جولائی ۲۰۰۹

فہرست مضامین

کتاب نما

| جولائی ۲۰۰۹ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

قرآنی اُردو (اشتقاقی انسائیکلوپیڈیا)، لیفٹیننٹ کرنل (ر) عاشق حسین۔ ناشر: بک کارنر، مین بازار، جہلم۔فون (مؤلف) : ۷۷۴۹۶۰۷-۰۳۲۱۔ صفحات: ۴۰۵۔ قیمت: ۴۵۰ روپے۔

مصنف اگرچہ عربی کے اسکالر نہیں، اس کے باوجود انھوں نے ایک نہایت دل چسپ، مفید اور معلومات افزا کام انجام دیا ہے (اس کی توقع کسی عربی زبان کے محقق سے ہی کی جاسکتی تھی)۔ کتاب کا ضمنی عنوان ہے: ’’اُردو میں مستعمل قرآنی الفاظ کے بارے میں لسانی و ادبی تحقیق ۲۰۰۰ سے زائد منتخب اُردو اشعار کے حوالہ جات کے ساتھ‘‘، مگر اس سے پوری طرح اندازہ نہیں ہوسکتا کہ یہ کس نوعیت کی کتاب ہے۔ مصنف نے ثابت کیا ہے کہ اُردو زبان اپنی اصل میں قرآنی زبان ہے۔ اس کتاب میں قرآن حکیم کے تقریباً ۱۲۰۰ ایسے لفظی مادّوں [بنیادی مصادر] کو حروفِ تہجی کی ترتیب سے لکھا گیا ہے جو اُردو میں مستعمل ہیں۔ پھر ہرمادے سے ماخوذ اُردو الفاظ کی نشان دہی کرکے بطور حوالہ ایسے دستیاب اُردو اشعار بھی درج کیے گئے ہیں جن میں وہ الفاظ (اصل یا ماخوذ حالت میں) استعمال ہوئے ہیں۔ (ص ۱۵)

یہ اُردو زبان کا ایک مطالعہ ہے جو مؤلف کے ذاتی ذوق و شوق اور دل چسپی کا نتیجہ ہے  اور ان کی تحقیق کا ماحصل یہ ہے کہ اُردو زبان ادب میں بالواسطہ یا بلاواسطہ استعمال ہونے والے ۹۴فی صد الفاظ قرآنی (قرآن سے ماخوذ) ہیں۔ اس بنا پر وہ کہتے ہیں کہ اُردو دان طبقے کے لیے قرآن حکیم کے مطالب کو سمجھنا نہایت آسان ہے۔

مقدمے میں (ص ۲۲ تا ۳۳) انھوں نے اپنی تحقیق کا پس منظر، طریق کار اور اپنے موقف کی تائید میں مختلف پہلوئوں سے بہت سی مثالیں پیش کی ہیں، جو بجاے خود تعلیمی اور معلوماتی لحاظ سے قابلِ قدر ہیں، مثلاً بتایا ہے کہ اُردو محاورات کی بہت بڑی تعداد قرآنی تصورات سے ماخوذ ہے جیسے ’پلک جھپکنے کی دیر میں‘ کلمحِ البَصَرِ سے، ’دل کا اندھا ہونا‘ تَعْمَی الْقُلُوْب سے اور ’کفِ افسوس ملنا‘ فَاَصْبَحَ یَقَلِّبُ کَفّیْہِ سے ماخوذ ہے۔ بعض محاورات تو براہِ راست قرآن سے اخذ کیے گئے ہیں، جیسے: اناللہ پڑھنا، الم نشرح ہونا، طوعاًکرھاً، قیل و قال کرنا وغیرہ۔ اسی طرح بہت سی تلمیحات اور علامتی تراکیب بھی قرآن سے لی گئی ہیں جیسے برادرانِ یوسف، صبرِایوب، یدبیضا وغیرہ۔ امدادی افعال اور حروفِ جار وغیرہ بھی اُردو کی بہت سی خوب صورت تراکیب کو   وجود میں لانے کا باعث ہوئے ہیں، جیسے: علی الاعلان، من و عن، لیت و لعل کرنا، فی الحال وغیرہ۔ مزید برآں بعض قرآنی الفاظ قرآنی تلفظ کے ساتھ مستعمل ہیں، مگر اُردو میں آکر ان کے معنی تبدیل ہوگئے ہیں۔ بعض قرآنی الفاظ اُردو میں کثیرالمعانی ہوگئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

