جولائی ۲۰۰۹

فہرست مضامین

انسان کا قرآنی تصور

ڈاکٹر اشفاق احمد ورک | جولائی ۲۰۰۹ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

قرآنِ معظم جہاں متنوع برکات کا سرچشمہ ہے، وہاں اس کی کثیرالجہتی کی بھی اپنی شان ہے۔ انھی میں ایک جہت قرآن کے تخلیقی حُسن اور ادبی اسلوب کی بھی ہے۔ اس کی ایک مثال  سورئہ اخلاص ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے خود اپنا بھرپور اور جامع تعارف بیان فرما دیا ہے۔ اسی طرح حضرت انسان کا ایک بھرپور خاکہ بھی تین آیات میں بیان کر دیا ہے جس سے انسان کے ماضی، حال، مستقبل اور اس کے مزاج و ترجیحات کی ایک تصویر نظروں کے سامنے آجاتی ہے۔

  •  سب سے پہلے سورئہ تین کی آیت پہ نظر کریں، جس میں چار چیزوں کی قسم کھانے کے بعد ارشاد فرمایا گیا:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍo (التین ۹۵:۴) ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔

قرآنِ معظم میں قادرِ مطلق کا یہ خاص اسلوب ہے کہ جہاں لوگوں کی توجہ کسی خصوصی مسئلے یا نکتے کی طرف مبذول کروانا مقصود ہو، وہاں کسی چیز کی قسم کھاکے بات کی جاتی ہے۔ یہ ویسے بھی انسانی فطرت ہے کہ جب کوئی حلف یا قسم اُٹھا کے بات کرے، اس کا ذہن فوری متوجہ ہوجاتا ہے۔ یہاں توبہ یک وقت چار چیزوں کی قسم کھا کے فرمایا جا رہا ہے کہ ہم نے اس انسان کو بہترین انداز میں تخلیق کیا ہے۔ یہ بات اس ہستی کی طرف سے کہی جارہی ہے جس کے ایک کُن کہنے سے پوری کائنات وجود میں آجاتی ہے، جو اس دھرتی کے سینے پہ مہیب پہاڑوں اور لامحدود سمندروں کو جمانے اور پھر انھیں روئی کے گالوں کی طرح اڑانے اور پلک جھپکتے میں خشک کرنے کی قدرت رکھتی ہے۔

اب ذرا ’احسنِ تقویم‘ کے مفہوم کی جامعیت پر غور فرمایئے۔ آج تو کوئی عام سی کمپنی بھی اگر اپنی کسی معمولی سی پراڈکٹ کے بارے میں کوئی دعویٰ کرے تو وہ بالعموم سچ ثابت ہوتا ہے،  جب کہ یہاں تو یہ دعویٰ کرنے والی ہستی خود ربِ کائنات کی ذات ہے اور جس پراڈکٹ کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ حضرتِ انسان ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اس دنیا کی بڑی سے بڑی فرم یا کمپنی اپنی کسی بہتر سے بہتر پراڈکٹ کے بارے میں احسنِ تقویم جیسے دعوے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ ایسا بڑا بول صرف مالکِ اوّل و آخر ہی کو زیبا ہے۔

آیئے! ذرا اس مُشتِ خاک کو احسنِ تقویم کے چاک پہ چڑھا کر اشرف المخلوق بنا ڈالنے کی حقانیت پہ بھی ایک نظر ڈالتے ہیں۔ انسان کی عظمت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ ربِ کائنات نے فرشتوں کو اسے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ زمین پہ اس کے لیے جمادات و نباتات و حیوانات کا پورا نظام ترتیب دیا۔ پانیوں اور ہوائوں کو اس کے تصرف میں دیا۔ بقول شاعر مشرق    ؎

ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل ، یہ گھٹائیں
یہ گنبدِ افلاک ، یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ ، یہ صحرا ، یہ سمندر ، یہ ہوائیں
تھیں پیشِ نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں

آیئے! ذرا حضرتِ انسان کے ظاہری و باطنی کمالات پہ ایک نظر ڈالتے ہیں۔ قادرِ مطلق نے روے زمین پر آج تک کروڑوں، اربوں، کھربوں انسان پیداکیے ہیں۔ اس طرح کہ سب کے خون کا رنگ ایک ہے۔ سب کے پاس ایک جیسا جسمانی ڈھانچا ہے۔ سب کو دو آنکھیں، دو کان، دو ہاتھ، دو ٹانگیں، ایک ناک، ایک سر اور ایک منہ سے نوازا ہے لیکن صنّاعی کا معجزہ ملاحظہ ہو کہ ایک کی شکل دوسرے سے نہیں ملتی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جو جسمانی ساخت مقرر کر دی ہے، اس سے ہٹ کے کسی انسانی ڈھانچے کا بنانا تو بہت دُور کی بات، کوئی اور ڈھانچا ذہن میں آ ہی نہیں سکتا، یعنی انسان کے جو جو اعضا جسم کے جس جس حصے پر لگا دیے گئے ہیں، ان میں کسی قسم کی تبدیلی احاطۂ خیال میں بھی نہیں آسکتی۔ یہ ہے تخلیق کا کمال___ یہ ہے احسنِ تقویم!

