آج کے عدیم الفرصت دور میں اگر خوش قسمتی سے فرصت کے کچھ لمحات میسر آجائیں اور اہلِ خانہ مل جل کر کچھ وقت گزار سکیں تو بلاشبہہ یہ اللہ کی کسی نعمت سے کم نہیں ۔ اسی بات کی اہمیت کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مصروفیت سے پہلے فرصت کو غنیمت جانو (ترمذی)۔ لہٰذا نبی کریمؐ کے اس ارشاد کے مطابق فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے فرصت کے ان لمحات کو بہترین انداز میں صرف کرنا چاہیے۔ بالخصوص انفرادی اصلاح، گھر کے ماحول کی بہتری اور بچوں کی تربیت اور کردار سازی کے لیے باقاعدہ منصوبہ بنا کر ایک مربوط پروگرام ترتیب دینا چاہیے۔
ہمارا حال یہ ہے کہ ہم فرصت کے لمحات کی صحیح معنوں میں قدر نہیں کرتے۔ ملک کے بعض حصوں میں ہر سال گرمیوں کی اور بعض علاقوں میں سردیوں کی طویل چھٹیاں آتی ہیں۔ ان کی آمد جہاں طالب علموں،اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے کارکنان کے لیے باعثِ مسرت ہوتی ہے، وہاں گھر کی خواتین کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ اس قیمتی وقت کو کماحقہٗ استعمال نہیں کرسکتیں اور نہ ان دنوں ہی سے فیض یاب ہو پاتی ہیں۔ چھوٹے بچوں کی مائیں اور خصوصاً لڑکوں کے والدین ذہنی دبائو کا شکار رہتے ہیں۔ اس ضمن میں چند عملی نکات پیش ہیں:
… پہلا مرحلہ شب و روز کے لیے نظام الاوقات کا تعین ہے۔ نبی کریمؐ کے فرمان کے پیش نظر کہ صبح کے وقت میں برکت ہے، اپنے دن کا آغاز نمازِ فجر سے کیجیے۔ نمازِ فجر کے بعد ہی سے دن بھر کی سرگرمیوں کا آغاز کیجیے۔ یہ بہترین اور بابرکت وقت سونے کی نذر نہ کریں۔ عام طور پر تعطیلات کا آغاز ہوتے ہی بچوں کا رات کے وقت جاگنا اور صبح دیر سے اُٹھنے کا معمول بن جاتا ہے جو کہ نامناسب اور خلافِ فطرت ہے۔ اس میں میڈیا کا کردار بھی نمایاں ہے کہ لوگ رات گئے اسے دیکھنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رات آرام و سکون کے لیے اور دن کام کے لیے بنایا ہے۔ اس کے لیے والدین خود عملی نمونہ پیش کریں۔
___ بچوں کی عمر، تعلیم، مصروفیات کو مدنظر رکھ کر، بچوں سے مشاورت کرکے سونے کے اوقات کا تعین کرلیا جائے اور اس پہ کاربند بھی رہا جائے۔ رشتہ دار بہنوں بھائیوں کے سامنے اس بات کا اظہار نہ کریں کہ ’’لمبی چھٹیاں ہوگئی ہیں۔ اب تو ہر وقت بچے سر پہ سوار رہیں گے‘‘۔ اگر اپنے بچوں کا استقبال ان جملوں سے کریں گی تو آپ کے اور بچوں کے درمیان پہلے دن ہی دُوری کا احساس لاشعور میں جا بسے گا، اور وہ وقت جو آپ کے حُسنِ استقبال سے بچوں کے دلوں میں بہار لا سکتا تھا ضائع ہوجائے گا۔
___ بچوں کے ساتھ مل کر ہرہفتے کا پروگرام ترتیب دیجیے۔ ان کے ذہن اور دل چسپیوں کے مطابق ذمہ داریاں بانٹ دیجیے۔ فون پہ گھنٹوں گفتگو میں مصروف رہنا، اگرچہ کوئی صحت مند سرگرمی نہیں، مگر جب آپ کی سب سے ’قیمتی متاع‘ اور وہ ’خزانے‘ آپ کے سامنے موجود ہیں، جن کی حفاظت و نگہبانی پہ آپ کے ’مستقبل‘ یعنی اُخروی زندگی کی کامیابی کا دارومدار ہے تو اس خزانے کو ضائع کیوں کریں؟ جس گھر میں جتنے بچے ہیں، یقین جانیے اتنے ہی حل طلب پرچے موجود ہیں۔ اس وقت ان ’پرچوں‘ میں بہترین گریڈ حاصل کرنے کا کام دنیا کے سب کاموں سے زیادہ اہم ہے۔
… فجر کی نماز کے لیے اُٹھنے پہ انعام دیا جاسکتا ہے۔ ایک بھائی یا بہن کی فجر کے وقت اٹھانے کی ذمہ داری لگایئے اور پھر اس کو تبدیل کرتے رہیے تاکہ سب کو ذمہ داری کا احساس ہو، اور ایک دوسرے کے درمیان مروت اور نیکی میں تعاون کا جذبہ پیدا ہو۔ ایک دوسرے کا حفظِ قرآن سن لیں، چاہے دو آیات ہی کیوں نہ ہوں۔ اجتماعی مطالعے کی ایک مختصر نشست بھی ہوسکتی ہے جس میں چند آیات کی مختصر تفسیر، ایک حدیث کا مطالعہ اور لٹریچر سے کچھ انتخاب کیا جاسکتا ہے۔ عملی رہنمائی کے طور پر روز مرہ دعائیں، نماز اور اس کا ترجمہ، نمازِ جنازہ، مختصر سورتیں وغیرہ تھوڑا تھوڑا کرکے یاد کی جائیں۔ گھر کے افراد کے ساتھ ’آج کے ایجنڈے‘ پہ بات ہو۔ سب اپنی اہم مصروفیات کے بارے میں دوسروں کو آگاہ کریں۔ اپنے کام کے سلسلے میں ایک دوسرے سے مشورہ طلب کریں اور تعاون کی پیش کش کریں۔ نبی کریمؐ کے اس ارشاد کے پیش نظر کہ جس کا آج اس کے کل سے بہتر نہیں وہ تباہ ہوگیا، گذشتہ کل کا جائزہ بھی لیا جائے کہ اپنے آج کو گذشتہ کل سے کیسے بہتر بنایا جائے۔ اس طرح اپنا جائزہ و احتساب اور مشورہ دینے اور قبول کرنے کی تربیت بھی ہوگی۔ اگر چند منٹ بھی مل کر بیٹھیں گے تو اس کی برکت کے اثرات بہت جلد محسوس ہونے لگیں گے۔ نمازِ فجر ادا کر کے جلد از جلد سو جانے کی غیرفطری روایات نے انسانی روح کا حُسن غارت کر دیا ہے۔ نماز فجر کے بعد سونا ناگزیر ہو تو بھی دوبارہ اٹھنے کا وقت مقرر کردیا جائے۔ ایک زندہ قوم اٹھانی ہے تو آج کے والدین زندہ لمحوں کو اپنی زندگی میں جذب کریں۔
… چھٹیوں میں سب اہلِ خانہ ایک ساتھ ناشتہ، دونوں وقت کا کھانا کھائیں تو باہمی محبت میں اضافہ ہوگا۔ بچوں اور بچیوں کو جس قدر ہوسکے اپنے قریب رکھیے۔ کمپیوٹر ایسی جگہ پہ رکھیے جہاں آپ اس پہ نظر رکھ سکیں۔ اگر آپ کو کمپیوٹر سے کوئی لگائو نہیں تو اس کی تھوڑی بہت مشق آپ کو کرنی چاہیے۔ جب چھوٹے بچوں میں یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم اپنے والدین سے زیادہ کچھ جانتے ہیں تو ایک احساسِ برتری پیدا ہوتا ہے۔ دوسرا اکثر بچے اپنی مائوں کو اندھیرے میں رکھتے ہیں کہ ہم کام کررہے ہیں، حالانکہ وہ جو کچھ کر رہے ہوتے ہیں مائیں ان سے غافل ہوتی ہیں۔ کمپیوٹر نے اس دور کے ماں باپ کو سخت امتحان میں مبتلا کر دیا ہے۔ اکثر ماں باپ نے اس آزمایش و امتحان میں کامیاب نہ ہوسکنے کا اعلان کر کے، جیسے خود کو بری الذمہ قرار دے لیا ہے۔ احساسِ مروت کو کچلنے والے آلات کا مقابلہ خلوصِ نیت، مستحکم ارادے، سچے ایمان اور مناجات کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے۔ واقعی اگر ہم یہ راز جان لیں کہ کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحرگاہی اور جب تک آنکھیں اَشک بار نہ ہوں تو مناجات بھی بے اثر رہتی ہے۔