مؤلف نے پیش نظر تحقیقی کام بڑی توجہ ، محنت اور دل کی لگن کے ساتھ انجام دیا ہے۔ ان کا اُردو ادب کا مطالعہ بھی قابلِ رشک ہے۔ آخر میں اُردو میں غیرمستعمل قرآنی الفاظ کی ایک فہرست شامل کر دی ہے۔ مؤلف کا یہ اندازہ قرین قیاس ہے کہ مستقبل قریب میں اُردو پر انگریزی زبان کے اثرات تیزی سے مرتب ہوں گے اور اُردو، انگریزی تہذیب و زبان سے بڑی حد تک مغلوب ہوگی  مگر اپنے مذہبی اور تہذیبی ورثے سے دست بردار نہیں ہوگی، ان شاء اللہ (رفیع الدین ہاشمی)


Slippery Stone: An Enquiry into Islam's Stance on Music ، [پھسلواں پتھر: موسیقی کے بارے میں اسلام کے نقطۂ نظر پر ایک تحقیق]،  خالدبیگ۔ ناشر: اوپن مائنڈ پریس، گارڈن، گروو (Grove)، کیلی فورنیا، امریکا۔ صفحات:۳۶۱۔ قیمت: درج نہیں۔

مذہب اور مناجات، دیدہ اور نادیدہ خدا اور دیوتائوں کے حضور عجز و عاجزی، خوب صورت آواز اور آہنگ میں دعا اور جذبات کا اظہار، غالباً انسان کی سرشت میں داخل ہیں کہ ہرمذہب میں اس کے نشان اور شواہد ملتے ہیں۔ نغمہ دائودی سے لے کر راج کماری میرا کے بھجن تک، عرضِ مُدعا کے لیے انسانوں نے اپنی سوچ اور صلاحیت کے مطابق خوب سے خوب تر اظہار کے لیے ہمیشہ کوشش کی ہے۔ لیکن وہ موسیقی جو انسان اپنی آواز اور آلات سے پیدا کر رہا ہے، خواہ وہ مذہبی ہو یا ’غیرمذہبی‘ اور خالصتاً ’طربیہ‘ اور تفریحی، اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟

مصنف کہتے ہیں کہ ہم گاڑیوں، مشینوں اور کارخانوں سے نکلنے والے دھوئیں اور آلودگی کے خلاف بہت کچھ کہتے اور سنتے ہیں، لیکن اس شور پر کم ہی توجہ دیتے ہیں، جو غِنا اور موسیقی کی مشینوں نے برپا کر رکھا ہے۔ آج یہ موسیقی ہمارے نظامِ اعصاب، جسم اور سب سے اہم یہ کہ ہماری روح کو کس طرح برباد کر رہی ہے، کم ہی لوگ اس کا شعور رکھتے ہیں۔ آج کے مقبول ’مسلم میوزیکل گروپوں‘ سے لے کر پیشہ ور اور غیرپیشہ ور کلاسیکی اور جدید طائفوں تک اور انفرادی فن کار سبھی اس ’کارِطرب انگیز‘ میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔

محترم خالد بیگ نے غنا اور موسیقی اور اُن کی تمام صورتوں اور ہیئتوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، اور قرآن پاک کی تعلیمات، احادیث مبارکہ اور علما کے نقطۂ نظر کا بڑی محنت اور دقّتِ نظر سے جائزہ لیا ہے۔ کتاب تین اجزا پر مشتمل ہے۔ وہ قبلِ اسلام کی شاعری، اور پھر عرب شاعری پر اسلام کے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔ اسلام نے کس طرح کی شاعری کی اجازت دی، اور کس طرح کی شاعری کو رد کیا۔ اگرچہ موسیقی، مسلم دورِ حکمرانی میں بھی باقی رہی، لیکن سوال یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں اُسے کیا مقام دیا گیا اور مسلم علما کی اس سلسلے میں کیا راے رہی ہے؟