یہ تو ہے انسان کی جسمانی ساخت کا معاملہ اور جہاں تک اس کی ذہنی استطاعت کا تعلق ہے وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس نے اپنے اسی ذہن کو استعمال میں لاتے ہوئے کائنات کی تسخیر کا لامحدود سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ کہیں وہ دھرتی کا سینہ چیر کے معدنیات کے خزانوں کا وارث بن گیا، اور کہیں سمندر کی کوکھ سے اناج اُگانے کا رواج قائم کرنے میں کامران ٹھیرا۔ کہیں وہ پرندوں سے بہتر پرواز کرتا ہوا چاند اور مریخ میں سیندھ لگا آیا ، اور کہیں اس نے کمپیوٹر، انٹرنیٹ، موبائل فون، فیکس اور برق رفتار طیاروں کے طلسم سے انسانی سوچ سے بھی وسیع دنیا کو ایک گائوں کی طرح سکیڑ کر رکھ دیا۔ بقول اقبال    ؎

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے ، لب پہ آسکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی

وہ اپنی ایجادات کے زعم میں اتنا آگے نکل گیا کہ خالقِ کائنات سے یوں مکالمہ کرتا نظر آیا:

تو شب آفریدی چراغ آفریدم
سفال آفریدی ایاغ آفریدم
بیابان و کہسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم

(آپ نے رات بنائی، میں نے چراغ بنایا۔ آپ نے مٹی پیدا کی، میں نے اس سے پیالہ بنا لیا۔ آپ نے بیاباں، کوہسار اور وادیاں پیدا کیں، میں نے خیابان، گلزار اور باغ بنائے۔)

یہ انسانی ذہن ہی کا کمال ہے کہ ہر طرف نئی سے نئی ایجادات کا غلغلہ ہے اور اس کا ولولہ ہے کہ کسی طور ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ کائنات ہے کہ اس کے لامختتم عزائم کے سامنے لرزہ براندام ہے۔ بھیدی بتاتے ہیں کہ ان ساری مارا ماریوں کے باوجود ابھی انسانی ذہن کا دسواں حصہ بھی استعمال نہیں ہوا۔ اسے کہتے ہیں خلقت کا حُسن___ اس کا نام ہے احسنِ تقویم!

  •  اب ذرا حضرت انسان کے بارے میں سورۂ بنی اسرائیل کی یہ آیت ملاحظہ ہو:

وَ کَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۱۱) انسان بڑا ہی جلدباز واقع ہوا ہے۔

انسان بحیثیت مجموعی اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرنے میں سہل پسند واقع ہوا ہے۔ اپنے فرائض سے چشم پوشی اختیار کرتا ہے اور محنت سے جی چراتا ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی نے انسان کی کامیابی کا نسخہ سیدھے سادے الفاظ میں یوں بیان کیا تھا    ؎

فرشتوں سے بہتر ہے انسان ہونا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ

حکیم الامت نے بھی حضرت انسان کی دائمی کامیابیوں کے لیے یہی نسخہ تجویز کیا تھا کہ :

سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے
دیکھیں گے تجھے دُور سے گردُوں کے ستارے
ناپید ترے بحرِتخیل کے کنارے
پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے
تعمیرِ خودی کر ، اثرِ آہِ رسا دیکھ
خورشیدِ جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے اِک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں
جنت تری پنہاں ہے ترے خونِ جگر میں
اے پیکرِ گلِ کوششِ پیہم کی جزا دیکھ

یہ ’تعمیرِ خودی‘ اور ’کوششِ پیہم‘ کیا ہے؟ یہ وہی ایجنڈا ہے جو خالقِ کائنات نے انسان کی پیدایش کے ساتھ اسے تفویض کر رکھا ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ انسان ہر دور میں اس ایجنڈے کو فراموش کرتا رہا۔ خالقِ کائنات بار بار اسے مختلف پیغمبروں اور آسمانی صحیفوں کے ذریعے یاد دلاتا رہا۔ ہر زمانے میں انسان کو شرک اور فرموداتِ ربانی کی خلاف ورزی سے منع کیا جاتا رہا، اور محنت اور صبر کے میٹھے پھل کی ترغیب دی جاتی رہی لیکن یہ وقتی اور ظاہری مفادات کے حصول کے نشے میں ہمیشہ عجلت پسندی کا شکار نظر آیا۔ اس نے نفس اور شیطان کی پیروی میں ہمیشہ اپنے  فرائضِ منصبی کو پسِ پشت ڈالے رکھا۔ اس نے اپنے لکھے رزق کا انتظار کرنے کے بجاے رشوت، ملاوٹ، لُوٹ مار اور بے ایمانی کو ترجیح دی۔ اسے جہاں ذرا اختیار ملا، کچھ شوکت نصیب ہوئی، یہ خدا کا شکر بجا لانے کے بجاے خود خدا بن بیٹھا۔ کہیں سے ذرا تکلیف پہنچی تو اسے اپنے کیے کا پھل یا خدا کی طرف سے آزمایش سمجھ کر برداشت کرنے کے بجاے خدا کاشاکی بن گیا۔