… فرصت کے لمحات کو محض ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر کی نذر نہ ہونے دیں۔ بچوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے ان کو متبادل مصروفیات اور مشاغل دیں۔ بچوں کو ان کی عمر اور ذوق کے لحاظ سے کوئی نیا کام سکھانے کی کوشش کیجیے۔ کاغذ کے کھلونے بنانا ، کاغذ پہ تصویر بنانا، رنگ بھرنا، سلائی کرنا، کسی ڈیکوریشن پیس کو صاف کرنا___ والد لڑکوں کو ساتھ ملا کر گھر کی مرمت طلب اشیا کو ٹھیک کرسکتے ہیں کہ مل جل کر گھر کے بگڑے کام سنوارنا بھی ایک فن ہے۔ آپ کو یہ کامیابی اسی صورت میں ملے گی، جب آپ اپنی پوری توجہ، وقت اور معاونت بچے کو مہیا کریں گی۔
___ اسکول کے ہوم ورک کی مرحلہ وار تقسیم کرکے اپنی نگرانی میں روزانہ تھوڑا تھوڑا کرکے کام کروایئے۔ ٹیوشن پڑھوانا مجبوری ہو تو بچے کے معاملات پر نظر رکھیں۔
___ گھر میں لان یا کیاری کی جگہ ہو تو بچے کو کوئی پودا اُگانے، اس کی نگہداشت کرنا سکھایئے۔ بچوں کی ضروریات ہی پورا کرنا کافی نہیں ہے بلکہ انھیں وقت اور توجہ کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ اپنی مصروفیات میں اس کے لیے بھی وقت رکھیں۔ یہ بچوں کا حق ہے جو انھیں ملنا چاہیے۔ والدین کی شفقت سے محرومی کے نتیجے میں بچے احساسِ محرومی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہی جذبہ منفی رُخ اختیار کرلے تو بچے غلط صحبت اختیار کرلیتے ہیں اور انتقامی جذبہ سر اُٹھا لیتا ہے۔
___ بچوں کے دوستوں کو گھر بلوایئے اور ان کی عزت کیجیے، ان کو توجہ دیجیے تاکہ وہ آپ پہ اعتماد کریں۔ بچوں کے دوستوں کے گھروالوں سے بھی تعلقات بہتر رکھیے۔ اگر آپ کے خیال میں ان کے گھر کے ماحول سے آپ مطمئن نہیں تو بچے کو برملا نہ کہیں___ حکمت و تدبر سے کام لیجیے تاکہ آپ کے اور بچے کے درمیان اعتماد کے رشتے کو ٹھیس نہ پہنچے۔
___ بچوں میں ذوق مطالعہ کو پروان چڑھانا، اس کی تسکین کا سامان کرنا ایک اہم فریضہ ہے۔ اچھی اچھی کتب و رسائل پڑھنے کو فراہم کریں۔ بچوں کو کہانی سننا اچھا لگتا ہے۔ دل چسپ انداز میں کہانی سنایئے، بچوں کے ساتھ بیٹھ کر کہانی پڑھیے اور پھر اس پر بات چیت ہو۔ ذوقِ مطالعہ بڑھانے میں یہ مددگار ہوسکتا ہے۔ کسی اچھی لائبریری کا تعارف کروایئے اور معیاری کتب منتخب کرکے دیں۔ اس طرح اسلامی لٹریچر اور علم کی ایک وسیع دنیا تک ان کی رسائی ہوجائے گی۔
___ اچھائی اور برائی کے پہلو کی بچے کی عمر کے مطابق وضاحت کریں۔ بچوں کے ساتھ وہ پروگرام اور کارٹون دیکھے جائیں جو وہ شوق سے دیکھتے ہیں۔ ان کے اچھے اور بُرے پہلو کو بحیثیت مسلمان اُجاگر کیا جائے اور بچوں کو مسلمان ہیروز کے بارے میں بتایا جائے۔ قرونِ اولیٰ کے بچوں کی ایمانی کیفیت کی اخلاق و کردار کی کہانیاں سنائی جائیں۔ جن تعلیمی اداروں میں ہم اپنے بچوں کو تعلیم دلا رہے ہیں وہاں کے ماحول اور نصابِ تعلیم کے بُرے اثرات، آپ کو اپنی محنت و خلوص سے ہی ختم کرنے ہوں گے۔ اگر ختم نہ بھی ہوں تو آثار کم تو کرنا ہی ہیں۔ آپ محنت کی مکلف ہیں۔ دو ڈھائی ماہ بچے آپ کے لیے عذابِ جاں نہیں بلکہ بچوں کی تربیت کے پیش نظر انھیں توجہ دینا، وقت لگانا ان کا بنیادی حق اور تربیت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ یہ آپ کا اخلاقی فریضہ ہی نہیں بلکہ آپ اس کے لیے خدا کے ہاں جواب دہ ہیں۔ آپ راعی ہیں اور اپنی رعیت کی نگہانی آپ نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق آپ اپنی اولاد کو اچھی تعلیم و تربیت کی صورت میں بہترین تحفہ دے سکتے ہیں۔ (مشکوٰۃ)
… روزانہ نہ سہی ہفتہ میں چند احادیث بچوں کے ذہن نشین ضرور کرائی جائیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعامات، محبت کے مظاہر یاد کرواتے رہیں تو بہترین نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔ کلامِ اقبال کے مختلف حصے بھی یاد کرایئے۔ یہ چیز بھی ان کی تربیت پہ بڑی خوبی سے اثرانداز ہوگی۔
… آج کے بچے کل کے قائد ہیں۔ مستقبل کی قیادت کی تیاری کے پیش نظر گھر کی ذمہ داریوں کو بچوں میں تقسیم کر کے ان کی صلاحیتوں کا امتحان لیا جاسکتا ہے، مثلاً نوعمر (teen age) بچوں کے ساتھ کبھی یہ تجربہ کرکے دیکھا جائے کہ ایک دن والدین، گھر میں اپنی ذمہ داریاں، اپنی جگہ، اپنے بچوں کو سونپ کر خود ’بچے‘ بن جائیں۔ بچوں کو باری باری سے ایک دن کی ’بادشاہت‘ دے کر ان کے چھپے ہوئے جوہر کو سامنے لایا جاسکتا ہے، اور یہ ایک دل چسپ تجربہ بھی ہوگا۔
… نوعمر بچوں کو ’جج‘ بناکر گھر میں چھوٹے موٹے خاکے، کھیل کے طور پر پیش کیے جائیںتاکہ ان کو انصاف کرنے، فیصلہ کرنے کی تربیت دی جاسکے۔ بچوں کی لڑائی میںصلح کرانا، ان کی شرارتوں، نادانیوں کی اصلاح کرانے کے لیے ان سے تعاون لیا جاسکتا ہے۔ جب نوعمر بچوں سے ذمہ دار، قابلِ اعتماد ہستی کے طور پر برتائو کیا جاتا ہے تو ان کی خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں۔
___ نوعمر بچوں کو احساس دلانا کہ وہ گھر میں اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے ’راعی‘ ہیں، لہٰذا شفقت و محبت اور تحمل و برداشت سے ان کی بہتری کے لیے کوشاں رہیں۔ والدین کی نگرانی اور توجہ سے تربیت کا یہ عمل اگر آگے بڑھتا رہے تو ایک اہم پیش رفت ہوگی۔
___ لڑکوں کو باجماعت نماز کی عادت پختہ کروایئے۔ گھر میں فیملی کے ساتھ بھی کبھی کبھار باجماعت نماز ادا کی جاسکتی ہے۔ اس طرح نوعمر لڑکوں کو امامت کے آداب سکھائے جاسکتے ہیں۔
… جمعہ کو ایک روزِ خاص کے طور پر منانا___ اہلِ خانہ کا مل کر ’سورئہ کہف‘ کی تلاوت کرنا، باعث سعادت و برکت ہوگا۔ ہر فرد ایک رکوع کی تلاوت کرکے ثواب میں حصہ دار ہوسکتا ہے۔ جمعہ کی نماز کے لیے سب اہلِ خانہ تیار ہوکر مسجد میں جائیں تو گھر میں صبح سے جمعہ کی تیاری، نماز میں شرکت سے ’عید‘ کا سماں بندھ جائے گا۔ اگر اہتمام سے کسی اچھے مقرر کے خطابِ جمعہ کو سنا جائے تو جمعہ کی تربیتی اہمیت بھی اجاگر ہوگی اور دین کا فہم اور فکری غذا بھی میسر آئے گی، نیز ایک تسلسل سے ہفتہ وار تربیت کا عمل جاری رہے گا۔
… گھر میں یا گھر سے باہر بچوں کے ’اسلامی نغمے‘ سننا اور اس میں ہم آواز ہونا، آپس میں رفاقت اور محبت کی خوشی کو دوچند کر دے گا۔ اس سے بے تکلفی کا ماحول پیدا ہوگا۔ یہ ذہنی دبائو کو کم کرنے کا ذریعہ بنے گا۔
… کبھی کبھار بچوں کے ساتھ ان کی ذہنی سطح پہ آکر کھیل میں شریک ہونا، ان کی باتوں میں دل چسپی لینا، اپنے بچوں کے ساتھ کھیل میں مقابلہ کرنا___ کبھی جیت کر، کبھی بچوں سے ہارکر ___ دونوں کیفیات میں صحیح طرزِعمل کی تلقین سے کھیل ہی کھیل میں بچوں کی جذباتی تربیت کے ساتھ ساتھ کئی رویوں کی رہنمائی ہوگی۔ اگر صبح یا شام کے وقت بچے باقاعدہ کھیل کے میدان میں جاکر کھیل سکیں تو یہ بہت مفید سرگرمی ہوگی۔
… نوعمر بچوں پہ اپنے خیالات کو حاوی کرنا___ اپنی پسند اور راے کو زبردستی ٹھونسنا مناسب نہیں۔ دلیل سے بات کو منوایئے۔ یہ عمر اپنی صلاحیتوں کا اظہار چاہتی ہے۔ ان سے مشورہ لینا اور تحمل سے ان کا نقطۂ نظر سننا ان کے اعتماد کو بڑھاتا ہے۔ کبھی ان کے مشورے اور راے کے سامنے اپنی راے چھوڑ بھی دینی چاہیے۔ بعض اوقات بچوں کے مشورے اور راے کہیں بہتر ہوتے ہیں۔ ان کی نگاہ وہاں جاتی ہے، جہاں بڑوں کی نگاہ نہیں جاتی۔ بچوں کے ذہن اور عمر کو مدنظر رکھ کر بھی معاملات کو جانچا جائے۔
… بچوں کے ساتھ صبح یا شام کو اگر کہیں ممکن ہو تو کسی پارک میں، نہر کے کنارے یا ساحلِ سمندر پہ پیدل چلنے کی عادت ڈالی جائے۔ فجر کے بعد کھلی فضا میں چہل قدمی کا لطف اُٹھایئے۔ کائنات کے اس وقت کا حُسن قدرت کے قریب کرنے کا موجب ہوگا۔ بچوں کو کائنات پہ غوروفکر کی دعوت دیجیے۔
… طویل چھٹیوں میں والدین بچوں کو مختلف ہنر سکھا سکتے ہیں، مثلاً خوش خطی، مضمون نویسی، تجوید، آرٹ کے کچھ مزید کام اور خواتین سلائی کڑھائی، کپڑوں کی مرمت، مہندی کے ڈیزائن وغیرہ سکھا سکتی ہیں۔ اپنے تجربات و مشاہدات کو آپس میں زیربحث لایا جاسکتا ہے۔ بچے ہمارا مشترکہ سرمایہ اور ہمارا مستقبل ہیں۔ بحیثیت اُمت مسلمہ ہماری ذمہ داریاں عام انسانوں سے بڑھ کر ہیں۔ ان کو ادا کرنے کے لیے اجتماعی سوچ اور عمل کی ضرورت ہے۔
… بچوں کو ہسپتالوں میں مریضوں کی عیادت کے لیے لے کر جانا، اللہ تعالیٰ کے شکر کا جذبہ پیدا کرنا، اور دوسروں سے ہمدردی، محبت کا اظہار کرنا سکھانا، اس لیے کہ آج کے دور میں ہر کوئی اپنی دنیا میں مگن ہے۔ ایک گھر کے افراد بھی ایک گھر میں رہتے ہوئے ایک دوسرے سے دُور ہیں۔ یہ بیگانگی رشتوں کے باہم تعلق و تقدس کے لیے سمِّ قاتل ہے۔
… حلقۂ احباب ، رشتہ داروں وغیرہ کے ساتھ مل کر پکنک پہ جانا، جہاں حقوق العباد کی اہمیت اُجاگر کرنے کا ذریعہ ہے وہاں اسلامی تہذیب کے آداب سکھانے میں بھی مفید ہے۔