وہ کہتے ہیں کہ ۱۸ویں/ ۱۹ویں صدی عیسوی میں مسلم ممالک پر یورپی اقوام کے غلبے اور نوآبادیاتی تسلط کے بعد ہمارے ہاں اس سلسلے میں گراموفون، ریڈیو، فلم اور ٹیلی وژن اور پھر میوزک وڈیوز، انٹرنیٹ اور سیل فون کے ذریعے جو جوہری تبدیلی واقع ہوئی، ماضی میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ سچ تو یہ ہے کہ مسلم دنیا میں مغرب سے آئی ہوئی جدید فنّیات (modern  technologies) کو جس طرح بلاسوچے سمجھے بے تکلفی سے قبول کرلیا گیا ہے، اس نے ہمارے معاشرے پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ پھر مستشرقین اور ہمارے مؤرخین نے ماضی میں موسیقی اور غنا کے سلسلے میں ہمارے اسلاف کے کارناموں کو جس فخریہ انداز سے پیش کیا ہے، اس سے بھی ہمارے نوجوانوں میں اس کے لیے پذیرائی کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ اس سب پر مستزاد یہ کہ ہمارے بعض صوفیہ (اور علما) نے سماع کے جواز کے جو فتوے دیے ہیں، انھیں بھی بلاتنقید قبول کرلیا گیا ہے۔ حالانکہ ابن حزم اور طاہرالمقدسی (جن کی راے پہ انحصار کر کے جامعہ الازہر کے مفتیوں نے سماع اور ملاحی کے جواز کا فتویٰ دیا) کی راے سے نہ صرف اہلِ سنت کے چاروں مکاتبِ فکر (مالکی، حنفی، شافعی اور حنبلی) بلکہ سلفی اور شیعہ بھی اختلاف کرتے ہیں، اور موسیقی اور سماع کو   درست نہیں گردانتے۔ اگرچہ مصنف نے ان کا ذکر نہیں کیا ہے، لیکن صوفیہ میں شیخ احمد سرہندی (مجدد الف ثانی) اور نقش بندی مکتب ِ فکر کے تمام صوفیہ، موسیقی، وجد، حال اور اس طرح کے تمام اشغال کو سختی سے رد کرتے ہیں۔

موسیقی، غنا، لہوولعب، وقت ضائع کرنے والے فضول مشاغل اور ناروا، ناپسندیدہ تفریحات کے سلسلے میں قرآنی آیات، احادیث مبارکہ اور صحابہ کرامؓ کے اقوال اور رویوں کی تفصیلات ۳ ابواب میں بڑی محنت سے جمع کی گئی ہیں۔

موسیقی کے حوالے سے آج مسلم دنیا کی کیا کیفیت ہے؟ ۱۹۶۷ء کی جنگ میں اسرائیل نے عرب دنیا پر حملہ کیا، تو مصری افواج کے افسر اور سپاہی اُم کلثوم کے غنا میں مدہوش تھے۔ ۲۰ویں صدی کے اواخر اور ۲۱ویں صدی میں اسلام کے خلاف نضر بن الحارث (وہ دشمن اسلام، جس نے قرآن اور اسلام سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے مکہ میںگانے والی کنیزوں کی خدمات حاصل کی تھیں) کی حکمت عملی کو سلیقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ لاکھوں برقی آلات، ۲۴ گھنٹے عوامی کلچر کے نام پر ایک یلغارِ بے اماں میں مصروف ہیں، اور ان میں ’دینی اور مذہبی‘ ادارے بھی شریکِ کار ہیں۔ لوئی لامیہ ابسن الفاروقی (Lois Lamya Ibsen) ایک امریکی موسیقار جو مسلمان ہوگئی___ ’ہندسۃ الصوت‘ کے نام سے لحنِ قرانی، مذہبی نشید (قوالی)، اختلافی شعرو موسیقی، جنگی ترانوں اور گھریلو تقریبات کی موسیقی سے لے کر ناپسندیدہ ہیجانی جذباتی موسیقی تک، اس ’فن‘ کو ۱۰درجات پر استوار کر کے فروغ دیتی ہیں اور ساری دنیا میں موسیقی کی تعلیم کو عام کرنے کی وکالت کرتی ہیں۔ مصنف نے اس رجحان کا سختی سے (درست طور پر) محاکمہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موسیقی کا مسئلہ، محض ایک علمی بحث نہیں، بلکہ اس پُرآشوب دور میں اسلام اور مسلمانوں کی صحت کے ساتھ بقا کا مسئلہ ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی دانائی کی بات کی ہے کہ حلال و حرام تو واضح ہیں، لیکن ان کے درمیان مشتبہات ہیں۔ اکثر لوگوں کو اُن کی حیثیت کا علم نہیں، پس جس نے ان مشتبہات (مشکوک اُمور) سے پرہیز کیا، اس نے اپنے دین اور آبرو کو بچالیا۔ اور وہ جو اِن مشکوک اُمور میں مبتلا ہوگیا، وہ اُس چرواہے کی طرح ہے، جو اپنے جانور کسی نجی چراگاہ کے آس پاس چرا رہا ہے۔ کسی بھی لمحے اِس کا امکان ہے کہ وہ اِس چراگاہ میں داخل ہوجائے۔ خبردار! ہربادشاہ کی ایک نجی چراگاہ ہے۔ خبردار! اللہ کا ممنوعہ علاقہ وہ زمین ہے جس میں داخل ہونے سے اُس نے روکا ہے‘‘۔