زبان سے ہمیشہ یہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ پکارتا رہا ، جب کہ عملاً درباروں، مزاروں اور دنیاداروں سے مدد طلب کرتا نظر آیا۔ خدا کے دیے رزق، اولاد، عزت کو دوسروں   سے منسوب کرتا دکھائی دیا۔ پیغمبروں کے اعمال اور قرآنی اقوال سے رہنمائی حاصل کرنے کے بجاے خود کو عقلِ کُل سمجھتا رہا۔ زندگی بھر آخرت کے بجاے طالب ِ دنیا بنا رہا۔ کبھی دکھ اور تکلیف میں بھی خدا یاد نہیں آتا تھا۔ رفتہ رفتہ اس کے ازالے کے لیے بھی دنیاوی سہارے ڈھونڈ لیے۔ بقول اکبر الٰہ آبادی    ؎

مصیبت میں بھی اب یادِ خدا آتی نہیں اُن کو
دعا منہ سے نہ نکلی پاکٹوں سے عرضیاں نکلیں

  •  حضرتِ انسان کی اسی جلدبازی، عجلت پسندی، محدود سوچ اور کمزور عقیدے ہی کے   پیشِ نظر ارشاد فرما دیا گیا:

وَالْعَصْرِ o  اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ o (العصر ۱۰۳:۱-۲) زمانے کی قسم! انسان درحقیقت خسارے میں ہے۔

یہاں زمانے کی قسم کھا کے واضح کر دیا گیا کہ انسان اپنی اسی جلدبازی ، ڈھٹائی ، ہٹ دھرمی اور کمزوریِ ایمان کی بنا پر سراسر گھاٹے کی طرف جا رہا ہے۔ ساتھ ہی یہ وعید بھی سنا دی کہ اب بھی اگر اس کی بچت کی کوئی صورت ہے تو وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی قدرتِ کاملہ پر پختہ ایمان اور صبروتوکل ہی کی بنا پر ممکن ہے۔

آج اگر انسان کو دنیا میں خواری کا سامنا ہے تو انھی صفات سے محرومی کی بنا پر ہے۔  وہ ایک اللہ کو اپنا دست گیر، داتا اور مشکل کشا ماننے کے بجاے جگہ جگہ سر جھکاتا دکھائی دیتا ہے۔ علامہ اقبال نے اس پیچیدہ مرض کا بڑا شافی علاج بتایا تھا کہ   ؎

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

وہ خدا جو فرماتا ہے کہ میں انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں، میں وہ بات بھی جانتا ہوں جو اس کے دل کے نہاں خانے میں پوشیدہ ہے۔ وہ جو فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو  سڑی ہوئی مٹی اور رُک رُک کر نکلتے پانی سے پیدا کیا،پھر زمین پہ اکڑ اکڑ کر کیوں چلتے ہو؟ کیا آسمانوں کو گرا دو گے یا زمین کو پھاڑ دو گے؟

ان تمام حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ ذاتِ باری تعالیٰ نے انسان کو بڑی محبت سے، بہتر توقعات کے ساتھ بہترین ساخت پر پیدا کیا اوراس کو عاجزی، ایمان، صبر اور خیر کی تلقین کی۔ لیکن انسان اپنی جلدبازی، عجلت پسندی اور کمزور ایمان کی بنا پر شیطان کے بہکاوے میں آکے گمراہی، تکبر، شرک اور دنیاداری کی دلدل میں جا پڑا۔ مرزاغالب نے انسان کی اسی ابتری کے پیش نظر یہ سوال اٹھایا تھا کہ    ؎

ہیں آج کیوں ذلیل ، کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخیِ فرشتہ ہماری جناب میں

خاکہ نگاری اشاروں کا فن ہے، جس میں چند جملوں میں کسی شخصیت کے عیوب و محاسن کا احاطہ کر دیا جاتا ہے۔ قرآن مجید کے ان تین جملوں میں بھی حضرتِ انسان کا مختصر اور جامع تصور بیان کر دیا گیا ہے کہ تمھارے ساتھ خدا کے احسان کا کیا عالم ہے اور خود اپنے ساتھ اس کا سلوک کتنا عجیب ہے؟ اور اس کا نتیجہ کیسا خوف ناک ہے؟

شاعر مشرق نے اپنے ایک شعر میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ اور ذلتِ موجودہ کا سبب  کس خوب صورتی سے بیان کر دیا    ؎

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر