اس وقت حالتِ جنگ میں ہیں۔ ہمارے مصیبت زدہ بھائی ہمارے وسائل ، کوششوں اور دعائوں کے مستحق ہیں۔ یہی اس وقت کا سب سے بڑا چیلنج ہے جس میں ہم میں سے ہر ایک کو اپنا مقدور بھر حصہ ڈالنا ہوگا۔

ان سب اقدامات کے ساتھ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے تزکیے کی فکر اور اپنے دل کا جائزہ لینا ہوگا۔ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ اپنے گناہوں اور کوتاہیوں پر عفو ودرگزر کے لیے ہاتھ پھیلائے جائیں! ہمیں اللہ کے دین کے احکامات اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل نو کرنا ہوگی جس میں حقوق العباد سے کسی طور پر صرفِ نظر ممکن نہ ہو۔ اسی طرح یہ اُمت شھداء علی الناس کے منصب اور انسانیت کو خیر کی طرف بلانے کی اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرسکے گی۔

اگر ابتلا و آزمایش کی یہ گھڑیاں ہمارے لیے ماضی کی ڈگر کو بدلنے اور مستقبل کے لیے صحیح راہ اختیار کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں تو پھر اس شر سے خیر کے چشمے بھی پھوٹ سکتے ہیں۔ صرف یہی وہ تبدیلی ہے جو دنیا و آخرت میں ہماری کامیابی کے امکان کو روشن کرسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ باطل کے غلبے کے دور میں اہلِ حق کو حق کے لیے غیرت مند ہونا چاہیے۔ باطل کے آگے ہتھیار ڈال کر اطمینان کا سانس لینا غیرت کی علامت ہے نہ حق سے محبت کی دلیل۔

حضرت ابوسعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے جس شخص نے اپنے معاشرے میں کوئی برائی دیکھی اور طاقت استعمال کر کے اسے دُور کر دیا تو وہ اپنے فرض سے سبکدوش ہوا۔ اور جس شخص نے طاقت نہ رکھنے کی وجہ سے اپنی زبان استعمال کی اور اس کے خلاف آواز اٹھائی تو وہ بھی سبکدوش ہوا۔ اور جو شخص اپنی زبان استعمال نہ کرسکے اور  دل میں اس برائی سے نفرت کرے اور بُرا سمجھے تو وہ بھی مواخذے سے بچ جائے گا اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ (ترغیب و ترہیب بحوالہ نسائی)