انگریزی زبان میں یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک منفرد دستاویز ہے، جس میں قرآنِ مجید، احادیث، فقہا اور جدید علوم کے ماہرین کی آرا کے ۶۰۰ سے زیادہ حوالے، اور ۱۰۰ سے زیادہ سوانحی نوٹ، نیز وسیع کتابیات شامل ہیں۔ اس کتاب کو ہماری جامعات، اور نوجوانوں کے لیے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے کتب خانوں میں ضرور رکھا جاناچاہیے۔ (پروفیسر عبدالقدیرسلیم)


امریکی مکاریوں کی تاریخ، جان پرکنز، ترجمہ: محمد یحییٰ خان۔ ناشر: نگارشات پبلشرز، ۲۴-مزنگ روڈ، لاہور۔ صفحات: ۴۲۷۔ قیمت: ۴۵۰ روپے۔

جان پرکنز معروف امریکی نقاد اور مصنف ہیں، اپنی معروف کتاب اکنامک ہٹ مین (اقتصادی غارت گر) میں انھوں نے امریکی سیاست، معیشت اور ذرائع ابلاغ سمیت زندگی کے ہرشعبے میں یہودی گرفت، ریشہ دوانیوں کو بے نقاب کرنے اور آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور دوسرے بین الاقوامی امدادی اداروں اور تنظیموں کے گھنائونے کردار سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان کی زیرنظر دوسری کتاب The Secret History of American Empire کے نام سے سامنے آئی ہے، جس کا خوب صورت اور رواں ترجمہ بزرگ اور کہنہ مشق صحافی محمد یحییٰ خان نے کیا ہے۔

امریکی استعمار اپنے دو حربوں (اکنامک ہٹ مین (EHMS) اور گیدڑوں (Jackals) کی فوج) کے ذریعے جس طرح سے قرضوں کے جال میں الجھاتا اور سازشوں کے ذریعے استحصال کرتا ہے، اس کا جائزہ لیتے ہوئے جان پرکنز نے زیرنظر کتاب میں امریکی سامراج کی خفیہ تاریخ اور عالمی کرپشن کا پردہ چاک اور خاص طور پر ایشیا، لاطینی امریکا، مشرق وسطیٰ، براعظم افریقہ میں کی جانے والی سازشوں کو بے نقاب کیا ہے۔ ’دنیا میں تبدیلی کیسے لائی جائے‘ کے تحت امریکی حکمت عملیوں کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ کتاب کا انداز دل چسپ اور کہانی کے طرز پر ہے۔ یہ نیویارک ٹائمز کی best seller کتابوں میں شامل رہی جس کا دنیا کی ۱۲ زبانوں میں ترجمہ ہوا اور اس کا مطالعہ امریکی مکاریوں، عیاریوں اور ریشہ دوانیوں کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ (عمران ظہور غازی)


تعلیمی کامیابی، پروفیسر ارشد جاوید۔ ناشر: کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف سائیکالوجی پبلی کیشنز، ۶۸۱-شادمان I، لاہور۔ صفحات: ۲۵۸۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