… بچوں کی تربیت اور سکھانے کے عمل میں ماحول بہت اہمیت کا حامل ہے۔ تزکیہ و تربیت میں دعوتِ دین اور دعوتی سرگرمیاں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ اگر آپ کے ہاں درس قرآن، دوست احباب کو دعوت دینا، لٹریچر تقسیم کرنا، خدمت خلق کے تحت مستحق افراد کی مدد کرنا اور امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا معمول ہو تو یہ عمل بغیر کسی نصیحت اور تلقین کے بچوں کو خود بخود سیکھنے کا ذریعہ بن جائے گا۔ اس طرح اُمت کے فرض منصبی، نبی کریمؐ کے مشن اور فریضہ اقامت دین کو فطری انداز میں بخوبی آگے ادا کیا جاسکتا ہے، اور بچوں کو تحریک سے وابستہ کیا جاسکتا ہے۔
بیرونِ ملک پاکستانی والدین کی ذمہ داری
… بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانی بچوں کو پاکستان کے حالات سے آگاہ کرنا، پاکستان کی تاریخ سے آگاہ کرنا، اور وطن اور اُمت سے محبت پیدا کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ اگر والدین خود پاکستان کے بارے میں منفی گفتگو کریں گے تو وہ بچوں کو وطن کی محبت کیسے سکھائیں گے۔ بیرون ملک وہ پاکستانی بچے جو اُردو نہ بولنے اور نہ پڑھنے پہ فخر محسوس کرتے ہیں، ان کے والدین کو احساس کرنا چاہیے کہ یہ بچے پاکستانی ہوکر بھی پاکستانی نہ ہوں گے تو پھر ان کی شناخت کیا ہوگی؟ خصوصاً وہ پاکستانی بچے جو شرق اوسط میں یا ان ملکوں میں رہتے ہیں، جہاں ان کو وہاں کی شہریت بھی نہیں مل سکتی تو وہ آخرکار پاکستانی پاسپورٹ پہ ہی پاکستان آئیں گے۔ اگر اپنے وطن سے پیار ہی نہ ہوگا تو وہ اس کے لیے کیا عملی خدمات انجام دے سکیں گے، لہٰذا چھٹیوں میں ان والدین کو چاہیے کہ خاص طور پر اپنے بچوں کو پاکستان کے بارے میں ان کی ذمہ داریوں سے ان کو آگاہ کریں۔ اگر ممکن ہو تو اپنے وطن کی سیاحت اور عزیز و اقربا سے ملاقات کا پروگرام بھی بنایئے۔ اس سے جہاں وطن کی قدر پیدا ہوگی وہاں بہت سے چاہنے والوں کی پُرخلوص محبتیں بھی ملیں گی جو قربت کا باعث ہوں گی۔
___ اگر والدین اپنے بچوں کے ساتھ چھٹیوں میں کسی تفریحی مقام پہ جا رہے ہیں یا کسی رشتہ دار کے ہاں مقیم ہیں تو بھی یہ تربیت کرنے کا بہترین موقع ہے۔ اللہ تعالیٰ کے مظاہر، رشتہ داروں کے حقوق کی اہمیت کا ساتھ ساتھ احساس دلایا جاتا رہے۔ جتنا سفر میں انسان سیکھتا اور سکھاتا ہے___ وہ گھروں میں ممکن نہیں ہوتا___ ہروقت کا ساتھ___ کچھ نئے عوامل، سفر کے تجربات، بہت کچھ نیا سیکھنے کو ہوتا ہے۔
… چھٹیوں میں اسلامی تربیتی کیمپ بھی لگائے جاتے ہیں، والدین وہاں بچوں کو بھیجیں اور بیرون ملک رہنے والے تربیتی ادارے ان کیمپوں میں پاکستان اور اُردو زبان سے تعلق کا کوئی پروگرام ضرور رکھیں۔
… گھر میں پاکستان کا تفصیلی نقشہ لٹکا کر رکھیں تاکہ بچوں کے ذہن میں ملک کا حدود اربعہ نقش ہوجائے، اور مقامات کی پہچان ہوجائے۔