کامیابی کیا ہے؟ اس کے حصول کا کیا طریقہ ہے اور یہ کن لوگوں کو حاصل ہوتی ہے؟ یہ اور اس طرح کے بہت سے سوالات انسانی ذہن میں جنم لیتے ہیں اور ہرفرد اپنی ذہنی اُپچ، سوچ اور فکر کے مطابق ان کا جواب دیتا ہے۔ ہر آدمی کے نزدیک کامیابی کا اپنا مفہوم ہے۔ پروفیسر ارشد جاوید ماہر نفسیات ہیں۔ اس موضوع پر ان کی یہ کتاب نہ صرف دنیاوی کامیابی کے لیے آمادہ و تیار کرتی ہے بلکہ اخروی کامیابی کا بھی داعیہ پیدا کرتی ہے۔ ایسے ۲۵مضامین شاملِ کتاب ہیں جن میں کامیابی کے خدوخال واضح کیے گئے ہیں۔ چند معروف شخصیات کی کامیابیوں کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے اور ان خوبیوں اور صفات کا بیان ہے جو انسان کو آگے بڑھانے اور کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ بنیادی طور پر کتاب طلبہ کی تعلیمی رہنمائی، تعمیر شخصیت اور کیریئر پلاننگ کے لیے لکھی گئی ہے، لہٰذا تعلیمی کامیابی کے لیے مفید اصول اور عملی رہنمائی دی گئی ہے جس سے طلبہ اپنی کارکردگی بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔ نفسیات کے اصولوں کے مطابق ترتیب دی گئی یہ کتاب زندگی کے تمام ہی دائروں میں کامیابی کے حصول کے لیے مؤثر نسخہ فراہم کرتی ہے۔ (ع- ظ-غ)


الاسرہ، غوث محی الدین، ناشر: ادارہ معارف اسلامی، ڈی بلاک، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ صفحات:۴۸۔ قیمت: ۴۰ روپے۔

اخوان المسلمون کے تربیتی نظام کی بنیاد اور اکائی اسرہ ہے۔ مصنف کو اپنے امریکا و کینیڈا قیام کے دوران نظام الاسرہ کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ ۵۰ کے عشرے میں، کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ کراچی نے نظام الاسر کا تجربہ کیا تھا جو بہت کامیاب ثابت ہوا تھا لیکن بوجوہ جاری نہ رہ سکا۔ غوث محی الدین صاحب نے اخوان کے نظام کا دل چسپی لے کر گہرا مطالعہ کیا ہے اور اس کے مقاصد، طریق کار اور تجربات کے حوالے سے اپنا مطالعہ اور تاثرات غوروفکر کے لیے پیش کیے ہیں۔ اسرہ ایک نقیب اور پانچ رفقا پر مشتمل ہوتا ہے جو ایک خاندان کی طرح ایک دوسرے کے تمام مسائل، باہمی تربیت اور تحریکی کاموں میں شریک ہوتے ہیں۔ طالب علموں میں، مردوں میں اور خواتین میں، پیشے کی بنا پر یا کسی بھی یگانگت کی بنیاد پر اسرہ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ مصنف نے پی آئی اے میں مزدور یونین پیاسی کے قیام اور کامیابی کا سبب اسلامی جمعیت طلبہ کے چار سابقین کی بطور اسرہ کارکردگی کو قرار دیا ہے۔ تربیت کا نظام چلانے والوں کو اس کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے۔ (مسلم سجاد)


عورت کی قرآنی تصویر، ڈاکٹر حسن الدین احمد۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی ، منصورہ، لاہور۔ صفحات: ۸۰۔ قیمت: ۶۰ روپے۔

یہ عورت کے موضوع پر کوئی روایتی دینی کتاب نہیں۔ مصنف نے اپنے گہرے مطالعۂ قرآن، دعوت کے عملی تجربات اور مغربی معاشرے میں طویل قیام کے پس منظر میں اس اہم موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور دل نشیں انداز میں مسئلے کے تمام پہلو واضح کیے ہیں۔ پہلے چار ابواب میں عورت بحیثیت انسان، بحیثیت عورت، رشتۂ ازدواج اور گھریلو مسائل کے تحت ذیلی عنوانات قائم کر کے متعلقہ قرآنی آیات کا اطلاق بیان کیا ہے۔ دوسرے حصے میں چند شبہات کے تحت ان معاملات کو لیا ہے جو آج کل اعتراضات کی زد میں ہیں، مثلاً میراث میں نصف حصہ، گواہی، تعددِ ازدواج، پردہ اور جرم و سزا۔ ہر مسئلے پر انھوں نے اسلام کے موقف کو دلائل کے ساتھ اعتماد سے پیش کیا ہے۔ قاری پر قرآنی احکامات کی حکمت واضح ہوجاتی ہے۔

اس کتاب کو انگریزی میں بھی نیویارک سے The Quranic Portrayal of Woman کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔ مصنف سے رابطہ کر کے حاصل کی جاسکتی ہے (ای میل: hasanuddinahmad@yahoo.com)۔ (م-س)


Al-Fateha & Its Significance ، شمیم اے صدیقی۔ ملنے کا پتا: The ، Forum for Islamic Work, 265-Flatbush Avenue, Brooklyn NY-11355، امریکا۔ صفحات: ۱۰۶۔ قیمت: ۶ ڈالر۔

قرآن پاک کی پہلی سورۃ الفاتحہ معانی کا ایک سمندر ہے۔ دین کی بنیادی ضروری تعلیمات اس میں آگئی ہیں۔ تفسیر کی جائے تو جلدیں لکھی جاسکتی ہیں۔ شمیم صدیقی نے نسبتاً گہرائی میں جاکر معانی کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے مثلاً اھدنا الصراط المستقیم کے حوالے سے ہدایت و ضلالت کی پوری بحث آگئی ہے۔ اسی طرح تصورِ عبادت اور دیگر موضوعات۔ ساتھ ہی داعیانہ جوش سے اُمت کو توجہ بھی دلائی گئی ہے کہ وہ اس سورہ کے تقاضوں کو پورا کرے تو عروج حاصل کرسکتی ہے۔ پروفیسر خورشیداحمد کے عالمانہ مقدمے سے فنِ تفسیر کے اہم نکات سے آگہی ہوتی ہے۔ (م- س)

تعارف کتب

  •  ترجمہ قرآن بزبان نیپالی ، مترجم: مولانا علاء الدین فلاحی۔ ناشر: اسلامی سنگھ نیپال، گھنٹہ گھر، کے آئی ایم، نیپال۔ صفحات:۱۱۶۸۔ ہدیہ: درج نہیں۔ [نیپالی زبان نیپال کے علاوہ بھوٹان اور بھارت کے سکم و دارجلنگ کے بہت سے باشندے اپنی مادری زبان کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ابھی تک نیپالی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ نہیں ہوا تھا۔ اسلام سنگھ نیپال میں تحریکِ اسلامی کی نمایندہ جماعت ہے، اس نے پہلی بار نیپالی زبان میں قرآن مجید کے ترجمے کا اہتمام کیا ہے۔ مولانا علاء الدین فلاحی نے ترجمۂ قرآن کی سعادت حاصل کی ہے۔ ترجمے کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے مختلف علماے کرام نے اس پر نظرثانی کی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ تین ماہرلسانیات سے بھی زبان کی تصحیح کروائی گئی ہے۔ یہ کسی اُردو، ہندی یا انگریزی ترجمے کا ترجمہ نہیں ہے بلکہ عربی متن کی نیپالی زبان میں ترجمانی ہے۔ اس کی تیاری میں اُردو زبان کے مشہور تراجم و معروف تفاسیر، ہندی اور انگریزی زبانوں میں موجود تراجم کے ساتھ ساتھ متداول عربی تفاسیر سے بھی مدد لی گئی ہے۔]
  •  مجلہ تحقیق ، شمارہ ۱۶، ناشر: شعبۂ اُردو، سندھ یونی ورسٹی، جام شورو،حیدرآباد، سندھ۔ صفحات: ۹۳۰۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔ ملنے کا پتا: شعبۂ اُردو، آرٹس فیکلٹی، سندھ یونی ورسٹی، علامہ آئی آئی کیمپس، جام شورو- ۷۶۰۸۰۔ فون: ۹۷۷۱۶۸۱-۰۲۲۔ [شعبۂ اُردو سندھ یونی ورسٹی کا زیرنظر مجلہ تحقیق ہائر ایجوکیشن کمیشن کے درجۂ اوّل کے معیاری رسائل میں شمار ہوتا ہے۔ اسے شعبے کے سابق صدر ڈاکٹر نجم الاسلام مرحوم نے جاری کیا تھا۔ زیرنظر شمارہ ۲۵ مقالات اور چند مختصر تبصروں پر مشتمل ہے۔ ضابطے کے مطابق انگریزی زبان میں ہر مقالے کا خلاصہ بھی دیا گیا ہے۔ معیارِ کتابت و طباعت اور مجموعی پیش کش قابلِ تحسین ہے۔ سندھ یونی ورسٹی سے اُردو زبان و ادب پر ایسے معیاری اور بلندپایہ تحقیقی مجلے کی اشاعت بے حد مستحسن ہے اور قریب قریب ایک معجزے کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ وائس چانسلر مظہر الحق صدیقی، فیکلٹی ڈین ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو اور مدیر ڈاکٹر سید جاوید اقبال (صدر شعبۂ اُردو) داد و تحسین کے مستحق ہیں۔]