… پاکستانی اور سب سے پہلے مسلمان ہونے کا احساس، والدین اور خصوصاً والدہ کا طرزِعمل، خود ہی بچوں میں اُجاگر کردے گا۔ بچوں میں اتنی ایمانی جرأت پیدا کیجیے کہ وہ مسلمان ہونے اور پاکستانی ہونے پہ فخر کرسکیں۔ اندرونی و بیرونی دشمنوں سے آگاہی دیجیے۔ اگر آج ہم نے پاکستان کے مفاد کے خلاف کچھ کیا ہے، یا اپنے غیرایمانی طرزِعمل سے بچوں کو غلط تاثر دیا ہے تو اس غلطی کی اصلاح کیجیے۔ غلطی کرنا اتنا بڑا عیب نہیں جتنا بڑا عیب غلطی کو تسلیم نہ کرنا ہے۔ تسلیم کریں گے تو اصلاح ہوگی۔ اپنی اصلاح ہوگی تو بچوں سے کچھ کہنے کے لیے اپنے اندر اعتماد پائیں گے۔
… ہر والد، والدہ، اپنے خاندان کے مزاج، ماحول، حالات کو سامنے رکھ کر چھٹیوں کو اپنے لیے یادگار بناسکتا ہے۔ مسلمان ہیں، مسلمان گھرانہ ہے تو اس کو عملی طور پر ثابت بھی کرنا ہوگا۔ حسنِ نیت اور خلوص سے بھرپور کوشش کرنے والوں کو ہی اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوتی ہے۔
… آخرت میں وہ مسلمان والدین ہی اس ’اجرعظیم‘ کے مستحق ہوں گے جنھوں نے اولاد جیسی نعمت کو ضائع نہیں کردیا ہوگا بلکہ پوری ہوش مندی اور شعور سے ’داعی‘ کی ذمہ داریاں نبھائی ہوں گی۔ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَ اَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ وَّ اَنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌo (الانفال ۸:۲۸) ’’اور جان رکھو کہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد حقیقت میں سامانِ آزمایش ہیں اور اللہ کے پاس اجر دینے کے لیے بہت کچھ ہے‘‘۔
… آج ہی عزم کیجیے___ پروگرام مرتب کیجیے___ چھٹیوں کے ہر دن کو ایسا بنانا ہے کہ وہ ’گزرے کل سے بہتر ہو‘۔ اِک نئے جذبے سے بچوں کے ساتھ دوستی، محبت کا رشتہ استوار کیجیے___ اپنے لیے، اُمت مسلمہ کے لیے، اللہ کی رضا کے لیے، اپنی آخرت سنوارنے کے لیے۔ ضروری نہیں کہ وہ سب منصوبے جو آپ بنائیں وہ پورے ہوں۔ حالات و واقعات ان میں ردّ و بدل کروائیں گے لیکن آپ نے اس ردّ و بدل میں بھی اپنا اصلی ٹارگٹ نہیں بھولنا۔ بچے آپ کا قیمتی خزانہ ہیں___ ان سے غافل نہیں ہونا۔
… ایک بات کا خاص طور پر خیال رہے کہ نبی کریمؐ کو وہ عمل زیادہ محبوب ہے جو ثابت قدمی سے مسلسل کیا جائے۔ لہٰذا فرصت کے لمحات اور چھٹیوں کے لیے جو نظام الاوقات اور تربیتی امور طے کرلیں، انھیں باقاعدگی سے انجام دیں، اور چھٹیوں کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رکھیں، تب ہی مؤثر اور نتیجہ خیز تربیت ہوسکے گی۔ اپنی تمام تر کوششوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مدد، استعانت اور دعائوں کا خصوصی اہتمام بھی ضرور کیجیے۔
آیئے دعا کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمارے شریکِ زندگی اور ہماری اولاد کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنادے اور ہمیں وہ تقویٰ عطا کردے کہ ہم نیک لوگوں کے امام بن جائیں اور ہماری نسلیں ہمارے لیے صدقۂ جاریہ ہوں۔ آمین!